باغوں میں بہار ہے

6:13 PM nehal sagheer 0 Comments




قاسم سید 
ہندستان اور امریکہ بیک وقت بلیک سے وہائٹ میں تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ہندوستان نے بلیک منی کو ختم کرنے کے لئے سرجیکل اسٹرائیک کی ہے جس سے دہشت گردی، بدعنوانی اور کالادھن 50 دنوں کے اندر ختم کردیا جائے گا، وہیں امریکہ کے قدامت پسندوں نے سیاہ فام اوبامہ کی جگہ سفید فام ڈونالڈ ٹرمپ کو وہائٹ ہائوس پہنچادیا۔ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں میں یہ فیصلے نتائج کے اعتبار سے دوررس ہوسکتے ہیں۔ نسلی انتہاپسندی کو سند دینے کا رجحان دنیا کو کہاں تک لے جائے گا، اس کا سردست اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یوروپی ممالک میں نسلی برتری کا غرور کاسہ سر میں پالنے والوں کی پذیرائی اور غیرقانونی تارکین وطن کو باہر پھینک دینے اور ادھر ذرا ذرا سی بات پر پاکستان روانہ کرنے کی دھمکیاں، ٹرمپ کی فتح ریلی میں مسلمانوں سے انتقام لینے اور دیوار برلن کی طرح فصیل بنانے کی باتیں امریکہ جیسے مہذب و ترقی یافتہ روشن خیال ملک میں گونج رہی ہیں تو باغوں میں بہار آنے میں کیا شک رہ جاتا ہے۔ 125 کروڑ عوام کو اپنے پیسے نکالنے کے لئے لائن میں کھڑا کرنے اور اسے دیش بھکتی سے جوڑنے کے ساتھ اگلے پچاس دنوں کے اندر باغوں میں بہار لانے کا وعدہ کس کمبخت کو خوش نہیں کرے گا۔
ہندوستان میں مودی کی تاریخی کامیابی کی کتنی توضیحات کرلی جائیں، اسے کانگریس کے خلاف ووٹ کہہ کر دل ناداں کو تسلی دی جائے، روح مضطرب کو تھپک کر سلادیا جائے، لیکن دو سے 280 کا سفر دیپک سے کمل تک کا راستہ جہد مسلسل اور قربانیوں کا ثمرہ ہے۔ اس میں تضحیک و استہزا کے پتھر بھی ہیں۔ اگر میڈیا کی پیداکردہ مصنوعی لہروں کے ذریعہ مقبولیت کا سیلاب لایا گیا تو ٹرمپ کا انتخاب یہ ثابت کرتا ہے کہ میڈیا ہر کام اپنی مرضی سے نہیں کرسکتا۔ ٹرمپ کے لئے موجود انڈر کرنٹ بتاتا ہے کہ میڈیا کتنا طاقتور کیوں نہ ہو، تبدیلی کے سورج کو طلوع ہونے سے نہیں روک سکتا۔ امریکی رائے عامہ کو کنٹرول کرنے اور پالیسیوں کو رخ دینے والا میڈیا یہ اندازہ ہی نہیں لگاسکا کہ ملک کا متوسط طبقہ، بیروزگار نوجوان، نوخیز ووٹر کیا چاہتا ہے۔
 ٹرمپ کو مسخرہ، غیرسنجیدہ، لااُبالی، بڑبولا، بے تکے بیانات دینے والا، ناقابل اعتبار کیریکٹر کا حامل کہہ کر مذاق اڑانے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ہلیری جیسی جہاندیدہ، تجربہ کار فرسٹ لیڈی رہ چکی خاتون اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی، سارے سروے اوندھے منھ گر پڑے، اب بھی لوگ سکتہ میں ہیں، مظاہرے جاری ہیں، مگر فیصلہ ضروری نہیں کہ ہماری پسند کے مطابق ہو۔ اسی طرح آج بھی ہندوستان میں ایک طبقہ ہے، جسے مودی کی کامیابی ہضم نہیں ہوئی، اس کے باوجود سرکار نے اپنے جارحارنہ تیوروں سے بتادیا کہ اس کی طرف سے جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کی تیاری بہت دنوں سے ہورہی تھی۔ ہر محاذ پر جنگ چھیڑنا محض اتفاق تو نہیں ہوسکتا۔ ان کے پاس تربیت یافتہ رضاکاروں کی منظم فوج ہے جو تعلیم و ثقافت سے لے کر معیشت تک ہر محاذ پر سرگرم ہے۔ بلاشبہ اس وقت ملک میں نظریاتی طور پر اگر کوئی مستحکم و منظم ہے تو وہ سنگھ پریوار ہے، لیفٹ اپنے وجود کی جنگ لڑرہا ہے۔ کانگریس کبھی نظریاتی پارٹی رہی نہیں وہ موقع پرستوں کی بھیڑ ہے۔ علاقائی پارٹیاں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ سماجواد مرسڈیز رتھوں میں بدل گیا ہے، اس لئے سنگھ پریوار کے سامنے چیلنج کرنے والے غائب ہیں۔ جو ہیں ان کی آواز دبانے کی کوشش ہر سمت سے ہورہی ہے۔ سنگھ پریوار کے پاس ہر میدان میں سپاہی سے لے کر جنرل تک موجود ہیں۔ کوئی بیان دینے اور قدم اٹھاسے پہلے سوچا سمجھا جاتا ہے۔ باغوں میں بہار لانے کے لئے خون کا غسل کرنا پڑے تو یہ متبادل کھلا ہوا ہے۔ کشمیر سے چھتیس گڑھ ، دادری سے بھوپال اور پونا سے جھجر تک، کنہیا کمار سے نجیب تک کردار کے فرق کے ساتھ واقعات کی یکسانیت کچھ تو اشارہ کرتی ہے۔ ہم مظلومیت کی ردا اوڑھے دہائیاں گزار چکے ہیں۔ باغوں میں بہار لانے کا فرض ہمارا تھا، مگر ہم بھی بے مقصد، بغیر شناخت کی بھیڑ میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ جس طرح مشرق وسطیٰ ترتیب نو کے مرحلہ سے گزر رہا ہے اور ٹرمپ کے دستخط کا انتظارہے، بعینہٖ ہندوستان فکری تشکیل نو کے سخت ترین مرحلہ سے دوچار ہے۔ جن کے ہاتھ میں باگ ڈور ہے وہ مطلوبہ ہدف کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔ وہ دیش بدلنے کے لئے لوگوں کو دن و رات لائن میں کھڑا ہونے پر مجبور کرسکتے ہیں تو ان کی سرجیکل اسٹرائیک سے کوئی نہیں بچ سکتا، نہ ادارے نہ مدرسے، نہ خانقاہیں نہ درگاہیں، نہ جماعتیں نہ تنظیمیں، باغ بہاراں میں کھلنے والا ہر پھول اور اس کی خوشبو اس کی اپنی نہیں ہوگی۔
فی الحال سرکار نے تحفظ شریعت کے محاذ پر لگادیا ہے۔ ظاہر ہے شریعت پر ہلکی سی آنچ آجائے تو پھر وجود ہی بیکار ہے۔ آنے والے حالات کس طرح کے ہوں گے اس کی تیاری کہیں نظر نہیں آتی، بھیڑ بکریوں کی طرح ادھر سے ادھر کانفرنسوں میں ہنکایا جاتا ہے، لوٹ کر آتے ہیں تو ذہن و دل سادہ سلیٹ ہی ہوتے ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم سے جو ہوپارہا ہے کررہے ہیں، کیا قراردادیں منظور کرنے میں کوئی کمی ہوئی، کیا ضرورت کے مطابق بیانات جاری نہیں کئے گئے؟ کیا عظیم الشان تاریخی کانفرنسوں کا انعقاد نہیں کیا؟ بڑے پیمانے پر جلسے جلوس نہیں کئے؟ کیا جلسہ گاہوں کو ایمانی حرارت والوں سے بھر نہیں دیا؟ کیا بوقت ضرورت من پسند پارٹیوں کے حق میں انتخابی اپیلیں جاری نہیں کیں؟ ان کے ساتھ رشتہ اتحاد نہیں بنایا؟ کیا اپنے اسٹیجوں پر بڑی بڑی سیاسی ہستیوں کو نہیں بلایا؟ کیا ان کے درباروں میں حاضری دینے میں کوئی کوتاہی کی؟ کیا ان کی ایک نظر کرم کی خاطر نقد جان و دل نچھاور نہیں کئے؟ وفود لے جاکر میمورنڈم نہیں دیے؟ جب بھی کوئی افتاد آئی، رہبرانِ ملت نے موضوع کی مناسبت سے کانفرنسیں نہیں کیں؟ خطابات میں کمی ہوئی؟ قوم کے سرد جذبات کو نہیں گرمایا؟ ارباب اقتدار سے ملاقات کا وقت نہیں مانگا؟ پھر بھی باغوں میں بہار نہ آنے کا شکوہ کیوں؟ آخر یہ قوم ہمیں خوش حال دیکھ کر چڑھتی کیوں ہے، چٹائی کی جگہ مخملی قالین سے الرجک کیوں ہوجاتی ہے؟ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ طلاق ثلاثہ، تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ کے تحفظ کا ہے۔ ہم بھلے ہی اپنے اوپر شریعت لاگو نہ کریں، گھریلو مقدمات عدالتوں میں لے جائیں، شرعی احکامات کو پائوں تلے روندیں، سنت رسولؐ کی توہین کریں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تحفظ شریعت کا فریضہ ہی بھول جائیں۔ مظفرنگر، دادری، گھرواپسی، لوجہاد، آزادی رائے پر حملے، ذہنی و جسمانی تشدد، انفرادی قتل کے ساتھ اجتماعی قتل، اخلاق و نجیب، سوال اٹھانے پر ملک بدری کی دھمکی، گئورکشا، اونا میں ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے، پاگل کرنے اور نروس بریک ڈائون کے لئے کافی ہے، لیکن اس کی قیمت پر باغوں میں بہار آتی ہے تو سودا مہنگا نہیں ہے۔ نظریاتی جنگ کے یہ سارے نمونے آنے والے دنوں میں دائرہ بڑھا سکتے ہیں، مسلمان نظریاتی ملت ہونے کے باوجود اس وقت سب سے زیادہ نظریاتی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ ان کی موجودہ حالت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ استعمال اور استحصال کی منڈی میں بدل گئے، اونچی بولی لگانے والے کب اپنے ریوڑ میں ہانک لیتے ہیں، پتہ بھی نہیں چل پاتا۔
ٹوٹی بکھری حوصلہ پست پارٹیاں وجود کی لڑائی کے لئے ہمارے کاندھوں کا استعمال کرتی رہی ہیں، جس طرح مچھلی پکڑنے کے لئے کانٹے میں کیچوا لگایا جاتا ہے۔ فکری تشکیل نو کی جنگ میں ہم ہارے سپاہی کی مانند پھٹی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اس جنگ میں دیش بھکتی اور راشٹریتا جیسا کارگر ہتھیار ہے اور ہر ایک کی زبان اس کو دکھاکر بند کی جاتی ہے۔ گئو رکشا سے سرجیکل اسٹرائیک اور اب نوٹ بندی، ہر فیصلہ میں دیش بھکتی اور راشٹریتا کو آگے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس حکمت عملی نے اپوزیشن کو بھی دفاعی پوزیشن میں کھڑا کردیا ہے۔ باغوں میں بہار لانے کے لئے ان ہوائوں کا گلا گھونٹنا ضروری ہے جن سے ہندوستان کے کثرت میں وحدت کے نظریہ کو آکسیحن ہے۔ بھلے ہی وہ نہیں جانتا کہ ہوائیں اور لہریں کسی کا حکم نہیں سنتیں، یہ حاکموں کی ہتھیلیوں، ہتھکڑی اور قیدخانوں میں نہیں رکتیں، ان کی بے تابی و سرکشی کا اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے۔ ہمیں جذباتیت، اشتعال انگیزی، سطحیت، انتہاپسندانہ ردّعمل کی بجائے کمزوریوں کو دور کرنے، حالات کا سنجیدگی اور تحمل سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کمزوریوں سے نہ پہلے بھلا ہوا اور نہ ہی آگے ہونے والا ہے۔ اس نظریاتی لڑائی میں ان کا ساتھ دینا ہے جو حلقوم پر چھری رکھ دینے کے باوجود امید و یقین کی شمعیں جلارہے ہیں کہ ہر رات کا سویرا ضرور ہوتا ہے۔

qasimsyed2008@gmail.com

0 comments: