featured

ملک کا سوال ہے بابا


قاسم سید

سیاست دانوں اور ملک کے سسٹم کواپنی انگلیوں پر نچانے اور گھٹنوں پر جھکاکر رکھنے والے ایک اور زانی بابا کے پاپوں کا گھڑا بھرگیا اور وہ اپنے اصلی ٹھکانے پر پہنچ گیا لیکن جاتے جاتے کئی خوفناک سوال سماج‘میڈیا اور جمہوری سیاست کی سازشوں سے متعلق چھوڑگیا۔ جب وہ باہر تھااس کے ابروچشم پراپنی نقل وحرکت طے کرتی تھیں اب اندر چلاگیا تواپنادامن چھڑانے خود کو پاک بے داغ بتانے میں لگی ہوئی ہیں۔یہ سوچ کر بھی شرم آتی ہے کہ ملک میں ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ ایک بابا کو سنبھالنے اوراس کے بھکتوں پر کنٹرول کرنے کے لئے فوج کی مدد لینی پڑی ۔ ہریانہ کا پرتشدد منظر نامہ ڈرائونا اور خوفزدہ کرنے والا ہے۔اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اس ملک کے اتحاد اور سیکورٹی کو دلتوں ‘آدیباسیوں اور اقلیتی فرقہ سے خطرہ نہیں۔ وہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں سسٹم کی طرف سے اجنبیت ‘ لاتعلقی اور تعصب کاسامنا کرنا پڑتا ہے وہ کہیں نکسلی تو کہیں دہشت گرد سمجھائے جاتے ہیں اوران کی حب الوطنی آزادی کے کم وبیش 70سال گذرنے کے باوجود مشتبہ ہے ۔ دوسری طرف اکثریتی فرقہ کا جنونی گروہ جو خود کو آئین اور قانون سے بالاتر سمجھتا ہے اور کئی مرتبہ اس کا ثبوت بھی دے چکا ہے۔ مگر اسے ان کارناموں کے لے کارسیوک ‘بھکت‘رکشک اورسوئم سیوک جیسے مہذب القاب سے نوازاجاتا ہے اور ان کو حکومتوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ مثال کے طور پر 1992میں بابری مسجد مسماری کے موقع پر ریاستی حکومت کے مسجد کے تحفظ سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر حلف نامہ کی دھجیاں اڑائی گئیں جبکہ پردھان سیوک مسجد گرنے اور’پرتگیا‘ پوری ہونے تک آنکھیں موند کر پوجاکرتا رہا اور بابری مسجد کی ایک ایک اینٹ گرانے کے بعد ان قانون شکن فسادی عناصر کو ’کارسیوک‘ کا نام دیاگیا۔ عزت کے ساتھ ٹرینوں اور بسوں میں سوار کرکے منزل تک پہنچایاگیا اگر اس وقت غنڈہ گردی کو دھارمک رنگ نہ دیاگیاہوتاتو آگے ایسی جرأت کوئی نہ کرتا پھر2002میں گجرات فسادات کے دوران گودھرا کاردعمل ایک ماہ تک قہر ڈھاتارہا ۔ ابال کو باہر نکالنے کے لئے سرکاری سرپرستی حاصل رہی ‘ہزاروں بے گناہ مارے گئے۔
سچی بات یہ ہے کہ ملک کو اصل خطرہ اکثریتی فرقہ کے ایسے منظم اور غیر منظم گروہوں سے ہے جو آستھا کے نام پر انتظامیہ وقانون سے ٹکرانے کو تیار رہتے ہیں۔ عدلیہ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ انار کی پھیلاتے ہیں۔ ان کےآگے حکومت لاچار‘بے بس اور نتمستک نظرآتی ہے۔ گولی چلانے میں تذبذب سے کام لیتی ہے۔ عدلیہ کی پھٹکار کے بعد حرکت میں آتی ہے۔ پتھر بازوں کا جواب گولی کے فلسفہ پر ایمان رکھنے والے ایسے لمحات میں فیصلہ نہیں لے پاتے‘نہ فسادیوں اور قانون شکن لوگوں پرپیلیٹ گن ومرچی بم استعمال کرنے کا مطالبہ ہوتا ہے کیونکہ یہ غنڈے فسادی نہیں بلکہ بھکت ہیں ۔ یہ ذہنیت اجودھیا اور گجرات میں ہی نہیں ہر اس جگہ اپنی فسطائی فکر کا مظاہرہ کرتی ہے جہاں اسے ہمدردی وسرکاری سرپرستی ملتی ہے۔ ہریانہ میں جو کچھ ہوا یقین نہیں آتا کہ اپنے شہریوں نے ایسا کیا ہوگا ۔ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی غیر ملکی فوج شہروں کو ویران اور اجاڑ کر گئی۔ ہریانہ جیسی خوش حال ریاست نے پہلی بار یہ نظاہرہ نہیں دیکھا ۔ جاٹ آندولن کے دوران بھی ایسا ہی ہوا۔ پھرسنت رامپال کی گرفتاری کے موقع پرخطرناک ہتھیاروں کی برآمدگی کے ساتھ خون ریز معرکہ ہوا ‘قیمتی جانیں گئیں مگر وہ بھکتوں کی دیوانگی سمجھ کر نظرانداز کردیاگیا ۔ یہ کارروائیاں جتنی خوفناک تھیں وہ سماج اور سسٹم کو ہلانے کے لئے کافی تھیں ۔لیکن ان سے کوئی سبق نہیں لیاگیا۔
سوال یہ ہے کہ آخر ان کی پرورش کون کرتا ہے۔ انہیں دودھ کون پلاتا ہے۔ یہ بابا سنت سوامی اتنابڑا سامراجیہ کیسے بنالیتے ہیں۔ یہ اپنے پروچن میں بھکتوں کو کیا گٹھی پلاتے ہیں کہ ملک کی املاک کو آگ لگانے ‘ٹرینیں پھونک دینے ‘سیکوریٹی دستوں سے ٹکرانے کا جنون پیدا ہوجاتا ہے۔ زانی بابائوں کو بچانے کے لئے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر اتر آتے ہیں۔ یہ آسا رام باپو‘سنت رام پال ‘سوامی نیتا نند اور گرومیت رام رحیم جیسے زانیوں اور غنڈوں کو پالتاکون ہے۔ تحفظ کون فراہم کرتا ہے۔ ان سے ملک کے غداروں‘باغیوں اور دہشت گردوں جیسا سلوک کیوں نہیں ہوتا۔ ان کے لئے پھانسی کا مطالبہ کیوں نہیں ہوتا۔ امن وامان کو یرغمال بنانے پر سرکار کو گھٹنوں پر جھکانے والے اتنے شیر کیسے ہوجاتے ہیں کہ متبادل ریاست قائم کرلیں۔ان بابائوں کے حضور ماتھا ٹیکنے‘حاضری دینے اور ووٹ دلانے کی بھیک مانگنے والے سیاست دانوں کو ایسے سوالات کا جواب دیناچاہئے ۔ کیا یہ منظم دہشت گردوں کاٹولہ نہیں‘ کیا ان کے ٹھکانوں سے غیر قانونی آتشیں ہتھیاروں کی برآمدگی اورپرائیویٹ آرمی و خودکش دستے بنانے کی خبریں کانوں میں خطرے کی گھنٹیاں نہیں بجاتیں۔ چند گھنٹوں میں کروڑوں کی املاک پھونک دینے والے دہشت گردوں سے زیادہ خطرناک نہیں؟ یہ وزیراعظم کی وارننگ سے خوف زدہ کیوں نہیں ہوتے۔ آستھا کے نام پر تشدد اب دہشت گردی کےراستے پر چلاگیا ہے تو آنکھیں بند کرلینی چاہئے۔ کیا یہ دیش دروہ نہیں۔
جب پاکستان کو نیست ونابود کرنے اور چین کو سبق سکھانے کی بات کی جاتی ہے تو اس پر کمزو رشہری کا سینہ بھی پھول کر 56انچ کا ہوجاتا ہے کہ ملک مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ مگر ہریانہ جیسے واقعات میں ایک بابا اوراس کے بھکتوں کو سنبھالنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ فوج کو اتارنا پڑتا ہے ‘سیکورٹی اہلکار بابا کے بھکتوں کے سامنے بھاگتے دکھائی دیتے ہیں تو کلیجہ منہ کوآجاتا ہے کہ کیا یہ جوش صرف بے قصوروں کے لئے ہے۔ نہتوں کو انکائونٹر میں مارنے کا فن ہی جانتے ہیں۔ ان کے بازو کی مچھلیاں مذہب اور ذات کو دیکھ کر ہی پھڑپھڑاتی ہیں اور بابائوں کے بھکتوں کی دہشت گردانہ حرکتوں پر سلامی دیتی ہیں۔ جوانوں کو پتھر بازوں سے بچانے کے لئے پتھر باز کوبونٹ پر باندھنے کا میجر گوگوئی کا کامیاب فارمولہ آزمانے کے بارے میں کسی کا ذہن کام نہیںکرتا۔ کیاپتھربازوں کے درمیان بھی تفریق کی جانی چاہئے۔بے شک وہ دہشت گردوں کو بھگانے کے لئے پتھر بازی کرتے ہیں لیکن ہریانہ میں پتھر بازی کے واقعات پر لیپاپوتی کیوں۔
انصاف کا دوہرامعیار سسٹم کو ناکام اور مفلوج بنارہا ہے ۔ عدلیہ کاچراغ روشن ہے اور امیدکااکلوتا سہارا۔بنیادی بات یہ ہے کہ یہ گروہ جو قانون وعدلیہ کو پائوں کی جوتی پر رکھتا ہے ملک کے اتحاد اورسیکورٹی کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ سماج ‘میڈیااورسیاست دانوں نے منافقت چھوڑ کر ان گروہوں پر شکنجہ نہیں کسا تو یہ ملک کو تہس نہس کردیں گے کیونکہ یہ قانون سے ڈرتے نہیں ہیں۔ اقلیتوں کو عدلیہ کا حکم ماننے کی تلقین کرنے والوں کو اس پر غور کرناہوگا۔ سوال کسی فرقہ یا گروہ کا نہیں قانون شکن فکر کی پرورش کرنےو الوں کی بیخ کنی کا ہے معاملہ صرف گرمیت رام رحیم پر ختم نہیں ہوتاایسے بابائوں کا پورے ملک میں جال بچھا ہوا ہے۔ اقلیتوں نے ہمیشہ قانون کا احترام کیا۔ بابری مسجد کی مسماری یا شرعی امورمیں مداخلت پرنہ بدامنی پھیلائی اور نہ ہی قانون ہاتھ میں لیا صرف جمہوری طور پر احتجاج کیا۔ ایک بھی واقعہ نہیں مل سکتا۔ وزیراعظم نے سچ کہا ہے کہ آستھا کے نام پر خواہ وہ سیاسی ہو یا مذہبی تشدد کو ملک اور سرکار برداشت نہیں کرسکتی کیونکہ یہ ہمارے ملک کا مزاج نہیں ہےجواس مزاج کو بدل رہے ہیں بدلناچاہتے ہیں ان سے دو دوہاتھ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ورنہ یہ چھوٹے چھوٹے منظم گروہ ملک کونوچ نوچ کر کھاجائیں گے یقینانیو انڈیا یا نیابھارت اس قانون شکنی کامتحمل نہیں ہوسکے گا۔

0 comments:

featured

ہماری سوچ کا دائرہ



عمر فراہی ۔ ای میل  :  umarfarrahi@gmail.com
 
ہمارے ایک مضمون غیرت خودداری اور احساس کے ایک اقتباس ’’جب کسی قوم میں احسان کرنے کی اہلیت باقی نہ رہے تو اسے تباہ کرنے کیلئے کسی فوج کی ضرورت بھی کیوں پیش آئے۔بلکہ ایسی قومیں اپنی سماجی اور معاشرتی برائیوں اور خرافات سے کمزور ہوتی رہتی ہے اور اسے یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ رفتہ رفتہ زمانے کی رفتار سے بہت پیچھے جاچکی ہے ‘‘پر ایک قاری نے سوال اٹھایا کہ کیا مسلمانوں کو تباہ کرنے کیلئے کسی فوج کی ضرورت نہیں اور کیا مسلمان واقعی اپنے آپ تباہ ہو رہا ہے ۔دراصل یہ ایک عام بات ہے جو کسی بھی قوم کے زوال کی علامت ہے اور بیشک مسلمان بھی اس اصول کے دائرے سے باہر نہیں ہے، لیکن یہ بات دنیا کے ہرخطے کے مسلمانوں پر صادق نہیں آتی ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب ہمارے سامنے مسلمانوں کی تباہی وبربادی اور زوال کا تذکرہ آتا ہے تو ہم اسے فوراً آفاقی نظریے سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں جبکہ یہی ہماری سب سے بڑی غلطی ہے ۔دنیا کے بیشتر ممالک میں انتشار کی کیفیت ضرور ہے لیکن ہر علاقے کے مسلمانوں کے مسائل اور حالات یکساں نہیں ہیں۔مثال کے طور پر فلسطین میں اگر مسلمانوں کی زمین پر قابض اسرائیلی فوج ظلم اور زیادتی کر رہی ہے تو فلسطینی مسلمان اپنی غیرت اور خودداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا مقابلہ بھی کر رہے ہیں اور ان کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ پچھلے ساٹھ سالوں سے وہ اسرائیلی ٹینکوں اور میزائلوں کے سامنے شیشہ پلائی ہوئی دیوار کیطرح مسجد اقصیٰ کے محافظ بنے ہوئے ہیں ۔ حماس کے ر ہنما اور بانی مرحوم شیخ یٰسین کا ایک مشہور قول ہے کہ جب میں بچہ تھا تو سوچتا تھا کہ یہودی فلسطین پر قابض ہیں لیکن جب میں بڑا ہوا تو میرے خیالات بدل گئے ۔میں نے غور کیا تو پایا کہ یہودی سوائے فلسطین کے ساری دنیا پر قابض ہیں۔شیخ یاسین کے اس ایک جملے میں جو وسعت ہے اسے سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔دنیا کے ہر دور میں ہمیشہ دو طرح کے لوگ رہے ہیں اور اب بھی ہیں ۔ایک وہ جو دنیا کے نظام کو بدلنے یا امامت کے منصب کی جدوجہد میں اپنی ساری عمر گذار دیتے ہیں اور بالآخر حکومت اور اقتدار کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔اسلامی تاریخ کے ماضی میں بنی امیہ ،بنی عباس ،فاطمی، مغلیہ سلطنت اور سلطنت عثمانیہ کا عروج اسی جدوجہد کا نتیجہ تھی اور انہوں نے ایک شاندار حکومت کی روایت قائم کی ۔سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد عرب میں سنوسی اور وہابی تحریک نے آل سعود کو اقتدار بخشا اور اسکے بعد افغانستان میں طالبان ٹرکی میں نجم الدین اور طیب اردگان کی جدوجہد کے علاوہ جزیرةالعرب میں اخوانی طرز کی تحریکی جدوجہد اپنی کامیابی اور ناکامی کے شدید مرحلے سے گذر رہی ہے ۔ ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تباہی اور بربادی کا شکار ہیں ۔اس کے برعکس ایک گروہ وہ بھی ہے جس نے صرف اپنی روایتی عبادات کے ساتھ باطل سے مصالحت اختیار کر لی ہے اور بیشتر کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کا یہ نظریہ اور اطمینان کی حالت ان کی نسلوں کو ارتداد کی طرف موڑ دیگا اور موڑ رہا ہے ۔ہندستان وغیرہ میں یہ سلسلہ تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔فرق اتنا ہے کہ کلمہ لاالہ الا اللہ کی کشتی پر سوار مسافروں کو اپنی کشتی کا چھید نظر نہیںآتا۔ جبکہ اخبارات چیخ رہے ہیں اوریہ بے چینی کشتی والوں میں بھی پائی جارہی ہے کہ وہ عنقریب غرق ہونے والے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بقول شیخ یٰسین یہود و مغرب کی طرز معاشرت اختیار کر رکھی ہے اور وہ اسلام پر ادیان باطل کے خیالات کے ساتھ عمل کرتے ہوئے سیکولرزم کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ سوچ کا یہ فرق دنیا کے ہر خطے کے مسلمانوں کے ذہن میں پایا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر ہندوستان کی مسجدوں میں افغانستان اور عراق کے مسلمانوں پر استعماری طاقتوں کے حملے سے نجات کیلئے دعا کی جاتی ہے ،جبکہ وہاں کا مسلمان یہاں کے مسلمانوں کیلئے دعا گو ہے کہ اے اللہ ہندوستانی مسلمانوں کو غلامی کی زندگی سے نجات دلادے ۔ بات یہ بھی ہے کہ بہت سی قوموں کو اپنی بے غیرتی اور ذلت کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے کہ  ؎  قوت فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے/پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے
مثال کے طور پر روئے زمین پر ایک غیرت مند قوم افغانیوں کی بھی ہے جس نے اپنے بڑے سے بڑے دشمن کے سامنے بھی سر نہیں جھکایا -اقبال نے انہیں کے بارے کہا ہے کہ
افغانیوں کی غیرت ایماں کا ہے جواب
ملا کو کوہ و دمن سے نکال دو
اس کے برعکس ہندوستان میں پسماندہ ذاتیں وہ چاہے مسلمانوں کی ہوں یا ہندوؤں میں سے ہمیشہ ہی بڑی ذاتوں کی نگاہ میں حقارت سے دیکھی گئی ہیں اور ان کے اندر ایک زمانے تک یہ احساس نہیں پیدا ہوسکا کہ وہ بھی انسان ہیں اور انہیں بھی حکومت اور اقتدار میں شامل ہونے کا حق ہے۔ایک بار کا واقعہ ہے ہمارے گھر میں ایک پسماندہ ذات کا شخص آیا اور زمین پر بیٹھ گیا ہم نے کہا کہ بھائی کرسی پر بیٹھ جاؤ ۔ کہنے لگا نہیں بابو ہم یہیں پر ٹھیک ہیں ۔اس کی بات پر مجھے یاد آیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں سے بھی جب یہ کہا جاتا ہے کہ بھائی تمہارے مسئلے کا حل کرسی ہے تو کہتا ہے نہیں ہمیں سیاست اور عدلیہ کی کرسی پر بیٹھے بابوؤں پر اعتماد ہے ۔اگر اعتماد ہے تو پھر پچھلے ستر سالوں سے ان کرسی والوں نےتمہارے ساتھ انصاف کیوں نہیں کیا؟ آخر کیوں بار بار تمہاری فکر اور مذہبی عقائد پر حملہ کرکے تمہارى غیرت اور خودداری کو ٹھیس پہنچایا جارہا ہے؟کیوں وندے ۔۔۔ پڑھنے کی ضد کی جارہی ہے ؟ہم نے تو نہیں دیکھا کہ کسی دور میں کرسی والوں نے اپنے غلاموں کی ازدواجی زندگی میں بھی مداخلت کرنے کی غیر اخلاقی جراءت کی ہو لیکن ہندوستان کے پچیس کروڑ مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے ۔ تین طلاق کے معاملے میں سپریم کورٹ میں حکومت کی طرف سے داخل کی گئی شکایت پر عدلیہ کی مداخلت پربھٹکل کے مشہور و معروف مبلغ مولانا الیاس ندوی نے اپنے مضمون اگر اب بھی نہ جاگے میں ملک کے مسلمانوں کی تشویشناک صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ملک کے بیشتر علاقوں سے بہت ہی تیزی کے ساتھ عورتوں میں ارتدادکی خبریں تو باعث تشویش ہیں ہی لیکن اس خبر نے مجھےجھنجھوڑ کر رکھ دیا جب دعوتی میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے والے ایک صاحب کی تعلیم یافتہ خاتون جو کہ خود دعوتی کام میں ان کی دست راست ہیں پرسنل لاء بورڈ کی دستختی کاغذات پر یہ کہہ کر دستخط کرنے سے انکار کردیا کہ میرا دل اسلام میں مردوں کی طرف سے طلاق دئيے جانے کے حق سے مطمئن نہیں ہے ۔اس فتنے کی وجہ انہوں نے یہ بتائی ہے کہ ہماری مسلم آبادی کا ایک کثیر طبقہ جدید سیکولر نظام تعلیم سے آراستہ ہو کر دین سے متنفر ہو رہا ہے۔ اس لئے ہمیں سارے کام چھوڑ کر سمپوزیم کانفرنس اور اجتماعات منعقد کرکے اس کا فوری حل ڈھونڈھنا چاہیے۔مغلیہ سلطنت اور سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد ہمارے علماء نے مسلمانوں کے عروج زوال اور قافلہ کیوں لٹا کے عنوان سے سینکڑوں کتابیں لکھیں اور 1947 میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ہم یہی تو کرتے آئے ہیں !لیکن اپنے اجتماعات میں لاکھوں کی بھیڑ اکٹھا کرکے بھی جو بات ہم سمجھ نہیں سکے دلتوں کے لیڈر امبیڈ کر ،کانشی رام اور مایا وتی جن کے آباواجدادنے کوئی کتاب نہیں لکھی کوئی اجتماع نہیں کیا پھر بھی انہیں کرسی کی اہمیت سمجھ میں آئی اور مایا وتی تین بار یوپی کی وزیر اعلیٰ بنیں ۔ سنا ہے جب وہ اپنی پارٹی کے ورکروں کاکوئی اجلاس منعقد کرتیں تو پورے اجلاس میں صرف ایک کرسی مایا وتی کیلئے ہوتی باقی ورکر وہ چاہے منسٹر ہی کیوں نہ ہوں فرش پر بیٹھتے تھے ۔امبیڈکر ہمیشہ اپنے خطاب میں دلتوں کو مخاطب کرکے کہا کرتے کہ تمہاری ضد مندروں میں نہیں پارلیمنٹ میں داخل  ہونے کیلئے ہونی چاہیے ۔مغربیت کے غلبے کے تناظر میں اقبال نے کہا تھا کہ  ؎   بت خانے کے دروازے پہ سوتا ھے برہمن/ تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہ محراب
اقبال زندہ  ہوتے تو دیکھ لیتے کہ برہمن اور دلت دونوں اپنی سوچ کے دائرے سے باہر آچکے ہیں لیکن جن کے اوپر کتاب نازل ہوئی اور اس کتاب میں کہا گیا کہ ہم نے اس کتاب کے ساتھ رسول کو اس لیے بھیجا تاکہ اس دین کو تمام جنس دین پر غالب کردے وہی لوگ غلبے کے مفہوم سے محروم ہیں اور ان کی سوچ کا دائرہ بھی محدود ہے ۔یاد رہے غالب قومیں ہی دوسروں پر احسان کرتی ہیں جبکہ مغلوب دوسروں کے احسان مند ہوتے ہیں اور پھر وہ اپنی غیرت اور خودداری سے محروم ہوکر اپنی شناخت بھی کھو دیتی ہیں ۔قابل غور  بات یہ ہے کہ آخری مغل تاجدار تک تین طلاق کے فتنے نے کبھی سر نہیں اٹھایا تو کیوں اور اب اٹھ رہے ہیں تو اس لیے کہ فتنے کا دروازہ ٹوٹ چکا ہے۔فتنے کا دروازہ ٹوٹ جائے گا یہ بات اللہ کے رسول ﷺ نے اسلامی مملکت کے طاقتور حکمراں حضرت عمر کیلئے کہی تھی ۔اس پر بھی غور کریں !

0 comments:

Muslim Issues

مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے



پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

   علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’ صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم ۔ کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب ‘ ہمیں خود احتسابی سے کام لینا چاہئے ہم نے قومی اور ملی تاریخ میں کئی بھیانک غلطیاں کی ہیں اور ٹھوکریں کھائی ہیں ، اگر علت ومعلول کے درمیان تعلق درست ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج مسلمانوں کی زار وزبوں حالت ان ہی غلطیوںکی وجہ سے ہوئی ہے جو ہم نے ماضی میںکی تھیں ،غلطیوںکا تذکرہ اگر چہ خوشگوار نہیں لیکن یہ آتش خانہ دل کی گرمی ہے جو فکر کو پگھلاکر روشنائی بنادیتی ہے اور پھریہ روشنائی کاغذ پر پھیل جاتی ہے ،خون دل کی روشنائی سے مضامین نکتہ نظر کو بدلنے کے لئے یا ان میں اصلاح کے لئے لکھے جاتے ہیں ۔ کیونکہ فکر جب تک درست نہیں ہوگی ہماری کوششوں کا رخ صحیح نہیں ہوگا۔اچھے کردار کے سوتے ہمیشہ صحیح نکتہ نظرسے پھوٹتے ہیں، اس لئے اجتماعی معاملات میں اپنا نکتہ نظر کو درست رکھنا بہت ضروری ہے ۔اگر ہم صرف ایک صدی کی غلطیوں کی بے حد مختصر فہرست بندی کریں گے تو ہمیں چار مہلک غلطیاں نظر آئیں گی ، پہلے نمبر پرپاکستان کی تشکیل کو رکھنا پڑے گا۔اگر چہ اس غلطی میں برادران وطن کی غلطیوں اور ناروا سلوک کا بھی ہاتھ ہے لیکن مطالبہ مسلمانوں کی طرف سے آیا تھا اور وہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’ شامل ہے مرا خون جگر تیری حنا میں ‘‘جنہوں نے پاکستان بنایا تھا وہ پاکستان جاچکے ، اب یہ قصہ ماضی ہے ۔ لیکن برادران وطن کے دلوں میں میں اس کا زخم تازہ ہے اور دونوں ملکوںکے درمیان نفرت کی دیوار اب بھی حائل ہے ۔ اور اس دیوار کے اذیت ناک سایے آج بھی مسلمانوں پر پڑتے ہیں اور اذیت پہونچاتے ہیں ۔
      دوسری مہلک غلطی جو مسلمانوں نے کی وہ بابری مسجد کی بازیابی سے متعلق تھی ۔ بابری مسجد کا مسئلہ ۱۹۹۰ کے آس پاس کوہ آتش فشان بن گیا تھا اور اب بھی ہم کوہ آتش فشاں کے دہانہ پر ہیں ، اس کے سلسلہ میں مولانا علی میاں اور مولانا عبد الکریم پاریکھ اور یونس سلیم سابق گورنربہار غیر مسلموں اور برادران وطن کے مذہبی قائدین سے مل کر مسئلہ کے حل تک پہونچ گئے تھے مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے مسٹر چندر شیکھر کے کہنے پرمولانا علی میاں کا نام تجویز ہوا تھاجنہوں نے پورے ملک میں پیام انسانیت کی تحریک چلائی تھی، ہندو اکثریت کی نمائندگی کے لئے کانچی پورم کے شنکر آچاریہ کا نام تجویز کیا گیا تھا وی پی سنگھ نے زمین کے سلسلہ میں آرڈیننس پاس کردیا تھا جسے بعد میں واپس لے لیا گیا ، آندھرا پردیِش کے گورنر کرشن کانت جو بعد میں نائب صدرجمہوریہ ہوئے اور جینی مذہب کے سُوشیل منی او ہندوئوں کے سب سے بڑے گرو شنکر آچاریہ آنند سرسوتی نے حل کو منظور ی دے دی تھی اور حل یہ تھا کہ بابری مسجد اپنی جگہ پر رہے گی ، کچھ عرصہ کے بعد مورتیاں ہٹائی جائیں گی، اسے نماز کیلئے کھول دیا جائے گا مسجد کے چاروں طرف تیس فٹ کا تالاب رہے گا  اور اس کے بعد ریلنگ ہو گی اور ضرورت پڑنے پر اس پر کرنٹ دوڑایا جائے گا ۔ اس کے بعد جو بابری مسجد وقف کی زمین ہو گی اس پر رام مندر تعمیر کرلیا جائے گا اور مسلمان اس پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے ۔ لیکن لکیر کے فقیر علماء نے اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے اس حل پر اعتراض ہی نہیں کیا بلکہ آسمان سر پر اٹھا لیا ۔ مجبورا ًمولانا علی میاں اور مولانا پاریکھ کو صلح کے فارمولے سے دستبردار ہوجانا پڑا،شور و غوغا کرنے والوں میں وہ جامد الفکر اور بے شعور متصلب علماء تھے جن کا کہنا تھا کہ ہم وقف کی ایک انچ زمین رام مندر کے حوالہ نہیں کرسکتے ہیں  اوروہ اصول فقہ کے حوالے دے رہے تھے جیسے کہ ہم بنی امیہ اور بنی عباس کے عہد میں جی رہے ہوں،اور کسی دار الاسلام میں رہتے ہوں، حالانکہ دعوتی نقطہ نظر سے باہمی احترام واعتماد کی فضا پیدا کرنا ضروری تھا اس کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک کے علماء فقہ الاقلیات سے متعلق اپنی رائے میں لچک رکھتے ہیں اور جو ملک دار الاسلام نہ ہو وہاں کے بعض فقہی مسائل میں دفع مضرت کے تحت نرمی اختیار کرنے کے قائل ہیں ۔آج بابری مسجد کا وجود ختم ہوچکا ہے اور آئندہ اس کی تعمیر کا بھی کوئی امکان نہیں ہے ، اور اس کے لئے ہزاروں مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں ۔کوئی بتائے کہ آخر یہ خون دوعالم کس کی گردن پر ہے؟
    مسلم قیادت کی تیسری غلطی تین طلاق سے متعلق ہے ۔ ماضی بعید اور ماضی قریب کی غلطیوں کے ذکر کے بعد اب حال کی غلطی پرسنجیدگی اور غیر جانب داری کے ساتھ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ تین طلاق کے سلسلہ میں بورڈ کے اسٹینڈکے خلاف آیاہے ۔ بورڈ سے یہاں بھی غلطی سرزد ہوئی ہے ۔بورڈ کے صدر عالی مقام اپنی متانت اور شرافت اور مرنجان مرنج طبیعت کی وجہ سے بورڈ کے عہدہ داران کی غلطیوںکو نظرا ندازکرتے ہیں وہ ملک کے صدر جمہوریہ کے مانند ہیں جو عام طور پر حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ہے۔ صدرکی نرم مزاجی اور تحمل کی وجہ سے بورڈاکثر وہ فیصلے کرلیتا ہے جس سے صدر کو اتفاق نہیں ہوتا ہے۔ بورڈ کے عہدہ داروں اور ذمہ داروں سے یہ سوال پوچھا  جا سکتا ہے کہ جب بورڈ کے دامن اجتماعیت میں مختلف مسلک ومشرب کے لوگ ہیں تو آخر بورڈ کو کورٹ میں حنفی مسلک کے وکیل اور ترجمان بننے کی کیا ضرورت تھی اگر بورڈ جواب میں یہ کہتا ہے کہ ملک میں غالب اکثریت اہل سنت والجماعت کی ہے اور حنفی مسلک والوں کی ہے تو یہی دلیل تو بی جے پی کے پاس ہے کہ چونکہ ہندوئوں کی اکثریت ہے اس لئے یہ ملک ہندوئوں کا ہے اور ہندو مذہب اور ہندو تہذیب کو مسلط کرنا درست ہے ۔ بورڈ کا موقف اس بارہ خاص میں قرین عقل بھی نہیں ہے اور قرین انصاف بھی نہیں ہے آخر یہ کیسا انصاف ہے جس میں ظالم کوکوڑے نہیں مارے جاتے جیسا کہ حضرت عمر مارتے تھے اور نہ اس میں مظلوم کی جراحت دل کے لئے کوئی پرسش غم ہے اور اس پر تین طلاق کا یہ فیصلہ سامان صد ہزار نمک داں سے کم نہیں ۔ اسی لئے ہندوستان کا جدید تعلیم یافتہ مسلم طبقہ بورڈ کے موقف سے بہت زیادہ غیر مطمئن ہے ان میں بہت سے لوگوں کے ہاتھ میں سنگ ملامت ہے اور بہت سے حلقوں میں طعنوں کا شور ہے ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہواتھا ۔اس کا بھی اندیشہ ہے کہ آگے چل کر ہاتھ اور گریباں کا فاصلہ بھی کم ہوجائے یا ختم ہوجائے ۔ اس لئے بورڈ کو اپنے احتساب کی ضرورت ہے شاہ بانو کیس میں جس طرح تمام مسلمان بورڈ کی تائید میں تھے اس بار ایسا نہیں ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ بورڈ کو حنفیت کا نمائندہ نہیں بنناچا ہئے تھا اور اس کا موقف یہ ہونا چاہئے تھا کہ اس بارے میں مسلمانوں میں چونکہ مسلک کا اختلاف ہے اسلئے بورڈ اپنا کوئی موقف نہیں رکھتا ہےا ور اگر بورڈ کو لازماًکوئی موقف اختیار کرنا ہی تھا تو شر سے بچنے کے لئے اور پرسنل لا میں مداخلت کے خطرہ کا سد باب کرنے کے لئے تین طلاق کو ایک طلاق ماننے کا موقف اختیار کرنا چاہئے تھا ۔یہ فیصلہ زیادہ دانشمندانہ اور مجتہدانہ ہوتا اب پارلیامنٹ کو قانون سازی کا حق مل گیا ہے اب جو طلاق کا قانون بنے گا اس میں تا زندگی نفقہ مطلقہ کو شامل کرنے کا امکان موجود ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے ’’ دستور کا آرٹیکل ۵ ۲  مذہبی آزادی ضرور دیتا ہے لیکن وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ مذہبی آزادی پبلک آرڈرصحت، اخلاقیات، مساوات اور دیگر مساوی حقوق سے متصادم نہ ہو ‘‘ یہ الفاظ مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کے اشارے دیتے ہیں کل حکومت میراث کے بارے میں بھی یہ کہہ سکتی ہے کہ اسلامی قانون صنفی مساوات کے خلاف ہے ۔ اگر بورڈ نے حنفیت کے موقف میں شدت نہ اختیار نہ کی ہوتی تو پرسنل لا میں مداخلت کے خطرہ سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن ملت کے قائدین نے پاسبان عقل کو بہت دور چھوڑ دیا تھا۔اصول یہ ہے کہ اس موقف کو اختیار کرناچاہئے جس میں خطرہ سب سے کم ہو ۔ تین طلاق کو ایک طلاق قرار دینے کی گنجائش موجو ہے، اگر یہ موقف اختیار کیا جاتا تو حکومت کومداخلت کا موقعہ نہیں ملتا ۔ مولانا سید سلیمان ندوی بہت بڑے عالم دین تھے ۔ ان کے پاس ایک نومسلم آیا اور اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھے ۔ سید صاحب نے کہا کہ اس نے تو ابھی اسلام قبول کیا ہے وہ نہ حنفی ہے نہ شافعی نہ مالکی انہوں نے اس کیلئے تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیا اور اسے رجوع کرنے کا حق دیا ۔ اگر سرے سے گنجائش نہیں ہوتی اور یہ حرامکاری ہوتی توسید صاحب جیسا عالم دین یہ فیصلہ نہیں کرتا ۔ ائمہ اربعہ کاقول نہ سہی امام ابن تیمیہ اور ابن قیم کا یہی مسلک ہے اور اس سے پہلے صحابہ کرام میں حضرت عبد اللہ بن عباس، زبیر بن عوام اور عبد الرحمن بن عوف اور دیگر کئی صحابہ کا یہی موقف رہا ہے تابعین کی جماعت میںبہت سے اہل علم اسی موقف کے قائل رہے ہیں اس دور میں فاضل دیوبند مولانا سعید احمد اکبرآبادی ( ہند وستان) سید رشید رضا ( مصر)ڈاکٹر وہبہ زحیلی ( شام) ڈاکٹریوسف القرضاوی ( قطر ) شیخ الازہر شیخ محمد شلتوت ( جامع ازہرمصر ) اور کئی علماء کا یہ مسلک رہا ہے اور انہوں نے حنفی ہونے کے باوجود علماء کی بند گلیوں سے باہر نکلنا ضروری سمجھا ہے اور پھر مصر سوڈان اردن شام مراکش عراق اور پاکستان میں کچھ علماء کے اختلاف کے باوجود یہی قانون یعنی ایک مجلس میں تین طلاق کو ایک ماننے کا قانون نافذ ہے ۔
  مسلم قیادت کی چوتھی غلطی بھی علمائے دین کی قیادت کی غلطی ہے جو فکر کے جمود سے عبارت ہے آزادی سے پہلے جو غلطی ہوئی اس کا تعلق علماء سے نہیں تھا وہ سیاسی غلطی تھی اور اس میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ آگے تھا ۔ ہجرت کے مقدس نام پر پاکستان جانے کے بعد ہندوستان میں مسلمان کمزور اور بے یار ومددگار رہ گئے اور ان کی قیادت علمائے دین کے حصہ میں آئی جو بوجوہ باہمی تعصب ، تنگ نظری ،گروہ بندی ، کا شکار رہے ان میں وسعت نظری اور سیر چشمی کی کمی رہی اور تخلیقی ذہن کی آبیاری کے سوتے خشک ہوگئے تھے ۔لیکن اس کے باوجود آزادی کے بعد کے دور میں علماء کی حیثیت یہ رہی کہ کسی کوشش کو معتبریت اس وقت ملتی جب علماء بھی اس کے ہم سفر اور ہم صفیر ہوں ۔ علماء کی تمام کوششوں کا محور مسلمان تھے اور صرف مسلمان ۔ برادران وطن ان کے دائرہ کار سے باہر رہے۔یہ سیرت طیبہ کا جزوی  اور ناقص اتباع تھا ۔ البتہ بعض جماعتوں نے غیر مسلموں کے لئے اسلامی لٹریچر بھی تیار کیا اور بعض افراد نے برادران وطن کو خطاب کرنے کے لئے پیام انسانیت کی تحریک بھی چلائی ۔ لیکن تبلیغی جماعت اور تحریک مدارس کے عالی مقام ذمہ داروں کے ذہن میں دور دور غیرمسلم نہیں تھے ۔ اس ملک میں سیکڑوں دینی مدارس قائم ہوئے اور ان مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں علماء نکلے لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی لسان قوم میں بات کرنے والا عالم دین نہیں تھا اور لسان قوم وہ کہلاتی ہے  جسے ۸۰ فی صدی آبادی بولتی ہے اور لسان قوم میں ہی رسول، پیغمبر اور نبی بات کرتے ہیں، لیکن ان مدارس کے علماء اور نائبین رسول لسان قوم میں بات کرنے کے اہل نہیں تھے۔جب کہ اس ملک کو ایسے علماء کی شدید ضرورت تھی جو ہندوئوں کے مذہب سے واقف ہوں اور ان سے ڈائیلاگ کرسکتے ہوں اور اعتراضات کا جواب دے سکتے ہوں اور انہیں دین اسلام سمجھا سکتے ہوں مدرسوں سے جو بھی فارغ ہو کر نکلتا وہ صرف مسلمانوںکے سامنے خطابت کا جوہر دکھانے کے لائق ہوتا ۔
 مستقبل میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے علماء دین کی بھی ضرورت ہے جو ہندو مذہب وتہذیب سے پورے طور پر واقف ہوں اور ان کی زبان میں ،ہندی اور انگریزی میں ان کے ساتھ ڈائیلاگ کرسکتے ہوں اور ’’لسان قوم‘‘ میں بات کرسکتے ہوں ۔ ان کے مجمع کو خطاب کرسکتے ہوں ان کے دل میںاتر سکتے ہوں ، اور یہ کام دینی مدارس کے نصاب میں انقلابی تبدیلی کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ اسپین میں جہاں سے مسلمانوںکو نکالا گیا مسلمانوں اورمفتوح غیر مسلموں کے درمیان  رابطہ اور تعلقات اور زبان کی خلیج حائل تھی جو غلطی مسلمانوں نے اسپین میں کی تھی وہی ہندوستان میں دہرائی گئی ہے، مدارس کے ذمہ اروں کواور علماء کی قیادت کو اب بھی اپنی غلطی کا احساس نہیں ہے ، ہر عالم دین جومدرسہ سے پڑھ کر نکلتاہے وہ نہ تو ہندی سے واقف ہوتا ہے نہ ہندو سے واقف ہوتا ہے نہ برادران وطن کے درمیان دین وشریعت کی ترجمانی کا اہل ہوتا ہے ۔ وہ پہلے سے موجود اس خلیج میں اضافہ کا سبب بنتا ہے جو مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان میں ہے جس کے نقصانات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔موجودہ ہندوستان پر علماء کسی فوج کشی کے بغیر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کا واحد طریقہ دلوں پر قبضہ کرنا ہے ’ جو دلوںکو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ ‘‘ اور دلوںکو فتح کر نے کے لئے خلیج کو پاٹنا ضروری ہے اور خلیج کو پاٹنے کے لئے یہان کی زبان کا ماہر بننا ضروری ہے اور ان کی مذہبی نفسیات  کا جاننا ضروری ہے ۔
آئندہ ہندوستان کے اسٹیج پر اسلام اپنا رول ادا کرسکے گا یا نہیں اس کا تعلق علمائے دین کے صحیح کردار سے ہے ۔ علمائے دین اور علمائے دیوبند کی قیادت کو نہ صرف یہ کہ اپنی غلطی کا احساس نہیں ہے ۔بلکہ وہ ابھی تک باہمی نفرت اور تعصب اور تنگ نظری اور متشدد ذہنیت کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اتحاد پارہ پارہ ہے ۱۸ کروڑ مسلمانوںکی دینی قیادت کے پاس عصری آگہی نہیں ۔ غیرمسلموں سے خطاب کرنے والی زبان نہیں ہے اور پھر وہ آپس میں متحد بھی نہیں ہیں ۔ وہ بڑے اخلاص کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ زمانہ کی گمراہیوں سے بچنے کے لئے ماضی کے بزرگوں کی تقلید صحیح راہ ہے اور جس طرح بزرگوں کے پاس عصری آگہی کم تھی یہی فقدان بصیرت موجودہ علماء میں بھی پایا جاتا ہے ۔انہیں نہیں معلوم کہ عصر حاضر میں مسلمانوں کے امپاورمنٹ کا طریقہ کیا ہے ۔ وہ بزرگوں کے بنائے ہوئے راستہ سے ذرہ برابر ہٹنے کے لئے تیار نہیں۔ وہ بزرگوں کی بنائی ہوئی ہر لکیر کو پتھر کی لکیر سمجھتے ہیں اور اس طرح وہ لکیر کے فقیر کے بجائے لکیر کے امیر بن گئے ہیں ۔ ہندوستان کے سب  سے بڑے دار العلوم کی ویب سائٹس پر جا کر نئے فتوے دیکھ لیجئے آپ کو آج بھی ۲۰۱۷  میں اس طرح کے فتوے مل جائیں گے کہ غیر مقلدوںکا شمار فرقہ ضالہ میں ہے اور جماعت اسلامی سے وابستہ کسی شخص کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے ۔ اور ان لوگوں سے شادی بیاہ کا رشتہ قائم نہیں کرنا چاہئے ۔ان علماء کے اندر تعصب بقول مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اس لئے پایا جاتا ہے کہ وہ دوسرے مسلک یا جماعت کی کتابیں پڑھتے ہی نہیں اگر وہ ان کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے تو علمی اختلاف تو کرتے لیکن ان کی خدمات کا اعتراف بھی کرتے اور معتدل رویہ اختیار کرتے ۔ یہی ہندوستانی  علماء ہیں جن کے اندر کشادہ دلی نہیں ہے ۔دینی تقاضوں کا فہم نہیں ہے ، دور بینی نہیں ہے اورجنہیں مستقبل کے خطرات کا احساس نہیں ہے۔ جو منجمدبھی ہیں متصلب بھی ہیں متعصب بھی ہیں اور طرز کہن پر اڑے ہوئے ہیں اور جن کے بارے علامہ اقبال نے کہا تھا

                                        
                 نہ جانے کتنے سفینے ڈبوچکی اب تک  
                            
                  فقیہ وصوفی وملا کی نا خوش  اندیشی
 
                                            

0 comments:

Books

قافلہ کیوں لٹا؟




عالم اسلام کی دو صدیوں پر محیط داستان زوال جو ہنوز جاری ہے نے ہر سنجیدہ طبقہ کو اضمحلال میں مبتلا کررکھا ہے ۔ہر وہ شخص جو حساسیت کی نعمت سے مالا مال ہے وہ اس جانب توجہ ضرور دیتا ہے کہ آخر ہمارے زوال کی وجہ کیا ہے اور اس کا سلسلہ دراز سے دراز تر کیوں ہوتا جارہا ہے ۔زوال کا یہ سلسلہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد کچھ زیادہ ہی مہیب ہو گیا ہے ۔اہل قلم اس کی وجہ تلاش کرتے ہوئے کتابیں تحریر کررہے ہیں ۔علماء اپنی تقاریر میں اس پر روشنی ڈال رہے ہیں ۔صحافی اخبارات میں کالم کے کالم سیاہ کئے دے رہے ہیں لیکن یہ زوال کی سیاہ رات ہے کہ اس کی سحر ہوکے ہی نہیں دیتی ۔ایسے ہی ایک فکر مند مصنف تمیم انصاری ہیں جو افغان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان کا بچپن افغانستان کی ان ہی وادیوں اور دروں میں گذرا ہے جہاں کے سخت چٹانوں سے ٹکرا کر تاج برطانیہ نے اس جانب دیکھنے سے بھی توبہ کرلیا تھا اور اس کے بعد دو سوپر پاور لہو لہان ہو چکی ہیں ۔روس تو خیر ایسا لہو لہان ہوا کہ اس کو اپنے وجود کی برقراری بھی مشکل ہو گئی اور وہ یو ایس ایس آر سے صرف روس رہ گیا ۔قریب تھا کہ امریکہ بھی پاش پاش ہو جاتا لیکن اس کو اوبامہ جیسا صاحب فہم صدر ملا جس نے بڑی خاموشی سے عالم اسلام سے ٹکراؤ کی صورتحال سے امریکی فوجیوں کو نکال لیا اور یوں امریکہ ریزہ ریزہ ہونے سے بچ گیا ۔تمیم انصاری نے اس کے بعد امریکہ کے سان فرانسسکو میں سکونت اختیار کی جہاں وہ شعبہ تعلیم و تعلم سے منسلک ہوئے ۔ان کی ہی تحریر Destiny Disrupted کو’’ قافلہ کیوں لٹا ؟‘‘نام سے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے محمد ذکی کرمانی نے اور یوں ہم اردو داں محمد ذکی کرمانی کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ایک بہترین کتاب کو اردو کے قالب میں ڈھال کر ہم پر احسان کیا ورنہ اردو تو اب وہ زبان ہے جس میں علمی تحقیقی کتابوں پر بھی قوم مسلم کی طرح زوال کے سائے ہیں۔انہوں نے بیس صفحات پر مشتمل مقدمہ بھی تحریر کیا ہے جس میں مختصراً کتاب کے تعلق سے اور مسلم امہ کے عروج و زوال کی مختصر روداد ہے ۔پوری کتاب میں تاریخ کو سرسری طور پر بیان کیا گیا ہے اور ہر حکومت اور اس کے زوال کے بارے میں مختصراً رائے پیش کی گئی ہے کہ کس کے زوال میں کون سی سوچ یا نظریہ کارفرما رہا ۔اسے اپنوں نے ڈبویا یا وہ دنیا کی تبدیلی سے ہم آہنگ نہ ہو سکی اور یوں خود ہی زوال کی جانب اس کا سفر تمام ہوا۔ذکی کرمانی نے اپنے مقدمہ میں بھی جہاں مختلف تحریکات کے ابھرنے اور اس کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے وہیں انہوں نے ان تحریکوں پر ناقدانہ نظر بھی ڈالی ہے ۔جیسا کہ کتاب کے سر ورق پر عنوان ’’قافلہ کیوں لٹا ؟‘‘ کے نیچے تحریر ہے ’عالم اسلام کی تاریخ پر ایک مجتہدانہ نظر‘سے واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے زوال کے اسباب بلا کم و کاست ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے ۔مقدمہ میں ذکی کرمانی نے امام غزالیؒ ،ابن تیمیہؒ اور احمد بن حنبل ؒ کی فکروں پر بھی تنقیدی نگاہ ڈالی ہے جس کی تفصیل کے ساتھ ان کی تنقید کی روشنی میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آیا ان کی تنقید درست ہے یا نا درست نیز یہ کہ وہ اپنے نکتہ نظر کو بیان کرنے میں کہاں تک کامیاب ہو سکے ہیں یا اس میں مزید وضاحت کی ضرورت ہے ۔دور جدید یعنی بیوسویں صدی کی دو عظیم تحریکوں عالم عرب میں سید قطب ؒ کی اخوان المسلمون اور بر صغیر میں سید مودودی ؒ کی جماعت اسلامی پر بھی ذکی کرمانی نے میری ذاتی رائے کے مطابق آزادانہ تنقیدی نگاہ ڈالی ہے ۔ان کے مطابق یہ دونوں تحریکیں کچھ جزوی خامیوں کی وجہ سے جہاں حاکم وقت کے عتاب کا شکار بنیں وہیں ان سے فائدہ یہ ہوا کہ ’ان تحریکات کا سب سے بڑا عطیہ امت کے لئے یہ تھا کہ قوم پرستی کے بڑھتے رجحان کے باوجود امت واحدہ کا تصور مضبوط ہوا ۔قرآن اور مسلمانوں کے درمیان جو تاریخ حائل ہو گئی تھی اور درس و تدریس اور روایت کا ایک طویل سلسلہ جسے قائم رکھنے پر مصر تھا ،اسے ان تحریکوں نے توڑ دیا اور اب مسلمان با لعموم قرآن سے براہ راست مستفید ہونے کے لئے کوشاں نظر آنے لگے ۔ان دونوں گروہوں میں علم کو اصل اہمیت حاصل تھی ‘۔آگے انہوں نے لکھا ہے کہ ’لیکن ایک بڑی تعجب خیز صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ اخوان المسلمون میں سید قطبؒ اور جماعت اسلامی میں مولانا مودودیؒ کے بعد علمی روایت معدوم ہو تی گئی ‘۔ذکی کرمانی کی اس بات سے اہل علم اور خصوصا جماعت اسلامی کے لوگ کہاں تک متفق ہیں یہ تو وہی بتائیں گے کہ آیا واقعی ایسا ہے جیسا کہ مترجم نے بیان کیا ہے اور اگر واقعی ایسا ہے تو یہ قابل غور پہلو ہے ۔ویسے جماعت اسلامی میں مولانا مودودی ؒ کے بعد علمی روایت کے معدوم ہونے پر اور بھی اہل علم حلقوں کی جانب سے اظہار خیال کیا گیا ہے ۔بہر حال جماعت اسلامی کے ارباب حل وعقد کو اس پہلو پر ضرور غور کرنا چاہئے ۔
کسی کے خیال ،نظریہ سے مکمل اتفاق ہونا ضروری نہیں ہے اور نا اللہ نے انسان کی تخلیق اس نہج پر کی ہے کہ وہ ایسا کرے ۔ اختلاف اور صحت مند اختلاف سے تحقیق کیلئے راہیں کھلتی ہیں ۔مسلمانوں میں صحت مند اختلاف کی روایت بہت پرانی ہے ۔یہی سبب ہے کہ جدید سائنس میں بھلے ہی مسلمانوں کا کوئی کردار نہ ہو لیکن اس بات کو تو اہل مغرب بھی تسلیم کرنے لگے ہیں کہ موجودہ سائنسی ترقی کی بنیاد مسلمانوں نے ہی ڈالی تھی اور یہ اس وقت کی بات ہے جب یوروپ اور اس کی اقوام تاریکی میں تھے ۔اس کتاب کے بھی مکمل مشمولات سے اتفاق ضروری نہیں ہے ۔اتفاق ویسے بھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ مصنف نے جن کتابوں سے استنباط کیاہے وہ ساری انگریزی میں ہیں اور ان کے مصنف اہل مغرب ہی ہیں ۔ظاہر سی بات ہے کہ اہل مغرب نے اسلام کے عقائد اور اس کی تاریخ کو اپنے مفروضوں کی مدد سے ہی بیان کیا ہوگا ۔بلکہ اکثر یت نے ایسا ہی کیا ہے ۔خود مترجم نے مصنف کی کئی باتوں سے اختلاف کیا ہے اور اسے انہوں نے حاشیہ میں بیان کردیا ہے ۔ لیکن اس کتاب سے ہمیں غور کرنے کا جذبہ تو مل ہی سکتا ہے ،یہ کتاب ہمیں بے فکری سے نکال اضطراب میں مبتلا کرسکتی ہے کہ ’’قافلہ کیوں لٹا ؟‘‘۔ چار سو صفحات پر مشتمل تفتیش و تجزیہ کے جذبہ کو ابھارنے والی کتاب کی قیمت پیپر بیک میں 400/= اور مجلد کی قیمت 500/= روپئے ہے جسے ممبئی میں مکتبہ جامعہ سے حاصل کرسکتے ہیں ۔ جامعہ کا رابطہ نمبر 8108307322 ۔ کتاب کی ٹائپنگ میں کئی معمولی خامیاں ہیں ۔پرنٹنگ کو عمدہ تو نہیں کہہ سکتے لیکن یہ کوئی ایسی خامی نہیں کہ مطالعہ میں حائل ہویعنی یہ کتاب قابل مطالعہ ہے ۔ آخر ہم ہی اس قافلہ کے افراد ہیں جو دوسو برسوں سے منتشر ہے تو پھر ہمیں ضرور اس انتشار کے سبب کی تلاش میں جٹ جانا چاہئے ۔ سبب جانے بغیر مرض سے افاقہ ممکن نہیں۔

0 comments:

featured

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق ۔۔۔!


نہال صغیر

مرزا غالب نے ایسے ایسے اشعار کہے ہیں یا غزلیں لکھی ہیں جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ شاید ہمارے آس پاس ہی کہیں موجود ہیں اور حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کررہے ہیں ۔ اب اسی شعر کو لے لیجئے جس کے مصرعہ کو ہم نے مضمون کا عنوان بنایا ہے ؂ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق ۔۔نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی ۔آج وطن عزیز کے حالات پر کتنا فٹ بیٹھتا ہے ۔ہر دن کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا ہے ۔میڈیا اس پر کہیں ماتمی لباس پہن کر خاموش ہو جاتا ہے اور کہیں بندروں کی طرح اچھل کود شروع کردیتا ہے ۔دو دن سے دہلی ،ہریانہ، پنجاب ،راجستھان اور مغربی اتر پردیش میں ایک بابا کو عدلیہ کی جانب سے زنا بالجبر کا مجرم قرار دیئے جانے کے بعد ان کے عقیدتمندوں کی جانب سے ملک سے بغاوت جیسی صورتحال ہے ۔فیصلہ آنے سے قبل ہی بابا گرمیت رام رحیم کے دو لاکھ سے زائد عقیدتمند اس اطراف میں جمع ہوگئے تھے ۔صرف ایک زنا بالجبر کے مجرم کو سزا سنانے کیلئے حکومت کو نیم فوجی دستوں کا سہارا لینا پڑا ۔اس کے باوجود حالات اتنے بگڑے کہ دو درجن سے زائد افراد کی موت واقع ہو گئی اور کئی سو زخمی ہیں ۔اس طرح کے واقعات ملک کی اندرونی سلامتی کیلئے ایک الارمنگ پوزیشن کی حیثیت رکھتے ہیں اگر حکومت حقیقی معنوں میں استحکام کیلئے کام کرنا چاہتی ہے۔موجودہ صورتحال پر سماجی رابطے کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر پر بھی پراکسی وار جیسا سماں ہے ۔
مذکورہ بابا گرمیت سنگھ کی حمایت کرتے ہوئے ہریانہ کے سنگھی وزیر اعلیٰ نے اپنے ٹوئٹر میں لکھا کہ ’’سنت گرمیت رام رحیم جی غریب مریضوں کی خدمت ،صفائی مہم ،تعلیم کے فروغ کیلئے اور نشہ مخالف سمیت سماجی رفاہی کاموں میں مصروف ہیں‘‘۔ایک مجرم کیلئے ریاست کا وزیر اعلیٰ دل میں کتنی عقیدت رکھتا ہے ۔مجرمانہ سوچ یہ رکھتے ہیں اور حب الوطنی کا درس مسلمانوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ٹوئٹر پر اچھے دن نام کے ایک صارف نے ایک تصویر منسلک کی ہے جس میں بابا گرمیت کو اہم بی جے پی لیڈروں کے ساتھ دکھایا گیا ہے ۔واضح ہو کہ یہ ساری تصویریں اصلی ہیں کسی فوٹو شاپ کا کمال نہیں ہے ۔فوٹومیں بابا کے ساتھ منوج تیواری ،کیلاش وجئے ورگی ،سید شاہنواز حسین اور ہریانہ کے وزیر اعلیٰ مسٹر کھٹر ہیں ۔یہ بی جے پی کا وہ چہرہ ہے جو انتہائی گھناؤنا ،مکروہ اور ناپسندیدہ ہے ۔لیکن اس کے ہاتھوں میں ہندوتوا کا علم ہے جس کے سہارے اس نے یہاں کے سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنا رکھا ہے ۔بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہاں کے لوگ بیوقوف ہی ہیں یہی سبب ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے بار بار ٹھگے جاتے ہیں ۔بابا کو عدلیہ کے ذریعہ مجرم قرار دیئے جانے کے بعد دو لاکھ سے زائد عقیدتمندوں کا یوں افراتفری کا ماحول پیدا کرنا آخر یہ بیوقوفی کی علامت نہیں تو اور کیا ہے ؟ابھی تو نچلی عدالت نے مجرم قرار دیا ہے ۔آگے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ باقی ہے ۔جب تک یقین رکھیں کہ بابا ،با عزت بری ہو جائیں گے ۔آخر اس بھیڑ کا اور اس کے ذریعہ برپا کئے جانے والے فسادات کا کچھ تو دباؤ بنے گا ہی ،ویسے بھی جمہوریت میں ایک ایک ووٹ قیمتی ہوتا ہے ۔یہاں تو لاکھوں ووٹوں کا سوال ہے ۔اوپر حقائق بتایا جاچکا کہ بی جے پی کہ اہم لیڈر کس طرح اس زنا بالجبر کے مرتکب بابا کے بھکت بنے ہوئے ہیں ۔بھلا اتنی قوت والوں سے بھی کوئی سیاسی پارٹی مخالفت مول لے سکتی ہے ؟بی جے پی تو بالکل بھی نہیں لے سکتی اسے توابھی 2019 میں انتخاب جیتنا ہے ۔سوائے ان سیاسی پارٹیوں کے جن میں کچھ ضمیرجیسی کسی شئے کی موجودگی ہے ۔ان کے علاوہ کسی نے بھی اس پر کھل کر اظہار رائے نہیں کی ہے ۔ بیشک لالو پرشاد کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ وہ کسی ایسے معاملے میں خاموش نہیں رہتے ۔چنانچہ انہوں نے ہریانہ میں حالات کے بگڑنے پر اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ’’ یہی کوئی مولانا کرتاتب دیکھتے سارے میڈیا والے جو مودی کے پالتو ہیں سفید ساڑی پہن کر بیواؤں کی طرح ماتم کرتے ‘‘۔ بالکل ٹھیک کہا لالو پرشاد نے ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے الزام میں قید ٹھاکر پرگیہ اور کرنل پروہت کے ساتھ بی جے پی کے کئی اہم لیڈروں کی تصاویر شائع ہوئیں ۔خود اڈوانی سادھوی پرگیہ کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے ۔بابا گرمیت سے قبل بابا رام پال کے ساتھ بھی بی جے پی کے تعلقات کی بات سامنے آئی تھی ۔اس کے بعد اب بابا گرمیت کے ساتھ بھی یہی معاملہ ۔آشا رام باپو کے ساتھ بھی امیت شاہ اور مودی کی تصاویر ہیں ۔لیکن کسی نے آج تک اس پر سوال نہیں اٹھائے ۔لیکن ذاکر نائک کا میٹر، محض بنگلہ دیش میں ایک شدت پسند کے فیس بک پر ذاکر نائک سے متاثر ہونے کی بات کیا سامنے آئی کہ انہوں نے مختلف بہانوں سے انہیں شکار کر ہی لیا ۔ٹوئٹر پر کِنجَل نام کی ایک صارف نے لکھا ’’بھارت تیرے ٹکڑے ہوں گے کہنے والے ملک کے غدار ہیں ،صحیح بات ہے ۔لیکن ،اگر بابا کو کچھ ہوا تو انڈیا کا نام و نشان مٹا دیں گے کہنے والے کون ہیں ؟‘‘ ۔اس طرح کے سوالات اب تعلیم یافتہ نوجوانوں کی جانب سے اٹھائے جانے لگے ہیں ۔ یہ وہ جوان ہیں جو واقعی نیا ہندوستان بنانا چاہتے ہیں ۔صرف مودی یا ریاست بدر کی سزا پانے والے شاہ کی طرح وہ محض الیکشنی جملہ نہیں بولتے ہیں ۔
بابا گرمیت کوئی پہلا مسئلہ نہیں ہے اور جس طرح کا معاشرہ یہاں ہے اور جیسی سوچ ہے اس سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ آخری معاملہ ہے ۔اوپر بتا دیا گیا کہ کوئی بھی اس طرح کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے ہزاروں چاہنے والے پیدا ہو جاتے ہیں ۔اس سے ایسا بھی محسوس ہو تا ہے کہ یہاں شاید روحانیت کا خانہ بالکل خالی ہے یہی سبب ہے کہ کوئی بھی ڈھونگی جب روحانی نجات کی بات کرتا ہے تو عوام کا ایک بڑا حصہ اس پر لبیک کہتا ہے۔ تقریبا ایک سال قبل بابا رام پال کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا ایسا ہی متھرا کا بھی کوئی معاملہ تھا ۔مسلمانوں کو ایک گروہ یہ بتاتے نہیں تھکتا کہ اسلام اور قرآن سے اوپر وطن پرستی اور یہاں کا مروجہ رواج یا قانون ہے۔ قومی ترانہ پر آئے دن وبال ہوتا رہتا ہے ۔لیکن کوئی انہیں نہیں بتاتا کہ یہاں ایک قانون ہے اس ملک کا ایک دستور ہے جس کے تحت فیصلے ہوتے ہیں ۔کسی کو عدلیہ نے مجرم قرار دے کر اگر سزا کا مستحق قرار دیا ہے تو اس میں اس قدر تشدد کی کیا ضرورت ہے ۔ابھی تو عدلیہ کے کئی مرحلے ہیں ۔اگر باباکے عقیدتمندوں کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے تو ابھی دو عدالتیں ہیں اس میں اپنا موقف رکھئے ۔حالانکہ مسلمانوں کے ساتھ حقیقی معنوں میں ناانصافی ہوتی ہے ۔کئی معاملہ میں انہیں فرضی طور پر پھنسایا جاتا ہے وہ نچلی عدالت کے فیصلے پر قانون کے دائرے میں نکتہ چینی کرتے ہیں تو انہیں ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے ۔ ہمارے سامنے کئی ایسے معاملے ہیں جن میں ہمیں عدالت عظمیٰ سے بھی انصاف نہیں ملا لیکن یہاں ہم اس کو بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتے ۔ہم پولس اور انتظامیہ سے سوال کرتے ہیں کہ یعقوب میمن کے جنازے میں شامل ہونے سے عام مسلمانوں کو روکنے کیلئے جگہ بجگہ رکاوٹیں کھڑی کی جاسکتی ہیں ۔یعقوب مرحوم کے رشتہ داروں پر جنازے کے وقت کا اعلان نہیں کرنے کا دباؤ بنایا جاتا ہے، لیکن گرمیت سنگھ کو مجرم قرار دینے سے قبل ان کے عقیدتمندوں کو روکنے کیلئے کوئی ٹھوس کارروائی کیوں نہیں کی گئی ؟ جس کی وجہ سے دو درجن سے زائد انسانوں کی جان گئی اور سینکڑوں زخمی ہو گئے ۔کیا امن و قانون کی پاسداری کی ٹھیکیداری صرف مسلمانوں کے سر ہے ؟ہم یہ دیکھتے ،محسوس کرتے ہیں کہ یہاں فیصلہ،انتظامیہ کی کارروائی اور حکومت کی پالیسی سامنے والے کی ذات اس کا مذہب اور اس کی قوت کے زیر اثر ہے ۔ نہ آززاد عدلیہ آزاد ہے نہ جمہوری میڈیا بے لاگ ہے اور انتظامیہ کا تو پوچھنا ہی کیا اس کا تو کوئی جواب ہی نہیں ۔جس طرح سے بابا گرمیت اور اس سے قبل رام پال اور کچھ حد تک آشا رام جیسوں نے جرم کرنے کے بعد اپنے عقیدتمندوں کے ذریعہ حالات کو دھماکہ خیز بنایا ہے ملک کی سلامتی تئیں فکر مندلوگوں کیلئے انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے کیوں کہ یہ ایک ٹائم بم ہے کسی دن بہت بری طرح پھٹے گا اور ایسا خطرناک رخ اختیار کر ے گا کہ حالات بے قابو ہو جائیں گے اور ملک کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی ۔کوئی مانے یا نا مانے لیکن یہ بات طے ہے کہ ایسے مسائل سیاست دانوں کی جانب سے ملک پر تھوپے جارہے ہیں تاکہ غیر ملکی خطرہ جو ہماری سلامتی کیلئے چیلنج ہے اس جانب سے عوام کے ذہن کو ہٹا کر اس طرح کے خانگی مسائل میں الجھایا جاسکے ۔

0 comments:

Muslim Issues

بہت سخت ہیں واعظ کی چالیں


قاسم سید
ایک مجلس میں تین طلاق پر پابندی اور اسے غیر آئینی وغیر قانونی قرار دینے سے سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے فیصلہ  نےہندوستان کی سیاست میں عارضی طورپر ہلچل پیدا کردی ہے ۔ سب سے دلچسپ اورحیرت والی بات یہ ہے کہ اس معاملہ کے تمام فریق فیصلہ کو اپنے حق میں بتا کر شادیانے بجارہے ہیں اور ہر فریق اپنے متبعین کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہا ہے کہ سپریم کورٹ نے ہمارے حق میں ہی فیصلہ سنایا ہے ۔ حکومت ہند نے اسے عورتوں کے حقوق کی جنگ میں فتح سے تعبیر کیا ،وزیراعظم نے تاریخی بتایا ۔ مسلمانوں کے دلوں کی سرتاج کانگریس کے نزدیک ترقی پسندانہ قدم ، بی جے پی کے مطابق نیوانڈیا کی جانب قدم اور اسی کے ساتھ خواتین تنظیم کی باچھیں بھی کھلی ہوئی ہیں اور تو اور مسلم پرسنل لابورڈ نے بھی اس کا خیر مقدم کیا اوراس موقف کے لیے اس کے پاس دلائل ہیں ۔ علماکے درمیان حسب روایت سنگین اختلافات نظرآیاکوئی خیر مقدم کررہا ہے تو کوئی اسے خلاف شریعت قرار دے رہا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم بے وقوف بننے کی ادا کاری کررہے ہیں یا دوسروں کو بے وقوف بنانے کی خدا داد صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ واقعی ہم جیت گئے ہیں یا اپنی ناکامی کو مسکراہٹ میں چھپارہے ہیں اگر بورڈسپریم کورٹ کے فیصلہ میں تضاد دیکھ رہا ہے تو اس کے کلیدی وکیل کپل سبل اس کے حق میں کیوں ہیں جبکہ عدالت نے صاف طور پر کہا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہیں اور اس روایت کو آئین کی دفعہ 25(بنیادی حقوق سے متعلق قانون) کا تحفظ حاصل نہیں ہے لہٰذا اسے ختم ہوناچاہئے یہی نہیں دو کے مقابلے تین ججوں نے اپنے فیصلہ میں ایک مجلس میں تین طلاق کو آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی قرار دیا جومساوات کا حق دیتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس نظام کو اکثریت کے ساتھ مسترد کردیا ۔ اس پر ہمیشہ کے لیے پابندی عائد کردی گئی اور یہ قابل دست اندازی قانون ہے حکومت جب تک قانون نہیں بناتی عدالت کا حکم امتناعی جاری رہے گا اس لیے حکومت کو بھی قانون بنانے کی کوئی جلدی نہیں ہے ، وہ ٹھنڈا کرکے کھانا چاہتی ہے اسی طرح  جیسے بابری مسجد کی مسماری مقصود تھی مندر کی تعمیر ترجیحات میں شامل نہیں تھی ۔
بہرحال فیصلہ آچکا ہے ، عدالت نے لائن کھینچ دی ہے اس سے تجاوز کرنے والے کو عدالت سے انصاف ملے گا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مظلوم مسلم خواتین کو اس سے بظاہر کوئی فائدہ نہیں ملنے والا لیکن ایک ساتھ تین طلاق دے کر عورت کو گھر سے نکال دینےاور اس کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے لیے مشکل منزل ضرور آگئی ہے ہم یہ کہہ کر آگے نہیں بڑھ سکتے کہ ایسا کرنے والے مٹھی بھر ہیں زہر کی تھوڑی سی مقدار جان لینے کے لیے کافی ہوتی ہے ۔ یہ سچ ہے کہ ایک سماجی برائی کو قانون کے ذریعہ ٹھیک نہیں کیاجاسکتا مثلاً عصمت دری کے خلاف سخت ترین قانون کی تشکیل نو سزائے موت کے التزام کےباوجود نربھیا جیسے واقعات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی مگر یہاںیہ سوال زیربحث نہیں ہے مسلم پرنسل لابورڈ دس ستمبر کوطے کرے گا کہ اس کا اگلاقدم کیاہوگا ہمیں اس کا انتظار کرناچاہئے۔ لیکن بورڈ کو یہ بھی اعتراف کرناچاہئے کہ سپریم کورٹ کے اندر اس کے حلف نامہ کی کمزوری مقدمہ لڑنے کے انداز اور لگاتار پسپائی نے ان خدشات کو پہلے ہی جنم دیاتھا کہ ہم مقدمہ ہارنے والے ہیں اور ایک معاملہ جو باہمی افہام وتفہیم اور مشاورت سے حل کیاجاسکتا تھا اسے عدالت کے سپرد کردیا ۔ مسلمانوں کے ایک طبقہ میں ایک مجلس میں تین طلاق کے جواز اور عدم جواز سے متعلق واضح موقف موجود ہے، مگرمسلکی بالاتری اور عددی اکثریت کے زعم نے یہ گوارانہیں کیا اور ہم نے ایک تاریخی موقع گنوادیا۔ عدالتیں خود فیصلہ نہیں کرتیں جب کوئی ان کے پاس انصاف کے لیے جاتا ہے تو ثبوت وشواہد کی بنیاد پر فیصلے دیتی ہیں۔ شاہ بانو یا بابری مسجد اور سائرہ بانو کیس کے خلاف ہم نے تحریک چلائی حکومت نے ایک قانون وضع کیا جس کی رو سے طلاق کے بعد نان ونفقہ کو خلاف شریعت قرار دے دیاگیا لیکن اس میں یہ شق بھی رکھ دی گئی کہ اگر میاں بیوی دونوں شریعت کی بجائے دستور ہند کے مطابق فیصلہ کرانا چائیں گے تو اس کی انہیں اجازت ہوگی اس لیے اب یہ گنجائش موجود ہے کہ حکومت قانون بنائے گی تواس میں ایک ساتھ تین طلاق غیرقانونی وغیر آئینی ہوگی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوںکے خلاف مطلقہ عدالت سے رجوع کرکے اسے سزا دلواسکے گی یعنی فتنہ کاایک اوردروازہ کھل گیا ہے اس سے پیداہونے والے سماجی انتشار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ مسلم پرسنل لابورڈ کے خلاف حلف نامہ پر غورکریں تو اس سے خود پارلیمنٹ سے قانون سازی کاراستہ ہموار کیا اس نے کہا تھا کہ عدالت کو قانون سازی کا حق نہیں یہ کام صرف پارلیمنٹ کرسکتی ہے چنانچہ عدالت نے ایک ساتھ تین طلاق پر پابندی لگاکر حکومت سے کہہ دیا کہ وہ قانون بنائے ،ہم نے شاہ بانو کیس سے کوئی سبق نہیں لیا۔بابری مسجد کی طویل قانونی جنگ کا پہلا رائونڈ ہارگئے اس سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ اب سائرہ بانو کیس میں شکست کا منھ دیکھ لیا اورامید ہے کہ اس سے بھی کوئی سبق نہیں لیں گے۔ خدا کرے یہ بات غلط ثابت ہو لیکن آثار وقرائن بتاتے ہیں کہ بابری مسجد کا فیصلہ ہمارے حق میں نہیں آنے والا ۔ بدقسمتی یہ ہےکہ ہم دوسروں سے رواداری ،تحمل اور برداشت کاثبوت دینے کی توقع کرتے ہیں مگر خود اختلاف رائے کو کسی قیمت پر برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسے ناقابل معافی جرم سمجھنے والا گروہ ہر اس شخص پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ اسے مسلم مخالف ،اسلام مخالف ،زندیق ،منافق،بی جے پی کا ایجنٹ ،بکائو جیسی مہذب گالیاں فراخ دلی سے دے کر اپنے کلیجہ کی آگ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور یہ نہیں سوچتا کہ سامنے آنے والے کے پاس میں عزت نفس نام کی بھی کوئی چیز ہوگی۔
اس منظم گروہ نے اپنی پسندیدہ ایجنسیوں اور اداروںکو مقدس گائے بناکر پاگیزگی کا ہارکھینچ دیا ہے کہ ان سے غلطیوں کا ارتکاب ناممکن ہےوہ انسان نہیں فرشتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر سرگرم عناصر اپنے شکار کی تاب میں گئو رکشکوں کی طرح اپنی مقدس گائے کے تحفظ کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں اس کی تکا بوٹی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس موقع پر انہیں اسوئہ حسنہ یادنہیں آتا ۔ جس اخلاق کی تمام تعلیمات صرف عوام الناس کے لیے ہوتی ہیں خود ان کا نفاذ نہیں کیاجاتا۔ بہرحال اب جو لوگ اس پسپائی اور شکست کو ملت کے حق میں خیروبرکت سے تعبیر کررہے ہیں اور عقیدت مندوں کی فوج اس پر جھوم رہی ہے۔ اس پر کیاکہاجاسکتاہے۔ خوش فہمی کے تار عنکبوت نے حقائق کو ہماری آنکھوں سے اوجھل کردیا ہے ہم وہی سننااوردیکھنا پسند کرتے ہیں جو ہمیں بھاتا ہے اور اچھا لگتا ہے ۔ مزاج کے خلاف کوئی بات یامشورہ سننے کی تاب بالکل ختم ہوگئی ہے۔ اگر کوئی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے سنگین اور دور رس اثرات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتا تو اس کے لیے دعائے خیربھی کی جاسکتی ہے ۔ عدالت نے تین طلاق پرپابندی نہ لگاکر آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کا تحفظ کیا مگر طلاق دینے کے ایک طریقہ پر پابندی لگاکر ہمیں آئینہ دکھانے کی کوشش ضرور کی ہے آگے حلالہ اور تعدادازدواج کامسئلہ منھ پھاڑے کھڑا ہے اس کی قانونی لڑائی کے لیے ذہنی طور پر تیار رہناچاہئے۔
اس وقت سرکارسیاسی پارٹیاں انتظامیہ برسراقتدار سب ہمارے خلاف ہیں کہیں سے کوئی کمک ملنے کی امید نہیں ہے ۔ احتجاجی تحریکیں چلانے کا سلیقہ نہیں اور نہ ہی اب حالات اس کے متحمل ہوسکتے ہیں ۔ ملک بچائو دستور جیسی تحریک نہ پہلے موثر تھی نہ آگے ہوگی اس کا انجام سامنے آگیا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے پاس متبادل بہت کم ہیں جو ہماری آنکھ کانور ہے یہی ایک ادارہ اب تک اپنی ساکھ کو باقی رکھ سکا ہے مگراب وہ بھی دائو پر ہے ۔ سیاسی عزائم رکھنے والے اپناآلہ کار بناناچاہتے ہیں ۔ یہ امتحان کی گھڑی ہے مسلکی تنازعات نے ہمیشہ نقصان اور دوسروں کو فائدہ پہنچایا ہے مگرہم اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ مسلمانان ہند بڑی بے صبری کے ساتھ بورڈ کے آگے  کےقدم کا انتظار کررہے ہیں ۔ یہ دل اور فریب کھانے کو تیار نہیں ہے ۔ نئی نسل کے ساتھ مذاکرات اور صبروتحمل کے ساتھ اپنی بات پہنچانے کاچیلنج سب سے بڑا ہے ۔
editorurk@gmail.com


0 comments:

featured

کیا موجودہ حکومت نازیوں کی راہ پر گامزن ہے؟



نہال صغیر

گوا کے ایک چرچ کے ترجمان مجلہ نے موجودہ مودی حکومت کا موازنہ جرمنی کی نازی سے کی ہے ۔ساتھ ہی اس نے گوا نے رائے دہندگان سے ایسے لوگوں کو ووٹ نہیں دینے کی اپیل کی ہے ۔ یہ عام بات ہے کہ جب بھی حکومتی ظلم و ستم اور جبرکی بات کی جاتی ہے تو نازی یا ہٹلر کی مثال پیش کی جاتی ہے ۔حالانکہ یہ پوری طرح ٹھیک نہیں ہے ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ ہٹلر نے ظلم و ستم کے وہ پہاڑ یہودیوں پر نہیں توڑے جس کا آجکل ذکر کیاجاتا ہے ۔یہ سچ ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جرمنی کو اقتصادی کساد بازاری میں دھکیلنے اور اپنے سرمایہ کی مدد سے یہودیوں نے جرمنی ہی کیا یوروپ کے اور بھی ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی نیز انہوں نے سرمایہ کی مدد سے ذرائع ابلاغ پر قبضہ کیا اور اس کی مدد سے شخصیت اور قوموں کی شبیہ داغدار کرنے کی بھی کوشش کی ۔ہٹلر اس کے ردعمل میں ابھرنے والا نام ہے ۔ہاں لیکن وہ ردعمل ظالمانہ رخ اختیار کرگیا ۔ یہ غلط تھا ،ہمیں یہ حق کہیں سے بھی نہیں ملتا کہ چند سرمایہ داروں یا مجرموں کے جرم کی سزا پوری قوم کو دی جائے ۔لیکن یہودیوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ان لوگوں کیلئے مشکلات کھڑی کیں جنہوں نے انہیں امن امان سے رہنے دیا ۔اس میں مسلم حکومتوں کا نام اول ہے ،جہاں وہ پورے اطمینان اور امن کے ساتھ رہے لیکن انہوں نے اپنی سازشی روش کو کبھی نہیں بدلا ۔ یہانتک کہ اس کی مدد سے وہ مسلمانوں کے خطہ ارض مقدس فلسطین و بیت المقدس پر قبضہ کرلیا ۔ہٹلر میں خواہ کچھ کمی رہی ہو لیکن وہ بہر حال سازشی نہیں تھا ۔اس نے محسوس کیا کہ یہودی سرمایہ دار جرمنی کو دیمک کی طرح اندر سے کھوکھلا کررہے ہیں ۔اس لئے اس نے انتقام کے طور پر اس ہولو کاسٹ کو انجام دیا جس کے بیشتر قصے محض مفروضے ہیں ۔لیکن یوروپ کے ارباب اقتدار کی مجبوری یہ ہے کہ وہ یہودیوں کے تئیں اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کیلئے صرف جرمنی ،نازی اور ہٹلر کے ناموں کی گردان کرکے خود کو پوری دنیا کے سامنے امن و انصاف کا علمبردار قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔یوروپ کا جرم یہ ہے کہچونکہ ان کی اکثریت عیسائیت کا عقیدہ رکھتی ہے اس لئے انہوں نے یہودیوں کو عیسیٰ علیہ السلام کا قاتل قرار دے کر ان کو واجب القتل قرار دیا اور یوں پورے یوروپ میں انہیں کہیں بھی امن و سکون نہیں ملا اس دوران انہیں کہیں امن نصیب ہوا تو وہ مسلمانوں کی حکومت یا آبادی تھی جیسا کہ قبل بیان کیا گیا ۔ہولو کاسٹ پر کوئی سوال نہ اٹھائے اور دیگر یوروپی اقوام کے جرائم کسی کے سامنے نہ آئیں اس کیلئے انہوں نے ایک قانون بھی بنوا رکھا ہے کہ کوئی بھی شخص ان کے ان مفروضوں یعنی فرضی ہولوکاسٹ پر سوال نہیں اٹھائے ۔ایسے کئی صحافی اور دانشور اس قانون کی زد میں آچکے ہیں جنہوں نے یہودیوں کے خلاف فرضی ہولوکاسٹ کی کہانیوں پر سوالات کھڑے کئے ۔
موجودہ حکومت کو نازیوں کے ہم پلہ یا اس سے زیادہ خطرناک قرار دینا اصل میں یا تو موجودہ حکومت کو کہیں نہ کہیں اخلاقی طور پر فائدہ پہنچانے جیسا ہے یا نازیوں کو پوری طرح سے انسانیت مخالف قرار دینے کی کوشش ہے ۔اب ہمارے دور کا دستور بھی یہی بن گیا ہے کہ جس دھڑے پر لوگ سوچ رہے ہیں اسی پر کہتے جائیے یا لکھتے جایئے الگ سے آپ کو کچھ لکھنے یا سوچنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ ویسے موجودہ ہندوستانی حکومت کی دماغی کیفیت سے تضادات کا اظہار ہوتا ہے جیسے یہ جبر اور تشدد اور حکومت پر قبضہ کرنے کیلئے ہٹلر کو آئیڈیل قرار دیتے ہیں تو دوسری جانب ہٹلر کے کٹر دشمن یہودیوں سے بھی دوستی گانٹھنے میں انہیں کوئی عار نہیں ۔یہاں معاملہ حب علی کا نہیں بغض معاویہ کا ہے۔موجودہ حکومت فی الحال دو مذہبی گروہوں سے نفرت جیسی حالت میں ہے ۔اس میں مسلمان اور عیسائی شامل ہیں ۔ویسے انہیں محض اونچی ذات کے ہندوؤں کے علاوہ کسی سے دوستی یا ہمدردی نہیں ہے ۔یہ لوگ اپنی کارروائیوں سے بھی یہی کچھ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ مثال کے طور پر ملک میں دو ہی مقامات ایسے ہیں جہاں اکثر حملے ہوتے ہیں مسجد اور گرجا گھر اور فی الحال گائے کے نام پر یہ مسلمانوں کے ساتھ دلتوں کو تشد کا نشانہ بنارہے ہیں ۔حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ چرچ کے ترجمان مجلہ کے مضمون میں کہا گیا کہ اس تو بہتر بدعنوانی والی حکومت ہی اچھی تھی جہاں ہمیں اپنی باتیں رکھنے اور اپنی پسند کی غذا کھانے پر کوئی پابندی نہیں تھی ۔یعنی پچھلے ساڑھے تین برسوں کی قلیل مدت کی ان کی حکومت میں احمقانہ اقدام سے عوام اتنے پریشان ہو گئے ہیں کہ وہ ایسے اچھے دن سے توبہ کرنے اور پرانے خراب دنوں میں ہی لوٹ کر جانا چاہتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ یہ حکومت جرمنی کی نازی حکومت کی طرح ہی خراب ہے ؟ میرا ماننا یہ ہے کہ یہ اس سے زیادہ بری ہے ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ ہٹلر کا رویہ یہودیوں کی برائی کی وجہ سے تھا لیکن یہاں جو دو قوموں کے خلاف موجودہ حکومت کی پروپگنڈہ مشنری مصروف ہے اس نے ہندوستان کو بگاڑا نہیں بنایا ہے ۔وہ اس سے لُوٹ کر لے جانے کے بجائے اس کے بنیادی ڈھانچے کو درست کرنے کی کوشش کی ہے ۔مسلم بادشاہوں نے جہاں یہاں خوبصورت عمارتوں کشادہ سڑکوں اور عوامی سہولیات کا جال بچھایا وہیں انگریزوں نے ہندوستان کو ریل اور یہاں کی پسماندہ اقوام کو قانونی تحفظ فراہم کیا ۔اس لئے موجودہ حکومت کے رویہ کو ہم جرمنی کے نازی سے زیادہ ظالمانہ سمجھتے ہیں ۔ان کے منحوس سایے جہاں جہاں پہنچ رہے ہیں وہاں فسادات کی آگ پھیل رہی ہے ۔حالیہ مثال بہار کی دی جاسکتی ہے جہاں جب تک حکومت میں لالو پرشاد کی پارٹی شامل رہی تب تک ریاست میں امن و امان کا ماحول رہا لیکن جیسے ہی نتیش نے اپنی سیاسی وفاداری میں تبدیلی کرتے ہوئے بی جے پی کا دامن تھاما گؤ دہشت گردوں کا ننگا ناچ شروع ہو گیا ۔ ایک بات اور ہٹلر کو جھوٹ پھیلانے والا کہا جاتا ہے لیکن اگر وہ ہمارے وزیر اعظم کی تقریر سن لیتا تو اسے دل کا دورہ پر جاتا کہ کوئی اس دنیا میں اس کا بھی باپ ثابت ہو سکتا ہے ۔موجودہ حالات میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس سے ملک کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے ؟ جیسا کہ عوام کو یا دنیا کو بتایا جارہا ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے ملک کو صرف نقصان ہی ہوگا فائدہ کا کہیں کوئی امکان نہیں ہے ۔کوئی پاگل بھی اس بات سے اتفاق نہیں کرے گا کہ اس ہیجانی کیفیت اور پاگل پن والی پالیسی سے ملک یا قوم کو کوئی فائدہ ہو سکتا ہے ۔ہاں صرف اس تنظیم کو کچھ فائدہ ہو سکتا ہے جس کی مدد اور جھوٹے پروپگنڈے کی مدد سے موجودہ حکومت کا ووجود ہے ۔اس کامطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو دوسروں کو غدار کہہ کر انہیں پاکستان بھیج دینے کی بات کررہے ہیں انکے کارناموں نے انہیں غدار ثابت کردیا ہے اور اب انہیں پورے ملک کے عوام کو مل کر پاکستان اور چین بھیج دینا چاہئے ۔چین سے جاری حالیہ تنازعہ میں ہندوستانی قوم کو چینی افواج کا ترجمان ہر روز ذلیل کررہا ہے لیکن اس نام نہاد دیش بھکت حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ۔پتہ نہیں وہ لوگ کہاں مر گئے جو ملک کے وقار کی بات کرتے ہوئے مرنے مارنے کی باتیں کرتے تھے ۔

0 comments:

featured

مکمل آزادی کے بغیر ہی جشن آزادی


نہال صغیر

یوم آزادی کو گزرے ہوئے کئی دن ہوگئے ۔اسی کے ساتھ ہی جشن آزادی کا خمار بھی بہت حد تک اتر چکا ہے۔خبروں کے مطابق اترپردیش میں یوگی حکومت نے ان مدرسوں کی فہرست سازی شروع کردی جنہوں نے یوم آزادی پر ترنگا نہیں لہرایا ۔آج جمعہ 18 ؍کو 71 ؍ویں آزادی کے جشن کو منائے تین دن گزر چکے ہیں ۔ہند چین سرحد پر دونوں فوجیں آمنے سامنے ہیں ۔وہاں کیا ہو رہاہے اس پر کوئی خاص دھیان نہیں دیا جارہا ہے ۔اندرون ملک بے فیض وطن پرستی پر گفتگو کی جارہی ہے ۔حد یہ ہے کہ یہ بحث ان لوگوں کی جانب سے کی جارہی ہے جن کے آباء و اجداد نے انگریزوں کے تلوے چاٹے اور معافی تلافی کرکے ان کے لئے جاسوسی کی اور یوں ان سے مراعات حاصل کی۔اس بیچ ملک میں دلتوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک جاری ہے ۔آج پھر ایک خبر مدھیہ پردیش کے ساگر ضلع کے رینوجھاگائوں سے آئی ہے کہ ایک دلت خاتون کی ناک ایک اونچے ذات کے ہندوئوں نے کاٹ لی ۔اونچی ذات والے ہندو اس خاتون سے بندھوامزدوری کرنے کا مطالبہ کررہے تھے ۔انکار کرنے پر اس کے شوہر کو بری طرح مارا پیٹا گیا ۔ جب خاتون اپنے شوہر کو ہسپتال لے کر جارہی تھی راستے میں اونچی ذات کے ان دبنگوں نے اس کی ناک کاٹ لی ۔خاتون نے مدھیہ پردیش خواتین کمیشن میں شکایت درج کروائی جس کے بعد پولس میں خواتین کمیشن کی نگرانی میں ایف آئی آر درج ہوئی ۔دلت خاتون کا خواتین کمیشن میں مدد کیلئے جانا ہی یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ پولس تھانے میں دلتوں کی کوئی سنوائی نہیں ہے لہٰذا مجبور ہو کر وہ خواتین کمیشن میں گئی ۔خواتین کمیشن نے یقین دہانی تو کرائی ہے کہ اس سنگین مجرمانہ حرکت پر سخت کارروائی کی جائے گی ۔لیکن موجودہ صورتحال میں اس پر کم ہی یقین کرنے کو جی چاہتا ہے ۔
مذکورہ بالا واقعہ یہ بتاتا ہے کہ ستر سال بیت جانے کے باوجود بھی معاشرتی عدم مساوات کے دائرے سے ہندوستان کو آزادی نہیں ملی ہے ۔مدھیہ پردیش ،راجستھان میں دلتوں کے ساتھ توہین آمیز رویہ کی خبریں آئے دن آتی رہتی ہیں ۔کہیں دلتوں کی بارات میں دولہے کو گھوڑی سے اتار کر مارا جاتا ہے کہ ان کی یہ مجال کے وہ اونچے ذات کے ہندوئوں کے سامنے شان سے گزریں ۔کہیں کنویں میں زہر ملا دیا جاتا ہے کہ وہ اس کنویں سے پانی نہ لے سکیں ۔گجرات کے پرائمری اسکولوں میں دلت بچوں کو کھانا الگ دیا جاتا ہے ۔وہ ایسی جگہوں پر بیٹھتے ہیں جو انسانوں کے بیٹھنے کے قابل نہیں ہوتی ۔انہی حالات کے مدنظر اور اسی ادھوری آزادی پر وامن میشرام کہتے ہیں کہ ’آزادی تو ہمارے لئے ایک افواہ ہے ‘۔  دلت تحریک سے جڑے اکثر قائدین کا کہنا ہے کہ 1947 میں ہمیں آزادی نہیں ملی ہے بلکہ حکومت کا تبادلہ ہوا ہے ۔اسی بات پر بعض اردو کے مضمون نگار اکثر لکھتے ہیں کہ 15 ؍اگست 1947 کو گورے انگریزوں سے حکومت کالے انگریزوں کو منتقل ہو ئی ۔لیکن ہم ہر سال جشن یوم آزادی مناتے ہیں جبکہ آزادی ہنوز ایک خواب ہی ہے ۔ستر کی دہائی میں ملک میں بڑھتی بدعنوانی اور ظلم و جبر کے کیخلاف جے پرکاش نارائن اور لوہیا وغیرہ کو دوسری آزادی کے نام سے تحریک چھیڑنے کی ضرورت پڑی ۔اس تحریک کو انہوں نے ’مکمل آزادی ‘ کا نام دیا تھا ۔ہوا یہ کہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں حصہ بڑھ چڑھ کر تو مسلمانو ں نے لیا لیکن اسے بعد میں ہائی جیک کیا برہمنوں نے ۔اونچی ذات کے ہندوئوں جس میں برہمن خاص ہیں کے اسی رویہ اور بد نیتی کے سبب کولہا پور کے راجا شاہو اور دلتوں معروف لیڈر ڈاکٹر امبیڈکر نے ہمیشہ سماجی نابرابری کیخلاف تحریک میں حصہ لیا لیکن نام نہاد انگریزوں سے آزادی پر انہوں نے کوئی دھیان نہیں دیا ۔شاہو مہاراج پر اکثر لوک مانیہ تلک اپنے اخبار کیسری میں شاہو مہاراج کو انگریزوں کا حاشیہ بردار کہتے تھے اور ان کے آزادی کی تحریک میں حصہ نہیں لینے پر تنقید کیا کرتے تھے تو انہوں نے ہمیشہ اس کے جواب میں ایک ہی بات کہی کہ ہمارے لئے انگریزوں سے سیاسی آزادی سے زیادہ دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کی سماجی آزادی کی اہمیت ہے اور انہوں نے اپنی ساری زندگی میں اسی پر عمل کیا ۔
ملک میں بڑھ رہی ہندو دہشت گردی ،مسلمانوں پر بیف کے نام پر حملے اور دلتوں کے خلاف ہتک آمیز رویہ کو دیکھتے ہوئے ایک بار پھر ضرورت آن پڑی ہے کہ مسلمان اور دلت مل کر رام منوہر لوہیا اور جئے پرکاش نرائن کی طرح تیسری آزادی کی تحریک چھیڑیں ۔یہ تحریک پوری ہو مکمل ہو اور جوش و جذبات سے الگ ہٹ کر مسلمانوں ،دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کو مشترکہ طور پر چھیڑنی ہو گی ۔کہیں کہیں سے اس کی آواز اٹھنے لگی ہے ۔لیکن اس پر ابھی تک مکمل حکمت عملی تیار نہیں ہوئی ہے ۔ملک پر موجودہ طبقہ کی برتری نے اسے کمزور کیا ہے اور دنیا میں دوسری آبادی رکھنے اور ایک بڑے جغرافیائی خطہ رکھنے کے باوجود اس ملک کی وہ حیثیت نہیں جو اس کا حق ہے ۔اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی کھلے مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی حکمت عملی نافذ کی گئی اور در پردہ دلتوں اور پسماندہ طبقات کو بھی اسی لپیٹ میں لیا گیا ۔صرف پندرہ فیصد آبادی کے مفاد کی کوشش کی گئی ۔جب ملک کی پچاسی فیصد آبادی کو نظر انداز کیا جائے گا تو ملک کہاں ترقی کرسکتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ آج چین ہمیں آنکھیں دکھانے کی جرات کررہا ہے ۔

0 comments:

Muslim Issues

خاموش مزاجی کے سائڈ افیکٹ



قاسم سید

اگرکوئی دھیر ےدھیرےہماری پیٹھ کو دیوار سے لگانے کے لیے دھکے دیتاجائے اور ردعمل کے طورپر خاموشی اختیار کی جائے تو اس رویہ کو مختلف انداز سے تعبیر کیاجاسکتا ہے مثلاً شرافت کی وجہ سے مزاحمت کرنے سے گریز کیا جارہاہے۔ حکمت عملی کے تحت جواب نہیں دے رہے ہیں یا پھر بزدلی خوف ودہشت نے منھ پر تالے لگادیے ہیں۔ حسن ظن کہتا ہے کہ پہلے رویوں پر یقین کیا جائے قنوطیت کا مزاج اسے بزدلی کہنے پر آمادہ ہے۔ گئورکشکوں کے ذریعہ جہاں جی چاہا پٹائی کرنےپیٹ پیٹ کر مار ڈالنے پر بحیثیت مجموعی دفاعی پوزیشن اپنائی تاکہ ٹکرائو کی صورت نہ بن جائے ارباب فکر ونظر بھی یہی سمجھاتے رہے کہ خاموشی زیادہ بہتر ہے مقابلہ بہت سخت ہے ۔ سواد اعظم نے صدق دلی سے مشورہ کو قبول کیا شاید اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا ۔ مبینہ گئو رکشکوں کو سرکاری سرپرستی نے اچھی طرح سمجھا دیا کہ تصادم سےمزاحمت کا نتیجہ کیاہوسکتا ہے کیونکہ ورغلانے ،سڑکوں پر اترنے کے لیے اکسانے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی تلقین کرنے والے عین موقع پر غائب ہوجاتے ہیں غریبوں کے گھرجلتے ہیں ان پر سنگین مقدمات قائم کئے جاتے ہیں۔ گرفتار یاں ہوتی ہیں تو دور دور تک کوئی خیریت لینے والانظرنہیں آتا۔ ملت کا مزاج ویسے ہی آتشیں اور فوری ری ایکشن والابنادیاگیا ہے جو بہت جلد کسی کو بھی غدار ،منافق ، ملت دشمن ،اکابر مخالف کا فتویٰ جاری کردیتا ہے جس طرح حکومت نے یہ وطیرہ بنالیا ہے کہ جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا دشمن ہے جو سرکار مخالف ہے وہ دیش دروہی ہے بعینہٖ ہمارا مزاج اسی سانچہ میں پہلے سے ڈھلاہواہے اختلافات رائے ناقابل برداشت اور نکتہ چینی کرنے والا اکابر دشمن اورناقابل معافی ۔
بہرحال اب بات کافی آگے بڑھ گئی ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر پاکستان بھیج دینے کی دھمکی یا پاکستان چلے جانے کاطنز،بھارت میں رہنے کے لیے شرائط میں ہر روز نئی شرط کی شمولیت اپنے آپ میں ایک آزمائش ہے اس پر کچھ عاقبت نااندیش جن کی معاملہ فہمی پر کبھی بھی شک ہوتا ہے غیر ضروری امور پر حلال وحرام کا فتویٰ دے کر آگ میں گھی ڈال کر ان لوگوں کے کاز کو نئی تقویت بخشتے ہیں مثلاً کوئی مفتی اعظم راشٹرگان گانے کو حرام قرار دے کر پوری ملت کو شک وشبہ کے کٹہرے میں کھڑا کردیتے ہیں جبکہ خود ان کے بچے سینٹ مری میں زیرتعلیم ہیں اور لازمی طور پر جھنڈا سلامی کے ساتھ راشٹر گان بھی گاتے ہوں گے جبکہ ان کے میڈیا کو آرڈی نیٹر جو اس فتویٰ کو پریس کے حوالہ کرتے ہیں ان کے تمام بچے سینٹ بسنیٹ میںپڑھتے ہیں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ عمل کے دہرے پیمانے کیونکر قابل قبول ہوسکتے ہیں۔ اب یہ نہیںچلنے والا کہ بقول اقبال ’جب چاہے کرے تازہ شریعت ایجاد‘
71ویں یوم آزادی کی مناسبت سے اترپردیش سرکار نے ایک سرکلر جاری کیا جس میں مدارس کے لیے راشٹر گان کااہتمام کرنے کے ساتھ جھنڈا سلامی کولازمی قرار دینے کے ساتھ احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں پر کارروائی کی تنبیہ کی گئی ۔ ساتھ ہی ویڈیو گرافی کرکے متعلقہ دفتر میں جمع کرنے کا حکم بھی صادر کیا ۔ظاہر ہے کہ اس پر ملک کے کم وبیش ہرطبقہ نے صدائے احتجاج بلند کی کہ یہ آئین کی روح کے منافی تو ہے ہی صرف مدارس کو پابند کرکے انہیں شک وشبہ کے دائرے میں قید کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اورمسلمانوں کے ساتھ مدارس کی حب الوطنی پرانگلی اٹھانے والاقدم ہے ۔ اس کے دوراستے ہیں پہلا تمام مدارس مل کر اس حکم کو اس لیے ماننے سے انکار کریںکہ راشٹر بھکتی کو جبراً تھوپا نہیں جاسکتا اورہمیں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینے کی ضرورت نہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ کسی کو راشٹرگان گانے کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا ،اس کا تعلق دل سے ہے۔ احترام محبت عقیدت کا پہلا زینہ دل سے ہوکر گزرتا ہے پھرمختلف صورتوں سے اظہار ہوتا ہے ۔ مسلمان ہوں یا مدارس کوئی کتنی بھی خاک ڈالنے کی کوشش کرے جنگ آزادی اور اس کے بعد ملک کی تعمیر وترقی میں ان کے کردار کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔
دوسری صورت یہ تھی کہ بےچوں چراتعمیل کرکے قانون پسندشہری ہونے اور سرکاری احکامات کی فرمانبرداری کرکے حوصلہ دکھا یا جاتا مگر امت اس معاملہ میں بھی متحدہ موقف پیش کرنے میں ناکام رہی اور بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آئیں۔ ملت کی مقتدر جماعتوں اور سرکردہ علما نے چپ رہنے میں عافیت سمجھی ۔ دیوبند کی تاریخ میں اخبارات کی رپورٹنگ کے مطابق پہلی بار جھنڈا لہرایاگیا اور سلامی دی گئی۔ کہیں جھنڈا سلامی کے ساتھ راشٹر گان بھی گایاگیا۔ اس کی ویڈیوگرافی کرکے سرکار کے حضور بھیجی گئی کہ جو سرکلر تھا اس کے مطابق عملدرآمد ہوا ہے یعنی حب الوطنی کاسرٹیفکیٹ داخل کردیاگیا۔ اس پورے قضیہ میں روشن پہلو یہ سامنے آیا کہ اب بڑے مدارس اور علما کو بھی فوٹو گرافی ،ویڈیو گرافی سے پرہیز نہیں اس پر لگائی پابندی کا عملاً کوئی جوازنہیں رہا۔ کوئی اس پر احتجاج کرے تو وہ محض لفاظی بھر رہ گیا ہے۔ یہی نہیںہمارے موقر اسکالر وعلماحضرات اپنے پروگراموں کا ٹی وی پرراست ٹیلی کاسٹ کا بھی اہتمام کرنے لگے ہیں ۔ ٹی وی دیکھنے کو حرام قرار دی جانے والی باتیں بھی متضاد رویہ کی نشاندہی کرتی ہیں۔
بہر کیف محسوس یہ ہوتا ہے کہ سرکار کی ایک تنبیہ نے مسابقت کی دوڑ لگادی۔ سوشل میڈیا پر مدارس میں منعقد پروگرام کی تصاویر ورپورٹیں آئیں ۔ اس نے بتایاکہ ہم کتنے امن پسند وقانون کی پاسدار ی کرنے والے شہری ہیں توکیا ہم شدید دبائو کے دور سے گزرہے ہیں اور متحدہ موقف اپنانے کی صلاحیت سے عاری ہوتے جارہے ہیں سرکردہ مسلم جماعتوں اور موقر علما الاماشااللہ اب اس لیے ہیں اور ملت کو اس کے حال پرچھوڑ کر اپنی بنائی سلطنت کے تحفظ میں لگ گئے ہیں تو کیا واقعی ان کی سلطنت بچ سکے گی؟حکومت کی چڑھی تیوریاں کچھ اور اشارے کررہی ہیںجو بادل پانی سے لبریز برسنے کے انتظار میں ہیں اس کی کیا ضمانت ہے اس میں میرا یا آپ کا گھر محفوظ رہے گا۔ سیلاب بلاجز کچھ مکانوں اور کھیتوں کو چھوڑ دے گا باقی بستی کو بہالے جائے گا۔
یہ خبریقینا پریشانی کن ہے کہ جن مدارس نے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے ان کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ اور نیشنل آنرایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ تقریباً 150مدارس نے سرکاری ہدایات کونظرانداز کرنے کی جسارت کی جس کی قیمت انہیں چکانی پڑے گی۔ وہاں پر قومی ترانہ نہیں گانے اور ثقافتی پروگراموں کی فوٹو گرافی کی ضرورت نہیں سمجھی ان پرچابک چلایاجائے گا۔ قومی سلامتی ایکٹ اور نیشنل آنرایکٹ میں بہت سنگین دفعات ہیں ان میں ضمانت بھی نہیں ہوتی ۔ اب یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں اگر ان مدارس پر بالفرض کارروائی کی جاتی ہے تو ہمارا رویہ کیاہوگا۔ انہیں سزا بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیں گے کہ غلطی کی ہے تو انجام بھی بھگتیئے یا ان کا دفاع کیا جائے گا۔ راشٹر گان پر اجتماعی موقف کیا ہے۔ ابھی یوگی سرکار کے دور میں چار یوم آزادی آئیں گے ان کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمیشہ کے لیے اس معاملہ کو حل کرنے کی ضرورت محسوس ہوگی یانہیں ۔ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں مدارس کے لیے کچھ اور سخت احکامات وہدایات جاری کی جائیں معاملہ صرف مدارس کانہیں ہے ۔ دیگراقلیتی اداروں کا بھی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خلاف مرکز حلف نامہ داخل کرچکا ہے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار پر تلوار لٹکادی گئی ہے اور سرکار اس کے خلاف بھی حلف نامہ داخل کرنے کی تیار کررہی ہے ۔ تعلیمی نصاب سے مسلمانوں کے تاریخی رول کو حذف کرنے کے ساتھ فاتح اور مفتوح کو بھی بدلا جارہا ہے ۔ مثلاً مہارانہ پرتاپ کئی سو سال بعد اب اکبر کو ہرائے ہوئے پڑھائے جارہے ہیں ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ سرکار بڑی ایمانداری کےساتھ اپنے طے شدہ اہداف کی جانب قدم بڑھارہی ہےاور اس نے کوئی بھی محاذ خالی نہیں چھوڑا ہے ۔ میڈیا کی تمام اقسام پر اس کی گہری نظر ہے صرف مین اسٹریم نہیں اردو میڈیا کی بھی باریکی سے چھان بین کی جارہی ہے۔ دن بہ دن مشکل آزمائش بھرے اور چیلنج کرنے والے حالات پیدا ہورہے ہیں۔ جان ومال کا تحفظ مذہبی تشخص ،تعلیمی اداروں کی بقا کے ساتھ تہذیبی شناخت کی علامتیں مٹائی جانے کی سمت عملی اقدا مات سب پر آشکارہیں۔
یہ بات مان لیجئے کہ طوفان میں کسی کاگھر نہیں بچتا اورہم معجزوں کے لائق نہیں ،صرف دعائیں بلائوں کا رخ نہیں موڑ تیں عملاً بھی کرکے دکھانا ہوتا ہے اور اللہ ان کاہی ساتھ دیتا ہے ۔اگر صرف دوروں ، کانفرنسوں ، وعظوں، قرار دادوں سے کام چل سکتا ہے تو ان کی رفتار اور تعداد بڑھادی جائے ۔ امن مارچ آنے والی مصیبتیں ٹالنے میں معاون ہیں تو ان کو وقفہ وقفہ سے کرتے رہناچاہئے ۔ یہ سلسلہ تھمنے والانہیں ہے۔ احمدپٹیل کی جیت پر شادیانے اور ڈھول بجانے وسجدہ شکر بجالانے والوں کی معصومیت کب تک خود سے دھوکہ کھاتی رہے گی۔ کم از کم ارباب مدارس ہی سرجوڑ کر بیٹھیں تمام مسالک کے مدارس کے مالکان مہتمم صاحبان اور صائب الرائے حضرات مشترکہ موقف ہندوستان کے سامنے پیش کریں۔ روز بروز شدیدنفسیاتی دبائو میں اضافہ ہورہاہے جو خوف وبزدلی کی طرف لے جارہاہے اسے ڈھارس بندھا نے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دس گالیاں اور دے لیجئے مگر جگر کے داغوںکو مت چھپائیے۔ ایسا نہ ہوکہ نوجوانوں کی بے چینی کو نادان دوست اچک لیں ۔ نازک اورصبرآزما لمحے پہلے بھی آئے ہیں انتشار بھی رہا ہے مگر جوڑنے والے بھی موجود رہے ۔ خانقاہوں ،حجروں اور درگاہوں کو آباد کرنے والے جانتے ہیں کہ خاموشی کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتی ۔ مصلحت اتنی درازنہ ہوجائے کہ اس کی سرحد یں خودغرضی سے جاملیں۔

0 comments:

Muslim Issues

غلام قوموں کا مزاج ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ حالت


نہال صغیر


زوال یافتہ قوموں کے مزاج کے بارے میں ایک بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہ صرف عوام کو ہی نہیں بدل دیتا بلکہ اس کے اثرات سب سے زیادہ خواص پر ہوتے ہیں اور دراصل یہی زوال کی تکمیل ہے ۔اس بات کو مان لیجئے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا زوال تکمیل کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے ۔ یہ باتیں مایوسی پھیلانے کیلئے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ حقیقت میں ایسا ہو چکا ہے ۔ ہمارا خواص کا طبقہ جس میں علما اور صحافی کا مقام سب سے بلند ہے وہ دونوں میں ذہنی طور پر غلام قوموں کی صفات سرایت کر چکی ہیں ۔ سوچا جاسکتا ہے کہ اگر یہ دونوں ہی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوں تو پھر قوم کے زوال کی تکمیل کو کون روک سکتا ہے ۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ اس مردہ قوم میں بھی زندگی کی حرارت ڈال سکتا ہے لیکن ہر چند کہ اللہ قادر مطلق ہے وہ ایسا کرسکتا ہے لیکن اللہ نے اس کائنات کی تخلیق میں اسباب کو شامل کیا ہے ۔ دنیا کے سارے کام اسباب کے ساتھ ہوتے ہیں ۔اس لئے ایسا نہیں ہوگا کہ اچانک مردہ قوم میں زندگی کی لہر دوڑ جائیگی ۔ بلکہ وہ قادر مطلق یہ کرے گا کہ دوسری قوموں میں وہ شعور عطا کرے گا کہ وہ اسلام میں داخل ہوں اور یوں اللہ قیامت تک اپنے دین کو قائم رکھے گا ۔ وہ قادر مطلق اس بات کا پابند نہیں کہ خاندانی مسلمانوں کی ہر خامی کے باوجود انہیں ہی نوازتا رہے ۔ گفتگو قوم کے زوال کی چل رہی ہے کہ ہمارے خاص افراد بھی اس کی زد میں ہیں یا ان کی ذہنی حالت غلامی کے اثر سے کثافت زدہ ہو گئی ہے ۔ حالات خواہ کیسے بھی ہوں اس سے نکلنے اور شاہراہ حیات میں بہترین راستے کے انتخاب کیلئے کبھی کوئی دیوا ر مقابل نہیں آتی اگر ہم ان مشکل وقت سے نکلنے کا طریقہ کار جانتے ہوں ۔
اس وقت ہندوستان میں جہاں ایک جانب بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس اپنے پوری حشر سامانیوں کے ساتھ ہر چہار جانب دہشت کی فضا قائم رکھنے میں منہمک ہے وہیں دوسری جانب اس سے ٹکراؤ کی پوزیشن میں ایک قوت بھی ابھر رہی ہے اور وہ طاقت ہے دلت سمیت دیگر پسماندہ طبقات کی ۔ ہندوستان کی پوری تاریخ میں پسماندہ طبقات کی جد و جہد اتنی تیز نہیں تھی جتنی اندنوں ہے۔گجرات جو بعضوں کے مطابق 141 2002 میں ہندوتوا کی لیباریٹری سے گذر چکی ہے ۔ وہاں اس وقت حالت یہ ہے کہ جگنیش میوانی اور ہاردک پٹیل دو ایسے نوجوان لیڈر ابھرے ہیں جس نے حکومت کی آنکھوں کی نیند اڑا دی ہے ۔ بی جے پی کیلئے آئندہ الیکشن جیتنا ایک چیلنج بن گیا ہے ۔ اسی طرح جے این یو سے کنہیا کا عروج اور مغربی اتر پردیش سے چندر شیکھر آزاد کے خروج نے حالات کو بالکل مایوسی کی جانب جانے سے روک رکھا ہے ۔ ہاں کچھ لوگ ہمیں مایوس کرنے کا ہی کام کررہے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ مایوسی صرف مسلمانوں میں ہی ہے ۔ دیگر پسماندہ طبقات نے ان حالت میں ٹکرانے کا عزم کیا ہے جو موجودہ حکومت کیلئے پریشان کن مرحلہ بن رہا ہے ۔ عام طور پر کہا جائے گا کہ گجرات کا الیکشن بی جے پی کیلئے چیلنج کس طرح ہے جبکہ وہاں کانگریس کے ایم ایل اے بھی بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں ۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ ہم جب ہندوستان میں مسلمانوں یا سیاست کی بات کرتے ہیں تو کانگریس کو اس کا ناقابل تنسیخ حصہ تصور کرتے ہیں ۔ یہ ایک مفروضہ ہے ۔ممکن ہے کہ آئندہ الیکشن میں کانگریس کچھ اچھا کرجائے لیکن بہر حال اب اس کا چل چلاؤ یقینی ہے اور ہندوستان میں علاقائی اور پسماندہ طبقات کی سیاست کا عروج ہونے والا ہے ۔جگنیش میوانی اور ہاردک پٹیل گجرات میں اس نئی تبدیلی کے رہنما ہو سکتے ہیں ۔ اب یہاں سیاست میں ہندوتوا قوم پرست بنام پسماندہ طبقہ کی سیاست ہی ہوگی اور اس میں آنے والے کچھ سالوں میں ہندوتوا کو یقینی طور پر نیچے بیٹھنا ہوگا ۔ یہ صحیح ہے کہ برہمن بنیا لابی نے دلت قیادت کو ٹکڑوں میں بانٹ کر ابتک اپنی سیاست کی دکان چلائی ہے لیکن بتدریج عوامی بیداری آرہی ہے اور یہ بیداری ان برہمن بنیا لابی کیلئے پیغام اجل ہے ۔یہ جانکنی کی ہی کیفیت ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف مورچہ بند ہو گئے ہیں کہ یہی ان کی سیاسی قوت کی بقا کی ایک ضمانت ہے ۔ہندو کے نام پر ساڑھے تین فیصد لوگ اچانک پچاسی فیصد ہو جاتے ہیں ۔اس گٹھ جوڑ کو سمجھنا ہوگا اور اس کے تدارک کیلئے ہمیں نظم و ضبط اور صبر و استقامت سے کام لینا ہوگا ۔ ہندوستان میں سیاسی حالت بظاہر مسلمانوں کیلئے زیادہ خطرناک نظر آرہے ہیں۔لیکن مجھے اسی سیاہی سے سپیدہ سحر نمودار ہونے کی امید ہے ۔ یہ حالت گھبراہٹ اور پژمردگی کی نہیں ہے بلکہ اس کی روشنی میں بہترین منصوبہ بندی کرنے کی ہے ۔ یہاں ہمارے لئے نبی ﷺ کی مدینہ آمد اور وہاں کے قبائل اور یہودیوں سے معاہدہ کی صورت میں اسوہ موجود ہے کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ ہمیں یہاں صبر ثبات کے پیکر کے ساتھ مخلص قائدین کی ضرورت ہے جو فی الحال عنقا نظر آتا ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگوں کی کبھی کمی نہیں ہوتی ۔قوم مسلم میں بھی اس کی کمی نہیں ۔ ہاں ہوتا یہ ہے کہ ایسے لوگ پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور کم ظرف اور پست ذہنیت لوگ سامنے ہوتے ہیں جو قوم کی کشتی ہمیشہ سے ڈبوتے آئے ہیں ۔ یہاں ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم ایسے قائد کی تلاش کریں انہیں سامنے لائیں انہیں اپنی حمایت اور وفاداری کا یقین دلائیں ۔ یہی ذمہ داری ان پر بھی عائد ہوتی ہے جو قوم کا درد محسوس کرتے ہیں اس کی حالت سے رنجیدہ ہیں اور اس سلسلے میں وہ مخلص بھی ہیں اور اس درد کی دوا بھی ان کے پاس ہے تو وہ خود سے ہی سامنے آئیں ۔ یاد رکھئے مخلص قائدین پر بھی پتھر پڑے ہیں قید و بند کی صعوبتوں سے انہیں بھی گزرنا پڑا ہے ۔ کسی قوم کی قیادت کوئی آسان کام نہیں یہ کانٹوں بھرا تاج ہے جسے قبول کرنا ہوگا اوریہ سنگلاخ وادی ہے جس سے گذرنا ہوتا ہے ۔
عام طور پر جب دلت یا پسماندہ طبقات کی تحریکوں کو حمایت دینے کی بات آتی ہے تو ہم ایک طرح کے تحفظ میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ جس طرح سے عام مسلمانوں کا رویہ ہوتا ہے جو کہ بیچارے کچھ نہیں جانتے اسی طرح ہمارے اکثر اردو صحافی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں ۔یہ اس لئے ہے کہ محض ممبئی کے کسی دفتر میں بیٹھ کر یا کسی مسلم این جی او کی جانب سے بلائی گئی میٹنگ میں شرکت کرکے آپ حالات کو اس کے ٹھیک تناظر میں نہیں دیکھ سکتے ۔ ہمیں یہ قبول کہ ہندوستان میں فسادات کی لمبی تاریخ میں مسلمانوں کے سامنے صرف دلت یا پسماندہ طبقات کے لوگ ہی آتے ہیں ۔ وہی ان ساری کارروائیوں میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔ لیکن ان کی ڈور بہر حال ہندوؤں کے اعلیٰ طبقات کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ۔یہ میرا ذاتی مشاہدہ بھی ہے اور کانگریس بی جے پی سے الگ جو دلت تنظیمیں اس کوشش میں ہیں کہ ہندوستان کو برہمنیت کے چنگل سے نکالا جائے ان کی بھی یہی رائے ہے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے اول دور میں جو لوگ آئے وہ پکے مسلمان تھے اس لئے ان کے ساتھ اسلام کا درس مساوات آیا جو ان کی ذات سے ظاہر ہوتا تھا ۔ بعد کے مسلمانوں میں یہاں کی برہمنیت سرایت کرگئی اور وہ بھی انہی کی طرح نام نہاد نیچ لوگوں سے انسانیت سے گرا ہوا برتاؤ کرنے لگے ۔ان مسلمانوں نے یہاں کے نظام میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی اور برہمنوں کو اپنے یہاں اونچے عہدے دیئے اور دلت و دیگر پسماندہ طبقات کی ان مسلمانوں کی نظر میں بھی وہی حیثیت رہی جو برہمنوں کے سامنے تھی ۔ یہ نظارہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور تبدیلی کے باوجود یہ آج بھی ہماری قوم کے خان صاحبو، سید صاحبواور شیخ صاحبو میں ہنوز موجود ہے ۔ اب اگر برہمنوں کا طریقہ اپنا کر ہم نے بھی وہی غیر انسانی رویہ اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ روا رکھا تو انجام تو وہی ہونا ہے نا جو فسادات کے دور میں رونما ہوتا ہے ۔ اگر ہم نے اسلام کے درس مساوات کو اپنا یا ہوتا اور انہیں بھی انسان سمجھ کر اپنے برابر میں بٹھایا ہوتا اس کے یہ ہمارے ساتھ وہ رویہ اپناتے تب ہم شکایت کرسکتے تھے کہ ہماری انسانیت نوازی کا یہ صلہ دیا جارہا ہے ۔
میری رائے پہلے بھی یہی تھی اور اب بھی ہے کہ کانگریس ہر حال میں مسلمانوں کیلئے سب سے زیادہ خطرناک ہے ۔ کانگریس کے دور میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ پوری قوم پر جمود کی سی کیفیت کو مسلط کردیتی ہے ۔ اس کے پاس سیکولرزم نام کی ایک نشہ آور ادویہ موجود ہوتی ہے ۔ جس کی مدد سے وہ کسی تحریک کو پنپنے نہیں دیتی اور آپ کی لیڈر شپ کو بھی فنا کے گھاٹ اتارتی رہتی ہے ۔ آج ہم بی جے پی کو ہندوتوا ایجنڈے کے نفاذ کی کوشش کیلئے الزام دیتے ہیں اور اسے برا بھلا کہتے ہیں ۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ تو بے شعور لوگ ہیں ان کو اتنی کہاں سمجھ جبکہ کانگریس نے نرمی اور سیکولرزم کے سایہ میں اول روز سے اس ہندو توا کی آبیاری کی ہے ۔ پچھے ستر برسوں میں بھلا اس نے کون سے طریقے اپنائے جس سے یہ نظریہ کمزور پڑتا یا آج اس کو اس کیلئے افرادی قوت نہیں ملتی ۔حقیقت تو یہ ہے کہ کانگریس نے اپنی کتھنی کے مطابق کام کیا ہوتا تو یہ بے بنیاد نظریہ کب کا ڈھیر ہو چکا ہوتا ۔ جی ہاں ہندوتوا کے نظریے کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔ اس کو معمولی سے گائے کے تناظر میں ہی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر وہ انکی ماں ہے تو پھر اسے اپنے گھر لے کر کیوں نہیں آتے نیز جب یہ گؤ ماتا ان کی املاک کو نقصان پہنچارہی ہوتی ہے تب ان کی گؤ بھکتی کہاں چلی جاتی ہے ؟ کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن اسی ایک مثال کی مدد سے بے بنیاد ہونے کا ثبوت مل جاتا ہے ۔ پھر بھی اس کو کروڑوں افرادی قوت ملنے کا سہرا یقیناً کانگریس کے طویل تر اقتدار کو جاتا ہے ۔ موجودہ حالات میں ہمارے لئے مواقع ہیں ۔ اگر ہم میں سوجھ بوجھ ہے تو ان حالات کو ہم اپنے حق میں موڑ سکتے ہیں ۔ جو لوگ ہر بات میں کیڑے نکالنے کے عادی ہیں ان میں دو کمیاں ہو سکتی ہیں یا تو وہ حالات کا ٹھیک ٹھیک علم ہی نہیں رکھتے یا وہ ان سے خوفزدہ ہیں ۔ اس لئے ان سے کنارہ کشی اختیار کیجئے اور سر جوڑ کر بیٹھئے اور منصوبہ سازی کیجئے عمل کرنے کیلئے ۔ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی سرخیوں اور بریکنگ نیوز کا حصہ بننے کے لئے نہیں بلکہ قوم کو اس دلدل سے نکالنے کے لئے ۔ حالات نبی ﷺ کے مدینہ کو ہجرت کرتے وقت سے زیادہ خراب نہیں ہیں بس فرق اتنا ہے کہ اس وقت وہ تھوڑے سے مسلمان تھے ان کا ایمان اللہ پر تھا اور صرف اسی ایک ذات پر ان کو بھرپور اعتماد تھا ۔اس ذات باری تعالیٰ نے ان کو مایوس بھی نہیں کیا وہ فاتح زمانہ بن کر ابھرے ۔لیکن ہم آج ہندوستان میں کروڑوں کی تعداد میں ہیں پر ہمارا ایمان سیکولرزم اور جمہوریت پر ہے ۔ ہمارا اعتماد اس کے ڈھونگ رچنے والوں پر ہے ۔نتیجہ ذلت ، رسوائی ، فقیری ، جہالت اور بے توقیری کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔

0 comments:

Muslim Issues

دیکھتی ہیں خواب آنکھیں مانگتا تعبیردل


قاسم سید

کانگریس کی سیاسی خشک سالی میں کامیابی کی تھوڑی سی اوس گری ہے تو جشن کاسا سماںہے ۔ ہرطرف پٹاخے پھوڑے جارہے ہیں ایک سیٹ کی جیت نے سرشاری وشادمانی کے نشہ میں ڈبودیاہے۔ ایسالگتا ہے کہ پانی پت یاپلاسی کی جنگ جیت لی ہے ۔ یقینا اس جیت کے بہت سے سیاسی معانی ہیں اوراگر کانگریس کے ارباب حل وعقد چاہیں گے تو اس غیریقینی جیت کو نئی جدوجہد کے آغاز میں بدل سکتے ہیں ۔ بی جے پی کو اس بات کا کریڈٹ دیا جاناچاہئے کہ اس بہانے کانگریس قیادت کو محلوں سے اٹھاکرگلی کوچوں میں جانے ،رات رات بھر جاگنے،دن بھر پسینہ بہانے اور ایک ایک ایم ایل اے کے ہاتھ پیرجوڑنے وخوشامد پر مجبور کردیا ،جو لوگ شہنشاہ بنے پھرتے تھے ، کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ گھنٹوں ڈرائنگ روم میں انتظارکرانے میں لذت محسوس کرتے تھے ان کی دھڑکنیں بے ترتیب کردیں سانسیں تھما دیں اور یہ سبق یاد دلایاکہ اقتدار یونہی نہیں مل جاتا اس کے لیے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ عام لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہونا پڑتاہے۔ ان کو اپنا بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بھلے ہی اس سیٹ کے بہانے پرانے حساب بے باق کرنے اورکانگریس کے قلعہ میں شب خوں مارنے کامنصوبہ بناہوجو حکمت عملی میں کسی کمی کی وجہ سے ناکام ہوگیا مگراس واقعہ نے کانگریس کی جڑیں ہلادی ہیں ،اس کے پائوں تلے سے زمین نکال دی۔ ظاہرہے جنہوں نے ملک کو کانگریس مکت بنانے کاعزم کیاہے وہ چین سے نہیں بیٹھیںگے ۔ کوئی اور راستہ تلاش کریں گے جب شیر کی ماند میں ہاتھ ڈال دیاجائے تواندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ معاملہ کس حد تک نازک ہے اس قلعہ کا پھاٹک اندر کے سنتریوں سے کھلوایا گیا وہ صرف کھڑکیاں ہی کھول سکے تو کبھی زنجیر بھی توڑ ی جاسکتی ہے ۔ اسے جولوگ سیکولر زم کی فرقہ پرستی پر جیت سمجھ رہے ہیں اور ہزار شکرانہ ادا کررہے ہیں ،اطمینان وخوشی کی چمک ان کے چہروں سے پھوٹتی روشنی سے چھلکتی ہے۔ وہ اس جیت کو سیکولرزم مضبوط کرنے کی راہ سمجھتے ہیں اور سیکولر طاقتوں سے امن وامان اور سیکولرزم کی بقا کے لیے متحد ہونے کی اپیل کربیٹھتے ہیں۔ اس میں ان کی سادہ لوحی اورسیکولرزم کے تئیں اعتماد وپختہ یقین ثابت ہوتا ہے کیونکہ وہ چھوٹی کامیابی پر بھی خوش ہوجاتے ہیں اورخالص سیاسی لڑائی کو بھی سیکولرزم بنام فرقہ پرستی کی جنگ میں تبدیل کردیتے ہیں ۔یہ احمدپٹیل اور امت شاہ کے مابین سیاسی انتقام ،دبدبہ اور بالادستی کی لڑائی تھی جس میں قسمت نے سونیا گاندھی کے مشیر کاساتھ دیا ورنہ ان کی ہارتو ہوگئی تھی اگر آخر وقت میںکانگریس کے دوباغی ممبران کی تکنیکی غلطی سامنے نہ آتی تو ان کا کام تمام ہوگیا تھا۔
یہ نتیجہ ایک اورپہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے جب کسی فوج کو لگاتار کامیابی ملتی ہے تو اس کو جیت کا چسکا لگ جاتا ہے ۔ پھر وہ صحیح وغلط کا امتیازبھول جاتی ہے وہ اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے ہر جائزوناجائزقدم اٹھانے سے نہیں جھجکتی ۔اپنی قلمرو کی توسیع کا جنون انسانی بستیوںکو بھی ویران کردیتا ہے یہ ویرانی  اس کی دیوانگی کو اوربڑھا تی ہے۔ اپنے حق میںہزارخون معاف سمجھتی ہے۔ آج ملک کی 18ریاستیں اس کے بظاہر مفتوح ہونے کااشارہ کررہی ہیں۔ اس کی خوداعتمادی کایہ حال ہے کہ کانگریس کے قلعہ یعنی دس جن پتھ تک مارچ کرتے پہنچ گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے حملہ میں اسے ناکامی ملی اسے خراشیں آگئی ہیں ان کی ٹیس زیادہ ہے اس کےرقص بسمل پر نقارے بجانے اورڈھول پیٹنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ مہلت کادقفہ ہے اس سے فائدہ اٹھانے ،شکست خوردہ فوج کے بھاگے ہوئے سپاہیوں کو جمع کرنے اورانہیں منظم کرنے کا مختصر ساموقع ہے کیونکہ چوٹ کھایا سانپ زیادہ خطرناک اورجارح ہوتا ہے سارازہر ایک ساتھ تھوک دیتا ہے ۔ بی جے پی اپنی غلطی اور حد سے زیادہ خود اعتمادی کے سبب ہاری ہےاوراحمدپٹیل اپنی قسمت کی وجہ سے جیتے ہیں یہ بڑا عبرت انگیزہے کہ جو دوسروںکاکھیل بنانے اوربگاڑنے کی طاقت رکھتاتھا اسے اپناآپابچانے کے لئے دردر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔
کانگریس اس وقت ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گزررہی ہے۔ ڈوبتے جہاز سے بڑے بڑے چوہے کودکر بھاگ رہے ہیں۔ سایہ بھی ساتھ چھوڑ نے لگا ہے کانگریس قیادت یہ اندازہ لگانے میں ناکام ہے کہ بھارت بدل چکاہے جیسا کہ اس کے تھنک ٹینک جے رام رمیش کاخیال ہے کہ ہم سلطنت کھوچکے ہیں اور خود کو سلطان سمجھ رہے ہیں۔ پارٹی سنگین ترین بحران سے گزر رہی ہےلیکن پرانے طورطریقہ بدلنانہیں چاہتی اسے امت شاہ- مودی کی جوڑی کا سامناہے۔  جس نے سیاست کی پرانی روایتیں بدل دی ہیں۔ ملک نئی قسم کی سیاست سے دوچار ہے۔ مودی نیابھارت بنانے کی مہم میں لگے ہیں اور 2022تک ٹارگیٹ مکمل کرناچاہتے ہیں ان کا نیابھارت کس طرز کا ہوگا ۔گزشتہ تین سال کے دوراقتدار میں اس کا ٹریلر آچکا ہے اس بھارت میں مہاراناپرتاپ سنگھ اکبر دی گریٹ کو شکست دیتے ہوئے نظرآرہے ہیں ۔ شیوا جی نے مغلوں کا ’سروناش‘ کر دیا جوویرساورکر،گولوالکراور دین دیال اپادھیائے کا بھارت ہوگا جہاںگاندھی چالاک بنیااورنہرو ملک کو سنگین غلطیوں کے حوالے کرتے دکھائی دیں گے۔جہاں بچے گائے ، گیتا اورگنگا کے بارے میں زیادہ واقف ہوں گے۔ وہ یوگ کے ساتھ سوریہ نمسکارکرنے کے پابندہوںگے ۔ جمہوریت کی جگہ صدارتی نظام نافذہوگا اورراشٹرواد پہلاوآخری دھرم ہوگا۔ ’دیش ہت‘ میں بولنے اورخاموش رہنے کے نئے پیمانے ایجاد ہورہے ہیں کونسی چیز کب دیش ہت کے دائرے میں لادی جائے یہ حکمرانوں کی صوابدید پرہوگا۔ڈراورخوف کا ماحول بڑی محنت اور لیاقت سے بنا یا جارہا ہے۔ مذہبی تشخص کی علامتوں کو دھیرے دھیرے کھرچ کر ختم کر دیا جائےگا۔ کانگریس کو مبارکباد دینی چاہئے کہ اس نے گزشتہ60 سالوں میں ملک کو جہاں پہنچادیا بی جے پی ایماندار ی کے ساتھ اس کے باقی چھوڑےگئے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچارہی ہے۔ کانگریس نے سیکولرزم کی کھال پہن کر شکار کئے وہیں بی جے پی کو اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔ کانگریس کی منافقانہ اور عیارانہ سیاست نے صرف اقلیتوں کو ہی بے وقوف نہیں بنایا انہیں سچرکمیٹی کی رپورٹ کے مطابق دلتوں سے بھی بدتر مقام پر لاکرچھوڑ دیا بلکہ اس نے پورے ملک سے بدعہدی کی یہ سوال خود سے پوچھئے کہ جب ملک کی باگ ڈور چندسالوں کو چھوڑ کر سیکولرپارٹیوں خاص طور سے کانگریس کے ہاتھ میں رہی توفرقہ پرست اورفسطائی قوتیں اتنی مضبوط وتوانا کیسے ہوگئیں کہ وہ بھرپور اکثریت کےساتھ ملک پر قابض ہوگئیں اور آدھی سے زائد ریاستیں ان کی مٹھی میںآگئیں کیایہ عوام یا رائے دہندگان کی غلطی ہے یاسیاسی سیکولر عناصر کی سازش وحکمت عملی کی غلطی ۔مسلمانوں نے اپنی رگوں میں موجود خون کاایک ایک قطرہ اپنے جان نثارمخلص رہنمائوںکی ہدایت پرکانگریس کو چڑھادیا۔ اب وہ خود جانکنی کے عالم میں ہیں۔ ڈراورخوف کایہ عالم ہے کہ تھوڑی سی مصیبت یاآزمائش میں دعائے قنوت پڑھی جاتی تھی اب اس کی بھی ہمت نہیں کہ مساجد میں دعائے قنوت پڑھ لی جائے کہ حکومت کو رپورٹ کے نتیجہ میںبازپرس کی جاسکتی ہے۔ مسلم قیادت کے سواداعظم کے پاس اس بحران سے نکلنے کا کوئی نسخہ نہیں ۔کانگریس اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے زوال سے دوچار ہے ہماری مجبوری یہ ہے کہ جیساکہ بتایاجاتا ہے کہ اورکوئی راہ نجات نہیںہے اگر ٹائٹنک ڈوب رہا ہے تو بہتر یہ ہے کہ وفاداری کے عہد کے ساتھ ہم بھی ڈوب جائیں تاکہ ناشکروں میں ذکر تو نہ آئے مشکل یہی ہے کہ سیاست ذہن سے کی جاتی ہے اور ہم دل سے کرتے ہیں وہ قدم قدم پر بدعہدی کرتے ہیں اپنے مفادات کے مطابق پالیساںبدلتے ہیں جیسے ٹرین کو منزل تک جانے کے لئے ٹریک بدلنا پڑتاہے مثلاًنتیش کمارنے مہاگٹھ بندھن توڑکرپھربی جے پی سے پرانا رشتہ جوڑلیا اب وہ فرقہ پرست ہیں یاسیکولر یہ توہمارے معززقائدین عظام ہی بتائیں گے لیکن ہندوستانی سیاست کا مزاج  یہی ہے کہ ضرورتوں کے مطابق گٹھ بندھن بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ کسی ایک کھونٹے سے بندھے رہنا ذہانت نہیں سیاسی حماقت ہے ۔ کانگریس کو ایک جیون دان ملا ہے وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے گی یاراہل کی پارٹ ٹائم پالیٹکس جاری رہے گی،دیکھنا دلچسپ ہوگا۔ وہ کونسی پارٹیاں ہیں جو سیکولر کہی جاسکتی ہیں کیونکہ وہ کندھا بدلتی رہتی ہیں ان کی نشاندہی کی جائےبراہ کرم احمد پٹیل کی جیت کو مسلمانوں کے مفاد سے جوڑ کرنہ دکھایا جائے اور زیادہ خوشی کا مظاہرہ نہ کیاجائے ۔ کانگریس کی خانہ جنگی اور گھر کے بھیدی نے اس لڑائی کومشکل بنادیا تھا بی جے پی نے اس کا فائدہ اٹھایا۔یہ نئے اورپرانے بھارت کی لڑائی ہے جس میں سب کچھ نیاہے پرانے اوزاربے اثر ہوگئے ہیں ۔شہنشاہی مزاج کام نہیں آئے گا۔ صرف بیان بازی اورکانفرنسیں مداوا نہیں کریں گی۔ پرانے امراض کا علاج جدید طریقوں کو اپنا کر ہی ہوگا۔ ہمارا کوئی مسئلہ نیانہیں ہے،کانگریس کے پیداکردہ ہیں ۔بی جے پی ان کی دھارتیز کررہی ہے اور جنہیں ہم اپنا ازلی دشمن سمجھتے ہیں ان سے خیرکی امید نہیں رکھنی چاہئے جنہیں اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے برابھلاکہتے ہیںان کو ہماری گردن مروڑنے کا بھرپور موقع ملاہے تو وہ رحم کیوں کریں گے۔ہماری سیاسی قیادت ذہنی دیوالیہ پن کی شکار ہے ،انجام تو بھگتناہوگا۔

0 comments:

featured

دعا مومن کا ہتھیار ہے لیکن۔۔۔۔!


نہال صغیر

حالات مشکل سے مشکل تر ہوتے جارہے ہیں لیکن ہم اتنے سادگی پسند ہو گئے ہیں کہ ان شدید ترین دور میں بھی آسان اور بہت ہی آسان راستوں کے انتخاب میں کوئی کنجوسی نہیں کرتے ۔انہی میں سے ایک ہے کسی بھی مشکل کے وقت دعا کا اہتمام ۔قارئین میرے ان جملوں سے یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ میں دعا کا مخالف ہوں ۔ دعا کے بارے کہا گیا ہے کہ یہ مومن کا ہتھیار ہے اور اللہ سے قربت کا ذریعہ بھی ۔ آج کے دور میں ہم ہر معاملہ میں دعا تو کرتے ہیں ۔لیکن ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہیں ۔ ہم آہ و زاری بھی کرتے ہیں اللہ کو اس کی رحمت کا واسطہ دے کر بھی دعائیں کی جارہی ہیں لیکن حالات بدل ہی نہیں رہے ۔دعا کی قبولیت کی شرائط میں سے چند باتیں بتائی گئی ہیں ان میں حلال رزق بھی ایک ہے ۔آج اس کسوٹی پر ہی ہم خود کو پرکھ کر دیکھ لیں تو ہم میں کون ہے جو کھرا اترے گا؟جب یہ صورتحال ہو تو ہم خواہ جتنی دعائیں مانگ لیں اور اس کے لئے جتنے یوم دعا کا چاہیں اہتمام کرلیں اور اس کیلئے جبہ دستار کی لمبائی چوڑائی دیکھ کرخواہ کتنے ہی لوگوں سے دعائیں کروائیں ،حالات وہی رہیں گے جو آج ہیں ۔پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے ؟ مولانا حالی نے اپنی مشہور زمانہ مسدس میں ایک جگہ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ؂ نہیں چلتی توپوں پر تلوار انکی ۔ ہمارے عالم دین گلہ پھُلا پھُلا کر تقریروں میں قرن اول کے مسلمانوں کے کارنامے بیان کرتے ہیں ۔ لیکن ان مسلمانوں کے کارناموں میں ہمارے لئے چھپے ہوئے اسباق پر ہم میں سے شاید ہی کسی کا ذہن جاتا ہے ۔اسلام کی پہلی جنگ بدر کے میدان میں سن دو ہجری میں لڑی گئی تھی ۔نبی ﷺ اپنے تین سو تیرہ جانثاروں کو لے آئے اور اللہ کے سامنے گریہ و زاری کی کہ اگر یہ آج کام آگئے تو پھر قیامت تک روئے زمین پر تیرا نام لینے والا نہیں رہے گا۔پھر زمانے نے دیکھا کہ اللہ نے ان تین سو تیرہ کو اپنے سے کئی گنا اور طاقت میں بھی زیادہ گروہ پر فتحیاب کیا۔اس کے بعد صدیوں تک مسلمانوں کو محض ایک دو جنگوں کو چھوڑ کر کہیں بھی ہزیمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس پر ہم کبھی غور کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ کیا ان کی پوری دنیا پر برتری کا سبب محض دعا یا ان کا پکا سچا مسلمان ہو نا ہی تھا ؟
یہ دنیا اسباب سے چل رہی ہے اللہ نے اسے اسی نہج پر بنایا ہے ۔قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ چھ دن میں اس زمین و آسمان کی تخلیق کی۔جبکہ اللہ تعالیٰ کیلئے صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ہو جا اور وہ چیز ہو جاتی ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے زمین آسمان کی تخلیق سے لے کرانسان کی پیدائش تک قدرت کاملہ کا استعمال تو کیا لیکن ساتھ ہی اس میں اسباب کا استعمال بھی کیا جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کیلئے مٹی سے ایک پتلہ بنا کر اس میں روح پھونکی ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہی بات دنیا میں جینے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے اسباب کو اختیار کیا جائے ۔جنگ بدر میں مسلمان کمزور ضرور تھے ،تعداد میں کم بھی تھے لیکن کفار مکہ کے پاس جو ہتھیار تھے انہی ہتھیارو ں سے مسلمان بھی لیس تھے ۔جیسے سواری کیلئے اونٹ ،گھوڑے وغیرہ اور ہتھیار کے طور پر تلوار ،تیر و کمان اور ان سے محفوظ رہنے کیلئے زرہ ،ڈھال وغیرہ ۔گو یہ سامان مسلمانوں کے پاس انتہائی قلیل سہی لیکن تھے ۔اس کے بعد بھی مسلمان انہی ہتھیاروں سے جنگوں میں شامل ہو تے رہے اور فتحیاب ہوتے رہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے مسلمانوں نے جنگی سازو سامان میں نئی اختراعات بھی کیں ۔جیسے منجنیق جو اس دور میں توپ کے طور پر استعمال ہوتی تھی ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں بحری بیڑہ کو مضبوط کیا جو اس دور کے لحاظ سے سبھی اقوام کی جنگی قوت پر بھاری تھا ۔یہی طریقہ کار سلطان صلاح الدین ایوبی نے بھی عیسائیوں کو فیصلہ کن ہزیمت سے دوچار کرنے کیلئے استعمال کیا ۔وہ طریقہ کار تھا دشمن سے زیادہ چست اور ہتھیاروں سے لیس فوجی اور دیگر دفاعی نظام جن میں منجنیق میں مزید جدت بھی شامل ہے ۔صلاح الدین ایوبی نے ایک خود کش دستہ بھی تیار کیا تھا جو آتش گیر سیال مادہ سے لیس ہوتا تھا وہ دشمنوں کے بیچ میں گھس کر وہ تباہی پھیلاتا تھا کہ دشمن اس کے خوف سے راتوں کو کیمپوں میں ٹھیک سے سو بھی نہیں پاتا تھا ۔یہ سب اس لئے بھی کرنا ضروری تھا کہ مسلمانوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی ۔صلاح الدین ایوبی کا دور تو آج کے ہی طرح خلفشار کا دور تھا لیکن اس دور میں بھی وہ اس لئے فتحیاب ہوئے کہ انہوں نے جنگی ہتھیارو ں اور طریقہ جنگ میں جدت پیدا کی۔وہ بھی وہاں میدان جہاد میں پہنچ کر ہی دعائیں کرتے تھے اور انتہائی گریہ و زاری کے ساتھ مانگتے تھے ۔اس دور کے بہت بعد عثمانیوں کے دور میں بھی اگر عثمانی خلافت کا دائرہ پھیلتا گیا اور وہ اس وقت سے آج سے سو سال قبل تک دنیا کی واحد سوپر پاور تھے تو اس لئے کہ وہ بھی محض دعاؤں پر تکیہ نہیں کرتے تھے دعاؤں کے ساتھ انہوں نے اپنی جنگی اختراعات کو بھی جاری رکھا تھا ۔انہوں نے بارود والی توپ کا استعمال کرکے اس دور کی بڑی بڑی باطل قوتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔ہم نے تاریخ میں یہ بھی پڑھا ہے کہ بابر نے جب ہندوستان پر حملہ کیا اس کے پاس ایک نیا ہتھیار بندوق تھا جس کی مدد سے صرف دس ہزار فوجیوں سے ابراہیم لودھی کی ایک لاکھ کی فوجیوں پر فتحیاب ہوا ۔
دعاؤں کی عدم مقبولیت اور اس کے رد ہونے کیلئے ایک اور حدیث نظر سے گذری ہے ’’جب لوگوں کا یہ حال ہو جائے کہ وہ برائی دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں ،ظالم کو ظلم کرتے پائیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں ،تو قریب ہے کہ اللہ اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ لے ۔اللہ کی قسم تم پر لازم ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔ورنہ اللہ تم پر ایسے لوگوں کومسلط کردے گا ،جو تم میں سب سے بدتر ہوں گے ،وہ تم کو سخت تکلیف دیں گے اور پھر تمہارے نیک لوگ دعائیں مانگیں گے مگر وہ قبول نہ ہوں گی(جامع ترمذی ،سنن ابو داؤد)۔ہم نے آج کے بلا خیز دور میں جہاں مسلمان ہر طرف ظلم و جبر کا شکار ہیں اس دور میں محض دعاؤں کو ہی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا حق حاصل کیا ہے۔ہماری نظروں کے سامنے سے ایک خبر یہ بھی گذری کہ مسجد اقصیٰ میں نماز پر اسرائیلی پابندی ہٹنے میں ہماری دعاؤں کے اثرات کو دخل تھا ۔جبکہ میرا ماننا ہے کہ اسرائیل نے مسجد اقصیٰ میں نماز کی پابندی اٹھائی اس کی واحد وجہ ہمارے ان فلسطینی جانبازوں کی دن و رات کی قربانیاں ہیں ۔وہ میدان جہاد میں ہیں ۔وہاں اللہ مجاہدین کی دعائیں ان کی کوششیں کبھی رد نہیں کرتا ۔ان کی کوششوں کا تو پہلا اور عام طور پر دیکھا جانے والا صلہ یہی ہے کہ کوئی فلسطینی کبھی ذلت کی موت نہیں مرتا وہ پیٹھ پر گولی نہیں کھاتا ۔وہ لوگ اس دور میں مجاہدین اسلام کی بہترین مثال ہیں ۔ان کی دعاؤں کے طفیل اور ان کی ہی جانثاری اور جانبازی کے طفیل کئی جگہ کے مسلمان محفوظ ہیں ورنہ وہ بھی اسی لپیٹے میں آجاتے ۔ہم ان کے لئے دعائیں ضرور مانگیں لیکن یہ امید کہ ہم لوگ جو بدترین غلامی کے دور سے گزر رہے ہیں جس نے ہمارے ضمیر کو بھی مردہ کردیا ہے یہ توقع قطعی نہ رکھیں اور نا ہی کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوں کہ ہماری دعائیں اللہ قبول کرے گا۔ویسے وہ رب العالمین اور مالک الملک ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے لیکن اسی خالق و مالک نے کچھ اصول بھی ترتیب دیئے ہیں ۔ بھلا اس روئے زمین پر محمد ﷺ سے بھی زیادہ کوئی اللہ کے قریب ہو سکتا ہے لیکن آپ ﷺ نے کبھی گھر میں یا اپنے حجرہ میں بیٹھ کر یا مسجد نبی سے دعاؤں کا اہتما م نہیں کیا ۔آپ ﷺ بدر کے میدان اترے ، احد کی وادی میں چہرہ انور پر زخم کھائے ،مدینہ میں خندق کھدوائے اس کی کھدائی میں خود بھی شامل ہوئے اور اپنے جانثار صحابہ سے اس خندق کی نگرانی کروائی پھر کافروں پر فتح کی دعائیں مانگیں اور اللہ نے دعائیں قبول کی اور ایسی قبولیت بخشی کہ نصف سے زائد دنیا کی حکومت عطا کی اور وہ بھی ہزار سال سے زائد عرصہ تک ۔

0 comments:

Politics

آئین ہند پر منڈلاتے خطرات


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472

سولہویں پارلیمانی انتخابات کے نتائج آتے ہی ملک کے لوگوں نے ایک نئے انقلاب کی دستک محسوس کی۔ کچھ نے اگر اس نئی فضا میں خوشی اور جشن منایا تو کچھ نے تشویش اور تشکیک بھی ظاہر کی اور پھر چند مہینوں میں ہی ملک کا جو سیاسی منظرنامہ بنا اس نے ملک کے مستقبل کے حوالے سے خصوصاً مسلمانوں کو اندیشوں اور تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔ انتخابی عمل کے دوران اور پھر اس کے نتائج کے آجانے کے بعد مسلمانوں کے ذہنی اور جذباتی کیفیت کا ایک اندازہ روزمرہ کے اخباری مضامین اور قا ئدین کے بیانات، جلسے اور پرو گراموں کی خبروں سے بھی ہوتا رہا ہے۔
پارلیمانی انتخابات میں بھاری کامیابی کے بعد تابڑ توڑ اسمبلی انتخابات میں بھی بی جے پی کو ناقابل یقین کامیابیوں نے فرش سے اٹھاکر عرش پر پہنچادیا۔ صدر جمہوریۂ ہند کا عہدہ ملک کا سب سے بلند و بالا اور باوقار عہدہ ہے۔ اس منصب پر بھی بی جے پی کو ہی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور سیکولر پارٹیوں کی مسلسل ہزیمت سے یہ اندازہ لگانا اب کوئی مشکل نہیں رہا کہ ملک کے عوام سیاسی تبدیلی چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی غیر متوقع کامیابی کے بعد صدارتی انتخاب کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی گئی وہ تمام سیکولر جماعتوں کے لیے باعث عبرت ہے۔
ملک بھر میں اقتدار کی تبدیلی کے لیے زیرزمین جس طرح کی لہر چلائی گئی یہ کوئی اچانک رونما ہونے والی لہر نہیں تھی بلکہ یہ منصوبہ بند اور دور رس حکمت عملی تھی۔ اس لہر نے تقریباً نصف صدی تک حکومت کرنے والی کانگریس کے ساتھ ساتھ دیگر سیکولر پارٹیوں کے بھی پایۂ سلطنت کو اکھاڑ ڈالا۔ اس تباہ کن لہر یا اس انقلابی آندھی کے اثرات سے تو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ملک ایک ایسے انقلاب کی طرف بڑھ رہا ہے جو ملک کے اتحاد و یک جہتی کے لیے سم قاتل ہے۔
کتنی شرم ناک بات ہے کہ مرکزی اقتدار سے محرومی کے بعد ملک کی سب سے اہم ریاست اترپردیش اسمبلی الیکشن میں شکست فاش اور پھر صدارتی الیکشن میں بھی ایسی منہ کی کھانی پڑی کہ جس نے ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو کہیں بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ اس کے باوجود ان میں بے فکری اور بے حسی ہی ہر طرف چھائی دکھائی دے رہی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ اقتدار کی تبدیلی میں ان کی بھی مرضی شامل ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ موجودہ حکمراں طبقہ ازدہے کی مانند سیکولر قوتوں کو چن چن کر نگلتا جارہا ہے اور سب کے سب تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اگر ہماری سیکولر جماعتوں کا یہی حال رہا تو عین ممکن ہے ملک کا سیکولر آئین تباہ ہوجائے اور اس کی جگہ ایک ایسے آئین کا نفاذ عمل میں آجائے جو ملک کی سیکولر اور جمہوری قدروں کے لیے زہرہلاہل بن جائے اور اب تو بی جے پی کے سامنے صرف ہمارا سیکولر آئین ہی ہے جو اس کے لیے رکاوٹ ہے۔ 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے بعد اس کا پہلا کام یہی ہوگا کہ وہ آئین میں تبدیلی لے آئے کیونکہ بی جے پی کی ماں آرایس ایس نے اسے اول وقت سے ہی تسلیم نہیں کیا ہے۔ تو ظاہر ہے جب سارے ملک کی باگ ڈور اس کے ہاتھوں میں آجائے گی تو سب سے پہلے اپنے خوابوں کی تکمیل ہندو راشٹر کے قیام کے طور پر ہی کرے گی اور آرایس ایس کی کارگاہ میں فکر و نظر کے جو سانچے ڈھالے جاتے ہیں ان کی نظروں میں ملک کی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلق سے ان کے کیا کیا عزائم ہیں، اس کا اندازہ ان کی ملک بھر میں پھیلی ذیلی تنظیموں کی سرگرمیوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
یاد رکھیے! جس دن بھی دنیا کے سب سے بڑے و عظیم جمہوری ملک کے سیکولر آئین میں کوئی تبدیلی لائی گئی اسی دن سمجھئے کہ جمہوریت کی پوری عمارت زمین بوس ہوگئی اور اس کی اصل ذمہ دار ہماری سیکولر پارٹیاں ہی ہوں گی کیونکہ ان کے نااہل سربراہوں اور خود غرض و مفاد پرست نیتائوں کی نااہلی کی وجہ سے ہی پورا ملک آج انتہائی خطرناک حالات سے دوچار ہے۔
مسائل ہر ملک میں ہوتے ہیں، ہر حکومت کے خلاف عوام میں ناراضی پائی جاتی ہے۔ مسائل کے حل اور تبدیلی کے لیے بہت سے ملکوں میں عوامی تحریکیں بھی چلیں اور حکومت کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے ہیں مگر وہ سب کے سب وقتی اور عارضی ہوتے ہیں۔ تاہم ہمارے ملک میں جو تبدیلی کی تحریک چلائی گئی یا چلائی جارہی ہے اس کے پیچھے ایک نئے نظام (منواسمرتی) کا نفاذ ہے اور یہ وہ نظام ہے جو ملک کی اقلیتوں، دلتوں اور کمزور طبقوں کو دوسرے طبقوں سے کم تر قرار دیتا ہے اور بعض حالات میں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک بھی کیا جاتا ہے۔
اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں اگر کسی نے گہری دلچسپی لی ہے اور پل پل بدلتے حالات اور لمحہ لمحہ بدلتی صورت حال پر نظر رکھی ہے تو وہ ہے ہمارا عالمی میڈیا۔ اس لیے کہ موجودہ حکمرانوں کے نظریات جو کہ مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں نظریاتی طور پر دونوں میں بڑی ہم آ ہنگی پائی جاتی ہے۔ دونوں ہی مسلمانوں کے دشمن ہیں، جہاں بھی اور جب بھی کوئی ایسا موقع ملا جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہو، فوراً ان کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیتے ہیں۔ یا وہ رویہ اپناتے ہیں جس سے مسلمانوں کو ٹھیس پہنچے۔
جیسا کہ مذہب اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے یا جوڑے رکھنے کی ایک بین الاقوامی سازش جاری ہے اور مغربی میڈیا اس میں قائدانہ رول ادا کر رہا ہے اور مغرب کے زیراثر ہندوستان میں بھی مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور ہمارے ملک کا میڈیا بھی اس ضمن میں اہم ر ول ادا کر رہا ہے۔ جھوٹی اور من گھڑت رپورٹیں تیار کرکے مسلمانوں کو اس سے جوڑ دیتے ہیں جس سے برادران وطن میں غلط فہمی پیدا ہوتی ہے اور لوگ شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔
بہرحال اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کے حالات سنگین رخ اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اس کے پس پردہ جو طاقتیں سرگرم عمل ہیں وہ وہی ہیں جن کے روابط اسلام اور مسلمانوں کے عالمی دشمنوں سے ہیں۔ حالات اب اس مقام پر پہنچ رہے ہیں کہ اگر ملک کے سیکولر اور انصاف پسند اور مخلص لوگ ان کے خلاف فوری طور پر صف بستہ نہیں ہوئے تو عین ممکن ہے کہ ملک ایک بار پھر تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے۔ قوم دشمن طاقتیں عوام میں نفرت کے بیج بو رہی ہیں اور اپنی اگائی ہوئی فصل اقتدار کے گلیاروں میں کاٹ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری سب سے بڑی لائق احترام عدلیہ بھی متاثر ہوتی جارہی ہے۔
یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ کشمیر سے کنیاکماری تک جو دہشت اور یورش کی لہر چل رہی ہے اور اس کے بہانے جن لوگوں کی پکڑ دھکڑ ہوتی ہے اور جن لوگوں کو دہشت گرد اور ملک دشمن قرار دے کر پولیس انکائونٹر میں ہلاک کردیا جاتا ہے ان میں بیشتر وہ مسلم نوجوان ہوتے ہیں جن کے چہروں پر داڑھیاں ہوتی ہیں یا وہ کرتہ پاجامہ کے ساتھ ٹوپی بھی اوڑھے ہوتے ہیں یا پھر ان کا کوئی بھی عمل ایسا ہوتا ہے جس سے اسلامی شناخت کا اظہار ہوتا ہے۔ لہٰذا اسلامی نام یا شناخت کا باجا ہمارا قومی میڈیا خصوصاً بے ضمیر الکٹرانک میڈیا بڑی مہارت و پورے زور و شور سے بلکہ پورے جوش خروش سے بجانا شروع کردیتا ہے تاکہ حقیقت پر دبیز پردہ بھی پڑا رہے اور ان کا مقصد بھی پورا ہوجائے۔
دیکھا تو یہی جارہا ہے کہ جب سے مرکز پر اور دوسری ریاستوں خصوصاً اترپردیش پر بی جے پی کا قبضہ ہوا ہے، فسطائیت کے علمبرداروں نے مختلف عنوانوں سے پورے ملک کے مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن بنادینے کی ٹھان لی ہے۔ ملک کے مختلف صوبوں میں مختلف بہانوں سے جس طرح مسلمانوں کو ہراساں کیا جارہا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ آنے والے دن مسلمانوں کے لیے اور بھی کٹھن ہوں گے۔
ان حالات میں ملک کے سیکولر اور جمہوریت پسند عوام اور قائدین ملت پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ ملک و ملت او راپنے سیکولر آئین کو بچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ بصورت دیگر ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں جمہوری اور سیکولر جماعتوں پر زیادہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں اور کمزور طبقوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ پوری قو ت کے ساتھ فاشزم کا مقابلہ کرسکیں۔ اسی میں ملک کا بھی بھلا ہے اور ہندوستانی سماج کا وسیع تر مفاد بھی اسی بات کا متقاضی ہے۔

0 comments:

Politics

کیا نریندر مودی ملک کو جنگ کی طرف لے جارہے ہیں ؟


نہال صغیر

یہ کسی مجذوب کی بڑ نہیں ہے۔ملک جانے انجانے میں جنگ کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ ہر بیتے ہوئے لمحے کے ساتھ جنگ کے مہیب سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں ۔ لیکن ملک کو اس دوران اندرونی خلفشار سے بھی جوجھنا پڑرہا ہے ۔ بد نصیبی سے ملک پر ایسی طاقتیں حکومت کررہی ہیں جو اس کے اندرون کو نقصان پہنچا رہی ہیں ۔کسی بھی ملک یا قوم کو باہر کے دشمن سے زیادہ اندرونی خلفشار سے خطرات لاحق ہوتے ہیں ۔ ٹھیک یہی معاملہ آج یہاں ہے کہ چین یا پاکستان سے زیادہ اندرونی فرقہ وارانہ جھگڑے اس کے اتحاد و سا لمیت کیلئے خطرناک ثابت ہوں گے ۔چینی میڈیا کا موجودہ حالات میں پیش قیاسی کی کوشش ہے کہ نریندر مودی ہندوستان کو جنگ میں دھکیل رہے ہیں اس اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے نتائج سے دنیا واقف ہے ۔ دو روز قبل سشما سوراج نے پارلیمنٹ میں ایک کانگریسی رکن کے سوالات کے جواب میں بھی یہ کہا کہ ہماری فوجی قوت کسی سے کم نہیں لیکن جنگ کی بجائے سفارتی کوششوں سے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ چینی اخبار نے الزام عائد کیا کہ مودی حکومت ملک کو صحیح صورتحال نہیں بتا رہی ہے ۔یہ تو چینی اخبار کی جانب سے چھیڑی گئی جنگ سے قبل ایک نفسیاتی حملہ ہے ۔ اس جانب سے ہندوستان کو مرعوب کرنے کیلئے بار بار چینی میڈیا میں یہ پھیلایا جارہا ہے کہ اس کی اور ہندوستانی فوجی قوت کا توازن کیا ہے ۔ہمارے یہاں بھی کچھ ایسا ہی میڈیا وار جاری ہے ۔ اس میڈیا وار میں بار بار وزیر اعظم کو ایک عجیب کرشماتی مخلوق بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ انہوں نے کہاں کہاں اور کس طرح چین کو زک پہنچائی ہے ۔یہ بھی بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہی وہ وزیر اعظم ہیں جنہوں نے ملک کا وقار پوری دنیا میں بلند کیا ہے ۔چین کے معاملہ میں ہی انہوں نے سفارتی کوششوں کو کچھ ایسا کارآمد بنایا ہے کہ پوری دنیا فی الحال ہندوستان کے ساتھ ہے اور چین کی شرارت سے پوری دنیا واقف ہو چکی ہے ۔ اب تو آر جے نوید نے بھی اپنے مخصوص انداز میں ایک آڈیو پیغام وائرل کیا ہے جس میں کسی شخص سے کہا گیا ہے کہ وہ کیوں ہندوستانی فوج کو چینی فوجیوں سے کم آنکتا ہے اس سے ہمارے فوجیوں کا حوصلہ کمزور پڑے گا ۔ ہم یہ بالکل بھی نہیں کہیں گے کہ ہندوستان چین سے یہ جنگ ہار جائے گا اور نا ہی ایسا کہنا ہمیں زیب دیتا ہے ۔لیکن ہمیں یہ حق تو ہے ہی کہ ہم اپنی حکومت سے سوال کریں کہ اس نے ملک کی دفاعی پوزیشن کس حد تک مضبوط کی ہے اور اس کی فوجی تیاریاں کہاں تک ہیں؟اس طرح کے سوال پر ملک مخالف ہونے کا نظریہ چسپاں نہیں کرنا چاہئے ۔موجودہ جنگی حالت میں ایک ہندی روزنامہ نے برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈس کے رکن میگھ ناتھ دیسائی کے حوالے سے بتایا ہے کہ چین کے ساتھ جنگ میں امریکہ ہندوستان کے ساتھ ہوگا ۔ لیکن یہ جنوبی چین کے سمندر کے حالات پر منحصر ہے ۔یہاں امریکہ کا ہندوستان کے ساتھ آنا بعید از قیاس اس لئے نہیں ہے کہ اس پورے علاقے میں چین کی بڑھتی قوت اور اس کے اثرات سے امریکی مفاد کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔ لیکن جو بات یہاں سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ بڑی طاقتیں عام طور پر سیدھے ٹکراؤ سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں ۔لہٰذا امریکہ بھی چین کے ساتھ راست ٹکراؤ سے بچنے کی ہی کوشش کرے گا ۔ میگھ ناتھ دیسائی کا یہ خدشہ بھی اخبار نے نوٹ کیا ہے کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو وہ صرف ڈوکلام تک ہی محدود نہیں رہے گی کئی محاذوں پر لڑی جائے گی اس کی وسعت اور ہولناکی جنوبی چین کے سمندر میں چینی اور امریکی مفاد پر منحصر ہے اس محاذ پر بھی جنگ ہو گی نیز یہ جنگ مختصر مدت کیلئے نہیں ہوگی بلکہ یہ ایک لمبے عرصہ تک لڑی جانے والی جنگ بھی بن سکتی ہے ۔ دوسری رائے میری ہے کہ اگر اس جنگ میں امریکہ ہندوستان کے ساتھ آتا ہے تو پھر یہیں سے تیسری جنگ عظیم کی بھی داغ بیل پڑ جائے گی اور دنیا ایک بھیانک تباہی سے دو چار ہو گی ۔
ممکن ہے کہ 1962کی ہند چین جنگ میں بھی یہی حالت رہی ہو کہ مہینوں سے میڈیا کے ذریعہ پروپگنڈہ کیا جاتا رہا ہو ۔ ممکن ہے ایسا نہیں بھی ہوا ہو کیوں کہ ہندوستان نے چین سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ بلند ہوا تھا لیکن چین نے دھوکہ دیا اور جنگ ہوئی اور ہمیں بھاری ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ۔ لیکن اکیسویں صدی چونکہ میڈیا کا زمانہ ہے تو اس میں پروپگنڈہ جنگ کا ہی ایک حصہ ہے ۔ یہ بات دنیا کی کئی اہم شخصیات مان چکی ہیں کہ اب جنگ دو محاذوں پر لڑی جاتی ہے ایک فوجی لڑتے ہیں اور دوسری جنگ صحافیوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ۔ اندرون ملک ہمارا میڈیا جس کی اکثریت موجودہ حکمرانوں کے سامنے سجدہ ریز ہے اس نے ہمیں گمراہ کرنے کا سلسلہ کافی عرصہ سے جاری رکھا ہوا ہے ۔ لیکن ایک بات تو سامنے آرہی ہے کہ ہم بہر حال بہت ساری حیل و حجت کے بعد یہ مان لینے کی جانب بڑھ رہے ہیں کہ پاکستان نہیں چین ہے ہمارا اصلی دشمن ۔لیکن ہم نے یہ ماننے میں ستر سال لگا دیئے ۔اگر ستر سال پہلے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہوتا کہ چین سے ہمارا مقابلہ ہے تو آج ہماری معاشی اور فوجی قوتیں چین سے آگے نہیں تو اس سے کم بھی نہیں ہوتیں۔ہم نے ہمیشہ سرحد پر ہونے والی چینی گھس پیٹھ سے نظریں چرائیں اور صرف نظریں نہیں چرائیں بلکہ اپنے عوام کو بھی اس سے بے خبر ہی رکھا ۔پچھلے تین برسوں سے خبروں پر نظر رکھنے پر یہ معلوم ہوا کہ چین سرحد پر گھس پیٹھ کرتا رہا لیکن ہم نے اس کو خبر کا حصہ بھی نہیں بننے دیا ۔ بس آن لائن کسی ویب سائٹ سے زیادہ اس خبر کو کہیں جگہ دینے کو راضی نہیں ہوئے ۔ ہمارے ارکان پارلیمان و اسمبلی میں سے کوئی چین پر لب کشائی کرنے کو راضی نہیں ہوتا تھا سب کی زبان پر بس ایک ہی مشترکہ دشمن پاکستان کا نام ہوا کرتا تھا ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پاکستان کو دشمن کے طور پر پیش کرکے ملک میں فرقہ وارانہ ماحول گرم کیا جاسکتاہے اور اس کی وجہ سے ووٹوں کا ارتکاز بھی ممکن ہو سکتا ہے ۔ لیکن چین کے بارے میں حقیقت بیان کرکے بھی کوئی ووٹوں کی سیاست ممکن نہیں تھی ۔یعنی ہماری دیش بھکتی کا سارا کھیل ووٹوں کی حصولیابی تک ہی سمٹا ہوا ہے ۔ہمارا یہ رویہ ایسا ہی تھا جیسے شتر مرغ نے ریت میں منھ چھپا کر سوچ لیا ہو خطرہ ٹل گیا ۔ اب اگر ہم ماننے لگے ہیں کہ چین ہی ہمارا اصل دشمن ہے تو پھر اس جانب پیش قدمی کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہماری تیاری بھی اسی طرح کی ہو ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ ملک کے ماحول میں کشیدگی پائی جاتی ہے اسے دور کیا جائے ۔ یاد رکھنا چاہئے اندرونی جھگڑوں میں پھنسی قوم کبھی بیرونی خطروں کا سامنا نہیں کرسکتی ۔یہ جو کچھ لوگوں کو مذہبی جنون کا دورہ چڑھا ہے اسے ٹھنڈا کیا جائے ۔ امن و امان کی صورتحال بحال کی جائے ۔ یہ سب کچھ حالت امن میں تو آسانی سے ممکن ہے لیکن جب جنگ مسلط ہوجائے گی تو پھر اس اندرونی حالت کو سدھارنا ناممکن ہو جائے گا ۔
بہرحال چینی میڈیا کے اس الزام میں سچائی نظر نہیں آتی کہ مودی حکومت ملک کو جنگ میں دھکیل رہی ہے ۔ کم از کم چین کی حد تک تو نہیں ۔ بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ بھی جنگ کے معاملہ میں ہندوستان بڑا محتاط قدم اٹھانے والا ملک ہے ۔اس کا سبب جو بھی ہو لیکن اسے معلوم ہے کہ جنگ مسائل کو جنم دیتی ہے مسئلہ ختم نہیں ہوتا ۔ یہ محض چین کا پرپگنڈہ ہے ۔محاذ جنگ پر فوجیوں کے درمیان لڑی جانے والی جنگ سے قبل ہندوستان کی سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے ۔ممکن ہے کہ وہ اس میں کامیاب بھی ہو جائے کیوں کہ ہمیں فی الحال ہماری سفارتی کوششوں کے بارے میں مکمل جانکاری ہی نہیں ہے اور نا ہی اس کے اثرات کے بارے میں معلومات ہے ۔ ویسے بھی دنیا ہمیشہ طاقتور کے ساتھ ہوتی ہے جس سے اس کے مفاد وابستہ ہوتے ہیں ۔ یہاں کی میڈیا میں جو کچھ باتیں دیکھ رہا ہوں وہ محض جوش و خروش ہے اور اس میں کسی عظیم ملک کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی ۔ اس وقت پوری دنیا میں ہمارے یہاں حکومتی سرپرستی میں جاری عوامی اور ہجومی تشدد کی باز گشت پوری دنیا میں سنائی دے رہی ۔

0 comments: