Urdu Shayari

ہجوم کے حملے (گورکشکو ں کی بھیڑکی طرف سے مسلمانوں پر ہورہے حملوں سے متاثر ہوکر)

                                       ساغر ؔسلوڑی

                           9421428042


                          امتحاں صبر کاسرکار نہ اب ہردم لے
                         ہم نہ برداشت کریں گے ہجوم کے حملے
     وہ پہلو خان،حنیفہ ،جواں ریاض الدین          نفرت کے جرائم نے لئے آج ہم سے چھین
      سالک،غلام محمد اوروہ ظفر حسین                اب ان کی شہادت بھی اسی بھیڑ کی ہے دین
                           مجروح دل پہ تم ہی کہو کیسے یہ غم لے
        انجینئر محسن کی بتائو تھی کیا خطا               مسلم وہ تھا اسی لئے دے دی اُسے سزا
        نظرالحق اور سمیرالدین وناصر                 گائے چوری کے الزام میں مارے گئے آخر
                        نفرت کی آندھیوں سے کہو وقت ہے، تھم لے
       مُردہ تھی گائے اُس کی عثماں کو سزا دی          خاندان کو بند کرکے وہیں آگ لگا دی
        اس ملک میں ناپید رواداری دیکھ کر            ہیں قتل ہوگئے وہ علیم اور اصغر
                        قانون کو ہاتھوں میں نہ اب کھاکے قسم لے
      تم نے ہے نامِ بیف پہ اخلاق کو مارا             رمضاں میں لیا چھین جنید ہم سے ہمارا
      منہاج کو کیا قتل سلیم شاہ کوپیٹا                 گورکشکوں نے گاڑی سے مسلم کو گھسیٹا
                          کس طرح  ظالموںکایہ احساس بھی ہم لے
        یہ کیسی بہادری کے دکھاتے ہو نظارے        کہ بھیڑگھیر کر کسی انسان کو مارے
         نفرت کے نام پر ہی نہ اب آگے بڑھوتم         اتنے ہو بہادر تو سرحد پہ لڑو تم
                           سرحدپہ کرو جاکے ذرا زور سے حملے
         یہ دیکھ کے دنیا اب حیران ہوگئی          انساں سے بڑھ کہ گائے کی ا ب جان ہوگئی
            ایسا ہے تو حکومت کیا کام کررہی        گئو شالہ میں ہے گائے یہاں بھوکی مررہی
                       اُس کو کھلائو چارا کہ کچھ روز وہ دم لے
         دہشت گروں نے گولیاں جب تم پہ چلائیں     ڈرائیور سلیم نے جانیں تمھاری ہیں بچائیں
          تم فرقہ پرستوں کا کہنا مان لیتے ہو           جو جاں بچاتے ہیں اُن کی ہی تم جان لیتے ہو
                        نفرت کے زمانے میں محبت کا بھرم لے
              جو اس عمل کا ردِ عمل دل سے لگا لے     ایسا نہ ہوکے پھر کوئی ہتھیار اُٹھالے
               کیا ہوگااگر وقت کا تیوربدل گیا    کیا ہوگا یہ بارود میں گر صبر ڈھل گیا
                           ایسا نہ ہو ساغر ؔ کہ کوئی ہاتھ میں بم لے

    

0 comments:

Politics

وزارت عظمیٰ کی کرسی سے نواز شریف کی وداعی : پاکستانی عدلیہ نے تاریخ رقم کردی


نہال صغیر

پاکستانی عدلیہ نے تاریخ رقم کردی ۔ اس معاملہ پر گفتگو شروع کرنے سے قبل ہی اگر پاکستانی عوام کو اس بات کیلئے مبارکباد پیش کی جائے تو کوئی برائی نہیں کہ وہ ایک ایسے خطے میں ہیں جہاں عدلیہ کافی حوصلہ مندی کے ساتھ ملک کے سب باوقار اور طاقتور عہدہ پر بیٹھے شخص کے خلاف فیصلہ سناتی ہے کہ وہ بدعنوان ہے اور اس عہدہ کے قابل نہیں ہے یعنی وہ نا اہل ہے ۔ یقیناًیہ پاکستانیوں کیلئے ایک خوشگواریت کے کئی پہلو رکھتا ہے ۔ یہ تو عدلیہ کی آزادی اور اس کی جرات مندی کی ایک تازہ مثال ہے ۔ ہمارے سامنے پاکستان پریس بھی بہت حد تک آزاد ہے اور اس نے کسی دباؤ کو کبھی خاطر میں لانے کے بارے میں نہیں سوچابقول سدارتھ ورداراجن پاکستانی صحافی کافی حوصلے والے ہیں ۔ ’پاکستان پریس فاؤنڈیشن ‘ذرائع ابلاغ اور اس کے کام کاج کے ساتھ ہی اس سے تعلق رکھنے والے افراد کی سلامتی کو درپیش مسائل و مشکلات پر نظر رکھنے والا ایک غیر سرکاری ادارہ ہے ۔ اس نے اپنی تازہ رپورٹ کے شروع میں ہی لکھا ہے ’گزشتہ دہائی میں پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے کردار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور خاصی تبدیلی بھی رونما ہوئی ہے ۔گوکہ پچھلے چند سالوں میں کافی مخالفت ہوئی ہے لیکن پاکستان ایک زندہ دل ، آزاد اور بڑی حد تک شفاف ذرائع ابلاغ کا لطف اٹھا رہا ہے ‘۔ یعنی پاکستان میں میڈیا آزاد ہی نہیں بلکہ شفافیت کا مظہر بھی ہے ۔ کم و بیش یہی حالت یا اس سے بہتر پوزیشن میں وہاں کی عدلیہ ہے ۔ جہاں کی عدالت عظمیٰ نے ابھی پناما لیکس معاملہ میں نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا اور انہیں اپنی وزارت عظمیٰ کی کرسی چھوڑنی پڑی ۔
پناما لیکس وکی لیکس کے بعد دنیا کے کئی ممالک کے بدعنوان سیاست دانوں اور بیوروکریٹ کا کچا چٹھا ہے ۔ پناما پیپر میں صرف پاکستانی سیاست دانوں کے ہی نہیں کئی ہندوستانیوں کے نام بھی ہیں لیکن اس تعلق سے اب تک یہاں کسی سراغ کسی ہلچل کی کوئی خبر نہیں ۔ سدھارتھ ورداراجن کہتے ہیں اس معاملے میں تو کم از کم پاکستان سے ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے لوگ حالانکہ پاکستان میں کچھ بہتر ہے یہ سننا پسند نہیں کرتے لیکن یہ کہنا پڑے گا کہ انہوں نے ایک مثال قائم کی ہے ۔ وہ ایک درجہ ہم سے اوپر چڑھ گئے ہیں ۔ حالانکہ بدعنوانی کے معاملات میں یہاں کافی شور غل مچا ہوا ہے ۔ ہنگامہ اتنا تیز ہے کہ وہ محاورہ بولنا پڑتا ہے کہ کانوں پڑی آواز سننے کو نہیں ملتی ۔ لیکن یہ سب محض دکھاوا ہے ۔ شاید عوام بھی اس کے لئے زیادہ بیدار نہیں ہے ۔ پاکستانی عوام نے سپریم کورٹ تک جاکر اپنی بیداری کا ثبوت فراہم کیا ۔ لیکن ہمارے یہاں تو سپریم کورٹ نے ہی پناما پیپر معاملہ میں انکوائری کی بھی اجازت نہیں دی ۔ عوام کو بھی شاید اس کی ضرورت نہیں یا انہیں اس کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کیلئے فرصت ہی نہیں ہے کیوں کہ وہ فی الحال گائے اور بیف یا پھر مندر مسجد کے جھگڑوں اور لو جہاد جیسے اہم معاملات میں الجھے ہوئے ہیں ۔ ان کے سامنے نریندر مودی ایک کرشماتی شخصیت ہیں جو ہندوستان کو ثریا کی بلندی پر لیجانے کی قوت رکھتے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ ساڑھے تین سال میں سوائے اعلانات اور سلوگن کے کوئی اور کام ہوتا نظر نہیں آیا ۔ اگر کچھ ہوا ہے تو عوام کا بھرکس نکالنے والے کرنسی منسوخی اور جی ایس ٹی جیسے فیصلے ۔ جس کی قیمت ملک ادا کررہا ہے اور نا جانے کب تک ادا کرتا رہے گا ۔
بدعنوانی کیخلاف مرن برت کا ڈرامہ رچنے والے انا ہزارے بھی نہ جانے کہاں کھوئے ہوئے ہیں ۔ وہ تو بدعنوانی کے خلاف جنگ کے وہ سپاہی مانے جاتے تھے جو کہ ساری دنیا میں اکیلا ہے ۔ لیکن وہ بولے اور بہت بولے لیکن پناما پیپر جیسے معاملات میں ان کی کوئی آواز نہیں آئی ۔ پتہ نہیں انہیں اس بلا کے بارے میں جانکاری بھی ہے کہ نہیں یا ان کی بدعنوانی کیخلاف اسی حد تک پہنچ ہے کہ ایک ایک قانون بن جائے جس پر کبھی عمل نہ ہو اور ایک عدد اس کا ذمہ دار چن لیا جائے جو کبھی کام نہ کرے ۔ ایسالگتا ہے مرکز میں یو پی اے کی حکومت ختم کرواکر اور این ڈی اے کی حکومت بنوا نے تک ہی ان کی دلچسپی تھی ۔ گویا وہ ایک خاص گروہ کی جانب سے بدعنوانی کے خلاف جنگ کے نام پر پلانٹ کئے گئے تھے اور اب ان کا کام ختم یاشاید وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ اب بدعنوانی کا یہاں گزر ممکن نہیں جیسا کہ ان دنوں مودی صاحب پیش کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ بہار میں نتیش کمار کا عظیم اتحاد سے ناطہ توڑ کر وزیر اعلیٰ کی کرسی سے استعفیٰ دینے پر مودی جی نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ’’بدعنوانی کی جنگ میں شامل ہونے پر مبارکباد ‘‘۔ ہمیں کسی ایک شخصیت یا کسی ایک پارٹی کو نشانہ بنانے کا شوق نہیں اور نہ ہی ہم اس کے قائل ہیں کہ کسی کی بیجا حمایت یا مخالفت کی جائے لیکن جب خامی ہی خامی نظر آئے بہتری کی کوئی سبیل نہ نکلے تو تنقید کرنا ہی پڑتی ہے ۔ موجودہ حکومت بدعنوانی کے خلاف جنگ کا ڈھول تو پیٹتی ہے لیکن اس میں یا تو وہ سنجیدہ نہیں ہے یا عوام کو گمراہ کرنے میں زیادہ سنجیدہ ہے ۔ موجودہ حکومت اور اس کی پارٹی کی ریاستی حکومتوں میں کئی بدعنوانی کے معاملات ہوئے ہیں ۔ جس میں مدھیہ پردیش کی تعلیمی بدعنوانی سب سے اوپر ہے ۔ کوئی ریاست ایسی نہیں ہے جہاں ان کی حکومت پر بدعنوانی کے داغ نہیں لگے ہوں لیکن جب یہ کوئی انکوائری اور کوئی کارروائی ہی نہ کریں تو گرفتاری کس کی ہوگی ۔
ہمیں عددی ، قوت ، دفاعی اور مالی برتری کے احساس تفاخر سے باہر نکل کر قدرے کمزور ، ناکام اور دہشت گرد ریاست پاکستان سے آنے والی خبر جو کہ پہلی ہے اور نہ ہی آخری ، پر دھیان دینا ہی ہوگا کہ ایک کمزور ، ناکام اور دہشت گرد ریاست کی عدلیہ اسقدر جرات مندانہ قدم اٹھا سکتی ہے تو ہماری عدلیہ کیوں نہیں ۔ ہم اپنی عدلیہ کو اتنا آزاد کیوں نہیں بنا سکتے کہ اسے کسی معاملہ کو اس لئے التوا میں ڈالنے کی ضرورت نہ پڑے کہ اس کا یہ فیصلہ ان لوگوں کے خلاف جائے گا جو کہ بہت طاقتور اور اقتدار میں ہیں ۔ ہاں ہم بدعنوانی کے معاملہ میں صرف اس وقت قدم اٹھائیں گے جب اس سے ہمیں حزب اختلاف کو نشانہ بنانا ہو یا اپنا مفاد عزیز ہو ۔ ملک کا مفاد تو شاید ہم نے کہیں دور رکھ چھوڑا ہے ۔ اس سے ہمیں کیا مطلب ۔ حالیہ بہار کا معاملہ ہی لے لیا جائے تو اس میں سیاسی انتقام کے علاوہ اور کیا ہے ۔ ورنہ مبارکباد دینے والے کا وزیر اعلیٰ کئی فسادات اور اقدام قتل کے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے اور اس کے خلاف کئی تھانوں میں ایف آئی آر درج ہیں ۔ لالو پرشاد کے خاندان پر جو الزامات ہیں اس سے سنگین الزمات نتیش اور ان کے نئے دوست سشیل مودی پر ہیں لیکن نتیش کی نوٹنکی دیکھئے کہ انہوں برسوں قبل درج ایف آئی آر کو دیکھ کر انجان بننے کا ڈرامہ اور دو دن قبل کے ایف آئی آر پر ہنگامہ آرائی اور اپنی ایمانداری کا پرشور اعلان ۔ پچھلی یو پی اے حکومت میں تو اتنی اخلاقی جرات تھی کہ اس نے اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف انکوائری کروائی اور انہیں جیل جانا پڑا لیکن موجودہ حکومت تو باتوں اور میڈیا منیجمنٹ کی اتنی ماہر ہے کہ چوری بھی اور سینہ زوری بھی اس کا وطیرہ بنتا جارہا ہے ۔ کاش ہم بھی پاکستانی عدلیہ کی طرح کوئی مثال پیش کرسکتے ! ایسے بہترین مثال کیلئے بابری مسجد کا مقدمہ ہی بہت ہے ۔

0 comments:

Politics

جے شری ۔۔۔۔ اور اللہ اکبر


نہال صغیر
جدید سیکولر جمہوری طرز حکومت کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس میں حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ وہ کسی مذہب کو سپورٹ نہیں کرسکتا ۔ہاں اپنی ذاتی زندگی میں وہ مذہبی رسومات کی ادائیگی کیلئے آزاد ہے ۔ ہندوستانی سیکولر جموہری حکومت میں بھی یہی سب کچھ کہا گیا ہے ۔لیکن یہ صرف دستور کی حد تک ٹھیک ہے ۔ عملا ً آزادی کے بعد سے ہی یہاں ہندوازم کا نفاذ ہوتا رہا ہے ۔ اس کے لئے سب سے پہلے آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو ان کی اوقات بتانے کیلئے بابری مسجد میں مورتیاں رکھ کر اس کے دروازے مسلمانوں پر ہمیشہ  کیلئے بند کردیئے گئے ۔ اس وقت ہمارے ہمالہ جیسے بلند قامت قائد اور سیاست داں موجود تھے لیکن وہ یا تو خاموش رہے یا محض چند الفاظ کی ادائیگی کے فرائض سے سبکدوش ہو کر گوشہ نشیں ہوگئے ۔دو قومی نظریہ کے مقابلے ایک قومی نظریہ کے علمبردار بھی کافی تعداد میں موجود تھے ۔ گویا آزاد ہندوستان میں ان کے’ ایک قومی نظریہ‘ کی دھجیاں ان کی آنکھوں کے سامنے بکھیر دی گئیں اور وہ دیکھتے ہی رہے۔بہر حال بات ہندوراشٹر کی سمت بڑھتے قدم کی چل رہی ہے ۔ کانگریس نے بھی وہی سب کچھ کیا جو آج آر ایس ایس کی حمایت سے بی جے پی کررہی ہے ۔بس فرق ذرا یہ ہے کہ یہ لوگ کچھ زیادہ ہی پرجوش ہیں اور جوش میں انسان احتیاط کا دامن چھوڑ دیتا ہے ۔ کانگریس کے لیڈر اور اس کے کیڈر بڑے منجھے ہوئے گھاگ لوگ تھے انہیں پتہ تھا کہ ملک میں ہندوتوا یا برہمنیت کو کس طرح نافذ کرنا ہے ۔
۱۴ ؍مئی ۲۰۱۴ کو پارلیمنٹ میں جب مودی جی پردھان سیوک کی حیثیت سے داخل ہوئے تو وہاں جے شری ۔۔۔۔کا نعرہ بلند کیا گیا ۔اب صدر جمہوریت منتخب ہونے پر رام ناتھ کووند کی تقریب حلف برداری پر بھاجپائی ممبران پارلیمان نے جئے شری ۔۔۔کا نعرہ بلند کیا ۔اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے گجرات کے آئی پی ایس سنجیو بھٹ نے سوال کیا ہے کہ جب پارلیمنٹ میں اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوگا تب آپ کا ردعمل کیا ہوگا ۔ سنجیو بھٹ نے بالکل صحیح سوال اٹھایا ہے ۔یہ لوگ محض تھوڑی سی قوت پانے کے بعد اپنی سطحی سوچ کا ثبوت دیتے ہوئے وہ حرکتیں کررہے ہیں جس کا ردعمل بھی آج یا کل آنا ہی ہے ۔ ویسے اللہ اکبر کا نعرہ تو بہت بڑی چیز ہے ، انہیں تو صرف اردو میں کسی مسلم ممبر پارلیمنٹ کا حلف لینا تک گوارا نہیں ہے ۔ اگر کبھی ایسا کوئی غیرت مند مسلمان منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچ گیا تو ضرور وہ اس ردعمل کا اظہار کرے گا اور تب ان کا چرغ پا ہونا قابل دید ہوگا ۔ حالیہ برہمنیت کے علمبرداروں کا جوش و خروش کچھ ایسا سطحی انداز کا ہوتا جارہا ہے کہ وہ کہیں بھی کچھ بھی بولنے لگے ہیں ۔ اسی طرح یوپی کے موجودہ  برہمنی وزیر اعلیٰ  یوگی آدتیہ ناتھ نے ایودھیا میں کہا کہ انڈونیشیا سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے  لیکن وہاں کا قومی تہوار رام لیلا ہے ۔ اس پر ڈاکٹرمنموہن سنگھ کے نام سے ٹوئٹر اکائونٹر ہولڈر نے جواب دیا آپ کیا بتانا چاہ رہے ہیں ۔ ہندوستان سب بڑی ہندو آبادی والا ملک ہے تو ہم رمضان کو قومی تہوار قرار دے دیں ۔ یہ بالکل صحیح جواب ہے ۔ اس طرح سے یہ لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جب مسلم ملکوں میں منادر اور ہندو تہواروں کو یہ اہمیت دی جاتی ہے تو ہندوستان میں مسلمان اتنی سختی سے پابندی کیوں کرتے ہیں کہ ’’ہمیں رام مندر نہیں بنانے دے رہے ہیں ‘‘۔ حالانکہ انہیں منادر بنانے اور ان کے پوجا پاٹھ سے کس نے روکا ہے ۔ بابری مسجد مسلمانوں کی ہے اور خالص مسلمانوں کی ہے وہ کسی کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کرکے نہیں بنائی گئی ہے ۔ اس معاملہ اب عدالت عظمیٰ میں ہے ۔لیکن چار سال سے وہاں بھی اس کی سماعت نہیں ہوئی ہے ۔اگر ہمارے ملک میں عدالتیں آزاد اور خود مختار ہوتیں تو الہٰ آباد ہائی کورٹ کا بابری مسجد کی ملکیت والے مقدمہ میں بندر بانٹ والا فیصلہ نہیں ہوتا اور چار سال سے سپریم کورٹ میں بابری مسجد کا مقدمہ زیر التو انہیں ہوتا ۔ عدالت کی لاچاری دیکھئے کہ اس نے فریقوں کو آپس میں معاملہ حل کرنے کا مشورہ دیا ۔اگر آپس میں معاملہ حل ہو سکتا تھا تو پھر اس کے پاس ہی مقدمہ کیوں جاتا ۔دوسری بات یہ کہ یہ دو لوگوں کا جھگڑا نہیں ہے ۔یہ دو قوموں کا معاملہ ہے جسے ہندو شدت پسندوں نے پیچیدہ بنادیا ہے ۔مسلمان تو کہہ رہے ہیں کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ قبول ہوگا ۔لیکن عدالت خوب سمجھ رہی ہے کہ حق کس کے ساتھ ہے انصاف کے معاملہ میں پلڑا کس کا بھاری ہے لیکن فیصلہ کو کون فریق نہیں مانے گا اور ملک کو انارکی میں دھکیل دے گا ۔
بہتر ہوتا کہ ملک کو جے شری ۔۔۔ اور اللہ اکبر کے نعروں میں الجھانے کی بجائے اس کی ترقی کو فوقیت دی جاتی ۔ ملک ترقی کی دوڑ میں آگے کی بجائے پیچھے کو جارہا ہے ۔ ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے ۔ زبردستی ملک پر برہمنیت تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اگر بالجبر جے شری ۔۔۔ کے نعروں کو تھوپا گیا ۔ ملک میں ایک خاص نظریہ چلانے کی کوشش کی گئی تودوسرے فرقہ اور عقیدوں کے لوگ بھی ردعمل میں اپنے نعروں اور عقیدوں کے نفاذ کیلئے جد و جہد کی کوشش کریں گے ۔ نتیجہ کے طور پر ملک لا متناہی انتشار کا شکار ہو جائے گا اور اس کی ذمہ داری موجودہ حکومت کر سر ہوگی ۔

0 comments:

Politics

نہ تم جیتے نہ ہم ہارے


قاسم سید

سیاست کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اس سینہ میں دل نہیں ہوتا وہ بے رحم ’سنگدل‘ مفاد پرست خودغرض ہوتی ہے ۔ اپنے قول وفعل میں تضاد پر شرماتی نہیں اگر انسانی اقدار اور روایات اس کی روح سے نکل جائیں تو حیوانیت ودرندگی کا جامہ پہن لیتی ہے ۔ بے شرم وحیا بن جاتی ہے یہ اس صور ت میں ہوتا ہے جب اس کا واحد مقصد اقتدار ہو‘خدمت نہیں۔بے وفائی وہرجائی پن اس کی سرشت میں داخل ہے ۔ جذبہ وفاداری خال خال ہی ملتا ہے جس طرح بھیڑئیے کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے بھوک لگتی ہے تو وہ اپنا پرایا نہیں دیکھتا‘ اگر سامنے اس کی نسل موجود ہوتو اسے بھی چیرپھاڑ کر کھاجاتا ہے کیونکہ اس کی پہلی اور آخری ترجیح پیٹ بھرنا ہے اسی طرح جب سیاست داں کی پہلی اور آخری ترجیح اقتداربن جائے تو شرافت ، انسانیت ، روایات ، اقدار، وعدے ، دعوت بقدرپیمانہ تخیل بھی نہیں رہتےانہیں روند کر جاتی ہوئی لیلائے اقتدار کا پلوتھام کر بے حیائی کی سارے حدیں پار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا ، جہاں تک ہندوستانی سیاست کا تعلق ہے وہ فرقہ واریت اور سیکولرازم کے کھلونوں سے کھیلنے کی عادی ہے ۔ جب جی چاہا من پسند کھلونااٹھالیا جی بھر گیا تو دوسرے کی طرف ہاتھ بڑھادیا اس کے جواز کے لئے اس کے پاس ہزاروں دلائل ہوتے ہیں اور دلائل بیان کرتے وقت آنکھوں میں شرم کاپانی نظر نہیں آتا ۔ خاص طور سے سیکولر ازم ایک میمنہ ہے جو کبھی گود میں تو کبھی دانتوں کے درمیان ہوتا ہے کب کوئی سیکولرازم کا جاپ کرتے چین کی طرح فرقہ واریت کے ڈوکلام میں داخل ہوجاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا اور کب کوئی فرقہ واریت کے شہر میں زندگی گزارتے سیکولرازم کی سرائے میں پناہ لینے آجاتا ہے اس کا احساس بھی نہیں ہوپاتا ۔ یہ دو قبیلے آزادی کے بعد سے ہی نہ صرف ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے آرہے ہیں بلکہ عوام کے ساتھ بھی سنگین مذاق کر رہے ہیں ۔ خاص طور سے سیکولر قبیلہ اقلیتوں اور دلتوں کو بکری کی طرح استعمال کرتا آیا ہے جو شیر کا شکار کرنے کے لئے مچان کے نیچے باندھی جاتی ہے اس کی تازہ ترین مثال ہم سب کے محبوب اپوزیشن اتحاد کے علمبردار، سنگھ مکت بھارت بنانے کا عزم دکھانے والے نتیش کمار جی ہیں جو نہ جانے کب سے آشیانہ بدلنے کے لئے پرتول رہے تھے اوران کی بے قراری رہ رہ کر سامنے آتی تھی ایک کمزور بہانے کی آڑ لے کر راتوں رات شب خون مارااور پھر وہیں چلے گئے تھے جہاں کے لئے ان کی روح تڑپ رہی تھی ۔ انہیں وزیراعظم اور بی جے پی نے اس طرح سینہ لگایا جیسے کسی ماں کو اس کا میلہ میں کھویا ہوا بیٹا مل گیا ہو۔ جے بھیم کرتے کرتے وہ جے شری رام کہنے لگے ۔ سنگھ مکت بھارت کی تعبیر کو سنگھ یکت بھارت میں ڈھونڈیں گے ۔ انہیں اس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ دو سال قبل بہار کے عوام سے جن طاقتوں کا ڈر دکھاکرووٹ مانگا تھا ان کے اعتماد کا خون ہوسکتا ہے ۔ یہ سراسر وعدہ شکنی ہی نہیں فریب اور اعتماد شکنی ہے۔ ان کے جذبات سے کھلواڑ ہے ۔ ظاہر ہے ایک ایماندار سیاستداں کسی بدعنوان سے سمجھوتہ کیسے کرسکتا ہے ۔ حالانکہ یہ کہتے وقت بھول جاتے ہیں نیا گٹھ بندھن میں وہ شخص شامل تھا جو سزا یافتہ ہے اور اس پر بدعنوانی کے سنگین مقدمات چل رہے تھے یہ گڑ کھاکر گلگلوں سے پرہیز کرنے والی بات بھی کہی جاسکتی ہے ۔
نتیش کمار ایک اچھے شریف انسان ہوسکتے ہیں وہ عملا بے داغ شبیہ کے ایماندار سیاست داں بھی کہے جاسکتے ہیں مگرنظریاتی طور پر وہ کرپٹ اور دیوالیہ ہیں وہ نہ بی جے پی کے لئے مخلص رہے اور نہ ہی اب لالو پرساد یا مہا گٹھ بندھن کے لئے وہ جن بنیادوں پر بی جے پی سے الگ ہوئے تھے جن خدشات نے انہیں سترہ سال کی رفاقت توڑنے پر مجبور کیا تھا اور جس الارم نے راستہ بدلنے پر مجبور کیاتھا اگر وہ سب حقیقی نہیں تھے تو وہ خطرات اور خدشات پہلے سے زیادہ سنگین اور تباہ کن انجام کے ساتھ شراروں سے شعلوں میں بدل چکے ہیں ۔ انہوں نے مودی کو پی ایم امیدوار بنانے کے ساتھ ہی این ڈی اے سے رشتہ منقطع کیاتھا مودی کے ہیئت قلب میں بظاہر تو کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی تو سوال یہ ہے کہ انہوں نے جن خدشات وخطرات کو ڈھال بنا کر جن توقعات کی بنیاد پر این ڈی اے سے نجات حاصل کی تھی کیا وہ پوری نہیں ہو رہی تھیں یا انہوں نے اپنا گول بدل دیا ۔ کیا وہ وزیراعظم بننے سے متعلق مایوس ہوگئے اور ان کی ترجیحات تبدیل ہونے کے ساتھ ہی قبلہ وکعبہ بدلنے کا فیصلہ کرلیا۔ کیا سیکولر مورچہ کے ساتھ رہنے سے ان کی آرزوئوں کو آسودگی حاصل نہیں ہو رہی تھی کہ وہ جائیں ادھر کو ہوا تھی جدھر کی کے لئے مجبور ہوگئے ۔
دراصل جس طرح سے حالات نے کروٹ لی اور آنا فانا سب کچھ ہوتاچلا گیا اس سے یہ اندازہ لگانا قطعاً غلط نہیں ہے کہ پورا اسکرپٹ پہلے سے تیار تھا ، ساری منصوبہ بندی کے ایک ایک نکتہ پر ریہرسل کرلی گئی تھی اور بابری مسجد انہدام کی طرح نتیش کا فیصلہ بھی اچانک نہیں تھا ۔ اس کا تیجسوی معاملہ سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے ۔ یہ کمزور سابہانہ ہے جو کسی معقول انسان کے گلے نہیں اترسکتا۔کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ استعفیٰ کے محض کچھ لمحہ کے بعد بی جے پی ہائی کمان آگے کے حالات پر غور کرنے کے لئے سہ رکنی کمیٹی بناتی ہے تھوڑی دیر بعدخبر آتی ہے کہ پٹنہ میں بی جے پی ممبران اسمبلی کی میٹنگ میں نتیش کمار کی حمایت کا فیصلہ کرلیاگیا ۔ یہ ممبران پھر نتیش کے گھر پر پہنچ جاتے ہیں اور انہیں این ڈی اے کا لیڈر چن لیتے ہیں پھر رات کو ہی گورنر سے مل کر حکومت سازی کا دعویٰ کردیاجاتا ہے ۔ ڈیڑھ گھنٹہ تک گورنر سے صلاح ومشورہ ہوتا ہے ۔ رات کے ڈیڑھ بجے وہاں سے واپسی ہوتی ہے اور سشیل کمار مودی ڈپٹی سی ایم بنادئیے جاتے ہیں ۔ حلف برداری کا وقت جو شام پانچ بجے تھا وہ اچانک ہی صبح 10بجے کا ہوجاتا ہے اور آر جے ڈی کو گورنر گیارہ بجے ملنے کا وقت دیتے ہیں ۔ آخر نتیش کمار کو جلدی کیاتھی انہیں کس بات کا اندیشہ تھا اور ہے جو انہوں نے بغیر تاخیر بی جے پی سے سیاسی شادی کا اعلان کردیا ۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم نے کسی سی ایم کو مستعفی ہونے پر مبارکباد دی ہے ۔ یہ جو ش ومحبت یہ بے قراری بے تابی اور محبت کی لہریں اندرون دریا کب سے ساحل اظہار پر سرپٹکنے کے لئے بے تاب تھیں بس مناسب موقع کا انتظار تھا ۔ آگ تو دونوں طرف لگی تھی اور وہ تیر جو رقابت میں بی جے پی کی آئیڈیا لوجی پر چلائےجاتے ہیں ان کار خ دوسری طرف موڑدیا گیاہے ۔ اب دیش کو تباہی کی طرف لےجانے والی پارٹی یقینی طور پرراشٹر بھکت اور دیش پریمی بتائی جائے گی ۔ مہاگٹھ بندھن میں سوکیڑے نکالے جائیں گےاور ایک دوسرے کے خلاف دل کی بھڑاس باہر نکلے گی ۔ کل تک جو بی جے پی کو چمٹے سے چھونے کو بھی پاپ سمجھتے تھے اب اسے آغوش میں دبائے دلار دکھاتے نظرآئیں گے ۔ یہ ہے ہندوستانی سیاست کا مکروہ چہرہ ۔ ڈھونگی فرقہ پرست اور ڈھونگی سیکولر کا اصلی چہرہ جو ہم دیکھنا نہیں چاہتے اور شترمرغ کی طرح آنکھیں بند کرکے آنے والے طوفان کے گذرجانے کا خواب دیکھتے ہیں ۔
ایسا نہیں ہے کہ لالو دودھ کے دھلے ہیں ۔ انہوں نے سیاسی پاپ نہیں کئے ہیں‘ ان کا پورا خاندان بظاہر بدعنوانی کےحمام میں ننگا لگ رہا ہے۔سب پر بے نامی جائیداد رکھنے کا الزام ہے اور تفتیش کے دائرے میں ہیں ۔ اگر لالو نے سنگین غلطیاں نہ کی ہوتیں توعوام انہیں سیاسی بنواس پر نہ بھیجتے ۔ انہوں نے بہار کے عوام کے لئے کچھ نہیں کیا اور پنا گھر بھرتے رہے ۔ اس کی سزا بھی ملی مگر لالو کی تمام تر بدعنوانیوں ، بدنامیوں اور اقربا پروری کے باجود ایک بات جو لالو کے حق میں جاتی ہے اور انہیں ہندوستان کے دیگر سیاست دانوں سےممتاز کرتی ہے وہ سیکولر اقدار کے ساتھ ان کا عہد وفاداری ہے جس پر ہلکا سا بھی داغ نہیں ہے وہ ملک کے اکلوتے ایسے سیاست داں ہیں جنہوں نے کبھی فرقہ پرست کہی جانے والی قوتوںسے سمجھوتہ نہیں کیا ۔ ان کے ساتھ رفاقت کی راست یا بالواسطہ کوشش نہیں کی شاید ان کی یہی غلطی موجودہ آزمائشوں کا ایک سبب ہوسکتی ہے ۔ دوسری طرف نتیش کمار نے بھلے ہی بی جے پی کے ساتھ مل کر سرکاربنالی ان کی ایماندارانہ شبیہ کو اور جلا مل گئی اور داغ اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گامگر اپنا اعتبار کھونے کی سمت میں ایک قدم اور آگے بڑھ گئے ہیں ۔
یہ خسارہ بہت بڑا ہے جو لوگ ان پر اعتبار کر نے لگے تھے وہ خود کویقینا ٹھگا سا محسوس کرنے لگے ہوں گے ۔ حالانکہ غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو اس میں کچھ غلط بھی نہیں جب سیاست صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کا نام ہے اور ساراکھیل اقتدار کا ہے تواس میں اصول ونظریہ کی جگہ کہاں رہ جاتی ہے ۔ دراصل ہم نے سیکولرازم کو ایمان کا جزولاینفک بنالیا ہے اور جو اس کی صدا لگاتا ہے اس کی طرف لپک پڑتے ہیں یہ سادہ لوحی یا حماقت ہمیں لگاتار محرومیوں کی طرف دھکیل رہی ہے جس سے دل لگاتے ہیں وہ تھوڑی دور چل کر دغا دے جاتا ہے اور ہم پھر کس راہرو کو ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں۔ سیکولرازم ان کے لئے ضرورت ہے اور ہمارے لئے عقیدت ، ان کے لئے کھلونا ہے ہمارے لئے وہ واحد راہ نجات ، یہ حکمت عملی کی غلطی ہے ملک کی 14فیصد آبادی گھڑی کے پنڈولم کی طرح ادھر سے ادھر بھاگ رہی ہے ۔ اسے قرار نہیں۔ کوئی جائے پناہ نہیں ۔ سوال کسی کے دھوکہ دینے کا نہیں دھوکہ کھانے کا ہے۔ نتیش کمار تو ایک علامت ہیں یہاں تو قدم قدم پر ایسے نتیش کمار ہیں ۔ ان پر ایمان لانے والوں کے لئے یہ واقعہ یا ایسے واقعات دل شکنی کاباعث بن سکتے ہیں لیکن جو سیکولرازم اور فرقہ واریت کے ڈھکوسلوں سے واقف ہیں ان کے لئے یہ تفریح طبع کاسامان ہیں۔2019سامنے کھڑاہے اور بظاہر مودی کے سامنے کوئی بھی نہیں ہے ۔ بہار جو مضبوط چٹان کی طرح تھانتمستک ہوگیا ۔ دیکھنا ہے کہ عام انتخابات تک اور کون کون سجدہ سہو کرتاہے ۔ سیکولرازم جارح ہندوتو کے آگے عصائے سلیمانی لگ رہاہے کیا پتہ قدرت نے کچھ اور سوچ رکھا ہو کیونکہ ہم نے اپنے حصہ کا کام بھی قدرت کو سونپ رکھا ہے ۔
qasimsyed2008@gmail.com


0 comments:

Muslim Worlds

انسانی تاریخ کے عروج و زوال میں بنت حوا کاکردار اور عرب کے موجودہ فرعون ..!



عمر فراہی ۔ ای میل  :  umarfarrahi@gmail.com

مصر میں جمہوری طریقے سے منتخب صدر ڈاکٹر مرسی کے خلاف فوجی بغاوت اور ان کی حمایت میں سڑکوں پر اتری بھیڑ پر جس طرح رمضان کے مہینے میں گولیاں برسائی گئیں یہ حادثہ خود اپنے آپ میں کسی ظلم عظیم سے کم نہیں تھا ۔لیکن اس کے بعد نہ صرف ڈاکٹر مرسی کے ساتھ نہتے مظاہرین کو بھی پابند سلاسل کیا گیابلکہ مجھے یاد نہیں ہے کہ مغلیہ سلطنت اور سلطنت عثمانیہ کے آخری دور تک اسلام کی تیرہ سو سالہ سیاسی تاریخ میں کسی مسلم حکومت میں کبھی بنت حوا کو بھی وہ چاہے کسی بھی مذہب اور قوم سے تعلق رکھتی ہوں ہتکڑیاں لگا کر پابند سلاسل کیا گیا ہو۔لیکن اکیسویں صدی میں یہ کارنامہ مصر کے یہود نواز فوجی ڈکٹیٹر السیسی نے انجام دیا اور اس ظلم کی حمایت عرب کے دیگر موجودہ فرعونوں نے بھی کیا اور ابھی تک مسلسل کیا جارہا ہے۔اکیسویں صدی کی اس فرعونیت سے پہلے یہ کارنامہ اسی مصر میں جمال ناصر اور شام میں حافظ الوحشی کے ذریعےانجام دیا گیا ۔مشہورو معروف سماجی خدمت گار زینب الغزالی کو نو سال اور شام کے ایک کالج میں زیر تعلیم ایک مسلم دوشیزہ مریم دباغ کو پانچ سال تک سلاخوں کے پیچھے جس خوفناک اذیت اور تشدد سے گذارا گیا یہ پوری داستان انہیں کی زبانی ان کی تصنیف "زنداں کے شب وروز" اور "صرف پانچ منٹ" میں پڑھا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ امریکی اور ایرانی حکومتوں میں عافیہ صدیقی اور ریحانہ جبار کے ساتھ جو ہورہا ہے اور جو ہوچکا ہے موجودہ مہذب جمہوری تاریخ سے پہلے قرآن میں فرعون کا تذکرہ آتا ہے جس نے ایک پوری قوم کی عورتوں کو قیدی بنا کر ان کی اولادوں کو اس لئےقتل کرنا شروع کردیاتھا کیونکہ اس کے نجومیوں کی پیشن گوئی تھی کہ بنی اسرائیل کا ایک نوجوان اس کی سلطنت کو تباہ کرنے کیلئے پیدا ہونے والا ہے۔اس کے برعکس خلفائے راشدین کے بعد سلسلہ ملوکیت میں بھی مسلم حکمرانوں کی اتنی غیرت زندہ تھی کہ انہوں نے بنت حوا کی عفت و عصمت پر کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دی۔حجاز بن یوسف کو مسلم دور حکومت میں ایک ظالم اور جابر حکمراں کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن پھر بھی اس نےہندوستان کی سرحد میں ایک عرب قافلے کو قیدی بنا لیےجانے پر اپنی فوج کو کوچ کرنے کا حکم دے دیا اور پھر محمد بن قاسم کی قیادت میں راجہ داہر سے جو معرکہ آرائی ہوئی اس واقعے کوتاریخ کےسنہرے باب میں شمار کیا جاتا ہے ۔تاریخ میں معتصم با اللہ کے اُس واقعے کو تمام مورخین نے نقل کیا ہے کہ اس نے اپنی سرحد کے باہر ایک عرب لڑکی کے اغوا کر لیے جانے اور اس کی اس چیخ وپکار پر کہ یا معتصم باللہ مجھے بچاؤ اپنی فوج کو اسی وقت کوچ کرنے کاحکم دیااور اس وقت تک بھوکا اور پیاسا اپنی فوج کو لیکر سفر کرتا رہا جب تک کہ اس نے لڑکی کو آزاد نہیں کروا لیا ۔ایک واقعہ اسی صدی میں طالبان کے دور کا ہے جب برطانیہ کی ایک خاتون جرنلسٹ ایون ریڈلی چوری چھُپے طالبان کی جاسوسی کرنے کیلئے ان کی سرحد میں داخل ہوگئی اور گرفتار ہوگئیں۔ طالبان نے نہ صرف ان کی عزت وعصمت کی حفاظت کی بلکہ انہیں بعد میں رہا بھی کردیا اور ایون ریڈلی نے رہائی کے بعد برطانیہ پہنچ کر اپنے اسلام میں داخل ہونے کا اعلان بھی کردیا ۔داعش جسے ایک خونخوار دہشت گرد تنظیم کہا جاتا ہے اور اس کی دہشت گردی کے تعلق سے تحریکی، سلفی ،دیوبندی اور شیعہ سبھی متفق ہیں جب انہوں نے 2013 میں موصل پر قبضہ کیا تو ان کے قبضے میں تقریباً چالیس ہندوستان کی نرسیں بھی آئیں اور انہیں یہ خوف لاحق ہوگیا کہ شاید اب ان کی عزت آبرو محفوظ نہ رہ پائے، اسپتال کے تہ خانوں میں چھپ گئیں ۔ کسی ذرائع سے داعش کے لوگوں سے رابطہ کرکے ہمارے ملک نے جب ان کی واپسی کا نظم کیا اور داعش کے لوگوں نے تہ خانوں میں چھپی نرسوں کو باہر آنے کیلئے کہا تو وہ ساری نرسیں خوف سے لرز رہی تھیں اور بیشتر تہ خانے سے آنے کو بھی آمادہ نہیں تھیں ، مگر جب انہوں نے دھمکی دی کہ اگر وہ باہر نہیں آتی ہیں تو پوری عمارت کو بارود سے اڑا دیا جائے گا ،نرسوں کو مجبوراً باہر آنا پڑا ۔داعش کے فوجیوں نے اپنی حفاظت میں ان تمام نرسوں کوایرپورٹ پر کھڑے ہندوستانی جہاز تک پہنچایا اور اس دوران راستے میں یقین بھی دلایا کہ آپ فکر نہ کریں آپ لوگ ہماری بہن جیسی ہیں آپ کو کچھ نہیں ہوگا ۔ نرسوں کو اس بات پرمکمل یقین اس وقت ہوا جب وہ جہاز میں سوار ہوگئیں اور جہاز نے ان کے ملک کیلئے پرواز شروع کردی ۔یہ باتیں نرسوں نے خود ہندوستان پہنچ کر میڈیا کے سامنے بیان کیں۔
بہادر قوموں کی تاریخ بھی رہی ہے کہ نہ تو انہوں نے کسی قوم کی عورتوں کی عزت و آبرو پر حملہ کیا ہے اور نہ ہی اپنی عورتوں کی غیرت پر آنچ آنے دیا ہے۔ مگر جب وہ اپنی اس غیرت اور حمیت سے محروم ہوئیں توایسی قومیں صفحہءِ ہستی سے مٹا دی گئی ہیں ۔اسپین میں طارق بن زیاد کو اگر غلبہ حاصل ہوا اور مقامی عیسائی حکمراں اقتدار سے محروم ہوئے تو اس لئے کہ انہوں نے اپنے ہی ملک کی خوبصورت لڑکیوں کو جبراً اپنے حرم کی زینت بنانا شروع کردیا تھا ۔ہندوستان میں محمد بن قاسم اور محمود غزنوی کی آمد سے پہلے تک غریب اور پسماندہ قسم کے ہندو خاندان کی عورتوں کیلئے لازم تھا کہ وہ مندروں میں داسی کا کردار ادا کرتے ہوئے رقص وسرود کی محفلیں سجائیں ۔ بہت سے غریب خاندان اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہورہے اس ظلم کو دیکھنے کے بعد بھی مہنتوں اور پجاریوں کے سامنے زبان نہیں کھول سکتے تھے کیونکہ یہی لوگ حکمراں طبقات کے ناظم اور امور مالیات کے اصل نگراں تھے یہی وجہ تھی کہ جب مسلم فوجیں ہندوستان کے علاقوں میں داخل ہوئیں تو یہاں کی آبادی نے کوئی مزاحمت نہیں کی -بعد میں مغلیہ سلطنت کے زوال کی وجہ بھی یہی تھی کہ بادشاہ شریف ماؤں کی بجائے لونڈیوں سے جنے جانے لگے ۔
یہ واقعہ میری نظر سے تو نہیں گذرا لیکن پڑھائی کےدوران اپنے استاد سے سنا تھا کہ جب نادر شاہ درانی نے دلی پر حملہ کیا تو دلی کے شہزادے اپنی بیگمات کو محل میں تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ نادر شاہ جب دلی کے محل میں داخل ہوا تو اس نے محل میں موجود شہزادیوں کو اپنے اہل کاروں سےگنگھرو بھیجوائے اور حکم دیا کہ ان سے کہوکہ وہ فلاں کمرے میں آئیں اور رقص کریں ۔ نادر شاہ درانی یہ حکم دیکر خود کمرے میں نیم برہنہ ہوکرگہری نیند میں ہونے کا بہانہ کرکے سو گیا اور ایک تلوار کمرے کے دروازے پر میز پر رکھ دی ۔ڈری سہمی شہزادیاں گھنگھرو پہن کر کمرے میں داخل ہوئیں اور رقص کرنے لگیں۔کچھ وقفے کے بعد نادر شاہ درانی اٹھ کر بیٹھ گیا اور شہزادیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ کیا تم وقت کے شاہوں کی بیویاں اور شہزادیاں ہو۔اگر تمہارے اندر ذرہ برابر بھی غیرت اور شرم ہوتی تو تم رقص کرنے سے انکار کردیتیں اور پھر جب تم نے یہ دیکھا کہ وہ شخص جس نے تمہیں رقص کرنے کا حکم دیا ہے گہری نیند سو رہا ہے اور ممکن ہے کہ اس کے بعد تمہاری عزت و آبرو سے بھی کھلواڑ کرتا کیا تم میں سے کسی میں اتنی غیرت نہیں تھی کہ وہ سامنے رکھی ہوئی تلوار اٹھاتی اور مجھے قتل کردیتی۔میرا مقصد تم سے رقص کروانا نہیں تھا بلکہ یہی دیکھنا تھا کہ آخر دلی کے شہنشاہوں کی شکست کی وجہ کیا تھی ۔ اس نے ایک تاریخی جملہ ادا کیا کہ جب کسی قوم کی مائیں اور بیٹیاں بے غیرت ہوجائیں تو اس قوم سےبہادر نہیں بزدل پیدا ہوتے ہیں ۔وہ شہزادے جو اپنی جان بچا کر محل سے بھاگے ہیں اگر وہ بہادر ماؤں کی اولادیں ہوتیں تو سب سے پہلے تو وہ شکست ہی نہ کھاتے اور اگر ایسا ممکن بھی ہوتا تو یہ لوگ فرار ہوتے وقت اپنی بیویوں بہنوں اور بیٹیوں کو بھی ساتھ لے جاتے یا پھر تمہاری حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان دے دیتے ۔
یہ بات بھی سچ ہے کہ جو قوم اپنی ماؤں بہنوں بیویوں اور بیٹیوں کی حفاظت نہ کر سکے یا ان پر ظلم کی مرتکب ہو تو وہ کسی ریاست پر حکومت کرنے کا بھی حق کھو دیتی ہے۔یقیناً قدرت نے ایسی قوموں سے اقتدار بھی چھین لیا ہے۔لیکن تاریخ میں جب حضرت سمیہ حضرت عائشہ صدیقہ اور زینب جیسی ماؤں نے اپنی غیرت اور بہادری کا مظاہرہ کیا ہے تو اس قوم سے صرف اور صرف بادشاہ پیدا ہوئے ہیں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح وہی مشرکین جو اپنی بیٹیوں کا قتل کردیتے تھے جب اسلام میں داخل ہوئےتو عرب سے افریقہ یوروپ اور روس تک دوسری قوموں پر غالب آتے چلے گئے- اسلامی تاریخ کے عروج میں حضرت ہاجرہ ، مریم ،آسیہ اور حضرت خدیجتہ الکبریٰ اور فاطمہ کے کردار کو کون بھول سکتا ہے، جنھوں نے ایک ماں بیٹی اور بیوی کے کردار میں اسمٰعیل عیسیٰ، موسٰی کلیم اور وقت کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی اور حسین جیسے کردار کی پرورش اور خدمت کی ۔آج امریکہ ،مصر شام اور عراق کی جیلوں میں نو عمر مسلم دوشیزائوں کی چیخیں کسی بھی عرب مسلم حکمراں کو سنائی نہیں دیتیں ۔ تاریخ کہتی ہے کہ سیتا کو اغوا کرنے والے اورراون اوردروپدی کی بے عزتی کرنے والے یدھشٹر کی عظیم سلطنت کا نام ونشان مٹ گیا تو پھرایک ایسے وقت میں جب کہ مصر کی عائشہ زینب سمیہ اور ہاجراؤں  نےاپنے ہاتھوں سےمہندی چھڑا کر ہتکڑیاں پہن ہی لی ہیں تو کیا عرب کے فرعون ان کی اولادوں کے عتاب سے بچ سکیں گے۔شاید عرب کے حکمراں قذافی زین العابدین اور حسنی مبارک اور عبداللہ صالح سے کوئی سبق لینے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔تاریخ کے اسی بھولے ہوئے سبق کو یاد دلاتے ہوئے اقبال نے کہا تھا
                 ؎  کھول کرآنکھیں مری آئینہ ءِ گفتار میں۔۔آنے والے دور کی دھندھلی سی اک تصویر دیکھ

0 comments:

Politics

نتیش کمار: بے وفا باوفا نہیں ہوتا




ڈاکٹر   سلیم خان
بہار کے صوبائی  الیکشن میں دو غلطیاں وزیراعظم نریندر مودی کو بھاری پڑگئیں حالانکہ  دونوں مرتبہ وہ ان کی  بات درست تھی۔  پہلی بات تو یہ تھی کہ نتیش کمار کے ڈی این اے میں دغابازی ہے۔ نتیش کمار کے بارے میں یہ دعویٰ  مودی جی نے ان کی  ۱۷ سالہ رفاقت  کی بنیاد کیا تھا اس لیے کہ وہ ان کی رگ رگ سے واقف تھے لیکن نتیش نے بڑی  مہارت  اس کو بہاریوں کے وقار کا مسئلہ بنادیا   ۔ بی جے پی والے یہ کہتے کہتے تھک گئے کہ تبصرہ بہاریوں پر نہیں  ہے مگر نتیش کمار  پرہے مگر بڑی مکاری کے ساتھ اس کو صوبے کے سارے بہاریوں کی توہین قرار دے دیا گیا اور اس کو گجرات کے مقابلے بہار تنازع بنا کر پیش کیا گیا۔  ایک زمانے تک  گجرات میں وزیراعلیٰ کے طور پر نریندر مودی بھی یہی گورکھ دھندہ کرتے رہے۔ ان کی مجرمانہ حرکتوں پر جب مرکز کا شکنجہ کستا تھا تو وہ اسے اپنی ذات سے پھیلا کر پورے صوبے کی عوام پر دہلی کا حملہ قرار دے دیتے اور عوام ان کے جھانسے میں بہ آسانی آجایا کرتے تھے ۔ مودی جی  نےگجرات کے تین انتخابات میں اسی حکمت عملی سے کامیابی حاصل کی  تھی ۔نتیش کمارنے بھی اسی  حربے کا  کامیابی کے ساتھ استعمال کرلیا ۔
اندرا گاندھی  سے لے کر نریندر مودی اور نتیش کمار تک میں یہ قدر مشترک ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کو قومی یا صوبائی مفاد سے منسلک کردیتے ہیں ۔  یہی  سوچ ہے  کہ جس نے کبھی اندرا گاندھی کے بارے   میں کہلوایا تھا ’اندرا ہی انڈیا‘ ہے۔ آج کل یہی نقطۂ نظر مودی کے دشمنوں کو  ملک کا دشمن   قرار دے دیتا ہے اور مودی کے مخالفین کو ان کے رادھا موہن سنگھ جیسے لگ نہ صرف  پاکستان  جانے مشورہ بلکہ جبراً پاکستان بھیجنے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔ بہار کی عوام سےکہا گیا کہ وہ اپنے ناخن کے نمونے جمع کروائیں تاکہ انہیں دہلی روانہ کیا جاسکے اور ساری دنیا کو پتہ چل جائے کہ  بہاریوں کے ڈی این اے میں کیا ہے؟  اس وقت خوش قسمتی سے نتیش کے ساتھ لالو پرشاد یادو کھڑے تھے  جنہوں نے بڑی خوبی کے ساتھ اسے عوامی مسئلہ بنادیا ۔
نتیش کمار کے اندر عیاری و مکاری تو کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی  ہے لیکن عوامی لہر پیدا کرنے صلاحیت نہیں ہے اس لیے انہیں ہمیشہ کسی نہ کسی بیساکھی ضرورت پیش آتی ہے ۔ ۱۷ سالوں تک  بی جے پی سے یہ کام لے کر وہ وزیراعلیٰ بنے رہے  مگر پچھلے صوبائی انتخاب سے قبل وہ پھر ایک بار اپنے پرانے دوست لالو پرشاد یادو کی گود میں جابیٹھے ۔ یہ وہی لالو پرشاد یادو ہیں جن کے ساتھ نتیش کمار نے اپنی سیاسی زندگی شروع کی تھی اور جن کے کندھے پر بیٹھ کر وہ سیاست کی دنیا میں آئے تھے مگر آگے چل کرانہیں  کی پیٹھ میں بی جے پی کا ترشول  گھونپ کر وہ  پہلے مرکزی وزیر اور پھر وزیراعلیٰ بن گئے۔ نتیش نے پھر  ایک  بار پھر اپنی پرانی موقع پرستی کی  روایت کو دوہرا کر بشیر بدر کی مشہور غزل کا مطلع یاد دلا دیا ؎
بےوفا باوفا نہیں ہوتا                       ختم یہ فاصلہ نہیں ہوتا
نتیش کمار کی ابن الوقتی نے ان کے اور لالو یادو کے درمیان فاصلے پیدا کردیئے مگر اسی کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ان کی دوریوں کو مٹا دیا ۔  نتیش کے  فاصلوں کا بننا اور بگڑنا خالصتاً  سیاسی مفاد کے پیش نظر ہوتا ہے۔ یہی چیز جب بی جے پی کے قریب لے جاتی ہے تو ان کی زبان پر بدعنوانی کا نعرہ ہوتا ہے اور جب بی جے پی سے دور لے آتی ہے تو سنگھ پریوار کی فسطائیت کا حیلہ ہوتا ہے۔  پچھلے قومی انتخاب میں انہوں نے مونگیری لال  کی مانند خواب دیکھتے ہوئے وزیراعظم بننے کے چکر میں نریندر مودی کی فرقہ پرستی کا بہانہ بناکر بی جے پی سے دامن چھڑا لیا تھا۔ مسئلہ نریندر مودی سے نہیں تھا اس لیے کہ گجرات فساد کے بعد بھی انہوں نے  نہ بی جے پی کو چھوڑا تھا اور نہ مودی کی مخالفت کی تھی ۔ ہوا یوں  کہ   جب سب  کو یقین ہوگیا کانگریس کے دن لد چکے ہیں اور بی جے پی نے مودی کو اپنا امیدوار بنا دیا تو نتیش کو لگا مودی تواکثریت  نہیں لاسکتے اس  لیے اگر پھر سے تیسرےمحاذ کی قسمت کھلتی ہے تو دیوے گوڑا کی طرح ان کی بھی لاٹری لگ سکتی ہے۔  اصل بات تو یہ تھی لیکن اس   کےاظہار کی جرأت نہیں تھی جیسا کہ غزل کا اگلا شعر ہے؎
جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں                       کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا
قومی انتخاب  کے نتائج نے نتیش  کے سارے خواب چکنا چور کردیئے اور وہ  بی جے پی کے مقابلےچاروں شانے چت ہوگئے ۔ اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے انہوں نے وہی حربہ استعمال کیا جو اس بار کیا ہے یعنی استعفیٰ پیش کردیا اورجتن رام  مانجھی کو وزیراعلیٰ کی کرسی سونپ دی ۔ مانجھی نے اپنی وفاداریاں بدل کر بی جے پی کے ساتھ پینگیں بڑھانی شروع  کیں تو ان کو برخواست کرکے  خود وزیراعلیٰ بن گئے اور یہی موقعہ تھا کہ جب بغض معاویہ میں لالو یادو نے نتیش کمار کی حمایت کردی۔ لالو کا یہ داوں کامیاب رہا انہوں نے نتیش اور کانگریس کو ساتھ لے کر بی جے پی کو دھوبی پچھاڑ دیا جس کی توقع کسی کو نہیں تھی۔ لالو جی نہایت مقبول ریلوے وزیر رہے ہیں اس لیے وہ بھی وزیراعظم بننے کا خواب دیکھتے ہیں ایسے میں سب سے بڑی پارٹی بن جانے کے باوجود انہوں نے دوبارہ وزیراعلیٰ بننے کے بارے میں نہیں سوچا بلکہ اپنے بیٹوں کو وزارتیں  تھما کر خود سنگھ مکت بھارت کا نعرہ بلند کردیا۔   
قومی انتخاب نے جس طرح نتیش کمار کی غلط فہمی دور کردی اسی طرح صوبائی انتخابات کے نتائج نے مودی جی کی خوش فہمیوں کا خاتمہ کردیا اور دونوں اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ بہار کی حد تک ان کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا۔ اسی کے ساتھ ایک نئی سازش کا آغاز ہوگیا جس میں ایک طرف نتیش کمار کی بدعنوانیوں  کی پردہ پوشی کی جاتی تھی بلکہ وقتاً فوقتاً ان کی تعریف و توصیف بھی ہوجاتی تھی  اور لالو یادو پر یکے بعد دیگرے چھاپے پڑتے تھے۔  نتیش کمار  اور ان کے سابق  نائب وزیر اعلیٰ سشیل کمار مودی کے خلاف ۱۱ہزار  کروڈ سے  زیادہ کی بدعنوانی کا ایک مقدمہ ۱۳ جولائی ۲۰۱۲؁ کو قائم ہوا تھا جو ہنوز التواء میں ہے۔   اس میں شک نہیں کہ لالو یادو بدعنوان ہے لیکن ہندوستانی سیاست کے گندے تالاب میں پاک صاف کون ہے؟ مودی جی اپنے ساتھ اڈانی اور امبانی کو لے کر کیوں گھومتے ہیں اور نتیش کے پاس انتخابی مہم چلانے کیلئے روپیہ کہاں سے آتا ہے؟ لیکن لالوجی  پر کارروائی کرکے مودی جی نے نتیش   کمار کو یہ پیغام دے دیا کہ یہی سب تمہارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ۔ اس سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ پھر سے ہمارے شرن میں آجاو  اور اقتدار کے مزے لوٹو ۔ یہی وہ مجبوری  ہےکہ جس  نےنتیش کمار سے استعفیٰ دلوایا ہے بقول بشیر بدر؎
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی                    یوں کوئی بےوفا نہیں ہوتا
نتیش کمار کے تیور اس وقت سے بدلنے لگے تھے جب سارا ملک نوٹ بندی کے عتاب میں گرفتار تھا ۔ ساری قوم اےٹی ایم کی قطار میں کھڑی کردی گئی تھی ۔ ایک موقع پر خود مودی جی کو  بھی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا اور رونے دھونے لگے تھے نیز انہوں نے ۵۰ دن کا وقت مانگ کر  بصورتِ ناکامی کسی بھی چوراہے پر پھانسی  چڑھ جانے پر رضامندی کا اظہار کردیا تھا ۔ جب ۵۰ دن بعد بھی  حالات نہیں سنبھلے تو لالو یادو نے اپنے خاص انداز میں سوال کیا کہ مودی جی اب بتائیے کہ کس چوراہے پر پھانسی دی جائے لیکن نتیش کمار نے حزب اختلاف کے خلاف نوٹ بندی کی تعریف میں کہہ دیا کہ  اس سے غریبوں کا فائدہ ہواہے اور بدعنوانی کو لگام لگی ہے۔ خیر اس بات کو ٹال دیا گیا لیکن صدارتی انتخاب سے قبل بلی پوری طرح تھیلے سے باہر آگئی۔  نتیش کو گھیرنے کے لیے حزب اختلاف نے اپنا امیدوار بدل دیا اور بہار کی رہنے والی دلت خاتون  میرا کماری کو نامزد کردیا لیکن نتیش ٹس سے مس نہیں ہوئے  اس لیے کہ اب انتظار ناممکن ہوگیا تھا اور وہ دن دہاڑے  بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کھل کر بی جے پی کی حمایت میں نکل آئے  بقول شاعر ؎
رات کا انتظار کون کرے                           آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا
بہار صوبائی انتخاب کی مہم کے دوران مودی جی  نے نتیش کمار کے ساتھ  قومی سطح کے کئی پروجیکٹس کی سنگ    بنیاد رکھنے کے بعد ایک عوامی جلسے میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا اٹل جی نے بہار کو ۱۲۰۰۰کروڈ دیئے تھے کانگریس نے صرف ۱۰۰۰ کروڈ دیئے۔ اس کے بعد انہوں نے نیلامی کے انداز میں عوام سے پوچھنا شروع کیا میں کتنے دوں ؟ ۴۰ ہزار کروڈ ، ۵۰ ہزار کروڈ یہاں تک کہ اس رقم کو سوالاکھ کروڈ تک لے گئے۔ مودی جی کے اس رویہ کو لالوجی نے خوب آڑے ہاتھوں لیا اورسوال کیا کہ کیا وہ اپنی جیب سے بہاریوں کو بھیک دے رہے ہیں۔ نتیش کمار نے اس کو رشوت کے مترادف قرار دیا ۔ بہار کی عوام نے مودی کے اس تماشے کو دھتکار دیا ۔ مودی کی رشوت ان کی  منھ پر دے ماری لیکن افسوس کے  اسی عوام کے رہنما  نے بدعنوانی  کی مخالفت کا بہانہ بناکر  دونوں ہاتھوں سے رشوت سمیٹ  لی اور  اپنے ضمیر کا سودہ  کردیا۔ نتیش کی نیلامی پر  پروین شاکر کا یہ شعر صادق آتا ہے  ؎
پوچھا موسم بدلتے ہیں کیسے                      تم نے اپنی مثال دی ہوتی

0 comments:

Politics

نتیش بی جے پی کی آغوش میں :پہنچی وہیں پر خاک جہاں کا خمیر تھا!

نہال صغیر


بہار کے مسٹر کلین نے ڈرامائی انداز میں استعفیٰ دے دیا ۔ ان کے استعفیٰ سے یہ محسوس ہورہا تھا کہ بہار میں سیاسی غیر یقینی کی فضا چھا جائے گی ۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔نتیش کے استعفیٰ کے محض دو منٹ بعد ہی پردھان سیوک کی جانب سے مبارکباد کا ٹوئٹ پھر دہلی اور بہار میں بی جے پی کی میٹنگ کے بعد نتیش کی حمایت کا اعلان اور صرف بارہ گھنٹے کے بعد ہی بی جے پی کی حمایت سے حکومت بنانے کا دعویٰ اور وزیر اعلیٰ کا حلف لینا گویا سب کچھ پہلے سے طے تھا ۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد بھی فوری طور پر نریندر مودی نے نتیش کو وزیر اعلیٰ اور سشیل مودی کو نائب وزیر اعلیٰ بننے کی مبارکباد دی اور بہار کی ترقی کیلئے مل کر کام کرنے کی نصیحت بھی ۔ملک میں بھیڑ کے ذریعہ قتل عام یا دلتوں کو اونچی ذات کے ہندوؤں کے ذریعہ نشانہ بنائے جانے پر پندرہ پندرہ دن مون برت رکھنے والے مودی نے جتنی سرعت سے ٹوئٹ کرکے مبارکباد دی اس سے بات صاف ہے کہ یہ اسکرپٹ پہلے سے تیار تھی بس اسے روبہ عمل لانے کیلئے مناسب وقت کا انتظار تھا ۔ تیجسوی سمیت لالو یادو کے خاندان کے ساتھ سی بی آئی کی سریع الحرکت انداز سے کارروائی سے بھی یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اس کو استعمال کرکے لالوپرشاد کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے ۔سی بی آئی کی تیز رفتاری اور بی جے پی کی گرم گفتاری پر وہی بات کہی جاسکتی ہے جسے سپریم کورٹ نے کبھی یو پی اے حکومت میں کہا تھا کہ ’’یہ حکومت کا طوطا ہے ‘‘۔سی بی آئی کا اپنے سیاسی مفاد کیلئے استعمال کانگریس نے بھی خوب کیا اور اب بی جے پی بھی انہی راہوں کی مسافر ہے ۔
جس شام پٹنہ میں سیاسی ڈرامہ جاری تھا اسی دن مدھیہ پردیش میں بدنام زمانہ ’’ویاپم ‘‘سے جڑے ایک اور شخص نے خود کشی کرلی ۔قارئین کو یاد ہوگا کہ ویاپم اب تک کا سب سے بڑا تعلیمی بدعنوانی کا معاملہ ہے ۔ لیکن چونکہ اس کا تعلق مدھیہ پردیش سے ہے اور وہاں بی جے پی کی حکومت ہے نیز ویاپم بدعنوانی معاملہ میں سنگھ اور بی جے پی کے بڑے بڑے نام ہیں اس لئے نہ تو اس پر کوئی کارروائی ہوئی اور نا ہی اسے میڈیا میں وہ جگہ ملی جو حزب مخالف سے جڑے معاملہ کو دی جاتی ہے ۔ ویاپم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس معاملہ سے جڑے افراد کی موت کی گنتی پچاس کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ جی ہاں صرف دو سال قبل اس سے جڑے لوگوں کو کہیں کہیں مرے ہوئے پائے گئے اور یہ ایک سریز کی طور پر ہوا ۔کوئی کسی ندی یا سمندر کے کنارے مرا ہوا پایا گیا تو کوئی اپنے ہوٹل کے کمرے میں مرا ہوا ملا ۔کسی کو اپنے بیڈ روم میں موت نے آدبوچا ۔گویا یہ انسان نہیں چوہے رہے ہوں جوزہرلی دوا کے اثرات سے جگہ بجگہ مردہ ملے۔ ہندوستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا وحشت ناک معاملہ ہے جس میں اتنے سارے لوگوں کو ماردیا گیا یا مرنے کیلئے مجبور کیا گیا ۔ جانوروں کے چارہ بدعنوانی معاملہ میں بھی کچھ لوگ مرے ہیں لیکن ان کی تعداد شاید دس کے بھی اندر ہے ۔ لیکن چونکہ اس سے جڑے معاملے میں لالو یادو ماخوذ ہیں اس لئے اسے میڈیا میں خوب اچھا لا گیا ۔ حالانکہ بہار کا چارہ بدعنوانی معاملہ کوئی لالو پرشاد یادو کے دور میں نہیں ہوا ۔ یہ بدعنوانی بہار کے مشہور وزیر اعلیٰ اور بہار کانگریس کے لیڈر جگناتھ مشرا کی وزارت اعلیٰ کے دور سے چلا آرہا تھا ۔ اس میں لالو یادو کا اتنا قصور تو ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں اس پر نکیل نہیں کسا ۔ لیکن آپ میڈیا میں جگناتھ مشرا کا کہیں نام نہیں سنیں گے ۔ ایسا کیوں ؟جانتے ہیں ، اس لئے کہ جگناتھ مشرا سورن ہندوؤں کی جماعت سے آتے ہیں اور لالو پرشاد پسماندہ یادو برادری سے ۔ اس لئے انہیں ایسا پیش کیا جاتا ہے جیسے ان کے علاوہ اس ملک میں سبھی ایماندار ہیں ۔ بس یہی وہ شخص ہے جس نے ہندوستانی سیاست کو بد عنوانی کی دلدل میں پھنسا دیا ہے ۔ اس لئے اس سے نجات ضروری ہے ۔
لالو پرشاد کا ایک گناہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے بی جے پی جیسی پارٹی کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور برہمنوں سمیت سورن ہندوؤں کی برتری کو چیلنج کیا ۔ ان کے اس رویہ نے بھی انہیں کافی نقصان پہنچایا ۔ وہ بھی اگر نتیش کی طرح کرنسی منسوخی کے احمقانہ فیصلہ کو بدعنوانی کے خلاف ایک اہم قدم کے طور پر پیش کرتے اور مودی جی کی تعریف کے پل باندھتے تو انہیں پھر کوئی پریشانی نہیں ہوتی ۔ لیکن ہندوستانی سیاست کا ایک ہی شیر مرد ہے جو پرزور اور پر شور آواز میں حکومتی ایوانوں میں بیٹھے بدعنوان برہمنیت کے علمبرداروں کو کھلے عام چیلنج کرتا ہے اور اس پر ڈٹا رہتا ہے ۔ یہی اس کا جرم بلکہجرم عظیم ہے ۔ اس کے اس جرم نے برہمنیت کی جڑوں کو کھوکھلا کیا ۔ بہار میں ترقی کا سہرا عام طور پر لوگ نتیش کمار کے سر باندھتے ہیں لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ اس کی شروعات لالو پرشاد یادو نے کی تھی ۔ اگر لالو نے حکومتی ایوانوں اور دفاتر میں بیٹھے برہمنی بابوؤں کو ان کی اوقات نہیں بتائی ہوتی تو نتیش کے لئے کبھی ممکن نہیں تھا کہ وہ بہار کی ترقی کیلئے کام کرسکتے ۔ نتیش کیلئے ترقی کی راہوں کو آسان بنانے والے کا نام ہی لالو پرشاد ہے ۔ ہمیں یاد ہے کہ آج سے پچیس سال قبل تک اندرون بہار کی کیا حالت تھی ۔ جبکہ اس وقت تک کانگریس کی ہی حکومت تھی ۔ کانگریس تو بھاگلپور فساد کے بعد ناپید ہوئی ۔ مرکز اور ریاست دو نوں ہی جگہ کانگریس ایک مضبوط حکومتی پارٹی تھی لیکن وہ بھی تو برہمن اور بنیا پارٹی ہے نا اس لئے اس نے بہار کی ترقی کیلئے کچھ نہیں کیا ۔ اسے پسماندہ ہی رہنے دیا ۔ پسماندہ رہنے دینے کے پس پشت شاید یہ منشا رہی ہو کہ اگر بہار ترقی کر جائے گا تو پنجاب ،ہریانہ اور دیگر ریاستوں کو مزدور کہاں سے ملیں گے ؟ ان ریاستوں کی ترقی میں تو بہار کے مزدوروں کا خون و پسینہ شامل ہے ۔
بہر حال بہار میں نتیش کمار بی جے پی کی حمایت سے وزارت اعلیٰ کا حلف لے چکے ہیں ۔ انہوں نے آر جے ڈی کی فراخدلی کا بدلہ اپنی تنگ نظری اور تنگ دلی سے دیا ہے ۔ انہوں نے سی بی آئی کی ریڈ اور تیجسوی کے خلاف ایف آئی آر کو بہانہ بنایا ہے ۔ جواب میں لالو پرشاد نے نتیش کمار کے خلاف بہار کے کسی تھانے میں درج قتل کے مقدمہ کا حوالہ دیا ۔ لیکن یہ سب فضول ہے ۔ مودی کا مقصد محض اپوزیشن کو کمزور اور انہیں بلیک میل کرکے اپنے مفاد میں استعمال کرنا ہے ۔ یہ صاف ستھری شیبہ والوں کی جماعت نہیں ہے ۔ جن کے مدھیہ پردیش میں ویاپم جیسا تعلیمی بدعنوانی کا معاملہ ہوا ہو جس میں پچاس لوگ مارے گئے یا مر جانے کیلئے مجبور کردیئے گئے ان سے اخلاقیات کی امید فضول ہے ۔ ہاں بے شرم اور بے غیرت لوگوں کی جماعت ضرورہے جسے بہار کی زبان میں تھُوتھُر بھی کہتے ہیں جسے عام زبان میں ڈھیٹ کہا جاتا ہے ۔ اس لئے ان کے سامنے انہیں آئینہ دکھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ آئینہ انہیں دکھایا جاتا ہے جن کا ضمیر زندہ ہوتا ہے یہ بے ضمیروں کی پارٹی ہے ۔ اچھی بات یہ ہے کہ بہار اسمبلی میں لالو کی جماعت اور کانگریس مل کر ایک بہتر اور مضبوط اپوزیش کا کردار ادا کرسکتے ہیں اور جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے لالو پرشاد اور ان کے سیاسی وارثوں کو اس بات پر نظر رکھنی ہوگی کہ نتیش اور بی جے پی کی مخلوط حکومت بہار کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو کوئی نقصان نہ پہنچا پائے ۔ وہاں پہلے سے ہی بی جے پی کا ایک سخت متعصب ایم پی مرکزی وزارت میں موجود ہے جو زہر اگلا کرتا ہے جس نے مودی مخالفین کو پاکستان چلے جانے کو کہا تھا ۔ بس بہار کی فضا میں فرقہ پرست زہر نہ گھول سکیں اس پرنظر رکھنا ، فرقہ وارانہ راکشش کو قابو میں رکھناہی لالو پرشاد کی اپنی قوت کے ساتھ واپسی کا سبب بن سکتا ہے ۔ جس طرح نومبر 2015 میں بہار نے پورے ملک کے لئے ایک اچھی مثال پیش کی تھی اب بھی اس میں وہ قوت ہے کہ وہ نتیش کمار کی گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والی سیاست کو بہتر جواب دے سکے ۔

0 comments:

featured

تاریخی و معاصر تناظر میں ایک مختصر تجزیہ

ثالث_الحرمین اور فلسطین کا اسلامی و انسانی قضیہ !

سمیع اللّٰہ خان 
جنرل سکریٹری: کاروانِ امن و انصاف

سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام إلى المسجدالأقصی التی بٰرکنا حولہ: 
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے مسلمانوں کو قبلۂ اول کی عظمت کی تعلیم دی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مسلمانوں کو خبر دی ہے کہ تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ اقصی میں امامت کرچکے ہیں،  اور اس وقت نبی کے مقتدی انبیاء سابقینؑ تھے، یہ ہمارے لیے فخر و امتیاز کی بات ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدِ اقصیٰ میں انبیاء کی امامت فرمائ، اور اس کے علاوہ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ہمارے آقاﷺ نے ایک عرصے تک اسی مسجد کی طرف رخ کر کے نمازیں ادا کی ہیں، 
وہ مسجد جسے قبلۂ اول ہونے کا شرف حاصل ہے،  
وہ مسجد جس کی طرف رخ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ہے، 
وہ مسجد جس کے ذریعے ہمارے نبی معراج پر گئے 
اور وہ مسجد جو سفرِ معراج کا پہلا پڑاو ہوئی،  جہاں انبیاء مجتمع ہوئے،  افسوس کہ مسلمان اس کی تاریخ اور عظمت سے آنکھیں موند چکے ہیں، 
جس بھی مسلمان کے دل میں غیرتِ اسلامی کی ادنیٰ سی بھی چنگاری باقی ہوگی وہ یقینًا اقصیٰ اور اقصیٰ والوں کے لیے ان ستم گر حالات میں مضطرب ہوجائے گا اور بالضرور اس کو ظالم یہودیوں کے پنجے سے چھڑانا چاہے گا، 
آج  آپ لوگوں کو مختصرا مسجدِ اقصیٰ کے تاریخی اور معاصر حالات سے واقف کرانا چاہوں گا-
مسجدِ اقصیٰ روئے زمین پر خانۂ کعبہ کے بعد سب سے قدیم ترین مسجد ہے،  اس کی تعمیر کے سلسلے میں سب سے مضبوط روایت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے جسے امام بخاری و مسلم نے اپنی صحیحین میں ذکر کیا ہے روایت یوں ہے کہ، 
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے آپ علیہ السلام سے سوال کیا کہ روے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا مسجدِ حرام-
انہوں نے سوال کیا اس کے بعد؟
تو آپ علیہ السلام نے جواب دیا مسجدِ اقصٰی-
انہوں نے پھر پوچھا کہ ان دونوں مساجد کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ تھا؟
تو آپ علیہ السلام نے فرمایا چالیس سال-
صحیح بخاری, احادیث الانبیاء:
صحیح مسلم, المساجد و مواضع الصلاۃ:باب المساجد
اس روایت سے مضبوط اور جامع کوئی بات نہیں ہوسکتی اور اس کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ مسجدِ اقصیٰ خانۂ کعبہ کے چالیس سال بعد تعمیر ہوئی، اسی روایت سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اس کے مؤسس یعقوب علیہ السلام ہوسکتے ہیں،  یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ یہودیوں کا ایک بڑا طبقہ مسجدِ اقصی کا بانی حضرت سلیمانؑ کو کہتا ہے لیکن یہ بات درست نہیں کیوں کہ حدیثِ رسول کے مطابق مسجدِ اقصیٰ اور خانۂ کعبہ کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہے، اور خانۂ کعبہ کی تعمیر اور سلیمان علیہ السلام کے درمیان ہزار سال کا فاصلہ ہے اور راجح قول ابنِ قیم رحمۃاللہ کا ہی نظر آتا ہے کہ مسجدِ اقصیٰ کے مؤسس یعقوب علیہ السلام ہیں، البتہ سلیمان علیہ السلام نے مسجدِ اقصیٰ کی تجدید ضرور کی ہے
 مختصراّ یہ کہ خانۂ کعبہ کے بعد سب سے قدیم ترین مسجد مسجدِ اقصیٰ ہے، یعقوب علیہ السلام اس کے مؤسس اور سلیمان علیہ السلام اس کی تجدید کرنے والے ہیں، واللہ اعلم

مسجدِ اقصیٰ فلسطین میں واقع ہے جسے القدس اور یروشلم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،  فلسطین/القدس جس کی تعمیر کنعانیوں نے کی اس کے بعد ١٣۰۰ ق م بنی اسرائیل اس میں داخل ہوے,اور ۲۰۰ سال کی کشمکش کے بعد بالآخر اس پر قابض ہوئے،  یہودی سر زمینِ قدس کے حقیقی باشندے نہیں ہیں بلکہ ان کی قدس میں آمد ہی غاصبانہ ہے یہاں کے اصل باشندے کنعانی ہیں جن کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ یہ لوگ عربی تھے، یہ تاریخی حقیقت اس اعتراض کا بھی جواب ہے کہ یہودی قدس/فلسطین کے حقیقی باشندے ہیں،  ایسا ہرگز نہیں ہے،  یہاں کے حقیقی اور قدیم باشندے دیگر اقوام و قبائل کے لوگ تھے، جن کے نام تفصیلاْ بائبل میں مذکور ہیں، 
 نیز فلسطین کے متعلق ان حقائق کو منصف مؤرخین نے بائبل کی تصریحات کے ساتھ  نقل کیا ہے،  مختصراْ یہ کہ فلسطین کے اصل باشندوں کا قتلِ عام کر کے یہودیوں نے اس شہر پر قبضہ کیا تھا، 
جس طرح فرنگیوں نے سرخ ہندیوں( Red Indians )کو قتل کر کے امریکا پر قبضہ جمایا،  یہودیوں کا دعویٰ یہ تھا کہ "خدا نے اس شہر کو ان کی وراثت میں دیا ہے اس لیے انہیں یہ حق حاصل ہے کہ اس کے اصل باشندوں کو بے دخل کر کے اور ان کی نسلوں کو ختم کر کے اس شہر پر قابض ہوجائیں، 
اس کے بعد کی مختصر تاریخ یوں ہیکہ، سن ۵۰۰ اور ۶۰۰ قبل مسیح کے زمانے میں القدس پر بابل کے حکمراں بخت نصر نے حملہ کیا اور اسے تباہ کرکے یہودیوں کو قید کیا اور جلاوطن کردیا، نیز ہیکل سلیمانی کو زمین بوس کردیا، لانبے عرصے کی جلاوطنی کے بعد ایرانی دور اقتدار میں یہودی پھر سے جنوبی فلسطین میں آباد ہوگئے، اور ایک عرصے بعد ہیکل سلیمانی پھر سے تعمیر ہوئی، لیکن اس دفعہ بھی یہودی یہاں چارسوسال سے زائد ٹک نہیں سکے، کیونکہ پھر یہ لوگ رومن امپائر کے خلاف بغاوت کی پاداش میں فلسطین سے جلاوطن کیے گئے، اس دفعه بھی ان کی خسیس چالوں کی وجہ سے بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو رومیوں نے اجاڑ دیا اور انہیں نکال باہر کیا، اس کے بعد ۱۳۵ء میں رومیوں نے پورے فلسطین سے یہودیوں کو جلاوطن کردیا، یعنی ایک دفعہ بخت نصر نے اور ایک دفعہ رومیوں نے یہودیوں کو فلسطین سے نکالا، اس دوسری جلاوطنی کے بعد جنوبی فلسطین پھر سے اسی طرح عرب قبائل آباد ہوگئے جس طرح شمالی فلسطین میں وہ ۸ سو سال پہلے آباد تھے،
 آفتاب اسلامی کے طلوع سے قبل ہی یہ پورا خطہ عرب قبائل سے آباد ہوچکا تھا، اور رومیوں نے یہاں یہودیوں کا داخلہ تک ممنوع کر دیاتھا، پورے فلسطین میں یہودی آبادی قریب قریب ناپید تھی، 
 اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ، 
یہودی قوم قتل عام اور نسل کشی کے ذریعے فلسطین پر جبراً قابض ہوئی، 
 شمالی فلسطین میں وہ چار سو برس اور جنوبی فلسطین میں ان کی مدت قیام زیادہ سے زیادہ ۸ سو سال ہے، 
اس کے برعکس 
 عربی قبائل اور عرب حضرات شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے اور جنوبی فلسطین میں تقریباﹰ ۲ ہزار سال سے آباد ہیں ۔
 یہودیوں کی دوسری جلاوطنی کے بعد مسجدِ اقصیٰ اور فلسطین ایک لمبے عرصے تک بزنطینی استعمار کے زیر نگیں رہےہیں اس کے بعد کی مفصل تاریخ کا اختصار یہ ہیکہ، 
 جب اسلامی آفتاب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوے بکھیرنے لگا تب اسلام کے عظیم ہیرو حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت ۱۷ ہجری میں حضرت ابوعبیدہ ؓ کی سپہ سالاری میں القدس کو آزاد کرایا گیا، اس کے ایک عرصہ بعد صلیبی یہاں پھر سے قابض ہوگئے، صلیبیوں کی اس گھس پیٹھ سے بیت المقدس کو عظیم مجاہدِ اسلام حضرت سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے رہائی دلائی، 
اس کے بعد پھر اسے معرکہ عین جالوت میں  تاتاریوں سے آزاد کرایا گیا، 
۹۳۴ ہجری میں خلافت عثمانیہ نے اسے اپنا حصہ بنالیا، پھر یہ مسلسل خلافت اسلامیہ کے زیرِ سایہ رہا یہاں تک کہ ۱۹۱۷ کی پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ کا زوال ہوا، اور القدس /فلسطین، انگریزوں کے قبضے میں چلاگیا، اور تب سے ایک بار پھر مسجدِ اقصیٰ کو منہدم کرکے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے سازشیں رچی جارہی ہیں، ان سازشوں کا اختصاراً احاطہ یوں ہیکہ، 
 پہلی جنگ عظیم میں ابتداءً یہودیوں نے جرمنی سے ہاتھ ملانا چاہا لیکن جرمنی سے یہود ساز باز نہیں کرسکے، اس کے بعد یہودیوں نے انگلستان سے پینگے بڑھائی، اس وقت یہودیت کی تحریک کا علمبردار ڈاکٹر وائز مین تھا، اس نے برطانوی حکومت کو یہ یقین دلایا کہ جنگ میں تمام یہودی دماغ اور دنیا بھر کے یہودیوں کا سرمایہ انگلستانیوں کے ساتھ ہوگا، صرف انہیں یعنی یہودیوں کو اتنا یقین دلایا جائے کہ، فتح کے بعد فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن قرار دیا جائےگا، 
اس ساز باز کے بعد یہودیوں نے وہ معاہدہ حاصل کیا جو آجکل معاہدہء بالفور کے نام سے معروف ہوا، یہ معاہدہ آج تک فرنگیوں کی کھلی خیانت اور بددیانتی کا صریح ثبوت ہے، 
 فرنگیوں نے اس وقت تاریخ کا بدترین اور گھناؤنا کھیل رچا جس کے مہرے اور پیادے عرب حکمران بنے، 
 انگلستانی حکومت نے اس وقت عربوں اور ترکوں کو آپس میں بدظن کردیا، اور عربوں کو لالچ دیا کہ ان کی خودمختار ریاست بنائی جائے گی، اور اس لالچ میں آکر عربوں نے بغاوت کردی، جس کے نتیجے میں فلسطین و شام وغیرہ ممالک پر برطانیہ کا قبضہ کرادیا تھا،
اور دوسری طرف وہی فرنگی یہودیوں کو معاہدہ بالفور کے ذریعے باقاعدہ یہ تحریر دے رہے تھے کہ ہم فلسطین کو تمھارا قومی وطن بنائیں گے،  اور نتیجہ یہ ہوا کہ عربوں کی جس سرزمین کو عربوں کی مدد سے خلافتِ اسلامیہ سے باہر نکلوایا، اور عربوں کی مدد سے جس سرزمین پر قبضہ کیا اسی سرزمین سے عربوں کو بے دخل کردیا اور پھر ہوتے ہوتے آخرکار ١۹۴۷ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو یہودیوں اور مسلمانوں میں جبراً تقسیم کردیا، اس تقسیم کا ظالمانہ معیار بھی دیکھیے، 
فلسطین کا ٥٥ فیصدی رقبہ/حصہ ٣٣ فیصدی یہودیوں کو دے دیا گیا اور ۴٥ فیصدی رقبہ میں ٦۷ فیصد عرب کو ٹھونسا گیا، ان سب کے باوجود آج بھی یہودی فلسطینیوں کو مارتے کاٹتے ان کی سرزمین پر قابض ہوتے جارہے ہیں، یہ ایسا ظلم ہے جس کی نظیر تاریخ انسانی میں نہیں مل سکتی، اس وقت دنیا بھر میں ٦۰ کے قریب اسلامی ممالک ہیں لیکن مسلمانوں کے قبلۂ اول کے لئے کوئ بھی لب کشائی کو تیار نہیں 
افسوس کہ ان کی داخلی و خارجی پالیسیاں مرکز اجتماعِ انبیاء کے تحفظ سے بھی زیادہ حساس ہورہی ہیں!!! 
بیت المقدس کو ڈائنا مائٹ سے اڑا کر وہاں ہیکل سلیمانی نصب کرنے کے ناپاک عزائم زوروں پر ہیں، لیکن واے ناکامی کے کوئی  صلاح الدین ایوبی نہیں آتا!! 
یہ کوئ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، بلکہ یہودیوں کے سربراہوں جن میں لارڈ بالفور،  ڈاکٹر وائزمین،  موسیٰ بن میمون اور تھیوڈر ہرتزل جیسے لوگ قابل ذکر ہیں انہوں نے علانیہ گھس پیٹھ اور مسجد اقصیٰ کو ختم کرنے کے عزائم لکھیں ہیں-
مشہور یہودی فلسفی موسی بن میمون نے اپنی کتاب شریعت یہود ( The Code Of Jewish Law) میں لکھا ہے کہ ہر یہودی پر فرض ہے کہ وہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو نصب کرے-
لارڈ بالفور جس کے حوالے سے معاہدۂ بالفور مشہور ہے وہ لکھتا ہے کہ 
"ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوے وہاں کے موجودہ باشندوں سے پوچھ گچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے،  صیہونیت ہمارے لیے ان ۷-۸ لاکھ عربوں کی خواہشات و تعصّبات بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے"-
ان تمام حقائق اور موجودہ فلسطینی کی خونریز صورتِ حال میں کیا امت مسلمہ کے ذمہ یہ فرض نہیں ہوتا کہ وہ قبلۂ اول کی بازیابی اور فلسطین کی آبادکاری کے لیے کوششیں کریں، 
اور یہی نہیں فلسطین اور بیت المقدس کی اسلامی اہمیت دو دو چار کی طرح ہے، قرآن اور حدیث میں جا بجا ارض فلسطین اور قبلہ اول کی فضیلت پر ارشادات وارد ہوئے ہیں، 
 قرآن میں ہے: 
" و أرادوا به كيدا فجعلنهم الأخسرين، ونجينه و لوطاً إلى الأرض الّتى بٰركنا فيها للعلمين". 
سورۂ انبیاء 
 اور ایک مقام پر ہے: 
" يقوم ادخلوالأرض المقدسة التى كتب الله لكم"

 پہلی آیت کے متعلق امام جریر الطبری ؒ فرماتے ہیں کہ قرآن نے برکت والی زمین شام کو کہا ہے، اور واضح رہے کہ ماضی میں فلسطین شام ہی کا ایک حصہ رہا ہے، اسي طرح دوسری آیت کے متعلق مفسرین کا یہ قول ہیکہ سرزمین مقدس سے مراد ارضِ فلسطین ہے، 
 اس کے علاوہ: 
 " طوبٰی للشام " اور " یاءتی علی الناس زمان لایبقی فیہ مؤمن إلا لحق بالشام" جیسی احادیث فلسطین اور بیت المقدس کی اسلامی حیثيت کے لیے سند ہے، لیکن کس قدر نوحے کا مقام ہیکہ ہمارے دینی حلقے ان سے کتمان برت رہے ہیں، کیسی مجرمانہ غفلت ہیکہ مسلمانوں تک ان حقائق کو پہنچایا نہیں جاتا،، افسوسسس!
  تازہ ترین واردات کے مطابق مسجد اقصیٰ میں طرح طرح کے آلات نصب کر دیئے گئے ہیں،  فلسطینیوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا جارہا ہے، اس سے قبل بھی ان کے جوان شہید کیے جا چکے ہیں، اسکولوں اور ہسپتالوں پر بم تک برسائے گئے ہیں،  مٹھی بھر جیالے رسمِ وفا کی لاج رکھے ہوئے ہیں جبکہ مسجد اقصیٰ کی طرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شدّ رحال کو جائز قرار دیا تھا، 
ذرا تصور تو کیجیے کہ خدانخواستہ اگر آج اسرائیلی توسیعی عزائم کے آگے مسجد اقصیٰ اور قبلۂ اول کو گزند پہنچتی ہے تو کل ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت عمر رضی اللہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کو کیا منہ دکھائیں گے، ہم کچھ نہ کریں لیکن دستوری اور آئینی روشنی میں القدس، فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے لئے بیداری اور محبت کی فضا تو ہموار کرسکتے ہیں۔
کیا ہم اتنا بھی نہیں کرسکتے!

 یہ اپنا درد دل ہے نکال کر رکھ دیا ہے، اس امید پر کہ کچھ نوجوان دستوری و آئینی روشنی میں ان مظلومین کے لیے مناسب بیداری لائیں گے،اور ایک بار پھر برسوں بعد غیرت و حمیت اور اخوت اسلامی کے مناظر ہوں گے۔

0 comments:

featured

ملک میں انارکی کے درمیان منڈلاتے جنگ کے بادل


نہال صغیر
خبر آئی ہے کہ جنگ کی صورت میں ہمارے پاس صرف دس دن کے لئے ہی گولہ بارود ہے ۔اس خبر پر ہمارے ایک صحافی دوست نے بہت اچھا تبصرہ کیا انہوں نے کہا تو کیا ہوا ’ہمارے یہاں گائیں ہیں نا‘ ۔ ویسے تو یہ طنز میں ڈوبے ہوئے اور حالات سے فکر مند ایک صحافی کا تبصرہ ہے لیکن یہی آج کی سچائی بھی ہے کہ پردھان سیوک کے دور میں ملک عجیب قسم کے خلفشار اور حیوانی جنون میں مبتلا ہو گیا ہے ۔ملک کی ترقی ،اس کی بقا اور سلامتی کے تعلق سے کوئی فکر مند نہیں ہے ۔کسی کو فکر ہے تو صرف اتنی کہ گائے ان کی ماتا ہے اور مسلمان اس کو کھاتا ہے لہٰذا مسلمانوں کو مارو ۔ہر طرف بس ایک ہی موضوع گئو رکشک اور گائے کی قربانی یا ذبیحہ پر پابندی جیسے ملک کو اس کے علاوہ اور کسی مسائل کا سامنا نہیں ہے۔سارے مسائل مسلمانوں کے تعلق سے ہی اٹھائے جاتے رہے ہیں یا کشمیر کے تعلق سے یعنی ہر صورت میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے ۔تین طلاق،یکساں سول کوڈ اور دفعہ تین سوستربس اسی پر بحث۔لیکن ملک پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔جعلی اور نقلی دیش بھکتی نے ہمارا بھرکس نکال دیا ہے اور ہمارے دشمن کو مشتعل کردیا ہے ۔وہ بھی ایسی اشتعال میں ہے کہ کہتا ہے کہ جنگ ہی واحد متبادل ہے ۔جبکہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ۔یہ مزید مسائل کو جنم دیتی ہے ۔یہ باتیں اکثر دانشوروں کا طبقہ کرتا ہے اور حکومت اور دیگر ذمہ داروں کو جنگ سے دور رہنے کی صلاح دیتا رہتا ہے ۔لیکن ہمارے یہاں کچھ طبقہ ہے جسے دیش بھکتی کی کھجلی کچھ زیادہ ہی ہے ۔وہ ملک کے عوام کو دیش بھکتی پر نصیحتوں کو پٹارا کھولے رہتا ہے ۔جب سے پردھان سیوک اور ان کی پارٹی اقتدار میں آئے ہیں ان کی نصیحتوں کا دورانیہ کم ہو کر ہر دن کہیں نہ کہیں اس پر لیکچر ہوتا رہتا ہے اور ان سے اختلاف کرنے والوں کو یہ پاکستان کو ویزہ لگواتے رہتے ہیں ۔ملک میں گرچہ دفاعی بجٹ پر ایک خطیر رقم خرچ کی جاتی رہی ہے لیکن اس کے باوجود اکثر سروے رپورٹ سے ایسی معلومات ملتی ہے کہ ہمیں شرمسار ہونا پڑتا ہے ۔جیسے کئی سال قبل انڈیا ٹوڈے کی جانب سے کئے جانے والے سروے کا خلاصہ یہ تھا کہ فوجیوں کے پاس صرف ہتھیاروں کی ہی کمی نہیں بلکہ انہیں ڈھنگ کا لباس بھی میسر نہیں ہے ۔انکے جوتے ٹھنڈے اور برف پوش  علاقوں کے مطابق نہیں ہیں ۔اور ابھی ہم سب نے کئی ایک فوجیوں کی مدد سے یہ دیکھا ہی ہے کہ انہیں ڈھنگ کا کھانا بھی نہیں دیا جاتا ۔انکے لئے جو کھانے کی چیزیں الاٹ ہوتی ہیں وہ باہر بازار میں بیچ دی جاتی ہیں ۔اب ایک بار پھر خبر ہے کہ پاکستان یا چین سے جنگ کی صورت میں ملک کی دفاعی پوزیشن یہ ہے کہ اس کے گولے بارود دس دنوں میں ہی ختم ہو جائیں گے ۔یہ رپورٹ اور کسی کی نہیں ہے یہ ایک معتبر حکومتی ادارہ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی جانب سے پارلیمنٹ میں رکھی گئی ہے ۔اسی پارلیمنٹ میں دو روز قبل ملائم سنگھ یادو نے یہ بات کہی کہ پاکستان ہمارا دشمن نہیں ہے بلکہ چین ہمارا اصل دشمن ہے ۔ملائم سنگھ یہ بات متعدد بار دہراچکے ہیں ۔ان کے علاوہ اگر کسی نے چین کو اصل دشمن قرار دیا ہے تو وہ ہیں جارج فرنانڈیز ۔اس کے علاوہ کسی کی زبان نہیں کھلتی کہ وہ کھل کر ملک کے اصل دشمن یا دفاع میں ملک کو درپیش اصل چیلنج کے بارے میں لب کشائی کرے ۔سب کے سامنے صرف پاکستان اور اس کے ساتھ ہی نام نہاد دہشت گرد جو ان کی نظر میں صرف مسلمان ہوتے ہیں یہی اس ملک کے اصل دشمن ہیں ۔پاکستان سے ہندوستان کا مقابلہ ایسا ہی ہے جیسے شیر اور خرگوش کا مقابلہ ۔ لیکن ہمارے یہاں کے دیش بھکت جس میں بی جے پی ہی نہیں کانگریس بھی شامل ہے ،کو صرف دشمن کے طور پر پاکستان ہی نظر آتا ہے ۔عجیب نفسیات میں مبتلا ہے ہمارا ملک اور اس کے سیاست داں ۔
اس حال میں بھی جبکہ ہمارے ادارے خود ہی ہماری خامیوں اور کمزوریوں کی جانب اشارا کررہے ہیں ہم میں معیاری سوچ کی کمی ہے ۔ہم آج بھی بچوں کی طرح سوچتے ہیں ۔جیسے موجودہ ہند چین تنازعہ پر ایک ہندی اخبار کی خبر دیکھی ۔اس خبر میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہند چین تنازعہ کو پاکستان ہوا دینے کی کوشش میں ہے ۔خبر کے مطابق ہندوستان میں پاکستان کے سفیر عبد الباسط نے چینی اور بھوٹانی سفراء سے ملاقات کی جس میں ڈولکام کا معاملہ زیر بحث آیا ۔قابل غور بات یہ ہے کہ چین کوئی دودھ پیتا بچہ ہے جسے پاکستان ورغلائے گا ۔آخر اس نے کیا اسی بچکانہ سوچ سے دنیا کی معیشت پر اول پوزیشن حاصل کیا ہے ۔ہمیں اب بھی اس طرح کی گھٹیا اور بچکانہ سوچ سے دور ہونے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں ہوتی ۔ہم سراب کے پیچھے کیوں بھاگے پھرتے ہیں ۔ہم کیوں اپنے عوام کو لاعلم رکھنا چاہتے ہیں ۔انہیں کبھی نہیں پتہ چل پائے گا کہ زمینی حقیقت کی ہے ۔آج کے دور میں جبکہ اطلاعاتی تکنیک نے حیرت انگیز ترقی کرلی ہے کیا ممکن ہے ؟یہ بھی خبر آئی ہے کہ کچھ برسوں کے بعد ہندوستان دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا ۔چین دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے ۔اس نے اپنی آبادی کو اپنی ترقیاتی کاموں کیلئے ،اپنی معیشت کے استحکام کیلئے استعمال کیا اور آج وہ اس پوزیشن میں ہے کہ دنیا کی سوپر پاوروں کو آنکھیں دکھا رہا ہے اور وہ سوپر پاور اس کے سامنے معذور نظر آرہا ہے ۔ہم اس بات کو کب سمجھیں گے ؟ہمیں ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر ہندوستان آزادی کے بعد بغیر کسی تعصب کے ترقی کی راہوں پر قدم بڑھاتا تو آج ملک کی حالت کچھ اور ہوتی ۔لیکن ہوا یہ کہ آزادی کے بعد ملک میں پہلا کام یہ ہوا کہ صدیوں قبل ڈھائے گئے سومناتھ مندر کی تعمیر ہوئی اور مسلمانوں کو ذلیل کرنے کیلئے ان کی مسجد میں مورتیاں رکھ کر اس کو تالا لگا دیا گیا ۔اس کے علاوہ انہیں معاشی طور پر تباہ کرنے کیلئے سرکاری ملازمت کے دروازے ان پر بند کردیئے گئے ۔اس کے برعکس کھلے دل کے ساتھ ملک کی ترقی میں مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلا جاتا تو چین کی اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ ہمیں آنکھیں دکھاتا یا ہندوئوں کے مذہبی مقام کی یاترا کو بند کردیتا ۔واضح ہو کہ کیلاش مان سروور کو چین کے قبضہ سے چھین کر ہندوستان میں شامل کرنے والا وہی اورنگزیب ہے جسے یہاں کے عقل کے اندھے اور تعصب میں حد سے گزرنے والے افراد ہندوئوں کا قاتل اور دشمن ثابت کرنے میں دن رات مصروف رہتے ہیں ۔تعصب و تنگ نظری وہ بیماری ہے جس نے قوموں اور ملکوں کو تباہ و برباد کیا ہے ۔آج ملک کے ساتھ جو مسائل ہیں وہ اسی تعصب و تنگ نظری کی دین ہیں ۔لیکن یہ عقل کے اندھے اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لیں گے ۔یہ بزدل صرف نہتے مسلمانوں اور دلتوں کو اکیلے میں کہیں مار سکتے ہیں ۔لیکن ملک کے لئے دشمن کی فوجوں سے لڑنے کا جذبہ ان میں نہیں ۔ان کی ساری بحث اور زہریلے پروپگنڈہ کا مرکز صرف سماجی سائٹس ہیں ۔وہیں ساری دیش بھکتی دکھائیں گے ۔چلئے ہم بھی خوش ہو جاتے ہیں کہ ہمارے پاس گولا بارود نہیں تو کیا ہوا ۔ہمارے پاس گائیں ہیں اور اس کے بھکت ہیں جو بڑی بہادری سے نہتوں کو مارتے ہیں ۔ممکن ہے یہ لوگ بارڈروں پر جاکر کوئی کارنامہ دکھا کر آئیں ۔آخر انہوں نے کئی کیمپوں میں جنگی ٹریننگ جو لی ہے ۔اس کے استعمال کا اس سے زیادہ بہتر موقعہ اور کب ملے گا کہ دشمن کی فوجوں سے دوبدو لڑ سکیں اور یہ دکھا دیں کہ بھارت ماتا کے یہ سپوٹ چین کو دھول چٹانے کا جذبہ رکھتے ہیں ۔

0 comments:

featured

بزدلی کا وظیفہ


ممتاز میر ، برہانپور
جون ۲۰۱۷ کے افکار ملی میں پاکستانی صحافی خورشید ندیم کا ایک مضمون ’’حکمت یار سے خالد مشعل تک ‘‘شائع ہوا تھا ۔ہمیں اس کی کچھ باتوں سے اختلاف تھا مگر چاہتے تھے کہ کوئی ہم سے بہترلکھاری اس پر خامہ فرسائی کرے۔اسلئے جولائی کے افکار ملی کا انتظار رہا ۔افسوس کہ کسی نے بھی اس مضمون کی طرف توجہ نہ کی ،بلکہ اس بار پھر افکار ملی نے ان کا ایک مضمون شائع کر دیا ہے ۔مجبوراً ہمیں اپنا کمزور قلم اٹھانا پڑرہا ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم ان کے کئی مضامین پڑ ھ چکے ہیں اور دیگر تمام ہی مضامین ہمیں پسند آئے ہیں۔ جناب خورشید ندیم اپنے مذکورہ مضمون میں ایک جگہ لکھتے ہیں ’’اگرافغانستان میں مجاہدین کی قیادت بصیرت کا مظاہرہ کرتی اور مستحکم حکومت کی بنیاد رکھتی تو ۹؍۱۱ ہوتا نہ عالم اسلام برباد ہوتا۔اگر گلبدین اور دوسرے رہنما دوربین ہوتے تو آج کی دنیا کہیں زیادہ پر امن ہوتی‘‘ پچھلے چند مہینوں سے ہمارے صحافیوں کو عجیب قسم کا درہ پڑا ہوا ہے ۔ ابھی ایک ماہ پہلے بمبئی کے ایک اردو اخبار میں جناب افتخار گیلانی کا ایک مضمون نظر سے گزرا تھا ۔مضمون دراصل ایک برطانوی صحافی ایڈریان لیوی کا انٹرویو تھا جسمیں اس نے آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آخری سالوں میں بھی ۹؍۱۱ کے واقعے کا سہرا ڈھٹائی کی انتہا کرتے ہوئے مسلمانوں کے ہی سر باندھا ہے ۔بلا شبہ قوم کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ان کے دشمن بے شرمی ،بے غیرتی اور زوال کی کس انتہا پر ہیں۔مگر ایسے جھوٹے اور بدمعاش صحافیوں کی تعریفیں کرکے انھیں اونچا اور قابل اعتماد صحافی ثابت کرنا ہم جیسوں کے خون جلانے کا سبب ہوتا ہے ۔بلا شبہ مجاہدین نے دوران جہاد جس اتحاد اور فراست کا ثبوت دیا اس کا مظاہرہ اگر حالت امن میں بھی کرتے تو آج افغانستان ہی نہیں دنیا کے حالات کچھ اور ہوتے ۔یہ بھی درست کہ گلبدین حکمت یارجس لچک کا مظاہرہ آج کر رہے ہیں روس کے افغانستان سے فرار کے بعد کے حالات میں اپنے مجاہد ساتھیوں کے ساتھ مطلوبہ لچک کا مظاہرہ انھوں نے نہیں کیا تھا ۔مگر یہ کہنا کہ ان سب اچھی اچھی میٹھی میٹھی باتوں کی وجہ سے ۹؍۱۱ نہ ہوا ہوتا ،ہمارے نزدیک غلط ہے اگر کوئی کسی کی جیب سے پیسے نکالنے کی کوشش کرے تو ایسے وقت چپ رہنا شرافت یا مروت یا امن پسندی کا نہیں بزدلی کا مظاہرہ ہے۔ہمارے مطالعے کے مطابق تو ۹؍۱۱ کا فیصلہ اس وقت ہو چکا تھا جب طالبان نے افغانستان کی سرزمین میں چھپی ہوئی دولت کو نکالنے کے لئے امریکی آفر کو ٹھکرادیا تھا ۔طالبان کے جواب میں امریکیوں نے کہا تھا کہ آپ کو ڈالروں کی قالین یا بموں کی قالین میں سے کسی ایک کو چننا پڑے گا ۔طالبان کا تعلق بر صغیر سے نہیں ۔بڑے غیور لوگ ہیں انھوں نے بموں کی قالین کو چنا ۔ہمارے تعلیم و تہذیب یافتہ صحافی کہہ سکتے ہیں کہ دولت کی بات کیا ایسی حالت میں تو اپنی ماں بہن کو بھی ’’ڈان ‘‘ کے حوالے کردینا چاہئے۔بش کے زمانے کے ایک ڈپٹی اٹارنی جنرل کے مطابق ’’پاکستانی اپنی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ قیمت اچھی لگائی جائے‘‘ہمارے اور طالبان کے نزدیک اہمیت اس حدیث کی ہے جو کہتی ہے کہ جان مال عزت آبرو کی حفاظت میں مارا جانے والا شہید ہے۔اسی طرح عراق کے صدام حسین کا معاملہ ہے ۔صدام تو ان کا اپنا آدمی تھا ۔میڈیا کہتا ہے کہ اسے کویت پر حملہ کرنے کے لئے اسکایا گیا ۔عراق کویت اور سعودی عرب کے اس معاملے کے بہت سارے پہلو ہیں۔محترم خورشید ندیم بتائیں کہ اس سے کس طرح بچا جا سکتا تھا ۔جس نے بچانے کی کوشش کی تھی اسے جلا وطن ہونا پڑا وہ در در بھٹکتا رہا اور غریب الوطنی میں ہی اللہ کو پیارا ہوا ۔اس کی موت پر بھی اسراروں کا پردہ پڑا ہوا ہے ۔جس کے جب دل میں آتا ہے اسے مار دیتا ہے۔
محترم خورشید ندیم مزیدایک جگہ لکھتے ہیں ’’حماس کے کسی رہنما کا یہ پہلا دورہء مصر ہے ،یہ پیش رفت بتا رہی ہے کہ حماس بھی اب سیاسی جد و جہد کا رخ کر رہی ہے ‘‘اگر حماس اب سیاسی جد وجہد کا رخ کر رہی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۲۰۰۶ کی ابتدامیں اس نے کیا کیا تھا اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کے جدو جہد کے نتائج کو برداشت کیوں نہیں کیا جاتا؟جب سیاسی اور پرامن جدو جہد کے پھل بھی عوام کو کھانے کو نہ ملیں تو پھر انھیں کیا کرنا چاہئے۔مسجد میں بیٹھ کر وظیفے یا فرشتوں کے نزول کا انتظار کرنا چاہئے۔ آخری حصے میں محترم صحافی کہتے ہیں کہ اب دنیا میں عسکری جد و جہد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ بات وہ اس وقت کہہ رہے ہیں جب ابھی چند سالوں پہلے امریکہ کے صدر نے مسلمانوں کو صلیبی جنگوں کی بھولی ہوئی تاریخ یاد دلائی تھی ۔ سوری !عسکریت کا دروازہ جناب خورشید نے شاید مسلمانوں کے لئے بند کیا ہے صلیبیوں کے لئے نہیں ۔انھیں تو سات خون معاف ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی عسکریت کے نتیجے میں صرف فساد برپا ہو تا ہے ۔اسی لئے قائد اعظم محمد علی جناح نے سیاسی جد وجہد کا راستہ اپنایا تھا اور ایک جان قربان کئے بغیر آزادی دلوائی ۔محترم صحافی کے ان خیالات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ یا تو نا تجربہ کار ہیں یا مسلمانوں کو گاندھی جی کے فلسفہ عدم تشدد کا پیروکار بنانا چاہتے ہیں جسے آج خود ان کی قوم ٹھوکروں میں اڑا رہی ہے۔جناب خورشید کو نہیں معلوم کے انسانی نفسیات کیا ہوتی ہے۔انھیں یہ سمجھ ہی نہیں کہ واقعات کے پیچھے کارفرما عوامل نظر نہیں آتے مگر واقعات کے وقوع پذیر ہونے میں ان کا بڑا حصہ ہوتاہے ۔آزادی کبھی تھالیوں میں سجا کر پیش نہیں کی جاتی ۔ آزادی کے معاہدات قوم کے جوان اپنے خون سے لکھتے ہیں مگر نام سیاسی لیڈروں کا ہوتا ہے ۔ اگر آزادی کے متوالے اپنی جانوں کی قربانی نہ دیں تو سامراج سیاسی لیڈروں کو کوڑیوں کے مول نہ پوچھے ۔ ہندوپاک کی آزادی کے تعلق سے ہماری برسوں سے یہ رائے ہے کہ یہ ہمیں گاندھی نہرویا جناح کی سیاسی جدو جہد کے طفیل نہیں ملی ہے بلکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے حالات ،برطانیہ کی معیشت کی خرابی نے برطانیہ کو اپنی نوآبادیات کا کمبل چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔ اگر اس وقت ہمارے ملک میں امن کی فاختہ اڑا کرتی تو کون بے وقوف اپنے غلاموں کو چھوڑ کر جاتا ۔ جہاد آزادی کو دبانے کے لئے پیسے چاہئے جو برطانیہ کے پاس نہیں تھے ۔ جناب خورشید ندیم کے لئے ہمارا مشورہ ہے کہ ہمالیہ کی کسی چوٹی پر بیٹھ کر وظیفہ کریں کہ دنیا میں ہر طرف امن چین کی بانسری بجے ۔ اورجب ایسا ہو جائے تو واپس آجائیں اور یہ دعویٰ بھی کر دیں کہ ان کے وظیفے کی وجہ سے دنیا میں امن قائم ہوا ہے ۔ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ہمارا مطالعہ بہت کم ہے ۔ اسلام میں تو نبی ﷺ بھی تلوار کے بغیر امن قائم نہ کر سکا ۔
؂ میں اپنے علم کی محدودیت پہ نازاں ہوں ؍نہیں کچھ اور ،تری راہ کے سوا معلوم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137

0 comments: