Muslim Issues

مضطرب نوجوانوں کو سنبھال لیجئے ورنہ....


قاسم سید  

تاریخ مسلسل جلتا الاؤ ہے جس میں ماضی کی راکھ چنگاریاں دبائے رہتی ہے جس کو کریدنے سے انگلیاں جل جاتی ہیں ،مگر سیاست کی ضرورتوں نے پورا منظر نامہ بدل دیا ہے ۔ایک ایسی تربیت یافتہ رضا کار فوج تیار کردی گئی ہے جو وقتا فوقتا مٹھیوں میں یہ چنگاریاں بھر کر فضا میں اچھالتی رہتی ہے اور ہر طرف شور وہنگامہ، چیخ وپکار سنائی دینے لگتی ہے، ایشوز نان ایشوز بن جاتے ہیں ،یہ جادوگر رسیوں کو سانپ بنانے میں ماہر ہیں، سردست کوئی موسی نظر نہیں آتا جو اپنے عصا کو اژدہا بنا کر ان سانپوں کو بے اثر کردے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جعلی راشٹرواد کی آندھی میں بڑے بڑے پیڑ جڑوں کو چھوڑ رہے ہیں ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جناح کی تصویر کا معاملہ بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔جب سرکار کی ناکامیاں سر چڑھ کر بول رہی ہیں ،اذان ،نماز ،طلاق سے لے کر جناح کے کردار پر فضا گرم کی جارہی ہےکہ ہر خاص و عام الجھ کر سوال کرنا چھوڑ دے ۔میڈیا کا ایک بڑا حصہ اس ’کار خیر‘ میں پوری قوت کے ساتھ اپنی ’خدمات‘ انجام دے رہا ہے اور اب تو اس میں کچھ ’باوضو‘ بھی شامل ہو گئے ہیں ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری پر حملہ کی کوشش کرنے والوں پر کارروائی کا مطالبہ اور ایف آئی آر درج کرنے پر اصرار کے جرم میں انتظامیہ کی شہ پر پولیس کی لاٹھیاں کھا رہے تھے ،تپتی دھوپ سے انگار ہ بنی سڑک پر ان کا گرم گرم لہو سروں سے ٹپک رہا تھا ،ہڈیاں توڑی جارہی تھیں تو گودی میڈیا کے توسط سے پورے معاملہ پر جناح کی تصویر کا تنازع چڑھا دیاگیا ۔کسی نے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی کہ آخر جناح کے خلاف ہتھیاروں کے ساتھ یونیورسٹی کیمپس کے اندر باہری عناصر کو مظاہرہ کیااجازت کیوں دی گئی اور اس کے لئے وہ خاص دن کیوں منتخب کیا گیا جب طلبا یونین انہیں لائف ٹائم ممبر شب کااعزاز دینے جاری رہی تھی جبکہ جناح کا ایشو کئی دن پہلے اٹھادیا گیاتھا ۔ستر سال سے لگی تصویر اچانک ملک کا سب سے اہم ایشو بنا دی گئی ،ہر طرف ایسی رعونت ،تکبر اور گھمنڈ بھری آوازیں گونجنے لگیں جوہوائی مصنوعی ایشو کی تخلیق کے بعد سنائی دیتی ہیں ۔ہمارے کچھ کرم فرما بھی جو ش محبت میں یا ٹریپ میں آکر یا پھر جعلی راشٹرواد کے بے پناہ پروپیگنڈہ کے تار عنکبوت میں الجھ گئے اور دو قومی نظریہ کی یاد دلاکر جناح کی نفرت بھری شخصیت کے ’عشق‘سے دست بردار ہونے کا مشورہ دینے لگے۔ بعض حلقوں کی طرف سے رفع شر کی خاطر تقسیم ہند کے قصوروار کی تصویر کو تیاگ کرنے اور راشٹروادی ہونے کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ تواتر کے ساتھ دیا جانے لگا۔ اسے پسپائی یا شکست و سپراندازی نہیں، بلکہ صبر و تحمل، تدبر اور شدت کے ماحول میں حکمت کی پالیسی سے تعبیر کیا گیا۔ بدقسمتی سے یہ لوگ بھی پروپیگنڈہ کی آندھی میں خس و خاشاک کی طرح اڑگئے اور یقین کرنا مشکل ہوگیا کہ حالات کے دبائو میں مصلحتیں کیسی کیسی منڈیروں پر گھونسلا بنانے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ معاملہ واقعی اتنا سیدھا سادھا ہے اور صرف ستر سال سے لٹکی بے جان تصویر کی موجودگی کا ہے، جبکہ ملک میں متعدد مقامات پر جن میں سابرمتی آشرم سے لے کر نیشنل آرکائیوز شامل ہے، اس شخص کی تصویر موجود ہے۔ کبھی یہ ایشو نہیں اٹھایا گیا یا پھر جناح کے بہانے حامد انصاری، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور مسلمانوں کی پوزیشن پر حملہ کرنے، انھیں گالیاں دینے، کٹہرے میں کھڑا کرنے، ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے، ہر مہذب غیرمہذب گالیوں سے نوازنے اور ہمارے نوخیز نوجوان طلبائے عزیز کو جن سےہمارے ملک اور ملت کا سنہرا مستقبل وابستہ ہے۔ ملک سے غداری اور پاکستان سے ہمدردی رکھنے کے نام کے پتھر اچھالنے کا ناپاک منصوبہ ہے کہ اقوال زرّیں کے ساتھ پند و نصائح کرنے والوں میں مقدس ہستیاں بھی شامل ہوگئیں اور طلبا کو ہی مورد الزام ٹھہرانے لگیں۔ ٹی وی چینلوں کے پرائم ٹائم میں ڈبیٹ کے نام پر ہونے والی قوالیاں شروع ہوگئیں۔ حسب معمول دو غیر معروف مولوی، دو پنڈت، دو تجزیہ کار بٹھاکر طوفان بحث کے جھاگ پیدا کئے گئے۔ جناح کی تصویر کے شور میں پروٹوکول کی طویل ترین تاریخ رکھنے والے حامد انصاری پر ہندو واہنی کے حملہ کی کوشش، طلبا پر بے رحمانہ لاٹھی چارج اور قصورواروں کو سزا دینے کے مطالبہ کی آوازیں دب گئیں اور جناح کی تصویر کی تسبیح کے دانے تیزی کے ساتھ گھمائے جانے لگے۔ کچھ معزز لوگوں نے اس موقع پر دو قومی نظریہ کو اٹھاکر علی گڑھ اور جناح کی تاریخ یاد دلائی۔ ان کی نیت اور اخلاص پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
اگر دو قومی نظریہ کا گڑا مردہ اکھاڑا گیا تو بات بہت دور تک جائے گی، پھر کئی معزز علما بھی زد میں آئیں گے۔ علامہ اقبال کے ساتھ بھی دو ہاتھ کرنے پڑیں گے۔ ایسا بہت سا لٹریچر سوالیہ نشان بن جائے گا جو دو قومی نظریہ کے حاملین کے جادوئی قلم کا نتیجہ ہے اور بیش بہا خزانہ ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اس معاملہ کو چھیڑکر جعلی راشٹرواد کا نعرہ لگانے والوں کے ساتھ کھڑے نظر نہ آئیں اور ایسی کوششوں سے خود کو الگ کرلیا جائے۔ علی گڑھ اور دیوبند ہماری دو آنکھیں ہیں، دونوں کی شاندار تاریخ ہے۔ ملک کے تئیں عظیم اور ناقابل فراموش خدمات ہیں، ان کے بغیر ملک اور ملت دونوں کی تاریخ ادھوری رہے گی۔ ایسے بہت سے مسائل رہ رہ کر سامنے آتے ہیں کہ ان کے مطالبہ کی قبولیت اور اپنے موقف سے دست برداری سے کشیدگی ختم ہوسکتی ہے اور تنازعات ہمیشہ کے لئے مٹ سکتے ہیں۔ یہی تو وہ چاہتے ہیں کہ تشخص کے ہر پہلو سے دستبردار ہوجائیں۔ ہندوتو آئیڈیالوجی کو اس پر زیادہ اصرار نہیں کہ آپ خود کو ہندو کہنے کے بعد کون سی رسومات پر عمل کرتے ہیں۔ آزادی کے بعد سے پہلے فسادات، پھر دہشت گردی کے نام سے نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ، معاشی، تعلیمی اور سیاسی پسماندگی نے دلتوں سے بدتر حالت بنادی، لیکن عام مسلمان بھی شناخت پر مضبوطی سے ڈٹا ہوا ہے، اسی کی خاطر ہر طرح کی بدنامیاں اور رسوائیاں مول لی ہیں تو پھر رفع شر کی خاطر کسی دست برداری کی ایک حد مقرر کیوں نہیں کردی جاتی؟ سارا جھگڑا فساد ہی ختم ہوجائے گا۔
افسوس یہ ہے کہ جب طلبہ کے زخموں پر مرہم رکھنے، ان کے غصہ، جوانی کے ابال کو کنٹرول کرنے اور جوش کو ہوش کے پرولینے کی اشد ضرورت نہیں، ان کی تحریک کو مناسب رخ پر رکھنے اور جذبات کے لاوے کو دائرے میں رکھنے کے لئے ان کی سرپرستی کرنی چاہئے تھی۔ ہمارے اکثر زعمائوں نے خاموش رہنا زیادہ بہتر سمجھا، سچ بولنے اور کہنے سے گریز کیا، کیونکہ جو غلط بول نہیں سکتے وہ لوگ جو موقع دیکھ کر وزیراعظم کی تعریف کرنا نہیں بھولتے، ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے مین اسٹریم میڈیا کا سہارا لیا اور وہ بھی جو ملت پر آزمائش کی ہر گھڑی میں جرأت کے ساتھ آگے بڑھ کر سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔ ٹوٹے حوصلوں کو توانائی بخشتے ہیں، مادی وسائل کھپاتے ہیں، جو دبائو اور مصلحت سے واقف نہیں ہیں، ہر اہم معاملہ میں موقف رکھتے ہیں، وہ لوگ بھی جو بیانات کی جنگ میں ایک دوسرے سے شرط لگاتے ہیں، خاموش رہنا زیادہ بہتر سمجھا۔ جب ان کی ضرورت ملک کو تھی، علی گڑھ کو تھی، کسی دوسرے ملک میں اقلیتوں کے بین الاقوامی مسائل پر سر جوڑکر بیٹھے تھے اور مسائل کا حل تلاش کرنے پر تبادلہ خیال کیا جارہا تھا۔ طلبا اور نوجوان قیمتی سرمایہ ہیں، ان میں ہر جگہ ابال ہے، بے چینی و اضطراب ہے۔ سوال ہندو مسلم کا نہیں، معاملہ جے این یو سے لے کر بنارس ہندو یونیورسٹی، جادھوپور اور حیدرآباد سے لے کر علی گڑھ اور اب جامعہ تک پھیلا ہوا ہے۔ تعلیمی ادارے خاص طور سے نشانے پر ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام بیروزگاری، بھکمری، مہنگائی، طبی سہولتوں میں لگاتار کٹوتی، کسانوں کو واجب دام نہ ملنے، مہنگی ہوئی تعلیم، یونیورسٹی کے پرائیویٹائزیشن جیسے سوالات نہ اٹھائے جائیں۔ انھیں رام مندر، گنگا، گائے، گیتا، بابر، ٹیپو، ہمایوں، اورنگ زیب اور جناح جیسے بے معنی ایشو میں الجھاکر ہندو مسلم نفرت کی خلیج کو بڑھایا جائے۔ سوال جناح کی تصویر کا ہے ہی نہیں، نشانہ تو کہیں اور ہے۔ یہ نشانے بازوں کو بھی پتہ ہے۔ کچھ لوگوں کو راتوں رات تاریخ بدلنے کا بھوت سوار ہے۔ اکبر روڈ پر مہارانا پرتاپ کا پوسٹر چپکادینا اس جلدبازی کا اظہار ہے۔
جہاں تک میڈیا کا سوال ہے وہ خواجہ سرائوں کی طرح تالیاں بجانے کے رول میں آگیا ہے، وہ انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ بن گیا ہے، کسی ایک ایشو پر نہیں ٹکتا، پدماوتی سے لے کر محمد شامی کی بیوی کے نخروں، گروگرام رحیم کی مستیوں سے لے کر ہنی پریت کی گپھائیں دکھانے اور آسارام کی معاشقہ کے قصوں میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ جب مہاراشٹر میں کسان کئی سو کلومیٹر کی پدیاترا پر تھے، الیکٹرانک میڈیا کو شامی کی بیوی حسین جہاں کی تکرار زیادہ گرم ایشو لگ رہا تھا۔ نیرو مودی کے بھاگ جانے کی خبر پی چدمبرم کے بیٹے کی ایئرپورٹ سے گرفتاری کی ہیڈلائن میں بدل گئی۔ فیشن کی طرح ایشو بدل رہے ہیں، ہر روز کھیلنے کے لئے نیا مدعا تھما دیا جاتا ہے۔ اس سہ رخی پیٹرن کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جیسے گنیش جی کی پلاسٹک سرجری، پشپک طیارے سے لے کر مہابھارت کے دور میں انٹرنیٹ ہونے کا دعویٰ ان بیانات کا مقصد ہندو سنسکرتی کے پراچین ہونے کا فخر پیدا کرنا، مسلمانوں کی بڑھتی آبادی پر روک، آئین سے سیکولر لفظ ہٹانے کا مطالبہ، بھارت کے سبھی مسلمانوں کو پاکستانی یا آتنک وادی بتانے والے بیانات، اس کا مقصد مسلمانوں کو ہمیشہ دبائو اور شک کے دائرے میں رکھنا ہے۔ تیسرا پیٹرن ہے جب سرکار کسی ایشو پر گھری ہو تو ایسے حالات پیدا کرنا جن سے توجہ کانگریس کی تاریخی غلطیوں پر جائے اور ہیڈلائن بدل دی جائے۔ گزشتہ چار سال سے اس طرز اور پالیسی پر کام ہورہا ہے۔ جناح کا ایشو اس کی تازہ ترین مثال ہے، ہماری قیادت کا ایک حصہ اس ٹریپ میں آگیا ہے۔
علی گڑھ کی حالیہ تحریک سے اندازہ ہوا کہ مسلم نوجوان اور طلبہ کی سوچ قومی مسائل کے تناظر میں ہم آہنگ ہورہی ہے۔ وہ اب شریعت بچائو، اردو بچائو کے ساتھ دیگر مسائل پر بھی سوچ رکھتے ہیں۔ ان کا دائرہ وسیع ہوا ہے، نعرے بدل گئے ہیں۔ تحریک کے پرانے روایتی طور طریقے چھوڑکر ڈیجیٹل تقاضوں کو کامیابی سے اپنارہے ہیں۔ ضرورت کے حساب سے حکمت عملی بنانے کا سلیقہ آگیا ہے۔ وہ فرضی تہمتوں اور بدنامیوں کے دبائو میں پیش آنے والے آزمائشوں نے ان کے حوصلے پست نہیں کئے۔ حالات کے جبر نے بزدل اور مصلحت پسند نہیں بنایا، جوش کے ساتھ ہوش بھی ہے، جیسے انسانی زنجیر کلکٹریٹ تک لے جانے کے فیصلہ کو انتظامیہ کا خطرناک ارادہ دیکھ کر بدل دیا۔ یہ پسپائی نہیں، عارضی ضرورت کے مطابق رخ موڑ دینے کی حکمت تھی۔ انھیں ٹریپ نہیں کیا جاسکتا۔ علی گڑھ نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا، یہ اطمینان کی بات ہے۔ ریلیو، جلسوں، جلوسوں کی سیاست کی اپنی اہمیت ہے، مگر وہ کل نہیں جزو ہے، جنھوں نے جزو کو ہی کل سمجھ لیا ہے وہ انہی کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ضرورت ہے کوئی جامع حکمت عملی تیار کی جائے جو حساس متنازع ایشو پر رہنمائی کرے۔ مختلف بولیوں سے جگ ہنسائی ہوتی ہے اور انتشار کا اظہار بھی۔ ٹی وی پر جانے والے بے ہنگم لوگوں کو سمجھانے بجھانے کے ساتھ کچھ لوگوں کو منتخب کرکے ڈبیٹ کی تربیت دی جائے، تاکہ سلیقہ، سنجیدگی اور دلائل کے ساتھ بات رکھ سکیں نہ کہ گالی گلوج اور سننے والے نمائندگی کے نام پر مسلط ہوں۔ طلباء و نوجوانوں کی بے چینی کو نظرانداز مت کرئیے، ان سے دوریاں مت بڑھائیے، ان کو سننے کی بھی عادت ڈالیے۔ بیماری کے وقت ڈانٹ ڈپٹ نہیں شفقت درکار ہوتی ہے، کئی قیادت ابھارئیے، ابھرنے والی قیادت کو راستہ دیجئے، اس کی رہنمائی کرئیے، ملک تبدیلی کے سنگین عمل سے گزر رہا ہے، اس کی حساسیت اور سفاکیت کو نظرانداز مت کرئیے ۔  جماعتی مفادات کی بجائے اجتماعی مفادات کو فوقیت دیجئے، ورنہ وقت بڑا ظالم ہے، وہ کسی کو نہیں بخشے گا۔

qasimsyed2008@gmail.com

0 comments:

featured

بیٹی بچاؤ ،بیٹی پڑھاؤ : شرم مگر تم کو نہیں آتی!


نہال صغیر

سوشل میڈیا پر زنا بالجبر اور قتل کے حیوانیت کو شرمندہ کرنے جیسے واقعات ننھی آصفہ اوراناؤ سانحہ سے مضطرب اور وطن کی حالت سے فکر مند افراد اپنا احتجاج درج کرارہے ہیں ۔بی بی سی پر دہلی میں خواتین تنظیموں کی جانب سے احتجاج کررہی خواتین نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سر عام اور درندگی کی حد تک ظہور پذیر ہونے والے واقعات سے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے لوگ خواتین کے تحفظ کے تعلق سے سخت تشویش میں مبتلا ہیں لیکن بیٹی بچاؤ ،بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ دینے والے خاموش ہیں ۔ایک خاتون نے بی بی سی کی خاتون نمائندہ کو بتایا کہ ہم وزیر اعظم کی زبان سے اس تعلق سے کچھ سننا چاہتے ہیں لیکن وہ بالکل خاموش ہیں ۔اس دوران کسی نے دو ہزار چودہ کا انڈیا ٹی وی پر آنے والی سیرئل ’آپ کی عدالت‘ کا ویڈیو بھی شیئر کیا جس میں نریندر مودی اپنے چہروں پر ناگواریت کے تاثر لاتے ہوئے خواتین کے خلاف ہورہے تشدد پر احتجاج کررہے ہیں کہ حکومت کیا کررہی ہے ۔آج یہی سوال عام لوگ کررہے ہیں اور کچھ خاص لوگ اس کے جواب میں کہہ رہے ہیں کہ آج حکومت مجرمین کو بچانے کی کوشش کررہی ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بی جے پی کو بدنام کرنے کیلئے ایسا کیا جارہا ہے ۔احساس شرمندگی اتنا زیادہ ہے کہ زبان کچھ کہنے اور قلم اسے بیان کرنے سے قاصر ہے لیکن کہنا پڑتا ہے کہ اس حکومت میں پتہ نہیں کس جنگل کے افراد شامل ہیں جنہیں بات کرنے کا سلیقہ ، مظلوموں کے درد کو جاننے کا انداز اور ان سے بات کرنے کی حکمت کا پتہ ہی نہیں ہے ۔کہنے کو کوئی سادھوی ہے اور کوئی سادھو کوئی اپنی پیشانی پر اپنی شناخت کے واضح ثبوت رکھتا ہے لیکن بات ایسی کرتا ہے گویا وہ انسانوں میں ہی نہیں ہے ۔ذرا غور کیجئے اس بیان پر کہ ’بھلا تین بچوں کی ماں کا کوئی ریپ کرے گا ؟‘۔کتنا شرمناک اور اس کی گندی ذہنیت کی عکاسی کرنے والا بیان ہے ۔لیکن نعرہ بیٹی بچاؤ ،بیٹی پڑھاؤ کا ۔ اب شاید عوام کی سمجھ میں آرہا ہو کہ انہوں نے کس سے بیٹی بچانے کی بات کی تھی ؟ ہمارے یہاں بات اس وقت تک سمجھ میں نہیں آتی جب تک اس سے منسوب واقعہ رونما نہ ہو جائے ۔ اب یہاں بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں تو لوگوں کو بات سمجھ میں آنے لگی ہیں ۔ ایک کارٹون جس میں چند بی جے پی والوں کو بیٹی بچاؤ ،بیٹی پڑھاؤ کا بینر اٹھائے نعرہ لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے وہیں دوسری جانب ایک جوڑا اپنی بیٹی کو چھپا لیتا ہے وہاں تحریر ہے بیٹی چُھپاؤ ۔غرض سوشل میڈیا سمیت پرنٹ میڈیا میں بھی ننھی آصفہ اور اناؤ معاملہ پرصدائے احتجاج کا زور ہے ۔ سب اپنی اپنی بساط بھرملک کے اجتماعی ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔یاہو نے بھی جسٹس فار آصفہ ،جسٹس فار آورڈاؤٹر مہم چلا رکھی ہے ۔اس میں اس نے سلیبرٹی کی مدد لی ہے ۔جہاں نعرے درج ہیں ہم ہندوستان ہیں ،ہم شرمندہ ہیں ۔ایک کارٹون بنانے والے تو ہندو مذہب کا سہارا لیتے ہوئے رام اور سیتا کو دکھایا ہے جس میں سیتا کہتی ہوئی نظر آرہی ہیں ’میں خوش ہوں کہ میرا اغوا راون نے کیا تمہارے بھکتوں نے نہیں ‘۔اس کے باوجود عوام اور دنیا پردھان سیوک اور چوکیدار کی زبان سے کچھ سننا چاہتے ہیں لیکن وہاں موت کا سناٹا ہے ۔دوہزار چودہ میں جن واقعات سے شرمندہ تھے آج وہی واقعات ان کی پارٹی ورکر انجام دے رہے ہیں ۔

0 comments:

Muslim Issues

تاریخی غلطی سدھار نے کا موقع


قاسم سید   

اس بات کا اعتراف کرلیناچاہئے کہ ہم اکثریتی جمہوریت والے ملک میں رہتے ہیں جس کو سیکولرازم کے میک اپ میں چھپاکر رکھاگیا۔ یہ غلط فہمی بھی دور کرلینی چاہئے کہ اگر ملک میں جمہوریت باقی ہے اور اس کی سیکولر روح زخموں سے چور ہونے کے باجود زندہ ہے تو اس کی وجہ سیکولر پارٹیاں نہیں بلکہ آئین ہے ۔ ایسا مضبو ط آئین جو ہر مظلوم محروم شخص کی ناقابل تسخیر پناہ گاہ ہے اگرچہ اس پر شب خون مارنے کی کوششیں ہمیشہ جاری رہیں کیونکہ حکمراں طبقہ یہ برداشت ہی نہیں کرسکتا کہ اس کے طرز عمل پر انگلیاں اٹھائی جائیں ۔ اس کی نقل وحرکت پر نظررکھی جائے اور اس کا احتساب کیاجائے لیکن ہمارے آئین نے تمام آئینی اداروں کو اس طرح ایک دوسرے کے تئیں جوابدہ بنایا ہے کہ وہ دانت باہر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اندرکردئیے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کو آئین کانگراں بنادیا ہے کہ جو بھی اپنی حدوں سے تجاوز کرے اس کے نکیل ڈال دی جائے یہی وجہ ہے کہ حکمراں طبقہ اور سپریم کورٹ کے درمیان کشیدگی بھرے تعلقات رہے ہیں۔ اس نے جمہوریت کی صحت کو برقرار رکھا ہے ۔ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو وہ منہ مارنے سے باز نہیں آتی ۔ پارلیمنٹ سب سے بالاتر ادارہ ہے لیکن سپریم کورٹ کو یہ فرض سونپا گیا ہے کہ وہ ہر اس ایکٹ اور قانون سازی کاجائزہ لیتا رہے جو مقننہ بنائے ، اسے آئین کی کسوٹی پر پرکھے ۔ صف کے آخری شخص کی اکلوتی اور آخری امید عدلیہ سے ہی وابستہ ہوتی ہے چنانچہ اب یہ بھی زد پر ہے ۔
اکثریتی جمہوریت کا دوسرا مطلب جمہوری فاشزم یاجمہوری فسطائیت ہے اور ہر سیاسی پارٹی اس کی ترجمان ہے چونکہ ہندوستان کےخمیر میں خاندانی موروثیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے اس لئے سیاسی ومذہبی محاذ پر موجود مٹھوں کی سربراہی خاندانی نظام کی بنیاد پر قائم ہے ۔ ہر قومی وعلاقائی پارٹی خاندانی جمہوری بادشاہوں کے مفادات کی محافظ ہے ۔ یہاں نام بتانےکی اور تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ذات پات کا نظام ہزاروں سال پرانا ہے اسے مذہبی چاشنی میں ڈبوکر سماج کے کمزور ومظلوم طبقات کے پیروں میں غلامی کی بیڑیاں ڈال دی گئ ہیں ، انہوں نے اس کواپنا مقدر سمجھ کر قبول بھی کرلیا لیکن سماجی مصلح اس نظام کے خلاف بغاوت بلند کرتے رہے ۔ پیر یار سے امبیڈکر اور کانشی رام تک طویل فہرست ہے انہوں نے سماجی حقوق دلانے کے لئے بیش قیمت قربانیاں دیں جس کے برگ وبار اب سامنے آرہے ہیں ۔2اپریل کو دلتوں کا بھارت بند اس کی طاقتور ترین علامت تھا۔ اس نے صرف برہمنی نظام کو ہی خوف زدہ نہیں کیا ہے بلکہ سیاسی پارٹیوں کے چہرے پر بھی خوف پڑھاجاسکتا ہے ۔ اس بند کی سب سے خاص بات  یہ تھی کہ اس کا کوئی چہرہ نہیں تھا۔ سوشل میڈیا پر چلی مہم جس میں نوجوان دلت کارکنوں‘ دانشوروں اور نئی نسل کے ابھرتے خاموش لیڈروں کا اہم رول تھا۔ سڑکوں پر انسانی سروں کی فصل اگل دی گرچہ اس کو تشدد زدہ کرکے بند کاچہرہ مسخ کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن لوگ ہریانہ میں جاٹوں کی انا رکی کو نہیں بھولے جہاں 36ہزار کروڑ کا نقصان ہواتھا ۔ وہ رام رحیم کی بغاوت کو فراموش نہیں کرپائے ہیں جس کی گرفتاری کے خلاف ہریانہ کو جلاکر رکھ دیاتھا۔30بیش قیمت جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ دلتوں کے یہ تیور ہزاروں سال کی دبی دہکتی ہوئی آگ میں تپ کر کندن ہوئے ہیں، جب وہ دیکھتے ہیں کہ گھوڑی پر چڑھنے کے جرم میں دلت نوجوان کا اعلی ذات والے قتل کردیتے ہیں، ان کی بہو بیٹیوں کو جب چاہتے ہیں گھر سے ‘کھیتوں سے اٹھاکر لے جاتے ہیں اور دل بھر جانے کے بعد پھینک دیتے ہیں۔ چار پائی پر بیٹھنے‘ان کی گلی سے گزرنے اور جوتے وقمیص پہن کر ان کے محلوں سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ان کے کنویں سے پانی نہیں بھرسکتے، ہوٹل میں چائے کے برتن الگ اور ان کو دھوکر رکھناپڑتا ہے۔ مذہبی طور پر وہ شودر اور اچھوت ہیں جن کی جان، مال عزت وآبرو سب کچھ برہمن واعلی ذاتوں کے لئے حلال ہے ۔ اس نسلی نظام کے خلاف مزاحمت کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ دلت اپنی شناخت سے زیادہ سماجی عزت کے لئے لڑ رہا ہے کیونکہ وہ اتنے مظالم سہنے کے بعد بھی ہندو دھرم کے دائرے سے باہر نکل پانے میں ناکام ہے ۔ بودھ دھرم وہ وقار اور مقام عطا نہیں کرتا جو سماجی وقار کو یقینی بنائے۔ کانشی رام کی قیادت میں دلتوں کی ترجیح اقتدار میں حصہ داری تھی مگر اب اس کا نظریہ بدل رہا ہے۔ ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ دلتوں میں شعوری سطح پر کتنا زبردست انقلاب آیا ہےانہوں نے بھرپور تیاری کی ہے ان کے پاس ہر بات کا جواب ہے ۔ رضا کاروں کی فوج ہے جو سنگھ کی طرح دن رات بغیر تنخواہ کے کام کر رہی ہے ۔ سیاسی پارٹیاں دلتوں اور مسلمانوں کو چارے کے طور پر استعمال کرتی آئی ہیں ۔ کوشش کی گئی کہ ان کی اپنی قیادت پیدا نہ ہو اگر ہو بھی گئی تو اسے خرید لیا ، اپنی قلمرو میں شامل کرلیا۔ پارٹی میں کوئی عہدہ دے دیا مگر اختیارات نہیں دیئے پھر بھی کسی کی رگیں زیادہ تنی ہوئی نظرآئیں تو اس کی کردار کشی کرکے بے آبرو کرڈالا۔مسلم تنظیمیں ان کے لئے ٹول کا کام کرتی رہیں یاپھر ٹھیکیداری ۔ انہیں سرکار بننے پر اعلی عہدیداروں سے ملاقات کا موقع ، کسی پروجیکٹ کی منظوری یا کسی قانون ساز ادارے میں نمائندگی دے کر پوری قوم کو خاموش رکھنے کا ٹینڈر طے کرلیا ۔ یہ تماشہ دیکھتے دیکھتے دہائیاں گذر گئیں۔ سیاست کے اندازبدل گئے مگر ان کے طور طریقے نہیں بدلے ۔
اس ملک میں سب سے بڑا مسئلہ شناخت اور حقوق کی بازیابی پر اصرار ہے ۔ حکمراں طبقہ ملک کی آبادی میں معمولی فیصد رکھنے کے باوجود اقتدار کے دوتہائی اداروں پر قابض ہے ۔ جب بھی دلت نے مزاحمت کی اس کے لیڈر خریدے گئے، پاسوان اور اٹھائولے تو حال کی مثال ہی ہیں ۔ امبیڈکر کے پوتے سڑکوں پر دھکے کھانے پر مجبور ہیں اور نقلی گاندھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔ سماج کے محروم طبقات دلت‘آدیباسی اور اقلیتیں آخر جیلوں میں سب سے زیادہ تعدادمیں کیوں ہیں۔ ان کی نمائندگی قانون ساز اداروں میں لگاتار گھٹتی کیوں جارہی ہے ، اس لئے کہ سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کا ووٹ بے اثر کردیا اور دلتوں کو گیند کی طرح ادھر سے ادھر اچھالتے رہے۔ ملک کی 20فیصد آبای کونظرانداز کرنامشکل ہے۔ چھچھوندر ہونے کےباوجود وہ چونکہ ہندو ہیں اس لئے ان کے نخرے قابل برداشت ہیں مگر مسلمان کسی قیمت پر اپنی شناخت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں اس لئے وہ دہشت گرد‘ دیش دروہی‘پاکستانی‘ آئی ایس آئی کے ایجنٹ اور پاکستانی دلال کہے جاتے ہیں ۔ یہ الزامات نئے نہیں صرف شکلیں بدل گئی ہیں ۔ پوٹو‘پوٹا‘ٹاڈا اوریواے پی اے غداروں کو سبق سکھانے کے لئے ہی بنائے گئے یعنی اس ملک میں محب وطن صرف برسراقتدار طبقہ ہے جو اسٹیٹ کی پاور سے ساز باز کرکے مظلوم وکمزور طبقات کاجیناحرام کئے ہوئے ہے ۔ جیسے جیسے ان طبقات کا الائنس بڑھے گا نفرت وجنون کی آگ بھڑکتی جائے گی کیونکہ یہ طبقہ اقتدار میں ٹکڑے پھینکنے کو تیار ہے، برابر کی حصہ داری دینے کے لئے نہیں ۔ اس کے سواسب لوگ مشتبہ اور اسٹیٹ کے غدار ہیں۔ 90کے بعد ملک کے مزاج میں بڑی تبدیلی آئی ہے ، جارحیت کی تیزابیت میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس آگ میں میڈیا نے گھی ڈالا ہے ۔ پہلے یہ کمیونٹی سنجیدہ اور دانشوری کے لئے معروف تھی اب لیمٹ بازار میں بدل گئی ۔ہر کیمرا پکڑنے والا جرنلسٹ اور اینکر پروچن وادی ہوگیا ہے ۔ راشٹر واد نے اسٹیٹ اسپانسر ڈکلنگ کا جواز فراہم کردیا۔ ہندوتو آئیڈیالوجی میں وکاس کہیں گم ہوگیا۔ کھلنائک کو نائیک بنانا فیشن ‘چور‘ اچکوں‘ لفنگوںکو مذہبی وسیاسی لبادہ پہن کر محترم ومقدس بنایاجارہا ہے ۔ بابائوں کو وزیر مملکت کا درجہ دینا اس کا ایک حصہ ہے ۔ میڈیا کا ایک بڑا سیکشن فرقہ وارانہ نسلی منافرت کی مارکیٹنگ کرکے اپنا بینک بیلنس بڑھارہا ہے ۔ تلوار اور بھگوا رنگ کے ساتھ ہندوتو کا نیا اوتار ارجت چوبے اور شمبھولال بن گئے ہیں ۔ یہ وہ ہندوتو ہے جو مسلم دشمن‘ عورت دشمن اور دلت دشمن ہے ۔ ششی تھرورنے کانگریس کو مشورہ دیا ہے کہ ہندو اسپیس کیوں چھوڑاجائے چنانچہ کانگریس بی جے پی کی یہ زمین چھیننےکے لئے جینودھاری ہندو بن گئی ہے ۔ یہ لڑائی کہاںجاکر ختم ہوگی فی الحال کہنا مشکل ہے ۔ مظلوم طبقات کے درمیان مفاہمت موجود ہ حالات میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کی سب سے بہترین حکمت عملی ہے ۔ ہم مظلوم بن کر کب تک دوسروں کے رحم وکرم کی بھیک پر گذارا کریں گے۔ دوسرے مظلوم کے ساتھ کھڑے نظرآنا وقت کا تقاضہ ہے ، ہمارےبزرگوں نے اس محاذ کو خالی چھوڑ دیا ۔ اس کا کفارہ ادا کرنے کا وقت ہے ۔ اگر ہم نے اس کو محسوس نہیں کیا تو حقوق کی جنگ میں تنہا نظرآئیں گے ۔ ایک دلت لیڈر نے کہا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی لڑائی خود لڑنی ہوگی تب کسی کا ساتھ ملے گا۔ دلتوں کی سماجی حقوق اور ہماری مذہبی شناخت کے تحفظ کی لڑائی مل کر لڑی جانی چاہئے ۔ تاریخی غلطی سدھارنے کا اس سے بہتر وقت نہیں ہے ۔

qasimsyed2008@gmail.com


0 comments:

Muslim Issues

اس جنگ میں ہم کہاں ہیں


قاسم سید 
اس بات میں شک کی کوئی گنجائش ہے کہ ہندوستان ذات پات کی آہنی زنجیروں کے نظام میں جکڑا ہوا ہےاور یہ معاملہ صرف ملک کی اکثریت کے ساتھ ہی نہیں اسلام کے نام لیوا بھی اس کے بداثرات سے محفوظ نہیں ۔نسلی برتری کا تفاخراور خاندانی نسبتوں کا امتیاز بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس کے مظاہر سے انکار ناممکن ہے ہم بھلےہی مساوات کے کارپٹ میں اسے چھپانے کی کوشش کریں بس فرق یہ ہے کہ ہندوئوں میں ذات پات کا سسٹم مذہبی بنیاد وتائید رکھتا ہے‘ہندواپنے مذہب کو ختم کئے بغیر ذات پات کی سڑاند کو ختم نہیں کرسکتے جبکہ دیگر مذاہب کو اپنے یہاں مذہب کو خیر باد کہنے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ایسی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کرے گا یعنی اسلام میں ذات پات اساسی طور پر مذہبی نظام کا حصہ نہیں اور نہ ہی سماجی نظام اس کی حمایت کرتاہے لیکن عملا اس کے اثرات سے انکار نہیں کیاجاسکتا ۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ اس لعنت کے اثرات صرف برصغیر ہند تک ہی محدود ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے ذات پات اور پھر مسلکی تنازعات نے مسلم اتحاد کے تصور کو پاش پاش کردیا ہے۔ تقسیم درتقسیم نے اس کی سیسہ پلائی دیوار میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ سیاسی اشتراک میں بھی یہی مانع ہیں ہم اس حقیت کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہندوستان میں ذات پات کے ناقابل تسخیر نظام نے سیاسی ومعاشی جدوجہد کو بھی متاثر کیا۔ ہندوئوں کے طبقہ اشرافیہ نے اس پر اپنا تسلط کبھی کمزور نہیں ہونےد یا۔ آزادی کےبعد بھی نچلی ذاتوں کو احساس کمتری میں مبتلا رکھنے کے لئے انہیں شیڈول کاسٹ کے نام سے بریکٹ کردیا۔ اعلی ذات اورنچلی ذات کی اصطلاح ہی اپنے آپ میں گھنائونے نظام کی ترجمانی ہے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اعلی ذاتوں یعنی برہمن ‘ٹھاکر اور ویشیہ کل آبادی کا 15فیصد ہیں مگر سیاست میں 60فیصد‘نوکریوں میں 87فیصد اور تجارت میں 94فیصد ہیں۔ 92فیصد زمینوں کے مالک وہی ہیں، حال ہی کے ایک سروے میں انکشاف ہوا تھا کہ ملک کی صرف ایک فیصد آبادی ملک کی 99فیصد دولت پر قابض ہے۔ مثلاً برہمن کی کل آبادی 3.5فیصد ہے ۔مگر سرکاری نظام میں حصہ داری 62فیصد ہے چونکہ ملک کی آبادی مندروں اور مٹھوں سے جڑی ہے اور مذہب کے مطابق ان کی باگ ڈور صرف برہمن سنبھال سکتا ہے تو اکثریت اس کی مٹھی میں ہے۔ وسائل پر اس کا قبضہ رہا ہے۔ وزارت ترقی انسانی وسائل کی رپورٹ کے مطابق ابتدائی سطح پر بچوں کا اوسط ڈراپ آئوٹ ایس سی کا 4.46فیصد اور مسلم کمیونٹی کا6.54فیصد ہے۔ پرائمری تعلیم میں ایس سی کا ڈراپ آئوٹ 5.51فیصد اورمسلم کمیونٹی کی شرح 9.49فیصدہے جبکہ ثانوی سطح پر ایس سی کی 19.36فیصد اور مسلمانوں کا ڈراپ آئوٹ 24.12فیصد ہے۔ اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ پسماندگی کی وجوہات کیا ہیں۔ یہ اعدادو شمار واقعی تشویشناک ہیں مگر ہنگامہ پسند لوگوں کو اس پر غور کرنے کی فرصت کہاں ہے۔
بہرحال اس صورت حال کا ایک خوشگوار پہلو یہ ہے کہ جیسے جیسے محروم طبقات خصوصاً دلتوں میں ریزرویشن کی وجہ سے سیاسی بیداری آئی انہوں نے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کی اس کے لئے خونی ٹکرائو بھی ہوا خوش قسمتی سے انہیں ڈاکٹر امبیڈکر سے لے کر کانشی رام تک مخلص لیڈروں کی رہنمائی ملتی رہی۔ ایمرجنسی کے بعد جنتاپارٹی نے جن سنگھ کو سیاسی قوت بخشی اور وی پی سنگھ کے جنتادل سے بی جے پی کاجنم ہواتو ہندوتو وادی طاقتوں کو سیاسی شناخت کے ساتھ اقتدار میں بھرپور حصہ داری کا موقع ملا وہیں وی پی سنگھ کے منڈل کمیشن نے او بی سی طبقات اور درج فہرست ذاتوں کے لئے بھرپور مواقع کے دروازے کھول دئیے۔ منڈل کمیشن کا واحد مقصد نوکریوں میں ریزرویشن تھا۔ مگر بات نوکری سے آگے بڑھ کر اقتدار میں حصہ داری تک پہنچ گئی یعنی دلتوں اور پسماندوں کو اقتدار میں کتنی حصہ داری ملی یہی وجہ ہے کہ بغیر روزگار دئیے لالو 15سال تک بہار پر قابض رہے۔ پسماندہ ذاتوں کے اتحاد نے برہمنوں کو دور پھینک دیایہی حال یوپی میں ہوا جہاں ملائم سنگھ کانشی رام اتحاد نے اعلی ذاتوں کا بوریہ بستر سمیٹ دیادونوں کے الگ ہونے کے بعد بھی کبھی ملائم تو کبھی مایاوتی اس اتحاد میں اقلیتوں کی شمولیت سے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے حتی کہ بابری مسجد انہدام کے فوری بعد ہونے والے ریاستی الیکشن میں بھی یوپی کے اندر دلتوں‘پسماندہ ذاتوںاور اقلیتوں کا اتحاد پولرائزڈ ہندوتو کو ہرانے میں کامیاب رہا۔یعنی منڈل کمیشن کی سفارشات کا نفاذ ہندستانی سیاست میں دلتوں اور پسماندہ ذاتوں کے سیاسی وسماجی غلبہ کا آغاز تھا۔ جس کا سب سے زیادہ فائدہ پسماندہ ذاتوں اور پھردلتوںکو ہوا۔ ان کے لیڈروں کی انانیت اور تسلط پسندی کے مزاج نے اس اتحاد کو دھیرے دھیرے کمزور کردیا مگر اس کے اثرات باقی رہے۔ ان کی پہلی ترجیح اپنی فیملی کے مفادات کا تحفظ تھا جس کی مثال لالو اور ملائم میں ویژن کی کمی‘ بھائی بھتیجہ واد کی لڑائی اور مسلمانوں کے سیاسی استعمال کے سبب محروم طبقات میں بے چینی ہونے لگی۔ کیونکہ اقتدار کے ثمرات وفواکہات مخصوص ذاتوں تک سمٹ گئے خاص طور سے یاد وپسماندہ ذاتوں کے نئے برہمن بن گئے تو منڈل کمیشن کی سفارشات کے بعد ہوئی سوشل انجینئرنگ کی گانٹھیں کمزور ہونے لگیں اس کسمساہٹ کو بی جے پی نے محسوس کرلیا۔ اس نے کئی سوشل انجینئرنگ کی چھوٹی چھوٹی ذاتوں سے گٹھ بندھن کیا۔ مودی نئے پسماندہ رہنما کے طور پر متعارف کرائے گئے جس کے پاس ویژن اور گجرات ماڈول تھا چنانچہ اس کے سحر میں پورا شمالی ہندوستان آگیا ۔  پسماندہ ذاتوں نے بڑھ چڑھ کر ووٹ دیا۔2014 اور پھر 2017 میں یوپی اس سے متاثر رہا لیکن لالو نے نئی سوشل انجینئرنگ سے بہار کو اس تسلط سے بچالیا مگر جلد ہی سحر کا دریا اترنے لگا۔ نعرے کھوکھلے ثابت ہونے لگے۔ بی جے پی چونکہ برہمن ذہنیت سےکنٹرول ہوتی ہے جس کی کمانڈ آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے جو منو سمرتی کی بنیاد پر آئین کی تشکیل کی حامی رہی ہے چنانچہ جلد ہی پسماندہ ذاتیں ٹھگاہوا محسوس کرنے لگیں‘ہندوتو کا جال ٹوٹنے لگا میڈیا کی بھرپور حمایت‘ راشٹر واد کا بخار اتارنے سے بچا نہ سکی جس کا اظہار گورکھپور اور پھول پور میں ہوا۔
ہندوتوواد‘ سیکولرازم صرف ڈھکوسلہ اور ڈھونگ ہے دراصل ذاتوں کے درمیان اقتدار کی جہد کو کہیں ہندوتو کہیں سیکولرازم کے نام پر لڑاجاتا ہے۔ مسلمان کو دونوں فورسزپنچنگ بیگ کی طرح استعمال کرتی ہیں۔ اس کے حصہ میں صرف زخم اور چوٹیں آتی ہیں۔ اسے دلت بھی مارتے ہیں اور پسماندہ ذاتیں بھی مظفرنگر کا فساد اس کی مثال ہے۔ دلتوں کو پیٹا جاتا ہے تو پوراملک کھڑاہوجاتا ہے مگر سونیا کویہ فکر لاحق ہے کہ کانگریس کو مسلم پارٹی بناکر پیش کیاجارہا ہے۔ راہل کا جنیو باہر آجاتا ہے۔2019کی لڑائی میں بھی مسلمان لگتا ہے پنچنگ بیگ ہی بنارہے گا اس کا سیاسی مراعات یافتہ طبقہ اشرافیہ حسب دستور کانگریس ودیگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا دم چھلہ بن کر نعرہ حق لگائے گا۔ اس کی جھولی مطلوبہ مراعات سے بھرجائے گی۔ لیکن مسلم کمیونٹی انہیں مسائل کے گرداب میں پھنسی رہے گی۔ یوز اینڈ تھرو کی سیاست کا شکاررہے گی۔ 2019کا الیکشن ذاتوں کے درمیان اقتدار کی جنگ کا سب سے بھیانک منظر پیش کرے گا اور مسلمان صرف جان ومال کی گارنٹی تک محدود کردیاجائے گا۔ اقتدار میں حصہ داری فی الحال خواب رہے گا کیونکہ ہمار ی قیادت اقتدار میں حصہ داری کی لڑائی کے لئے تیار نہیں ہے۔ ابھی اس کو کانفرنسوں اور مظاہروں سے فرصت کہاں کیونکہ طاقت کے یہی مظاہرے مراعات کا حصہ طے کرتے ہیں۔ قانون ساز اداروں میں لگاتار گھٹتی نمائندگی اسی ذہنی دیوالیہ پن کا نتیجہ ہے۔ شکوہ کس سے کریں اور کیوں کوئی دوسرا ہمارے منہ میں نوالہ نہیں ڈالے گا۔ دامادوں کے سے نخرے کیوں سہے گا۔ اب کچھ کر بھی لیا جائے۔

qasimsyed2008@gmail.com


0 comments:

हिंदी

अब तक 44 : एनकाउंटर के नाम पर हत्याएं जारी...


                                                                                           मसीहुद्दीन संजरी

उत्तर प्रदेश में योगी सरकार के पदभार संभालनें के बाद 20 मार्च 2017 से फरवरी 2018 करीब 11 महीने में लगभग साढ़े ग्यारह सौ इनकाउंटर हो चुके हैं जिनमें 44 कथित अपराधी मारे गए और डेढ़ हज़ार के करीब घायल हुए हैं। कानून व्यवस्था ठीक करने के नाम पर होने वाले इन इनकाउंटरों पर अब सवाल उठने लगे हैं। इनकाउंटरों के तौर तरीके, पुलिस की कहानी, इनकाउंटर पीड़ितों के ज़ख्मों आदि की पड़ताल करने पर सवालों का उठना लाज़मी भी है। सबसे बड़ा सवाल तो यह है कि मुठभेड़ की जाती है या हो जाती है’? मुख्यमंत्री योगी आदित्यनाथ के बयानों को देखें तो इस नतीजे पर पहुंचना मुश्किल नहीं है कि भुठभेड़ की जाती है और ऐसा कथित अपराधियों को चिन्हित कर के होता है। इसका मतलब यह कि आमतौर पर मुठभेड़ पूर्व नियोजित (निश्चित रूप से सभी मुठभेड़ नहीं) होती है। ऐसे में इन घटनाओं को मुठभेड़ माना भी जाए या नहीं? कानून की नज़र में इस तरह की मुठभेड़ में हाने वाली मौत नहीं हत्या है? उस कानून की नज़र में जिसके पास अपनी आंख नहीं होती। वह आरोपपत्रों और गवाहों की आंख से देखता है। बेगुनाहों की रिहाई के लिए संघर्ष करने वाले संगठन रिहाई मंच के एक प्रतिनिधि मंडल ने आज़मगढ़ जनपद में इसी तरह की मुठभेड़ों में मारे जाने वाले चार कथित अपराधियों के परिजनों और आसपास के लोगों से मिलकर जुटाए गए तथ्यों के आधार पर सवाल उठाते हुए इन्हें हत्या बताया है।
रिहाई मंच महासचिव राजीव यादव के नेतृत्व में आज़मगढ़ में मुठभेड़ में मारे गए छन्नू सोनकर, रामजी पासी, जयहिंद यादव और मुकेश राजभर के परिजनों और ग्रामवासियों से मिलने के बाद जो अंतरिम रिपोर्ट जारी की है वह चिंता उत्पन्न करने वाली है। छन्नू सोनकर को अमरूद के बाग़ से पुलिस वाले ले गए और जब वह देर रात तक घर नहीं वापस आया तो परिजनों ने उसके मोबाइल पर फोन किया। पता चला कि वह जहानागंज थाने में है। पिता झब्बू सोनकर और उसकी बहनों ने बताया कि अगली सुबह दो पुलिस वाले उनके घर पहुंचे और बताया कि छन्नू का जिला अस्पताल में इलाज चल रहा है। वहां पहुंचने के बाद परिजन को मुठभेड़ में उसके मारे जाने के बारे में पता चला। मुकेश राजभर की मां ने बताया कि उनका बेटा कानपुर मज़दूरी करता था। 15 दिन पहले पुलिस वाले उसके घर गए थे और गाली गलोज और मारपीट की थी और मुकेश का कानपुर का पता मांगा था। उसकी मां का आरोप है कि पुलिस वाले उससे रिश्वत में बड़ी रक़म मांग रहे थे। उसने बताया कि 26 जनवरी को 9 बजे पुलिस ने उसे कानपुर से उठाया था। दिन में बारह बजे रामजन्म सिपाही ने फोन कर के उसकी मां से पूछा था कि उसके पास कितना खेत है तो उसने उससे कहा था कि मुकेश को ले गए हो लेकिन मारना पीटना मत, लेकिन पुलिस ने उसको इनकाउंटर में मार डाला। मुकेश को सीने में एक गोली मारी गई थी। उस पर बंदी रक्षक को गोली मारने का आरोप पुलिस ने लगाया है। जयहिंद यादव के पिता शिवपुजन यादव ने बताया कि जयहिंद उनको साथ लेकर दवा लाने जा रहा था। सादे कपड़ों में कुछ लोगों ने उसे उठा कर बोलेरो में भर लिया और चले गए। उसके बाद सूचना मिली कि उसकी मुठभेड़ में मौत हो गई। उसे 21 गोलियां लगी

0 comments: