کشمیری خواتین : مظلومی کی داستان خونچکاں

11:51 AM nehal sagheer 0 Comments


کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی ایک خاتون ہیں لیکن وہ خواتین کے جذبات اور ان کے احساسات سے شاید ناواقف ہیں اور شاید وہ ان کے مسائل سے بھی انجان ہیں ۔یہی سبب ہے کہ کشمیر کی موجودہ شورش پر انہوں نے بیان دیا کہ کشمیر میں موجودہ شورش کے لئے پانچ فیصد فسادی ذمہ دار ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ ان کی یہ بات سچ ہو ۔لیکن ان پانچ فیصد افراد سے یہ لوگ اتنا خائف ہیں کہ انہیں کنٹرول نہیں کرسکتے ؟لیکن کیا کشمیر کا موجودہ فساد صرف پانچ فیصد افراد ہیں تو محبوبہ کی حکومت کیوں ان سے خوفزدہ ہے ؟دوسری بات یہ کہ پچھلی شورشوں کی طرح اس وقت کی شورش میں بھی سلامتی دستوں کا جبراور ان کی درندگی کا دخل ہے جس نے عوام کو سڑکوں پر احتجاج کرنے کو مجبور کردیا اور ان کی تعداد یقیناًآبادی کا پانچ فیصد نہیں تھا ۔برہان وانی کے جنازہ میں شامل افراد کا اژدہام پانچ فیصد افراد کی نمائندگی نہیں بلکہ پورے کشمیری عوام کی نمائندگی کررہا تھا ۔وہ اپنے درد کرب اور بے چینی کا اظہار کرنے کے لئے جنازہ میں شامل ہوئے تھے ۔جب مائیں اپنی جوان اولاد کا خون سے سرخ لاشہ تھامنے کو مجبور ہو جائیں جب بہنیں اپنے بھائیوں کی لاشوں پر بے بسی کے آنسو بہانے کے علاوہ کچھ اور نہیں کرسکیں تو مجبور ہوکر انہیں بھی انہی تحریکوں کا حصہ بننا پڑتا ہے جہاں عوام کے ہاتھوں میں پتھر یا غلیل ہو اور فوجیوں کی بندوقیں آگ اگلتی ہوں ۔فضا ہر طرف بارود کی بو سے بو جھل ہو جائے تو پردہ پوش اور عفت مآب خواتین کو بھی میدان میں آنا پڑتا ہے اور فی الوقت کشمیر اسی دور سے گزر رہا ہے ۔محبوبہ چونکہ نئی دہلی کے مزاج کے خلاف کچھ کر یا کہہ نہیں سکتیں اس لئے انہوں نے پانچ فیصد فسادیوں کا نام لے کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کی ہے۔
اقوام متحدہ نے دنیا میں خواتین و اطفال کے حقوق متعین کررکھے ہیں ۔لیکن آج سے چودہ سو سال قبل عرب کے صحرا میں محسن انسانیت کے ذریعہ لائے ہوئے دین نے سب سے پہلے اطفال و خواتین کے حقوق متعین کئے تھے اور نبی ﷺ کے اصحاب نے اسے ساری دنیا میں عملاً نافذ کرکے دنیا کو ایک لازوال حقیقت سے روشناش کرایا تھا۔اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کی مدد سے دنیا بھر میں اس سمینار اور اجلاس کے ذریعہ لوگوں کو ان کے حقوق کے تعلق سے بیدار ی پیداکرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔لیکن دنیا کے حکمراں اقوام متحدہ کے ذریعہ متعینہ خواتین و اطفال کے حقوق کو اپنی ٹھوکروں پر رکھتی ہیں ۔کہیں تو حکومتیں ان حقوق کی پاسداری نہیں کرتیں تو کہیں اس ملک کی تہذیب اور ان کا کلچر انہیں خواتین کے حقوق کی راہوں میں سد راہ ہے ۔بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حالیہ دنوں میں دو ماہ سے زائد سے جاری تشدد کی نئی لہروں نے مرد و نوجوانوں سمیت خواتین و اطفال کو بھی متاثر کیا ہے ۔کشمیر کے اس علاقے میں جہاں بھارت کی عملداری ہے وہاں کی فورسز بے لگام ہو چکی ہیں ۔یہاں کئی دہائیوں سے افسپا جیسا سیاہ قانون نافذ ہے جو کہ حقوق انسانی کے لئے سم قاتل ہے ۔اس قانون کے تحت کسی بھی فوجی یا سلامتی دستوں کو بے پناہ حقوق حاصل ہیں جن کی مدد سے یہ انسانی حقوق کا گلا گھونٹتی رہتی ہیں۔موجودہ حکومت نے انہیں کچھ زیادہ ہے چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ عوام خصوصاًخواتین اور بچوں کا استحصال کریں ۔یہی سبب ہے کہ اب خواتین کی عصمت دری اور بچوں کا قتل روز کا معمول بن گئے ہیں۔حالیہ شورش میں پیلیٹ گنوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی خواتین نو عمر بچے ہیں ۔دنیا بھر وہ تصویروں حکومت ہند کے اہنسا کے پجاری والی شبیہ کے دعوں کو منھ چڑارہی ہیں جس میں آٹھ دس سال کے معصوم بچوں اور خواتین کے چہرے دکھائے جاتے ہیں جن کے چہروں کو سلامتی دستوں کی نفرت انگیز کارروائیوں کا مشق ستم بننا پڑا ۔دنیا بھر میں حکومت ہند کی اس کارروائی کو بنظر تحسین نہیں دیکھا گیا ۔لیکن حکومت ہے کہ وہ اپنی پیٹھ تھپتھپانے میں مصروف ہے کہ وہ کشمیری عوام کے حقوق کی محافظ ہے !جبکہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ حکومت ہند کشمیر کو اپنا اٹوٹ حصہ کہتی ہے پر عوام کو وہ اپنا تسلیم نہیں کرتی ۔یہی سبب ہے کہ پچھلے پینسٹھ برسوں سے بھی زائد عرصے سے کشمیری عوام ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔
دنیا میں جہاں جہاں شورش بپا ہے ۔حکومت خود ظلم کے پہاڑ توڑنے میں سارے ریکارڈ توڑنے کی کوشش میں سرگرداں ہے اس میں اول تو فلسطین ہے جہاں صہیونی حکومت ان کی جان و مال اور عزت آبرو کی دشمن ہے ۔دوسرے میں یقیناًکشمیر کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ہر چند کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے میں سب سے آگے ہے لیکن زمینی حقیقت اس کے بر خلاف ہے ۔یہاں اس کی تفصیلات کی ضرورت نہیں ہر نیا دن حکومت کے جبر و استبداد کی نئی تاریخ رقم کرتا سورج طلوع ہو تا ہے۔بس یہاں نیا صرف یہ ہے کہ یہ سب کچھ جمہوریت کی نیلم پری کے سایے میں ہوتا ہے جس سے دنیا کو دھوکہ دینا قدرے آسان ہو جاتا ہے ۔لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا دنیا کے دیگر خطہ کے لوگ اتنے ہی سادہ لوح ہیں کہ وہ بھارتی حکومت کے ہر جھوٹ کو مان لیں ؟بہر حال ہمیں فی الحال یہاں اس بات سے بحث نہیں ہے کہ دنیا حکومت کے جھوٹ پر کس قدر اعتبار کرتی ہے یا نہیں کرتی ہے ۔یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ کشمیر میں خواتین کس برے دور سے گزر رہی ہیں اور انہوں نے ان حالات کے لئے اپنے آپ کو کس سانچے میں ڈھالا ہے ۔بڑے بڑے صحافیوں اور کشمیر کے حالات پر نگاہ ٹکائے لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیر کے ہر چار سے پانچ افراد پر ایک فوجی مسلط ہے ۔یعنی پورا کشمیر فوجیوں کے نرغے میں ہے ۔ایسے حالات میں جہاں چپے چپے پر فوجی ہوں وہاں سب سے برا یہ ہوتا ہے کہ حقوق انسانی کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔کشمیر بھی پچھلے ساٹھ پینسٹھ برسوں حقوق انسانی کے حوالے سے انتہائی بری جگہ ہے۔جہاں عید کے دن بھی سلامتی دستوں کے اسلحے سے آگ برستی ہو وہاں خواتین کی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔عید الاضحی والے دن بھی کشمیر میں سلامتی دستوں نے دو نوجوانوں کو موت کی نیند سلادیا ۔ان نوجوانوں کا گناہ یہ تھا کہ انہوں نے ہنڈو اڑہ میں سلامتی دستوں کی وحشت و درندگی کا نشانہ بننے والی ایک خاتون کے حق میں فوجیوں کی وحشت اور ہوسناکی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا تھا ۔فلسطین اور کشمیر کے معاملات میں زیادہ فرق نہیں ہے دونوں ہی جگہ کے عوام استبدادی قوتوں کے استحصال کا شکار ہیں ۔
کشمیر میں سلامتی دستوں کی درندگی کا شکار بننے والی خاتون کا معاملہ پہلا نہیں ہے اور نہ ہی اسے اس وقت تک کے لئے آخری مانا جاسکتا ہے جب تک کہ وہاں ننگ انسانیت قانون افسپا نافذ ہے ۔اس بدنام زمانہ قانون کی وجہ سے فوجی دستے کسی بھی طرح کی قانونی پکڑ سے آزاد ہیں اور وہ اس کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنسی جرائم ،اغوا اور معصوم افراد کی گرفتاری کو انجام دیتے ہیں ۔یہاں اکثر خواتین اور نوخیز لڑکیوں کی لاشیں پائی جاتی ہیں جنہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا جاتا ہے ۔اس تعلق سے عوام کی رائے ہے کہ یہ سب کچھ ہندوستانی دستے انجام دیتے ہیں ۔ایسی حرکتوں کے پس پشت شاید ان کا مقصد تحریکوں میں شامل افراد کے خلاف مہم کا حصہ ہو کہ اس طرح انہیں تحریک سے باز رکھا جائے ۔اکثر اس طرح کی لاشیں ملنے پر کشمیری عوام احتجاج کے لئے سڑکوں اور گلیوں میں نکل آتے ہیں اور نتیجہ میں تشدد اور ہلاکت کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔تازہ تشدد کی وارداتوں کا سلسلہ بھی ایسے ہی واقعات کے بعد شروع ہوا ۔کسی بھی خطہ میں جہاں شورش پھوٹ پڑے وہاں درندہ صفت لوگوں کا عام شکار اور آسانی سے گرفت میں آنے والے بچے اور خواتیں ہی ہوتی ہیں ۔ایسا ہی کشمیر میں بھی ہو رہا ہے ۔کوئی ایک واقعہ ہو یا اتفاقی کوئی حادثہ ہو تو شاید عوام خون کے گھونٹ پی کر اس پر صبر کرلیں لیکن جب خواتین پر تشدد کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہو جائے تو پھر عوامی غصہ کو قابو کرنا آسان نہیں ہے ۔بھارتی حکومت اس مسئلہ کو فوجی قوت کے ذریعہ حل کرنا چاہتی ہے ۔ایسے خیالات یا نظریے تاریخ عالم سے منھ موڑنے جیسا ہے ۔دنیا میں کبھی بھی کسی مسئلہ کوفوجی قوت سے نہیں دبایا جاسکا ہے اور اگر کہیں فوری فائدہ کے لئے ایسا کیا گیا تو وہ خطہ لمبے عرصے تک خاک و خون میں ڈوب جاتا ہے ۔افسوسناک امر ہے کہ دو ماہ سے زائد عرصے سے کشمیر تشدد میں سو سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں ۔اس پر ٹوئٹر پر موجودہ حکومت کے نظریاتی دوست افراد کے ٹوئٹر پر اگر نظر ڈالیں تو مسئلہ سمجھ میں آجائے گا اور یہ بھی سمجھنے میں دقت نہیں ہو گی کہ موجودہ حکومت میں کیسی ذہنیت کے لوگ شامل ہیں ۔ایک ٹوئٹر پر جس کو غالبا دو ماہ ہو چکے ہیں کشمیر کے قتل عام پر ایک پیغام تھا ’’آج کا اسکور بیس سے کراس کر گیا ہے ‘‘ ۔ آگے کی بات میں جان بوجھ کر حذف کر رہاہوں ۔قارئین اتنا ہی پڑھ کر اندازہ لگاسکتے ہیں ۔آخر کشمیر کا تشدد کنٹرول میں کیوں نہیں آرہا ہے ۔جو لوگ انسانوں کی موت پر کرکٹ کی طرح کمنٹری کررہے ہوں ان سے امن کی امید دیوانے کا خواب ہے۔

0 comments: