featured

ہندوتو بنام ہندوتو میں ہم کہاں ہیں؟


قاسم سید 
  
سابق امریکی صدربراک اوبامہ کے اس بیان کی گہرائی کو ملک کی سیاسی پارٹیوں کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے جس میں انہوں نے تاکیدی مشورہ دیاتھا کہ ہندوستان کو اپنی مسلم آبادی کی قدر کرنی چاہئے اور ان کا دھیان رکھناچاہئے جو خود کو اس ملک سے جڑا اور ہندوستانی مانتے ہیں ہندوستان ٹائمز لیڈر شپ سمٹ میں ان کے اس تبصرہ کو زیادہ اخبارات نے اولیت کے ساتھ جگہ نہیں دی انہوں نے گفتگو کے دوران یہ بھی انکشاف کیا تھا 2015 میں ہندوستان کے آخری دورے میں وزیراعظم نریندرمودی کے ساتھ بند کمرے کی بات چیت کے دوران مذہبی رواداری اور کسی بھی مذہب کے ماننے کے حق پر زور دیاتھا۔ اس کی قدر کرنے اور مسلسل استحکام کی ضرورت ہے۔ سال 2009اور 2017کے درمیان امریکی صدر رہے اوبامہ نے اپنے سفر کے آخری دن بھی علی الاعلان اس طرح کا تبصرہ کیاتھا۔ موجودہ حکومت کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کئی مرتبہ یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ہندوستانی مسلما ن امن پسند ہے اس نےدہشت گردی کی حوصلہ افزائی نہیںکی۔یہی وجہ ہے کہ القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس جیسی تنظیموں کو یہاں راستہ نہیں مل سکا اس کا سوفیصد کریڈیٹ مسلمانوں کو جاتا ہے۔ وزیراعظم بھی حب الوطنی کے معاملہ میں مسلمانوںکی پیٹھ تھپتھپاچکے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان کی مدرتنظیم آر ایس ایس اور بی جے پی کارویہ بالکل برعکس ہے۔ ملک کے اندر ماضی کا انتقام لینے اور ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو ذہنی وجسمانی اذیت پہنچانے کے لئے تمام راستے اختیار کئے جانے سے گریز نہیں کیاجارہا ہے۔ بلکہ عملاً ایسے پرجوش انتقام پسند عناصر کی سرکاری سرپرستی کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔اسے ہندوستانی مسلمانوں کا صبرو تحمل دانشمندی اور قوت برداشت کا نام دیجئے کہ وہ گذشتہ کئی سال سے اعلانیہ تشدد موب لنچنگ‘ سرعام پیٹ پیٹ کر بے گناہ نوجوانوں اور بزرگوں کے قتل کے وحشیانہ واقعات کے باوجود امن وانصاف کی رسی ہاتھ سے جانے نہیں دیناچاہتے ورنہ ردعمل کا راستہ اختیارکرتے تو کشیدگی کا بارود سماج کو تباہ کردیتا اس نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کی آس نہیں چھوڑی افسوس کہ قومی قیادت عارضی سیاسی مفادات کی خاطر اس جذبہ کی قدروقیمت سمجھنے کے لئے تیار نہیں اور اسے لگاتار مشتعل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بی جے پی نے تو مسلمانوں کے وجود کو ہی مستردکردیا ہے وہ لگاتار یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہے کہ مسلمانوں کے ووٹوں کے بغیر بھی الیکشن جیتاجاسکتا ہے اور جب ایسا ہوسکتا ہے تو پھر ان کے مسائل اور بستیوں سے کوئی واسطہ کیوں رکھاجائے ۔ مسلم بستیوں میں راستے تنگ اور گندگی سے بھرے ملیں گے ان میں زیادہ تر کباڑی‘ گاڑیوں کے میکنیک‘ فرنیچر اور کھانے پینے کی دکانیں‘نالیوں سے ابلتا تعفن‘بند سیور کی وجہ سے گلیوںمیں سڑتاپانی اور جگہ جگہ کوڑے وغلاظت کے انبار ان کی شناخت ہیں۔ سڑکوں پر گریس‘ لکڑی کی چھیلن اور مرغیوں کے پنکھ ان کی بساند محسوس ہوگی۔ بے روزگار مسلم نوجوانوں کے جھنڈ نکڑوں پر مل جائیں گے جب ہاتھ میں کام نہیں توکریں کیا یہ حالت بی جے پی کی وجہ سے نہیں ہوئی اس کے لئے ساری محنت کانگریس اور اس کے شکم سے پیدا دیگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی دین ہے کیونکہ اقتدار پر زیادہ ترتوانہی کا قبضہ رہا ہے جنہوں نے دلتوں کو اوپر اٹھانے اور مسلمانوں کو ان کی جگہ پہنچانے میں بہت ہی عیاری‘ مکاری اور منافقت کا مظاہرہ کیا اوبامہ نے صرف بی جے پی یا مودی کو ہی مشورہ نہیں دیا انہوں نے ہندوستان کی اکثریتی قیادت کو آئینہ دکھایا ہے جس میں کانگریس سمیت تمام پارٹیاں شامل ہیں۔ کانگریس نے مسلمانوں کو جہاں لاکھڑا کیا بی جے پی نے اس حکمت عملی پر چل کر زیادہ جارحیت اور زیادہ خونخواری کا مظاہرہ کیا۔ اب اس سے یہ سوال کرنے والا کوئی نہیں کہ گجرات فساد کا رہ رہ کر زخم ہرا کرنے اور نمک چھڑکنے کا عمل گجرات الیکشن میں کیوں ترک کردیا۔ اب اسے مسلمان کیوں یاد نہیں آئے۔ وہ ان کی مظلومیت کا ڈھول کیوں نہیں بجاتی راہل گاندھی کے جینو دھاری ہندویعنی پنڈت برہمن ہونے کی خاصیت کیوں بتائی جارہی ہے۔
کانگریس کے کلمہ گو حضرات کے پاس اس کا بھی جواب ہوگا کہ مسلمانوں کا تذکرہ کرنے سے بی جے پی کو فائدہ پہنچے گا سبحان اللہ۔ یعنی چھری خربوزہ پر گرے یا خربوزہ چھری پر نقصان تو خربوزہ کا ہی ہوگا۔ کانگریس سے یہ سوال کرنا بھی بی جے پی کی حمایت ماناجاسکتا ہے کہ مغربی سورت میں صرف 18ہزار مسلمان ہیں وہاں مسلم امیدواراتار دیا جبکہ مشرقی سورت میں نوے ہزار ہیں وہاں کسی اور کو ٹکٹ دے دیا۔ حالات بتا رہے ہیں کہ بی جے پی ہر پارٹی کو ہندوتو کا چاب کرانے میں کامیاب نظرآرہی ہے ساری پارٹیاں مل کر اسے سیکولرازم کا چالیسا پڑھانے میں ناکام رہیں مگر اس نے ان کے ہاتھ سے سیکولرازم کا ڈھول چھین کر ہندوتو کا ترشول ضرور تھما دیا۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کا ہر لیڈر سینہ پیٹ پیٹ کر بابری مسجد کا تالہ کھولنے سے لے کر شیلا نیاس کرانے اور اسے شہید کرانے کا کریڈیٹ لینے میں سبقت لیتا دکھائی دیتا ہے۔ ٹی وی ڈی بیٹ میں اگر اس کے نمائندے فخر سے رام مندر کا راستہ ہم نے ہموار کیا کہہ رہے ہیں اور ہائی کمان خاموش ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ گرین سگنل دیاگیا اور اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یعنی اب قومی سیاست ہندوتو بنام ہندوتو ہوگئی ہے اور یہ صرف گجرات تک محدود نہیں رہے گی ۔ 2019 میں یہ کھیل اور شباب پر ہوگا۔ بی جے پی کو مبارک باد دینی چاہئے کہ اس نے نتیش جیسے لیڈروں اور کانگریس جیسی پارٹیوں کی شیرکی اوڑھی کھال نوچ کرپھینک دی اور ان کا ہندوتو پر یم بے نقاب کردیا۔
ان حالات میں مسلمانوں کے لئے سوچنے کا مقا م ہے کہ وہ کیا کریں سیکولرازم کا کھیل پرانا ہوگیا۔ یہ ڈھونگ آنے والے دنوں میں نہیں چلے گا۔ کوئی پارٹی مسلم مسائل کا تذکرہ تو دور، ان کا نام لینے سے بھی خوف کھارہی ہے۔ گجرات کی انتخابی مہم اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ تو کیا ایسے ہی پچھ لگو بنے رہیں غلاموں کا انداز اختیار کئے رہیں گلے میں پیدائشی کانگریس کاپٹہ ڈالے گھومتے رہیں۔ جو بی جے پی کو ہرائے اس کو جِتائیں کی بوسیدہ پٹی ہوئی حکمت عملی پر عمل کرتے رہیں اس کا حشر تو دیکھ رہی رہے ہیں۔ کوئی نیا تجربہ کریں ۔ نیا راستہ تلاش کریں کیا خود کو انتخابی سیاست سے کچھ مدت کے لئے دوررکھیں۔ تاکہ مسلم منافرت پھیلانے کا موقع نہ دیا جائے۔ معاہداتی سیاست کو آزمائیں۔ زمینی سطح پر کام کرنے کی ضرورت سمجھیں۔ خود کو تعلیم اور روزگار کی جدوجہد تک محدود رکھیں یا اترپردیش کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں مسلم عوام نے جس حکمت عملی کے ساتھ پولنگ کی ہے اس کو آگے اختیار کریں۔ دوباتیں بالکل واضح ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ تمام مسلمان متحد ہوکر کسی ایک جگہ ووٹ کریں۔ دوسرے مسلم لیڈروں کے درمیان اتحاد خواب وخیال کی باتیں ہیں۔ ان کے آپسی اختلافات اتنے گہرے اور جماعتی مفادات اتنے مختلف ہیں کہ کم از کم مشترکہ پروگرم کےتحت اکٹھا ہونا بھی ممکن نہیں ہے۔ وہ مسلم پرسنل لا کے علاوہ کسی اور ایشو پر ایک جگہ نہیں آسکتے۔ سب کی اپنی ترجیحات ہیں۔ کوئی کسی کی قیادت قبول کرنے یا اجتماعی قیادت کے لئے بھی راضی نہیں۔ ایک گھر کے دو لوگ بظاہر ایک نہیں ہوسکتے توپھر اتحاد کا تصور ہی بے فیض ہے۔
یہ وقت شور مچانے‘ اشتعال کا مظاہرہ کرنے اور ردعمل کے اظہار کا نہیں بلکہ خاموش اور صبروتحمل کے ساتھ دبے پائوں آگے بڑھنے کا ہے بی جے پی کے پاس پروپیگنڈہ کی طاقت ہے اس لئے یوپی کے بلدیاتی الیکشن میں اس کی پسپائی 14میئروں کی جیت میں چھپ گئی ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم عوام نے برادران وطن کے ساتھ مل کر بڑی خوبی کے ساتھ پولنگ کی سیکولر پارٹیوں نے اکثریتی علاقوں میں مسلم امیدوار اتار کر بی جے پی کے لئے راستہ ہموار کردیا تھا جیسا مراد آباد وامروہہ میں ہوا اور رام پور میں لاج بچ گئی۔ مسلمانوں نے کسی ایک پارٹی سے خود کو نہیں باندھا ایم آئی ایم کے بھی حیرت انگیز طور پرکئی امیدوار جیت گئے صرف فیروز آباد میں دس کونسلر منتخب ہوئے ہیں۔ مسلمانوں نے ووٹوں کے بکھرائو کو محسوس کرلیا ہے۔ انہوں نے پہلے مسلم امیدوار اس کے بعد بی جے پی کو شکست دینے والی پارٹی کو ووٹ دیا کسی مسلم پارٹی کا امیدوار جیتتا دکھائی دیا تو اسے ووٹ دینے سے دریغ نہیں کیا ،یہ حکمت عملی ہے ۔ان مسلم لیڈروں کو جواب دیناچاہئے جو کسی مسلم جماعت کا مسلم امیدوار اتارنے پر بی جے پی کا ایجنٹ بتانے میں دیرنہیںکرتے مگر جب یہی کام سیکولر پارٹیاں کرتی ہیںتو ان کی زبان کو تالا لگ جاتا ہے سب اپنا سوچتے ہیں۔ الیکشن لڑنے والی مسلم جماعتیں سیٹیں نشان زد کرکے امیدوار اتاریں تواچھا پیغام جاسکتا ہے جرأت مند حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اپنا بوجھ خود اٹھائیںنہ کہ دوسروں کا بوجھ بھی ڈھوئیں۔ ستر سال بعد بھی اگر سمت وسفر میں تبدیلی کی ضرورت نہ سمجھیں تو ہم سے بڑا بدبخت کون ہوگا اوبامہ کی نصیحت پر ہم خودہی اپنی قدر کرنا سیکھ لیں۔

0 comments:

featured

فیشن اور نسل نو کی تباہی



عفیفہ مطیع الرحمٰن

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
نوجوان نسل ملک و ملت کا ایک قیمتی سرمایہ اور مستقبل کا درخشان ستارہ ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر تحریک نوجوانوں کی جدوجہد سے ہی کامیاب ہوتی ہے۔ لیکن آج نوجوانوں میں انقلابی و تحریکی کاموں کے بجائے فیشن پرستی، بے حیائی، دوسروں کی نقالی اور منشیات کے استعمال کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نوجوانوں کی تباہی پوری قوم کی تباہی ہے۔ موجودہ دور کے مسلم نوجوانوں کے پاس سب کچھ ہے مگر افسوس! نہیں ہے تو زندگی کا صحیح مقصد نہیں ہے اور نہ سچا ایمان ہے۔ انھیں اپنے لٹنے کا کوئی افسوس بھی نہیں بلکہ وہ اس مصرعہ کے مصداق ہیں ؂
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
لباس ہو یا طور طریقہ، چلنے کا انداز ہو یا گفتگو کا انداز، ان کی تمام حرکات قابل مذمت اور قابل افسوس ہوتے ہیں۔ لیکن ان سارے معاملات میں صرف یہ نوجوان ہی قصوروار نہیں بلکہ ان کے والدین کا بھی حصہ شامل ہوتا ہے، جنھوں نے اپنے فرائض سے غفلت برتی اور ان کی تربیت کو قابل توجہ نہ جانا۔ گھر بچوں کی بنیادی تربیت گاہ ہوتی ہے، اس مکتب میں بچوں کے طبعی رجحانات کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔ جن بچوں کی زندگی میں والدین کی غفلت اور بے تدبیری کے سبب غلط قسم کے رجحانات راہ پا جاتے ہیں ، اعلیٰ سے اعلیٰ تربیت گاہ بھی ان کے ذہنی افتاد کو نہیں بدل سکتی۔ سامنے کی بات ہے کہ ہمارے بچے اپنے دین کی اعلیٰ قدروں اور دینی روایات سے بیزار ہیں۔ ان کے اندر مذہب سے بیگانگی اور شریعت کی پابندی سے اعلانیہ بغاوت ہے۔ انھیں تفریحی مشاغل سے فراغت اور فیشن پرستی سے فرصت نہیں۔ نمو د ونمائش کے یہ دھندے ان کی جان کا آزار بن گئے ہیں۔
لڑکیوں کو لڑکے کے شانہ بشانہ ترقی کرنے کی خواہش بے قرار رکھتی ہے۔ وہ ہر کام میں مردوں کی نقالی کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ اپنی نسوانیت کھوتی جارہی ہیں۔ اسی طرح لڑکے لڑکیوں میں مقبول ہونے کے لئے ان کے نظریات کو پسند کرنے لگتے ہیں۔ ان کے انداز گفتگو، ان کے فکرونظر میں مردانہ وجاہت باقی نہیں رہتی۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ دونوں اپنے اپنے فطری مقام سے گرگئے۔ بقول شاعر ؂
چلنا تھا جس کو دین کی پاکیزہ راہ پر
وہ قوم بے حیائی کے رستے پر چل پڑی
فیشن کا خاصہ ہے کہ وہ انسانی رویوں کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ اب تو اس فیشن کی وجہ سے نوجوانوں کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ لڑکیاں جینس، ٹی شرٹ میں ملبوس مکمل لڑکوں والا حلیہ بنائے خود پر فخر محسوس کرتی ہیں تو لڑکے ہاتھوں میں کنگن ڈالے، بالوں کی پونی بنائے، کانوں میں بالیاں سجائے صنف نازک کو مات دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ آپؐ نے فرمایا:
’’لعنت ہے ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ان مردوں پر بھی جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں‘‘ (بخاری)
مردوں نے سب سے بڑی غلطی یہ کی ہے کہ فرد اور سماج کی تشکیل میں عورتوں کو اس کا صحیح مقام نہیں دیا، اس لئے سماج میں اس کا مقام اب بھی زیر غور ہے۔ پہلے عورت کو ایک قابل احترام شئے مان کر اسے کسی مذہبی آثار کی طرح درونِ خانہ رکھ دیاگیا تاکہ اس کی بے حرمتی نہ ہو، پھر خیال آیا کہ اسے اس قدر مجبور نہ بنانا چاہئے، اسے بھی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے لذت آشنا ہونے کا موقع دیا جائے۔ اس لئے اسے اس قدر آزادی دے دی گئی کہ وہ گھر سے نکل کر بازاروں میں جا بیٹھی اور مردوں کی عیش پرستی بہترین ذریعہ بن گئی۔ مردوں کی اس لذت آشنائی نے انھیں اس قدر اندھا کر دیا کہ قدیم یونان و روم میں طوائفوں اور بازاری عورتوں کے ہاتھوں میں تہذیب و تمدن کی عنان دے دی گئی اور انھیں زندگی کے اعلیٰ منصب پر فائز کردیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تہذیب و تمدن کی دھجیاں اُڑ گئیں اور ان کا نام صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔
سوشلزم اور جمہوریت کی غلط تعبیر نے عورتوں کے حقوق کی آزادی کے نام پر انھیں غلامی کی ایک اور زنجیر میں جکڑ دیا۔ مثلاً انھیں مردوں کے برابر کارخانوں، دفتروں اور دنیا کے دوسرے کاروبار میں کام کرنے کی آزادی تو دے دی گئی لیکن بچوں کی پرورش اور گھریلو ذمہ داریاں ان سے واپس نہیں لی گئیں۔ اس طرح مردوں کے مقابلے میں ان کی ذمہ داری دوہری ہوگئی ۔ عورت نے اپنی ذمہ داریوں کو کم کرنے کے لئے ان طبی طریقوں کو جو نسل انسانی کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے ایجاد کئے گئے تھے غلط طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔
عورتوں کو معیشت کی ذمہ داری میں جب مردوں کے برابر شریک کیا گیا تو وہ اپنا سب کچھ کیوں نہ بیچیں ، جبکہ مردوں نے اپنی مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اپنا ایمان بیچ کر جھوٹ ، دغابازی، چوری، رشوت اور دوسرے جرائم کو روا رکھا۔ یہاں تک کہ ہم جنسی اختلاط کو بھی آزادی کا نام رکھ کر ایک جائز عمل قرار دیا ۔ مردوں نے عورتوں کو یا تو ضرورت سے زیادہ حقوق دئے یا ضرورت سے کم ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تہذیب و تمدن کی کوئی شکل نہ بن سکی اور فحاشی کی بنیاد گہری ہوتی گئی۔ آرائش و زیبائش کی جدید ترین مصنوعات کو سرمایہ داروں نے اس قدر فروغ دیا کہ اب وہ گھر کے بجٹ کا لازمی جزو بن گیا۔ اس سے عورتوں کی دلنوازی اور کشش غیر فطری حد تک بڑھی اور سوسائٹی میں ایک عورت کو دوسری سے زیادہ پرکشش بننے کا شوق ہوا جس نے مردوں کے جذبات میں اس قدر ہیجان برپا کیا کہ انھوں نے اپنے لذت کی حصولیابی کے لئے عورتوں کو ہوٹلوں ، کلبوں ، رقص گاہوں اور فن کے نام پر ممتاز جگہ دی اور ان سارے حجابات کو اٹھاکر رکھ دیا جو عورت اور مرد کے درمیان پاکیزگی ، احترام اور تقدس کا درجہ رکھتے تھے۔
آج کے مسلم نوجوانوں کو یہ حقیقت معلوم ہی نہیں ہے کہ اس کا وجود اس کی اپنی ملکیت نہیں بلکہش کی امانت ہے۔ لہٰذا اس امانت کی حفاظت کرنا ، اسیش اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق استعمال کرنااور اس سے وہ کام لینا جس کے لئے اس کی تخلیق ہوئی ہے، یہی ان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہئے۔ مسلمانوں میں پھیلنے والی فحاشی اور بے حیائی میں جتنا اہم کردار فیشن نے ادکیا ہے شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ کیونکہ اسلام نے تو وضع قطع اور طرز زندگی اپنانے میں جو حدود و قیود مقرر کی ہیں ایک مسلمان ان حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی زندگی سنوار سکتا ہے۔ جبکہ فیشن ہر حدود وقیود سے آزاد ہوتا ہے۔ پہلے جن چیزوں کو لوگ اپنانے سے ہچکچاتے تھے ، فیشن کے نام پر ان کو بلاتکلف اختیار کرلیا جاتا ہے۔ اگر فیشن پرستی کی پٹی آنکھوں سے اتار کر دیکھیں تو واضح ہوجائے گا کہ اس فیشن کا مقصد یہی ہے کہ لوگوں کے اندر سے شرم وحیا کو ختم کرکے بے حیائی کو فروغ دیا جائے۔ بقول اقبال ؂
وہ حیا جو کل تلک تھی مشرقی چہرے کا نور
لے اُڑی اس نکہتِ گل کا یہ تہذیب فرنگ
انسان نے ظاہری جسم کے نقصان کو تو پہچان لیا مگر اس نے روح کی بیماریوں سے نگاہیں پھیر لیں۔ وہ نماز یں ترک کرتا ہے، روزہ چھوڑتا ہے، سگریٹ پیتا ہے، جام چھلکاتا ہے، جھوٹ بولتا ہے اور مختلف برائیوں میں ملوث ہوکر اسلامی احکامات توڑتا ہے اور نہ جانے کیا کیا اسلام مخالف کام کرتا ہے۔ دن بھر کی مصروفیات سے تھک کر سکون تلاش کرتا ہے ٹی وی، انٹرنیٹ میں ، لیکن انھیں یہ نہیں معلوم کہ حقیقی سکون اگر ہے تو صرف اللہ کی یاد میں ۔ ان کا جو حلقۂ احباب ہوتا ہے وہ اکثر غیرمسلم، بداخلاق، بدکردار دوستوں کا ہوتا ہے اور انہی کے زیر اثر ہمارے یہ مسلم نوجوان ہوتے ہیں۔ نبی کریمؐ سے کسی نے پوچھا کہ بہترین ساتھی کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا:
’’ وہ شخص جو تمھیں نیک کام کرتے ہوئے دیکھے تو تمھاری مدد کرے اور برا کام کرتے ہوئے دیکھے تو تمہیں تنبیہہ کرے‘‘۔
نوجوان نسل خود اپنی فطرت کے حدود کو پھاند جانے کی وجہ سے تباہ و برباد ہورہی ہے۔ ان پر مغربی تہذیب کا غلبہ اس قدر ہے کہ خاندانی نظام کے ساتھ وہ سارے رشتے بھی بے معنی ہوگئے ہیں جن رشتوں کے سہارے ہمیں اپنے دکھ سکھ میں بہترین رفیق مل جاتے ہیں جو بے ضرر، غمخوار ار بے غرض دوست ہوتے ہیں۔ خاندانی نظام کے ختم ہوتے ہی ان رشتوں کی رفاقت و محبت سے انسان محروم ہوجاتا ہے۔
مغرب کی اس تباہ کاری کے نتیجہ میں شرم وحیا، ہمدردی، محبت، ادب، غم گساری، شفقت ان سب اخلاقی قدروں کو زبردست نقصان پہنچا اور آدمی انسانیت کے مقام سے کافی نیچے گر گیا۔ خاندانی نظام انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور یہ بہت سی اخلاقی قدروں کا ازخود محافظ ہے۔ چنانچہ جن جن ملکوں میں مغربی تہذیب کے زیر اثر خاندانی نظام کو درہم برہم کیا گیا وہاں انسانی نسلیں سخت مشکلات میں مبتلا ہوگئیں اور بچے گھروں کی پُر محبت فضا سے محروم ہوگئے، جہاں ان کے اندر سے انسانی صفات کم سے کم تر ہوتی جاتی ہیں وہ ذرا بڑے ہوتے ہیں تو آوارہ جانوروں کی طرح گلیوں اور بازاروں میں پھرتے ہیں اور جرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ غرض جن ملکوں اور قوموں کا جائزہ لینا ہو وہاں کی گھریلو زندگی کو دیکھ لینا کافی ہے۔جو حالت گھر کی ہوگی وہی حالت ملک کی بھی ہوگی۔ جو افراد اپنی گھریلو زندگی میں ایک دوسرے کے وفادار نہ ہوسکیں اور ایک دوسرے کے لئے ایثار کرنا نہ سیکھیں گے وہ ملک و قوم کے مصائب کے لمحات میں کس طرح مشقت اور قربانی برداشت کرسکیں گے۔ گھریلوزندگی کسی قوم کی زندگی کا صحیح پیمانہ ہے۔ گھر اگر انتشار کا شکار ہوگا تو نسلیں لازماً تباہ وبرباد ہوں گی۔ پھر اس گھریلو زندگی کی اخلاق سے عاری ادب نے خاص کردار ادا کیا ہے۔ اس کی مدد سے اقدار کو بدلا گیا اور اخلاق کو تباہ کرنے کے لئے حیوانی فلسفوں کو پھیلایا گیا۔ ضبط ولادت کی تحریکیں چلیں، امراض خبیثہ کی کثرت ہوئی، بدکاری روزمرہ کا معمول بن گئی اور بدکاروں کے لئے سوسائٹی میں کوئی رکاوٹ نہ رہی بلکہ اسے وسیع النظری، فیشن اور جدیدیت قرار دیا جانے لگا۔
انگریزوں کو اپنی ڈیڑھ سو سالہ دور میں کبھی اتنی جرأت نہ ہوئی کہ اس ملک کے باشندوں کی معاشرت میں براہ راست دخل دے سکیں ، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ ایک نہایت نازک مسئلہ ہے جو لوگوں کی غیرت وحمیت کو بھڑکا دینے والا ہے۔ اس لئے انھوں نے مسلم معاشرہ میں ہر جگہ مخلوط تعلیم میں اضافہ کیا۔ ہر جگہ رقص و سرود کی محفلیں کثرت سے منعقد کرائیں۔ اندرون ملک ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعہ بے حیائی کو عام کیا۔ہر ملک میں آرٹ کو نسلوں کے نام سے ناچنے گانے کے ادارے قائم کئے گئے جن کے سر پرست سرکاری حکام تک بن گئے۔ اسلامی تعلیمات کے فروغ پر کچھ صرف کرنے کے بجائے بھاری رقوم آرٹ کو نسلوں جیسے اسلامی تہذیب کے منافی اداروں پر کی جانے لگی۔ معصوم لڑکیوں اور لڑکوں کو ہر جگہ ناچ گانے کی تعلیم دی جانے لگی اور موقع بے موقع ڈراموں کے ذریعہ لڑکوں اور لڑکیوں کو ایسے کاموں کی تعلیم و ترغیب دی جانے لگی جو حیا سوز بھی تھے اور اخلاق سوز بھی۔ انتہا یہ کہ جابجا تعلیمی نصاب کو بھی اس طرح مرتب کیا گیا کہ اس میں ناچ گانے اور ثقافتی سرگرمیوں کی گنجائش رکھی گئی تاکہ اگر موقع مل جائے اور یہ قوم اگر ان سرگرمیوں کو برداشت کرلے تو پھر آہستہ آہستہ انھیں پوری طرح سے شرم وحیا اور اخلاق و آداب اور اسلامی جذبات و حسیات سے عاری کردیا جائے۔ ان سرگرمیوں کے نتیجے میں مسلم معاشرے میں ہر جگہ غنڈہ گردی، بداخلاقی، فحش کاری اور طلاق کے واقعات بڑھ گئے اور محسوس ہونے لگا کہ مسلمانوں کے بڑے لوگوں نے حکومت کی قوت ، دولت اور اثر ورسوخ کو جن کاموں پر صرف کیا تھا اب اس کے نتائج برآمد ہونے لگے ہیں۔
عورتوں کے لئے اسلام نے جس کردار کی تصویر کشی کی ہے اور جس قسم کا مطلوبہ کردار حضور اکرمؐ نے اس وقت اسلامی سوسائٹی میں تیار کرکے عملاً دکھایا تھا وہ اس سے قطعی مختلف ہے جو مغربی تہذیب پیدا کرتی ہے۔ یہ تہذیب عورتوں کو ذلیل و خوار کرتی ہے۔ عورت کے لئے اسلام کے دائرہ کار کی تخصیص اس آیت سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور زمانۂ جاہلیت کی طرح سج دھج نہ دکھاتی پھرو‘‘۔ (سورہ الاحزاب ۔۳۳)
یہ ایک ہی آیت عورت کے میدان کو واضح طور پر متعین کردیتی ہے۔ یہ آیت گویا اس کی تفسیر حیات اور میدان جدوجہد کا ایک خوبصورت عنوان ہے، جس نے عورت اور مرد کی حدودِکار کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی ہے۔ دونوں اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کے مختار اور ذمہ دار ہیں۔ دونوں کا باہمی ٹکراؤ نہیں ہے، بلکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ایک خارجی معاملات کا ذمہ دار ہے تو دوسرا داخلی معاملات کا اورعورت کے لئے داخلیت کو ہی پسندیدہ قرار دیا گیاہے۔ یہ وہ ساری روایات ہیں جو اسلامی سوسائٹی کے اندر عورت کے لئے موجود ہیں ۔ یہ گویا ایک سانحہ ہے جس کے اندر اسلامی خاتون کا مجسمہ ڈھلتا ہے اور وہ محض ’’ایک عورت‘‘ سے ’’ایک مؤمنہ‘‘ بنتی ہے۔
غرض کہ ایک مؤمنہ خاتون کے کردار کا بہترین خاکہ اسلام میں موجود ہے۔ عورت بیوی کی حیثیت سے سلیقہ شعار خاتون ہوتی ہے جو اپنے گھر کو دولت سے نہیں بلکہ اپنے سلیقہ سے سجاتی ہے اور ایمان کی دولت سے مالامال کرتی ہے۔ وہ مشکل میں صبر کرتی ہے اور فراخی مین شیخی و تکبر کرنے کے بجائے اپنے مالک کا شکر ادا کرتی ہے۔ ایک مؤمنہ بیوی کی حیثیت سے جہاں اس کے فرائض بے شمار ہیں تو اس کا مقام بھی نہایت معزز ہے۔ اب تک ہما ری تہذیب اور گھریلو ماحول میں تھوڑی بہت اسلامی یا نیم اسلامی اثرات محفوظ ہیں اسے کلی طور پر جاہلی اور غیراسلامی ہونے سے خواتین ہی نے بچایا ہے۔ہماری بہنیں جو آنے والی نسلوں کی معمار ہیں، ہماری تہذیب کی جڑ ہیں اگر وہی اسلامی تعلیمات سے دور ہوکر فیشن کے دلدل میں پھنس جائیں گی تو آنے والی نسلوں کی کس طرح سے تربیت کرسکتی ہیں۔ یاد رکھئے ! اولاد دولت سے زیادہ ہمارے لئے قیمتی ہے لہٰذا ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے، کیونکہ جس راستے میں سب سے کم خطرہ ہے وہ ہمارے گھر کا راستہ ہے۔ اس لئے اپنے گھر کو خوشی و مسرت کا گہوارہ بنانے کی کوشش کریں اور ایسی ہر عادت جو ہماری اولاد کو بگاڑنے کا ذریعہ بن سکتی ہے اس کو چھوڑ دیں۔ یہ یاد رہے کہ تربیت کے بیج تلخ ہوتے ہیں مگر ان کے پھل ہمیشہ شیریں ہوتے ہیں ۔ ایک مسلمان خاتون اگر اپنا یہ فرض احسن طریقے سے انجام دے اور اولاد کی تربیت کا حق ادا کردے تو اسلامی معاشرہ پھر سے مضبوط و مستحکم بن جائے گا۔ نسلوں کو مضبوط اور امانتدار بنانے کے لئے صحیح اسلامی تربیت کی شدید ضرورت ہے۔ اسی میں ساری دنیا کی بھلائی ہے تاکہ وہ پاکیزہ کردار کے مالک بنیں ،کیونکہ قوم کی خوش حالی اور ترقی کا راز مضبوط اور پاکیزہ اخلاق میں پوشیدہ ہے۔
زمانہ جیسے جیسے آگے بڑھتا جائے گا نوجوانوں کی حیثیت اور اہمیت بھی بڑھتی جائے گی۔ تحریکوں کو کام یابی سے ہم کنار کرنے کے لئے ہمیشہ نوجوانوں نے ہی نمایاں کردار ادا کیاہے۔ ان کے اندر بے پناہ صلاحیتیں ہوتی ہیں۔وہ میدان کارزار میں شکست کو فتح میں بدلنے کی قوت رکھتے ہیں۔ یہ نوجوان ہی ہیں جو ہر تحریک کے لئے امید کی واحد کرن ہوتے ہیں۔ اسی کرن کے سہارے تحریکیں آگے بڑھتی ہیں اور اہداف کے مختلف منازل طے کرتی ہیں۔ یہ طبقہ تبھی قوم و ملت کے لئے کارگر ثابت ہوسکتا ہے جب ان کی آبیاری بہتر طریقے سے کی جائے اور ان پر خصوصی تو جہ مرکوز کی جائے تو یہ ملت کے لئے سایہ دار اور ثمرآور درخت بن سکتا ہے۔ جب ملت کا ہر طبقہ تربیت و اصلاح کے لےئے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لانے کا تہیہ کر لے تو نوجوان نسلوں کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ میں آجائے گا اور وہ اپنی زندگی کو یوں برباد کرنے کے بجائے دین و ملت پر قربان کرنا زیادہ پسند کریں گے۔
اس لئے ضروری ہے کہ تمام مسلمانوں کو فیشن کے دلدل سے نکالنے کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے۔ان کے سامنے فیشن پرستی کے نقصانات کا ذکر کیا جائے ، سنت نبویؐ پر عمل کرنے کا ثواب اور اس کے مثبت اثرات سے انھیں واقف کرایا جائے ۔ فضول خرچی اور اسراف کے سلسلے میں ش اور اس کے رسولؐ کی بیان کردہ وعیدیں سنائی جائیں ۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کو خود ہی غور کرنا چاہئے کہ اگر وہ اسی طرح گناہوں کے دلدل میں خوار ہوتے رہے اور گناہوں کا انبار لے کر اندھیری قبر میں اتر گئے تو یاد رکھئے شدید ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔
خواتین بھی فیشن کی ریس میں آگے نکلنے کے بجائے خود بھی بچیں اور اپنی ساتھی خواتین کو بھی بچائیں ۔ رشک کرنے کی چیز لباس اور زیور نہیں بلکہ اخلاق اور اعمال صالح ہیں اور خراب نہ ہونے والی سب سے چمکدار اور معطر چیز اخلاق و اعمال ہی ہوتے ہیں کیونکہ یہ تہذیبوں کا تصادم ہے اس میں مسلم خواتین کو اپنا تاریخی فرض ادا کرنا ہوگا۔ اس کے لئے محنتیں ،مشقتیں، اوقات، مال اور جانیں لگانی ہونگی، اس کے لئے ہمیں راستہ ہموار کرنا ہوگا۔ بقول شاعر ؂
نہ آئے گی ، نہ آئے گی نظر صورت ترقی کی
نہ ہونگے ہم جو میدان عمل میں رونما بہنو!
ش سے دعا ہے کہ ہمارا کردار اور اخلاق و عمل ان خواتین کے کردار و عمل کا نمونہ بن جائے اور ہمیں بھی اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق اولاد کی صحیح تربیت اور دین کی خدمت کا جذبہ عطا فرمائے ۔ آمین
!

عفیفہ مطیع الرحمٰن
ساکی ناکہ (ممبئی)

0 comments:

Muslim Issues

پردھان سیوک جی درندگی پر کیوں خاموش ہیں؟



نہال صغیر

ہمارے پردھان سیوک جو ملک کے سب سے قابل احترام عہدہ پر فائز ہو کر یہ بھول گئے ہیں کہ انہیں اس عہدہ پر آکر سوا ارب سے زائد ہندوستانی عوام کو دنیا میں باوقار مقام دلانا تھا ۔اس کے برعکس وہ ہندو مسلمان کرنے میں مصروف ہیں اور اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ہندو مذہب کے شنکر اچاریہ بننے کی پریکٹس کررہے ہوں ۔ان کی اسی بات سے متاثر ہو کر کسی نے ٹوئٹر پر کہا تھا جناب آپ وزیر اعظم ہیں مذہبی مبلغ نہیں ،آپ کو ملک کے عوام کی خواہشات اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کیلئے اور ان کی ترقی کیلئے منصوبہ بنا کر کام کرنے کیلئے یہ عہدہ سونپا گیا ہے ۔ جس کے بارے میں وہ اکثر کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ستر برسوں میں کچھ نہیں ہوا ۔مجھے اس بحث سے کوئی لینا دینا نہیں کہ ستر برسوں میں کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا۔ہم تو ان سے صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں ہزاروں میل دور کسی سانحہ پر آپ کی انسانیت جاگ جاتی ہے فوراً ایک عدد ٹوئٹ کرکے اپنی انسانیت دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے وہاں کے لوگوں سے ہمدردی جتاتے ہیں ۔لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اندرون ملک خواہ قیامت ہی گزر جائے آپ کی انسان دوستی ٹوئٹر پر کہیں نظر نہیں آتی ۔یہ دورخا پن اور دوہرا رویہ کیوں ؟کیا اس ملک کے باشندے اس قابل نہیں کہ ان سے ہمدردی کی جائے انہیں ظلم سے بچایا جائے ۔ان کے خلاف کسی ظالمانہ کارروائی پر فوراً حرکت میں آیا جائے ۔ راجستھان کے راجسمند میں درندگی کے واقعہ پر آپ نے کچھ کہا اور نہ ہی آپ کی پارٹی کے ترجمان کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ اس مظلوم مسلمان مزدور کے قتل کے خلاف مذمتی بیان دیتے اور اس کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتے ۔اس کے برعکس ہم نے یہ دیکھا ہے کہ چند ماہ قبل جب پہلو خان کو راجستھان میں گائے کے نام پر قتل کردیا گیا تھا تو آپ کے لوگوں نے پہلو خان کو ہی مجرم گردانا اور بعد میں پولس نے بھی پہلو خان کے قاتلوں کو بے گناہی کا سرٹیفیکٹ دیدیا ۔جنید کے معاملہ میں بھی ہم نے سنگھ کے لوگوں کو دیکھا کہ جنید کو مجرم گرداننے اور اس کے قاتلوں کا دفاع کرنے میں ساری قوت صرف کررہے تھے ۔ دادری کے اخلاق کے قتل پر آپ نے پندرہ دن کے بعد کہا تھا کہ اس میں مرکزی حکومت کا کیا قصور ؟ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد کس طرح اخلاق کو ہی مجرم قرار دینے کیلئے کیسی کیسی جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں ۔ آپ کہتے ہیں کہ اب دنیا میں بھارت کے تئیں احترام میں بہتری آئی ہے ۔مجھے یا د آتا ہے کہ اخلاق کے قتل پر یونان میں مقیم ایک ہندوستانی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ آج ہمارے دوستوں نے کہا کہ اچھا تم اُس ملک کے باشندہ ہو جہاں جانوروں کیلئے انسان کو قتل کیا جاتا ہے ۔ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ اس میں کون سی ملک کی قدر و منزلت کا معاملہ ہے ۔کوئی کسی پر بھپتیاں کسے اور وہ احمق یہ سمجھے کے لوگ اس کی تعریف کررہے ہیں تو پھر ہنسنے والوں میں ایک اور کے اضافہ کو نہیں روکا جاسکتا ہے ۔
پردھان سیوک جی آج ہم نے اخبار میں شاہی امام کا بیان پڑھا کہ انہوں نے کہا کہ ’ اب اور ہمارے صبر کا امتحان نہیں لیا جائے ،ہم نے بہت صبر کرلیا ‘۔مجھے پتہ نہیں وہ صبر نہیں کریں گے تو کیا کریں لیکن اتنا معلوم ہے کہ اس سے مسلم نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے اور آپ کے پیارے بھگوا دھاری غنڈے اور دہشت گرد مسلم نوجوانوں کو اشتعال دلا رہے ہیں ۔ذار غور کریں اگر ایک فیصد بھی مسلم نوجوان اس اشتعال کا شکار ہو گیا اور اس کے دل و دماغ میں انتقام کا جذبہ پیدا ہو گیا تو ملک کا کیا ہوگا ۔آپ کو اندازہ ہے کے نہیں پتہ نہیں کہ آ پ کے ان پیاروں کے سبب ملک میں خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے اور خانہ جنگی کے کسی ملک پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس سے آپ بھی واقف ہوں گے ۔میں نے اخباروں میں پڑھا ہے کہ آپ کو ناشتہ پر خفیہ محکمہ ملک کے حالات سے باخبر کرتا ہے اور ہم نے یہ بھی اخبار میں ہی دیکھا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے ملک کے حالات بگڑنے کی بات خفیہ محکمہ نے بتائی بھی ہے ۔ اتنا سب کچھ ہوجانے اور خفیہ محکمہ کی وارننگ کے باوجود آپ کی طرف سے ہندو دہشت گردوں کیلئے کوئی سخت پیغام نہیں ہے ۔اونا میں دلتوں کے ساتھ ہوئے سانحہ کے بعد آپ نے’ من کی بات‘ میں کہا تھا کہ مجھے مارو میرے دلت بھائیوں کو مت مارو ۔میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ملک کے سب سے طاقتور عہدہ پر بیٹھا شخص مجرموں اور غنڈوں سے اپیل کیوں کررہا ہے ۔اسے تو فوری ایسی کارروائی کرنی چاہئے تھا کہ پھر کسی دوسرے کو ایسی حرکت انجام دینے کی ہمت نہیں ہوتی ۔ابھی میں آپ کے ٹوئٹر اکائنٹ دیکھ رہا تھا تو اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ آپ ملک کے وزیر اعظم نہیں بلکہ بی جے پی کیلئے انتخابی تشہیر کے سربراہ ہیں ۔دو دن پہلے کہ ٹوئٹ میں البتہ ڈاکٹر امبیڈکر کے تعلق سے آپ کے دو تین دعوے ہیں ۔ایک ٹوئٹ میں آپ لکھتے ہیں کہ ’آیئے بابا صاحب کے سپنوں کو پورا کرنے کا ہم عہد کریں ‘۔ دوسرے ٹوئٹ میں آپ نے لکھا ’ہماری سرکار کے منصوبے سماجی جمہوریت کو مضبوط کرنے والی رہی ہیں ‘۔ اس ٹوئٹ میں ’ہماری سرکار‘ سے آپ کی مراد کیا ہے ؟آپ کی حکومت یا آزادی کے بعد کی ساری حکومتوں کے منصوبے کی بات کررہے ہیں ۔ویسے ڈاکٹر امبیڈکر کے تعلق سے آپ نے جو ٹوئٹ کیا اور اس میں جو تصویریں شامل ہیں اس سے بھی یہی اندازہ لگتا ہے کہ آپ محض خود کی مارکیٹنگ کررہے ہیں ۔آپ سماجی انصاف اور مساوات کی کوئی بات نہیں کررہے ہیں ۔اگر آپ ایسا کررہے ہوتے تو آپ کی حکومت میں یوں فساد اور خوف کا ماحول نہیں پیدا ہوتا ۔
آپ کی خاموشی سے ملک کے عوام ہی نہیں دنیا کے انصاف پسندوں کو بھی منفی پیغام جارہا ہے کہ ان سب کے پیچھے آپ کی منشا شامل ہے ۔یہ ٹھیک نہیں ہے ۔جو طبقہ اس کی زد میں آئے گا اس کا نوجوان اگر ملک میں رائج نظام سے مایوس ہو گیا تو ممکن ہے کہ شاہی امام کی بات سچ ثابت ہو جائے جس میں ’اب اور صبر نہیں ‘کا پیغام ہے ۔اب بھی وقت ہے کہ ملک کے نظام عدل اور پولس کے نظام کو آزاد کیا جائے ۔نہ پولس پر کسی سیاسی ،سماجی ، لسانی یامذہبی گروہ کا دباؤ ہو اور نا ہی عدالت میں کسی جج کو کسی فیصلہ کیلئے مجبور کرنے کیلئے سو کروڑ اور ممبئی کے پاش علاقہ میں فلیٹ کی پیشکش ہو ۔جب تک انصاف سستا اور سہل نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ امن ومان قائم ہو جائے ۔بے چینی بڑھتی رہے گی اور کسی روز یہ ناگا ساکی اور ہیروشیما کے ایٹم بم کی طرح پھٹ جائے گااس کے بعد کی جو تباہی ہے اس کا تصور کیا جاسکتا ہے ۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں تو یہ اس کی غلط فہمی ہے ۔مسلمانوں کو چونکہ صبر کرنے کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے اور وہ ہندوستان کو تباہی سے بچانے کیلئے پہلے بھی صبر کرتا رہا ہے اور آج بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑ رہا ہے لیکن اس کی گارنٹی نہیں کہ یہ صبر کا دورانیہ کتنا طویل ہوگا۔مسلم نوجوان فی الحال اپنے لیڈروں اور شاید یہاں کے نظام سے کلی طور پر مایوس نہیں ہوئے ہیں اور یہی وقت ہے جب حکومت کو سنبھل جانا چاہئے اور نظام انصاف کو چست و درست کرکے عظیم تباہی سے اسے بچالینا چاہئے ۔

0 comments:

featured

ان کو آئینہ دکھایا تو برا مان گئے ۔۔۔!


نہال صغیر

گجرات انتخاب میں مودی کی دیگر گوں حالت کے سبب ان کی کمپنی کو کچھ سوجھ نہیں رہا ہے کہ کیا کریں اور کیانہ کریں ۔بائیس سال میں انہوں نے گجرات ماڈل کا گردان کرکے عوام کو گمراہ کیا ۔ گجرات ماڈل کیا ہے یہ لوگوں کو اس وقت معلوم ہوا جب وہاں سے تغذیہ کی کمی سے بچوں کے مرنے اور ان کی نشونما پر پڑنے والے اثرات کی خبریں آنے لگیں تو لوگوں کو گجرات ماڈل کی حقیقت کا پتہ چلا کہ یہاں تو صرف اڈانیوں اور امبانیوں کا ہی وکاس ہوا ہے ۔ان کی ٹیم نے یہ سوچا تھا کہ شاید دہلی کا قلعہ فتح کرنے کے بعد اور اتر پردیش میں اپنے مخالفین کو دھول چٹاکر گجرات تو یونہی پلیٹ میں سج کر مل جائے گا ۔اس کے بعد ووٹنگ مشینوں کا بھی سہارا ہے ۔لیکن انہیں جب گجرات میں دو نوجوان لیڈر جگنیش میوانی اور ہاردک پٹیل سے مقابلہ درپیش ہوا تو دن میں تارے نظر آنے لگے ۔اس صورتحال میں ان کے لئے یہ ایک صورت بچ گئی تھی کہ کسی بھی طرح کوئی ایسا بیان مخالفین کی جانب سے دے دیا جائے جسے کیش کرکے یہ دو ہزار چودہ کے ’چائے والا‘بیان کی طرح گجرات کو بھی جیت لیں ۔یہ موقعہ منی شنکر ایئر نے مودی جی کو نیچ کہہ کر دے دیا ۔حالانکہ ان کے اگلے جملہ میں اس کی وضاحت بھی ہے ۔لیکن پورا میڈیا مسٹر پردھان سیوک کا غلام بنا ہوا ہے ۔اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور مودی جی کو مظلوم بنا کر گجراتی عوام کے سامنے پیش کرنا شروع کردیا ۔پردھان سیوک صاحب نے بھی ایک عدد بیان دے ہی ڈلا کہ یہ گجرات کے عوام کی توہین ہے ۔وہ اس معاملہ میں کافی ہوشیار ثابت ہوئے ہیں ۔دو ہزار چودہ کے الیکشن میں بھی اور اس سے قبل گجرات فسادات کے وقت کسی بھی معاملہ کو جس کا تعلق ان کی ذات سے ہوتا تھا لیکن وہ اس کو گجرات کے عوام سے جوڑ دیتے تھے کہ وہ گجرات کے سپوت ہیں اور اس طرح کی باتیں گجرات کے عوام کی توہین ہے ۔ایک طرف گجرات میں مودی جی کی انتخابی مہم ہے جہاں ترقی کا دور دور تک کہیں پتہ نہیں جبکہ بائیس سال سے وہ حکومت میں ہیں ۔اس دوران ترقی کے کوئی کارنامے نہیں جسے وہ عوام کے سامنے پیش کرسکیں ۔دوسری جانب کیجریوال جنہوں نے سیاست کونئے طریقہ سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے صرف اپنے 49 دنوں کے کارناموں کی بنا پر عوام سے ترقی کیلئے ووٹ کی بات کرتے ہیں اور تاریخ ساز فتح حاصل کرتے ہیں ۔ کیا مودی جی میں اتنی ہمت ہے کہ وہ کیجریوال کی طرح گجرات میں ترقی کی بنیاد پر ووٹ مانگ سکیں ؟اس کے برعکس پردھان سیوک اپنے عہدہ کے وقار کے مغائر ہندو مسلم کی باتیں کرکے اور عوام میں خلیج کو گہرا کرکے ارتکاز ووٹ کی کوشش کررہے ہیں ۔
بہار الیکشن مہم کے دوران پردھان سیوک نے نتیش کمار کے ڈی این اے میں خرابی کی بات کی تھی ۔اس وقت انہیں کیوں یاد نہیں رہا کہ وہ کیا بول گئے ؟انہیں کسی بات کی اہمیت یا اس کی شر انگیزی کا خیال اس لئے نہیں ہوتا کہ یہ صرف انتخابی سیاست تک محدود ہیں ۔انہیں ہر حال میں انتخاب جیتنا ہے خواہ سیاست اور جمہوری اقدار کا جنازہ ہی نکل جائے ۔میں منی شنکر ایئر کی اس بات سے متفق نہیں جو انہوں نے پردھان سیوک کے تعلق سے کہی ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا ؟اس پر کون غور کرے گا ۔خود کو مہذب بنائے رکھنا اور اپنے ہمنواؤں کو کسی بھی مخالف کے پیچھے لگا دینا کہ وہ اس کی زندگی دوبھر کردے کہاں کی انسانیت اور کون سے ہندوتوا کا حصہ ہے ۔یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ مودی جی کے بھکت کس طرح مخالفین کے ساتھ برتاؤ کرتے ہیں ۔سونیا گاندھی اور راہل گاندھی یا دیگر کانگریسی رہنماؤں کے علاوہ دیگر علاقائی پارٹی کے لیڈروں کو کس طرح نشانہ بناتے ہیں ۔دو سال قبل جب ان کے بھکتوں کی بیہودگی کی شروعات ہوئی تھی تب رویش کمار کو کیسی کیسی گالیاں دی جاتی تھیں جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے ۔اس وقت پردھان سیوک کا ایک ٹوئٹ نظروں کے سامنے گزرا تھا جس میں انہوں نے رویش کمار کے ساتھ کئے جانے والے سلوک پر افسوس کا اظہار تو کیا لیکن انہوں نے ایسا کرنے والوں کو کوئی سخت پیغام نہیں دیا ۔اسی طرح ملک میں جاری ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر بھی ان کی زبان نہیں کھلتی لیکن دعویٰ یہ ہے کہ ان کے دور میں ملک کی تکریم میں اضافہ ہوا ہے ۔ملک کی تکریم میں کتنا اضافہ ہوا ہے وہ اوبامہ کی نصیحت کہ ’ہندوستان کو یہاں کی مسلم آبادی کی قدر کرنی چاہئے ‘۔کوئی یونہی نہیں آپ کو نصیحت کرتا جب تک کہ وہ آپ میں کوئی خامی محسوس نہ کرے ۔یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ اب کوئی جرائم کا ارتکاب کرکے اس کا ویڈیو بناتا ہے اور اسے اپنے لئے قابل فخر کارنامہ سمجھ کر وائرل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔یہ معاملہ بین الاقوامی طور پر دیکھا اور پرکھا جارہا ہے ۔یہی سبب ہے کہ امریکی حقوق انسانی کے اداروں کی جانب سے بھی انتباہ جاری کیا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کی آمد کے بعد سے اقلیتوں خصوصا مسلمانوں پر حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے جس میں حکومت کی خاموش حمایت شامل ہے ۔

0 comments:

featured,

جمہوری فاشزم یاحقیقی آزادی


سمیع اللہ ملک
 جس تیزی کے ساتھ ہم دنیاوی اورمادی ترقی کے زینے پھلانگتے جارہے ہیں،کیاہم اس کے نقصانات سے بھی آگاہ ہیں؟ کیاہمیں اس بات کاعلم ہے کہ آج کے جدیدترقی یافتہ جمہوری نظام میں شخصی آزادی کواندرون خانہ سلب کیاجارہاہے اورہم بخوشی نہ صرف اس کاشکارہوتے جا رہے ہیں بلکہ جمہوری نظام کے اس دھوکے سے نکلنے کی بجائے اس فاشزم میں روز بروزدھنستے جارہے ہیں۔ایسا کوئی بھی دعویٰ کہ ہم فی زمانہ ایک اورطرح کے فاشزم (ڈیجیٹل فاشزم) سے نبرد آزما ہیں بہت جلد یہ کہتے ہوئے نظر انداز اور مسترد کردیا جائے گا کہ اس معاملے کو ضرورت سے زیادہ پیش کیا جارہا ہے۔ حیرت کی کوئی بات نہیں کہ دنیابھرمیں ایسے بڑے کاروباری ادارے موجود ہیں جوہرسال اربوں ڈالر محض یہ راگ الاپتے ہوئے کماتے ہیں کہ فردکی حیثیت سے بالخصوص اورجمہوری معاشرہ ہونے کے ناطے بالعموم ہماری زندگی میں بہت سی آسانیاں بڑے پیمانے پرمواد اورمصنوعی ذہانت کی مرہون منت ہیں اوریہ کہ ان کے بغیرہمارے لیے ڈھنگ سے جینا آسان نہ ہوگا۔
اس وقت ایک بڑاسوال یہ ہے کہ جمہوریت، جیسی کہ ہمارے سامنے ہے، معلومات کے سیلاب اور مصنوعی ذہانت کے سامنے اپنی بقاء یقینی بنانے کی اہلیت کاجودعویٰ کرتی ہے، اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اسی جمہوریت میں نہ چاہتے ہوئے بھی غیرمرئی اندازمیں سوچ، طرزِ فکر و عمل پر خطرناک حد تک اثر انداز ہونے والے مختلف طریقے مستعمل اور نتیجہ خیز ہیں۔
ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں، آج کی خفیہ ایجنسیوں اور بگ ڈیٹا کمپنیوں کے پاس ہمارے بارے میں اس سے کہیں زیادہ معلومات ہیں جو ماضی میں مطلق العنان حکومتوں کو درکار ہوا کرتی تھیں۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ان معلومات کو کسی نہ کسی مرحلے میں ہمارے خلاف بروئے کار نہیں لایا جائے گا۔ میں نے ڈیجیٹل فاشزم کی بات کی ہے۔ میرے اس دعوے کو اگر کوئی شک کی نظر سے دیکھتا ہے تو اسے آج کے جمہوری اورڈیجیٹل معاشروں کی درج ذیل خصوصیات پر غور کرنا چاہیے۔
بڑے پیمانے پر نگرانی ،انسانوں پر غیر اخلاقی نوعیت کے تجربات،سوشل انجینئرنگ،عوام کو ایک سانچے میں ڈھالنے کاعمل،سنسر شپ اورپروپیگنڈا ،’’فلاحی‘‘ آمریت،غیر معمولی حد تک متوقع پولیسنگ،لوگوں کی الگ الگ قدر و قیمت کا تعین،صورتِ حال کے مطابق انسانی حقوق کا بدلتا تصور،اور’’قتل بر بنائے رحم‘‘کے نام پریہ گھنائوناکاروبارجاری وساری اوراسے جمہوری معاشرتی ترقی کانام دیکرعوام سے دادبھی وصول کی جارہی ہے۔
ہم نے ڈیجیٹل معاشروں کی جن خصوصیات کاذکرکیاہے وہ سب کی سب ماضی کے مطلق العنان حکمرانوں کے خوابوں کے سواکچھ نہ تھیں۔ وہ ایسی ہی ’’آئیڈیل‘‘صورتِ حال کواپنا اقتدارمضبوط کرنے کیلئےعمدگی سے بروئے کار لاتے تھے۔ طریقے تبدیل ہوگئے ہیں۔ اب جبراورتلخی سے کام لینے کی بجائے نرمی اورمٹھاس کاسہارا لیاجاتاہے اورہمیں اندازہ ہی نہیں ہوپاتاکہ ہم نئی،ڈیجیٹل مطلق العنانیت سے دوچار ہیں۔
ماضی میں چند ممالک کے مخصوص حالات مطلق العنان حکمرانی کی راہ ہموار کیاکرتے تھے۔ فی زمانہ ڈیجیٹل انقلاب کے ہاتھوں وہ حالات پوری دنیاپرمحیط ہیں۔ اگر ہم جمہوریت، انسانی حقوق اور انسان کے بحیثیت انسان احترام کو بچانا چاہتے ہیں تو ایمرجنسی آپریشن لازم ہے۔ ڈیجیٹل فاشزم کیلئےجواز پیدا کرنے کی غرض سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی، سائبر حملوں کی دھمکیوں اور ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے ہمیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کی مدد سے غیر معمولی نگرانی کی ضرورت ہے۔ اس کے نتیجے میں شہری آزادیوں پر قدغن لگ رہی ہے۔ عوام کے اختیارات میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکا میں خصوصی قوانین وضع کیے گئے۔ جن کا بنیادی مقصد نگرانی تھا تاہم ان قوانین کی مدد سے لوگوں کے حقوق کو محدود کردیا گیا ہے۔ ان کی بہت سی آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں۔ آج امریکا میں سیکیورٹی اور نگرانی کے نام پر نافذ کیے گئے قوانین کی مدد سے عوام کو بہت سےمعاملات میں غیر معمولی حد بندی کا سامنا ہے۔ اور معاملہ امریکا تک محدود نہیں رہا۔ آج دنیا بھر میں اربوں انسانوں کی شدید نگرانی کا نظام رو بہ عمل ہے۔
بیشتر افراد کو اب تک یہ اندازہ ہی نہیں کہ یہ سب کچھ کس حد تک پھیلا ہوا ہے اور مستقبل قریب میں ان کی زندگی پر اس کے کتنے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ کمپیوٹرز ، اسمارٹ فونز ، اسمارٹ ٹی وی اور اسمارٹ کارز کو ہیک کرنے کیلئےخفیہ اداروں کو اربوں ڈالر کے فنڈز جاری کیے جارہے ہیں ۔ دنیا بھر سے روزانہ لاکھوں گیگا بائٹس کا ڈیٹا جمع کیا جارہا ہے ۔ جمہوری حکومتیں بھی یہ سب کچھ کر رہی ہیں اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول کیا جاسکے۔ ڈیجیٹل ماحول کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کی پسند و ناپسند پراثراندازہواجارہاہے۔ اب ہم’’فلاحی‘‘آمریت کیلئےمحض ایک آلے میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔ ریاستی مشینری اور بڑے کاروباری ادارے مل کر طے کرتے ہیں کہ ہمارےلئےاچھا اوربراکیاہے۔
شہریوں کوہدف بنایاجارہاہے ، ان کاڈیٹاجمع کیاجارہاہے اوراس ڈیٹاکے تجزیے کی بنیادپرطے کیاجارہاہے کہ معاشرے اورمعیشت کوکیارخ اوررنگ دیناہے ۔ ہر شخص کاایک مکمل پروفائل بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ لوگوں کے مزاج اورعادات کی بنیادپرطے کیاجارہاہے کہ انہیں کیاکھاناپینا چاہیے،کیاپہنناچاہیے ، کیاپڑھنا چاہیے، کس طوراپنافارغ وقت گزارناچاہیے اورزندگی کے بارے میں ان کی مجموعی سوچ کیاہونی چاہیے ۔ ہرپروفائل میں ہزاروں خصوصی نکات شامل کیے جاسکتے ہیں ۔ کمپیوٹرزاوراسمارٹ فونزہیکنگ کے ذریعے ہماراجوڈیٹالیا جا رہاہے اس کے تجزیے کی بنیاد پرہماری شخصیت کی تشکیل نوکا مرحلہ شروع کیاجاچکاہے ۔ ہمارے ورچوئل سیلف پرمختلف تجربات کے ذریعے یہ طے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہمیں کیاسوچناچاہیے، ہماراطرزِعمل کیا ہوناچاہیے اورہمیں کیسے ماحول میں زندگی بسرکرنی چاہیے ۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ big nudging یا neuro-marketing کہلانے والی تکنیک کے ذریعے ہمارا ذاتی مواد کسٹمائزڈ انفارمیشن کی تیاری کیلئےاستعمال کیاجارہاہے تاکہ کسی بھی معاملے میں ہمارے ارتکاز،جذبات،خیالات،فیصلوں اورطرزِعمل کواس حدتک طے کردیاجائے کہ ہمارااپنے ہی وجودپراختیاربرائے نام رہ جائے ۔ ایک طرف توصارف کی حیثیت سے کسی بھی شخص کی پسندو ناپسند پراثراندازہونے کی کوشش کی جارہی ہے اوردوسری طرف ووٹرزکی حیثیت سے پائی جانے والی سوچ پربھی اثرات مرتب کیے جارہے ہیں ۔ اس کا بنیادی مقصدانتخابات میں ووٹرزکی مجموعی رائے پراثر اندازہوکرمقتدرقوتوں کی پسندکے انتخابی نتائج حاصل کرناہے۔عوام کی نگرانی کانظام اگرغلط ہاتھوں میں چلاجائے اورمعاشرے کی عمومی فلاح کامقصدپس پشت ڈال کرصرف مذموم مقاصدکوذہن نشین رکھاجائے تو معاشرے پر اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ اعلانیہ یا ڈھکی چھپی مطلق العنان حکمرانی والی ریاست میں یہ ڈیٹا شہریوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے اور ان کی سوچ کوخطرناک حد تک تبدیل کرنے کیلئے آزادانہ استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ جو لوگ ریاستی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں ان کی سوچ کوبدلنے میں بھی نگرانی کا یہ نظام اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایسے میں جمہوری حقوق کے باضابطہ استعمال سےقبل ہی شہریوں پر متعددپابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں، انہیں بہت سی باتوں کا پابند بنایا جاسکتا ہے۔
برطانوی خفیہ ادارہ Karma Police کے زیرعنوان ایک   Surveillance Programپروگرام چلاتا ہے جو دراصل یہ بتاتا ہے کہ معاشرہ کس طرف جارہا ہے ۔ اس پروگرام کا تجربہ اس وقت چین میں بھی کیا جارہا ہے ۔ یہ پروگرام ایک مکمل مطلق العنان معاشرے یا پولیس اسٹیٹ کی تشکیل کیلئےبھی عمدگی سے بروئے کار لایا جاسکتا ہے ۔
Karma Police کے تحت The Citizen Score یہ طے کرے گا کہ اشیاء و خدمات اور بنیادی سہولتوں تک عوام کی رسائی کی سطح کیا ہے۔ عوام کو ان کے مجموعی رویے کی بنیاد پر انعام یا سزا ملے گی ۔ حکومت پر تنقید سے متعلق خبریں ، تجزیے اور مضامین پڑھنے یا غلط سماجی تعلقات کی بنیاد پر آپ کو منفی مارکس ملیں گے ۔
معاشرے کو مکمل ڈیجیٹل مطلق العنانیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کیلئےہمیں چند باتیں یقینی بنانا ہوں گی ۔ مثلاً
٭ طاقتور سائبر انفرا اسٹرکچر کو ڈھنگ سے استعمال کرنے کیلئےایک جامع آزاد فریم ورک
٭ نظم و ضبط سے متعلق ٹیمیں بناکر مختلف النوع پس منظر کا علمی انداز سے معیاری استعمال
٭ شفافیت، انسانی حقوق اور انسانی احترام یقینی بنانے سے متعلق اخلاقی اصولوں کا جامع اور کارگر بنیادی ڈھانچہ
٭ سائبر سکیورٹی (عدم ارتکاز کے ذریعے)
٭ معلومات کی سطح پر حق خود ارادیت (پرسنل ڈیٹا اسٹور کی مدد سے)
اگر ہم فوری طور پر متوجہ نہ ہوئے تو ڈیجیٹل انقلاب کی مدد سے عالمگیر سطح پر فاشزم کو پنپنے اور ہماری زندگیاں کنٹرول کرنے کا موقع مل جائے گا ۔ اس معاملے میں ہم جس قدر تاخیر کے مرتکب ہوں گے ، معاملات کو درست کرنا ہمارے لیے اسی قدر دشوار ہو جائے گا ۔ یومیہ بنیادی ڈیٹا جمع کیا جارہا ہے ۔ جدید ترین طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کی پسند و ناپسند اور مختلف امور میں ان کی رائے کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہماری طرزِ فکر و عمل پر اثر انداز ہونے کی یہ کوششیں کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہیں اس کا مدار اس بات پر ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں ۔
ٹیکنالوجیکل مطلق العنانیت بڑھتی جارہی ہے ۔ ایسے میں دنیا بھر کے عوام کو سوچناہوگااوراپنی سوچ کومقدم رکھتے ہوئےاپنی پسندوناپسند کاسانچاتیارکرناہوگا ۔ یادرکھیے ، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے تمام جغرافیائی سرحدوں کوعملاًختم کردیاہے ۔ اب پوری دنیاکوکسی ایک مقام پربیٹھ کربھی کنٹرول کرنے کامرحلہ آچکاہے اورامریکا اپنے دشمنوں کے خلاف ہزاروں میل دوربیٹھ کرڈرون میزائل حملوں کیلئے اسی ٹیکنالوجی کواپنے استعمال میں لارہاہے کیونکہ مطلق العنانیت کیلئےاس ٹیکنالوجی کاماحول انتہائی سازگار ہے ۔
دنیا بھر میں رونما ہونے والے متعدد واقعات انتہائی پریشان کن ہیں ۔ حالیہ جرمن انتخاب میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت کا ابھرنا انتہائی حیرت انگیز امر تھا ۔ ووٹرزکی رائے پراثرانداز ہونے کی بھرپوراور کامیاب کوشش کی گئی ۔ اسپین ، ہنگری اورپولینڈ بہت حدتک مطلق العنانیت کی راہ پرگامزن ہیں ۔ فرانس ، برطانیہ ، امریکا ، جاپان ، آسٹریا ، سوئٹزرلینڈاورنیدرلینڈز(ہالینڈ)پرغیرمعمولی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان ممالک کے چند سیاست دانوں نے انسانی حقوق کی آڑمیں سوال کرنا شروع کردیئےہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کے حقوق اور اختیارات زیادہ سے زیادہ محدود کردیے جائیں اس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد جوتہذیبی ڈھانچا کھڑا کیاگیاہے وہ خطرے میں ہے ۔ پورے کے پورے معاشرے پٹڑی سے اترنے کے خطرے سے دوچارہیں ۔ شخصی آزادی کاتصور دھندلاتا جا رہا ہے ۔ ایسے میں فردکواپنے حقوق کیلئےاٹھناپڑے گا کہ عمل کاوقت آگیا ہے ۔
ہمیں مستقبل کے حوالے سے سنجیدہ ہوناپڑے گا اورپرانی سوچ کوترک کرتے ہوئے آگے بڑھناہوگا ۔ عوام کوزیادہ سے زیادہ باشعورکرنے کیلئےانہیں اظہار رائے کی تحریک دیناپڑے گی اورمستقبل کے حوالے سے مثبت تصورات پیدا کرناہوں گے ۔ پرانی قوتوں کافرض ہے کہ تبدیلی کوواقع ہونے دیں ۔ معاشرے کو نئے سرے سے دریافت یاایجاد کرنے کی ضرورت ہے جہاں ہمیں اس جمہوریت کے نعم البدل نظام کی ضرورت ہے جہاں حاکم وقت خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق اپنے ایک ساتھی کوتنبیہ کرتے ہیں کہ تم نے کب سے انسان کوغلام بنارکھاہے جبکہ ہربچہ فطری اصول کے مطابق آزادپیدا ہوتاہے ۔ ہمیں ایک بات طے کرنی ہے کہ شخصی آزادی کوسلب کرنے والے اس فاشزم کو ہمیشہ کیلئےخیرباد کہنے کیلئے اب قرآن سے رجوع کرناازحدضروری ہوگیاہے ۔

0 comments:

featured,

’رنگ دے مجھے بھی گیروا‘



قاسم سید 
گجرات کا الیکشن کئی معنوں میں بہت اہم ہے اس لئے بی جے پی اور کانگریس نے اپنا سب کچھ دائو پر لگادیا ہے ۔ اخلاقی معیارات کا تو پہلے ہی جنازہ نکل چکا ہے عہدوں کا وقار بھی ملیامیٹ ہو رہا ہے ۔ سیاست کی نئی تعبیر یں سامنے آرہی ہیں ۔ سافٹ ہندو تو کا چولا بھی رنگ دے مجھے گیروا کا نعرہ مستانہ لگاتا نظرآرہا ہے ۔ اب دھیرے دھیرے سیاست جس موڑ پر پہنچ گئی ہے وہ بہت خطرناک رجحانات کا اشارہ ہی نہیں وارننگ دے رہی ہے ۔ قورمہ بریانی کے نشہ میں مدمست لوگ اپنے بال نوچنے ‘ ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑنے اور تہذیبی شرافتوں کے نئے رویوں سے خود کو آشناکرنے میں مصروف ہیں ۔ انہیں رفع یدین ‘ وسلام ونیاز جلوس وجلسوں کے جواز عدم جواز سے فرصت ملے تو ادھر دیکھیں کہ زمانہ کتنی قیامتوں کی چال میں الجھا ہوا ہے ۔ خود کچھ نہ کرکے سب کچھ اللہ پر چھوڑدینے کے مرض نےذہنی کوڑھی ہی نہیں لولا لنگڑا بنادیا ہے ۔ ہر مصیبتوں کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینے کے فریب نے جدوجہد اور عمل پیہم کی شاندار روایات کو اجنبی بنادیا ہے ۔ پدرم سلطان بود کانشہ ابھی اترا نہیں ہے ۔ سمندرمیں گھوڑے دوڑادینے کی گردان سر بلند کرنے کے لئے کافی ہے ۔ لیکن یہ نہیں سوچاجاتا کہ آنے والی نسلیں ہمارے بارے میں کیاپڑھ کر فخر کریں گی ۔
اترپردیش کے الیکشن نے ایک تازیانہ لگایا تھا پہلے پارلیمانی انتخابات میں ایک بھی مسلم نمائندہ کسی پارٹی کا لوک سبھا نہیں پہنچ سکا پھر اسمبلی انتخابات نے رہی سہی کسرپوری کردی ۔ پارٹی وہپ کے غلاموں کی تعداد گھٹنے یا بڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن انتظامیہ پر دبائو ضروربنتا ہے ۔ ابھی بلدیاتی انتخابات میں مختلف شہروں سے جس طرح کی دھمکیاں دی گئیں حق میں ووٹ نہ دینے پر حکمراں پارٹی کی صفوں سے سنگین نتائج بھگتنے کی باتیں کہی گئیں وہ یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ اگر ہوش وخرد کے ناخن لے کر مسائل کی گتھی سلجھانے پر غور نہیں کیا گیا تو یہ دھمکیاں عملی شکل میں بھی سامنے آسکتی ہیں ۔ گجرات الیکشن دھیرے دھیرے وکاس کی پٹری سے اتر کر جذباتی ایشوز کے جنگل کی طرف جارہا ہے ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کی جگہ رام مندر ‘ حافظ سعید ‘ کانگریس نائب صدر کے ہندوہونے یا نہ ہونے‘ قد آور لیڈروں کو گالی دینے‘ پدماوتی کو راشٹر ماتا بنانے کے ایشوز حاوی ہوگئے ہیں ۔ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت پوراالیکشن کون بڑا ہندو‘ راشٹر بھکت اورہندوتو کا حامی ہے ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے ۔
ظاہر ہے الیکشن آتے جاتے رہتے ہیں لیکن وہ قومی حرارت اور سمت سفر کا پتہ ضرور دے جاتے ہیں ۔ اب تک صرف بی جے پی ہندوتو اور ہندو بھکت ہونے کے حقوق اپنے نام محفوظ سمجھتی تھی اب کانگریس بھی اس پیٹنٹ پر اپنادعویٰ کر رہی ہے اس کی نقل وحرکت ‘زبان وبیان اور سرگرمیوں کا ایک رخا پن یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کہ وہ سافٹ ہندوتو کے تکلفات کے تمام باریک پردوں کو نوچ پھینکناچاہتی ہے اور سب سے بڑا ہندوتوعلمبردار‘ہندو بھکت‘ راشٹر بھکت ثابت کرنے پر تلی ہے ۔ اگر حالیہ دنوں کی ٹی وی ڈبیٹ پر غور کیا جائے کانگریس ترجمانوں کے مباحث کا تجزیہ کریں تو بہت ہی خطرناک الارم بجتا سنائی دے گا۔ متنازع جگہ پر رام مندر تعمیر کرنے کی بحث کےد وان میری قمیض تیری قمیض سے زیادہ اجلی ہے بتانے کے لئے خم ٹھونک کرکہتے ہیں کہ رام مندر(غور کریں بابری مسجد کہنابہت پہلے بھول گئے ہیں) کا تالہ ہم نے کھلوایا ۔ اس سے قبل جس جگہ نماز ہوتی تھی اس پر تالہ ہماری سرکار کے دوران لگا ‘ اس طرح شیلا نیاس راجیو گاندھی کے دور حکومت میں ہوا ۔ متنازع ڈھانچہ ہماری پارٹی کی سرکار میں گرایاگیا ۔ وہاں علامتی مندر نرسمہا رائو سرکار نے بننے دیا ۔ پھر ساری زمین ایکوائر کرائی یعنی جن باتوں کے تذکرے سے کانگریس گھبراتی تھی موضوعات بدلنے کی کوشش کرتی تھی‘ ان پر کبھی کبھار نجی مجلسوں میں ہی سہی اظہار شرمندگی کرتی تھی ۔ نرسمہارائو نے شرما حضوری میں اس مقام پر مسجد بنوانے کا اعلان کیا تھا‘ یہ بات کسی پروگرام میں نہیں بلکہ دوردرشن پر قوم سے خطاب کے دوران وعدہ کیا تھا ۔ انہدام کے سبب کانگریس کو مسلمانوں کی ناراضگی جھیلنی پڑی ۔ اترپردیش میں اس کا سیاسی بنواس ہوگیا ۔ مرکز بھی ہاتھ سے چلاگیا ۔ یوپی میں دوبارہ اقتدار کی رونمائی نصیب نہیں ہوئی ۔ اب انہی کارناموں پر فخر کرتےہوئے اسے ذراسی شرم محسوس نہیں ہوتی ۔ راہل بھی مودی سے بڑا تلک لگواکر جلسوں میں جاتے ہیں ۔ عوام سے روبرو ہو رہے ہیں یہ محض گجرات کا دبائو ہے یا کانگریس کا کایاپلٹ نظریاتی طور پر بی جے پی کے سامنے سپراندازی ہے یا حالات کی مجبوری ہے‘ دکھاوا ہے یا قبلہ کی تبدیلی ۔ انٹونی کی رپورٹ کا سائیڈ افیکٹ ہے یا واقعی وہ بھی ہندوتو کو بطور فلسفہ اور سیاسی نظریہ قبول کرچکی ہے ۔ اس پر ہمیں غور کرنا ہوگا کہ کانگریس کی راہل کے مندروں کے طوفانی دوروں اور سوم ناتھ مندر میں درشن کے وقت غیر ہندو رجسٹر میں نام کے اندراج پر یہ وضاحت کہ راہل گاندھی شوبھکت ہیں‘ پکے اور جینودھاری ہندو ہیں اس موقف کی حمایت میں پرانی تصویروں کا اجرا جس میں وہ جینو دھارن کئے ہوئے ہیں کیا بتاتا ہے۔ کیا یہ صرف ہندوتو کی دوڑ میں خود کو زیادہ سچا ‘ اچھا اور بڑاہندو ثابت کرنے کی کوشش ہے‘ کیا بی جے پی اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی ہے کہ ملک کی سابق سب سے بڑی پارٹی کو گیروا میں رنگ دیا اور اس کا سیکولر ازم کا نشہ ہواہوگیا ۔ مسلمانوں کے بغیر سرکاروں کی تشکیل کا تجربہ کانگریس کو بھاگیا ؟ اس نے گجرات میں مسلم ایشوز کو چمٹے سے چھونے کی بھی ہمت نہیں دکھائی ۔ مسلم امیدواروں کی تعداد 2012سے بھی کم کردی ۔ راہل مندر جانے میں نہیں شرماتے ان کے جلسوں اور روڈ شو میں ٹوپی‘ داڑھی والے غائب ہیں یا کردئیے گئے ہیں حتیٰ کہ احمد پٹیل کا بھی کھل کر استعمال نہیں ہو رہاہے ۔
اس بات کو سیاسی حلقوں نے نوٹ کیا ہے کہ مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالنے میں کانگریس بی جے پی کی گرو ہے ۔ دونوں کے نظریات میں باریک لکیر کا فرق بھی مٹ گیا ہے ۔ مسلمان صرف پنچنگ بیگ کی طرح استعمال ہوتا رہا ہے جب فسطائیت انگڑائی لیتی ہے تواکثریتی جارحیت کے پنجوں میں اقلیتوں اور کمزور طبقات کاگلا آجاتا ہے ہٹلر نے اقتصادی بدحالی تلے دبی جرمنی قوم کو یہودی مسئلہ اور آریائی برتری کا کھلونا تھما دیا ۔ مسولینی نے اقتدار کو طول دینے کے لئے بحالی عظمت رومتہ الکبریٰ کی نشیلی بوتل اطالیوں کو پکڑادی اور بقول کسی کے اتنی زور سے آواز آئی کہ شاعر مشرق علامہ اقبال بھی اس کے چکر میں آگئے ۔ نتیجہ کیا ہوا مسولینی اور ہٹلر کا حشر کیا ہوا تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں جب بھی فسطائیت کو محسوس ہوگا کہ اس کا نشہ کم ہو رہا ہے ‘ کبھی گائے ‘ کبھی گنگا ‘ کبھی گئو رکشا ‘ کبھی تاج محل ‘ کبھی پدماوتی ‘ کبھی تاریخی لیٹرے کبھی دیش دروہی کام میں لائے جاتے رہیں گے تاکہ نشہ ہرن نہ ہو ۔ اس وقت ہندوئوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کا واحد راستہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور کمزور طبقات کو قدم قدم پر اہانت وذلت کا احساس کرایا جائے ۔ انہیں سیاسی غلام بن جانے اور تنہا ہونے کا یقین دلاکر خوف وہراس پیداکیاجائے ۔ مبینہ گئو رکشک نامی غنڈوں کے ہاتھوں پیش آنے والے واقعات اس منصوبہ بند مہم کا حصہ ہیں ۔ جن سیکولر قوتوں کے لئے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑدیا ‘ دشمنیاں مول لیں وہ اجنبی بن گئی ہیں ۔ ملائم ہوں یا نتیش اپنا کام نکال کر چورا ہے پر چھوڑ جاتے ہیں ۔ ایسی سیکڑوں مثالیں ہیں اور ہم پنچنگ بیگ کی طرح استعمال ہونے میں ہی لذت محسوس کرتے ہیں ۔
آنے والے دن اور خطرناک صورت حال کو جنم دیں گے یہ تحریر ڈرانے کے لئے نہیں آئینہ دکھانے کے لئے ہے ۔ سیاسی جلاوطنی کا عذاب اور سخت اور طویل ہوگا اس میں کوئی شک نہیں گجرات یوپی کے بعد 2019کی فلم کا دوسرا ٹریلر ہے جو حضرات کانگریس کی واپسی کے لئے مصلی بچھاکر دعاگوہیں ‘ منتیں مانگے بیٹھے ہیں انہیں کانگریس کی قبلہ تبدیلی اور قلبی کیفیات میں تبدیلی کا ادراک ضرور ہوناچاہئے ۔ زیادہ خوش فہمیاں سادہ لوحی کا پرتوہیں سیاسی وسماجی رتبہ طے کرنے میں انتخابات کا اہم رول ہوتا ہے اور ہم نے انتخابی سیاست کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا پنچنگ بیگ بنے رہے یہ حالات اچانک پیدا نہیں ہوئے ستر سال کی محنتوں اور قربانیوں کا نتیجہ ہیں اس میں کانگریس کا بڑا حصہ ہے ۔ ہمارے بزرگ اور دانشور حالات کی تبدیلی کے مدنظر حکمت عملی میں تبدیلی پر سنجیدگی سے غور کریں ۔ باہمی اختلافات ومسلکی عداوت کے جن کو مفاہمت کی بوتل میں تبدیل کرکے ہم جیسے نادانوں کو راستہ دکھائیں ۔ نوجوانوں کو اعتماد میں لیں اور ’رنگ دے مجھے بھی گیروا‘ کی مہم کے مضرات کو سامنے رکھ کر مختصر اور طویل مدتی حکمت عملی بنائیں ۔

0 comments: