Muslim Issues
نہال صغیر
ہمارے پردھان سیوک جو ملک کے سب سے قابل احترام عہدہ پر فائز ہو کر یہ بھول گئے ہیں کہ انہیں اس عہدہ پر آکر سوا ارب سے زائد ہندوستانی عوام کو دنیا میں باوقار مقام دلانا تھا ۔اس کے برعکس وہ ہندو مسلمان کرنے میں مصروف ہیں اور اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ہندو مذہب کے شنکر اچاریہ بننے کی پریکٹس کررہے ہوں ۔ان کی اسی بات سے متاثر ہو کر کسی نے ٹوئٹر پر کہا تھا جناب آپ وزیر اعظم ہیں مذہبی مبلغ نہیں ،آپ کو ملک کے عوام کی خواہشات اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کیلئے اور ان کی ترقی کیلئے منصوبہ بنا کر کام کرنے کیلئے یہ عہدہ سونپا گیا ہے ۔ جس کے بارے میں وہ اکثر کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ستر برسوں میں کچھ نہیں ہوا ۔مجھے اس بحث سے کوئی لینا دینا نہیں کہ ستر برسوں میں کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا۔ہم تو ان سے صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں ہزاروں میل دور کسی سانحہ پر آپ کی انسانیت جاگ جاتی ہے فوراً ایک عدد ٹوئٹ کرکے اپنی انسانیت دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے وہاں کے لوگوں سے ہمدردی جتاتے ہیں ۔لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اندرون ملک خواہ قیامت ہی گزر جائے آپ کی انسان دوستی ٹوئٹر پر کہیں نظر نہیں آتی ۔یہ دورخا پن اور دوہرا رویہ کیوں ؟کیا اس ملک کے باشندے اس قابل نہیں کہ ان سے ہمدردی کی جائے انہیں ظلم سے بچایا جائے ۔ان کے خلاف کسی ظالمانہ کارروائی پر فوراً حرکت میں آیا جائے ۔ راجستھان کے راجسمند میں درندگی کے واقعہ پر آپ نے کچھ کہا اور نہ ہی آپ کی پارٹی کے ترجمان کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ اس مظلوم مسلمان مزدور کے قتل کے خلاف مذمتی بیان دیتے اور اس کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتے ۔اس کے برعکس ہم نے یہ دیکھا ہے کہ چند ماہ قبل جب پہلو خان کو راجستھان میں گائے کے نام پر قتل کردیا گیا تھا تو آپ کے لوگوں نے پہلو خان کو ہی مجرم گردانا اور بعد میں پولس نے بھی پہلو خان کے قاتلوں کو بے گناہی کا سرٹیفیکٹ دیدیا ۔جنید کے معاملہ میں بھی ہم نے سنگھ کے لوگوں کو دیکھا کہ جنید کو مجرم گرداننے اور اس کے قاتلوں کا دفاع کرنے میں ساری قوت صرف کررہے تھے ۔ دادری کے اخلاق کے قتل پر آپ نے پندرہ دن کے بعد کہا تھا کہ اس میں مرکزی حکومت کا کیا قصور ؟ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد کس طرح اخلاق کو ہی مجرم قرار دینے کیلئے کیسی کیسی جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں ۔ آپ کہتے ہیں کہ اب دنیا میں بھارت کے تئیں احترام میں بہتری آئی ہے ۔مجھے یا د آتا ہے کہ اخلاق کے قتل پر یونان میں مقیم ایک ہندوستانی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ آج ہمارے دوستوں نے کہا کہ اچھا تم اُس ملک کے باشندہ ہو جہاں جانوروں کیلئے انسان کو قتل کیا جاتا ہے ۔ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ اس میں کون سی ملک کی قدر و منزلت کا معاملہ ہے ۔کوئی کسی پر بھپتیاں کسے اور وہ احمق یہ سمجھے کے لوگ اس کی تعریف کررہے ہیں تو پھر ہنسنے والوں میں ایک اور کے اضافہ کو نہیں روکا جاسکتا ہے ۔
پردھان سیوک جی آج ہم نے اخبار میں شاہی امام کا بیان پڑھا کہ انہوں نے کہا کہ ’ اب اور ہمارے صبر کا امتحان نہیں لیا جائے ،ہم نے بہت صبر کرلیا ‘۔مجھے پتہ نہیں وہ صبر نہیں کریں گے تو کیا کریں لیکن اتنا معلوم ہے کہ اس سے مسلم نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے اور آپ کے پیارے بھگوا دھاری غنڈے اور دہشت گرد مسلم نوجوانوں کو اشتعال دلا رہے ہیں ۔ذار غور کریں اگر ایک فیصد بھی مسلم نوجوان اس اشتعال کا شکار ہو گیا اور اس کے دل و دماغ میں انتقام کا جذبہ پیدا ہو گیا تو ملک کا کیا ہوگا ۔آپ کو اندازہ ہے کے نہیں پتہ نہیں کہ آ پ کے ان پیاروں کے سبب ملک میں خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے اور خانہ جنگی کے کسی ملک پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس سے آپ بھی واقف ہوں گے ۔میں نے اخباروں میں پڑھا ہے کہ آپ کو ناشتہ پر خفیہ محکمہ ملک کے حالات سے باخبر کرتا ہے اور ہم نے یہ بھی اخبار میں ہی دیکھا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے ملک کے حالات بگڑنے کی بات خفیہ محکمہ نے بتائی بھی ہے ۔ اتنا سب کچھ ہوجانے اور خفیہ محکمہ کی وارننگ کے باوجود آپ کی طرف سے ہندو دہشت گردوں کیلئے کوئی سخت پیغام نہیں ہے ۔اونا میں دلتوں کے ساتھ ہوئے سانحہ کے بعد آپ نے’ من کی بات‘ میں کہا تھا کہ مجھے مارو میرے دلت بھائیوں کو مت مارو ۔میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ملک کے سب سے طاقتور عہدہ پر بیٹھا شخص مجرموں اور غنڈوں سے اپیل کیوں کررہا ہے ۔اسے تو فوری ایسی کارروائی کرنی چاہئے تھا کہ پھر کسی دوسرے کو ایسی حرکت انجام دینے کی ہمت نہیں ہوتی ۔ابھی میں آپ کے ٹوئٹر اکائنٹ دیکھ رہا تھا تو اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ آپ ملک کے وزیر اعظم نہیں بلکہ بی جے پی کیلئے انتخابی تشہیر کے سربراہ ہیں ۔دو دن پہلے کہ ٹوئٹ میں البتہ ڈاکٹر امبیڈکر کے تعلق سے آپ کے دو تین دعوے ہیں ۔ایک ٹوئٹ میں آپ لکھتے ہیں کہ ’آیئے بابا صاحب کے سپنوں کو پورا کرنے کا ہم عہد کریں ‘۔ دوسرے ٹوئٹ میں آپ نے لکھا ’ہماری سرکار کے منصوبے سماجی جمہوریت کو مضبوط کرنے والی رہی ہیں ‘۔ اس ٹوئٹ میں ’ہماری سرکار‘ سے آپ کی مراد کیا ہے ؟آپ کی حکومت یا آزادی کے بعد کی ساری حکومتوں کے منصوبے کی بات کررہے ہیں ۔ویسے ڈاکٹر امبیڈکر کے تعلق سے آپ نے جو ٹوئٹ کیا اور اس میں جو تصویریں شامل ہیں اس سے بھی یہی اندازہ لگتا ہے کہ آپ محض خود کی مارکیٹنگ کررہے ہیں ۔آپ سماجی انصاف اور مساوات کی کوئی بات نہیں کررہے ہیں ۔اگر آپ ایسا کررہے ہوتے تو آپ کی حکومت میں یوں فساد اور خوف کا ماحول نہیں پیدا ہوتا ۔
آپ کی خاموشی سے ملک کے عوام ہی نہیں دنیا کے انصاف پسندوں کو بھی منفی پیغام جارہا ہے کہ ان سب کے پیچھے آپ کی منشا شامل ہے ۔یہ ٹھیک نہیں ہے ۔جو طبقہ اس کی زد میں آئے گا اس کا نوجوان اگر ملک میں رائج نظام سے مایوس ہو گیا تو ممکن ہے کہ شاہی امام کی بات سچ ثابت ہو جائے جس میں ’اب اور صبر نہیں ‘کا پیغام ہے ۔اب بھی وقت ہے کہ ملک کے نظام عدل اور پولس کے نظام کو آزاد کیا جائے ۔نہ پولس پر کسی سیاسی ،سماجی ، لسانی یامذہبی گروہ کا دباؤ ہو اور نا ہی عدالت میں کسی جج کو کسی فیصلہ کیلئے مجبور کرنے کیلئے سو کروڑ اور ممبئی کے پاش علاقہ میں فلیٹ کی پیشکش ہو ۔جب تک انصاف سستا اور سہل نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ امن ومان قائم ہو جائے ۔بے چینی بڑھتی رہے گی اور کسی روز یہ ناگا ساکی اور ہیروشیما کے ایٹم بم کی طرح پھٹ جائے گااس کے بعد کی جو تباہی ہے اس کا تصور کیا جاسکتا ہے ۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں تو یہ اس کی غلط فہمی ہے ۔مسلمانوں کو چونکہ صبر کرنے کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے اور وہ ہندوستان کو تباہی سے بچانے کیلئے پہلے بھی صبر کرتا رہا ہے اور آج بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑ رہا ہے لیکن اس کی گارنٹی نہیں کہ یہ صبر کا دورانیہ کتنا طویل ہوگا۔مسلم نوجوان فی الحال اپنے لیڈروں اور شاید یہاں کے نظام سے کلی طور پر مایوس نہیں ہوئے ہیں اور یہی وقت ہے جب حکومت کو سنبھل جانا چاہئے اور نظام انصاف کو چست و درست کرکے عظیم تباہی سے اسے بچالینا چاہئے ۔
پردھان سیوک جی درندگی پر کیوں خاموش ہیں؟
نہال صغیر
ہمارے پردھان سیوک جو ملک کے سب سے قابل احترام عہدہ پر فائز ہو کر یہ بھول گئے ہیں کہ انہیں اس عہدہ پر آکر سوا ارب سے زائد ہندوستانی عوام کو دنیا میں باوقار مقام دلانا تھا ۔اس کے برعکس وہ ہندو مسلمان کرنے میں مصروف ہیں اور اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ہندو مذہب کے شنکر اچاریہ بننے کی پریکٹس کررہے ہوں ۔ان کی اسی بات سے متاثر ہو کر کسی نے ٹوئٹر پر کہا تھا جناب آپ وزیر اعظم ہیں مذہبی مبلغ نہیں ،آپ کو ملک کے عوام کی خواہشات اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کیلئے اور ان کی ترقی کیلئے منصوبہ بنا کر کام کرنے کیلئے یہ عہدہ سونپا گیا ہے ۔ جس کے بارے میں وہ اکثر کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ستر برسوں میں کچھ نہیں ہوا ۔مجھے اس بحث سے کوئی لینا دینا نہیں کہ ستر برسوں میں کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا۔ہم تو ان سے صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں ہزاروں میل دور کسی سانحہ پر آپ کی انسانیت جاگ جاتی ہے فوراً ایک عدد ٹوئٹ کرکے اپنی انسانیت دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے وہاں کے لوگوں سے ہمدردی جتاتے ہیں ۔لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اندرون ملک خواہ قیامت ہی گزر جائے آپ کی انسان دوستی ٹوئٹر پر کہیں نظر نہیں آتی ۔یہ دورخا پن اور دوہرا رویہ کیوں ؟کیا اس ملک کے باشندے اس قابل نہیں کہ ان سے ہمدردی کی جائے انہیں ظلم سے بچایا جائے ۔ان کے خلاف کسی ظالمانہ کارروائی پر فوراً حرکت میں آیا جائے ۔ راجستھان کے راجسمند میں درندگی کے واقعہ پر آپ نے کچھ کہا اور نہ ہی آپ کی پارٹی کے ترجمان کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ اس مظلوم مسلمان مزدور کے قتل کے خلاف مذمتی بیان دیتے اور اس کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتے ۔اس کے برعکس ہم نے یہ دیکھا ہے کہ چند ماہ قبل جب پہلو خان کو راجستھان میں گائے کے نام پر قتل کردیا گیا تھا تو آپ کے لوگوں نے پہلو خان کو ہی مجرم گردانا اور بعد میں پولس نے بھی پہلو خان کے قاتلوں کو بے گناہی کا سرٹیفیکٹ دیدیا ۔جنید کے معاملہ میں بھی ہم نے سنگھ کے لوگوں کو دیکھا کہ جنید کو مجرم گرداننے اور اس کے قاتلوں کا دفاع کرنے میں ساری قوت صرف کررہے تھے ۔ دادری کے اخلاق کے قتل پر آپ نے پندرہ دن کے بعد کہا تھا کہ اس میں مرکزی حکومت کا کیا قصور ؟ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد کس طرح اخلاق کو ہی مجرم قرار دینے کیلئے کیسی کیسی جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں ۔ آپ کہتے ہیں کہ اب دنیا میں بھارت کے تئیں احترام میں بہتری آئی ہے ۔مجھے یا د آتا ہے کہ اخلاق کے قتل پر یونان میں مقیم ایک ہندوستانی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ آج ہمارے دوستوں نے کہا کہ اچھا تم اُس ملک کے باشندہ ہو جہاں جانوروں کیلئے انسان کو قتل کیا جاتا ہے ۔ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ اس میں کون سی ملک کی قدر و منزلت کا معاملہ ہے ۔کوئی کسی پر بھپتیاں کسے اور وہ احمق یہ سمجھے کے لوگ اس کی تعریف کررہے ہیں تو پھر ہنسنے والوں میں ایک اور کے اضافہ کو نہیں روکا جاسکتا ہے ۔
پردھان سیوک جی آج ہم نے اخبار میں شاہی امام کا بیان پڑھا کہ انہوں نے کہا کہ ’ اب اور ہمارے صبر کا امتحان نہیں لیا جائے ،ہم نے بہت صبر کرلیا ‘۔مجھے پتہ نہیں وہ صبر نہیں کریں گے تو کیا کریں لیکن اتنا معلوم ہے کہ اس سے مسلم نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے اور آپ کے پیارے بھگوا دھاری غنڈے اور دہشت گرد مسلم نوجوانوں کو اشتعال دلا رہے ہیں ۔ذار غور کریں اگر ایک فیصد بھی مسلم نوجوان اس اشتعال کا شکار ہو گیا اور اس کے دل و دماغ میں انتقام کا جذبہ پیدا ہو گیا تو ملک کا کیا ہوگا ۔آپ کو اندازہ ہے کے نہیں پتہ نہیں کہ آ پ کے ان پیاروں کے سبب ملک میں خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے اور خانہ جنگی کے کسی ملک پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس سے آپ بھی واقف ہوں گے ۔میں نے اخباروں میں پڑھا ہے کہ آپ کو ناشتہ پر خفیہ محکمہ ملک کے حالات سے باخبر کرتا ہے اور ہم نے یہ بھی اخبار میں ہی دیکھا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے ملک کے حالات بگڑنے کی بات خفیہ محکمہ نے بتائی بھی ہے ۔ اتنا سب کچھ ہوجانے اور خفیہ محکمہ کی وارننگ کے باوجود آپ کی طرف سے ہندو دہشت گردوں کیلئے کوئی سخت پیغام نہیں ہے ۔اونا میں دلتوں کے ساتھ ہوئے سانحہ کے بعد آپ نے’ من کی بات‘ میں کہا تھا کہ مجھے مارو میرے دلت بھائیوں کو مت مارو ۔میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ملک کے سب سے طاقتور عہدہ پر بیٹھا شخص مجرموں اور غنڈوں سے اپیل کیوں کررہا ہے ۔اسے تو فوری ایسی کارروائی کرنی چاہئے تھا کہ پھر کسی دوسرے کو ایسی حرکت انجام دینے کی ہمت نہیں ہوتی ۔ابھی میں آپ کے ٹوئٹر اکائنٹ دیکھ رہا تھا تو اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ آپ ملک کے وزیر اعظم نہیں بلکہ بی جے پی کیلئے انتخابی تشہیر کے سربراہ ہیں ۔دو دن پہلے کہ ٹوئٹ میں البتہ ڈاکٹر امبیڈکر کے تعلق سے آپ کے دو تین دعوے ہیں ۔ایک ٹوئٹ میں آپ لکھتے ہیں کہ ’آیئے بابا صاحب کے سپنوں کو پورا کرنے کا ہم عہد کریں ‘۔ دوسرے ٹوئٹ میں آپ نے لکھا ’ہماری سرکار کے منصوبے سماجی جمہوریت کو مضبوط کرنے والی رہی ہیں ‘۔ اس ٹوئٹ میں ’ہماری سرکار‘ سے آپ کی مراد کیا ہے ؟آپ کی حکومت یا آزادی کے بعد کی ساری حکومتوں کے منصوبے کی بات کررہے ہیں ۔ویسے ڈاکٹر امبیڈکر کے تعلق سے آپ نے جو ٹوئٹ کیا اور اس میں جو تصویریں شامل ہیں اس سے بھی یہی اندازہ لگتا ہے کہ آپ محض خود کی مارکیٹنگ کررہے ہیں ۔آپ سماجی انصاف اور مساوات کی کوئی بات نہیں کررہے ہیں ۔اگر آپ ایسا کررہے ہوتے تو آپ کی حکومت میں یوں فساد اور خوف کا ماحول نہیں پیدا ہوتا ۔
آپ کی خاموشی سے ملک کے عوام ہی نہیں دنیا کے انصاف پسندوں کو بھی منفی پیغام جارہا ہے کہ ان سب کے پیچھے آپ کی منشا شامل ہے ۔یہ ٹھیک نہیں ہے ۔جو طبقہ اس کی زد میں آئے گا اس کا نوجوان اگر ملک میں رائج نظام سے مایوس ہو گیا تو ممکن ہے کہ شاہی امام کی بات سچ ثابت ہو جائے جس میں ’اب اور صبر نہیں ‘کا پیغام ہے ۔اب بھی وقت ہے کہ ملک کے نظام عدل اور پولس کے نظام کو آزاد کیا جائے ۔نہ پولس پر کسی سیاسی ،سماجی ، لسانی یامذہبی گروہ کا دباؤ ہو اور نا ہی عدالت میں کسی جج کو کسی فیصلہ کیلئے مجبور کرنے کیلئے سو کروڑ اور ممبئی کے پاش علاقہ میں فلیٹ کی پیشکش ہو ۔جب تک انصاف سستا اور سہل نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ امن ومان قائم ہو جائے ۔بے چینی بڑھتی رہے گی اور کسی روز یہ ناگا ساکی اور ہیروشیما کے ایٹم بم کی طرح پھٹ جائے گااس کے بعد کی جو تباہی ہے اس کا تصور کیا جاسکتا ہے ۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں تو یہ اس کی غلط فہمی ہے ۔مسلمانوں کو چونکہ صبر کرنے کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے اور وہ ہندوستان کو تباہی سے بچانے کیلئے پہلے بھی صبر کرتا رہا ہے اور آج بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑ رہا ہے لیکن اس کی گارنٹی نہیں کہ یہ صبر کا دورانیہ کتنا طویل ہوگا۔مسلم نوجوان فی الحال اپنے لیڈروں اور شاید یہاں کے نظام سے کلی طور پر مایوس نہیں ہوئے ہیں اور یہی وقت ہے جب حکومت کو سنبھل جانا چاہئے اور نظام انصاف کو چست و درست کرکے عظیم تباہی سے اسے بچالینا چاہئے ۔
0 comments: