مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کاجواز کیا ہے؟


عمر فراہی
umarfarrahi@gmail.com

ملک عزیز میں آئی ایس آئی ایس سے رابطے کے الزام میں اب تک تقریباً بیس مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے-ان نوجوانوں پر الزام ہے کہ یہ لوگ آن لائن ملک کے خلاف جنگ اور فساد برپا کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے -یہ بات کہاں تک صحیح ہے یا غلط اگر تفتیشی ایجنسیاں اسے درست قرار دے رہی ہیں تو ہو سکتا ہے ان کا الزام درست بھی ہو-مگر ماضی میں جتنے بھی نوجوان اس طرح کے  الزامات میں گرفتار کیئے گئے تھے انہیں ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر رہا بھی کیا جا چکا ہے -اس کا مطلب ہماری ایجنسیاں کہیں نہ کہیں سیاسی دباؤ میں بھی ایسا کرنے کیلئے مجبور ہیں جیسا کہ مالیگاؤں اور مکہ مسجد بلاسٹ کے معاملے میں یہ بات کھل کر سامنے بھی آئی کہ دھماکہ ہندو تنظیموں نے کیا اور گرفتار مسلم نوجوانوں کو کیا گیا-کچھ لوگ اکثر یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں ک اگر پولس  کچھ مخصوص نوجوانوں کو گرفتار کرتی ہے تو ضرور کہیں نہ کہیں سے یہ لوگ کسی دہشت گرد تنظیم کے رابطے میں رہے ہونگے-اس کا جواب یہ ہے کہ آج کے دور میں حکومتیں یا سرکاری ایجنسیاں جنھیں دہشت گرد سمجھتی ہیں کیا یہ ضروری ہے کہ یہ دہشت گرد ہی ہوں مثال کے طورپر سیمی پر جب سے پابندی لگی ہے اکثر مسلمان اس تنظیم کے نام سے دور بھاگتے ہیں یا اس تنظیم سے کسی بھی طرح کے رابطے سے بھی انکار کرتے ہیں جبکہ یہ تنظیم ہندوستان سے ہی وجود میں آئی ہے اور پابندی لگنے سے پہلے تک یہ لوگ کھلے عام اجتماعات بھی کرتے رہے ہیں -مگر 9/11 کے بعد اس تنظیم کی سرگرمیوں کو القاعدہ سے جوڑ کر پابندی لگا دی گئی اور اچانک وہی نوجوان جنھیں ہم دیندار کہتے تھے دہشت گرد ہو گئے -شاید ان کا بھی قصور یہ تھا کہ یہ لوگ اپنی قومی اور اسلامی بیداری کے تحت بہت ہی فعال اور متحرک تھے اور ممکن ہے کہ ان میں سے کسی کا کسی ملیٹنٹ تنظیم سے رابطہ بھی رہا ہو مگر عمومی سطح پر ہندوستان کی کسی مسلم تنظیم یا وہ نوجوان جو اپنے شدت پسند نظریات کی وجہ سے اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ کی طرف ماںُل ہوئے اور شاید اسی شدت پسندانہ نظریات کی وجہ سے حکومت ہند نے سیمی پر پابندی بھی لگائی مگر کوئی یہ ثابت نہی کر سکتا کہ سیمی کا باضابطہ  کسی ملیٹنٹ تنظیم سے کوئی رابطہ یا تعلق رہا ہو یا ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے کبھی کشمیری ملیٹنٹ سے بھی رابطہ بنانے کی کوشس کی ہو اور خود کشمیری ملیٹنٹ نے بھی اپنی کاروائی کے دائرے کو کشمیر سے باہر پھیلانے کی ضرورت محسوس کی ہو -مگر ہماری پولس اور انٹلیجنس نے سیمی پر پابندی لگانے کیلئے یہ جواز ڈھونڈھ لیا کہ اس کے دہشت گرد تنظیموں سے روابط ہیں اسی طرح  پارلیمنٹ حملے میں افضل گرو کو مجرم بنا کر یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشس کی گئی کہ کشمیریوں کی تحریک پورے ہندوستان کیلئے خطرہ ہے - سوال یہ ہے کہ ہندوستان کا مسلمان باوجود اس کے کہ وہ  آذادی کے بعد سے ہی یہ محسوس کر رہا ہے کہ اس کے ساتھ ظلم اور ناانصافی کا برتاؤ کیا جارہا ہے اس نے اپنے بہت ہی قریب کشمیری ملیٹنٹ سے تعاون یا رابطے کی کوشس نہیں کی تو وہ آج اچانک سات سمندر پار عراق اور شام کے انقلابیوں سے رابطہ کیسے بنا سکتا ہے اور  کشمیر جو کہ ہندوستان کا ہی ایک حصہ ہے جب انہوں نے کشمیر کے علاوہ ہندوستان میں کوئی دہشت گردانہ کاروائی نہیں کی اور ملک کی دیگر ریاستوں کیلئے کوئی خطرہ نہیں بنے تو آئی ایس آئی ایس کے لوگ جن کے نام سے ہی واضح ہے کہ وہ عراق اور شام کو اپنے حکمرانوں سے آذاد کرانا چاہتے ہیں  ہندوستان کیلئے کیسے خطرہ ہو سکتے ہیں -
یہ ایک سوال ہے جو ہندوستان کا مسلمان خود اٹھاتا رہا ہے اور اپنے ہی لوگوں میں  جواب پیش کر کے خوش بھی ہو جاتا ہے مگر ملک کی کسی ایجنسی یا سیاسی تنظیم نے  مسلمانوں کی طرف سے کسی اسمبلی یا پارلیمنٹ میں زوردار بحث کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی یعنی اگر کسی مسلم  تنظیم پر پابندی لگی تو وہ بھی جائز تھی اور   جو مسلم نوجوان کسی دہشت گردانہ کاروائی میں ملزم ٹھہرائے گئے تو انہیں بھی  سب نے یک طرفہ اور متفقہ طور پر دہشت گرد مان لیا-وہ لوگ جو تاریخ سے ناواقف ہیں یا صرف پچھلے دس بیس سالوں سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح بابری مسجد کو شہید کیا گیا اور مسلم نوجوان خاص طور سے سیمی کے لڑکے سڑکوں پر اترنے پر مجبور ہوئے اور اشتعال انگیز نعرے اور پمفلٹ کے ذریعے ملک کی فضا کو خراب کرنے کی کوشس کی انہیں قصوروار قرار دیتے ہیں انہیں شاید یہ نہیں پتہ کہ ہمارے ملک میں بابری مسجد کو صرف ایک بار شہید کیا گیا تھا مگر مسلمان تو آذادی کے بعد سے مسلسل شہید ہوتا رہا ہے اور اس وقت جب میرٹھ اور ملیانہ میں ہاشم پورہ  کے علاقے سے پی اے سی نے مسلمانوں کو جس میں بوڑھے اور جوان سبھی تھے ٹرک میں بھر کر لے جا کر قتل کر دیا تو اس وقت سیمی کا کوئی وجود بھی نہیں تھا یا اگر تھا بھی تو یہ لوگ صرف دعوت و تبلیغ یا فسادات متاثرین کیلئے راحت کا سامان مہیا کروانے میں مصروف رہے ہیں جو بعد میں لاشوں کو اٹھاتے اٹھاتے خود بھی بھٹک گئے  تو انہیں اس رخ پر آنے کیلئے کس نے مجبور کیا -ٹائمس آف انڈیا کی خاتون صحافی  جیوتی پنوانی نے جنہوں نے ممبئ فساد کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے اور اس فساد کے بعد ملک میں ہونے والے بم دھماکوں اور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کو بھی دیکھا ایک بار اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ جس طرح ممبئ فساد میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور ان کی عورتوں کو بھی بے آبرو کیا گیا شکر ہے کہ مسلم نوجوانوں کا ردعمل اتنا شدید نہیں رہا ورنہ اس ظلم اور پولس کی خاموشی کے بعد تو مسلمانوں کا بچہ بچہ حنیف الدین بن جانا چاہیے تھا(حنیف الدین آسٹریلیا میں ڈاکٹر تھا جسے دہشت گردانہ کاروائی میں گرفتار کر کے بعد میں رہا کردیا گیا تھا )
غرض کہ مسلمانوں کی گرفتاری یا انہیں دہشت گرد اور غدار ثابت کرنے کی یہ سازش نئ نہیں ہے -  مولانا ابولکلام آذاد نے اپنی  کتاب انڈیا ونس فریڈم میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ملک کے بٹوارے کے بعد جب ہندوستان ہر طرف سے جل رہا تھا اور یہ آگ دلی تک پہنچ گئی تو مسلمانوں نے گاندھی جی سے شکایت کی اور خود جواہر لال نہرو نے کہا کہ جس طرح مسلمانوں کو کتوں اور بلیوں کی طرح مارا جارہا ہے یہ صورتحال ناقابل برداشت ہے اور ہمیں شرم آرہی ہے کہ ہم انہیں بچا نہیں پا رہے ہیں-سردار پٹیل نے گاندھی جی سے کہا کہ جواہر لال کی شکایت ان کے لیںے یکسر ناقابل فہم ہے -ہو سکتا ہے چند اکا دکا واقعات ہوئے ہوں لیکن حکومت مسلمانوں کی جان مال کو بچانے کیلئے کوشس کر رہی ہے- مگر جب بار بار مسلمانوں کے قتل عام کی شکایت زور پکڑنے لگی اور سردار پٹیل کیلئے جواب دینا مشکل ہو گیا تو انہوں نےمسلمانوں کے قتل عام کا  جواز بھی ڈھونڈھ لیا اور یہ نظریہ پیش کیا کہ مسلمانوں کے علاقوں سے مہلک اسلحے برآمد کیے گئے تھے یعنی اگر ہندوؤں اور سکھوں نے جارحیت میں پہل نہ کی ہوتی تو مسلمانوں نے انہیں تباہ و برباد کر دیا ہوتا- مولانا لکھتے ہیں کہ اس طرح ایک روز جب ہم لوگ معمول کے مطابق گورنمنٹ ہاؤس میں میٹنگ کیلئے اکٹھا ہوئےتو سردار پٹیل نے  کہا کہ پہلے ہم سب کیبنٹ ہاؤس کے اینٹی چیمبر میں چلیں اور وہ ہتھیار دیکھ لیں جو مسلمانوں کے قبضے سے برآمد کیے گئے ہیں- ہم وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ میز پر کچھ باورچی خانوں میں استعمال ہونے والی چھری یا جیب میں قلم اور پنسل تراشنے والے چاکو پڑے ہیں جن میں کچھ زنگ آلود لوہے کی سلاخیں جو پرانے مکانات کے جنگلوں سے نکالی گںُی تھیں اور کچھ ڈھلے ہوئے پانی کے پائپ تھے -لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ان میں سے ایک دو سامان اٹھا کر طنزیہ مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا کہ اگر ان  اسلحوں کی مدد سے دلی پر قبضہ کیا جاسکتا ہے تو یہ بہت ہی حیرت کی بات ہے -مگر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو شاید یہ نہیں پتہ تھا کہ آنے والے دنوں میں مسلمانوں کی گرفتاری کیلئے کوئی وجہ بھی نہیں ہوگی اور انہیں صرف ان کی اسلامی بیداری اور سوچ  کی وجہ سے بھی گرفتار اور قتل کیا جائے گا اور ثبوت کے طورپر کچھ مذہبی کتابیں پیش کر دی جاںُیں گی- اس کے بعد ایک دور ایسا بھی آئے گا جب دنیا کا سارا کاروبار آن لاںُن ہوگا مگر مسلمانوں کے لئے آن لائن ہونا بھی فساد کا سبب ہو گا اور   مسلمانوں کی آن لائن گرفتاریاں بھی شروع ہو جائیں گی! جو ہو رہا ہے-کیا یہ ہندوستانی مسلمانوں کی بدقسمتی نہیں ہے کہ اب مسلمان والدین اپنے بچوں کو انٹرنیٹ کی سائٹ گوگل اور یو ٹیوب پر بھی جانے سے اس لئے منع کرتے ہیں کہ کہیں غلطی سے ان کا لاڈلا  آئی ایس آئی ایس کی ساںُٹ نہ کلک کر دے - اور بے شک ملک عزیز میں مسلمانوں پر دباؤ برقرار رکھنے کیلئے آذادی کے بعد سے ہی سب سے پہلے اس کے تعلق کو  پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے جوڑا گیا اور پھر القاعدہ اور طالبان سے -جب امریکہ نے افغانستان سے ان کے خاتمے کا اعلان کیا تو ملک میں ہر طرف دھماکے ہونا شروع ہوگئے اور پھر  2010 تک سیمی کے نام پر مسلم نوجوانوں کو مختلف دھماکوں کے الزام میں گرفتار کیا جاتا رہا ہے -2014 میں اسلامک اسٹیٹ آف عراق اور شام کی شہرت کے بعد اب مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا ایک اور جواز سامنے آچکا ہے دیکھنا ہے کہ جب تک دہشت گردی کے نام کی کوئی اور فلم ہٹ نہیں ہوجاتی isis نام کی یہ فلم کب تک چلائی جاتی ہے اور مسلم نوجوانوں کو کب تک اس کا ویلن بنا کر پیش کیا جاتا ہے -افسوس آذادی کے بعد ہندوؤں میں بھی گاندھی اور پنڈت جواہر لال جیسے غیرت مند لیڈر اور مسلمانوں میں بھی کوئی ابولکلام آذاد جیسی دبنگ قیادت موجود تھی جن کے سامنے کم سے کم سردار پٹیل نے نام نہاد اسلحوں کو دکھا کر ثبوت پیش کرنے کی زحمت کی- مگر اب ہندوؤں اور مسلمانوں میں بھی ایسی کوئی غیرت مند قیادت نہیں رہی جو موجودہ سرکار اور ان کی انٹلیجنس سے سوال کرے کہ وہ جن مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر رہے ہیں ان کی گرفتاری کا حقیقی جواز کیا ہے -کیا اس طرح سے بے تکی گرفتاریاں اور بلا جواز دہشت گردی کی مذمت پر مذمت کر کے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے؟

عمر فراہی
umarfarrahi@gmail.com

0 comments:

گائے کی سینگ پر ہندوستان


فرحان حنیف وارثی ۔موبائل : 9320169397

آج ہندوستان ایک عجیب دوراہے پر کھڑا ہے اور اسی دوراہے پر کھڑے ہیں سو کروڑ سے زائد ہندوستانی ۔پیچھے کی طرف دیکھنے پر شاندار ماضی سرشار کرتا ہے اور سونے کی چڑیا ہمکتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن جب سامنے نگاہ اٹھتی ہے تو ایک گہری اور تاریک کھائی پر جاکر نظریں ٹک جاتی ہیں ۔
یہ ملک ہمیشہ سے مختلف قوموں ، نسلوں اور مذاہب کا گہوارہ رہا ہے ۔ قرون وسطی کے حکمرانوں اور خصوصاً مغلوں نے تہذیبی مماثلت اور قومی یکجہتی سے عبارت یہاں کی شاندار قدروں کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ وسیع النظری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اس کی شان و شوکت اور عظمت میں گرانقدر اضافہ بھی کیا ۔ مذہبی کشادگی ، تہذیبی یکسانیت اور ایک دوسرے کے تہواروں اور سوگ میں شرکت یہاں کی خصوصیت رہی ہے ۔ 
یہ وہی ملک ہے جہاں کے قدیم شہر دہلی میں ہر سال بھادوں کے شروع میں ایک پر رونق میلہ لگتا ہے جسے’’ پھول والوں کی سیر ‘‘ یا ’’ سیر گل فروشاں ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ ’’ پھول والوں کی سیر ‘‘ کے آغاز میں مسلمان خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزار پہ اور ہندو جوگ مایا جی کے مندر میں پنکھے چڑھاتے ہیں ۔ جوگ مایا جی کے مندر کی بنیاد راجا یدھشٹر کے عہدمیں رکھی گئی تھی اور مغل بادشاہ اکبر شاہ ثانی نے اس کی ازسر نو تعمیر کروائی تھی ۔
’’ پھول والوں کی سیر‘‘ کی وجہ تسمیہ بھی دلچسپ ہے ۔اکبر شاہ ثانی ( عہد حکومت : ۱۸۳۷ ۔ ۱۸۰۶ء) کے چشم و چراغ مرزا جہاں گیر نے لال قلعے میں مقیم ایک انگریز ریزیڈنٹ اسٹین کو غصے میں تھپڑ رسید کردیا تھا جس کی پاداش میں انھیں الہ آباد میں نظر بند کردیا گیا ۔ شہزادے کی ماں نواب ممتاز محل نے خواجہ قطب الدین بختیارکاکیؒ کے آستانہ پر اپنے لخت جگر کی رہائی کے لئے منت مانی اور جب مرزا جہاں گیر نے آزاد فضا میں سانس لی تو الہ آباد سے پرانی دہلی تک مغلوں کے مخصوص انداز میں جشن کا اہتمام کیا گیا ۔ پھولوں سے راستے کو سجایا گیا ۔ پھول برسائے گئے اور ڈھول تاشہ بجا کر مسرت کا اظہار کیا گیا ۔ نواب ممتاز محل نے شاہی طریقے سے اپنی منت پوری کی اور کئی دنوں تک مہرولی میں میلہ سجا رہا ۔ اس میلے میں ہندو اور مسلمان بلا تفریق شانہ بشانہ سیر کرتے نظر آئے ۔ 
آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر ( عہد حکومت : ۱۸۵۸ء ۔ ۱۸۳۷ء) نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی باہمی رفاقت سے مسرور ہوکے میلے کی رونق میں مزید چار چاند لگا دیئے ۔ بہادر شاہ ظفر کی قومی یکجہتی پر یقین کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی وجہ سے وہ ہندوؤں کے پنکھے کے جلوس میں شرکت سے محروم رہ گئے ۔ دوسرے دن مسلمانوں نے پنکھے کا جلوس نکالا اور بضد ہوئے کہ بادشاہ سلامت اس میں ضرور تشریف لائیں ۔ مغل تاجدار نے جواب دیا ’’ کل ہندوؤں کے پنکھے کے ساتھ گیا ہوتا تو آج تمہارے پنکھے کے ساتھ ضرورچلتا ۔ آتش بازی ہندو مسلمان دونوں کی طرف سے چھوٹے گی لہذا اس میں شریک ہوجاؤں گا ۔ ‘‘ شاہی دور ختم ہوگیا لیکن خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزار پر پنکھے اور پھولوں کی چادر اور جوگ مایا جی کے مندر میں پنکھے چڑھانے کی یہ روایت آج بھی زندہ ہے ۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ آج ہندو توا کا گمراہ ٹولہ مغلوں کی کشادہ قلبی اور انسانیت نوازی کو من گھڑت قصوں کے ذریعے مسخ کررہا ہے ۔اس زعفرانی ٹولہ کی جانب سے وقتاً فوقتاً ’’ اکھنڈ بھارت‘‘ کا بھی شوشہ چھوڑا جاتا ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مغلوں نے ہی اپنے عہد میں ’’ اکھنڈ بھارت ‘‘ کا نظریہ پیش کیا تھا اور انھوں نے اپنے اس تصور کو عملی جامہ پہناتے ہوئے متعددچھوٹی بڑی ریاستوں کو ہندوستان میں ضم کیا تھا ۔ آزادی کے وقت پورے ملک میں چھوٹی بڑی ۵۵۴ ریاستیں موجود تھیں ۔ مذکورہ تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغلوں کے دور میں یہاں کتنی ریاستوں کا وجود رہا ہوگا ؟ 
عہد حاضر میں بھگوا گمچھا اوڑھے کٹر پنتھی ہندو کندھے پر مذہبی اور سماجی رواداری اور تہذیبی یکسانیت کی ارتھی اٹھا کر پورے ملک میں دہشت پھیلا رہے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر جیسے انصاف پرور بادشاہ کو ظالم و جابر اور ہندوؤں کا دشمن ثابت کیا جاچکا ہے اور اب جنگ آزادی کے مجاہد اور انگریزوں سے لوہا لینے والے ٹیپو سلطان کی ایمانداری ، جذبے ، وطن پرستی اور شہادت پر انگشت نمائی کی جارہی ہے اور انھیں ہندوؤں کا قاتل کہا جارہا ہے ۔جبکہ فتح علی ٹیپو کی روا داری اس بات سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ ان کے دور حکومت میں ہر سال ۱۵۶ مندروں کو حکومتی امداد سے نوازا جاتا تھا ۔ اس میں زمین اور جواہرات کے عطیات بھی شامل ہیں ۔ شنکر اچاریہ کے بنائے ہوئے مشہور زمانہ سرینگری مٹھ کو جب مراٹھا فوج نے لوٹ مار کا نشانہ بنا کر تہس نہس کیا تو شیر میسور نے مٹھ کی باز آباد کاری کا فرمان جاری کیا اور مالی تعاون بھی فراہم کیا تاکہ یہاں حسب معمول پوجا پاٹھ جاری ہوسکے ۔ علاوہ ازاں ٹیپو سلطان نے نانجن گوڈ کے مشہور سری کنٹیشور مندر کے تعمیری کام کے لئے ۱۰ ہزار سونے کے سکے دیئے ۔ انھوں نے میلکوٹ مندر کے پجاریوں کے مابین پیدا ہونے والے تنازع کو نمٹانے اور پجاریوں میں صلح صفائی کرانے میں اہم کردار نبھایا ۔ مجاہد آزادی نے کلا لے کے لکشمی کانتا مندر کو بھی تحفوں سے نوازا ۔ ٹیپو سلطان کی قومی یکجہتی اور ملنساری کا علم اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ انھوں نے مندروں کے شہر سرنگا پٹنم کو اپنی سلطنت کے مستقل دارالحکومت کا رتبہ دیا ۔ 
ٹیپو سلطان کی طاقت اور انگریزوں کے دلوں میں ان کے دبدبے کا اندازہ گورنر جنرل کارنوالس کے مدراس کے گورنر میڈوز کو تحریر کردہ مکتوب سے ہوتا ہے ۔ خط میں لکھا ہے ’’ اس ملک میں اپنی شہرت ، عزت اور وجود قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ٹیپو سلطان سے نبرد آزما ہوں ۔ ہمیں اس طاقت کو ہمیشہ کے لئے مٹا دینا چاہیے ۔ اس کے لئے یہ سب سے اچھا موقع ہے کیونکہ ہندوستان کی دوسری طاقتیں ہماری مدد کررہی ہیں ۔ اگر ٹیپوسلطان کو اس طرح چھوڑ دیا گیا تو ہمیں ہندوستان کو خیر باد کہنا پڑے گا ۔ ‘‘
گورنر جنرل کارنوالس کے اس مکتوب سے یہ اطلاع بھی ملتی ہے کہ اس وقت ہندوستان کی دوسری طاقتیں انگریزوں کی مدد کررہی تھیں ۔ آج وہی طاقتیں ٹیپوسلطان کے خلاف زہر اگل رہی ہیں ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سرٹی مینرو نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے ’’ ہماری فوجی قوت ایسی ہے کہ موقع دیکھ کر ہم بہ آسانی پورے ہندوستان پر قابض ہوسکتے ہیں لیکن ٹیپو کی طاقت اس میں سنگ گراں کے طور پر حائل ہے ۔ اگر سرنگا پٹنم پر قبضہ ہوجائے تو تمام معاملات آسان ہوجائیں گے ۔ اس کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ باضابطہ منصوبہ بندی کی جائے ۔‘‘ ٹیپو سلطان کی بہادری اور انگریزوں کے کٹر دشمن نپولین بونا پارٹ کی طرف سے انھیں تعاون کی پیش کش تاریخ کے صفحات پر آج بھی روشن ہے ۔ ہندوستان سے کوسوں دور فرانس میں آج بھی ٹیپوسلطان کی دلیری اور ملک کے تئیں وفاداری کے واقعات لوگوں کو ازبر ہیں ۔ محض اتنا ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سائنس ادارے ناسا ( نیشنل ایروناٹک اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن) نے اپنی ریسیپشن لابی میں ٹیپوسلطان کی فوج اور انگریزوں کے درمیان لڑائی کی ایک پینٹنگ کو نمایاں طور سے آویزاں کر رکھا ہے ۔ سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے اپنی سوانح حیات ’’ دی ونگس آف فائر‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ ناسا کے پاس اپنی جو سائنسی تحقیق ہے اس کے مطابق سائنسی تاریخ میں سب سے پہلا میزائل ٹیپو سلطان کی فوج میں ہی تیار کیا گیا تھا ۔ 
گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ ڈرامہ نگار ، اداکار اور مصنف گریش کرناڈ نے ٹیپوسلطان کے یوم ولادت کے موقع پر کرناٹک میں آر ایس ایس کے کارکنوں کے ذریعے اشتعال انگیزی کے بعد میڈیا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا ’’ ٹیپوسلطان کے تعلق سے ہندوؤں میں تعصب کا بیج بویا جارہا ہے ۔ا گر وہ ہندو ہوتے تو انھیں مہاراشٹر کے راجا شیواجی جیسا ہی درجہ دیا جاتا ۔ لیکن ٹیپو سلطان کو صرف ان کے مذہبی عقیدے کی وجہ سے اس اعزاز سے محروم کئے جانے کی کوششیں ہورہی ہیں جو برداشت نہیں کی جانی چاہیئے ۔ ‘‘
ایک ٹولہ ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے جنون میں شیطانیت پر اُتر آیا ہے ۔ تاریخ کو طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت توڑ مروڑ کے پروسا جارہا ہے اور ناخواندہ اور کم عقل ہم وطنوں کے ذہن میں مسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں ۔ انھیں دہشت گرد اور ان کے اسلاف کو متعصب بتایا جارہا ہے ۔ یوں بھی ہندوستان کی سیکولر امیج برباد ہوچکی ہے ۔ سرکاری عمارتوں ، پولس اسٹیشنوں اور پولس کی گاڑیوں کو دیکھنے پر حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے ۔ غیر اعلانیہ طور پر ملک کے ہندو راشٹر بن جانے کے شبہات قوی ہوجاتے ہیں ۔ ممبئی اوشیورہ لنک روڈ سے میں جب بھی گزرتاہوں ، مجھے ان آر بیٹ مال کے مقابل ایک بورڈ اکثر متوجہ کرتا ہے جس پر درج ہے ’’ ہندوراشٹر کے اوشیورہ ضلع میں آپ کا سواگت ہے ۔ ‘‘
ایسے پریشان کن اور خطرناک حالات میں یہ سوچ کر دل تھوڑا مطمئن ہوجاتا ہے کہ غیر مسلموں کی نئی نسل تعلیم یافتہ اور ذی فہم ہے ۔ ان کی آنکھوں پر تعصب کی عینک بھی نہیں ہے ۔ انھیں معلوم ہے کہ باہر سے آنے والے مسلم بادشاہوں کو مذہب سے کوئی سروکار نہیں تھا ۔ ملکی اور غیر ملکی سبھی بادشاہوں کی اولین ترجیح حکومت تھی ۔ ان میں چند حکمراں ایسے بھی گزرے ہیں جنہیں یہاں کے باشندوں نے اپنی حفاظت اور مقامی راجا کے مظالم سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی غرض سے بلایا تھا ۔ تاریخ کے مطابق پورے ہندوستان پر مسلم بادشاہوں نے تقریباً ۷۰۰ برس حکومت کی ہے ۔ بعض مورخین نے ۹۰۰ سال کا ذکر کیا ہے ۔ا ن کا کہنا ہے کہ باقی کے ۲۰۰ برس ہندوستان کے چنندہ حصوں پر مسلمانوں کی حکومت رہی ہے ۔ اگر مسلم بادشاہ فرقہ پرست اور تعصبی ہوتے تو آج اس ملک میں صرف مسلمان موجود ہوتے اور ایک بھی غیر مسلم نظر نہیں آتا ۔ 
زمانہ قدیم سے یہ رواج چلا آرہا ہے کہ ہر طاقتور نے کمزور کی حق تلفی کی ہے ۔ ہر طاقتور بادشاہ نے اپنی سلطنت کی توسیع کے لئے دوسرے ملک پر حملہ کیا ہے ۔ چنگیز خاں ، ہلاکو خاں ، امیر تیمور اور سکندر اعظم جیسے متعدد خود غرض اور جابر بادشاہوں کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔ کیا جرمن کے قائد ایڈولف ہٹلر کو بھلایا جاسکتا ہے ؟ کیا اٹلی کے ڈکٹیٹر بینیٹومسولینی کو متذکرہ شخصیتوں سے الگ رکھا جاسکتا ہے ؟ اور پھر امریکہ ، برطانیہ ، جاپان ، چین ، فرانس ، جرمنی ، روس اور اسرائیل کا رول بھی بالکل ظاہر ہے ۔ ہم ہندستانیوں کو بھی تو غلامی کی زنجیریں پہننے کے لئے مجبور کیا گیا اور ہم نے اپنے بھائیوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکتے ہوئے بے بسی سے دیکھا ہے ۔ 
اورنگ زیب عالم گیر اور ٹیپو سلطان جیسے مسلم بادشاہوں کی اچھائیوں کو سامنے لانے کی ذمہ داری کس کی ہے ؟ اس ملک کے کروڑوں باشندوں کو یہ کون سمجھائے گا کہ اورنگ زیب عالمگیر ٹوپیاں سی کر اپنے اخراجات پورے کرتے تھے ۔ اپنے ذاتی کاموں کے وقت وہ سرکاری چراغ تک بجھا دیتے تھے ۔ انھوں نے اپنے بھائیوں کی سازشوں کے خلاف جتنے بھی لشکر روانہ کئے اس کی قیادت ہندو سپہ سالاروں نے کی ۔ کیا ایسا حکمراں متعصب ہوسکتا ہے ؟ اس سلسلے میں بشمبر ناتھ پانڈے اور دیگر غیر مسلم مورخوں کی تصانیف پر مذاکرے اور سیمینار ہونا چاہئے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون ؟ مسلمانوں کا ایک طبقہ اس نوعیت کے کاموں کو بھی اسلام سے جوڑ کر دیکھنا پسند کرتا ہے ۔ ہندوؤں کے طرح مسلمانوں کو بھی گمراہ کیا جارہا ہے ۔ مدرسے اور مسجدیں تو عالیشان بن رہی ہیں مگر لائبریریوں اور ریسرچ سینٹروں کو بے کار اور حقیر شئے سمجھ لیا گیا ہے ۔ کیا ہمارے آباء واجداد بے وقوف تھے جو لائبریریوں اور ریسرچ سینٹروں کو فوقیت دیتے تھے یاوہ عیسائی اور یہودی ممالک بے عقل ہیں جنہوں نے ہر مسلم ملک پر حملے کے بعد سب سے پہلے وہاں کی لائبریری پر قبضہ کیا اور واپسی پر ساری کتابیں اپنے ساتھ لے گئے ۔ عراق میں بھی جونیئر جارج بش نے یہی کیا تھا ۔ 
آر ایس ایس کی مثال بھی سامنے ہے ۔ اس تنظیم کے کارکنان اپنے عہد کے تئیں پوری طرح ایماندار ہیں ۔ کئی دہائیوں کی جدوجہد کے بعد انھوں نے اپنا مقصد حاصل کرلیاہے ۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے اپنے مقصد کے حصول کے لئے مجردانہ زندگی گزاری ۔ وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس فہرست میں شامل ہیں ۔ انھوں نے اپنے مقصد کے لئے اپنی نجی زندگی سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی ۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان تعلیمی ضرورتوں کے لئے بھی فراغت کا مظاہرہ کریں ۔ جس طرح عالم دین پیدا کئے جارہے ہیں اس طرح قوم کے بچوں اور نوجوانوں کو اسکالر بنانے کی طرف بھی توجہ دیں ۔ یاد رہے کہ سلمان رشدی کی ’’ شیطانی آیات ‘‘ نامی متنازعہ کتاب کا جواب کسی عالم دین نے نہیں بلکہ ڈاکٹر رفیق زکریا نامی ایک اسکالر نے ’’محمد اور قرآن ‘‘نامی کتاب لکھ کر دیا تھا اور اس کتاب کو انگریزی میں اسی پبلشر نے شائع کیا تھا جس نے سلمان رشدی کی کتاب چھاپی تھی ۔ امریکہ میں نائن الیون کے بعد مقامی مسلمانوں نے اسلامک ریسرچ سینٹر کے ذریعے بڑی تعداد میں انگریزی تراجم پر مبنی قرآن مجید شائع کروا کے تقسیم کئے تھے ۔ اس مہم کا خاطر خواہ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی معاشرے میں اسلام اور قرآن مجید سے تعلق سے جو غلط فہمیاں پھیلائی گئی تھیں وہ دور ہوگئیں اور اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔ 
گذشتہ دنوں مقامی اردو اخبار ( روزنامہ : انقلاب : ۲۱ ۔ اکتوبر ۲۰۱۵ء) میں چھپنے والی ایک خبر نے مجھے ہنسنے پر مجبورکردیا ۔ خبر یہ تھی کہ مہاراشٹر کی بی جے پی شیوسینا سرکار درختوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کررہی ہے ۔ عوام میں شجر کاری کے فروغ کے لئے مہاراشٹر سرکار نے سوشل فاریسٹری کے موضوع پر جو کتابچہ شائع کیا اس میں کھجور ، زیتون اور انگور کو اسلام ، انجیر ، انار اور انگور کو عیسائیت ، پیپل ، ریٹھا اور بیر کو ہندو ازم اور سال ، برگد اور کھیرنی کو بودھ مذہب سے وابستہ کیا گیا ہے ۔ یہ ذہنی دیوالیہ پن کی علامت ہے ۔ اس طرح تعلیم اور سرکاری اداروں کا بھی بھگوا کرن کیا جارہا ہے ۔ پونہ فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے طلبا کے احتجاج کی ایک وجہ یہ بھی تھی ۔ مجھے یاد ہے کہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور اقتدار میں تاریخ کے ساتھ چھیڑ خانی کی جرأت کی گئی تھی لیکن اٹل بہاری واجپئی نے ہر کوشش کی سختی سے مخالفت کی تھی ۔آج ماحول تبدیل ہوچکا ہے ۔ گائے کو سیاسی جانور بنا دیا گیا ہے اور اس سے دودھ کی بجائے ووٹ کی توقع کی جارہی ہے ۔ بی جے پی لیڈر انل وج نے جب سے اسے قومی جانور بنانے کا مطالبہ کیا ہے جنگل میں شیروں کو بھی اپنے وجود کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔ 
ان دنوں ملک میں بیف پر پابندی کے نام پر ایک نئی بحث جاری ہے ۔ ایسے کشیدہ ماحول میں نیشنل سیمپل سروے آفس کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں تقریباً آٹھ کروڑ (۸۰ ملین) لوگ بیف کھاتے ہیں ۔ اگر اسے اور آسان الفاظ میں کہیں تو ہر تیرہ ہندوستانیوں میں سے ایک ہندوستانی بیف کھاتا ہے ۔ ان اعداد و شمار کو کمیونٹی کے لحاظ سے دیکھیں تو ملک میں ایک کروڑ ۲۶ لاکھ ہندو ، چھ کروڑ ۳۵ لاکھ مسلمان ، ۶۵ لاکھ عیسائی اور ۹ لاکھ دیگر کمیونٹی کے لوگ بیف کھانے کا اعتراف کرتے ہیں ۔ اگر بی جے پی لیڈر مختار عباس نقوی اور اترا کھنڈ کے کانگریسی وزیر اعلیٰ ہریش راوت کے مشوروں کو سنجیدگی سے تسلیم کرنے کی بات کی جائے تو مذکورہ آٹھ کروڑ بیف کھانے والے ہندوستانیوں کو یہ ملک چھوڑ کر پاکستان چلے جانا چاہیے ۔ کیونکہ انھیں یا بالی ووڈ اسٹار رشی کپور کو ہندستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب ’’ منوسمرتی‘‘ میں جانوروں کو بطور غذا استعمال کرنے کا تذکرہ موجود ہے ۔ گنگا جل بھی مقدس ہے لیکن اسے پیا جاتا ہے ۔ ایسا کیوں ؟ 
سوامی وویکارنند کی تقاریراور تحریروں کی کئی جلدوں پر مشتمل ایک کلیات ''The Complete works of swami vevekananda''دستیاب ہے ۔ مذکورہ کتاب میں ایک جگہ درج ہے کہ کسی نے ایک مرتبہ ان سے پوچھا ’’ آپ کی نگاہ میں ہندوستان کا سنہری دور کون سا تھا ؟ ‘‘ سوامی وویکانند نے اس سوال کا بڑا دلچسپ جواب دیا تھا ۔ انھوں نے کہا ’’ جب پانچ برہمن ایک گائے کھا جایا کرتے تھے ۔ ‘‘ اس کتاب میں سوامی وویکانند کا یہ جملہ بھی موجود ہے ۔ موصوف کے بقول ’’ برہمن شُدر عورتوں سے بیاہ رچاتے تھے اور دن میں ایک وقت بیف کھاتے تھے ۔ مہمانوں کی مہمان نوازی کی خاطر بچھڑے کو قتل کیا جاتا تھا ۔ برہمنوں کے لئے شُدر عورتیں کھانا بنایا کرتی تھیں ۔ ‘‘
ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے اپنے ایک مشہور مضمون ’’ کیا ہندوؤں نے کبھی بیف نہیں کھایا ‘‘ میں تفصیل سے اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے ۔پروفیسر ڈی این جھا نے بھی گوشت خوری کی تاریخ کا مفصل جائزہ لیا ہے ۔اور اس تعلق سے ان کی کتاب THE MYTH OF THE HOLY COWبازار میں مل رہی ہے ۔ شر پسندوں نے جنوبی ہند میں واقع کتابوں کی ان دکانوں پر حملہ کیا تھا جہاں یہ کتاب بک رہی تھی ۔ اہم بات یہ ہے کہ جنوبی ہند میں پروفیسر ڈی این جھا کی اس کتاب پر پابندی بھی عائد کی گئی لیکن سپریم کورٹ نے اسے کلین چٹ دیتے ہوئے بازار میں فروخت کرنے کی اجازت دے دی ۔ حال ہی میں اس سیر حاصل تصنیف کا نیا ایڈیشن پرنٹ کیا گیا ہے جس میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کا مضمون بھی شامل ہے ۔ اسی طرح نامورسائنسداں اور تاریخ کے محقق پشپ متربھارگو نے صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کو ایک مکتوب ارسال کیا ہے جس میں انھوں نے قدیم تاریخی اور مذہبی کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے پرانے ہندوستان میں ہندوؤں کے بیف کھانے کاذکر کیا ہے ۔ 
ونئے کرشنا چترویدی کے ’’ پنچ جنیہ ‘‘ میں تحریر کردہ مضمون کا ایک جملہ ہے ’’ قدیم ویدوں میں گؤ کشی کرنے والوں کو موت کی سزا دینے کے بارے میں لکھا ہے ‘‘ انھوں نے یہ مضمون دادری میں محمد اخلاق کے درد ناک قتل کے بعد قلم بند کیا تھا اور محمد اخلاق کے قتل کو جائز ٹہرانے کی کوشش کی تھی ۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ گؤ کشی کرنے والوں کو سزا کون دے گا ؟ آر ایس ایس ، بجرنگ دل ، وشو ہندو پریشد ، سناتن سنستھا ، ہندوسینا ، اکھل بھارتیہ ہندومہا سبھا ، ہندو جاگرتی منچ ، ہندو سوراجیہ پرتشٹھان ، گؤ رکھشا سمیتی ، ہندو جن جاگرن سمیتی اور ابھینو بھارت کے کارکنان یا اس ملک کا قانون ؟
ونئے کرشنا چترویدی ’’ پنچ جنیہ ‘‘ میں طفیل چترویدی کے نام سے بھی لکھتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے مضمون میں ۱۸۵۷کے انقلاب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گائے کے معاملے میں پہلا انقلاب اس وقت شروع ہوا تھا جب انگریزوں نے بھارتی فوجیوں کو گائے کی چربی والے کارتوسوں کودانت سے کاٹنے کا حکم دیا تھا ۔گائے کے تقدس کی بانسری بجانے والے شدت پسندوں کی دوغلی پالیسی کو امریکی محکمہ زراعت ( یو ایس ڈی اے) کی تازہ رپورٹ نے بے نقاب کیا ہے ۔ یو ایس ڈی اے کے مطابق ہندوستان عالمی مارکیٹ میں برازیل کے بعد بیف سپلائی کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمانی انتخابات کی مہم کے دوران گوشت کے کاروبار کو گلابی انقلاب (pink revolution )سے تعبیر کیا تھا اور الیکشن میں جیتنے کے بعد اس کاروبار کو بند کرانے کا وعدہ کیا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دور اقتدار میں ہندوستان عالمی مارکیٹ میں بیف سپلائی کرنے والا ایک بڑا ملک بن کر ابھرا ہے ۔ دادری میں محمد اخلاق کے قتل کے بعد متنازعہ بیان دینے والے رکن اسمبلی سنگیت سوم بھی اس گلابی انقلاب میں ملوث پائے گئے ہیں ۔وہ ’’ الدعا فوڈ پروسیسنگ کمپنی ‘‘ کے تین پرموٹرس میں سے ایک ہیں اور ان کے دو دیگر ساتھی ڈائریکٹر معین الدین قریشی اور یوگیش راوت ہیں ۔ یہ ان شدت پسندوں کا دوہرا کردار ہے جو گائے کو لے کر ’’ دوسرے انقلاب‘‘ کی مہم چلا رہے ہیں ۔ 
بی جے پی نے سنگیت سوم کی اصلیت سامنے آنے کے بعد خاموشی اختیار کرلی ہے ۔ ممکن ہے کہ اس کے اور بھی لیڈر اس کاروبار میں شامل ہوں ۔ دادری میں محمد اخلاق کے فریج میں بکرے کا گوشت ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے ۔ میڈیا سے اب دادری غائب ہوچکا ہے ۔ کسی کو معلوم نہیں کہ پولس نے ملزمین کے خلاف کیا کارروائی کی ۔ سماج وادی پارٹی کے رہنما ملائم سنگھ یادو نے پریس کانفرنس میں بلند بانگ دعوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ دادری سانحے میں بی جے پی کے تین لیڈروں کا ہاتھ ہے اور وہ چور کو نہیں چور کی نانی کو پکڑ کے عوام کے سامنے پیش کریں گے ۔ اب تک نہ چور کا پتا چلا اور نہ ہی چور کی نانی کا ۔ 
ہمارے سیاستدانوں کی غیرت کا جائزہ لیجئے ۔ غیر ممالک میں سرکاری دوروں کے وقت ان کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے ۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں پلے کارڈ ہوتے ہیں جن پر شرمناک سلوگن لکھے ہوتے ہیں ۔ ناراض بھیڑ کی جانب سے ضمیر کو جھنجھوڑنے والے نعرے لگائے جاتے ہیں لیکن وہ بڑی بے شرمی سے انھیں ہاتھ دکھاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ فرقہ وارانہ فساد کروائے جاتے ہیں اور پھر بے غیرتی سے وہاں کا دورہ کرکے پورے ملک کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ دولت پہ دولت کمانے کے باوجود ان کی ہوس کا گڑھا کبھی بھرتا نہیں ہے ۔ مذکورہ افعال اس بات کی علامت نہیں ہیں کہ یہاں کے بیشتر سیاستدانوں کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں ان کے پیش نظر صرف ان کے ذاتی فائدے ہوتے ہیں ؟ 
کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ ملک کے ایک مایہ ناز رہنما ، مجاہد آزادی اور اولین وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم پیدائش (۱۱ ۔ نومبر ۲۰۱۵ء) پر امسال صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم کی طرف سے خاموشی کا مظاہرہ کیاگیا ۔ شاید پرنب مکھرجی اور نریندر مودی اس عظیم رہنماکے یوم پیدائش سے لا علم تھے تبھی تو ان سربراہوں کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کوئی پیغام ٹوئٹ نہیں کیا گیا ۔ مرکزی وزیر تعلیم و فروغ انسانی وسائل اسمرتی ایرانی نے بھی منسٹری آف ایچ آر ڈی کے ہینڈلر سے ٹوئٹ کردہ خراج عقیدت کے پیغام کو ری ٹوئٹ کرنے پر ہی اکتفا کیا ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک سے یہ وعدہ کیا تھاکہ اگر کوئی آدھی رات کو ان کا دروازہ کھٹکھٹائے گا تو وہ اس کی مدد کے لئے کھڑے رہیں گے ۔ وزیر اعظم نے ہندوستانیوں کو مدد کی امید تو دلا دی لیکن ان کا زیادہ تر وقت ملک کے باہر بیت رہا ہے اور لوگ آدھی رات کو ان کے دروازے پر دستک دینے کا انتظار کررہے ہیں ۔ 
وزیر اعظم اپنی پارٹی کے لیڈروں کی بے لگام زبان کو روکنے میں بھی بے بس نظر آرہے ہیں اور اس کا نقصان پارٹی سے زیادہ انھیں پہنچ رہا ہے ۔ منوہر لال کھٹر ، سنجیوسالیان ، سادھوی پراچی ، سنگیت سوم ، مہیش شرما ، جتندر تیاگی ، سدھارتھ ناتھ سنگھ ، ساکشی مہاراج ، یوگی آدتیہ ناتھ ، کیلاش وجے ورگے ، سادھوی نرنجن جیوتی ،وی کے سنگھ ، اشونی اپادھیائے ، کملیش تیواری اور سبرامنیم سوامی ہزیان گوئی پر آمادہ ہیں اور بولتے وقت عقل کے دروازے بند کرلیتے ہیں ۔ کیرالا ہاؤس میں گائے کے گوشت کا تنازعہ پیدا کرنے والے ہندوسینا کے صدر وشنو گپتا کو نئی دہلی میں اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کی طرف سے ہندو توا کو فروغ دینے کے لئے اعزاز سے نوازا گیا ۔ مہاتما گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈ سے کو عدالت کے حکم پر ۱۵ نومبر کے دن پھانسی دی گئی تھی ۔ ممبئی کے نزدیکی ضلع تھانہ میں ہندو مہاسبھا کی طرف سے اس دن نتھو رام گوڈسے کی برسی ’’ بلیدان دیوس‘‘ کے نام سے منائی گئی ۔ بی جے پی کی مرکزی سرکار نے سابق وزرائے اعظم اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے یاد گاری ڈاک ٹکٹ کو بند کرکے رام جنم بھومی تحریک میں سرگرم رول ادا کرنے والے یوگی اوید ناتھ کا یادگاری ٹکٹ جاری کیا ۔ مذکورہ بالا تمام واقعات سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ آنے والا وقت ملک کے لئے نقصان دہ ہے ۔ وطن کی سا لمیت ، مذہبی رواداری ، بولنے ، لکھنے اور کھانے پینے کی آزادی اور آئندہ نسل کا کیریئر اور سکون خطرے میں ہے ۔ ’’ ہندو راشٹر ‘‘ کے بہانے ہٹلری طرز کے جس ’’ ہندوتوا ‘‘ کو تھوپنے کی کوششیں کی جارہی ہیں وہ ’’ ہندوتوا ‘‘ نہ صرف اقلیتوں کے لئے بلکہ خود امن پسند اور تعصب سے بے نیاز ہندوؤں کے لئے بھی وبال بن جائے گا ۔ انتہا پسندوں نے اس وقت ہندوستان کوگائے کی سینگ پر رکھ دیا ہے ۔ 
فرحان حنیف وارثی ۔موبائل : 9320169397

0 comments:

اسلام پسندوں کے دشمن اسلام دشمنوں کے دوست ایران اور عرب کے حکمراں


عمر فراہی
umarfarrahi@gmail.com

نئےسال کے دوسرے ہی دن سعودی مملکت  نے حکومت مخالف سرگرمیوں میں ملوث 47 سیاسی مجرموں کا سر قلم کرواکر اپنی  عوام کو یہ پیغام دینےکی کوشس کی ہے کہ سعودی عربیہ تیونس مصر اور لیبیا نہیں ہے ۔ حکومت کسی بھی طرح کی بغاوت اور سیاسی جدوجہد کو سختی کے ساتھ کچلنے کا عزم رکھتی ہے -سعودی مملکت کے ذریعے سزا دیئے جانے والے ان 47 مجرموں میں ایک شیعہ عالم دین باقر النمر کی موت پر ایران نے احتجاج اور مظاہرے کا جو رخ اختیار کیا ہے عالم اسلام میں ایران کا چہرہ پوری طرح بے نقاب ہو چکا ہے کہ وہ اب صرف خالص شیعی مفاد کا علمبردار ہے- حالانکہ ایران اور ایران نواز دانشوروں کی دلیل یہ ہے کہ وہ اس تنازعے سے شیعہ سنی تفریق نہیں پیدا کرنا چاہتے بلکہ ان کا احتجاج سعودی مملکت کے ظلم اور ناانصافی کے خلاف ہے جبکہ اگر وہ کسی بھی ظلم اور حکومتی جبر کے خلاف عالم اسلام کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے تو ان کے اس احتجاج کی شدت بنگلہ دیش اور مصر کے اسلام دشمن حکومتوں کے خلاف ظاہر ہونی چاہیے تھی جہاں اسلام پسندوں کو پابند سلاسل اور تختہ دار پر چڑھایا جارہا ہے- سچ تو یہ کہ ایران اگر عالم اسلام کے ساتھ ہمدردی اور مساوات کا قائل اور متمنی  ہوتا تو اسلام پسندوں کے خلاف شام کے ظالم وجابر حکمراں بشارالاسد کی مدد نہ کرتا - یہاں پر بھی ایران نوازوں کا کہنا ہے کہ شام کا  حکمراں بشار الاسد چونکہ امریکہ اور اسرائیل کا مخالف رہا ہے اس لئے اسلام پسندوں کے مقابلے میں بشار کی حمایت کرنا جائز ہے ۔ جبکہ خود بشار الاسد کے والد حافظ الاسد نے شامی عوام اور اسلام پسندوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں وہ امریکہ اور اسرائیل کی دہشت گردی سے کم نہیں ہے ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ علویوں اور صہیونیوں دونوں کا اپنا مقصد اور نصب العین اس کے سوا اور کچھ نہیں رہا ہے کہ پورے خطہ عرب سے اسلام پسندوں کا صفایا کردیا جائے ۔ایران کا یہ بھی کہنا ہےکہ اسد چونکہ بعثی کمیونسٹ عرب قومیت کا علمبردار اور استعماریت کا دشمن ہے اس لئے فلسطین کا حمایتی اور اسرائیل کا دشمن ہے سراسر جھوٹ اور حق و باطل کی تلبیس کے مترادف ہے ۔ جبکہ  مشرکوں ،سرمایہ داروں اور کمیونسٹوں کا مذہب صرف اقتدار  ہوتا ہے اور یہ شیطان کے حکم کے مطابق کبھی بھی کسی کے ساتھ اپنی وفاداری بدل سکتے ہیں ۔ تعجب ہے کہ ایران جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا نظام تمدن و سیاست صرف اور صرف قرآن و سنت پر استوار ہے طاغوتی نظریے کو بھی اصولی کہہ رہا ہے ۔ جہاں تک فلسطین کا معاملہ ہے ہم نے دیکھا ہے کہ صدام حسین سے لیکر کرنل قذافی اور بشارلاسدتک نے صرف اپنے اقتدار کیلئے فلسطینیوں کی مظلومیت اور ان کے خون کو اشتہار کے طور پر استعمال کیا ہے تاکہ بھولی بھالی مسلمان قوم جو قبلہ اول کے تعلق سے بہت ہی حساس اور جذباتی ہے اور فلسطینی عوام سے قدم سے قدم ملا کر چلتی رہی ہے ان کی اخلاقی  حمایت حاصل رہے ۔ مگر ان حکمرانوں نے کبھی بھی اپنے نظریاتی مماثلت کا ثبوت دیتے ہوئے کسی ایسے اتحاد کی کوشش اور ضرورت محسوس نہیں کی جو اسرائیل سے فلسطینیوں کی آزادی کیلئے میل کا پتھر ثابت ہوتا ۔ مگر اب جبکہ عرب بہار کے بعد عوامی بغاوت کی چنگاری شعلہ بن چکی ہے عرب حکمرانوں نے چونتیس مسلم ممالک کی فوج تشکیل دینے کا منصوبہ بنایا ہے -خود ایران جو ایک زمانے سے اسرائیل کی مخالفت اور فلسطین کی حمایت کا دعویٰ کرتا ہے اس نے اس معاملے میں اس طرح سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جیسے کہ شامی حکمراں کو بچانے کیلئے اس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے ۔ جبکہ امریکہ اور روس کے حواریوں نے بھی اپنے احمق عرب دوستوں کو بیوقوف بنانے کیلئے مختلف معاہدات اور امن کی پیشکش کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو زندہ تو رکھا مگر کوئی ٹھوس حل نہیں نکال سکے- اور اب ایک نوزائدہ تحریک اور عرب نوجوانوں کی بیداری کو کچلنے کیلئے یہ تمام عالمی طاقتیں بھی میدان میں کود چکی ہیں- مگر اب حالات بدل چکے ہیں عرب بہار نے عرب کے ہی نہیں پوری دنیا کے مساوات (Equation )کو بدل دیا ہے ۔اگر انہوں نے عقل  سے کام نہیں لیا تو  وہ تاریخ کے کوڑے دان میں ہونگے اور جو نہیں مٹ سکتے اقبال نے ان کے بارے میں بہت پہلے ہی کہ دیا ہے کہ 
یونان و مصر روما سب مٹ گئے جہاں سے 
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا 
مستقبل کی صورتحال جو بھی ہو مگر ایران اور حز ب اللہ نے ایک ظالم ،جابر اور مکار حکمراں کی حمایت کرکے نہ صرف شام کے موجودہ بحران کو پیچیدہ بنادیا ہے بلکہ اس نے مرحوم آیت اللہ خمینی کی اس  روایت کو بھی نقصان پہنچائی ہے جو انہوں نے 1979 میں ایک پر امن انقلاب کے بعد قائم کی تھی- بدقسمتی سے اس روایت کے اصل قاتل ایران کے سابق صدر احمدی نژاد ہیں جنہیں عالم اسلام میں نہ صرف  عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا گیا تھا بلکہ آیت اللہ خمینی کی اسلامی روایت کا علمبردار بھی سمجھا گیا تھا  ۔افسوس کی بات تو یہ ہے ایران کے اس اسلام پسند رہنما احمدی نثراد نے ہی شامی حکمراں کے ساتھ شامی عوام کے قتل عام میں خود کو ایک فریق کے طورپر شامل کرکے تنگ نظری کا ثبوت دیا اور اب یہ مسئلہ پوری ایرانی قوم کی انا کا سوال بن چکا ہے اور پورا ایران اس شک و شبہات میں مبتلاء ہے کہ کہیں یہ تحریک لبنان اور عراق تک طول پکڑ کر اس علاقے میں موجود شیعہ آبادی اوران کی حکومت کیلئے خطرہ نہ بن جائے ۔ یہ خدشہ بھی درست ہو سکتا ہے مگر اس کا حل بھی خالص قرآن وسنت کے احکامات پر یقین و عمل سے ہی نکالا جاسکتا ہے نہ کہ کسی ظالم کی مدد و حمایت سے جبکہ اس کا اپنا مستقبل بھی تاریک ہو ۔
ایران اور حزب اللہ کے اس ناقص فیصلے سے عالم اسلام دوخانوں میں تقسیم ہوچکا ہے  اور جو فائدہ عرب بہار سے عالم اسلام کو ہونا چاہئے تھا وہ ایک سیاسی کشمکش کا شکار ہو چکا ہے ،جس کا بہر حال فائدہ اسرائیل کو ہی ہو رہا ہے ۔ یعنی ایران اور عراق کے درمیان خلیج کی پہلی جنگ میں جو غلطی سعودی عرب اور کویت نے امریکہ کی امداد لیکر کی تھی ایران کی موجودہ قیادت اور اس کے حمایتی شام کے اندرروس کی مداخلت کے ساتھ وہی غلطی دوبارہ دوہرا چکے ہیں مگر ایران یہ بھول رہا ہے کہ خلیج کی یہ جنگ ایک خالص علاقائی اور سیاسی کشمکش تھی اور ایران کے اس انقلاب سے عراقی حکمراں اور سعودی حکومت دونوں کو خطرہ لاحق ہو چکا تھا ۔ جبکہ عالم اسلام کی جہاندیدہ شخصیات عمائدین کی جماعت منجملہ امت مسلمہ کو اس فساد سے دلی رنج پہنچا تھا ۔ خود بعد میں سعودی حکومت نے صدام حسین کی حکومت کے خاتمہ کیلئے شیعہ اور سنی کا مسئلہ کھڑا نہیں کیا اور مرحوم آیت اللہ خمینی نے بھی عراق ایران کی اس جنگ کو شیعہ اور سنی کے رنگ میں نہیں رنگنے دیا ۔ بعد کے حالات میں جب احمدی نژاد صدارت کے منصب پر فائز ہوئے تو انہیں بھی عالم اسلام میں شہرت اور عزت ملی اور امت مسلمہ نے اپنا قائد تسلیم کیا کیوں کہ وہ ایران کے دیگر صدور کے برعکس مرحوم آیت اللہ خمینی  کے زیادہ قریب رہے ہیں اور نظریاتی طور پر ان کی شخصیت شیعہ سنی اتحاد کی علامت کے طور پر مشتہر رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق خود سعودی عوام کی اکثریت نے احمدی نژاد کو عالم اسلام کی قیادت کا اہل قرار دیا تھا۔ خلیج کی اس پہلی جنگ کے دوران ہمارے سامنے سے ایک اچھی خبر یہ بھی گزرچکی ہے کہ سعودی عرب کے اس وقت کے حکمراں اور پاکستان کے فوجی صدر ضیاء الحق کے درمیان یہ خفیہ معاہدہ ہوا تھا کہ پاکستانی حکومت کسی بھی ناگہانی جنگی صورتحال میں سعودی حکومت کی مدد کریگی جسکے عوض سعودی عرب کی حکومت پاکستان کو ایٹمی اسلحہ کی تیاری میں مالی امداد فراہم کریگی ۔اس معاہدہ کے تحت خلیج کی اس جنگ کے دوران سعودی حکومت نے ضیاء الحق سے کہا تھا کہ وہ ایران سے قریب سعودی سرحد پر کچھ پاکستانی فوجوں کو تعینات کرے تاکہ عراقی فوجوں کی مدد کی جاسکے ۔ ضیاء الحق نے یہ کہتے ہوئے فوج بھیجنے سے انکار کردیا تھا کہ ہمارا معاہدہ کسی غیر مسلم ملک کی طرف سے ممکنہ حملے کی صورت میں طئے پایا ہے جبکہ ایران ایک مسلم ملک ہے اور یہ عربوں کا آپسی معاملہ ہے نہ کہ عالم اسلام کا ۔ یہ واقعہ کہاں تک سچ ہے یا کہاں تک جھوٹ مگر ایران ایک شیعہ ملک ہے سعودی عرب سنی ملک ہے اس کے باوجود اہل دانش اور تحریکی علماء کی یہ سوچ بالکل نہیں رہی ہے کہ دونوں میں کوئی تفریق کی جائے اور ہمارے درمیان مشرکین و ملحدین کو مداخلت کا موقع مل جائے جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے اور ہم آج پھر وہی حالات پیدا کررہے ہیں - اسی طرح کچھ سال پہلے جب  ایران کے جوہری پلانٹ کو لےکر امریکہ اور اسرائیل نے  بحران پیدا کیا تو عالم اسلام پوری طرح ایران کے ساتھ رہا ہے اس درمیان یہ بحث بھی چھڑی کہ اگر اسرائیل ایران پر حملہ کرتا ہے تو اس کے جنگی جہازوں کو ایران تک سفر کرنے میں ایک ہزار میل کا سفر طے کرنا ہوگا اور پھر اس درمیان اگر ایران نے خود اسرائیل کو نشانہ بنادیا تو صورتحال بہت سنگین ہو سکتی ہے ایسی صورت میں کیا سعودی عرب اس دوری کو کم کرنے کیلئے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود کے  استعمال کرنے کی اجازت دیگا ۔ اس خبر کے بعد نہ صرف سعودی حکومت نے اس کی تردید کی بلکہ ترکی اور پاکستان نے بھی جو کہ امریکہ کے دوست رہے ہیں ایران پر کسی بھی ممکنہ حملے کی صورت میں امریکی جنگی جہازوں کو پڑاؤ دینے سے انکار کیا ۔اس کے برعکس ایران اور حز ب اللہ نے جو رخ اختیار کیا ہے یہ ایک ایسی سیاسی غلطی ہے جس کا خمیازہ پورے عالم اسلام کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔ اس طرح ایران نادانستہ  طور پر اسرائیلی منصوبے کو بھی تقویت پہنچارہا ہے اور یہ فیصلہ خود اس کے اپنے حق میں بھی نہیں ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ جو غلطی سعودی حکمراں نے مصر میں کی ہے وہی غلطی ایران بھی دوہرا کر ایران اور سعودی حکومت مل کر اسرائیل کو تحفظ فراہم کررہے ہیں -


0 comments:

فتنہ مادیت, دجال اور ہم

عمر فراہی ۔ ممبئی
umarfarrahi@gmail.com

دنیا میں جہاں کہیں پر بھی مسلمان اسپین برما, بوسنیا,اور فلسطین جیسے مظالم سے گذرتا ہے تو عالم اسلام کا سیدھا سادھا اور بے بس مسلمان وہ چاہے عالم ہو جاہل ہو کسان ہو یا تاجر یہ محسوس کر نے لگتا ہے کہ گویا یہ ظلم اسی پر ڈھایا جارہا ہے اور پھر اس کا پورا وجود درد سے کراہتے ہوئے برجستہ پکار اٹھتا ہے کہ الٰہی بھیج دے محمود کوئی....! مسئلہ یہ ہے کہ آج کے دور میں اگر کوئی محمود , محمد بن قاسم ,صلاح الدین ایوبی اور طارق بن زیاد آسمان سے نازل بھی ہوجائیں تو کیا یہ ضروری ہے کہ یہ لوگ پہچان بھی لئے جائیں اور کیا ہمارا موجودہ سیاسی نظام اور ماحول ہمیں یہ اجازت دیگا کہ ہم انہیں ان کے اس مجاہدانہ کردار میں قبول بھی کر سکیں- ظاہر سی بات ہے کہ ایسے لوگ اگر اپنی کسی فوج اور طاقت کے ساتھ نمودار بھی ہوئے تو خوارج ,باغی اور دہشت گرد قرار پائیں گے جو ہو بھی رہا ہے- سچ تو یہ ہے کہ اشتہاری میڈیا, انٹرنیٹ کے جھوٹ , برہنہ تہذیب ,سودی معیشت , فحاشی کی یلغار, موسیقی کے طوفان , ادب کی بے ادبی, دجل و فریب, سرکاری بدعنوانی, حرام رزق اور حق و باطل کے  اس پر فتن مشتبہ دور میں حضرت امام مہدی اور دجال کی اصلیت کو بھی صرف وہی لوگ شناخت کر پائیں گے جو علم کے ساتھ ساتھ اس بدعت اور برائی سے بھی  بدظن اور بیزار ہیں - بلکہ مسلمانوں کی اکثریت مادیت اور ریاکاری کے فتنے میں اس قدر قید ہو چکی ہے کہ آج اگر شام کے علاقے میں حضرت مہدی کا ظہور ہو جائے تو وہ بھی دہشت گرد قرار پائیں گے - جیسا کہ دجال کے ظہور سے  پہلے کی کچھ علامتیں ظاہر بھی ہو رہی ہیں اور ہم  محسوس بھی کر رہے ہیں کہ جو محمود ہیں وہ دہشت گرد  ہیں اور جو دہشت گرد ہیں وہ برسر اقتدار ہیں اور جو اہل علم اور دانشور ہیں وہ ان کے آلہ کار ہیں اور تلبیس حق و باطل کے فتنے میں قید ان کی تعداد طبقہ خاص اور اہل علم میں سے زیادہ ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ  قحط الرجال کے اس دور میں حق پرست علماء کی شناخت بھی بہت مشکل ہے-اتفاق سے رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے  پہلے بھی یہی ماحول تھا یعنی وقت کے اہل ایمان اور اہل کتاب جنہیں اپنے تعلیم یافتہ ہونے اور اپنی تہذیب و تمدن اور  ترقی پر بہت ناز تھا انہوں ںے آخری نبی ﷺجس کا کہ انہیں خود بھی انتظار تھااس لیںے انکار کر دیا کیوں کہ یہ رسول ایک ایسی قوم سے تھا جو ان سے کمتر اور کم پڑھے لکھے لوگ تھے -اگر آج کے مسلمانوں سے ان کا تقابلی موازنہ کیا جائے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس وقت اہل کتاب میں کم سے کم اپنے رب سے ڈرنے والے ایسے علماء اور کاہن موجود تھے جنھوں نے اپنے علم سے رسول کی ولادت کے بعد ہی یہ اعلان کرنا شروع کر دیا تھا کہ وقت کے رسول محمد صلیٰ علیہ وسلم کی ولادت ہو چکی ہے - تاریخ میں آتا ہے کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء کی اسی پیشن گوئ کے مطابق اپنے نو مولود بچوں کا نام محمد رکھنا شروع کر دیا تھا - ذرا غور کیجئے کہ آج کے دور میں دنیا کے کسی بھی خطے میں جہاں مسلمانوں کا ہر وہ عالم اورامام جو دوسرے عالم سے اپنے آپ کو بہتر اورافضل سمجھتا ہے کیا وہ موجودہ پر فتن دور کا ادراک رکھتا ہے - حدیث ہے کہ آخری دور میں علم اٹھ جائے گا -اور گمراہی کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی اکثریت پر وہن غالب آجائیگا - ہم دیکھ بھی سکتے ہیں کہ جن پر وہن غالب نہیں ہے ان کیلئےخارجی قاتل اور زانی ہونے کی سند جاری ہورہی ہے اور جن پر وہن غالب ہے  یہ ہمارے دور کے علماء اور دانشور ہیں جو خود دجال کے مادی فتنے میں قید ہیں - تعجب ہے کہ حالات حاضرہ پر مسلمانوں کے ان علما اور مفکروں کی معلومات کا ذریعہ انٹرنیٹ اور دجالی میڈیا  ہے یا ایسی تمام خبریں جو اسرائیل اور ایران سے نشر ہورہی ہیں اور یہ دونوں قومیں کم و بیش تقریباً تیرہ سو سال سے اسلام دشمن طاقتوں کی آلہ کار ہیں اور یہ لوگ خاص طور سے یورپ کے عیسائیوں اور ہندوستان کے ہندوؤں میں عرب کے مسلمانوں کی ایک خونخوار تصویر پیش کر رہے ہیں مگر ہمارے  علماء اور کچھ دیگر لکھاریوں کو اپنے اطراف میں ہونے والی ان سازشوں کا تو علم نہیں ہے کہ کون ان کے خلاف سازش میں مصروف ہے ۔ مگر جس میدان میں قدم رکھنے سے ہی ان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں  وہاں کی خبریں اور ان کے بارے میں اس طرح لکھ رہے ہیں جیسے کہ یہی دجال کا اصل فتنہ ہو- حالانکہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ شورش کے بارے میں تھامس فرائیڈ مین اور انصاف پسند مغربی دانشوروں کو بھی یہ اعتراف ہے کہ اگر فلسطین کا مسئلہ حل کر دیا گیا ہوتا, عربوں پر جنگ مسلط نہ کی گئی ہوتی, عوام کی آذادانہ طورپر اپنی حکومت ہوتی , مصر اور شام میں عوامی حکومت کے مطالبے کو تسلیم کر لیا گیا ہوتا اور ان ممالک میں ایران اسرائیل اور عرب کے نوابوں نے ٹانگ نہ اڑائی ہوتی تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے- دنیا کے حکمرانوں کی یہی وہ نا انصافی اور ظلم کی داستان ہی مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی حقیقت ہے جس کی وجہ سے عرب کے نوجوان ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں جسے ہندوستان کے علماء اور دانشور بھی نہ صرف سمجھنے سے قاصر ہیں بلکہ  حدیث اور قرآن کی غلط تعبیر پیش کرکے اس طرح اپنی اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں جیسے کہ وحی کے نزول کا سلسلہ انہیں پر ہو رہا ہو - اسی بحث اور ایک مضمون کے ردعمل میں ہمارے ایک قاری نے کہا کہ عرب حریت پسندوں کے خلاف تو اب سعودی کے مفتی اعظم کا بھی بیان آچکا ہے کیا وہ غلط ہیں-اس کا سیدھا اور آسان جواب یہ ہے کہ جب مصر میں نہتے اخوانیوں پر گولیاں برسائی جارہی تھیں اور تاریخ میں پہلی بار کسی مسلم ملک میں باحجاب معزز خواتین کو نہ صرف سڑکوں پر گھسیٹ کر مصری فوجیوں نے ان کے لباس کو تار تار کیا بلکہ سیکڑوں خواتین کو جیلوں میں بھی ڈال کر تشدد سے گذارا جا رہا ہے اور سعودی حکومت نے کھلے عام اس ظلم کی حمایت کی تو اس وقت یہ مفتی اعظم  کہاں تھے  - میں نہیں سمجھتا کہ دنیا کی کسی جیل میں کسی دیگر مذہب کی خاتون کو قید کر کے تشدد  سے اس طرح گزارا گیا ہو یا اگر ایسا ہوا بھی تو اس ملک کے لوگوں نے برداشت بھی کر لیا ہو- یورپ تو کسی ملک میں اپنے کسی شہری کی گرفتاری برداشت نہیں کرتا اور جہاں تک ممکن ہے ہرجانہ دیکر رہا کروا لیتا ہے -ایران کی بھی مثال دیکھئے کہ ان کے لوگوں نے ایک سعودی باشندے  نمر النمر کی سزائے موت پر سعودی سفارت خانے کو اس لئے آگ لگا دیا کیوں کہ وہ ان کے ہم مسلک تھے - مگر عالم اسلام کے کسی سنی عالم دین نے باقی کے چھیالیس سنی مسلمانوں کی سزائے موت پر کوئی سوال اٹھانے کی جرات نہیں کی - جبکہ یہ ممکن بھی ہے کہ یہ  نوجوان جنھیں القاعدہ سے تعلق کی بنیاد د پرسزا دی گئی ہے النمر ہی کی طرح سیاسی ملزم اور سعودی حکومت کے شکار رہے ہوں- عالم اسلام کے سنی علما کی یہ بے حسی نہیں تو اور کیا ہے کہ وقت کی حکومتیں اور دجالی میڈیا جو تصویر پیش کرتا ہے یہ علماء بھی اس جھوٹ پر یقین کر لیتے ہیں - کیا سعودی عرب کے مفتی کو امریکہ کی جیل میں قید عافیہ صدیقی پر ہو رہے ظلم اور تشدد کے بارے میں علم نہیں ہے - اگر نہیں ہے تو وہ مفتی کیسے اگر ہے تو پھر ان کی زبان اس مظلوم عورت پر ہو رہے ظلم پر خاموش کیوں ہے- کیا وہ ملت کی بیٹی نہیں ہے - سچ تو یہ ہے کہ نہ تو یہ ملت کا مسئلہ ہے اور نہ ہی پاکستان کا یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور انسانوں میں بھی سب سے کمزور مخلوق پر ہونے والی ظلم کی داستان ہے- اس معاملے میں تو پورے عالم اسلام کے علما کو عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے تحریک چھیڑ دینی چاہیے مگر بہت ہی شرم کی بات ہے کہ داعش کے خلاف تو عالم اسلام کے سارے علماء اور مسلمانوں کی نام نہاد تنظیمیں بیان بازی میں ایک دوسرے پر فوقیت لے جارہی ہیں تاکہ اپنی حکومتوں سے واہ واہی اور تمغے حاصل کر سکیں مگر ان کی صفوں میں دور دور تک کوئی امام ابو حنیفہ, حنبل, ابن تیمیہ, غزالی اور محمد بن وہاب جیسے علماء موجود نہیں ہیں جو حکمرانوں کے خلاف نہی عن المنکر کے فرائض انجام دے سکیں - امام غزالی نے ماضی میں عالم اسلام کی اسی خستہ اور بوسیدہ تصویر کو اپنی کتاب احیاء العلوم میں پیش کر تے ہوئے لکھا ہے کہ رعیت کی خرابی سلاطین کی خرابی میں ہے اور سلاطین کی خرابی علماء کی خرابی کا نتیجہ ہے اور علماء کی خرابی کی وجہ دولت اورجاہ کی محبت کا غلبہ ہے اور جس پر دنیا کی محبت غالب آجائے وہ ادنیٰ درجہ کے لوگوں کا احتساب اور روک ٹوک بھی  نہیں کر سکتا- وہ مزید لکھتے ہیں کہ  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چونکہ خلفاء راشدین خود بڑے عالم و فقیہ اور صاحب فتویٰ تھے مگر جب ان لوگوں کا دور آیا جنہیں حکومت اور خلافت کا استحقاق نہیں تھا تو انہیں مجبوراً علماء سے مدد لینی پڑی اس طرح شاہی دربار میں علماء کی قدرو منزلت میں جو اضافہ ہوا ان کے زمانہ کے لوگوں نے شاہی دربار میں علماء کی یہ شان سلاطین و حکام کا یہ رجوع اور اہل علم کا یہ استغناء اور بے لوثی دیکھی تو وہ یہ سمجھے کہ حصول جاہ و عزت اور حکام کے تقرب کیلئے فقہ کا علم بہترین نسخہ ہے اور وہ دیگر علوم اور فرائض سے بے اعتنائی برتتے ہوئے اسی طرف راغب ہو گئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علماء جو مطلوب تھے وہ طالب ہو گںُے- یا یوں کہہ لیجئے کہ جہاں حکومت اور خلافت کا کاروبار خلیفہ وقت اور مجاہدین کے ذریعے عروج پر تھا اور اکثر دور ملوکیت میں بھی کبھی کوئی قاسم کوئی طارق کوئی ایوبی اور محمود پیدا ہو جایا کرتے تھے مگر اٹھارہویں صدی کے سائنسی اور مادی انقلاب نے تو سیاست اور حکومت کے زاویے کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے اور یہ صورتحال اور بھی نازک اور بدترین دور میں داخل ہو چکی ہے- جدید لبرل طرز سیاست میں علماء اور فقہا کا یہ مقام جدید لبرل دانشوروں اور صحافیوں نے حاصل کر لیا ہے
مزید بدقسمتی یہ ہے کہ اب جہاں اہل دانش اور نام نہاد دانشور کارپوریٹ میڈیا میں تبدیل ہو چکے ہیں کارپوریٹ کلچر نے نہ صرف  عام انسانوں, صنعت و تجارت اور سماج کے مزاج کو بدل دیا ہے وہیں سیاست بھی اب انسانوں کی فلاح وبہبود کا ادارہ نہ ہو کر عیاشی اور بد عنوانی کا اڈہ بن چکی ہے اورجدید میڈیا جو کہ ان کی بدعنوانی پر نظر رکھنے کیلئے وجود میں آیا تھا یاانہیں ایک اچھی اور صاف ستھری حکومت کیلئے رہنمائی کر سکتا تھا خود بھی ان کی بدعنوانی میں شریک ہو کر سیاستدانوں کا آلہ کار بن چکا ہے - سابق چیف جسٹس کاٹجو نے بہت سخت لہجہ استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان لوگوں کو تو کھڑا کرکے گولی مار دینا چاہیے - اچھا ہے کہ کاٹجو مسلمان نہیں ہیں ورنہ ان سے بھی یہ سوال کر دیا جاتا کہ کہیں آپ داعش اور طالبان کی حمایت تو نہیں کر رہے ہیں - شکر ہے کہ جدید سیاسی تہذیب میں کاٹجو کی ذہنیت کو تحریک نہیں ملتی مگر جب ان کے خلاف بغاوت کی چنگاری اٹھتی نظر آتی ہے تو کہیں نہ کہیں کوئی دھماکہ کروا دیا جاتا ہے اور پھر حکومتی سرمائے پر پل رہے  میڈیائی دانشور دہشت گردی کا شور مچانے لگتے ہیں- اس طرح حق و باطل کی معرکہ آرائی میں امن اور تشدد کے صرف دو ہی مجاہد نظر آتے ہیں وہ ہیں دہشت گرد اور دانشور -اب شاید ہمیں یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ مظلوموں کے محمود اور محمد کہاں ہیں - حدیث ہے کہ دجال اپنے ایک ہاتھ میں جنت اور دوسرے ہاتھ میں جہنم کی تصویر پیش کرے گا - پس جس نے جہنم کو ترجیح دی اس نے جنت پا لیا اور دجال کی جنت کا طلب گار جہنم رسید ہو جائیگا - دجالی میڈیا جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر یہی دو چہرہ پیش کر رہا - ان کے ساتھ کون لوگ کھڑے ہیں اور ان کی پست پناہی کون کر رہا ہے اور ان کا کردار کیا ہے یہ لوگ بھی باآسانی پہچانے جا سکتے ہیں- مگر سوال پھر وہی دنیاوی نفع اور نقصان کو برداشت کرنے کا ہے- یہی مادیت ہے اور مادیت ہی دجال کا اصل فتنہ ہے -

0 comments:

ہند پاک تعلقات کی بحالی پر پٹھان کوٹ کاسایہ !

نہال صغیر 

پٹھان کوٹ میں دہشت گردانہ حملہ آخر کیا اشارہ دیتا ہے ۔ صرف چنددن قبل ہی مودی نواز شریف سے لاہور
 میں ملاقات کرکے واپس لوٹے تھے  اور ان کی ملاقات سوائے اپوزیشن اور شیو سینا کے کسی لئے بھی قابل اعتراض نہیں تھی ۔ملک اور بیرون ملک کچھ قوتیں ایسی ہیں جو برصغیر میں حالات کو معمول پر نہیں آنے دینا چاہتیں۔ان قوتوں میں علاقائی اور ملکی بھی ہیں اور بین الاقوامی بھی ۔لیکن دونوں ملکو ں کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنے تعلقات کو کسی بھی قیمت پر سدھاریں اور یہ صرف باتوں اور شرائط کی پابندی سے نہیں ہو سکتا ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ جنہیں ہند پاک دوستی منظور نہیں یا جن کو اس دوستی سے نقصان ہونا ہے وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہاں ماحول پر امن ہو ۔اس لئے نامساعد حالات کے باوجود بھی گفتگو اور بحالی امن کی کارروائی جاری رہنی چاہئے ۔نواز مودی کی ملاقات کے وقت ہی کئی طرح کے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا ۔ذیل میں یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نواز مودی کی ملاقات کا اصل سبب کیا تھا ۔ 
مودی کے نواز شریف کی یوم پیدائش کی مبارکباد دینے کے لئے کابل سے سیدھے لاہور کے سفر پر برکھا دت کا ٹوئٹ کے ذریعہ تبصرہ سب سے بہترین تھا ۔انہوں نے لکھا تھاکہ ’’مودی کی پالیسی میں بڑی تبدیلی کا اشارہ ۔اپنے اصول خود وضع کرو،روایتی اور سرکاری پروٹوکول کے چکروں میں نہ پڑیں اور میڈیا کو دور ہی رکھیں ۔یہی دانشمندی ہے۔ایک مزید ٹوئٹ میں لکھا کہ ’’مودی کا لاہور رکنے اور نواز شریف سے ملاقات کا فیصلہ ماسٹر اسٹروک اقدام ہے ۔مودی اپنے حامیوں ہی نہیں بلکہ ناقدین کو اور بھی حیران کرتے ہیں‘‘۔دنیا صرف موسمیاتی تبدیلی سے ہی نہیں گذر رہی ہے ۔بلکہ ملکوں کے مفادات اور ان کی پالیسی بھی بدل رہی ہیں یا یوں کہہ لیں کہ حالات نے انہیں اپنی پالیسی میں تبدیلی کرنے کے لئے مجبور کیا ہے ۔نریندر مودی کا حالیہ دورہ پاکستان جس کے بارے میں دسمبر کے دوسرے ہفتہ میں اپنے دورہ پاکستان کے وقت سشما سوراج نے مزدہ سنایا تھا کہ وزیر اعظم اگلے سال یعنی 2016 میں پاکستان جائیں گے ۔لیکن روس کے دورہ سے واپسی پر افغانستان میں پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح کرنے کے بعد وہ سیدھے لاہور نواز شریف سے ملنے چلے آئے ۔موقع تھا نواز شریف کی یوم پیدائش کا ۔لیکن وہاں پہلے سے ہی ایک اور شخصیت موجود تھی ۔عام طور پر میڈیا میں اس اچانک خبر پر سیاسی پنڈتوں کی حیرانگی قابل دید تھی۔ ہندوستان ٹائمز نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا تھاکہ ’’موسمیاتی تبدیلی پاک بھارت تعلقات میں ؟مودی نے نواز شریف سے مصافحہ کیا‘‘۔میڈیا حیرت زدہ ہے کہ یہ اچانک ملاقات کیوں ؟سب اسے اچانک ملاقات قرار دے رہے ہیں ۔کچھ لوگ غالب کی زبان میں کہہ رہے تھے 
؂ بے خودی بے سبب نہیں غالب ۔۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
ملکوں کے درمیان باہمی روابط یا سربراہان مملکت کے درمیان ملاقات اچانک نہیں ہوا کرتی ہے ۔یہ سب کچھ ایک طے شدہ اسٹریٹیجی کا ہی حصہ ہوتا ہے ۔عام طور پر ملکوں کے حالات اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں میں کسی بھی ملک کی انٹلی جنس کا بہت بڑا رول ہوتا ہے۔اور بغیر اس کی مرضی اور اس کے اشاروں کے کوئی حرکت اور پیش قدمی نہیں ہوتی ۔دو سال قبل گوا میں ہونے والے ایک پروگرام میں طالبان کے سابق ترجمان ملا عبد السلام ضعیف کی شرکت بھی اسی ذیل میں تھی ۔ اس تعلق سے جب سوالات ہوئے تو سیدھا سا ایک جواب دیا گیا کہ محکمہ خفیہ نے اس کی اجازت دی تھی ۔ممکن ہے کہ حالیہ پٹھان کوٹ حملہ بھی ملک یا بیرون ملک میں موجود ان ہی قوتوں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہو جنہیں یہ دوستی یا امن قبول نہیں۔کیوں کہ ایسا ہونے سے کئی گروہ اور سیاسی جماعتوں کی دوکانداری کے بند ہونے کا خدشہ ہے۔واضح ہو کہ جب امریکہ کو بھی یہ احساس ہوا کہ وہ افغانستان کے دلدل میں پھنس چکا ہے اور اس کے یہاں سے نکلنے کی واحد صورت یہ ہے کہ طالبان سے صلح کی جائے ۔اس کے لئے اس نے اچھے طالبان اور برے طالبان کی اصطلاح نکالی ۔اس طرح اس نے طالبان سے روابط بڑھا کر اپنے فوجیوں کو افغانستان کی دلدل سے نکالنے کا راستہ نکال لیا ۔عام خیال یہ ہے کہ ملکی سلامتی وغیرہ بس عام سا معاملہ ہے سیاست داں اسے سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں لیکن یہ غلط ہے۔ملکوں کے درمیان باہمی روابط سب سے زیادہ معاشی معاملات سے ہی تعلق رکھتا ہے ۔کل ملا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات میں سب سے زیادہ اہمیت اور ترجیح معاشی معاملات کو ہی دی جاتی ہے ۔
کئی دہائیوں سے مسلسل جنگوں کا میدان بنے افغانستان میں قدرتی معدنیات کے ذخائر بے بہا ہیں ۔اس پر سبھی کی نظر ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ ہندوستان جیسے بڑی آبادی والے ملک کے لئے افغانستان کی تعمیر نو میں اپنے لئے بہت بڑے معاشی مواقع نظر آرہے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ ہندوستان میں شیو سینا اور دوسری شدت پسند تنظیموں کی پرواہ کئے بغیر مودی کابل سے لاہور چلے گئے ۔یعنی ناشتہ کابل میں دن کا کھانا لاہور میں اور رات کا کھانا دہلی میں ۔ایک اندازے کے مطابق افغانستان کے بامیان میں خام لوہے کے ذخائر دو ارب ٹن ہیں ۔اور وہاں بھارتی کمپنیاں اسٹیل اتھارٹی آف انڈیا کے ساتھ مل کر ساٹھ کروڑ ٹن اسٹیل بنانے کا کارخانہ لگانے اور آٹھ سو میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے لئے ایک بجلی گھر تعمیر کا منصوبہ رکھتے ہیں ۔اس سے قبل اسٹیل اتھارٹی آف انڈیا کے ساتھ ملک کرکئی بھارتی کمپنیوں کا گروپ افغان آئرن اینڈ اسٹیل کمپنی نے جس میں جندل گروپ کے سب سے زیادہ شیئر ہیں نے بامیان میں خام لوہا نکالنے کی کامیاب بولی لگائی ہے۔
’’اندازہ لگائیں مودی کے علاوہ اور کون ہے لاہور میں ‘‘ یہ برکھا دت کے ایک ٹوئٹ کاحصہ ہے جو کہ انہوں نے مودی کے لاہور دورہ کے دوران کیا تھاجس میں انہوں نے جندل گروپ کے سجن جندل کی لاہور میں موجودگی کے راز کو افشا کیاجوکہ ہندوستان میں اسٹیل کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہیں ۔انہوں نے اپنی ایک سیلفی ٹوئٹ کے ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا کہ وہ نواز شریف کو یوم پیدائش کی مبارکباد دینے کے لئے آئے ہیں ۔اس ٹوئٹ کے جواب میں پاکستانی تحریک انصاف پارٹی کے اسد عمر نے ٹوئٹ پر کہاکہ ’’برکھا دت کا کہنا ہے کہ بھارتی اسٹیل میگنیٹ مودی کے ساتھ مل کر نواز شریف سے ملاقات کے لئے آرہے ہیں۔جس پر سوال اٹھتا ہے کہ مودی کے اس دورے کا ایجنڈہ کیا ہے‘‘۔ ان ٹوئٹ اور جوابی ٹوئٹ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حالیہ وزیر اعظم ہند کا دورہ پاکستان کا مقصد کیا ہے ؟ظاہر سی بات ہے اس سے محض معاشی فوائد حاصل کرناہے۔ یعنی مودی نے الیکشن سے قبل عوام سے جو وعدے کئے تھے اس کے پورے ہونے کے فی الحال آثار نہیں ہیں ۔ہاں جن لوگوں کے چندہ کے پیسوں کی طاقت سے میڈیا کو خرید کر 2014 کا قومی انتخاب جیتا گیا ہے ۔باری ہے ان کے قرض چکانے کی ۔اور حالیہ دورہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔بی بی سی اردو کی خبر کے مطابق برکھا دت نے اپنی کتاب میں اس راز پر سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ کاٹھمنڈو سارک سربراہ کانفرنس میں بھی عام خبروں سے ہٹ کر نوین جندل نے مودی اور نواز شریف کی ایک گھنٹہ طویل ملاقات کا انتظام کروایا تھا جو کہ خفیہ تھی ۔لیکن بھارت و پاکستان کی حکومتوں نے اس کی تردید کی تھی۔میڈیا میں یہ خبر آئی تھی کہ مودی اور نواز شریف نے دور سے ہی ہائے ہیلو کہنے پر اکتفا کیا تھا ۔ اصل میں ملکی معاملات اور بین الاقوامی تعلقات ایک ایسی ٹیڑھی کھیر ہے جس کی وجہ سے دانتوں تلے انگلیاں آجاتی ہیں ۔اس لئے بہت سارے معاملات خفیہ اور انتہائی راز داری سے انجام دئیے جاتے ہیں ۔ ان رازوں پر سے بہت بعد میں پردہ اٹھ پاتا ہے ۔
پشاور کے سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی مودی کے حالیہ دورہ پاکستان پر بی بی سی کے نمائندہ واتسلیہ رائے سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جو گفتگو ہوئی ہے اس سے یہ بات واضح ہے کہ اس میں پاکستانی فوج کی حمایت شامل ہے۔پاکستانی فوج بھی یہ سمجھتی ہے کہ گفتگو ہونی چاہئے اور رشتوں میں سدھار آنا چاہیئے لیکن ان کی پریشانی یہ ہے کہ کہیں گفتگو اور رشتوں کو سدھارنے کی کوشش میں کشمیر کا مسئلہ کہیں پیچھے نہ رہ جائے‘‘ ۔ مودی کے لاہور دورہ کی خبر پر جو عام خیالات اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا تھا اسے کچھ سرکاری اہل کار دور کرتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کی رضامندی کے بغیر اتنا بڑا فیصلہ نہیں لیا جاسکتا ۔لیکن یہ معاملہ یک طرفہ نہیں دو طرفہ ہے ۔بھارتی انٹیلی جنس کے کلیرنس سلامتی مشیر وغیرہ کے مشوروں کے بغیر نریندر مودی نے بھی یہ قدم نہیں اٹھایا ہوگا ۔ افغانستان کو جہاں ڈیڈ لاک کہا جاتا وہیں اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی سوویت روس کی نوآبادیات کا حصہ رہے ایشیائی ممالک کا دروازہ بھی ہے ۔اس سے تعلقات بہتر بنائے بغیر اور وہاں امن و امان کے قیام کے بغیر کوئی آگے نہیں بڑھ سکتا ۔اس پر بی بی سی اردو کا تبصرہ ہے ’’یاد رہے کہ پاکستان کے زمینی راستے سے گزر کر افغانستان اور اس سے بھی وسطی ایشاء کی ریاستوں تک پہنچنا بھارت کا ایک دیرینہ خواب رہا ہے لیکن گذشتہ دس برس میں بھارت کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے معاشی مفادات نے اس خواہش کو اور بھی شدید کردیا ہے‘‘۔واضح ہو کہ گذشتہ دس سالوں میں بھارت افغان تجارت کا حجم بڑھ کر آٹھ ارب ڈالر سے اسی ارب ڈالر ہو گیا ہے ۔مختصراًاتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ افغانستان کی تعمیر نوع میں شامل ہونے والا راستہ پاکستان ہو کر ہی گزرتا ہے۔اس لئے ڈیڑھ سال میں کوئی کارنامہ انجام نہیں سکنے والی مودی حکومت کے لئے یہ ایک سنہری موقع تھا جس کا فائدہ وزیر اعظم نے اٹھایا ۔اس سے تعلقات میں وسعت پیدا ہو سکتی ہے۔لیکن اس سے کسی مکمل تعاون اور پرامن بقائے باہم کے کسی ابدی معاہدہ کی امید نہیں ہے ۔لیکن اس ملاقات سے بہر حال کچھ خوشگواریت کا احساس تو ہوتا ہی ہے ۔جس کو کچھ وقت کے لئے ہی محسوس تو کیا ہی جاسکتا تھا۔لیکن قسمت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہندوستان پاکستان کے درمیان تعلقات کی بحالی اور دوستی کے قیام کی خوشگواریاں یا خوش فہمیاں زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ پاتیں ۔پٹھان کوٹ حملہ کو بھی اسی رنگ میں بھنگ ڈالنے یا مٹھاس میں کڑواہٹ گھولنے کی ایک کوشش کہہ سکتے ہیں۔ 
Attachments area

0 comments:

ڈانس بار کی رقاصاؤں کوروزگار کا حق ہے لیکن قریشیوں کو نہیں

نہال صغیر  
یعقوب میمن کی پھانسی پر اٹھنے والے سوالات ابھی دبے بھی نہیں تھے کہ پھانسی کے دو روز بعد اخبارات میں ایک خبر آئی تھی مسلم نوجوان میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی قوم کے ساتھ جان بوجھ کر ظلم اور نا انصافی ہو رہی ہے نیز انہیں جان بوجھ کر حاشیہ پر ڈالا جارہا ہے ۔یہ اس رپورٹ کے حوالے سے تھی جو خفیہ محکمہ نے وزارت داخلہ کو سونپی تھی ۔ رپورٹ میں یہ لکھا ہوا تھا کہ مسلم نوجوان سمجھتا ہے ،گویا مسلم نوجوان کا احساس محض احساس ہی ہے ۔اس میں سچائی نہیں ہے یا اسے محض غلط فہمی ہے۔آخر مسلم نوجوان ایسا سمجھنے میں حق بجانب کیوں نہیں ہے ؟ ہزاروں فسادات میں اسے اور اس کی قوم کو نشانہ بنایا گیا ۔ہر فساد کی کہانی ایک جیسی ۔سبھی فسادات میں پولس کا رو ل امن قائم کرنے والی قوت کے بجائے ایک فریق کارہا ۔فسادات کے بعد بم دھماکوں کا سلسلہ چلا اس میں بھی مسلم نوجوانوں کو ہی نشانہ بنایا گیا ۔بیس اکیس سال جیلوں میں بند رکھنے کے بعد انہیں با عزت بری کیا جانا ۔یعنی ان کے پورے کریئر کی بربادی ۔انہیں مایوسی کے اندھیرے میں دھکیلنے اور اس کی قوم کو حاشیہ پر ڈالنے کا منصوبہ کے سوا اسے اور کیا کہہ سکتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی ملک کی داخلہ پالیسی جو غیر اعلان شدہ رہی ہے وہ یہ کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو دبا اور کچل کر ہی رکھنا ہے۔ان کو کسی بھی میدان میں آگے نہیں بڑھنے دینا ہے ۔حکومت اور انتظامیہ کے بعد عدالتوں کو بھی تعصب کی فضا سے مسموم کردیا گیا ۔شاید دنیا کا یہ پہلا ملک ہے جہاں عدلیہ میں فیصلے حق اور انصاف کی بجائے آستھا اور عوامی ضمیر کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔ 
ممبئی میں ڈانس باروں پر لگی پابندی کو سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر اٹھالیا کہ اس طرح کی پابندی سے ذریعہ معاش حاصل کرنے کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔اس سے قبل بامبے ہائی کورٹ نے بھی اسی قسم کا فیصلہ دیا تھا ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ ’’اس طرح کی پابندی شہریوں کو کوئی بھی پیشہ،کاروبار یا تجارت کرنے کی اجازت دینے والے آئین کے آرٹیکل 19 (1جی) کے خلاف ہے ۔ہمیں اس طرح کے فیصلے پر بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔جیسے دوسرے لوگ عدالتی فرمان کی قدر کرتے ہیں ویسے ہم بھی عدالت کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں ۔لیکن اس طرح فیصلے یا انتظامی حکم نامے کو سبھی شہریوں کو سامنے رکھ کر دیکھنے کی کوشش تو کی ہی جانی چاہئے ۔حال ہی میں مہاراشٹر سمیت کئی صوبوں میں صرف گائے ہی نہیں بلکہ اس کی نسلوں کے ذبیحہ پر بھی پابندی عائد کردی گئی ۔یہ سب کچھ اتنی جلد بازی میں کیا گیا کہ کسی کو معلوم ہوا کسی کو نہیں ۔ہائی کورٹ میں بھی مفاد عامہ کی درخواست دی گئی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔گائے نسل کے ذبیحہ پر پابندی سے لاکھوں لوگوں کے روزگار کا مسئلہ پیدا ہوا ۔کسانوں کے ساتھ بھی یہ جڑا ہوا ہے۔ کیوں کہ گائے بیل کو پالنے اور اسے فروخت کرنے کا کام وہی کرتے ہیں۔گائے نسل کے ذبیحہ پر پابندی کے خلاف مہاراشٹر میں سب سے زیادہ غیر مسلم کسانوں نے ہی احتجاج کیا ۔یعنی قرض کے بوجھ سے کراہ رہے کسانوں کو بی جے پی نے اس پابندی سے ایک اور جھٹکا دیا ۔لاکھوں کسانوں کا اربوں روپیہ کا بیل بے کار اور بے سود ہو کر رہ گیا ۔ملک عزیز کی عدلیہ کو فحاشی پھیلانے والی ڈانس بار کی فاحشہ کے روزی روٹی کی فکر ہے لیکن اسے ریاست اور ملک میں گائے اور اس کے نسل کے ذبیحہ پر لگنے والی پابندیوں سے لاکھوں لوگوں کے بھوکوں مرنے کی کوئی فکر نہیں ہے ۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب عدالت ایک طرف انصاف کی دہائی دیتی ہے لیکن دوسری جانب سے آنکھیں بند رکھتی ہے ۔کئی معاملے ایسے ہوئے کہ عدالت نے خود سے پہل کرتے ہوئے ایکشن لیا ۔لیکن ملک میں مسلم نوجوان خفیہ ایجنسیوں اور سلامتی دستوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوتے رہے ۔عدالتیں ان کو بری کرتی رہیں ،پولس اورخفیہ ایجنسیوں کوڈانٹ پھٹکار لگا تی رہیں اور مسلمانوں کی جانب سے ہمیشہ یہ کہا گیا کہ آج ہمیں انصاف مل گیا !پتہ نہیں یہ کس طرح کا انصاف ہے جس میں زندگی کے گیارہ گیارہ یا اکیس بیس سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے کے بعد عدالت عالیہ کا فیصلہ آتا ہے کہ با عزت بری کیا جاتا ہے ۔لیکن غلام قوموں کی بات ہی نرالی ہوتی ہے وہ غلامی میں اتنے مجبور اور لاچار نیز ذہنی طور پر اتنے مفلوج ہو جاتے ہیں کہ انہیں گرفتاری بھی آزادی ہی نظر آتی ہے ۔
بہرحال ملک عزیز میں آزادی کے بعد سے ہی یہ دیکھا جاتا رہا ہے کہ یہاں دو طرح کا نظام رائج ہے اکثریت اور زور آوروں کے لئے قانون کا فیصلہ الگ اور اقلیت و پسماندوں کے لئے الگ ۔ مختلف موقعوں پر سامنے آتا رہا ہے ۔ عدالت کا دستور کا حوالہ دے کر روزگار کے حق کی بات کرنا بالکل درست لیکن کیا مسلمانوں اور ان کے ایک طبقہ قریشیوں پر یہ دستور کا آرٹیکل کیوں نہیں لاگو کیا جاتا۔مسلمانوں کوبھی کیوں نہیں اپنی روزی کمانے کا حق حاصل ہے ۔کیوں عدالتیں اس پر سو موٹو نہیں لیتی ہیں کہ کسی شخص یا گروہ پر کسی خاص گروہ یا شخص کی خواہش تھوپنا دستور کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔کیوں ملک میں یہ فضا پیدا کی جارہی ہے کہ آپ کیا کھائیں کیا پہنیں اور کیا لکھیں یہ ایک خاص طبقہ طے کرے گا ۔دادری میں محض ایک افواہ کہ اخلاق کے گھر میں گوشت ہے ،پر اس کا قتل ہو جاتا ہے ۔پولس آتی ہے تو وہ بھی بجائے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے سب سے پہلے فریج میں سے گوشت ضبط کرکے اسے فارنسک تفتیش کے لئے بھیجتی ہے ۔آخر کیوں ملک عزیز میں انسانی جان کسی جانور سے کم ترسمجھی جانے لگی ہے ؟عدالتوں کا ضمیرکیوں بیدار نہیں ہو رہا ہے ؟ ڈانس بار کی ناچنے والیوں کو ان کے روزگار کا حق دینے والی عدالت کو دستور کا یہ آرٹیکل پورے طور سے نافذ کرنے کے لئے حکومت کو آرڈر دینا چاہئے ۔
آزادی کے بعد ملک عزیز میں اقلیتوں اور پسماندوں کو ساری دستوری ضمانت دینے کے باوجود اس کا ایماندارانہ نفاذ کبھی نہیں ہوا۔اس کی واحد وجہ یہ رہی کہ بیورو کریسی پر برہمنوں یا سورن ہندوؤں کا قبضہ رہا ۔ عدالت پر بھی وہی قابض رہے ۔انہوں نے اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کو دی جانے والی مراعات کو کسی نہ کسی بہانے سے روکا ۔نوے کی دہائی میں منڈل کمیشن کے نفاذ کے باوجود ابھی تک برہمن ہی ہر جگہ اکثریت میں ہیں ۔لیکن اگر ریزرویشن کا موجودہ ڈھانچہ برقرار رہا تو آنے والے بیس پچیس سالوں میں تقریبا تمام ہی جگہوں سے برہمنوں کی بالادستی ختم ہو جائے گی اسی لئے گجرات میں ہاردک پٹیل کی قیادت میں پٹیلوں کو بھڑکا کر ریزر ویشن کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش اور سازش کی جارہی ہے تاکہ ملک پر برہمنوں کا تسلط قائم رہے ۔ لیکن اس میں حکومت شاید کامیاب نہیں پائے گی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پسماندہ طبقہ اتنا بیدار ہو گیا ہے کہ اس کی بیداری سے مودی جیسے دبنگ لیڈر کو بھی بہار الیکشن میں پسینے چھوٹ گئے اور فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کے باوجود وہ بہار ہار گئے ۔

ملک کی عدلیہ پر پوری طرح نہ سہی لیکن کچھ نہ کچھ عوام کا اعتماد اب تک قائم ہے وہاں سے ہی دو طرح کے فیصلے آئیں گے یا ایک مسائل سے جوجھ رہے الگ لگ گروہ میں ایک کو انصاف اور دوسرے کو نظر انداز کردیا جائے گا تو ملک میں عدم اطمینان اور بے چینی کی فضا تیزی سے پنپے گی ۔اس طرح کی بے چینی یقینی طور پر ملک کی سالمیت کے خطرہ ہے۔شاید ہمارے ارباب اقتدار کو اس بات اندازہ نہیں کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں ۔اور یہ آگ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے کے ساتھ ہی ملک کی سلامتی کو بھی اس بے چینی اور عدم اعتماد کی فضا میں بہا کر لے جائے گی ۔وقت رہتے ہوئے جتنی جلدی ممکن ہو یہاں انصاف کے نظام کو بغیر کسی تعصب کے سب کے لئے برابر نافذ کیا جانا چاہئے ۔دوسرے انصاف پانا بھی آسان بنایا جانا انتہائی ضروری ہے ۔آج غریب اور لاچار و مجبور انسان عدالت کا رخ کرتے ہوئے ڈرتا ہے ۔انصاف کے راستوں میں کئی دلال بیٹھے ہوئے ہیں جن کی خواہشات کو پورا کرنا ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں ۔کیا ارباب سیاست انصاف کے عمل کو آسان اور شفاف بناکر ملک کی سالمیت پر منڈلارہے خطرات کو دور کرنے کی کوشش کریں گے 

0 comments:

مسلمانوں کی دہشت گرد بیٹیاں ...!!

عمر فراہی

شام کی ایک مسجد تکلاخ میں بشرالاسد کے فوجیوں نے ایک لڑکی کے ساتھ  زیادتی کی اور اس لڑکی کے منھ پر مسجد کا مائیک رکھ کراس کی چیخ کو پوری بستی کو سنایا مگر بے بس اور کمزور بستی کے لوگ اس ظلم کے خلاف کوئی مزاحمت بھی نہیں کر سکے - شام کی ایک خاتون صحافی نے اس حادثے کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں کبھی بھوک بمباری سردی اور قتل و غارت گری سے خوفزدہ نہیں ہوئی مگر اس حادثے کے بعد اکثر مجھے رات رات بھر نیند نہیں آتی- یہ واقعہ جو کسی نیوز پورٹل پر ہمارے سامنے سے گذرا جس کے صحیح یا غلط ہونے کی تصدیق تو نہیں کی جاسکتی لیکن شام کے فوجیوں کے بارے میں ایک بار حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا بھی یہ بیان آچکا ہے کہ اسد کے فوجی عورت اور دولت کے رسیا ہیں - بدقسمتی سے اب ظلم اور درندگی کا یہی کھیل خود حزب اللہ اور آیت اللہ دونوں مل کر کھیل رہے ہیں- ویسے دنیا کے تقریباً مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی بھی آفت مصیبت فساد اور جنگ کے دوران عورتوں کو ہی سب سے زیادہ ظلم اور زیادتی کا شکار ہونا پڑتا ہے - ہم دیکھ بھی چکے ہیں کہ کس طرح بوسنیا ، برما اور گجرات میں ہزاروں کی تعداد میں عورتوں کی عصمت سے کھلواڑ کیا گیا جسے میڈیا نے  دلچسپی لیکر نشربھی کیا اور لوگوں نے مزے لیکرسن بھی لیا لیکن دنیا کے کسی بھی  مہذب اور سیکولر ادارے کو اتنی توفیق ہوتی ہے کہ وہ خاتون کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کا حل تلاش کریں تاکہ پچھلے چالیس پچاس سالوں سے اسی ظلم اور درندگی کی وجہ سے نوجوانوں میں جو انتہا پسندی کو عروج حاصل ہوا ہے اس آگ کو ٹھنڈا کیا جا سکے- کچھ عرصہ پہلے ہماری نظر سے ایک کتاب گذری جس کا نام تھا "صرف پانچ منٹ" یہ کتاب مریم نام کی ایک ایسی نوجوان دوشیزہ اور اس کی سہیلی کی المناک داستان پر مبنی ہے جسے شام کا آنجہانی حکمراں وحشی حافظ الاسد جو بشارالاسد کا باپ تھا اس کے فوجیوں نے ایک کالج سے یہ کہہ کر گرفتار کیا تھا کہ اسے پانچ منٹ میں پوچھ تاچھ کے بعد رہا کر دیا جائے گا ایک گاڑی میں بٹھا کر لے گئے اور پورے پانچ سال تک جیل میں ڈال کر تشدد کا نشانہ بناتے رہے -اس لڑکی کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ ایک اخوانی نوجوان کی بہن تھی- حافظ الوحشی کے سپاہی اس لڑکی پر مسلسل تشدد کر رہے تھے تاکہ اس کا بھائی خود کو حاضر کردے- ظلم اور تشدد کے اس دور سے گذرتے ہوئے مریم کو تقریباً ڈیڑھ سال گذر گئے- مریم کے والد جو کہ بہت پہلے ہی انتقال کر گئے تھے ایک دن اسے خبر ملی کہ اس کی ماں جو تنہا رشتہ داروں کی مدد سے گھر کو سنبھال رہی تھی اس کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے- ظالموں نے اتنا رحم کیا کہ اسے اس کی ماں کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی- مگر اس وقت مریم  کے  صدمے کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ وحشی کے سپاہی زنجیروں میں جکڑے ہوئے دس بارہ نوجوانوں کو جانوروں کی طرح مارتے ہوئے لے جا رہے ہیں جس میں ایک مریم کا بھائی بھی تھا- مریم نے بھائی کی گرفتای کی اس خبر کو کسی طرح ماں سے چھپانے کی کوشس تو ضرور کی مگرجیل کے اہلکاروں سے یہ امید بے سود تھی انہوں نے بہت ہی فاتحانہ انداز میں ماں سے بتا ہی  دیا کہ آج ہم نے تمہارے بیٹے کو بھی گرفتار کر لیا ہے-ایک ماں پر اس حادثے کا کیا  اثر پڑ سکتا ہے اس کا اندازہ بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے- بدقسمتی سے اس ماں کو صرف چھ مہینے کے اندر یہ خبر بھی دے دی گئی کہ اس کے بیٹے کو فوجی عدالت کے ذریعے موت کی سزا سنا دی گئی ہے اور اسے کسی بھی وقت تختہ دار پر بھی چڑھا دیا جائے گا - ماں تو اپنے بیٹے اور بیٹی کا صدمہ لیکر اس دنیا سے رخصت ہو گئی مریم کو جب رہا کیا گیا تو جیل کے باہر اب اس کا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا -
ہو سکتا ہے کہ مریم کی اس کہانی کو بھی کسی دہشت گرد ناول نگار نے کسی خاص مقصد کیلئے ایک افسانوی رنگ دے دیا ہو لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر کہانی اپنےافسانوی انداز میں آنے کیلئے حقیقت کی محتاج ہوتی ہے - مصر کی ایک خاتون دانشورزینب الغزالی کی شخصیت اور قیدوبند کے دوران جبروتشدد کی حقیقت سے پورا عالم اسلام واقف ہے -ان کا بھی قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے کچھ یتیم بچوں کی کفالت کا ذمہ اٹھا رکھا تھا جن میں کچھ ایسے بچے اور خاندان بھی تھے جن کے باپ اور بھائی جمال ناصر کی جیلوں میں قید تھے یا انہیں قتل کر دیا گیا تھا- یہی وجہ تھی کہ زینب الغزالی جمال ناصر کی سوشلسٹ طرز حکومت کی شدت سے مخالفت کیا کرتی تھیں- جمال ناصر نے جس طرح انہیں نو سال تک سلاخوں کے پیچھے ڈال کر جبروتشدد کے دور سے گزرا انہوں نے خود اپنی کتاب زنداں  کے شب و روز میں رونگٹے کھڑے کر دینے والی  داستان کو بیان کیا ہے جو اپنے آپ میں ظلم اور حیوانیت کی تاریخ میں ایک دستاویز ہے- انہوں نے لکھا ہے کہ جمال ناصر کے سپاہی نہ صرف انہیں الٹا لٹکا کر پیٹا کرتے بلکہ کبھی ایک کمرے میں بند کرکے ان کے اوپر خونخوار کتوں کو بھی چھوڑ دیا جاتا تھا اور پھر وہ کتوں کے حملوں سے نہ صرف لہو لہان ہو جاتیں بلکہ یہ کتے ان کے کپڑوں کو نوچ کرانہیں برہنہ بھی کر دیتے تھے - اس طرح کے واقعات جدید جمہوری تہذیب اور عالمی ادارے اقوام متحدہ کے اپنے وجود پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیتے ہیں-خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد پہلی بار مسلم ملکوں میں بھی دینداراور با عصمت خاتون کو جیلوں کے اندر قید کر کے تشدد سے گذارنے کی روایت شروع ہوئی اور مسلم دنیا کے دیگر حکمراں بھی خاموش رہے-
بات اکیسویں صدی کی جدید تہذیب, موجودہ لبرل طرز سیاست اور حقوق نسواں کی علمبردار تنظیموں کے اس مہذب دور کی کی جائے تو ہمیں 2013 میں نہ صرف مصر کا فوجی انقلاب منھ چڑاتا ہے جہاں فوجی حکومت نے نہ صرف اس انقلاب کے خلاف احتجاج کرنے والی بھیڑ کو گولیوں سے بھون دیا بلکہ احتجاج میں شامل خواتین کو بھی پابند سلاسل کر کے دس دس سال قید کی سزا سنا دی گئی مگر اس ظلم کے خلاف حقوق نسواں کی علمبردار کسی تنظیم نے کوئی احتجاج اور مظاہرہ نہیں کیا تو اس لئے کہ ان کے نزدیک  ایک صالح اسلامی نظام کی نمائندگی کرنے والی مسلمانوں کی بیویاں اور بیٹیاں بھی دہشت گرد ہیں- سچ تو یہ ہے کہ حاجرہ ,آسیہ اور مریم ہر دور میں ریگستانوں کی گرمی زنجیروں کا زخم اور بیڑیوں کے بوجھ کو برداشت کرنے کیلئے تیار رہی ہیں - 6 جولائی 2009 ء کا یہ واقعہ کسی بھی دردمند دل کو دہلا دینے کیلئے کافی ہے جب سبز لباس اور سفید اسکارف میں ملبوس ایک نحیف اور کمزور عورت جس کے ہاتھ اور پیر آہنی زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے جیل اہلکاروں کے ساتھ آہستہ آہستہ  کمرہ عدالت میں داخل ہو تی ہے اور اس کے ہاتھوں سے  ٹپکنے والا خون یہ کہہ رہا تھا کہ جیسے ابھی ابھی اسے  تشدد سے گذرنا پڑا ہے -اس کی یہ حالت دیکھ کر کمرہ عدالت میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی تڑپ اٹھے- اسے جج کے سامنے ایک خطرناک دہشت گرد کے طورپر پیش کیا جاتا ہے - وہ جج کے سامنے بیان دیتی ہے کہ  میں ایک مسلمان عورت ہوں مجھے مرد فوجی زبردستی برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں - میرے سامنے قرآن کے اوراق پھاڑ کر پھینکے جاتے ہیں اور مجھ سے کہا جاتا ہے کہ میں اس پر چلوں - میں نے کئی بار جیل اہلکار سے کہا کہ مجھے میرے بھائی اور میرے وکیل سے ملنے دیا جائے مگر مجھے ملنے نہیں دیا جاتا - میرا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے- میں دنیا میں امن چاہتی ہوں میں امریکہ سمیت دنیا کے کسی ملک سے نفرت نہیں کرتی ہوں البتہ مجھے امریکہ کے عدالتی نظام پر اعتماد نہیں ہے -   
امریکہ کی عدالت میں پیش کی جانے والی اس عورت کا نام عافیہ صدیقی ہے اور انہیں امریکی عدالت نے چھیاسی سال کی سزا سنائی ہے- پاکستان کے ایک معزز گھرانے سے  تعلق رکھنے والی عافیہ صدیقی نے بچوں کی ذہنی نشوونما کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے جنھیں  2003 میں گرفتاری کے بعد سے ابھی تک ان کے بچوں سے بھی ملنے نہیں دیا گیا ہے -امریکہ میں عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے کئ بار احتجاج اور دستخطی مہم چلائی گئی مگر امریکی حکومت نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اگر پاکستانی حکومت اپیل کرے تو راستہ نکالا جاسکتا ہے - پاکستانی حکومت کی اپنی کیا مجبوری ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانے لیکن جس طرح دیگر مسلم ممالک کے حکمراں بھی اس معاملے میں بے غیرتی کا شکار ہیں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم حکمراں اخلاقی زوال کے ایک ایسی نچلی سطح سے گذر رہے ہیں جہاں دور دور تک کوئی معتصم با اللہ بھی نظر نہیں آتا - تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ ایک زمانے سے طالبان جسے دنیا دہشت گرد کہتی ہے اور جن کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ لوگ عورتوں پر ظلم کرتے ہیں جب انہوں نے اپنے علاقے میں جاسوسی کی نیت سے آئی ہوئی برطانیہ کی خاتون صحافی ایون ریڈلی کو گرفتار کیا تو خود ایون ریڈلی نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے یقین کر لیا تھا کہ اب نہ صرف ان کی عزت و آبرو کو نیلام کر دیا جائے گا بلکہ ان کا زندہ بچ رہنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا-اور بیشک جس طرح شام میں مریم , مصر میں زینب الغزالی, امریکہ میں عافیہ صدیقی اور ایران میں ریحانہ جبار کو لبرل اور سیکولر قانون کی مہذب  تلوار سے پر تشدد سزائیں دی گئیں اورآج کل عراق اور شام کی طرف ہجرت کرنے والی نوجوان لڑکیوں کو دنیا کے ہر ممالک کی جیلوں میں قید کیا جا رہا ہے چاہتے تو طالبان بھی ایون ریڈلی کو ان کے خلاف جاسوسی کا الزام لگا کر قتل کر دیتے مگر انہوں نے اس خاتون کے ساتھ جس اخلاقی سلوک کا مظاہرہ کیا نہ صرف اس خاتون نے یہ اعتراف کیا کہ انہیں دنیا پرحکومت کرنے کا حق ہے کلمہ حق پر ایمان لا کر اسلام میں بھی داخل ہو گئیں - شاید ہم ایک سال پہلے کے اس واقعے کو بھی بھول چکے ہیں جب عرب حریت پسندوں نے ہندوستان کی تقریباً چالیس نرسوں کو نہ صرف ایک تہ خانے میں  رکھ کر ان کی جان بچائی بعد میں بحفاظت ایرپورٹ تک پہنچایا تاکہ وہ اپنے وطن جاسکیں اور ڈری سہمی نرسوں کو اطمینان دلایا کہ آپ فکر نہ کریں آپ ہماری بہن جیسی ہیں -اسلام اور مسلمانوں سے بغض رکھنے والے تو بہرحال ان کی اس اسلامی غیرت اور حمیت کے مظاہرے کو بھول چکے ہیں - تعجب ہے کہ حال ہی میں مولانا سجاد نعمانی نے حدیث اور انٹرنیٹ کے حوالے سے عرب حریت پسندوں کواس دور کے خوارج کا  فتنہ قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا کہ یہ زانی اور قاتل ہیں - سوال یہ ہے کہ جس حدیث کی روشنی میں انہوں نے  پچیس سے پینتیس سال کے ان نوجوانوں کو خوارج, دہشت گرد اور زانی کے لقب سے نوازا ہے اسی حدیث میں کہیں ان نوجوان لڑکیوں کا بھی ذکر ہے جو سیکڑوں کی تعداد میں عراق اور شام کی طرف ہجرت کر چکی ہیں-اگر عرب کے ان نوجوانوں کو اپنا دفاع کرنے کی بنیاد پر زانی اور دہشت گرد کہا جاسکتا ہے تو کیا ان کی بہنوں اور بیٹیوں کو جواس جنگ کی بھٹی میں ان کی معاون اور مددگار ہیں ، کو طوائف اور آوارہ کہنا مناسب ہوگا ؟ 

0 comments:

بجلیاں برسےہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں


نہال صغیر




آج ایک عجیب فیشن بن گیا ہے ہر کوئی مسلم نوجوانوں کی گمراہی اور ان کی بے کرداری کا رونا روتا ہے ۔جسے دیکھئے وہ نوجوانوں کو مطعون کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔کہیں کوئی ایسی خبر آگئی جس میں مسلم نوجوان کی کسی جرم میں ملوث ہونے کی بات ہو کہا جانے لگتا ہے کہ ہم شرمندہ ہیں ان کی ایسی حرکتوں سے لیکن وہیں جب ایسی خبریں آتی ہیں جس میں مسلم نوجوانوں کے بلند کردار و اخلاق کا تذکرہ ہوتا تو ہم اس کی تشہیر کرتے ہوئے پتہ نہیں کیوں گھبراتے ہیں ؟۔ علامہ اقبال بیسویں صدی عیسوی کا وہ بطل جلیل ہے جس نے امت کو یاس اور نا امیدی سے نکلنے کی سوچ عطا کی ۔ایسے وقت میں جب کہ ہر طرف سے مسلم امہ زوال کے گھیرے میں تھی جو ہنوز جاری ہے علامہ نے مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی کی یاد دلا کر راکھ کے ڈھیر سے چنگاری کو شعلہ بننے کی جانب گامزن کیا ۔چنانچہ انہوں نے طرابلس کی ایک ننھی بچی فاطمہ کی شان میں ایک نظم لکھی جس میں انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس گھنگھور اندھیرے میں بھی امید کی کرنیں ہیں جنہیں ہمیں ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔اس نظم میں ایک شعر جس کے ایک مصرعہ کو اس مضمون کا عنوان بنایا ہے ۔وہ کہتے ہیں ؂ اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں 
نوجوان کسی قوم ،گروہ یا خاندان کا اصل سرمایہ ہے ۔دنیا کی کوئی تحریک نوجوانوں کے بغیر اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔خود اسلام کی تحریک کو بھی ساری دنیا میں لے کر جانے والے نوجوان صحابہ ہی تھے ۔ انہوں نے نے ہی اپنے اخلاق کردار اور شجاعت اور جوانمردی سے اقوام عالم کے دلوں کو مسخر کیا ۔علامہ اقبال نے جس وقت طرابلس کی اس ننھی مجاہدہ فاطمہ کے نام سے نظم لکھی تھی وہ وقت تھا جب پہلی جنگ عظیم برپا تھی اور دنیا سوپر پاور مسلم مملکتوں کو ہڑپنے میں ایک دوسرے سے بازی مارنے میں مصروف تھیں ۔اسپین میں صدیوں پہلے مسلمانوں کے عروج کے سورج کو مسلمانوں کی بے عملی اور کوتاہ اندیشی کے دبیز بادل نے نگل لیا تھا ۔ہندوستان میں بھی مسلم بادشاہوں کی شان کو گہن لگ چکا تھا ۔اسی طرح بہت سی مسلم مملکتیں نوآبادیاتی نظام کی نذر ہو چکی تھیں ۔لیکن علامہ اقبال کو ننھی مجاہدہ کے روپ میں راکھ کی ڈھیر میں ایمان اور غیرت کی چنگاری دبی نظر آگئی تھی۔
اکیسویں صدی شاید بیسویں صدی عیسوی سے بھی زیادہ سنگین صورتحال کے ساتھ ہمارے سامنے ہے ۔ہر طرف افراتفری اور جنگ و جدل کا ماحول ہے جو کہ ان ہی قوتوں کا برپا کیا ہوا ہے جنہوں نے دنیا پر دو جنگ عظیم کو مسلط کیا ۔اس کا لازمی نتیجہ بھوک افلاس اور قحط کی صورت میں نکلنا تھا اور آج ہمارے سامنے ہے ۔اقوام متحدہ کے غذائی پروگرام کمیٹی کے مطابق ملک عزیز میں بیس کروڑ لوگ بھوکے سونے کے لئے مجبور ہیں ۔ اس سنگین صورتحال سے نکلنے کے لئے اور لوگوں کو بھوک اور افلاس سے کے تنگ و تاریک سرنگوں سے باہر لانے کے لئے خود اقوام متحدہ اور دنیا کی بیشتر ملکوں کی حکومتوں کی جانب سے کئی منصوبے چل رہے ہیں۔اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کی تمام تر کوششوں کے حکومتوں کے منصوبوں کے باوجود قابل رحم حالات میں زندگی بسر کرنے والے لوگوں تک اس کا فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے ۔ کیوں کہ یہ سارے کام سخت مشکل پروٹوکول اور سرکاری ملازمین کی افسر شاہی کی نظر ہو جاتے ہیں۔لیکن مسلم نوجوان آج کئی طرح سے لعن طعن کا شکار ہے اس نے کئی جگہوں پر اپنی بساط بھر کو شش کی ہے اور وہ اس میں اپنے اطراف میں مجبور اور بے سہارا لوگوں کی بھوک مٹانے میں کامیاب ہے ۔
نیوز پورٹل کہرام نیوز کی خبر کے مطابق مہوبا بندیل کھنڈ کے حاجی پرویز احمد نے ایک لائق تحسین اور قابل تقلید قدم اٹھاتے ہوئے روٹی بینک کا قیام کیا ہے ۔اس کے تحت وہ گھر گھر سے روٹی اور سالن اکٹھا کرتے ہیں گھروں بس اڈوں ریلوے اسٹیشنوں پر بے سہارہ اور بھوکے لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔روٹی بینک کی خبر اس سے قبل نیوز چینلوں پر بھی آچکی ہے ۔لیکن مسلمانوں کی کردار کشی میں جٹا میڈیا یہ بتانے سے قاصر تھا کہ اسے شروع کس نے کیا ۔کہرام نیوز نے اس کمی کو پورا کیاجس کے لئے یقیناًکہرام نیوز قابل مبارکباد ہے ۔خبر کے مطابق ڈھائی سو سے تین سو لوگوں تک روزانہ کھانا پہنچایاجاتا ہے ۔ اب کوئی اس شہر میں بھوکا نہیں سوتا ۔ یہ کام 15 ؍اپریل 2015 سے شروع کیا گیا ہے ۔شروعات میں پہلے دن بس اسٹینڈ و فٹ پاٹھ پر زندگی گزارنے والے سات لوگوں کوکھانا پہنچایا گیا ۔اس کے بعد حاجی پرویز احمد نے ایک میٹنگ کرکے دس نوجوانوں کو اس روٹی بینک نامی تنظیم سے جوڑا ۔تفصیل کے مطابق پہلے دن ہی نوجوانوں نے شہر کے کچھ محلوں کے گھر گھر جاکر لوگوں سے دو روٹی اور اور سبزی اکٹھی کی جس کی وجہ سے بینک میں پچاس لوگوں کے لئے کھانا جمع ہو گیا ۔پھر غریب ،یتیم اور بے سہارا لوگوں کی تلاش کرکے انہیں گھر گھر کھانا پہنچایا گیا ۔اس وقت اس روٹی بینک سے چالیس نوجوان جڑے ہوئے ہیں اور تقریباً ڈھائی تا تین سو افراد کو روزانہ کھانا دیا جاتا ہے ۔سب سے بہتر بات یہ ہے کہ اس کام میں بلا تفریق سبھی فرقہ کے لوگوں کا تعاون ہے اور تقسیم خوراک میں بھی کسی تفریق کے بغیر ضرورت مندوں کو کھانا پہنچایا جاتا ہے۔
اورنگ آباد کے بھائی جی پورہ میں بھی کم از کم دو سو پچاس لوگوں کے لئے روٹی بینک کی شروعات کی گئی ۔یوسف مکاتی نے یہ نیک پہل کی ہے تاکہ بھوکوں کو کھانا کھلایا جاسکے۔زی نیوز کی خبر کے مطابق روٹی بینک میں صبح سے ہی روٹی اور سالن جمع کرنے والوں کا تانتا لگ جاتا ہے اور اس کے بعد کھانا لینے والے آتے ہیں اور اپنی ضرورت کے مطابق کھانا لے کر جاتے ہیں ۔اس بینک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں باسی اور ناقابل استعمال کھانا نہیں لیا جاتا ۔کھانا انہی لوگوں سے لیا جاتا ہے جو کہ اس بینک کے ممبر ہیں ۔یوسف مکاتی کے مطابق چار سو مزید لوگوں نے ممبر شپ کی درخواست دی ہے ۔یعنی کچھ ہی دنوں میں دونوں وقت کھانا پانے والوں کی تعداد دوگنی ہو جائے گی کیوں کہ مزید لوگ اس روٹی بینک کے ممبر بن کر اس میں اپنا تعاون دیں گے۔ 
حیدر آباد کے دبیر پورا فلائی اوور کے نیچے ایک نوجوان اظہر مقسوسی پچھلے ساڑھے تین سال سے بغیر چندہ بغیر کسی تنظیم کے لوگوں کو مفت کھانا کھلاتے ہیں ۔فی الحال اس فلائی اوور کے نیچے سو تا ایک سو تیس افراد کے کھانے کا نتظام ہے ۔اظہر عمارتوں میں پی او پی کا کام کرتے ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ بھوکوں کو کھانا کھلانے کا یہ خیال ساڑھے تین سال پہلے اس وقت آیا جب انہوں نے فٹ پاتھ پر پڑی ایک معذور خاتون کو بھوک سے تڑپتے دیکھا ۔وہ کہتے ہیں کہ انہون نے خود بچپن میں بھوک کا سامنا کیا ہے اس لئے بھوک کیا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ان کے اس کار خیر میں ان کی بیوی کا تعاون اور ان کی ماں کی دعاؤں کا اثر ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ بچپن میں اکثر دو دو روز تک بھوکا رہنا پڑا ہے ۔ان کے والد کا انتقال اس وقت ہو گیا تھا جب وہ صرف چار سال کے تھے ۔ان کی ماں نے بڑی مشقتوں سے پالا اور پڑھایا حالات سے مجبور ہو کر ان کی والدہ نے انہیں کسی کام پر نہیں لگایا ۔اظہر کے مطابق ان کی ماں کا کہنا تھا کہ بیٹا پیسہ تو پھر کمالوگے پڑھو اور اگر کچھ کرسکتے ہو تو لوگوں کی خدمت کرو۔وہ بتاتے ہیں کھانا کھلانے کی شروعات میں وہ گھر سے ہی کھانا بنوا کر لوگوں کو دبیر پورا فلائی اوور کے نیچے لا کر کھلاتے تھے اور یہ کھانا ان کی بیوی ہی بڑی خوشدلی اور اللہ سے اجر کی نیت سے کرتی تھی۔اظہر خود بھی کہتے ہیں کہ دل میں اگر نیکی کا خیال آتا ہے تو اسے کر ڈالئے دماغ کسی مصلحت اور خدشے کا ڈر دکھائے تو اس کی مت سنئے دل پر اللہ کی نظر ہو تی ہے ۔جب دل کی سن کر نیکی کے کاموں میں آگے بڑھیں گے تو اللہ کی مدد آپ کو آئے گی۔اس کے لئے انہوں نے اپنی زندگی سے ہی دو مثالیں پیش کیں۔ابھی ہمارا مقصد اس مضمون میں مسلم نوجوانوں کی ایسی ہی چند مثالیں پیش کرکے اقبال کی زبان میںیہ بتا نا مقصود ہے کہ 
؂ نہیں نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
اب کچھ ایسے مسلم نوجوانوں کا تذکرہ جنہوں نے لاکھوں کی رقم کو اسکے مالک تک لوٹا کر ایماندار کی شاندار مثالیں پیش کی ہیں ۔جئے پور کے 26 ؍سالہ محمد عابد قریشی جو کہ سائیکل رکشا چلاتے ہیں۔انہیں سڑک کنارے پلاسٹک کی ایک تھیلی میں ایک لاکھ سترہ ہزار کی رقم لپٹی ہوئی ملی جسے انہوں نے دوسرے دن پولس کمشنر کے سپرد کردیا ۔ہندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے انہوں کہا کہ میں رات بھربستر پر کروٹیں بدلتا رہا یہ رقم ملنے سے انہیں یہ خدشہ تھا کہیں وہ انہیں لوٹانے جائیں اور ان پر ایک لاکھ سترہ ہزار روپئے کی چوری کا الزام نہ لگا دیا جائے۔نامہ نگاروں نے اس خدشہ کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بالکل مختصر جواب دیا ’’کیوں کہ وہ مسلمان ہے‘‘۔دوسرے دن یہی ہوا جب وہ پولس اسٹیشن رقم لوٹانے گئے تو انہیں جعلی کرنسی کا کاروباری سمجھ لیا گیا لیکن سارے نوٹ کی اسکیننگ کے بعد پولس افسر مطمئن ہوا۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایمانداری سب سے بڑی نعمت ہے‘‘۔محمد عابد قریشی دوسرے دن سکون سے سوئے کہ لالچ کا شکار بننے سے بچ گئے۔قریشی صرف چوتھی جماعت تک پڑھے ہوئے ہیں سائیکل رکشا چلا کر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں ۔وہ شہر جئے پور کی انتہائی پسماندہ بستی میں کرایہ کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں جس کرایہ بھی اکثر وہ غربت کی وجہ سے وقت پر نہیں دے سکتے ۔ وہ اپنی تین ماہ کی بیٹی کو اچھی تعلیم دلانا چاہتے ہیں لیکن ان کے سامنے ایمانداری کی خاندانی وراثت کا ان کی بیٹی میں منتقل ہونا زیادہ ضروری ہے۔
مسلم اکثریتی شہر بھیونڈی کے سلیم شیخ ایک آٹو رکشا ڈرائیور ہیں ۔ان کے رکشا میں ملند امباونے اپنے تجارتی سامان کے ساتھ سوار ہوئے لیکن اپنی منزل پر پہنچ کر انہوں نے تجارتی سامان تو اتار لیا لیکن ایک تھیلی جس میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپئے تھے وہ رکشا میں ہی بھول گئے ۔ کچھ دیر بعد یہ معلوم ہونے کے بعد ان کے ہوش اڑگئے کہ رقم والی تھیلی تو وہ رکشا میں ہی بھول گئے ہیں۔ تین گھنٹے کے بعد ملند کے پاس رکشا ڈرائیور سلیم شیخ کا فون آیا کہ وہ اپنا بیگ جس میں ان کی رقم ہے رکشا میں ہی بھول گئے ہیں۔سلیم شیخ نے بتایا کہ انہیں اس بیگ کی معلومات اس وقت ہوئی جب وہ گھر گئے ۔احمدآباد کے عبد الوہاب شیخ نے اپنے آٹو رکشا میں مسافر کے ذریعے بھول سے چھوڑے گئے لاکھوں کے زیورات اور پانچ لاکھ نقد رقم لوٹا کر ایمانداری کی شاندار مثال قائم کی ۔اسی طرح میری نظر وں سے دو ایسے ہی واقعات گزرے دونوں ہی واقعات میں رکشا ڈرائیور مسلم نوجوان ہی تھا دونوں ہی واقعہ زیورات کے تاجر سے تعلق رکھتا ہے ۔ایک واقعہ میں ہیرے جواہرات اور سونے کے زیورات کاتخمینہ پچیس لاکھ اور دوسرے میں پینتیس لاکھ بتایا گیا تھا ۔یہ محض چند مثالیں ہیں ۔باقی کہانی بکھری پڑی ہے ۔بقول علامہ اقبال چمن میں ہر طرف بکھری ہے داستان میں ۔
ہمارے سامنے مایوسی پھیلانے والے واقعات اور نوجوانوں کی گمراہی و بے راہ روی کے واقعات بہت آتے ہیں ۔لیکن کبھی ہم نے ان راکھ کے ڈھیر میں اس ایمانی چنگاری کو ڈھونڈنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ کبھی ایسے واقعات سامنے آتے بھی ہیں تو ہم اسے نظر انداز کرکے اسی مجرم ضمیری کے مایوس اندھیری سرنگ میں چلے جاتے ہیں جس میں دشمن کے ساتھ ساتھ ہمارے کوچھ نادان دوست بھی مسلسل مبتلاء کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔مجھے تو معاشرے کے بدترین سے بدترین اور گمراہ نوجوان میں بھی امید کی کئی کرنیں نظر آتی ہیں ۔کاش کہ ہم انہیں مثبت طور پر سمجھ سکیں اور قوم کو اس ذلت اور پستی سے نکالنے میں ان کی مدد لے سکیں ۔آنے والے وقت میں جو کچھ ہوگا وہ نوجوانوں کے ذریعہ ہی ہوگا ۔ بوڑھی ہڈیوں میں صرف مصلحت جیسی منافقانہ روش ہی پلا کرتی ہے۔جس کی مثالیں ہمارے آس پاس بکھری پڑی ہیں ۔ مصلحت سے پرے اگر کوئی ہمیں مل سکتا ہے اورانشاء اللہ ملے گا تو صرف نوجوان ہی ملے گا ۔جس میں قوم کا درد بھی موجودہ صورتحال سے آزردہ بھی ہے اور ان حالات سے قوم کو نکالنے کے لئے فکر مند بھی ۔کاش کہ ہم اپنے نوجوانوں کو اپنی قوم کا بیش بہا خزانہ اور سرمایہ تصور کرتے ہوئے ان سے مایوس ہونے کی بجائے ان کی تربیت اور قوم کی تعمیر و ترقی میں ان کی مدد لے سکنے کی قوت حاصل کرپاتے !

0 comments: