یہ خاموشی اچھے اشارے نہیں دیتی




قاسم سید 
نوٹ بندی کے بحران نے ہر اس شخص کو سڑ ک پر لا کھڑ کیا ہے جس کی آمدنی میں کالی کمائی دوربین لگا کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔پیسا بچا کر رکھنے والے لائن میں ہیں اور چھپا کر رکھنے والے سفید کرنے میں مصروف ہیں۔نوٹ بندی نے ان تمام مسائل کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے جنہوں نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے،سرجیکل اسٹرائیک بھی ذہنو ں سے محوہوگئی ،جبکہ سرحد پرپڑوسی ملک اپنی بزدلانہ کاروائیوں سے باز نہیں آرہا۔سرجیکل اسٹرائیک کے بعد سے اب تک 18جوان شہید ہوگئے۔ہر سوال سمٹ کر روز مرہ کی ضرورتوں کی بھول بھلیوں میں گم ہے، ہر شخص حیران پریشان سا ہے کہ وہ کل اپنے بچوں کے لئے کیا اور کیسے انتظام کرے۔ایسے ملک میں جہاں کروڑوں لوگوں کو دو وقت کی روٹی نصیب نہ ہوتی ہو انکی جیب سے ’’کالادھن‘‘ نکال کر بینکوں میں جمع کرانے کے لئے قطار میں کھڑا کردیا گیا ہے اور 2000روپئے بدلنے کے لئے پولس کے لاٹھیاں کھانے کے لئے مجبور ہیں مگر ضد اور انانیت کے لات و منات کو آوازیں گونگیں لگ رہی ہیں۔پھر بھی عوام صبر و تحمل کے ساتھ دیش کی ترقی ،کالا دھن کے خاتمہ،دہشت گردی پر ضرب اور نہ جانے کب آنے والے اچھے دنوں کے لئے لاٹھیوں کی ضرب برداشت کرنے کے ساتھ مسکرانے پر مجبور ہیں۔اقتدار کے حلقوں اور انکے حامیوں کی جانب سے نوٹ بندی یا بد انتظامی پر احتجاج کرنے والوں کو پاکستان پرست ،دہشت گردی کے حامی اور دیش دروہی تک کہا جارہا ہے۔سرکار کی کسی پالیسی پر نکتہ چینی دیش دروہ اور غدار وطن کی دہلیز تک دھکیل دیتی ہے۔ظاہر ہے کوئی ماتھے پر غدار ہونے کا ٹیگ لگا کر زندہ رہنا نہیں چاہے گا۔یہ آمرانہ جمہوریت ہے،اندرا گاندھی کے بعد ملک اسکا دوبارہ تجربہ کررہا ہے۔
نوٹ بندی کے ماحول میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کولکاتہ اجلاس پورے وقار، آن بان شان کے ساتھ ہوا اور بظاہر اس پر سرکار کے فیصلے کا کوئی اثر نظر نہیں آیا۔ایمانی حرارت والوں نے دل کی شمع روشن کیں اور اجلاس عام میں لاکھوں فرزندان توحید نے شرکت کی سعادت حاصل کی،مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کے لئے ہر قربانی کا عہد کیا ،علماء کرام کی تقریر دل پذیر کو غور سے سنا۔اس دوران سرکار کی طرف سے متنازع مبلغ ذاکر نائک کی تنظیم آئی آر ایف پر پابندی لگانے ،اسکے اسکولوں پر سرکاری کنٹرول اور کھاتوں کو منجمد کرنے کے احکامات کے ساتھ نائک کے خلاف انٹر پول کا ریڈ کارنر نوٹس جاری کئے جانے پر غور کی خبریں آئیں۔اگرچہ نائک پر ابھی الزامات طے نہیں کئے گئے ہیں۔ایک بنگلہ دیشی مشتبہ دہشت گرد کی طرف سے یہ جاننے کے بعد کہ وہ نائک کی تبلیغی ویڈیو سنتا تھا سرکار کے کان کھڑے ہوئے ورنہ بی جے پی سرکار کے ڈھائی سال کے وقفہ میںکبھی ایسی کوئی کاروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی طرف سے کوئی آواز اٹھائی گئی۔بورڈ کے اجلاس میں اسکا تذکرہ تک نہیں ہوا،بھوپال انکائونٹر میں جسے سواد اعظم فرضی سمجھتا ہے مارے گئے سیمی کے دہشت گردی کے مشتبہ ملزموں کے بارے میں بھی خاموشی اختیار کرنا بہتر سمجھا گیا۔یہ غالبا اس لئے ہوا کہ یہ سارے معاملات سیاسی ہیں اور بورڈ کے دائرے کار سے باہر ہیں۔گرچہ یہ لوگ بھی اسی شریعت پر عمل پیرا رہے ہونگے جسکے تحفظ کے لئے دسمبر 1972میں بورڈ عمل میںآیا تھا۔یہ ایک ایسا نمائندہ بورٖڈ سمجھا جاتا ہے جسکی مثال اپنی وسعت عمومیت اور مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کے لحاظ سے تحریک خلافت کے بعد نہیںملتی۔یہ بھرم آج بھی قائم ہے،اگر چہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ کئی مسالک و مکاتب فکر خاطر خواہ نمائندگی سے محروم ہیں اور مقاصد کی بآوری میں بھی بورڈ اب اتنا فعال اور متحرک نہیں رہا جس کی ہمیشہ توقع کی جاتی رہی ہے۔بہر حال قحط الرجال کے دور میں جو بھی ہے غنیمت ہے اور اسی سرمایہ افتخار کے سہارے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔کولکاتہ اجلاس میں سب کی نظریں اس لئے اس پر مرکوز تھیں کہ کوئی ٹھوس پیغام ملے گا،ملت طلاق ثلاثہ اور دیگر امور میں جن چیلنجوں سے دوچار ہے اس سے نمٹنے کے لئے رہنمائی کی جائیگی۔کئی قرار دادیں منظور کی گئیں۔مولانا رابع نے اپنے بلیغ خطبے میں کچھ باتوں کی طرف اشارہ کیا ،انکا یہ مشورہ دوسوں فیصد درست ہے کہ مسلمان حکمت و تدبر کے ساتھ آگے بڑھیں ،مسلک و مشرب سے اوپر اٹھ کر اتحاد امت پر توجہ دیں،ملک میں رواداری ،بھائی چارہ کا فروغ،مذہب کے تئیں پیدا غلط فہمیوں کے ازالہ اور تفہیم شریعت کے لئے جہد مسلسل ناگزیں ضرورت ہے۔
تین پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ دی جانے چاہئے ۔ایک تو یہ ہے کہ اس سلسلہ میں ناواقف لوگوں کے اشکالات رفع کئے جائیں اور انہیں مطمئن کیا جائے۔دوسرے عدالتی ضرورت پڑنے پر قانونی جدوجہد کی جائے۔تیسرے یہ کہ مسلمانوں کو عملی سطح پر مثالی نمونہ پیش کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ہوش کے بجائے جوش اور جلد بازی کی جگہ تحمل کا مظاہر کیا جائے۔طلاق کے مسئلہ پر جو اعتراضات کئے جارہے ہیںاس میں خاصا دخل نکاح اور طلاق کے مسئلہ کو صحیـح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔خود مسلمان بہت سے امور کو نظر انداز کرتے ہیں اسکی وجہ سے غلط فہمیاں پیداہوتی ہیں۔مسلمانوں کی غلطی شریعت کی غلطی سمجھی جاتی ہے،شاید یہ وہ امور ہیں جن پر ٹھوس کام کرنے کی ضرورت ہے ۔سوال یہ ہے کہ بورڈ بذات خود اس سمت میں کام کرنے کے تئیں کتنی سنجیدگی اور فعالیت کا مظاہر ہ کرتا ہے۔اسی کے ساتھ بورڈ کو سیاسی آلودگی سے بچانے کا بھی چیلینج ہے۔سیاسی طالع آزمائوں نے بورڈ کو اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے سیڑھی بنانے کی کوشش کی،جسے اکثر بورڈ کی برگزیدہ اور جہاں دیدہ قیادت نے ناکام بنا دیا۔ٹکرائو کا راستہ کبھی مفید نتائج پیدا نہیں کرتا،اشتعال اور ہنگامہ آرائیاں سمندری جھاگ کی طرح ہوتی ہیں۔ایک سوال یہ بھی ذہنوں میں پیدا ہوا جس پر بورڈ وکو غور کرنا چاہئے تھا کہ ہماری توقعات ،خواہشات اور عدالت میں پرزور دلائل کے باوجود خدانخواستہ یہ مقدمہ ہار جاتے ہیں ،عدالت کے رویہ اور حکومت کے تیوروں سے بھی یہ خدشات پیدا ہوتے ہے۔اگر کوئی ایسی ناخوشگوار صورتحال ہمارے نا چاہنے کے باوجود پیدا ہوجاتی ہے تب مسلمانوں کی حکمت عملی کیا ہوگی؟جو سرکار اپنے پل بھر کے آمرانہ فیصلہ کے نتیجہ میں نوے فیصد آبادی کو اس بات پر مجبور کردیتی ہے کہ وہ اپنی ہر جمع پونجی اس کے حوالے کردے ،وہ خواتین جو کبھی غیر ضروری طور پر گھروں سے نہیں نکلیں انہیں اپنے نقاب ہٹا ہٹا کر شناخت اور ثبوت دینے کے لئے مجبورکیا گیا ہو،دن ورات کے لئے لائن میں کھڑا کردیتی ہے اور قطاروں میں متعدد افراد کے مرنے پر بھی اسکے احساسات زندہ نہیں ہوتے اور عام آدمی اس پر احتجاج بھی نہیں کرسکتا ۔اسکے خلاف آواز اٹھانے والوں کو بلا توقف دیش دروہی تک کہا جارہا ہواور حکمراں جماعت نے طلاق ثلاثہ کو انتخابی ایشو بنا کر ’’مظلوم مسلم خواتین‘‘کو ہر حالت میں انصاف دلانے کا عہد کررکھا ہو اور خود وزیر اعظم یہی بات کہہ رہے ہوں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حالات کس حدتک سنگین ہیں۔نوٹ بندی کے حوالے سے سرکار کے آہنی ہاتھ مدارس کی گردنوں تک بھی پہنچ سکتے ہیں اور حکومت اپنی ضد پر اڑی رہتی ہے تو کونسے قدم ہونگے جو اٹھائے جاسکتے ہیں۔ہو سکتا ہے بورڈ نے ان پر غور کیا ہو مگر ابھی اسکا اظہار مناسب نہ سمجھا ہو۔ہم نے اپنی بد اعمالیوں ،شریعت سے دوری اور خدائی احکامات سے بغاوت کا طرز عمل اختیار کرکے جہاں برادران وطن کو اسلام سے متعلق شریعت قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کیا ہے وہیںاپنی عائلی و سماجی زندگی میں بھی کانٹے بچھا لئے ہیں۔آج جو بھی حالات ہیں اس میں سرکار اور اسلام و مسلم مخالفوں کا کتنا بھی دخل کیوں نہ ہو ہم خود کشی جیسے حالات پیدا کرنے کے لئے خود ذمہ دار ہیں۔اگر ہمیں خود اپنی حالت بدلنے کا احساس نہیں ہے تو خدا سے شکوہ کس لئے۔ہم خود کو مظلوم و مجبور سمجھ کر دوسروں سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری محرومیوں کا ازالہ کریں،مسائل کے حل کے لئے گداگری کا راستہ اختیار کریں،شاہوں کی چوکھٹ پر رکوع و سجود کریں اور اپنی ضرورتوں کے لئے ہاتھ پھیلائیں،مانگنے والوں کا جو انجام ہوتا ہے ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں۔سب اپنی انانیت کے خول میں مصروف ہیں،عقیدت مندوں کی فوج انکے ’’اعلی حضرت ‘‘پر انگلی اٹھانے والوں کی خبر لینے کے لئے تیار بیٹھی رہتی ہے۔جماعتی عصبیتیں خوار کررہی ہیں،دوسروں کو وسعت قلبی ،ذہنی کشادگی او ررواداری اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ اور خود قدم قدم پر عدم برداشت کا مظاہرہ متضاد رویہ کی نشاندہی کرتا ہے۔مصنوعی اتحاد کو زیادہ دنوں تک باقی نہیںرکھا جاسکتا،اگر آج ہم کسی پر زیادتی پر خاموش ہیں تو کل ہمارے اوپر زیادتی ہوگی تو کہیں سے صدائے احتجاج بلند نہیں ہوگی۔

qasimsyed2008@gmail.com

0 comments:

فری میسن کے بابل کا پہلا مسیحی صدر!



امریکا، فری میسن کا بابل اپنے پہلے عیسائی صدر کو خوشی، حیرت اور خوف سے دیکھ رہا ہے۔ جی ہاں، پہلا عیسائی صدر۔ کہتے ہیں کہ جوزف کینڈی بھی عیسائی تھے لیکن کسی قدر، اور بل کلنٹن بھی تھوڑے بہت عیسائی تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ پہلے پورے عیسائی صدر ہیں۔ 45 امریکی صدور، اوپر بیان کئے گئے دو صدور کو جزوی طور پر الگ کرکے، عیسائی نہیں تھے، مسیونک تھے اور ان میں سے اکثر بوھیمین گروو اور ہیل فائر کلب (آتش دوزخ کا کلب) کے رکن تھے جہاں شیطان کی پوجا ہوتی ہے، اور انسان بلی چڑھائے جاتے ہیں، کالے جادو کے عمل کئے جاتے ہیں اور شیطان سے مدد طلب اور وصول کی جاتی ہے اور یاد ہو گا کہ امریکا نے خاص طور سے مسلمانوں کے لئے جو میزائل بنائے ہیں ان میں سے ایک کا نام ہیل فائر ہے اور یہ معلوم کرنا بھی ضروری ہے کہ فری میسن یہودی مذہب کی تنظیم نہیں ہے، یہودی ایک خدا کو ماننے والے ہیں جو گمراہ ہو گئے جبکہ فری میسن وہ ہیں جنہوں نے شیطان سے اتحاد کیا۔ اصطلاحی معنوں میں نہیں، لغوی معنوں میں اور بابل سے جو جادو چلا، اسے انہوں نے ایسی ترقی دی جیسی عربوں اور یورپیوں کی بنا کردہ سائنس کو دی ہے۔
جادو اور فری میسن کا رشتہ پہلے دن سے ہے یعنی اڑھائی ہزار سال سے۔ فری میسن کے لوگ تب بھی خفیہ سوسائٹی کی شکل میں کوجود تھے اور سائنس نہیں، جادو کی مدد سے انہیں پتا چلا کہ اٹلانٹس کا گم شدہ ملک (براعظم) اٹلانٹک سمندر کے اس پار موجود ہے اور وہ ایک دن دریافت ہوگا اور وہاں سائنس، علم اور ٹیکنالوجی اتنی ترقی کرے گی کہ یہ نیا بابل دنیا پر حکومت کرے گا اور اس کے پاس بے شمار ہتھیار ہوں گے اور ساری دنیا اس سے ڈرے گی۔ اڑھائی ہزار سال پہلے ایسی کوئی سائنس نہیں تھی کہ انہیں امریکا کا علم ہوجاتا اور امریکا کیسا ہوگا، یہ جاننے کا کوئی تعلق تو سائنس سے ہے ہی نہیں۔ فری میسن اڑھائی ہزار سال سے یہ راز جانتی چلی آئی ہے چنانچہ چار صدی پہلے امریکا دریافت ہوا تو پورے یورپ سے بابلی ''تارکین وطن'' کا برین ڈرین امریکا میں ہوا۔ اور امریکا کی خفیہ لیکن کھلی ہوئی علامت کیا ہوگی، یہ بھی فری میسن نے طے کیا اور مصر کی آئسس دیوی یا مصر کی عشتار دیوی جسے بائبل نے طوائفوں اور ظالموں کی ماں لکھا ہے، کا مجسمہ بنا کراسے امریکا کے ساحل پر مجسمہ آزادی بنا کر نصب کیا۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا بت ہے جسے بنانے کا فیصلہ بھی فری میسن نے کیا، اس کی ڈایزائننگ، انجینئرنگ، کرافٹنگ سب بھی اسی نے کی۔ غور فرمائیے! طوائفوں کی ماں اور ظالموں کی ماں۔ امریکا کا کردار ان دو اصطلاحوں میں کیسے بیان کردیا گیا۔
اس نئے بابل کے بارے امریکی صدر اور اس نئی ریاست کے سارے بانی پیدائشی عیسائی تھے لیکن حضرت یسوع ، بائبل، آسمانی باپ، نیز باپ بیٹا روح القدس کے بارے میں جو عقائد رکھتے تھے، وہ نقل نہیں کئے جاسکتے۔ نقل کفر، کفر نہ باشد کے طور پر بھی اس لئے کہ یہاں ''نقل کفر، کفر ہی باشد'' کا معاملہ ہے ۔ یہ عیسائیت کے دشمن تھے اور ان کے خیالات خفیہ نہیں تھے۔ کتابوں میں سب لکھا ہے، شاید جلد ہی اس پر کچھ تحریر کرنے کا موقع ملے۔ ان فری میسن صدور نے امریکا کے ذریعے فری میسن کانیو ورلڈ آرڈر بنایا اور اسے نافذ کیا۔ نئے بابل کے پہلے عیسائی صدر کی آمد سے نیو ورلڈ آرڈر کو اگر زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ خطرہ ضرور لاحق ہوگیا ہے۔
امریکا کی اکثریت، بھاری اکثریت عیسائی ہے۔ گزشتہ رات جناب نجم سیٹھی نے کہا کہ اکثریت پرٹسٹنٹ عقیدے کی ہے لیکن انہیں کچھ غلط فہمی نہیں ہوئی۔ پروٹسٹنٹ (اپنے کئی فرقوں سمیت) اکثریت نہیں رکھتے البتہ امریکا کا سب سے بڑا مذہبی گروپ ہیں۔ یہ لوگ امریکا میں 40سے 41 فیصد کے درمیان ہیں۔ کیتھولک 20 سے 21 فیصد ہیں، پھر دوسرے عیسائی فرقے ہیں اور ان کے علاوہ سیاہ فام پروٹسٹنٹ نہیں، کیتھولک مسیحیوں کے ووٹ بھی لئے۔ لیکن یہ سارے مسیحی سفید فام تھے، ان میں لاطینی اور سیاہ فام شامل نہیں تھے۔ لاطینی ہسپانوی لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ ان میں وہ بھی ہیں جو امریکی ساحلوں پر ہسپانیہ کے قبضے کے وقت سے یہاں مقیم ہیں اور وہ بھی جو لاطینی امریکی ملکوں خاص طور سے میکسیکو سے آئے۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ پر فری میسن کا تسلط ہے اسی لئے وہ پہلے دن سے ٹرمپ کیخلاف سرگرم ہوگئی۔ مسیونک میڈیا، مسیونک سرمایہ دار، مسیونک کلچرل کلب سب نے ٹرمپ کیخلاف مضبوط اتحاد بنایا اور ڈالروں کی بوریوں کے منہ کھول دیے۔ امریکا کا شیطان صدر بش ری پبلکن پارٹی کا رکن ہے لیکن اس نے اپنی ہی پارٹی کے ٹرمپ کو ووٹ نہیں دیا، کس لئے؟ صاف ظاہر ہے، ٹرمپ فری میسن کو قبول نہیں، اس لئے۔ فری میسن کا امریکا میں سب سے بڑا گڑھ کیلے فورنیا ہے، یہاں سے ٹرمپ کو بری طرح شکست ہوئی۔ فری میسن کے زیر تسلط ہالی ووڈ بھی اسی ریاست میں ہے اور فری میسن ی وہ امپائر جو بچوں کی نہایت طلسماتی برین واشنگ کرتی ہے یعنی ڈزنی کارپوریشن اور ڈزنی لینڈ بھی یہیں ہیں۔ امریکا کے سارے شیطان کے ٹرمپ کے خلاف ہو گئے لیکن ٹرمپ جیت گیا ۔ ایک ہی برس میں فری میسن کی یہ دوسری شکست ہے ۔ پہلی شکست برطانیہ کا وہ ریفرنڈم تھا جس کے نتیجے میں برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو گیا ۔ اب کیا ہو گا۔
مختصر اشارے۔ سب سے اہم نیٹو کا مستقبل ہے ۔ امریکا اس کا زیادہ کفیل نہیں رہے گا اور نیٹو ممالک کو دفاع پر خود انحصاری بڑھانا ہو گی۔ اسرائیلی سرپرستی پہلے کی طرح نہیں ہو گی لیکن اس پر دباؤ بھی نہیں رہے گا۔ یوں فلسطینی ریاست (نام نہاد) کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے ۔ شام میں اوباما نے روس کو فری ہینڈ دیا تھا ۔ یہ فری ہینڈ جاری رہے گا لیکن اس فرق کے ساتھ کہ یہ اعلانیہ ہوگا کہ جس کی وجہ سے شہری آبادی پر بمباری کے خلاف یورپی یونین بھی دکھائی دینا بند کر دے گی۔روس کا خیال ہے کہ وہ دس لاکھ شہری ہلاک کر کے شام کا مسئلہ حل کرے گا ۔ اب اس کیلیے یہ ہدف حاصل کر ناآسان ہو جائے گا۔ سعودی عرب اور ترکی سے دوستی بحال بڑھانے کی کوشش ہو گی ، یہ کیسے کامیاب ہو گی جبکہ شام میں ٹرمپ روس کو فری ہینڈ دے گا، دیکھنے والی بات ہے۔ پاکستان سے قدرے لاتعلقی ہو گی جس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کے امکانات بڑھ جائیں گے کیونکہ ٹرمپ کا امریکا پاکستان پر مسلط ''ممی ڈیڈی گروپ ''کی پہلے جیسی سرپرستی نہیں کرے گا۔ امریکا اب تک پاکستان کی قومی سلامتی کا محافظ رہا ہے (ایک کمزور مگر سالم پاکستان) اب پاکستان کو دفاع پر توجہ دینا ہو گی۔ (امریکا بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے اثرات ایران پر بھی پڑے اس لیے یہ منصوبہ ملتوی والے خانے میں ہے)۔
امریکا کے اندر جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ امریکا کے سیاہ فام اور لاطینی لوگ دنیا کے سب سے بڑے جرائم پیشہ لوگ ہیں ۔ سیاہ فام شہری اس لیے کہ دورے غلامی میں ان پر بڑے ظلم ہوئے اور غلامی ختم ہونے کے بعد بھی ان سے نسلی امتیاز جاری رہا اور وہ ''جرم'' کا سہارا لینے پر مجبور ہو گئے لیکن لاطینی لوگ اس لیے بے رحم قاتل اور مجرم ہیں کہ جرم اور گناہ ان کے ''جینز''میں ہیں ۔ عالمی تجارتی ورلڈ آرڈر متاثر ہو گا اور کارپوریٹ کلچر زک لگے گی ۔
ایسا بظاہر نظر آ رہا ہے لیکن دو باتیں اور بھی ہیں ۔ ایک یہ کہ اسٹیبلشمنٹ ان کا کتنا ساتھ دے گی۔ ممکنہ، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنے کیلئے ٹرمپ اپنی پالیسی میں کچھ تبدیلی کریں، دوسری یہ کہ ہو سکتا ہے جوزف کینڈی کی طرح ٹرمپ کو بھی رستے سے ہٹا دیا جائے۔
ٹرمپ کے خلاف کیلیفورنیا میں سخت رد عمل آیا۔ یہ علاقہ شدادوں اور نمرودوں کی جنت ہے، یہاں ہر عمارت منارہ بابل ہے۔ ایک پیشگوئی کئی سال پہلے کی یاد آ رہی ہے کہ کیلے فورنیا امریکا سے علیحدگی اختیار کرنے والی پہلی ریاست ہو گی۔ واللہ عالم۔ بشکریہ روزنامہ "جہان پاکستان"

0 comments:

کرنسی پر پابندی سے عوام دہشت زدہ



نہال صغیر

ملک میں کرنسی کی منسوخی پر اپوزیشن کے احتجاج سے پارلیمنٹ تعطل کا شکار بناہوا ہے ۔حزب اختلاف کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں آکر بیان دیں ۔لیکن بے چارے وزیر اعظم خود میں اتنی اخلاقی جرات نہیں پاتے کہ وہ اپوزیشن کے تیز و تند زبانی حملوں سے اپنی حکومت کے فیصلوں کا دفاع کر پائیں ۔یہی سبب ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے باہر اپنی پیٹھ تھپتھپاتے پھررہے ہیں لیکن وہ پارلیمنٹ میں ملک کے سوالوں کے جواب کی ہمت نہیں جٹا پارہے ہیں۔صرف یہ دعویٰ کردینا کہ ان کا یہ قدم بدعنوانی اور دہشت گردی پر ایک سخت چوٹ ہے سے کام نہیں چلے گا ۔آپ جو کچھ کہتے ہیں وہ نظر بھی آنی چاہئے اور اسے ثابت بھی کیا جانا چاہئے ۔ ملک ہی نہیں دنیا کی نامی گرامی ہستیاں یہ کہہ چکی ہیں کہ کرنسی پر پابندی سے بدعنوانی پر قابو پانا ناممکن ہے ۔اس سے قبل نوے کی دہائی میں روس نے بھی اپنے یہاں ایسے ہی فرمان جاری کئے تھے اور اس کے بعد روس دنیا کے نقشہ پر متحدہ روس سے محض ایک ملک بن کر رہ گیا اور اس کی دنیا میں سوپر پاور کی حیثیت ختم ہو گئی ۔مودی کے بھکتوں نے نوٹ پابندی کو بدعنوانی اور دہشت گردی پر کراری چوٹ سے تعبیر کرنا شروع کیا تھا ۔حکومتی پیمانے پر اب سب جگہ وہ اشتہار نظر آرہا ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دہشت گردی اور بدعنوانی کی اس جنگ میں عام آدمی کا پیسہ محفوظ ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ وہ پیسہ محفوظ ہو کر ہی کیا کرے گا جب بروقت اس کی ضرورتیں پوری نہ کر سکے ۔
کولکاتا ہائی کورٹ کے جج نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ حکومت نے ہوم ورک کے بغیر ہی اتنا سخت اور اہم فیصلہ نافذ کردیا ۔کچھ لوگ کہہ رہے ہیں اب حالات قابو میں آرہے ہیں لیکن اب بھی بینکوں کے باہر قطار میں کوئی کمی نہیں آئی ہے ۔یہ اس عجلت کا ہی انجام تھا کہ اب تک ملک میں اقتصادی ایمرجنسی جیسی صورتحال ہے ۔بازار ویران ہیں اور بینکوں میں قطار ہے ۔جن لوگوں کو حالات قابو میں نظر آرہے ہیں شاید ان کے گھروں میں حکومت نے سہولیات فراہم کرادی ہوں گی تاکہ وہ بھکتوں کی طرح مودی مودی کی رٹ لگاتے رہیں ۔حکومت کے اشتہاروں میں دو دعوے نظر آرہے ہیں ایک تو بدعنوانی اور سیاہ دولت پر کنٹرول اور دوسرے دہشت گردی کا خاتمہ ۔لیکن پچھلے پندرہ دنوں میں ایک دو واقعات کے علاوہ کچھ ایسا نظر آیا ہے کہ لوگوں نے نوٹوں کے بنڈل کوڑوں پر پھینک دیئے ہوں۔جن واقعات میں نوٹوں کو ضبط کیا گیا یا بسوں سے باہر پھینکا گیا یا کوڑے میں ڈالا گیا ان کی تعداد کتنی ہے ۔ممکن ہے کہ یہ خود حکومتی کارندوں نے اپنے فیصلوں کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ہی کیا ہو۔عام طور پر جو خبریں آئی ہیں اور جو ہم نے بھی دیکھی اور محسوس کی ہیں اس میں جن لوگوں کے پاس کالی کمائی ہو سکتی تھی وہ پوری طرح مطمئن نظر آئے انہیں گھبراہٹ یا پریشانی نہیں ہے ۔کیجریوال نے بھی الزامات عائد کئے ہیں کہ ایسے سارے لوگوں اور خصوصاً بی جے پی اور ان کے قریبی لوگوں کی سیاہ دولت کو پہلے ہی جھٹکے میں سفید کردیا گیا ۔کیجریوال کے ان الزامات میں سچائی بھی نظر آتی ہے کیوں کہ نئے نوٹوں کے بنڈل کی تصاویر دو روز قبل سے ہی سوشل میڈیا پر نظر آرہے تھے اور بھی ایسے کئی شواہد ہیں جیسے کہ کسی بی جے پی لیڈر کی بیٹی کا نوٹوں ہاتھ میں لے کر فوٹو کھنچوانا اور مغربی بنگال کے بی جے صدر کا پارٹی اکاؤنٹ میں کروڑوں روپئے جمع کرانا ۔پریشان و تباہ حال تو وہ عام آدمی ہے جس کی اس ملک میں صرف ووٹ دینے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے قاتل کے انتخاب تک کی سہولیات دستیاب ہے ۔اس کے بعد کوئی اس کی خیر خبر لینے والا نہیں ۔حکومت کے اچانک احمقانہ فیصلوں سے اسے کئی دنوں تک بھوکوں رہنا پڑا ۔اس کے بچے ہسپتال میں بغیر علاج کے مرتے رہے ۔وہ لائین میں لگا مایوسی کی حالت میں دل کی حرکت کو کنٹرول نہیں کرپایا اور اپنی زندگی ہارتا گیا لیکن غریبوں کی حمایت کے دم بھرنے والے نتیش بابو بھی مودی کی حمایت کرتے رہے ۔شاید نتیش بابو کو وزارت عظمیٰ کی کرسی بہت قریب نظر آرہی ہے اس لئے وہ عوام کی فلاح اور ان کی بہتری کے بجائے کچھ لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا زیادہ ٹھیک سمجھتے ہیں ۔
یہ بات صاف ہو گئی کہ کرنسی پر پابندی سے کسی بدعنوان کی پیشانیوں پر کوئی بل نہیں آئے ۔اس کا مطلب یہ کہ انہیں اس فیصلہ سے کوئی فرق نہیں پڑا ویسے بھی امریکہ کے سابق وزیر اور ملکی ماہر معاشیات بھی کہہ چکے ہیں کہ سیاہ کمائی نقد کی صورت میں انتہائی کم ہوا کرتی ہے وہ فوراً لوگ غیر ملکی کرنسی سونا یا زمینات وغیرہ میں تبدیل کردیتے ہیں ۔مودی حکومت بھی سوئس بینک سے کالی کمائی واپس لانے کے وعدے پر آئی تھی اور اس دعوے کے ساتھ آئی تھی کہ صرف سو دن میں وہ اگر اسے واپس نہیں لائے تو انہیں پھانسی پر لٹکادینا ۔اب تو آٹھ سو دن سے بھی زیادہ بیت گئے ۔کیا کریں تو ملک کو ایسے حالات کے حوالے کردیا جائے کہ کوئی اس پر سوال نہیں کرپائے ۔اب وہی حالات ہیں کہ کوئی سوئس بینک کی بات نہیں کررہا ہے ۔ملک میں افراتفری کا ماحول ہے ۔حزب اقتدار سے تعلق رکھنے والے اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ جب بیس پچیس افراد ہی بینکوں کی لائنوں میں مرے تھے توایک صاحب کا کہنا تھا کہ لوگ تو راشن کی لائن میں بھی مرا کرتے ہیں ۔یعنی انہیں عوام کی موت پر کوئی افسوس نہیں ہے ۔
کرنسی بین پر اشتہارات میں جو دوسری اہم بات کہی گئی ہے اور جو آجکل ہاٹ کیک کی حیثیت اختیار کرگیا ہے کہ اس سے دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی حاصل ہو گی ۔یہ دہشت گردی اس بلا کا نام ہے جس کی وجہ سے دو نوں وقت فاقہ کرنے والا بھی پیٹ کی آگ اور اپنی ضرورتوں کو بھول کر حکومت کے پرفریب نعروں کا شکار ہو جاتا ہے ۔لیکن کیا کرنسی بین سے واقعی دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے ؟یہ بہت اہم سوال ہے لیکن اس کو عملی طور پر دیکھا جانا چاہئے ۔اس کی عملی شکل یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ایک مزاحمت پسند کی سلامتی دستوں کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے اس کے پاس سے دو ہزار کے نوٹ ملے ۔ہے نا حیرت انگیز بات ۔مودی حکومت اور ان کے بھکت تو اس طرح کادعویٰ کررہے تھے کہ نیا نوٹ گویا دہشت گردوں کی شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ جیسے ہی کوئی دہشت گرد اس نوٹ کو ہاتھوں میں لے گا وہ رڈار میں آجائے گا اور اس کی ساری پلاننگ ناکام ہو جائے گی اور حکومتی اہلکار یا خفیہ محکمہ کا کوئی فرد سدرشن چکر ہلاتا ہوا اس تک پہنچ جائے گا اور اس طرح بغیر کسی خون خرابے کے وہ جیل میں ہوگا ۔اسی لئے دوسرے دن ہی اکھلیش نے اس نوٹ کو لہراتے ہوئے کہا تھا کہ کیا اسکی نقل چھاپنا مشکل ہے ؟بے شک ایسا نہیں ہے اس کے دو دن میں ہی نقلی نوٹ بازار میں آنے کی بھی خبر ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ آخر وہ کون سے حالات ہیں جس کی وجہ سے یہ نوٹ دہشت گردوں کی پہنچ سے دور رہے گا ۔کل ملا کر حکومت کے اس احمقانہ فیصلہ اور اس کے طریقہ کار کی ایک لچر توضیح کے سوا اور کچھ نہیں۔یعنی کرنسی بین سے دہشت گردی میں کمی آئے یا نہ آئے لیکن عوام اس فیصلہ سے دہشت زدہ ضرور ہیں۔کہ پتہ نہیں کب سونا کو بھی پیتل سمجھنے کا فرمان جاری ہو جائے ۔

0 comments:

Media

میڈیا کی آزادی اور وزیر اعظم



نہال صغیر
 
پچھلے ہفتے دہلی میں پریس کائونسل آف انڈیا کے ایک پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی نے پریس کی آزادی کی وکالت کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ میڈیا پر باہری دبائو بالکل نہیں ہونا چاہئے ۔انہوں نے اس اسٹیج سے بہت ہی پیاری پیاری اور دلوں کو مسخر کرنے والی باتیں کیں ۔جیسے انہوں نے کہا کہ آزادی تحریر و تقریر بہت اہم ہے اس لئے میڈیا میں حکومت کی دخل اندازی نہیں ہو نی چاہئے ۔وزیر اعظم کی ان باتوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم لیکن ہم آج سے بیس پچیس روز قبل این ڈی ٹی وی پر یک روزہ پابندی کا حکومت کا فیصلہ دیکھتے ہیں جسے بعد میں عوامی دبائو یا میڈیا ہائوسز یا آزادی تحریر و تقریر کے علمبرداروں کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد واپس لے لیا گیا ،اس فیصلہ اور وزیر اعظم کے مذکورہ بیان میں کوئی مطابقت ہے ؟ہونا تو وہی چاہئے جو وزیر اعظم نے کہی ہے لیکن کیا ملک میں آزادی تحریر و تقریر کے علمبرداروں کو سہولتیں میسر ہیں ۔کیا ان کی راہوں میں مشکلات کھڑی نہیں کی جاتیں ؟کیا آج ان لوگوں کو نوازا نہیں جارہا ہے جو حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے کا کام کررہے ہیں ۔آخر این ڈی ٹی وی پر جو الزامات عائد کئے جارہے تھے اس میں سچائی کا عنصر کتنا تھا ؟یہ بات اب پردہ میں اخفاء میں ہے کہ این ڈی ٹی وی کو محض سچ بولنے کے لئے پابند کیا جارہا تھا ۔آج بھی معاملہ یہ ہے کہ اسے غیر اعلان شدہ پابندی کا سامنا ہے ۔مقامی پیمانے پر خفیہ طور پر اس کی نشریات کو معطل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ہمیں یہ بات کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے کہ وزیر اعظم کی باتوں پر گرفت کرتے ہوئے یہ کہا جائے  کہ ان کے بیانوںمیں دو رنگی باتیں اس عہدہ کو زیب نہیں دیتیں۔لیکن کہنا ہی پڑتا ہے ۔اگر یہاں میڈیا کو اور خاص طور سے سچ کو اجاگر کرنے والے میڈیا یا سچائی کے سفیروں کو پابند کیا جاتا رہے گا تو وزیر اعظم کے مذکورہ بیان کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟لیکن یہ بھی اپنی جگہ پر درست ہے کہ سچ بولنے والے اور ظالم بادشاہ کے سامنے بلا مبالغہ اس کا اظہار کرنے والے بھی ختم نہیں ہوں گے۔جیسے دو نومبر کو وزیر اعظم کے سامنے ان کی تقریر پر شکریہ ادا کرتے ہوئے انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر راج کمل جھا نے کہا اور برملا کہا ۔انہوں نے کہا ’’ریٹوئٹ اور لائیک کے سائے میں جواں ہوتی ہماری نسل کو پتہ نہیں کہ حکومت کی تنقید ہمارے لئے انعام ہے ‘‘۔ وزیر اعظم کاش! آپ نے جو کہا ہے اس پر آپ کی حکومت میں ایمانداری سے عمل ہوتا تو آج ڈھائی سال میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں وہ نہ ہوتے۔سچ بولنے والے آج خود جتنا تنہا اور بے سہا را محسوس کررہے ہیں شاید آج سے قبل کبھی ایسا نہیں تھا ۔لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر اعظم میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے اپنی پوری قوت صرف کردیں گے اور جو کچھ انہوں نے میڈیا کی آزادی کے تعلق سے کہا ہے اسے عملا ً ثابت کرکے دکھائیں گے!

0 comments:

ملک کا اقتصادی بحران حکومت کی بے حسی اور عوام کی بے بسی


نہال صغیر

بڑے نوٹوں پر مودی حکومت کی اچانک کارروائی سے ملک اقتصادی بحران میں گھر چکا ہے ۔لیکن بی جے پی اور ان کے وزیر اعظم ہندو ہردے سمراٹ نریندر مودی کہتے ہیں عوام مزے میں ہیں انہیں کوئی تکلیف نہیں ہے ۔جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پچاس سے زائد لوگ اس اقتصادی بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔ایسے ایسے ویڈیو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر نظر آرہے ہیں جنہیں دیکھ کر کبھی کسی شخص کی بے چارگی پر رونا آتا ہے کبھی حکومت اور حزب اقتدار کی بے حسی پر غصہ ۔مسٹر وزیر اعظم کہتے ہیں کہ اس سے کالادھن روکنے میں مدد ملے گی ۔پتہ نہیں ان کی باتوں میں کتنی سچائی ہے ۔ہم ایسے بہت سارے اصلاحات دیکھ چکے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود بدعنوانی اور کالی کمائی کا دیو مرتا ہی نہیں ہاں حکومت کے ایسے ناعاقبت اندیشانہ فیصلوں سے عوام میں موت کی تعداد میں اضافہ ضرور ہو رہا ہے ۔موجودہ نوٹ پر پابندی جس سے عوام اپنے آپ کو ٹھگا سا محسوس کررہے ہیں ۔آج ان کی ہی برسوں کی محنت کی کمائی کو بھیک کی طرح بینک کی لائین میں لگ کر لینا پڑرہا ہے۔لیکن سیاسی پارٹیوں نے بھی حکومت سے کوئی سخت باز پرس نہیں کی سوائے کیجریوال اور ممتا کے کوئی مودی حکومت کی احمقانہ فیصلوں کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔اب یہ خبر آرہی ہے کہ حکومت بڑے نوٹوں کی تبدیلی پر 24 ؍تک پابندی عائد کرسکتی ہے ۔یعنی عوام ایک اور مار جھیلنے کے لئے تیار رہیں ۔ابھی جو وہ اپنی خون پسینے کی کمائی بھکاریوں کی طرح ہی سہی تبدیل کروارہے ہیں وہ نوٹ 24 ؍نومبر کو ان کا نہیں رہ جائے وہ ردی کی طرح ہو جائے گا ۔کئی معاملات میں سو موٹو لینے والے سپریم کورٹ نے بھی غریب عوام کو مایوس ہی کیا ۔حالانکہ سپریم کورٹ اگر کرنسی بین پر پابندی نہیں بھی لگاتا جب بھی وہ حکومت کو کوئی سخت پیغام تو دے ہی سکتا تھا ۔لیکن یہ بات مسلسل دیکھنے میں آرہی ہے کہ عدلیہ سے عوام مایوس ہو تے جارہے ہیں ۔ایسے حالات میں آئندہ سال یوپی الیکشن میں عوام نے اگر خاموشی کے ساتھ مودی حکومت پر اپنا سرجیکل اسٹرائیک کردیا تو سمجھ لیجئے کہ ڈھائی برسوں میں عوام نے موجودہ حکومت کی ناقص پالیسی کے سبب جو تکالیف برداشت کیں ہیں یہ اس کا کفارہ ہو جائے گا ۔ورنہ جو بھگتنا ہم بھگت رہے ہیں وہ جانے کب تک جھیلنا ہو گا ۔اس سلسلے میں حزب اختلاف کو سخت فیصلے لینے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔اس کے بغیر کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
پورے ملک میں کرنسی بین کے بعد جو سب سے بڑی کوئی بات ہوئی ہے تو وہ پارلیمنٹ میں عوامی نمائندوں کے ذریعہ حکومت کو گھیرنے کی کوشش ہے ۔دوسرے دن بھی پارلیمنٹ ہنگاموں کی نذر ہو گیا ۔اس میں کلیدی کردار ممتا کی پارٹی کا ہے ۔ممتا خود بھی سادہ طرز زندگی گزارتی ہیں اور شاید یہی سبب ہے کہ وہ غریبوں کی زندگی حالات کو زیادہ بہتر طریقے سے جانتی ہیں ۔موجودہ کرنسی بحران میں بھی انہوں نے ہی سخت رویہ اپنایا اور ان کا ساتھ دیا ہے کیجریوال نے ۔کیجریوال نے تو بدعنوانی کے ایسے ایسے معاملات کا بھانڈا پھوڑ کیا ہے کہ اگر ملک میں ایماندار اور ذمہ دار نظام آزادانہ کام کررہا ہو تا تو اب تک کئی اہم افراد جیلوں کی ہوائیں کھا رہے ہوتے ۔لیکن یہاں معاملہ یہ ہے جو ملک کے لئے گھر اور خاندان چھوڑدینے کی بات کہہ کر عوام کا جذباتی استحصال کررہا ہے اس میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ خود آگے بڑھ کر کہے کہ میں جانچ کے دائرہ میں آنے کو تیار ہوں ۔لیکن وہ سیاست داں ہی کیا جو اس طرح کی اخلاقی جرات دکھائے ۔یہ جرات تو کیجریوال جیسا ہی کوئی سیاست داں دکھا سکتا ہے جس نے موجودہ سڑے ہوئے سیاسی نظام میں تبدیلی لانے کی جی توڑ کوشش کی ہے ۔لیکن ہمارا سیاسی نظام ہی سڑا گلا ہوا نہیں ہے بلکہ عوام بھی بقول کاٹجو کے احمق ہیں ۔اب تو اس کا فیصلہ کہ عوام احمق ہیں یا نہیں اتر پردیش کے انتخابات کے موقعہ پر ہو جائے گا ۔جیسا کہ بعض لوگ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ بی جے پی اتر پردیش کا انتخاب جیت جائے گی ۔یہ تو موجودہ حکومت کے کام کرنے کے انداز سے ظاہر ہو گیا ہے کہ اس کے پاس ہر موقعہ کے لئے الگ الگ فلمیں تیار ہیں جو موقعہ بموقعہ ریلیز ہو تی رہیں گی ۔عوام جب کسی ایک ایشو کو زیادہ اہمیت دینے لگیں گے تو دوسری فلم ریلیز کردی جائے گی جس میں الجھ کر وہ یہ بھول جائیں گے کہ بھوپال میں آٹھ بے گناہوں کا قتل عام کردیا گیا یا اس سے قبل مودی حکومت میں ٹیلی کام میں بد عنوانی کا بڑا معاملہ آیا تھا لیکن وہ ذاکر نائیک کے معاملہ میں دبا دیا گیا ۔آپ اطمینان رکھیں آئندہ بھی یہ حکومت اسی طرح عوام کو الجھاتی رہے گی ۔اگر اسے دکھوں اور موجودہ پریشانیوں سے نجات حاصل کرنا ہے تو اسے بیدار رہنا ہوگا ۔جیسا کہ کسی نے ٹیوٹ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی جیسے جاگے ہو ویسے ہی جاگتے رہنا ورنہ کسی دن یہ حکومت رات کے اندھیرے میں دستور ہند کو بھی تبدیل کردے گی اور آپ کچھ نہیں کر پائیں گے۔
کرنسی بین کا سب سے زیادہ نقصان جو عام آدمی کو ہوا ہے سو تو ہوا ہی ساتھ مودی حکومت نے بڑے بڑے صنعت کاروں کو فائدہ پہنچانے خواہ وہ بھاری قومی قرضے کی صورت میں ہو یا لاکھوں کروڑ کے ٹیکس کی معافی کی صورت میں اب انہوں نے اس کرنسی بین سے یہ کیا ہے کہ چھوٹے پیمانے کے کاروباریوں کی کمر توڑ دی ہے ۔چودہویں دن صورتحال یہ ہے کہ بازار سنسان پڑے ہیں اور بینکوں کی لائینوں میں عوام اپنے اخراجات کے لئے دو ہزار کی رقم کے لئے گھنٹوں کھڑے ہیں۔چھوٹی صنعتیں جو کہ پہلے سے ہی کساد بازاری کا شکار تھے بالکل ٹھپ ہو گئے ہیں ۔شروع میں جو لوگ مودی حکومت کی اس پالیسی کی حمایت کررہے تھے اب وہ بھی بددل ہوتے نظر آرہے ہیں ۔موجودہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے ڈر ہے کہیں ہندوستان معاشی طور پر دیوالیہ نہ ہو جائے ۔کیوں کہ کرنسی بین سے لوگوں کی اپنی برسوں کی کمائی یا تو بیکار ہو گئی یا پھر بینکوں میں جمع ہونے کی صورت میں وہ منجمد ہیں۔پیسہ قانونی ہو یا غیر قانونی لیکن جب وہ عام لوگوں کے پاس ہوتا ہے تو ملک میں معیشت کی شریانوں میں زندگی بن کر دوڑ رہا ہوتا ہے جس سے بازار میں رونق اور کارخانوں کی مشینوں کی کھٹ کھٹ سے زندگی کا احساس ہوتا ہے ۔لیکن جب یہ سارے اثاثے منجمد ہو جائیں اور عوام بھکاری بن جائے تو چھوٹی صنعتیں بند ہو کر بازار کی ویرانی اور کارخانوں کے سناٹے پن میں تبدیل ہو جاتے ہیں جیسا آجکل مودی حکومت کی احمقانہ پالیسی سے صورتحال پیدا ہو چکی ہے ۔حالات اتنے خراب ہیں کہ کوئی چھوٹے کارخانوں اور چھوٹے بازاروں کی سناٹوں اور ویرانی پر دھیان ہی نہیں دے رہا ہے ۔ایسے میں بس دعا کیجئے کہ جیسا کہ مودی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جنوری میں حالات بہتر ہو جائیں گے اور عوام کی مشکلات دور ہو جائیں گی ۔یعنی انتظار کیجئے کہ جنوری میں کوئی چمتکار ہو جائے گا اور سارے سناٹے اچانک دور ہو جائیں گے ۔شاید مہا بھارت کے دور میں سدرشن چکر گھومکر دشمن کا تیا پانچا کردیاکرتا تھا شاید مسٹر مودی اسی طرح کی کوئی چمتکاری شکتی کی آس لگائے بیٹھے ہیں ۔آپ بھی اسی آس میں بیٹھے رہیں کیوں کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ۔عوام کی اکثریت جو انتہائی مفلوک الحال ہے وہ اس کے علاوہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتے ۔بڑے لوگ تو امریکہ اور یوروپ کی منڈیوں میں اپنے بہتر مستقبل کی تعمیر کے لئے پر امید ہو بھی سکتے ہیں کیوں کہ فی الحال وہاں نریندر مودی جیسے کسی ایسے فرد کی حکومت نہیں ہے جو بغیر ہوم ورک کئے ہی عوام کے سر پر دہشت انگیز فیصلہ تھوپ دے اور پھر غیر ملک میں تفریح کے لئے چلا جائے۔ 

0 comments:

International

ظلمت یوروپ میں تھی جن کی خر د راہ بیں



         ڈاکٹرمحسن عثمانی ندوی

مسلمان جب دنیا میں سائنس ، صنعت اور تجارت کی بلندیوں پر پہونچ چکے تھے، اس وقت یوروپ قرون مظلمہ کے اندھیروں میں گھرا ہوا تھا، عالم اسلام کی ترقی کازمانہ یوروپ کی انتہائی پسماندگی کا زمانہ ہے، یوروپ کے لوگ ا س کو قرون مظلمہ کہتے ہیں یعنی تاریکی کی صدیاں ، لیکن یہ نام یوروپ کے ملکوں کے لئے تو بالکل درست ہے ، لیکن مسلمانوں کے شہروں کے لئے درست نہیں، کیوں کہ وہاں اس وقت تہذیب وتمدن کی روشنی پھیلی ہوئی تھی، ڈاکٹر فلپ ہٹی اور بہت سے دوسرے مغربی مصنفین نے اعتراف کیا ہے کہ جب لندن اور یوروپ کے دوسرے شہروں میں سڑکیں کچی ،انتہائی ناہموار اور دھول سے اٹی ہوئی ہوتی تھیں جن میں گڑھے ہوتے تھے اور، جن پر رات کے وقت اندھیرے میں سفر کرنا ناممکن تھا، اس وقت اسپین اور مسلمانوں کے دوسرے ملکوں کے شہروں میں سڑکیں کشادہ ، ہموار ہوا کرتی تھیں، جس کے دونوں طرف روشنی کا انتظام تھا، تاکہ رات کے وقت بھی قافلے اپنی گاڑیوں کے ساتھ بے خطر سفر کر سکیں۔ مغربی مصنفین نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس وقت قرطبہ ، غرناطہ اور اشبیلیہ اور بغداد وغیرہ شہروں میں ایسے کتب خانے موجود تھے جن میں ایک ایک لاکھ کتابیں مخطوطات کی شکل میں موجود تھیں، اور کتابوں کی خطاطی اور جلد سازی کی بہت سی دکانیں ہوا کرتی تھیں، اس وقت یوروپ کے لوگ اپنے ناموں کی حروف تہجی سیکھ رہے تھے، نہ وہاں کوئی صنعت تھی اور نہ تہذیب وتمدن کے مراکز ۔بغداد اور قرطبہ کے مہذب اور تعلیم یافتہ مسلمانوں میں اور لندن اور پیرس کے جاہل اور غیر مہذب باشندوں میں وہی فرق تھا جو ایک تعلیم یافتہ انسان اور ایک گڈریا اور چرواہے میں ہوتا ہے۔
یوروپ میں تہذیب وتمدن کا دور اس کی نشاۃ ثانیہRenaissance کے بعد آیا، یوروپ کی نشاۃ ثانیہ او ر بیداری کا دور پندرہویں صدی عیسوی کے بعد شروع ہوتا ہے، یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور علمی بیداری اوردور جہالت سے علم کی روشنی کی طرف واپسی کے اسباب حسب ذیل ہیں :
۱۔ سائنس اور طب اور دوسرے علوم کی عربی کتابوں کا داخل نصاب ہونا اور ان کے ترجمے اور اسپین میں اہل یوروپ کا تعلیم حاصل کرنا
۲۔ صلیبی جنگوں کے ذریعہ فلسطین اور دوسرے مقامات پر مسلمانوں کی تہذیب وتمدن سے واقفیت
۳۔ نئی دنیا یعنی امریکہ کی دریافت جس کا سہرا کولمبس کے سر باندھا جاتا ہے حالانکہ مسلمان کولمبس سے پانچ سال پہلے امریکہ کو دریافت کرچکے تھے
۴پریس کی ایجاد
اسلام نے اس وقت کی عیسائی دنیا کو بھی متاثر کیا تھا ۔ عیسائیت کا مذہبی انقلاب جو یوروپ میں مارٹن لوتھر کے ذریعہ آیا، اس کی وجہ بھی مسلمانوں کی مذہبی کتابیں تھیں، مارٹن لوتھر کو ریفارمیشن کا بانی کہا جاتا ہے، اس نے پروٹسٹنٹ کاایک باغی اور احتجاجی فرقہ قائم کیا تھا جو عیسائیت میں اصلاحات کاداعی تھا ۔ وہ جرمنی کا باشندہ تھا اور پادری کے عہدے پر فائز ہوا ،اس نے پوپ کی سخت مخالفت کی اور مروجہ عیسائیت پر تنقید کی ،اس نے آخرت میں نجات کے لئے چرچ کے معافی نامہ اور مغفرت نامہ کو تنقید کال نشانہ بنایا جس سے جرائم پیشہ لوگ فائدہ اٹھاتے تھے وہ سونے چاندے کے بھائو پادریوں سے مغفرت نامے اور جنت کے قبالے خریدتے تھے اور ’ رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘ کا مزہ لوٹتے تھے ۔ وہ سر سے پیر تک گناہوں میں ڈوب کر بھی خود کو جنت کا حق دار سمجھتے تھے ۔ مارٹن لوتھر نے نے اس مغفرت نامہ کو باطل قرار دیا وہ خود اسلامی تہذیب سے اتنا زیادہ متاثر تھا کہ آرتھوڈوکس کرسچن اس پر خفیہ طور پر مسلمان ہونے کا الزام لگاتے تھے۔اس نے گرجا گھروں کی بہت سی رسوما ت وبدعات کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔یوروپ میں اصلاح دین کی تحریک اسلام کے زیر اثر شروع ہوئی تھی ۔
ایک بات جو بالکل طے شدہ ہے اور جس کا اعتراف انصاف پسند مغربی مصنفین نے بھی کیا ہے ، وہ یہ کہ مسلمان برتر ثقافت اور تہذیب کے مالک تھے، اس حد تک کہ یوروپ کے لوگ بدن کی صفائی کے لئے صابن کے استعمال سے بھی واقف نہیں تھے،یہی صابن کا عربی لفظ ہے یورپی زبانوں میں’’ سوپ‘‘ بن گیا ہے  صلیبی جنگوں میں بیشمار عیسائی ملکوںکے باشندے شریک ہوئے تھے ، اس لئے کہ یہ ان کے نزدیک مقدس جنگ تھی، لیکن جب شام وفلسطین میں انھوں نے مسلمانوں کی تعمیرات اور معاشرت اور تہذیب کو نزدیک سے دیکھا تو انھوں نے ہر چیز میں مسلمانوں کی نقل کرنی شروع کی ، جیسے اب مسلمان یوروپ کی نقل کرنے لگے ہیں ۔اسلحہ سازی میں تفوق مسلمانوں کا اتنا زیادہ تھا کہ جب رات کے وقت صلیبی فوج کے لوگ آسمان سے اژدہوں کے مانند آتشی بان کو سروں پر گرتے ہوئے دیکھتے تو راہ فرار اختیار کرتے، اور کہیں پناہ لیتے اور ان کے پادری دعاوں میں مشغول ہوجاتے ۔
یونان کے لوگوں نے علم وحکمت میں بڑا نام پیدا کیا تھا، اور وہ حکمت وفلسفہ کے مینار سمجھے جاتے ہیں ، لیکن یونان کی تمام کتابیں اہل یوروپ تک مسلمانوں کے واسطے سے پہونچی تھیں، اور مسلمانوں نے یونان کے تمام علوم کا عربی زبان میں ترجمہ کیا تھا، ریاضی کا فن ہو یا فلکیات کا ، طبعیات کا ہو یا کیمیاء کا ، یا حیاتیات اور طب کا یہ تمام کتابیں عربی زبان میں تھیں، اور ان کتابوں سے یوروپ کے لوگوں نے اس طرح فائدہ اٹھایا کہ اطالوی اور دوسری مغربی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے، اور یہ ترجمے ایک طویل عرصے تک یوروپ کی جامعات میں پڑھائے گئے، اور پندرہویں صدی کے بعد جب یوروپ میں پریس کی ایجاد ہوئی تو مسلمانوں کی عربی کتابیں باربار چھپنے لگیں، ابن سینا کی القانون ، زکریا رازی کی الحاوی، ابو القاسم زہراوی کی التصریف، ابن رشد کی کلیات ، ابن زہر کی التیسیراور ابن الہیثم کی کتاب المناظر، اور بہت ساری دوسری کتابیں یوروپ کے اہل علم کے ہاتھوں میں پہونچیں اور بہت سی کتابوں کے پچاس سے زیادہ ایڈیشن نکلے، پریس کی ایجاد نے یوروپ کی نشاۃ ثانیہ اور بیداری اور نھضت میں بہت بڑا کردار اداکیاہے، پریس کے دور سے پہلے کاغذ سازی اگر مسلمان ملکوں میں نہ ہوتی تو پریس کی ایجاد کا کوئی فائدہ نہ ہوتا، مسلمان چونکہ قافلہ علم کے سالار تھے اس لئے کاغذ سازی کی طرف انھوں نے بہت توجہ کی تاکہ کتابیں لکھی جا سکیں،ایک وقت ایساتھا کہ یوروپ کے مختلف شہروں میں تقریباً ہر محلے میں کاغذ سازی کے چھوٹے چھوٹے کارخانے قائم تھے اور بہت سے شہروں میں اس کی حیثیت گھریلو صنعت کی ہوگئی تھی۔آج  یوروپ کے بہت سے کتب خانوں میں عربی مخطوطات ہزاروں کی تعداد میں ہیں جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا
                                                    مگر وہ علم کے  موتی  کتابیں  اپنے  آباء کی
                                                     جو دیکھیں ان کو یوروپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
بہت سے لوگ اس شعر کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مذہبی نوعیت کے مخطوطات ہوں گے جسے انگلینڈ کے لوگ اپنے کتب خانوں کے لئے کوہ نور ہیرے کی طرح  ہندوستان اور مشرقی ملکوں سے چرا کر لے گئے ہوں گے یہ خیال درست نہیں ہے ۔یہ عربی مخطوطات زیادہ تر سائنس طب اور عصری علوم سے متعلق ہیں یہ وہ کتابیں ہیں جو کسی زمانہ میں یوروپ میں پڑھی اور پڑھائی جاتی تھیں یہ وہ کتابیں تھیں جن سے یوروپ میں نشات ثانیہ  Renaissance کا آغاز ہوا تھا ۔
مغربی مصنفین آرنلڈ(sir Thomas Arnold) اور اسپین کے دانشور جیسوٹ ایندریز(jesuit Andriz)اور کئی دیگر مصنفین نے کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یوروپ کے لوگوں نے مسلمانوں سے عربی ہندسے سیکھے اور قدیم رومن ہندسے ترک کردئے، اور عربی ہندسے اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ جمع، تفریق، ضرب اور تقسیم جوریاضی کے چار بنیادی لوازم ہیں یہ چیزیں اندلس اور پھر یوروپ کے ملکوں کے باشندوں میں عام ہوگئیں ، یہ بات مغربی ملکوں کے فضلاء کے سمجھ میں آگئی تھی کہ ریاضی اور فلکیات اور طب اور دیگر سائنسی علوم کو سیکھنے کے لئے عربی جاننا ضروری ہوگیا ہے، چنانچہ عربی زبان صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ یوروپ کی عیسائی دنیا میں بھی عام ہوگئی، اسپین کے کلیساؤں نے بھی انجیل اور اپنی مذہبی کتابوں کے ترجمے عربی زبان میں کئے ، عربی کی اشاعت اور تعلیم اتنی عام ہوگئی تھی کہ یوروپ کے کئی ملکوں میںتعلیم یافتہ اس شخص کو سمجھا جاتا تھا جس نے عربی زبان سیکھی ہو اور عربی زبان کے علوم کو پڑھ لیتا ہو، اس طرح سے مسلمانوں کی سائنس کے علوم تمام اہل یورپ میں پھیل گئے ۔ سائنس کے ان علوم کو مسلمانوں نے دنیا کی دوسری تہذیبوں سے فائدہ اٹھا کر تیار کیا تھا اور انہیں ترقی دی تھی ، یہ سائنس کا تخم تھا ، یوروپ کے ملکوں میں موسم اچھا تھااور پانی وافر تھا اور مٹی بھی زرخیز تھی، چنانچہ یہ تخم خوب برگ وبار لایا اور اس کے شیریں ثمرات یوروپ کے ملکوں میں پھیل گئے اور پھر ان علوم وفنون کی یوروپ میں مزید ترقی ہوئی، مسلمانوں نے اصطرلاب ایجاد کیا تھا جس کی مدد سے ایک ۱۰۹۲ عیسوی کو انھوں نے ایک چاند گرہن کا مشاہد ہ کیا تھا، یوروپ کے لوگوں نے فلکیات کے علوم میں آگے چل کر اتنی ترقی کی کہ خود ان کے قدم چاند تک پہونچ گئے۔اب مسلمانوں کو سائنسی علوم کو مغرب سے لینے اور سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ پیغمبر اسلامﷺنے فرمایا ہے کہ حکمت وعلم مومن کی گمشدہ میراث ہے وہ جہاں بھی  ہو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے ۔ اب مسلمانوں کے لئے عزت وعظمت کی بازیابی کی یہی راہ ہے ۔

1 comments:

Muslim Issues

سائنس اور صنعت میں مسلمانوں کا عروج وزوال

پروفیسر محسن عثمانی ندوی
                                   


سائنس کائنات کے ا س علم کا نام ہے جو ہمیں مظاہر قدرت کے مشاہدے اور مطالعے سے
حاصل ہوتا ہے، مظاہر قدرت کی تین بڑی قسمیں ہیں: ایک تو وہ مادی مظاہر قدرت ہیںجو ہر وقت مشاہدے میں آتے ہیں، جیسے زمین، آسمان، چاند، سورج اور اجرام فلکی ، پہاڑ اور نباتات وغیرہ وغیرہ ۔اور دوسرے وہ مظاہر قدرت ہیں جن کا تعلق نفس انسانی اور جسم انسانی اور حیات سے ہے، اور تیسری قسم میں انسان کے ذہن وشعور میں پید ا ہونے والے افعال واعمال ہیں، سائنس مظاہر قدرت کے اندر ایک نظم (order)کی تلاش کا نام ہے، یہ نظم ہمیشہ یکساں رہتا ہے، اور جو کبھی منقطع نہیںہوتا سائنس اسی نظم کے دریافت کا نام ہے، یہ نظم ایک جوہر میں ، ایک سالمہ میں ، ایک کرسٹل میں ، اور برف کے ڈالے میں اور اجرام فلکی میں موجود ہے، اسی نظم کے جاننے کا نام سائنس ہے، اور یہ نظم اتنا جچا تلا ہوتا ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، اسی نظم کو دریافت کرنے کے بعد ریاضیاتی فارمولے تیار کئے جاتے ہیں، سائنس کی تمام حیران کن ترقیاں اسی نظم کو دریافت کرنے کی وجہ سے رونما ہوئی ہیں، انسان ان مظاہر قدرت پر جتنا غور کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور وہ پھر اس کی علت دریافت کرنا چاہتا ہے، اور اگر عقل یہاں پر ٹھوکر نہ کھائے تو ایک سائنس داں خدا کے وجود کا اقرار کر لیتا ہے، اسی لئے اس عہد کے ایک بڑے شاعر نے اپنے انداز میں یہ بات کہی ہے:
                                         کئی بار اس کی خاطر ذرہ ذرہ کا جگر چیرا
                                         مگر یہ چشم حیراں اس کی حیرانی نہیں جاتی
اسی نظم کو سمجھنے کا نام سائنس ہے اور اس کے عملی اطلاق کا نام ٹکنالوجی ہے، جدید عہد میں ٹکناجولی اور انجینئرنگ کے تمام کمالات اسی سائنس کے مرہون منت ہیں، یہ نظم جس طرح مادہ کے تمام مظاہر میں اور اوصاف قدر ت میں پایا جاتا ہے، وہی ایک زندہ جسم انسانی ا ور حیوانی میں بھی کارفرما ہے، جسم انسانی اور حیوانی کے تمام اعضاء اور جوارح اس کے تمام خلیات اور اس کے تمام اعضاء رئیسیہ اسی نظم کے قانون کے تحت کام کرتے ہیں، ہضم کے اعضاء، خون اور گوشت اور ہڈیوں کے ساخت کے ا ندر بھی ،زخموں کا اندمال اور توالد وتناسل سب چیز کے اندر یہی قانون نظم کارفرما ہوتا ہے، جیسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظم اور قانون کسی بلند وبرتر ذہن کی حکیمانہ تخلیق کی کارفرمائی ہے، اور اس کی حکمت تخلیق ذرہ ذرہ میں جلوہ فرما ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں ایک سائنس داں اپنی عقل کو استعمال کرکے خدا کے وجود اور مذہب تک پہونچتا ہے، قرآن میں خدا کے وجود کی یہی نشانیاں ہر جگہ بیان کی گئی ہیں، ایک جگہ قرآن میں ہے’’پیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میںاور دن اور رات کے اختلاف میں عقلمندوں کے لئے خدا کی نشانیاں ہیں‘‘۔دوسری جگہ قرآن میں ہے’’آسمان اور زمین میں مظاہر قدرت کا مشاہدہ کرو‘‘۔قرآن اللہ تعالی کا قول ہے اور یہ پوری کائنات اللہ تعالی کا عمل ، جس طرح سے قرآن میں اللہ تعالی کی نشانیاں (آیات )ہیں اسی طرح سے یہ پوری کائنات اللہ تعالی کی نشانیوں کا مجموعہ ہے، قرآن کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے، اور کائنا ت کی آیتوں کو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے، اشیاء کی حقیقت اور ماہیت کا علم سائنس ہے، قرآن میں ہے وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء  کُلَّہَا(سورۃ بقرہ :۳۱)‘‘ یعنی آدم کو تمام چیزوں کے  اسماء بتائے گئے ، اور مفسرین نے اور خاص طور پر امام رازی نے لکھا ہے کہ یہاں اسماء سے مراد ہر شے کی حقیقت اور ماہیت کا علم ہے، اور اسی کا نام سائنس ہے۔
سائنس سے متعلق کوئی بھی گفتگو ہوگی اس میں بنیادی چیز خو د سائنس کو سمجھنا ہے، سائنس کسی شیء کے پیدا کرنے یا ایجاد کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ قدرت کے پوشیدہ رازوں کو جاننے کا نام ہے، مثال کے طور پر جب سے اس کائنات کی ابتداء ہوئی ہے پانی ہر انسان کی ضرورت ہے اور وہ اس کو ہمیشہ استعمال کرتا آیا ہے ، لیکن یہ کہ پانی دو حصہ ہائڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن سے مل کر بنتا ہے ، یہ ایک سائنسی دریافت ہے، سائنس کی دریافت کے ذریعہ ہمیں اللہ تعالی کی ربوبیت کا تفصیلی علم معلوم ہوتا ہے، سورج کا زمین سے کیا فاصلہ ہے، زمین کی گردش کی رفتار کیا ہے ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے ، سبزہ وگل کہاں سے آئے ہیں ، بارش کیسے بنتی ہے، بادل کہاں سے آتے ہیں، اور کیسے ہوا کے دوش پر سوار ہوکر دور دراز کے علاقوں میں برستے ہیں،نباتات کیسے پیدا ہوتے ہیں انسان کا نظام ہضم کیا ہے   انسان کا علم ان تمام تفصیلات کے بارے میں جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی وہ اللہ تعالی کی ر بوبیت کے نظام پر حیرت کرنے لگے گا، اور اس کا رواں رواں شکر گذاری کے جذبہ سے لبریز ہوجائیگا۔اور پھر یہ خو ش رنگ اور خوش ذائقہ پھول اور پھل اور غلے اور درختوں کی پتیاں ان ساری چیزوں کے بارے میں جتنا علم انسان کو حاصل ہوگا، اتناہی اسے اپنے خالق اور مالک سے محبت  زیادہ ہوگی اور خشیت بھی زیادہ ہوگی اسی لئے قرآن میں آیا ہے: اِنّما یٍٍَخشَی اللّہَ مِن عِبَادِہ العلمائُ‘ یعنی اللہ کے بندوں میں  اہل علم اللہ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں‘ اور قرآن میں ہے، ’’ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُم مَّا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاًً‘ یعنی اللہ نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزیں پیدا کیں ‘جب تک انسان مظاہر فطرت کی پرستش کرتا تھا، اس وقت تک وہ اس کائنات کی سب سے اہم مخلوق نہیں بن سکا تھا، کائنات کے بارے میںاس کی تحقیق اور دریافت کا جذبہ تھا جس نے انسان کے اندر فکری اور علمی انقلاب برپا کردیا۔سولہویں صدی عیسوی سے پہلے مسلمان علم کے ہر میدان میں سب سے آگے اور استادی کے مقام پر تھے ، ایجادو تحقیق اور ارتقا کا سلسلہ جاری تھا ،مسلمانوں کے دور میں سائنس مشاہدات اور تجربات کی کسوٹی کے اہم مرحلہ سے گذری ،کتابیں لکھی گئیں،آج بھی دنیا میں مختلف علوم وفنون میں اسلامی مخطوطات کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہے یہ سب عربی زبان میں ہیں۔اس سے کئی گنازیادہ وہ کتابیں تھیں جو مرورایام سے ضائع ہوگئیں۔پہلے عربی زبان صرف مذہبی تعلیم کی زبان نہیں تھی بلکہ اپنے اپنے زمانے کے عصری علوم کی زبان بھی تھی۔دنیا میں علوم وفنون کی ترقی میں عربی زبان نے کلیدی رول اداکیا ہے۔ جارج سارٹن نے تاریخ سائنس کے نام سے جوکتاب لکھی ہے اس میں ایک ہزار مسلم سائنس دانوںکا تذکرہ ہے ، اس نے مسلمانوں کے سائنسی کارناموں کا اعتراف کیا ہے ،فواد سیزگین نے اپنی کتاب میں بے شمار مسلم سائنس دانوں کا تذکرہ کیا ہے ،کیمیاء ،طب اور فلکیات اور ریاضی ہر میدان میں مسلم سائنس دانوں اور ان کے کارناموں کا تذکرہ ہے ، یہ مسلمان جس موضوع پر کام کرتے تھے اس کا پورا حق ادا کرتے تھے ان کا اندازسطحی نہیںہوتا تھا ، یورپ کے لوگوں نے مسلمانوں کے علم کو لیا، اور اس میں انھوں نے اتنی زیادہ ترقی کی کہ مسلمانوں کو شاگردی کے مقام سے بھی نیچے تک پہونچا دیا، ضرورت اس بات کی تھی کہ مسلمان دوبارہ سائنسی علوم کو یورپ والوں سے لیتے ان کا مقابلہ کرتے لیکن ہوا یہ کہ یہ سائنس مسلمانوں کے سامنے ملک گیری اور استعمارکے جلو میں آئی، اس لئے مسلمانو ں کو استعماری طاقتوں سے نفرت ہوئی ، اور یہ نفرت ہونی بھی چاہئے تھی، لیکن مسلمانوں کے منفی رویے کی وجہ سے یورپ کی زبانیں جن میں یہ سائنسی علوم تھے مسلمانوں کے لئے اجنبی رہیں، اوربعد میں اگر مسلمانوں نے یہ زبانیں سیکھیں بھی تو انھوں نے غلطی یہ کی کہ ادب اور تہذیب حاصل کرنے کے لئے سیکھیں ، شیکسپیر اور برنارڈ شاکو پڑھنے کیلئے سیکھیں، چنانچہ سائنس اور ٹیکنا لوجی میں مسلمان ملک مغربی طاقتوں سے اتنے زیادہ پیچھے ہوگئے کہ ان دونوں میں کو ئی مقابلہ نہ تھا، پوری دنیا میں مسلمانوں کی شکست اور زوال کا یہی بنیادی سبب ہے، دوبارہ سائنس کی طرف قدم بڑھانے کے لئے یہ ضروری تھا کہ مسلمان خود اپنی تاریخ سے واقف ہوں اور یہ دیکھیں کہ ان کے اسلاف نے سائنس کے مختلف شعبوں میں کیسے محیر العقول کارنامے انجام دئے ، اسی مقصد کے لئے اس کتاب میں ان مسلمان سائنس دانوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جن سے خو د یورپ نے استفادہ کیاتھا۔اور سائنس کے مختلف شعبوں میں مسلمانوں کی عظیم الشان خدمات کا تذکرہ بھی اس کتاب میں موجود ہے ۔  ( مقدمہ کتاب جو انسٹی ٹیوٹ آف ابجکٹیو اسٹڈیز دہلی کی طرف سے زیر طبع ہے)

0 comments:

خود غرض متوسط طبقہ


تحریر: سی۔ رام منوہر ریڈی

ترجمہ: شمس الرب

بھارت کے متوسط طبقہ نے انیسویں صدی کے اواخر میں تحریک آزادی کا بیج بویا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک، اس طبقہ نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔ بھارت کی آزادی کی راہ میں اس طبقہ کے افراد نے جیلوں کو بھرا۔ گرچہ یہ طبقہ تقسیم اور اس کی ہولناکیوں کو روک نہیں پایا لیکن آزاد بھارت کو دستور ہند کی شکل میں ایک منفرد دستاویز عطا کیا۔
آزادی کے بعد، یہ متوسط طبقہ ہی تھا جس نے اساتذہ، اطباء، انجینئرز، وکلاء، منتظمین اور دیگر پیشہ وروں کی شکل میں "پروجیکٹ انڈیا" کے معماروں کو پیدا کیا۔ گرچہ یہ ایک ناقص پروجیکٹ تھا اور اس کے تعلق سے شدید اختلافات تھے، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے ان خادموں کو ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے پر فخر تھا۔
متوسط طبقہ کی سرگرمی
حالیہ دہائیوں میں چیزیں تبدیل ہوگئی ہیں۔ 1990 کی دہائی سے اس طبقہ نے خود غرضانہ رویہ اپنایا شروع کر دیا۔ اس وقت 1947 کی بنسبت اس طبقہ کی جسامت و شکل کئی گنا بڑی اور بے ہنگم ہو گئی تھی۔ اب وہ دن لد گئے جب اس طبقہ کو یہ احساس تھا کہ یہ ملک، لاکھ اختلافات کے باوجود، ایک ہے، یہاں بسنے والے ہر فرد کو یکساں حقوق حاصل ہیں اور ترقی کی راہ میں کوئی پیچھے نہیں چھوٹنا چاہئے۔ اب متوسط طبقہ "جھنڈا بردار قومیت" کا لبادہ اوڑھے اپنے آپ میں مگن ہے۔
عوامی سرگرمیوں کو قیادت فراہم کرنے والا متوسط طبقہ اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ آخری مرتبہ بھارت کے متوسط طبقہ نے دسمبر 2012 میں دہلی میں واقع ہونے والے روح فرسا آبروریزی کے حادثہ کے بعد عوامی احتجاج میں شرکت کی تھی۔ اس کے نتیجہ میں ایک نیا قانون بنا۔ لیکن دسمبر 2012 کے احتجاج میں اس طبقہ کی شرکت محض ایک استثناء ہے۔ مزید برآں یہ کہ اس احتجاج میں زیادہ تر عورتیں سڑکوں پر اتری تھیں۔ فی الحال، متوسط طبقہ کی سرگرمیاں ہنگامی امور تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں اور ان کا دائرہ کار بھی آس پاس، محلہ اور شہر تک سمٹ گیا ہے۔
یہ ایک سنجیدہ حقیقت ہے کہ متوسط طبقہ کے اثریااس کی سوچ و فکر ان کے نئے الیکٹرانک سامان، اگلی چھٹی، نئی کار اور نئے گھر تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
ایک سطح پر، بھارت کا متوسط طبقہ اپنے طبقہ کے ماوراء دنیا سے مسحور ہو کر رہ گیا ہے۔ دوسری سطح پر، یہ طبقہ جارحیت پسندانہ قومیت کا مظاہرہ کرتا ہے اور تعدد پر مبنی قومیت کے خیال سے حد درجہ نفرت کرتا ہے۔
پانچ سو اور ہزار کے کرنسی نوٹوں کو غیر قانونی قرار دئے جانے کے ابتدائی دنوں کے دوران، متوسط طبقہ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہاں میں ہاں ملایا۔ یہ طبقہ 'عظیم تر مفاد کے لئے تکلیفوں کو برداشت کرنے پر راضی برضا تھا۔ لیکن یہ طبقہ بھارت کے غیر منظم شعبہ سے جڑے ہوئے لوگوں کی پریشانیوں کے تئیں بے حس نظر آیا۔ اسے یہ احساس نہ ہو سکا کہ بینک سہولتوں سے محروم دیہاتی باشندے، نقدی کی شکل میں اپنی جمع پونجی رکھنے والے اور اس طرح کے دیگر لوگوں کا کیا ہوگا؟ یہ لوگ اپنے شب و روز کیسے کاٹ پائیں گے؟
آج کل متوسط طبقہ کے مسائل و خدشات کا پرزور اظہار سماجی میڈیا ہی پر ہوتا ہے۔ ان سب میں حد درجہ نفرت بھری رہتی ہے۔ غیظ و غضب سے بھری ان آوازوں کا نشانہ مذہبی اقلیتیں اور "دیش دروہی" ہوتے ہیں۔ بسا اوقات، کچھ حد درجہ بے باک تبصروں میں ذات پات کا زہر بھی بھرا رہتا ہے۔
بھوپال کی مثال
بطور مثال، دسمبر آخر میں مبینہ طور پر بھوپال مرکزی جیل توڑ کر اور ایک جیل محافظ کو مار کر فرار ہو جانے والے آٹھ مسلم قیدیوں کے انکاؤنٹر پر غور کیجئے۔ ایک یا دو دہائی پہلے اگر قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوتے اس طرح کے مشتبہ حالات میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا انکاؤنٹر ہوا ہوتا تو دستور ہند کے ذریعہ عطاکردہ حقوق سے واقف متوسط طبقہ ضرور اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتا۔
لیکن اب نہیں!
شہری آزادی کی تنظیموں اور ایک یا دو سیاسی پارٹیوں کی طرف سے اکا دکا بیانات سامنے آئے، اور بس! رہی بات میڈیا کی، تو کچھ ہی اخبارات نے سخت اداریے لکھے یا اپنے رپورٹروں کو سچ جاننے کے لئے بھیجا۔ 'دی ہندو جیسے اخبارات جنہوں نے بڑی عرق ریزی اور عمدگی کے ساتھ جھوٹ کا پردہ فاش کیا، آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ٹی وی چینلوں کی خاموشی بہرا کر دینے والی ہے۔
بجائے اس کے کہ اس انکاؤنٹر کی مذمت کی جاتی، الٹا سرکاری کہانی پر سوال کھڑا کرنے والوں پر ملامت کے تیر برسائے گئے۔ 31 اکتوبر کو ٹویٹر پر وارد ایک پوسٹ یوں تھا: "لوگ انکاؤنٹر کے حقیقی یا فرضی ہونے کی بابت سوال کیوں اٹھا رہے ہیں؟ دہشت گرد جہاں کہیں بھی ہوں انہیں مار ڈالنا چاہئے۔" اسی طرح آن لائن پورٹل اسکرول ڈاٹ ان پر شائع شدہ سرکاری کہانی پر سوال کھڑا کرنے والے ایک مضمون پر ایک مراسلہ یوں تھا: " سیمی کے یہ قانون پسند دہشت گرد ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کے پیسوں کی بدولت قائم ایک انتہائی محفوظ جگہ میں سرکاری مہمانوں کی طرح رہ رہے تھے، اور تمہیں یہ سب ٹھیک لگ رہا ہے؟ ان لوگوں کو تو بہت پہلے ہی گولی مار دی جانی چاہئے تھی۔"
بھارت کی آن لائن آبادی کم ہے اور سماجی میڈیا پر موجود افراد کی تعداد اس سے بھی زیادہ کم ہے۔ لیکن سماجی میڈیا پر موجود اس آبادی کے پاس غیر متناسب طاقت ہے۔ یہ جو کہتی ہے وہ سیاسی گلیاروں میں گونجتی ہے۔ بدلے میں سیاسی گلیاروں سے آنے والی آوازیں اسی سماجی میڈیا کی بازگشت ہوتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سماجی میڈیا پر موجود افراد کی اکثریت متوسط طبقہ سے تعلق رکھتی ہے۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے جب قیدیوں کے قتل پر متوسط طبقہ نے چپی سادھ لی ہو۔ اپریل 2015 میں، تلنگانہ میں پانچ مسلم قیدیوں کو جب کہ وہ ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے ایک قید خانہ سے دوسرے قید خانہ کی طرف لے جائے جا رہے تھے، پولس نے گاڑی کے اندر ہی مار ڈالا تھا کیونکہ مبینہ طور پر ان میں سے ایک قیدی نے ایک پولس والے کی رائفل چھیننے کی کوشش کی تھی۔ (اس کے کچھ ہی ہفتہ پہلے اسی صوبہ میں دو مزید واقعات رونما ہوئے تھے جن میں سیمی کے دو کارکنان اور تین پولس والوں کی جانیں گئی تھیں۔) اس کے بعد، کچھ اخبارات نے کچھ سوالات کھڑے کئے، کچھ بیانات آئے اور ایک صوبائی سطح کی خصوصی تفتیشی ٹیم مقرر کی گئی۔ اس کے بعد سناٹا! خصوصی تفتیشی ٹیم بھول بھلیاں کی گردش کرتی رہی ۔کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ معاملہ جب مسلمانوں کا ہوتا ہے تو اکثر و بیشتر ردعمل یہی ہوتا ہے: "مجھے کیا فرق پڑتا ہے؟!"، " یہ لوگ اسی کے مستحق ہیں۔"
ایسا نہیں ہے کہ نیٹ پر صرف پیشہ ور شرانگیز ہی زہر اگل رہے ہیں۔ کسی بھی انگریزی اخبار یا میگزین پر جائیے اور بھارتی مسلمانوں کے تعلق سے کسی اسٹوری پر ہونے والے تبصروں کو پڑھئے۔ آپ ان تبصروں کو پڑھ کر ملک کے مستقبل کے تئیں ناامید ہو جائیں گے۔روزنامہ 'دی ہندو میں 2 نومبر کو شائع شدہ اسٹوری "سیمی کارکنان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا: عینی شاہدین" پر ہونے والے آن لائن تبصرے اسی طرز فکر و عمل کی نمائندہ مثالیں ہیں۔
اقلیت مخالف نظریہ بوتل سے باہر
وقت آگیا ہے کہ متوسط طبقہ (ہندو) کے اپنے ساتھی شہریوں کے متعلق خیالات پر لیپاپوتی کرنی بند کی جائے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اقلیت مخالف نظریہ متوسط طبقہ کے اندر سرایت کرتے کرتے ایک زندہ و جاوید حقیقت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ یہ نظریہ پہلے یکساں نظریہ رکھنے والے افراد کے درمیان کانا پھوسی کی سطح پر موجود تھا۔ اب یہ نظریہ روز مرہ کی گفتگو کا حصہ بن چکا ہے۔ خاندان، دوستوں اور دفتر کے ساتھیوں تک بھی یہ نظریہ پہونچ چکا ہے۔ ہم سب اس نظریہ کی زد میں ہیں۔
دیگر لوگوں کے تئیں یہ نفرت و حقارت پچھلی تین دہائیوں کے دوران ہندو اکثریت پسندانہ نظریہ کی کامیاب ترویج و اشاعت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں یہ نظریہ نئی اونچائیوں تک پہونچ چکا ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ 2017 میں ہونے والے صوبائی اسمبلی انتخابات اور 2019 میں ہونے والے لوک سبھا انتخاب کے دوران یہ نظریہ مزید خطرناک شکل اختیار کرے گا۔ متوسط طبقہ کا اکثریت پسندانہ نظریہ برسراقتدار پارٹی کی بنیادی فلاسفی میں منعکس ہوتا ہے۔ بدلے میں برسراقتدار پارٹی اسی شدت پسندانہ نظریہ کو تقویت پہونچاتی ہے۔
تحریک آزادی کی شروعات اور دستور سازی کے عمل سے لے کر اب تک متوسط طبقہ نے ایک لمبا سفر طے کر لیا ہے۔

بشکریہ: روزنامہ 'دی ہندو ، 17 نومبر 2016

0 comments:

باغوں میں بہار ہے




قاسم سید 
ہندستان اور امریکہ بیک وقت بلیک سے وہائٹ میں تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ہندوستان نے بلیک منی کو ختم کرنے کے لئے سرجیکل اسٹرائیک کی ہے جس سے دہشت گردی، بدعنوانی اور کالادھن 50 دنوں کے اندر ختم کردیا جائے گا، وہیں امریکہ کے قدامت پسندوں نے سیاہ فام اوبامہ کی جگہ سفید فام ڈونالڈ ٹرمپ کو وہائٹ ہائوس پہنچادیا۔ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں میں یہ فیصلے نتائج کے اعتبار سے دوررس ہوسکتے ہیں۔ نسلی انتہاپسندی کو سند دینے کا رجحان دنیا کو کہاں تک لے جائے گا، اس کا سردست اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یوروپی ممالک میں نسلی برتری کا غرور کاسہ سر میں پالنے والوں کی پذیرائی اور غیرقانونی تارکین وطن کو باہر پھینک دینے اور ادھر ذرا ذرا سی بات پر پاکستان روانہ کرنے کی دھمکیاں، ٹرمپ کی فتح ریلی میں مسلمانوں سے انتقام لینے اور دیوار برلن کی طرح فصیل بنانے کی باتیں امریکہ جیسے مہذب و ترقی یافتہ روشن خیال ملک میں گونج رہی ہیں تو باغوں میں بہار آنے میں کیا شک رہ جاتا ہے۔ 125 کروڑ عوام کو اپنے پیسے نکالنے کے لئے لائن میں کھڑا کرنے اور اسے دیش بھکتی سے جوڑنے کے ساتھ اگلے پچاس دنوں کے اندر باغوں میں بہار لانے کا وعدہ کس کمبخت کو خوش نہیں کرے گا۔
ہندوستان میں مودی کی تاریخی کامیابی کی کتنی توضیحات کرلی جائیں، اسے کانگریس کے خلاف ووٹ کہہ کر دل ناداں کو تسلی دی جائے، روح مضطرب کو تھپک کر سلادیا جائے، لیکن دو سے 280 کا سفر دیپک سے کمل تک کا راستہ جہد مسلسل اور قربانیوں کا ثمرہ ہے۔ اس میں تضحیک و استہزا کے پتھر بھی ہیں۔ اگر میڈیا کی پیداکردہ مصنوعی لہروں کے ذریعہ مقبولیت کا سیلاب لایا گیا تو ٹرمپ کا انتخاب یہ ثابت کرتا ہے کہ میڈیا ہر کام اپنی مرضی سے نہیں کرسکتا۔ ٹرمپ کے لئے موجود انڈر کرنٹ بتاتا ہے کہ میڈیا کتنا طاقتور کیوں نہ ہو، تبدیلی کے سورج کو طلوع ہونے سے نہیں روک سکتا۔ امریکی رائے عامہ کو کنٹرول کرنے اور پالیسیوں کو رخ دینے والا میڈیا یہ اندازہ ہی نہیں لگاسکا کہ ملک کا متوسط طبقہ، بیروزگار نوجوان، نوخیز ووٹر کیا چاہتا ہے۔
 ٹرمپ کو مسخرہ، غیرسنجیدہ، لااُبالی، بڑبولا، بے تکے بیانات دینے والا، ناقابل اعتبار کیریکٹر کا حامل کہہ کر مذاق اڑانے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ہلیری جیسی جہاندیدہ، تجربہ کار فرسٹ لیڈی رہ چکی خاتون اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی، سارے سروے اوندھے منھ گر پڑے، اب بھی لوگ سکتہ میں ہیں، مظاہرے جاری ہیں، مگر فیصلہ ضروری نہیں کہ ہماری پسند کے مطابق ہو۔ اسی طرح آج بھی ہندوستان میں ایک طبقہ ہے، جسے مودی کی کامیابی ہضم نہیں ہوئی، اس کے باوجود سرکار نے اپنے جارحارنہ تیوروں سے بتادیا کہ اس کی طرف سے جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کی تیاری بہت دنوں سے ہورہی تھی۔ ہر محاذ پر جنگ چھیڑنا محض اتفاق تو نہیں ہوسکتا۔ ان کے پاس تربیت یافتہ رضاکاروں کی منظم فوج ہے جو تعلیم و ثقافت سے لے کر معیشت تک ہر محاذ پر سرگرم ہے۔ بلاشبہ اس وقت ملک میں نظریاتی طور پر اگر کوئی مستحکم و منظم ہے تو وہ سنگھ پریوار ہے، لیفٹ اپنے وجود کی جنگ لڑرہا ہے۔ کانگریس کبھی نظریاتی پارٹی رہی نہیں وہ موقع پرستوں کی بھیڑ ہے۔ علاقائی پارٹیاں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ سماجواد مرسڈیز رتھوں میں بدل گیا ہے، اس لئے سنگھ پریوار کے سامنے چیلنج کرنے والے غائب ہیں۔ جو ہیں ان کی آواز دبانے کی کوشش ہر سمت سے ہورہی ہے۔ سنگھ پریوار کے پاس ہر میدان میں سپاہی سے لے کر جنرل تک موجود ہیں۔ کوئی بیان دینے اور قدم اٹھاسے پہلے سوچا سمجھا جاتا ہے۔ باغوں میں بہار لانے کے لئے خون کا غسل کرنا پڑے تو یہ متبادل کھلا ہوا ہے۔ کشمیر سے چھتیس گڑھ ، دادری سے بھوپال اور پونا سے جھجر تک، کنہیا کمار سے نجیب تک کردار کے فرق کے ساتھ واقعات کی یکسانیت کچھ تو اشارہ کرتی ہے۔ ہم مظلومیت کی ردا اوڑھے دہائیاں گزار چکے ہیں۔ باغوں میں بہار لانے کا فرض ہمارا تھا، مگر ہم بھی بے مقصد، بغیر شناخت کی بھیڑ میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ جس طرح مشرق وسطیٰ ترتیب نو کے مرحلہ سے گزر رہا ہے اور ٹرمپ کے دستخط کا انتظارہے، بعینہٖ ہندوستان فکری تشکیل نو کے سخت ترین مرحلہ سے دوچار ہے۔ جن کے ہاتھ میں باگ ڈور ہے وہ مطلوبہ ہدف کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔ وہ دیش بدلنے کے لئے لوگوں کو دن و رات لائن میں کھڑا ہونے پر مجبور کرسکتے ہیں تو ان کی سرجیکل اسٹرائیک سے کوئی نہیں بچ سکتا، نہ ادارے نہ مدرسے، نہ خانقاہیں نہ درگاہیں، نہ جماعتیں نہ تنظیمیں، باغ بہاراں میں کھلنے والا ہر پھول اور اس کی خوشبو اس کی اپنی نہیں ہوگی۔
فی الحال سرکار نے تحفظ شریعت کے محاذ پر لگادیا ہے۔ ظاہر ہے شریعت پر ہلکی سی آنچ آجائے تو پھر وجود ہی بیکار ہے۔ آنے والے حالات کس طرح کے ہوں گے اس کی تیاری کہیں نظر نہیں آتی، بھیڑ بکریوں کی طرح ادھر سے ادھر کانفرنسوں میں ہنکایا جاتا ہے، لوٹ کر آتے ہیں تو ذہن و دل سادہ سلیٹ ہی ہوتے ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم سے جو ہوپارہا ہے کررہے ہیں، کیا قراردادیں منظور کرنے میں کوئی کمی ہوئی، کیا ضرورت کے مطابق بیانات جاری نہیں کئے گئے؟ کیا عظیم الشان تاریخی کانفرنسوں کا انعقاد نہیں کیا؟ بڑے پیمانے پر جلسے جلوس نہیں کئے؟ کیا جلسہ گاہوں کو ایمانی حرارت والوں سے بھر نہیں دیا؟ کیا بوقت ضرورت من پسند پارٹیوں کے حق میں انتخابی اپیلیں جاری نہیں کیں؟ ان کے ساتھ رشتہ اتحاد نہیں بنایا؟ کیا اپنے اسٹیجوں پر بڑی بڑی سیاسی ہستیوں کو نہیں بلایا؟ کیا ان کے درباروں میں حاضری دینے میں کوئی کوتاہی کی؟ کیا ان کی ایک نظر کرم کی خاطر نقد جان و دل نچھاور نہیں کئے؟ وفود لے جاکر میمورنڈم نہیں دیے؟ جب بھی کوئی افتاد آئی، رہبرانِ ملت نے موضوع کی مناسبت سے کانفرنسیں نہیں کیں؟ خطابات میں کمی ہوئی؟ قوم کے سرد جذبات کو نہیں گرمایا؟ ارباب اقتدار سے ملاقات کا وقت نہیں مانگا؟ پھر بھی باغوں میں بہار نہ آنے کا شکوہ کیوں؟ آخر یہ قوم ہمیں خوش حال دیکھ کر چڑھتی کیوں ہے، چٹائی کی جگہ مخملی قالین سے الرجک کیوں ہوجاتی ہے؟ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ طلاق ثلاثہ، تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ کے تحفظ کا ہے۔ ہم بھلے ہی اپنے اوپر شریعت لاگو نہ کریں، گھریلو مقدمات عدالتوں میں لے جائیں، شرعی احکامات کو پائوں تلے روندیں، سنت رسولؐ کی توہین کریں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تحفظ شریعت کا فریضہ ہی بھول جائیں۔ مظفرنگر، دادری، گھرواپسی، لوجہاد، آزادی رائے پر حملے، ذہنی و جسمانی تشدد، انفرادی قتل کے ساتھ اجتماعی قتل، اخلاق و نجیب، سوال اٹھانے پر ملک بدری کی دھمکی، گئورکشا، اونا میں ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے، پاگل کرنے اور نروس بریک ڈائون کے لئے کافی ہے، لیکن اس کی قیمت پر باغوں میں بہار آتی ہے تو سودا مہنگا نہیں ہے۔ نظریاتی جنگ کے یہ سارے نمونے آنے والے دنوں میں دائرہ بڑھا سکتے ہیں، مسلمان نظریاتی ملت ہونے کے باوجود اس وقت سب سے زیادہ نظریاتی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ ان کی موجودہ حالت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ استعمال اور استحصال کی منڈی میں بدل گئے، اونچی بولی لگانے والے کب اپنے ریوڑ میں ہانک لیتے ہیں، پتہ بھی نہیں چل پاتا۔
ٹوٹی بکھری حوصلہ پست پارٹیاں وجود کی لڑائی کے لئے ہمارے کاندھوں کا استعمال کرتی رہی ہیں، جس طرح مچھلی پکڑنے کے لئے کانٹے میں کیچوا لگایا جاتا ہے۔ فکری تشکیل نو کی جنگ میں ہم ہارے سپاہی کی مانند پھٹی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اس جنگ میں دیش بھکتی اور راشٹریتا جیسا کارگر ہتھیار ہے اور ہر ایک کی زبان اس کو دکھاکر بند کی جاتی ہے۔ گئو رکشا سے سرجیکل اسٹرائیک اور اب نوٹ بندی، ہر فیصلہ میں دیش بھکتی اور راشٹریتا کو آگے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس حکمت عملی نے اپوزیشن کو بھی دفاعی پوزیشن میں کھڑا کردیا ہے۔ باغوں میں بہار لانے کے لئے ان ہوائوں کا گلا گھونٹنا ضروری ہے جن سے ہندوستان کے کثرت میں وحدت کے نظریہ کو آکسیحن ہے۔ بھلے ہی وہ نہیں جانتا کہ ہوائیں اور لہریں کسی کا حکم نہیں سنتیں، یہ حاکموں کی ہتھیلیوں، ہتھکڑی اور قیدخانوں میں نہیں رکتیں، ان کی بے تابی و سرکشی کا اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے۔ ہمیں جذباتیت، اشتعال انگیزی، سطحیت، انتہاپسندانہ ردّعمل کی بجائے کمزوریوں کو دور کرنے، حالات کا سنجیدگی اور تحمل سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کمزوریوں سے نہ پہلے بھلا ہوا اور نہ ہی آگے ہونے والا ہے۔ اس نظریاتی لڑائی میں ان کا ساتھ دینا ہے جو حلقوم پر چھری رکھ دینے کے باوجود امید و یقین کی شمعیں جلارہے ہیں کہ ہر رات کا سویرا ضرور ہوتا ہے۔

qasimsyed2008@gmail.com

0 comments: