کہیں رسّی پھسل نہ جائے




قاسم سید 
 
اڑی فوجی کیمپ پر دہشت گردانہ حملہ نے ملک کے سیاسی منظرنامہ کے سمندر میں ارتعاش پیدا کردیا ہے اور وہ مسائل جو مودی سرکار کے لئے گلے کی ہڈی بن گئے تھے عارضی طور پر ہی سہی پس منظر میں چلے گئے۔ انتقام اور بدلہ کے نعروں کو میڈیا کے جنونی طبقہ کی طرف سے ہیجان میں بدلنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان کی احمقانہ اور دہشت گردانہ حرکتوں نے اس کے لئے تو عرصہ حیات تنگ کردیا ہے اور یہ بہت اچھا ہے کہ حکومت نے سفارتی و اقتصادی سطح پر اس کی نسیں دبانے کی پالیسی اختیار کی ہے، ورنہ جنگ باز حلقہ حملہ کے سوا اور کچھ سننے اور دیکھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے اور وزیراعظم کی کوزی کوڈ تقریر کے بعد بھی اس کے جارحانہ رویہ میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ہر شخص بخوبی واقف ہے کہ بھرپور جنگ کے نتائج بہت ہولناک ہوتے ہیں۔ اگر فریق کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی خواہش پوری کردی جائے تو ایسی جنگوں کے اثرات دوسرے فریق پر بھی پڑتے ہیں اور وہ سالوں پیچھے چلا جاتا ہے۔ سبرامنیم سوامی جیسے لیڈروں کی نظر میں دس کروڑ انسان مر بھی جائیں تو 125 کروڑ کی آبادی والے ملک پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ ان دس کروڑ انسانوں میں خود کو بھی شمار کرتے ہیں یا نہیں، مگر صرف انسان نہیں مرتے، جنگ کی آگ میں بہت کچھ بھسم ہوجاتا ہے۔ وہ یہ ماننے کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ پاکستان میانمار نہیں اور ہندوستان امریکہ نہیں۔ جہاں تک سرکار کے رویہ کا سوال ہے وہ یقینی طور پر براہ راست جنگ کے خلاف نظر آتی ہے۔ اس کے اقدامات، بیانات اور رویہ سے یہی ظاہر ہوتا ہے حالانکہ سرکار میں ایک طبقہ ایسا ہے جو فوجی کارروائی کے حق میں دلائل رکھتا ہے، مگر مودی سرکار عالمی تناظر میں ایسے کسی اقدام سے بچنا چاہتی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سرکار کا رویہ اور پالیسی عوامی دبائو کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ یہی وقت اس کے تدبر، تحمل اور سوجھ بوجھ کے امتحان کا ہوتا ہے۔ بلند بانگ باتیں، بڑبولاپن اور قد سے اونچی آوازیں گلے کا پھندا بن جاتی ہیں، ان سے گلوخلاصی آسان نہیں ہوتی۔ دراصل عوام کے جذبات کو اس درجہ حرارت میں پہنچادیا جاتا ہے جب اس کی لہریں سنامی کی طرح زورآور اور تباہ کن ہوجاتی ہیں۔ انھیں قابو میں کرنا آسان نہیں ہوتا۔ مودی سرکار ان دنوں توازن قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اس دلدل سے باہر آنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اس ماحول کو ٹھنڈا ہونے نہیں دینا چاہتی، اس لئے سفارت کاری کے پٹارے سے ایک ایک رسّی نکال کر اسے سانپ بناکر سامنے لارہی ہے تاکہ یہ دکھائی دے کہ وہ پاکستان کی کمر توڑنے کے معاملہ اور ارادہ میں سنجیدہ ہے، اس سے انتقام پسند ذہنیت کی تسکین ہوتی رہے اور انتخابات تک گرمی برقرار رہے۔ آر ایس ایس اور اس کی شکمی تنظیموں نے 96سال سے ملک میں فرقہ وارانہ تعصب، تنگ نظری اور نفرت کا ماحول بنانے کے لئے اَن تھک کام کیا، اس کے برگ و بار اب دکھائی دینے لگے ہیں۔ سرکار کی خاموش حمایت نے ایسے عناصر کو توانائی دی، کبھی کبھی سرکار کی طرف سے دی جانے والی بھبکیاں اس لئے کارگر نہیں ہوتیں کہ یہ عمل ماں کے ضدی نافرمان بچے سے روٹھنا جیسا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی وہ تھپڑ لگاتی ہے تو اس میں بھی پیار چھپا ہوتا ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے گئو رکشکوں یا زہر میں بجھے بیانات دینے والوں کو جھڑکیاں بھی اسی پس منظر میں دیکھی جانی چاہئیں۔
ہندوستان کا ہر شہری دل سے چاہتا ہے کہ ایسے حملوں کے قصورواروں کو سبق سکھانا چاہئے اور اس کا اب سدباب کرنا ضروری ہوگیا ہے تاکہ روز روز کے تنائو سے آزادی حاصل کی جائے اور قضیہ کو ختم کیا جائے، مگر اس کے بہانے مصنوعی قوم پرستی کا جو طوفان مچایا جاتا ہے وہ نتائج کے اعتبار سے بہت خطرناک ہے۔ اگر اس موقع پر کوئی یہ سوال اٹھادے کہ آخر پٹھان کوٹ ایئربیس پر حملہ میں سیکورٹی کوتاہی کا جائزہ کیوں نہیں لیا گیا اور اس کے صرف چھ ماہ بعد اڑی فوجی کیمپ کو نشانہ بناکر 19 قیمتی جانیں لے لی گئیں تو ہمارا انٹلیجنس سسٹم اور سیکورٹی نظام کہاں تھا جو آئے دن ہائی الرٹ جاری کرتا ہے اور جب اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ حملہ کا اندیشہ پہلے ہی ظاہر کیا گیا تھا تو سیکورٹی میں چوک کیوں ہوئی تو ایسے سوالوں کو قوم سے غداری اور پاکستان سے ہمدردی کا چولا پہناکر اپنی سنگین خامیوں کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ایسی باتوں سے پاکستان کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔ قوم کو متحد نظر آنا چاہئے۔ سوال اٹھانے والوں کی حب الوطنی پر فوراً سوالیہ نشان لگادیا جاتا ہے۔ برائی ہمیشہ اچھائی کا لباس پہن کر آتی ہے۔ جس طرح شیطان برائی پر ورغلانے کے لئے حسین توضیحات پیش کرتا ہے، فسطائیت ہمیشہ قوم پرستی کی آڑ میں اپنی جگہ بناتی ہے، لیکن فاشزم کا انجام آخرکار تباہی ہوتا ہے۔ ہٹلر اور مسولینی سے تاریخ نے کیا سلوک کیا اور خود ان ملکوں کا کیا حشر ہوا سب واقف ہیں۔ ہندوستان کا کون سا لیڈر مسولینی سے ملنے گیا تھا اور واپس آکر کن خیالات کی تشہیر کی۔ کس تنظیم کے یہ دونوں لیڈر پہلی پسند ہیں، کھلا راز ہے۔ قوم پرستی آکٹوپس کی طرح جب اپنے پوشیدہ پیر باہر نکالتی ہے تو پھر دوست و دشمن کا اعتبار بھول جاتی ہے اور اپنے بچوں کو ہی نوالہ بنالیتی ہے۔ اسے قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ صرف اخلاق کا قتل نہیں کرتی، وہ ہریانہ میں بیف بریانی کا سمپل نہیں لیتی، وہ مہاراشٹر کے محسن کو پیٹ پیٹ کر موت کے حوالے نہیں کرتی، وہ صرف مظفرنگر میں ہی ابلیسی رقص نہیں کرتی، وہ صرف میوات میں دو معصوم لڑکیوں کی عصمت دری نہیں کرتی، بلکہ حیدرآباد میں روہت ویمولا کو خودکشی پر مجبور کردیتی ہے، کنہیا کمار کو عدالت میں پیشی کے وقت گھیرکر مارتی ہے اور قانون ساز ادارہ کا ممبر اسے گولی مارنے کا سرعام اعلان کرتا ہے اور قانون اس کا کچھ نہیں بگاڑتا، پھر وہ اونا میں اپنے ہی مبینہ بھائیوں کو گئورکشک بن کر زنجیروں سے باندھ کر پیٹ پیٹ کر ادھ مرا کردیتی ہے۔ وہ اپنی ہی کمیونٹی کی حاملہ عورت کو اس لئے تڑپا تڑپاکر مارتی ہے کہ اس نے مری گائے کے باقیات اٹھانے سے منع کردیا تھا۔ وہ دلتوں کو نل سے پانی بھرنے، اپنے کھیت سے ان کی میت کے گزرنے اور بارات لے جانے اور گھوڑی پر چڑھنے کی عبرتناک سزا دیتی ہے۔ گستاخی کرنے پر زبان کاٹ لیتی ہے، قوم پرستی شرپسندوں، غنڈوں، سماج دشمن عناصر کو بھی محترم بنادیتی ہے جن کو ہمارے وزیراعظم بھی غنڈے کہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مصنوعی قوم پرستی کا بخار نتائج کے اعتبار سے چکن گنیا اور ڈینگو سے زیادہ خطرناک اور مہلک ہوتا ہے۔ قوم پرستی کا لبادہ پہن کر کتنے آسارام اس ہجوم کا حصہ بن جاتے ہیں، اس لئے پاکستان کے خلاف جتنا پروپیگنڈہ کرنا ہے کیجئے، جنگ کرنی ہے ضرور کیجئے، اسے سبق سکھانا ہے، قدم پیچھے مت ہٹائیے۔ اس کا نام و نشان مٹادینا ہندوستان کی بقا کے لئے ناگزیر ہے تو بسم اللہ کیجئے، کوئی آپ کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہے، مگر اس کے بہانے میڈیا کے جارح گروپ کو نفرت پھیلانے اور دہشت پیدا کرنے کی اجازت مت دیجئے۔ اس کی آڑ میں کسی مخصوص فرقے، مذہب اور گروپ کو لعن طعن کرنے اور ستانے کا ماحول مت بنائیے۔ اگر آپ کے گرو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی خوشامد مت کرئیے، ان کی توقیر و عزت مت کرئیےتو ملک کے پردھان سیوک کے طور پر یہ کہنا کتنا حق بجانب ہے اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی، لیکن آپ کے مداح اسے پیغام و ہدایت سمجھ کر اپنے عمل میں مزید شدت پیدا کریں تو کیا یہ ملک کے حق میں بہتر ہوگا۔ تنقید کو مخالفت اور مخالفت کو دشمنی سمجھنے کی ذہنیت ہندوستان جنت نشان کو دوزخ کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ملک سے بغاوت اور غداری کے مقدموں کی بڑھتی رفتار بتاتی ہے کہ اشارے اچھے نہیں ہیں۔ قوم پرستی کے نام پر ملک کو قیدخانے میں بدلنے کی ذہنیت ایشیا کی بڑھتی ہوئی قوت کے طور پر شناخت کو داغدار کرنے میں ہی معاون ہوگی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ رسّی ہاتھ سے پھسل جائے۔ چلئے ہندوستان نے سرجیکل اسٹرائک کرکے مشتعل قومی جذبات کو تھوڑا سکون پہنچادیا۔ آگے اللہ خیر کرے ....۔
qasimsyed2008@gmail.com

0 comments:

مسلمانوں کے مسلمان جیسے دشمن


عمر فراہی: umarfarrahi@gmail.com

اندھی تقلید کی بحث شروع ہوتے ہی ہمارا ذہن غیر مقلد حضرات کی طرف چلاجاتا ہے جبکہ یہ تعبیر کی وہ غلطی ہے جو اکثر شک و شبہات اور فساد کا سبب بنتی ہے - درحقیقت اندھی  تقلید ایک محاورہ ہے جو عام طورپر پرزندگی کے تمام شعبہ حیات پر لاگو ہوتا ہے اور اکثر جو تقلید کے قائل نہیں ہیں وہ بھی اس کا شکار ہوجاتے ہیں - مثال کے طورپر جب ہم کسی کی تحریر و تصنیف کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ نہیں دیکھتے کہ مصنف کون ہے ,مصنف کا نظریہ کیا ہے ,وہ پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے اور اب اس کے بین السطور میں کیا وہی پیغام ہے جس کی وجہ سے اہل حق کے درمیان اس نے شہرت پائی تھی یا اب وہ کسی مفاد کے تئیں بک چکا ہے اور ہم کیوں ہر کسی کے مضامین کو سرسری طور پر پڑھ کر نتائج اخذ کر لیں ؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم زندگی کے ہر معاملات میں غور وفکراور تحقیق وجستجو کے بعد نتائج اخذ کریں - خاص طور سے  موجودہ پرفتن دور میں برق رفتار دجالی میڈیا کے جھوٹے پروپگنڈے اور اس پروپگنڈے کے فوری بعد سوشل میڈیا پر شروع ہونے والی بحث ومباحثہ کے بعد  باتوں کے عمل اور ردعمل کا جوسلسلہ چل نکلتا ہے اس بحث میں ہمیں بغیر تحقیق اور سمجھے بوجھے رٹے رٹائے جملوں کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے تاکہ کہیں انجانے میں ہم اسلام مخالف میڈیا اور تحریکوں کے ہاتھوں کا کھلونا نہ بن جائیں - جیسا کہ ہمیشہ کی طرح حالیہ دنوں میں بھی ذاکر نائک کے خلاف پولس میں شکایت اور میڈیا ٹرائل سے لیکر طلاق اور قربانی کے مسئلے میں بھی اسلام دشمن میڈیا نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی ناپاک جسارت کی اور کہیں نہ کہیں ان تمام معاملات میں دانستہ اور  نادانستہ طورپرمسلمانوں میں شامل ایک طبقہ خود مسلمانوں کے مد مقابل کھڑا ہوکر باطل میڈیا کی سازش کا شوق پورا کرتا ہوا  نظر آیا اور مسلمانوں کے ایک اخبار کے ایڈیٹر ذاکر نائک کے خلاف تین قسطوں میں اداریہ لکھ کر ذاکر کے مجرم ہونے کا ماحول بنایا - تعجب تو اس بات پر ہے کہ جب کبھی بھی اسلام مخالف طاقتوں نے ایک نشست میں تین طلاق کے معاملے کو لیکر مسلمانوں کا مذاق اڑانا شروع کیا ہے تو اسی دوران سوشل میڈیا پر غیر مقلد حضرات بھی جو کہ خود بھی اسلام دشمنوں کے نشانے پر رہے ہیں غیروں کی سازش کو سمجھے بغیر آپس میں ایک دوسرے طبقے کے خلاف الجھتے ہوئے نظر آئے ہیں - دوسرا گروہ لبرلسٹوں ,قادیانیوں اور میر جعفروں کا ہے جو ذاکر نائک کے معاملے میں بھی اسلام دشمنوں کے ساتھ تھا اور وہ ہر صورت میں اہل حق کی شناخت کو مشتبہ بنا دینا چاہتا ہے - مثال کے طور پر ادیبوں اور دانشوروں کے ایک سوشل فورم پر جب ایک ہم عصر صحافی اور دانشور نے رسمی طورپر عید الاضحی کی مبارکباد پیش کی تو اسی فورم پر موجود ایک ویب سائٹ The new age Islam کے ایڈیٹر سلطان شاہین نے فوری طورپر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوےُ لکھا کہ مباکباد تو ہم بھی مسلمانوں کو پیش کرتے ہیں مگر یہ عید کے دن جانوروں پہ ظلم اور خون کا بہانا ایک پرامن مذہب کی علامت نہیں ہے - عیدالضحی کے اس موقع پر پچھلے کئی سالوں سے مسلمان بجرنگ دل اور ہندو دہشت گردو کی دہشت گردی سے تو دوچار ہوتا رہا ہے  امسال سوشل میڈیا پر کچھ مسلم نام اور شکل وصورت کے لوگ بھی قربانی کے خلاف متحرک نظر آئے اور تقریباً تین چار مہینے پہلے ہی ایک نام نہاد مسلم ایکٹر عرفان نے عید کے دن مسلمانوں کے اس قربانی کے عمل کی مخالفت میں بیان جاری کیا - اس کے بعد ٹائمس آف انڈیا کی کالم نگار اور سماجی شخصیت جیوتی پنوانی نے بھی کچھ نام نہاد مسلمانوں کے حوالے سے قربانی کے عمل کو باطل ٹھہرانے کی ناکام کوشس کی اور آرایس ایس کی تربیت یافتہ ایک تنظیم مسلم راشٹریہ منچ جس میں کہ میر جعفروں اور میر قاسموں کی پوری بھیڑ اکٹھا ہے عیدالضحیٰ کے دن کیک کاٹ کر قربانی کی مخالفت کی - غرض کہ سوشل میڈیا پر امسال اس بحث کو کچھ زیادہ ہی طول دینے کی کوشس کی گئی اور مسلمانوں کے اس قدیم اور بنیادی عقیدے کے خلاف جہاں آرایس ایس اور ہندو تنظیمیں سرگرم نظر آتی تھیں اس بارمیر جعفر میر صادق اور لبرلسٹ بھی کچھ زیادہ سرگرم  نظر آئے - شاید دہشت گردی, ذاکر نائک, تبدیلئی مذہب درگاہوں میں مسلم عورتوں کے داخلے  اور  طلاق  کے دیگر عنوانات کے ساتھ قربانی کے عمل سے کہیں نہ کہیں اسلام مخالف طاقتوں کے ہر طبقے کے اپنے مفاد کو نقصان پہنچا ہے- ایسا لگتا ہے کہ کوئی ایک طبقہ جو اسلام سے بہت زیادہ ہی خوفزدہ ہے کسی نہ کسی عنوان پر ہر اس غیر مسلم طبقے کو بھی اسلام اور مسلمانوں کا دشمن بنا دینا چاہتا ہے جو ابھی تک مسلمانوں کے ساتھ  ہمدردی  یا مساوات کا جذبہ رکھتے ہیں - اہل حق کو اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ اگر وہ کسی فقہی مسائل پر آپس میں اتفاق نہ بھی رکھتے ہوں تو بھی جس طرح باطل تمام انتشار کے باوجود مسلمانوں کے خلاف اکثر و بیشتر ایک پلیٹ فارم پر کھڑا نظر آتا ہے وہ بھی اتفاق کرکے آگے بڑھیں یا ایسے موقع پر خاموشی اختیار کریں - جیسا کہ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور غیروں سے کہیں زیادہ  مسلمانوں کا دشمن مسلمانوں کے بھیس میں مسلمانوں کے اندر شامل ہوکر مسلمانوں کی جڑیں کمزور کر رہا ہے - خاص طور سے اس بار مسلمانوں کے بنیادی عقیدے قربانی کے عنوان کو بھی منصوبہ بند طریقے سے بحث کا موضوع  بنایا گیا تاکہ مسلمانوں پر شدید دباؤ بنایا جاسکے اور مسلمان اس دباؤ کو محسوس کرتے ہوئے  کہیں نہ کہیں یہ تسلیم کرنے کیلئے مجبور ہو جائیں کہ اسلامی تعلیمات اور قوانین میں بھی نقص ہونے کی وجہ سے تبدیلی کی گنجائش ممکن ہے اور پھر اس کے بعد کامن سول کوڈ کی راہیں ہموار ہوسکیں - بہرحال کچھ لوگوں نے اپنے طورپر اس کا جواب دیا بھی اور دیا بھی جانا چاہیے لیکن جو بات ہم کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اکثر سوشل میڈیا پر ہمارے درمیان مسلمانوں جیسے نام کے ساتھ کچھ منافقین بھی شامل ہوتے ہیں جنھیں ہم مسلمانوں جیسے نام ہونے کی وجہ سے شامل تو کر لیتے ہیں لیکن وہ حقیقتاً مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہوتے بلکہ اکثر اوقات اس تاک میں رہتے ہیں کہ مسلمانوں کے اکثریتی فرقے میں کوئی تنازعہ اٹھتا ہوا نظر آئے اور وہ اسے مسلمانوں کے درمیان تنازعے کا سبب بنا دیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں ان کے اپنے مفاد اور عقیدے پر ضرب لگتی ہے فوری طورپر بے لاگ ٹوک دیتے ہیں اور آپس میں متحد ہو کر اس بات کا رونا رونے لگتے ہیں کہ اس طرح کی مسلکی بحث سے مسلمانوں کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے - بڑی عجیب سی بات تو یہ ہے کہ یہی لوگ جب مسلمانوں کی مقدس سرزمین کے لوگوں کیلئے وہابی کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے لعنت ملامت کریں تو جائز  مگر کسی دوسرے ملک کیلئے رافضی کی اصطلاح قابل مذمت ہے - تعجب اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ اکثریتی فرقے کے لوگ جو اپنے حق پر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ایسے موقع پر ذہنی طورپر انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں یا مصلحتاً اپنے ذاتی اور معمولی مفاد کے تئیں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں یا پھر نام نہاد اتحاد اور بھائی چارگی کی بے چارگی میں مخالف گروہ کی سازش کا شکار ہوتے رہتے ہیں - مصلحت کے شکار ایسے کچھ لوگوں کا کہنا کہ الجھنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا جبکہ یہ بات غلط ہے اگر کوئی شخص سماج میں برائی یا جھوٹا پروپگنڈہ پھیلاتا ہے تو اچھے لوگوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس پر اسی طرح نکیر کریں جیسے کہ باطل میڈیا اسلام کے ہراس ارکان پر حملہ آور ہے  جو مسلمانوں کے عقائد کو مضبوط اور مستحکم کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ باطل معاشرے کی جو اصل برائی ہے اس پر کوئی آواز نہیں اٹھتی یا اس پر پردہ پڑا رہ جاتا ہے مگر باطل کا پروپگنڈہ غالب آ جاتا ہے - مثال کے طورپر  دنیا میں کہیں پر اگر درندگی اور قتل عام کی تاریخ دہرائی جاتی ہے تو ہمارے ذہنوں میں بربر قوم اور  ہٹلر کی تصویر ہی کیوں گردش کرنے لگتی ہے اور ہم اپنی تحریروں میں ایسے وقعات کیلئے بربریت اور ہٹلریت کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں تو اس لئے کہ ایک منصوبے کے تحت ایک مخصوص ذہنیت کے میڈیا کی طرف سے مخالف گروہ کے خلاف شدید پروپگنڈہ کیا گیا ہے مگر فلسطینیوں اور شامی مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والی قوم اور اس قوم کے خونخوار دہشت گرد حکمرانوں کی فرعونیت اور  شیرونیت کا کہیں کوئی تذکرہ بھی نہیں ہوتا  - چلئے یہ بھی ٹھیک ہے کہ آپ کسی وجہ سے الجھنا نہیں چاہتے اور ہمارا بھی نظریہ یہ ہے کہ دو لوگوں سے یعنی ایک عالم اور دوسرے جاہل سےکبھی نہ الجھا جائے - یعنی  وہ شخص جسے آپ جانتے ہوں کہ وہ آپ سے زیادہ علم رکھتا ہے اور آپ کے پاس کوئی دلیل بھی نہ ہو تو بحث کو طول دینے کا کوئی مطلب نہیں اور دوسرا وہ شخص جو جاہل ہو گویا وہ پڑھا لکھا ہی کیوں نہ ہو اگر وہ ضدی اور ہٹ دھرم ہے تو وہ صرف آپ کا وقت ضائع کرے گا - بحث اس سے کی جائے جو آپ سے متوجہ ہو اور آپ سے سیکھنا چاہتا ہو یا آپ اس کے اخلاق واطوار سے واقف ہوں لیکن اگر کوئی جہالت کی بات کر رہا ہو تو آپ بغیر سمجھے  اس کی اندھی حمایت یا حوصلہ افزائی بھی کیوں کریں - ایسا آجکل سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے - فیس  بک اور وہاٹس ایپ  پر لوگ کمنٹ کے ساتھ انگوٹھے کے نشان سے اپنی تائید کا مظاہرہ کرتے ہیں یا کچھ لوگ سبحان اللہ اور جزاک اللہ کے ذریعے دعائیں دیتے ہیں -اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک مخالف طبقہ جب اپنے مخالف گروہ کی تحریر میں اپنے مفاد و نظریات کی حمایت میں کوئی مواد دیکھتا ہے تو لکھنے والے کی حوصلہ افزائی میں جزاک اللہ اور تائید کے نشان سے اس کی حمایت کرتا ہے اور اگر ممکن ہوا تو ایسے مضامین کو کسی ہم خیال اخبار میں جگہ بھی دے دی جاتی ہے - اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ لکھنے والا اپنے آپ کو دانشوروں کی فہرست میں شمار کر لیتا ہے اور اخبارات میں چھپنے کیلئے ایسے ہی بے مقصد مضامین میں وقت ضاںُع کرتا ہے جس سے کہ اہل حق کا تو کوئی بھلا نہیں ہوتا لیکن مخالف ذہنیت کا مقصد ضرور پورا ہوتا رہتا ہے -   ایک بیماری یہ بھی ہے کہ اکثر لوگ بغیر بات کو سمجھے اور مضمون کو پڑھے بغیر بھی لائک کے نشان پر تائید کی بٹن دبا دیتے ہیں تاکہ بدلے میں انہیں بھی تائید حاصل ہو - ایسا نہ کیجیئے دشمن کی سازش کو سمجھئے- غیر مسلموں کو جسے آپ جانتے ہیں ان سے دوستی رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن فیس بک اور وہاٹس ایپ گروپ پر مسلم نما چہروں سے ہوشیار رہیں ممکن ہو تو انہیں بلاک کر دیں کیونکہ دشمن ہمارے اندر اور ہمارے جیسے نام کے ساتھ ہماری صفوں میں داخل ہے - اور ہم نادانستہ طورپر ان باطل طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن رہے ہیں - باقی آپ کی مرضی - حدیث ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا -آپ اپنے بارے میں اندازہ لگا لیں کہ کیا آپ واقعی مومنوں کی اس فہرست میں ہیں -

0 comments:

تین تصویریں اور آئینہ



ممتاز میر 

(۱)G-20 summit کے دوران چین میں اوبامہ کے ساتھ کیا ہوا ایک بڑے ہندوستانی اخبار کی رپورٹ کچھ اس طرح ہے ’’میڈیا رپورٹس کے مطابق اتوار کو امریکی طیارے ائر فورس ون کے چینی شہر ہانگ زو میں اترنے کے فوراً بعد ہی چینی حکام اور وہائٹ ہاؤس عملے اور دیگر سفارت کاروں کے درمیان تکرار ہوئی۔اس کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا جب صدر اوبامہ کے طیارے سے اترنے اور ریڈ کارپٹ تک پہونچنے کے لئے کوئی بھی سیڑھی نہیں تھی ۔دوسری تلخی اس وقت ہوئی جب ایک چینی اہلکار نے امریکی صدارتی مشیر سے اس بات پر بحث کی کہ صدر اوبامہ کے ساتھ آئے ہوئے صحافیوں کو کسی بھی مقام پر ان کے آس پاس رہنے سے منع کیا جائے ۔یہ اس روایت کی خلاف ورزی تھی جس کی پاسداری امریکی صدر کے کسی بھی غیر ملکی دورے پر کی جاتی ہے ۔جب امریکی صدارتی مشیر نے اصرار کیا کہ امریکہ اپنے ملک کے صدر کے لئے خود ضابطے طے کرے گا تو چینی اہلکار نے بلند آواز میں جواب دیا کہ یہ ہمارا ملک ہے اور ہمارا ائر پورٹ ہے ۔یہ تنازعہ اس وقت اور بڑھ گیا جب ایک دوسرے چینی اہلکار نے صدر اوبامہ کی قومی سلامتی کی مشیر سوسن رائس کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کی رائس جو امریکی حکومت کی اعلیٰ ترین افسران میں سے ایک ہیں چینی اہلکاروں کی جانب سے خوش آمدید کہنے کے اس انداز پر ناراضگی ظاہر کی سوسن رائس نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا ’’انھوں نے وہ کیا جس کی ہمیں توقع نہ تھی ‘‘۔دوسری جانب اوبامہ نے چینی عہدیداروں اور امریکی اہلکاروں کی تکرار کے متعلق کہا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے ‘‘ اس پورے ایپی سوڈ سے کم سے کم ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اب چین کے لئے سپر پاور نہیں رہا ۔اور چین کی بات ہی کیوں ؟ اب تو ترکی بھی امریکہ کو جوتے کی نوک پر ماررہا ہے۔اور ایک ہم ہیں کہ ۔۔۔۔!
(۲)سال گذشتہ ۲۶ جنوری کو جناب اوبامہ یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کی غرض سے بھارت آئے تھے۔اس کے علاوہ بھی امریکی صدور بھارت آئے تو ہمارا رویہ آقا اور غلاموں کا ہی سا تھا ۔ہم نے ان کی خدمت اور حفاظت کے لئے کیا کیا جتن کئے اس کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ ہو۔۲۴ جنوری ۲۰۱۵ کا ایک آن لائن اخبار لکھتاہے۲۶ جنوری کو دہلی ایک sealed قلعہ بنا دیا جائے گا ۔تاج محل اور انڈیا گیٹ عوام کے لئے بند کر دیئے جائیں گے ۔راج پتھ کے آس پاس کا علاقہ نو فلائی زون ہوگا ۔پرانی روایات کے مطابق کوئی بھی جہاز اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائر پورٹ سے نہ اڑ سکے گا نہ لینڈ کر سکے گا ۔اوبامہ کی خوراک اور پانی تین تہوں والی چیکنگ سے گزرے گی (ہوا کے بارے میں کچھ نہیں۔۔م م)فضا سے نگرانی کے لئے AWACSطیارے لگائے جائیں گے اور وہ جناب اوبامہ کے آس پاس کے ماحول کی نگرانی رکھیں گے ۔اس سال کے یوم جمہوریہ کے موقع پر راج پتھ کے آس پاس کی ۷۱ ہائی رائز بلڈنگوں کو اس دن بند رکھا جائے گا ۔۴۰Sniffer Dogs اوبامہ کی سیکوریٹی کے لئے امریکہ سے لائے جائیں گے‘‘ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ یہ ’’کتے‘‘ ( کہیں خلاف ادب تونہیں)امریکہ سے آئے اور ان کی اہمیت کے آگے بھارتی سیکوریٹی ایجنسیز کی اہمیت کچھ بھی نہیں تھی ۔۲۰۰۶ میں جارج بش کے دورے پر تو سب سے پہلے انھیں ہی باپو کی سمادھی کی وزٹ کرائی گئی تھی ۔اور ان کی کلیئرنس کے بعد ہی بش صاحب راج گھاٹ تک آئے تھے۔ 
اتنے تلوے چاٹنے کے باوجود امریکہ و اہل یہود کے فطری اتحادی جناب ایل کے ایڈوانی و جارج فرنانڈیس منسٹر ہونے کے باوجو د جب امریکہ گئے تو ایئر پورٹ پر ان کے کپڑے اتر والئے گئے تھے۔اور اتنے بڑے واقعات کو شیر مادر کی طرح پی لیا گیا تھا ۔ہمارے علم میں تو نہیں ہے کسی کے علم میں ہو تو بتائے کہ کیا چینی یا ترکی کے کسی وزیر کے ساتھ بھی کبھی ایسا معاملہ پیش آیا تھا۔یہ ہماری غلامانہ ذہنیت کا کمال ہے کہ شاہ رخ خان جیسے لوگ بھی جو امریکہ کو بزنس دینے کی غرض سے جاتے ہیں ۔ہندوستان میں تو کرکٹ کے میدان میں جھگڑا کر لیتے ہیں مگر امریکی ایئر پورٹ پر کئی بار ننگے کئے جانے کے باوجودبے مزہ نہیں ہوتے ۔انا خود داری جب ملک کے رہنماؤں کے پاس نہیں تو پھر یہ تو ناچنے گانے والے لوگ ہیں۔
(۳)موجودہ عالمی سیاسی حالات میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم روس چین ایرا ن وترکی کے ساتھ ملکر ایک محاذ بناتے کیونکہ امریکہ تو فی زمانہ ایک ڈوبتا ہوا جہاز ہے ۔مگر ہم تو ہمیشہ سے ہی گنگا الٹی بہاتے آئے ہیں۔روس افغان جنگ کے وقت بھی جب روس ڈوب رہا تھا مگر ہم آخر تک روس کے ساتھ کھڑے رہے ۔کہا جا سکتاتھا کہ ہم وفادار ہیں ابن الوقت نہیں ۔سوال یہ ہے کہ پھر ہم آج کیوں روس کو چھوڑ کر امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم چڑھتے سورج کے پجاری ہوں ۔مگر امریکہ کا سورج تو ڈوب رہا ہے یہ اور بات ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔قوموں یا ملکوں کی پالیسیاں اپنے مفادات یا اصولوں کے مطابق بدلتی ہیں ہمارے یہاں نہ ملکی مفادات ہیں نہ اصول۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم دور دیکھنے کی بجائے پاکستان کی طرح نزدیک دیکھتے۔چین پاکستان سے زیادہ ہماری قدر کرتا۔اقتصادی راہداری منصوبے سے بڑا منصوبہ ہمارے یہاں ہوتا ۔مگر چین سے تو ہماری صدیوں نہیں ہزاروں برس پرانی دشمنی ہے ۔وطن کے بودھوں کو تو ہم ہندو مت کا ہی حصہ بتاتے ہیں مگر چینی بے وقوف نہیں ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ بھارت برہمن غلبے والا ملک ہے اور بدھ ازم وجود میں آیا ہی برہمنیت کے ردعمل کے طور پر تھا ۔ چینی سمجھتے ہیں کہ دونوں کا ملن ممکن نہیں۔مگر زمینی حقائق صدیوں پرانی کشمکش پر مٹی ڈال سکتے تھے۔
آج روس چین ایران ترکی امریکہ کے خلاف محاذ بنا رہے ہیں اور ہم اس وقت امریکہ کے پالے میں ہیں جب دنیا اس سے کنی کاٹ رہی ہے ۔فلپائنی صدر کا امریکی صدر کو گالی دینا کیا ظاہر کر رہا ہے ؟کیا علامہ اقبالؒ کو پھر سے پیدا ہو کر کہنا پڑے گا ’’نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو ‘‘مانا کہ ہمارے چین کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں ۔اقصائے چین ہمارا ہونا چاہئے تھا جبکہ اس پر چین کا قبضہ ہے ۔اسی طرح ارونا چل پردیش ہمارے پاس ہے مگر چین اس پر اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے۔اسی طرح سکم کے تعلق سے بھی وہ ناراضگی کا اظہار کرتا ہے ۔اس سے بھی بڑھ کر ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ماضی قریب کے واحد ہندو ملک نیپال کو بھی اپنے ہاتھوں سے کھو دیا ہے ۔اب وہ چین کی گود میں جا بیٹھا ہے ۔کل تک جو پیار اسے ہم سے تھا وہ آج اسے چین دے رہا ہے۔اور کوئی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ ہم سے کیا غلطی ہوئی نہ کہیں سے اس کی بھر پائی کی کوئی کوشش نظر آتی ہے ۔ہمارے دماغ میں تو یہ خناس بھرگیا ہے کہ ہم ایشیائی سپر پاور ہیں مگر چین اس خناس سے خالی ہے اور اسی لئے ہم پاکستان سے خوش گوار تعلقات نہیں رکھ سکتے ورنہ پاکستان وہ ثالث ثابت ہو سکتا تھا جوچین سے ہمارے مسائل بحسن و خوبی حل کروا سکتا ۔پاکستان کے حکمراں روز اول سے امریکی غلام رہے ہیں مگر انھوں نے کسی قیمت پر چینی دوستی کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات بڑھانے میں بھی تو پاکستان کا رول رہا ہے۔ہم چین سے دشمنی بھی رکھتے ہیں اور اس کی ترقی کی طرف حسرت بھری نگاہ بھی ڈالتے ہیں اور اس کی یہ ترقی اس کے باوجود ہوئی ہے کہ وہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک تھا ۔
اب ان تین تصویروں کو ہم آئینہ بنا کر دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔کیا چمچہ گیری سے کوئی ملک کیا فرد سماج میں اہمیت حاصل کر سکتا ہے ؟یا پھر دنیا کو گولی ماریں صہیونیت کے مکمل حاشیہ بردار بن جائیں مگر یہ ذہن میں رہے کہ اب یورپ خود دھیرے دھیرے اسرائیل سے دور ہوتا جا رہا ہے۔
۔۔۔۔
07697376137 

0 comments:

یہ پاسباں ہمارے

قاسم سید 
جمہوریت کی جڑ میں برطانوی کالونی نظام ہے اس میں صرف دکھاوے کے لیے جمہوریت کا لبادہ اوڑھا دیاگیا ہے بعض لوگ جمہوریت کامطلب اکثریت کی فسطائیت سمجھتے ہیں۔ برصغیر میں موجودجمہوریت میں کالونیل اور مورثیت کاخمیرپایاجاتا ہے۔ ہمارا منتخب نظام گینگسٹر ڈیموکریسی ہے جس کامزاج خاندانی اور موروثی ہے ۔کیا اس حقیقت سے انکار کیاجاسکتا ہے کہ ملک کی زیادہ تر سیاسی پارٹیاں خاندانی موروثی اوراندرونی آمریت کے تحت چل رہی ہیں۔ ان کے ذریعہ خاندان کی حکومتیں قائم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اب چونکہ بادشاہت کا نظام لپیٹ دیاگیا ہے ۔ عوام کی حکومت ، عوام کے لیے عوام کے ذریعہ کا پرفریب نعرہ افیم کی طرح کام کرتا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ ووٹوں کے ذریعہ خاندانی بادشاہت کا نظام نے جگہ لے لی ہے۔ سیاسی دھڑوں میں منقسم ووٹروں کو ہر الیکشن میں مخصوص خاندان کے حق میں ووٹ ڈالنے کا موقع ملتا ہے یہی حکومتوں پر حتمی فیصلوں اورکلی اختیارات کے مالک ہوتے ہیں۔ پارٹی میں عہدوں کی نامزدگی سے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم،حکومت کی تشکیل سے حکومت میں وزارتوں اور ذمہ داریوں کی تقسیم تک اختیار ایک یاچند افراد کے پاس ہوتا ہے اور یہ افراد اس خاندان کے لوگ یا ان کے رفقا ہی ہوتے ہیں ۔ انہیں ہائی کمان کہاجاتا ہے جبکہ دیگر لیڈروں کی موجودگی ان کی رائے کو تقویت دینے،انہیں سورج چاندسمجھنے اور سمجھانے ،ان کو خدا کا انعام کہلوانے ،ان کی قیادت وسیاست کو عوام پر مسلط کرانے اور ان کی قیادت ملک ملت پراحسان عظیم ثابت کرانے بھرہوتی ہے ۔ انہیں بھی بخشش کے طورپر عہدے مل جاتے ہیں مگر ان کی زبانیں اورخیالات ہائی کمان کے پاس گروی رکھ لیے جاتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ مختلف ذاتوں اور فرقوں کے نام پر جو لیڈر شپ ابھاری جاتی ہے وہ کمیونٹی سے زیادہ ہائی کمان کی وفادارہوتی ہے۔ اسی کے گن گاتی ہے اور ایسے القاب وآداب ڈھونڈ کر لاتی ہے جو تملق خوشامدکی تمام حدیں پار کرلیتے ہیں اور اس کا سرا غلامی سے جاملتا ہے۔ ان کا سوناجاگنا،اٹھنا بیٹھنا، بچھونا صرف خاندانی بادشاہت کے لیے ہوتا ہے ۔ اگر وہ یہ کام کرنابند کردیں کبھی ضمیر جاگ جائے غیرت اندر سے لعنت ملامت کرنے لگے ،چاپلوسی کوبھی شرم آنے لگے اور غلطی سے کچھ سچی باتیں کرنے لگیں تو خاندانی بادشاہت کے کان کھڑے ہوجاتے ہیںاور بغیر تاخیر کے باہر کاراستہ دکھادیاجاتا ہے۔ یہ اپنے لیے سجدہ تعظیم واجب قرار دیتے ہیں ۔ منکرین کو گمنانی کےعقوبت خانوں میں ڈال دیتےہیں ۔
جملہ معترضہ کے طور پر اس بات کا تذکرہ کرناضروری لگتا ہے کہ ہماری بیشتر مذہبی جماعتوں کا احوال بھی کچھ ایسا ہی ہے جہاں خاندانی وموروثی نظام جاری ہے ۔ کلیدی عہدوں تک کسی اورکے پہنچنے کا تصور بھی گناہ ہے اور کوئی بھی شخص واحد پارٹی ہائی کمان کے منصب سے سرفراز ہوکر احکام وفرامین جاری کرتا ہے اور عقیدت مند اس کی تکمیل کو باعث سعادت ،اجروثواب سمجھتے ہیں ۔ انتخابات کاتماشہ وہاں بھی ہوتا ہے مگر مدمقابل کوئی اور ہو اس کا تصور بھی گناہ کا درجہ رکھتا ہے اور وہ اتفاق رائے سے منتخب ہوکر ملک وقوم کی خدمت کےفریضہ کا بار گراں اٹھالیتا ہے ۔ جمہوریت میں ملوکیت کے اتنے اچھے مظاہرے اور نمونے اور کہیں نہیں مل سکتے ، عوام کا لانعام ہوتے ہیں ۔ بکریوں کی طرح جدھر چاہتے ہنکالے جائے انہیں جان بوجھ کر جاہل رکھا جاتاہے بصورت دیگر آئین کے عطا کردہ حقوق کی ادائیگی کامطالبہ کرنے لگیں جہاں لوگ سراٹھاتے ہیں سرکار ی طاقت کے استعمال سے کچل دیاجاتاہے ۔ برصغیر میں خواندگی کی شرح تشویشناک حد تک کم ہے۔ بادشاہوں نےبھی یہی کیا اور جمہوری بادشاہ بھی اسی راستے پر صدق دلی سے چل رہے ہیں۔ ہرطرح کی سرکاری مراعات کے اولین مستحق ہیں ۔ وی آئی پی کلچر کے موجد ہیں یہ بیمارذہنیت کا نام ہے جسے اشرافیہ طبقہ نے اپنارکھا ہے جب یہ دورے پرنکلتے ہیں توسڑکیں تمام لوگوں کے لیے بند کردی جاتی ہیں۔ خواہ مریض ایمبولنس میں دم توڑ دے۔ حاملہ خاتون اسپتال کے راستہ میں بچہ کو جنم دے ، عوام کو متاثر کرنے لیے شاہانہ طریقے اختیار کرتے ہیں انہیں خوفزدہ مرعوب کرنے لیے سیکورٹی کے حصار میں رہنا پسند کرتے ہیں جبکہ اس ملک کی 80فیصد آبادی زندگی میں کبھی جہاز پرنہیںبیٹھی ۔ حمل سے لے کر انتقال تک بھیک ، امداد اور قرض پر جیتی ہے انہیں مفت صاف پانی مفت انصاف ،مفت صحت خدمات اور بے خطر آبرو باعزت زندگی نصیب نہیں ہوتی۔ پیداہوتے ہی جہدکی چکی میں ڈال دیے جاتے ہیں یہ تاعمر شاور ،کموڈ ،پزا اور کافی سے محروم رہتے ہیں ۔ذاتی سواری کی لذت سے نااشنا یہی مخلوق جمہوری شہزادوں کوپارلیمنٹ پہنچاتی ہے تاکہ ٹھنڈے ماحول میں بیٹھ کر ان کے گرم مسائل حل کرسکیں جنہیں کبھی بجلی کا پنکھانصیب نہیں ہوتا جو گنگا جل سے پیاس بجھاتے ہیں اور وضو کے پانی سے افطار کرتے ہیں۔ ان 68 برسوں میں کبھی ان کی طرف مڑکر نہیں دیکھتے کہ کس حال میں ہیںان کا مقصدصرف اپنے خاندانی مفادات کا تحفظ ہے اس کے لیے سب کچھ گزرتے ہیں۔
اس تناظر میں ملک کے سب سے بڑے سیاسی کنبہ یادو پریوار کا اندرونی جھگڑاسرخیوں میں ہے ،کاجائزہ لیں یہ تماشہ کیوں ہورہا ہے جھگڑے کی بنیاد کیا ہے۔ اس میں عوام کے مفادات کی بات ہے یا اقتدار کی رسہ کشی جس کے نتیجہ میں پورا صوبہ پرغمال محسوس کررہا ہے۔ کس کی چلے کس کا قد اونچا ہے یہ ذاتی وقار ودبدبہ کی لڑائی عوام کے ساتھ سنگین بھداا مذاق ہے ۔ ایک ہی خاندان کے 16افرا کے قبضہ میں اقتدار کی کنجیاں ہیں کوئی ایم پی ہے تو کوئی ایم ایل اے یا ایم ایل سی ملائی دار کارپوریشنوں کے چیئرمین ہیں یا صوبہ میں وزیر بیٹاوزیراعلیٰ ہے باپ پارٹی کاسپریمو چچا یویوپی کی پارٹی اکائی کا صدر اور ایک چچا راجیہ سبھا میں پارٹی لیڈر ایک ہی خاندان کے پانچ افراد لوک سبھا میں ہیں۔ انہیں سلگتے مسائل سے غرض ہے نہ کندھوں پرڈھوکر اقتدار کی ڈولی میں بٹھانے والے کہاروں کی یہ اپنی ضرورت کے لیے نریندرمودی کو گھر میں خاص مہمان کی جگہ دے سکتے ہیں۔ پوری ریاست میںاشتعال انگیزی پھیلانے اور فرقہ پرستوں کو دندنانے کالائسنس، خاندانی وموروثی نظام کو تقویت دینے ،نئی نسل کو اقتدار کی منتقلی کوقبولیت عام دلانے اور جمہوری بادشاہت کے شہزادے کو وارث بنانے کے عمل کے سوا اورکیا نام دیاجائے ۔ اس میں عوام کہاں ہیں اکھلیش یادو نے اس ذہنیت کامظاہرہ کرتے ہوئے یہ رائے دی کہ باہری عناصر جھگڑے پیدا کرتے ہیں یعنی پریوار ہی پارٹی ہے مگر پارٹی پریوار نہیں۔ جب فیصلے خاندان کےچندافراد کے ہاتھوں میں ہوںتوفسطائیت وآمریت  ابھرآتی ہے۔ یہ فیملی ڈرامہ چلتا رہے گا اوراپنے منطقی انجام کوبھی پہنچ جائے گا۔ اقتدار بچانے کے لیے اختلافات کوحسین پیرایہ میں ڈھالا جائے گا اور اس کا ڈراپ سین ہوجائے گا۔
 اس جمہوری کھیل میں مسلمان خود کو بادشاہ گرسمجھ کر خوش ہوتے رہے انہیں باوربھی کرایا گیا۔ مسلم تنظیمیں خم ٹھونک کر یہ اعلان کرتی ہیں اور سیاسی جماعتوں میں اپنا قد بڑھاتی ہیں ۔ مگر اور موجودہ وقت میں ایسی تمام تنظیمیں حاشیہ پر چلی گئیں جوانتخابات میں من وسلویٰ سمیٹنے میں ماہر تھیں مسلمان بادشاہ گر تھا پیادہ بنادیاگیا۔ ان کے مسائل پس پشت  چلے گئے ۔ نئے مسائل پیدا کئے گئے ان میں الجھا دیاگیا۔ کسی کے منھ میں زبان نہیں کہ وہ ان سے معلوم کرے کہ ووٹ تو ہم بھی دیتے ہیں پوری جان کھپادیتے ہیں تمہاری محبت میں کتنے رقیب پیدا کرلیتے ہیں مگراپنی چادر پر بھی بیٹھنے نہیں دیتے۔
مولاناآزاد نے مسلمانوں کو مشورہ دیاتھا کہ وہ اپنی پارٹی نہ بنائیں اورکانگریس جیسی پارٹی سے اپنی تقدیر وابستہ کرلیں مسلمانوں نے ایمانداری کے ساتھ اس ہدایت پر عمل کیا یہ بڑی عجیب وغریب بات ہے کہ ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی کی ایک بھی نمائندہ تنظیم نہیں جو پارٹیاںہیںوہ عوام کااعتماد حاصل نہیں کرسکی ہیں جمہوریت میںانتخابی سیاست ہی تقدیر بناتی بگاڑتی ہے ایسے دور میںجبکہ علاقائی ونسلی بنیاد پرتنظیمیں سرگرم ہیں ، مسلمان آج بھی فتھ کالم بناہوا ہے شاید ایسا وقت آگیا ہے کہ وہ زیادہ کھلے دماغ کےساتھ سوچے اورانتخابی سیاست کے تقاضوں کومدنظررکھ کر جمہوریت کے فیوض وبرکات سے استفادہ کرنے کااہل بنائے ۔ ذوق یقیں پیدا ہوتو غلامی کی زنجیر یں کٹ جاتی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی حاشیہ برداری نے اچھے قسم کے کچھ آزاد غلام ضرور پیدا کردیے ہیں مگر بحیثیت امت مسائل میں اضافہ ہوتا رہا ہے ۔ اس کا جواب صرف معاہداتی سیاست ہے ۔ جذبات سے نہیں لگاتا رجدوجہد اور پسینہ بہانے سے ہی یہ ہنر پیدا ہوگا ،کیا ہم اس کے لیے تیارہیں۔


qasimsyed2008@gmail.com

0 comments:

کشمیری خواتین : مظلومی کی داستان خونچکاں


کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی ایک خاتون ہیں لیکن وہ خواتین کے جذبات اور ان کے احساسات سے شاید ناواقف ہیں اور شاید وہ ان کے مسائل سے بھی انجان ہیں ۔یہی سبب ہے کہ کشمیر کی موجودہ شورش پر انہوں نے بیان دیا کہ کشمیر میں موجودہ شورش کے لئے پانچ فیصد فسادی ذمہ دار ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ ان کی یہ بات سچ ہو ۔لیکن ان پانچ فیصد افراد سے یہ لوگ اتنا خائف ہیں کہ انہیں کنٹرول نہیں کرسکتے ؟لیکن کیا کشمیر کا موجودہ فساد صرف پانچ فیصد افراد ہیں تو محبوبہ کی حکومت کیوں ان سے خوفزدہ ہے ؟دوسری بات یہ کہ پچھلی شورشوں کی طرح اس وقت کی شورش میں بھی سلامتی دستوں کا جبراور ان کی درندگی کا دخل ہے جس نے عوام کو سڑکوں پر احتجاج کرنے کو مجبور کردیا اور ان کی تعداد یقیناًآبادی کا پانچ فیصد نہیں تھا ۔برہان وانی کے جنازہ میں شامل افراد کا اژدہام پانچ فیصد افراد کی نمائندگی نہیں بلکہ پورے کشمیری عوام کی نمائندگی کررہا تھا ۔وہ اپنے درد کرب اور بے چینی کا اظہار کرنے کے لئے جنازہ میں شامل ہوئے تھے ۔جب مائیں اپنی جوان اولاد کا خون سے سرخ لاشہ تھامنے کو مجبور ہو جائیں جب بہنیں اپنے بھائیوں کی لاشوں پر بے بسی کے آنسو بہانے کے علاوہ کچھ اور نہیں کرسکیں تو مجبور ہوکر انہیں بھی انہی تحریکوں کا حصہ بننا پڑتا ہے جہاں عوام کے ہاتھوں میں پتھر یا غلیل ہو اور فوجیوں کی بندوقیں آگ اگلتی ہوں ۔فضا ہر طرف بارود کی بو سے بو جھل ہو جائے تو پردہ پوش اور عفت مآب خواتین کو بھی میدان میں آنا پڑتا ہے اور فی الوقت کشمیر اسی دور سے گزر رہا ہے ۔محبوبہ چونکہ نئی دہلی کے مزاج کے خلاف کچھ کر یا کہہ نہیں سکتیں اس لئے انہوں نے پانچ فیصد فسادیوں کا نام لے کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کی ہے۔
اقوام متحدہ نے دنیا میں خواتین و اطفال کے حقوق متعین کررکھے ہیں ۔لیکن آج سے چودہ سو سال قبل عرب کے صحرا میں محسن انسانیت کے ذریعہ لائے ہوئے دین نے سب سے پہلے اطفال و خواتین کے حقوق متعین کئے تھے اور نبی ﷺ کے اصحاب نے اسے ساری دنیا میں عملاً نافذ کرکے دنیا کو ایک لازوال حقیقت سے روشناش کرایا تھا۔اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کی مدد سے دنیا بھر میں اس سمینار اور اجلاس کے ذریعہ لوگوں کو ان کے حقوق کے تعلق سے بیدار ی پیداکرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔لیکن دنیا کے حکمراں اقوام متحدہ کے ذریعہ متعینہ خواتین و اطفال کے حقوق کو اپنی ٹھوکروں پر رکھتی ہیں ۔کہیں تو حکومتیں ان حقوق کی پاسداری نہیں کرتیں تو کہیں اس ملک کی تہذیب اور ان کا کلچر انہیں خواتین کے حقوق کی راہوں میں سد راہ ہے ۔بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حالیہ دنوں میں دو ماہ سے زائد سے جاری تشدد کی نئی لہروں نے مرد و نوجوانوں سمیت خواتین و اطفال کو بھی متاثر کیا ہے ۔کشمیر کے اس علاقے میں جہاں بھارت کی عملداری ہے وہاں کی فورسز بے لگام ہو چکی ہیں ۔یہاں کئی دہائیوں سے افسپا جیسا سیاہ قانون نافذ ہے جو کہ حقوق انسانی کے لئے سم قاتل ہے ۔اس قانون کے تحت کسی بھی فوجی یا سلامتی دستوں کو بے پناہ حقوق حاصل ہیں جن کی مدد سے یہ انسانی حقوق کا گلا گھونٹتی رہتی ہیں۔موجودہ حکومت نے انہیں کچھ زیادہ ہے چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ عوام خصوصاًخواتین اور بچوں کا استحصال کریں ۔یہی سبب ہے کہ اب خواتین کی عصمت دری اور بچوں کا قتل روز کا معمول بن گئے ہیں۔حالیہ شورش میں پیلیٹ گنوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی خواتین نو عمر بچے ہیں ۔دنیا بھر وہ تصویروں حکومت ہند کے اہنسا کے پجاری والی شبیہ کے دعوں کو منھ چڑارہی ہیں جس میں آٹھ دس سال کے معصوم بچوں اور خواتین کے چہرے دکھائے جاتے ہیں جن کے چہروں کو سلامتی دستوں کی نفرت انگیز کارروائیوں کا مشق ستم بننا پڑا ۔دنیا بھر میں حکومت ہند کی اس کارروائی کو بنظر تحسین نہیں دیکھا گیا ۔لیکن حکومت ہے کہ وہ اپنی پیٹھ تھپتھپانے میں مصروف ہے کہ وہ کشمیری عوام کے حقوق کی محافظ ہے !جبکہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ حکومت ہند کشمیر کو اپنا اٹوٹ حصہ کہتی ہے پر عوام کو وہ اپنا تسلیم نہیں کرتی ۔یہی سبب ہے کہ پچھلے پینسٹھ برسوں سے بھی زائد عرصے سے کشمیری عوام ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔
دنیا میں جہاں جہاں شورش بپا ہے ۔حکومت خود ظلم کے پہاڑ توڑنے میں سارے ریکارڈ توڑنے کی کوشش میں سرگرداں ہے اس میں اول تو فلسطین ہے جہاں صہیونی حکومت ان کی جان و مال اور عزت آبرو کی دشمن ہے ۔دوسرے میں یقیناًکشمیر کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ہر چند کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے میں سب سے آگے ہے لیکن زمینی حقیقت اس کے بر خلاف ہے ۔یہاں اس کی تفصیلات کی ضرورت نہیں ہر نیا دن حکومت کے جبر و استبداد کی نئی تاریخ رقم کرتا سورج طلوع ہو تا ہے۔بس یہاں نیا صرف یہ ہے کہ یہ سب کچھ جمہوریت کی نیلم پری کے سایے میں ہوتا ہے جس سے دنیا کو دھوکہ دینا قدرے آسان ہو جاتا ہے ۔لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا دنیا کے دیگر خطہ کے لوگ اتنے ہی سادہ لوح ہیں کہ وہ بھارتی حکومت کے ہر جھوٹ کو مان لیں ؟بہر حال ہمیں فی الحال یہاں اس بات سے بحث نہیں ہے کہ دنیا حکومت کے جھوٹ پر کس قدر اعتبار کرتی ہے یا نہیں کرتی ہے ۔یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ کشمیر میں خواتین کس برے دور سے گزر رہی ہیں اور انہوں نے ان حالات کے لئے اپنے آپ کو کس سانچے میں ڈھالا ہے ۔بڑے بڑے صحافیوں اور کشمیر کے حالات پر نگاہ ٹکائے لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیر کے ہر چار سے پانچ افراد پر ایک فوجی مسلط ہے ۔یعنی پورا کشمیر فوجیوں کے نرغے میں ہے ۔ایسے حالات میں جہاں چپے چپے پر فوجی ہوں وہاں سب سے برا یہ ہوتا ہے کہ حقوق انسانی کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔کشمیر بھی پچھلے ساٹھ پینسٹھ برسوں حقوق انسانی کے حوالے سے انتہائی بری جگہ ہے۔جہاں عید کے دن بھی سلامتی دستوں کے اسلحے سے آگ برستی ہو وہاں خواتین کی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔عید الاضحی والے دن بھی کشمیر میں سلامتی دستوں نے دو نوجوانوں کو موت کی نیند سلادیا ۔ان نوجوانوں کا گناہ یہ تھا کہ انہوں نے ہنڈو اڑہ میں سلامتی دستوں کی وحشت و درندگی کا نشانہ بننے والی ایک خاتون کے حق میں فوجیوں کی وحشت اور ہوسناکی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا تھا ۔فلسطین اور کشمیر کے معاملات میں زیادہ فرق نہیں ہے دونوں ہی جگہ کے عوام استبدادی قوتوں کے استحصال کا شکار ہیں ۔
کشمیر میں سلامتی دستوں کی درندگی کا شکار بننے والی خاتون کا معاملہ پہلا نہیں ہے اور نہ ہی اسے اس وقت تک کے لئے آخری مانا جاسکتا ہے جب تک کہ وہاں ننگ انسانیت قانون افسپا نافذ ہے ۔اس بدنام زمانہ قانون کی وجہ سے فوجی دستے کسی بھی طرح کی قانونی پکڑ سے آزاد ہیں اور وہ اس کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنسی جرائم ،اغوا اور معصوم افراد کی گرفتاری کو انجام دیتے ہیں ۔یہاں اکثر خواتین اور نوخیز لڑکیوں کی لاشیں پائی جاتی ہیں جنہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا جاتا ہے ۔اس تعلق سے عوام کی رائے ہے کہ یہ سب کچھ ہندوستانی دستے انجام دیتے ہیں ۔ایسی حرکتوں کے پس پشت شاید ان کا مقصد تحریکوں میں شامل افراد کے خلاف مہم کا حصہ ہو کہ اس طرح انہیں تحریک سے باز رکھا جائے ۔اکثر اس طرح کی لاشیں ملنے پر کشمیری عوام احتجاج کے لئے سڑکوں اور گلیوں میں نکل آتے ہیں اور نتیجہ میں تشدد اور ہلاکت کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔تازہ تشدد کی وارداتوں کا سلسلہ بھی ایسے ہی واقعات کے بعد شروع ہوا ۔کسی بھی خطہ میں جہاں شورش پھوٹ پڑے وہاں درندہ صفت لوگوں کا عام شکار اور آسانی سے گرفت میں آنے والے بچے اور خواتیں ہی ہوتی ہیں ۔ایسا ہی کشمیر میں بھی ہو رہا ہے ۔کوئی ایک واقعہ ہو یا اتفاقی کوئی حادثہ ہو تو شاید عوام خون کے گھونٹ پی کر اس پر صبر کرلیں لیکن جب خواتین پر تشدد کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہو جائے تو پھر عوامی غصہ کو قابو کرنا آسان نہیں ہے ۔بھارتی حکومت اس مسئلہ کو فوجی قوت کے ذریعہ حل کرنا چاہتی ہے ۔ایسے خیالات یا نظریے تاریخ عالم سے منھ موڑنے جیسا ہے ۔دنیا میں کبھی بھی کسی مسئلہ کوفوجی قوت سے نہیں دبایا جاسکا ہے اور اگر کہیں فوری فائدہ کے لئے ایسا کیا گیا تو وہ خطہ لمبے عرصے تک خاک و خون میں ڈوب جاتا ہے ۔افسوسناک امر ہے کہ دو ماہ سے زائد عرصے سے کشمیر تشدد میں سو سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں ۔اس پر ٹوئٹر پر موجودہ حکومت کے نظریاتی دوست افراد کے ٹوئٹر پر اگر نظر ڈالیں تو مسئلہ سمجھ میں آجائے گا اور یہ بھی سمجھنے میں دقت نہیں ہو گی کہ موجودہ حکومت میں کیسی ذہنیت کے لوگ شامل ہیں ۔ایک ٹوئٹر پر جس کو غالبا دو ماہ ہو چکے ہیں کشمیر کے قتل عام پر ایک پیغام تھا ’’آج کا اسکور بیس سے کراس کر گیا ہے ‘‘ ۔ آگے کی بات میں جان بوجھ کر حذف کر رہاہوں ۔قارئین اتنا ہی پڑھ کر اندازہ لگاسکتے ہیں ۔آخر کشمیر کا تشدد کنٹرول میں کیوں نہیں آرہا ہے ۔جو لوگ انسانوں کی موت پر کرکٹ کی طرح کمنٹری کررہے ہوں ان سے امن کی امید دیوانے کا خواب ہے۔

0 comments:

شاہد انصاری کے لئے اکیاون ہزار کے انعام کا اعلان کرنے والے خود روپوش


جیسا کہ پچھلی بار ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ شاہد انصاری کی رپورٹ پر تھوڑی تفصیل سے روشنی ڈالیں گے ۔ ہماری کوشش ہو گی کہ اس بار ہم آپ کے سامنے پوری سچائی لانے کی کوشش کریں ۔شاہد انصاری ایک نوجوان صحافی ہے جو الیکٹرانک اور پرنٹ دونوں میں ہی یکساں معروف ہے ۔ یہی سبب ہے کہ جب ہمارے یہاں کے مذہبی مافیا نے اس نوجوان صحافی کی حوصلہ شکنی کے لئے اس پر شکنجہ کسنے کی کوشش کی تو اس کی مدد کے لئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے صحافی اس کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے اور یوں ہماری مذہبی مافیا کو اس بار منھ کی کھانی پڑی۔اردو اخباروں میں یہ اعزاز صرف سیرت کو حاصل ہے کہ اس نے شاہد انصاری کا ساتھ دیا جبکہ دو اردو اخبارات نے چاپلوسی اور تلوے چاٹنے کو اہمیت دے کر اردو صحافت کا نام بدنام کیا ۔ مذہبی مافیا معین الدین اجمیری کے معاملے میں اپنی جزوی کامیابی پر شاید ضرورت سے زیادہ پرجوش تھا اور اسی جوش نے اس بار اس سے پھر پے در پے ایسی حرکتیں کروائیں کہ وہ خود دام میں آگیا اور اب انشاء اللہ تعالیٰ وہ اپنے انجام کو پہنچے گا ۔انجمن اسلام کی جگہ پر قبضہ کئے جانے کا معاملہ کوئی آج کا نہیں ہے یہ کافی پرانا ہے لیکن مذہبی مافیا سیاسی سرپرستی کے سبب اس پر قبضہ جمائے بیٹھا تھا اور انجمن کے ذمہ داران کی بھی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھا سکیں یا عدالت کا ہی دروازہ کھٹکھٹا سکیں ۔ایک اردو صحافی نے بتایا کہ آف دی ریکارڈ ڈاکٹر ظہیر قاضی نے ان مذہبی مافیا کی شکایت کرتے ہوئے ان سچائیوں پر سے بہت پہلے پردہ ہٹایا تھالیکن اس مخصوص مافیا کے خوف سے وہ کچھ بھی آن ریکارڈ بولنے کے لئے راضی نہیں تھے ۔اصل میں سیاسی سرپرستی کی وجہ سے یہ مذہبی مافیا اتنا آزاد اور سرپھرا ہو گیا تھا کہ اس کی دہشت معاشرے پر کسی انڈر ورلڈ مافیا سے کم نہیں تھی ۔مذہب کے لباس میں ان کی غنڈہ گردی کا عالم کیا ہے اس کا اندازہ آپ اسی سے لگا سکتے ہیں کہ انجمن اسلام جیسا مضبوط اور منظم ادارہ بھی اس کے خلاف آواز اٹھانے یا عدالت جانے سے گھبراتا تھا ۔لیکن اللہ تعالیٰ دنیا کے حالات بدلتے رہتے ہیں اس کا کہنا ہے کہ ’’اگر دنیا میں ایک کو دوسرے سے ٹھکانے نہ لگاتے رہیں تو یہ دنیا فساد سے بھر جائے ‘‘۔جب اس مذہبی مافیا کا فساد بھی حد سے آگے بڑھنے لگا تو اللہ نے مہاراشٹر میں حکومت کو ہی بدل دیا اور یوں ان کے خلاف کارروائی ممکن نظر آتی ہے ۔لیکن پولس کا محکمہ اتنا بگڑ چکا ہے وہ جلدی نئے اثرات قبول نہیں کرتا لہٰذا پرانے سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر شاہد انصاری کے خلاف تین مختلف جگہوں پر ایف آئی آر درج کرایا گیا۔یہاں ہمیں پھر ایک بار پولس محکمہ میں سدھار کی ضرورت کا احساس شدت سے ہو رہا ہے ۔قریب تھا کہ پولس شاہد انصاری کے ساتھ بھی وہی کچھ کرتی جو کہ معین الدین اجمیری ایڈیٹر پرنٹر پبلشر اور مالک ہفتہ روزہ سیرت کے ساتھ کرچکی تھی یعنی انہیں انڈر گراؤنڈ ہونا پڑا تھا ۔لیکن صحافتی برادری کے اتحاد نے پولس کو گھٹنوں بیٹھنے پر مجبور کیا اور اسے صحافیوں کے تلخ سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔پھر صحافیوں نے وزیر اعلیٰ دیوندر فڑنویس سے ملاقات کرکے بھی شاہد کے خلاف ایف آئی آر کی حقیقت بتائی ۔معلوم ہوا کہ ایک پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے ڈا ئریکٹر جنرل پولس سے سوال کیا کہ شاہد انصاری کے خلاف دوسرے تھانوں میں کب ایف آئی آر درج ہو رہا ہے ۔اس سوال کے پیچھے چھپا ایک سخت طنز تھا کہ آیا شاہد کے خلاف اول تو ایف آئی آر کاجواز کیا تھا اور وہ بھی تین جگہوں سے جسے شاید ڈائریکٹر جنرل سمجھ گئے اور انہوں نے کہا کہ چاہے سو ایف آئی آر درج ہو لیکن بغیر تفتیش کے کارروائی نہیں ہو گی ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایسا ہر معاملہ میں ہوتا ۔لیکن ایسا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک پولس کا محکمہ سیاسی اثرات سے آزاد نہیں ہوتا ۔
اوپر ہم نے جا بجا مذہبی مافیا کا لفظ استعمال کیا ہے اور آئندہ بھی اس طرح کے معاشرے اور قوم کے کلنک کا تذکرہ ہو گا تو ان کے لئے یہی لفظ استعمال ہو گا ۔جن کے بارے میں ہم نے مذہبی مافیا لکھا ہے ۔انہیں سیرت بہت پہلے سے ایک اور لفظ سے مخاطب کرتا رہا ہے اور وہ ہے نابالغ پیر ۔لیکن ایسے لوگوں کے لئے مذہبی مافیا کا لفظ ہی زیادہ مناسب ہے ۔سفید کپڑوں میں ملبوس قوم کی یہ کالی بھیڑیں قوم کے اجتماعی مفاد میں تو کبھی متحد نہیں ہو تیں لیکن سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر یہ لوگ ضرور حرکت میں آتے ہیں ۔اپنی انہی خدمات جلیلہ کے سبب انہیں راجیہ سبھا کی کرسی تک بھی پہنچنے کا موقعہ ملنے والا تھا کہ اسی دوران آزاد میدان سانحہ رونما ہو گیا اور یوں ان کی حسرت ناکام ان کی زندگی کا حصہ بن کر رہ گئی۔انہوں نے ہفتہ روزہ سیرت کی حق گوئی کا گلاگھونٹنے کی کوشش کی ۔جیسا کے اوپر ذکر ہوا کہ سیرت کے مدیر مالک ایڈیٹر پرنٹر پبلشر پر بھی ایک رپورٹ کی اشاعت کے خلاف ان کے مریدین نے تین مختلف جگہوں پر ایف آئی آر درج کروا کر پولس پر گرفتاری کے لئے دباؤ بھی ڈالا اور پولس سیاسی اثرات کی وجہ سے حرکت میں بھی آئی لیکن معین الدین اجمیری نے خود کو گرفتاری سے بچنے کے لئے انڈر گراؤنڈ کروا لیا ۔لیکن مدیر سیرت نے ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری لے لیا یوں وہ گرفتاری سے بچ گئے ۔اس دوران جب معین الدین اجمیری گرفتاری سے بچنے کے لئے زیر زمین تھے ناگپاڑہ سے نہال صغیر اور محمود انصاری کو فون آیا کہ معین اجمیری کا پتہ بتاؤ ۔ایسا وہ اس لئے کررہے تھے کیوں سفید لباس والے قوم کی یہ کالی بھیڑیں انہیں بتا رہی تھیں کہ معین الدین اجمیری سے یہ دو لوگ قریب ہیں ۔لیکن ان دونوں افراد کو خود بھی پتہ نہیں تھا کہ اجمیری کہاں ہیں ۔بہر حال اجمیری صاحب کو ضمانت مل گئی اور توہین شخصیت کے لئے ہر جانہ کا مقدمہ بھی ان کے منھ پر ماردیا گیا یوں ان ساری کاوشوں کے باوجود یہ سیرت یا اس کے مدیر کو زیر نہیں کرسکے ۔اہل بیت سے ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ اہل بیت اطہار اللہ پر کس قدر ایمان رکھتے کہ ان کا ایک پل کے لئے بھی اللہ سے ایمان متزلزل نہیں ہوتا تھا لیکن یہ جھوٹے لوگ اللہ پر کتنا ایمان رکھتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اللہ کے بجائے اپنے سیاسی آقاؤں پر ایمان رکھتے ہیں۔وہ اس طرح کہ ان کے چشم و ابرو کے اشاروں پر خود بھی حرکت کرتے ہیں اور اپنے مریدین کو بھی اس کی پیروی کے لئے کہتے ہیں ۔اپنے مخالفین یا یوں کہہ لیجئے اپنے ناقدین کی دشمنی میں اسقدر آگے جاتے ہیں کہ پولس سے جھوٹے وعدے کرکے اس سے وہ سب کچھ کروانے کی کوشش کرتے ہیں جو پولس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے ۔پولس بھی اس لئے یقین کرلیتی تھی کیوں کہ وہ ان کے سیاسی اثرات سے خائف رہتی تھی ۔اسے کیا معلوم یہ ڈھول جو بجتا ہے اس کے اندر کتنا کھوکھلا پن ہے ۔یہ کھوکھلا پن اب اور واضح ہو گیا ہے ۔
اب تو انجمن اسلام بھی نیند یا خوف کے دائرے سے باہر آگیا ہے اور وہ قانونی کارروائی کی شروعات کر چکا ہے ۔ایسے میں ہمارا مشورہ ہے کہ مذہب کو بدنام مت کیجئے ۔مذہبی چولا پہن کر آپ لوگوں نے جس قدر مسلمانوں کو بدنام کیا ہے اور نقصان پہنچایا ہے ۔اس کی تلافی اسی وقت ممکن ہے جب آپ اپنے کئے پر شرمندہ ہوں ۔آپ نے یا آپ کے مریدین نے جو طریقہ اپنایا وہ کسی اسلامی مذہبی گروہ کا کام نہیں ہو سکتا ۔کسی کو ڈرانے دھمکانے کے لئے پولس پر دباؤ ڈالنا کئی جگہوں سے ایف آئی آر کروانا ۔فون پر یا دوسرے ذرائع سے دھمکا نا کہ معافی مانگ لوگ ورنہ انجام ٹھیک نہیں ہوگا ۔یہ تو غنڈے بد معاشوں کا کام ہو تا ہے ۔پولس نے بھی آپ کی سیاسی قوت کا غلط اندازہ کرکے ایف آئی آر درج تو کرلی لیکن اسے بھی آپ کے کھوکھلے پن کا اندازہ ہو گیا ۔مذکورہ صحافہ پر ایف آئی آر کرنے کے بجائے اگر اس نے جھوٹی رپورٹ شائع کی تھی تو عدالت جانا چاہئے تھا ۔آپ کو ہرجانہ کا مقدمہ کرنا چاہئے تھا ماشا ء اللہ آپ کی خدمت میں تو بڑے بڑے وکلا ء حاضری دیا کرتے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ شیریں دلوی کے میٹر میں نہ تو آپ کے وہ وکل�آگے آئے اورنہ ہی آپ ۔بلکہ آپ تو اس روز موبائل بند کرکے ہی سو گئے اور ایک رپورٹر کے استفسار پر آپ نے بڑی ڈینگیں ماریں کہ ارے میاں میں نے تو موبائل بند کرلیں ورنہ آگ لگ جاتی ۔چلئے ممکن ہے کہ آپ کے پاس وہ قوت ہو جس کا آپ کو زعم ہے لیکن وہ نامی گرامی وکیل جس نے آ پ کی طرف سے توہین کا مقدمہ کیا تھا اور آپ کی زبردست پیروی بھی کی تھی اس کے ذریعہ سے ہی شیریں دلوی کے میٹر میں ایک پٹیشن ڈلوادیتے یا پولس نے مقدمات کئے ہیں اور جو ہائی کورٹ تک پہنچا ہے اس میں مداخلت کرکے شیریں دلوی کی گرفتاری کروادیتے ۔لیکن اپنا تعلق اہل بیت سے جوڑنے والے اہل بیت سے کتنا لگاؤ رکھتے ہیں یا حب رسول ﷺ کا دعویٰ ان کا کتنا سچا ہے اس کا اندازہ لگائیں کہ نہ وہ خود اور نہ ہی ان کا کوئی وکیل اس مقدمہ میں کبھی دکھا جو خالص توہین رسالت ﷺ کا مقدمہ ہے ۔ مطلب صاف ہے اس کی آڑ میں اپنی دنیا داری چل رہی ہے اور اگر کوئی آواز اٹھائے تو اس کو ٹھکانے لگانے کے لئے غنڈے مریدین کی ایک لمبی چوری جماعت موجود ہے ۔لیکن آخر کب تک ؟اب شاید ایسے فرضی اور نابالغ پیروں کا احتساب کا وقت آگیا ہے !ان کے مریدین نے تو انتہا کردی خود سے ہی ایک اشتہار بنا کر شاہد انصاری کو اشتہاری مجرم بنا ڈالا اور اکیاون ہزار کے انعام کا اعلان بھی کیا ۔اس پر بلیک میلر اور اکسٹارشنسٹ کا الزام بھی عائد کیا ۔لیکن جیسے ہی اس مرید کے خلاف سائبر سیل میں شکایت ہو ئی وہ اشتہار فیس بک پیج سے غائب ہو گیا ۔معین الدین اجمیری کے معاملہ میں بھی اسی مرید نے ان پر ایک لاکھ روپئے کا اعلان کیا تھا اور ان پر بھی وہی الزام لگایا تھا کہ وہ بلیک میلر اور اکسٹارشنسٹ ہیں ۔نہال صغیر سے بھی لوگوں نے کئی بار جب یہ کہا کہ معین الدین اجمیری ایسا ہے اور ویسا ہے تو نہال صغیر کے مطابق انہوں نے ایک دن کم از کم بیس لوگوں کو فون کیا یہ جاننے کے لئے کہ کیا معین الدین اجمیری نے کبھی انہیں بلیک میل کیا یا ان سے کسی قسم کی رقم کا مطالبہ کیا ۔ لیکن ایک شخص بھی ہاں کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔نہال صغیر کا کہنا ہے کہ ممبئی میں اردو کا صحافی ایک دوسرے کو جھولر کہتا ہے مطلب ناجائز کمائی کرنے والا ۔حد تو یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں جس کا دامن خود ہی داغدار ہے وہ دوسروں کے دامن کے داغوں کو خوردبین لگا لگا کر لوگوں کو دکھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ایک صحافی کو شکایت ہے کہ شاہد انصاری اسے صحافی تسلیم ہی نہیں کرتا بے چارے اس بات سے بہت ناراض تھے ۔اب انہیں کون بتائے کہ اگر شاہد انصاری انہیں صحافی ماننے سے انکاری ہے تو اس میں برائی کیا ہے ؟آخر اردو کے صحافیوں کی اوقات جب اس حد تک گر گئی ہو کہ ایک پانچ سو روپئے کی شراب کی بوتل پر کسی عام انسان کے خلاف خبرکو توہین اہل بیت میں بدل دیا جائے تو اس کے بعد بھی کوئی خود کو اردو کا صحافی کہلوانا چاہے تو اس کی سوچ پر افسوس کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔
شاہد انصاری کے معاملہ میں اردو اخبارات کا رول کافی مایوس کن رہا ۔ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ان دو اردو اخبارات نے شاہد انصاری کی سپاری لے لی ہو ۔وہ اسے جھوٹا ہی لکھتے رہے لیکن کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ذرا شاہد انصاری کے موقف کو بھی اخبارات میں جگہ دیتے ۔یہ بد ترین قسم کی صحافتی بد دیانتی تھی جسے اردو اخبارات نے انجام دیا ۔شکر ہے کہ دو کارپوریٹ اخبارات نے اس طرح کی بے سر پیر کی خبر جس میں خبر کم اور چاپلوسی اور تلوے چاٹنے والی بات زیادہ تھی کو قابل التفات نہیں گردانا۔اللہ تعالیٰ اردو کے ایسے بد دیانت صحافیوں کو توبہ کی توفیق عطا کرے ۔آمین۔



شاہد انصاری کا مختصر تعارف 


شاہد انصاری پچھلے نو سال سے الیکٹرانک میڈیا میں ہیں ۔وہ آئی ٹی این نیوز،لیمن نیوز،آر کے بی شو اور نیوز ایکسپریس کے لئے اپنی خدمات دے چکے ہیں ۔آجکل وہ اپنی نیوز ویب سائٹ بامبے لیک کے لئے کام کررہے ہیں ۔انہوں نے کئی بدعنوانی کے معاملات کو بے نقاب کیا ہے ۔چھگن بھجبل کے کولکاتا کنکشن کو بھی طشت ازبام کیا ۔شاہد جیسے نوجوان صحافی کے لئے ضرورت تھی کہ قوم کا ہر فرد اور مسلمانوں کی ترجمانی کا دم بھرنے والے اردو اخبارات اس کا ساتھ دیتے لیکن اس کے الٹ دو اردو اخبارات نے اس کے برعکس فریق مخالف کی حمایت میں خبریں شائع کیں ۔لیکن اللہ نے دشمن کا منھ کالا کیا ۔ادارہ ہفتہ روزہ سیرت شاہد انصاری کے ساتھ ہے اور اس کی ہر طرح سے مدد کرے گا ۔

0 comments:

خوف اور خود فریبی ۔۔!

عمر فراہی

25اگست 2016 کو ہندوستان میں ایک ایسا حادثہ نظر سے گذرا جو نہ تو کوئی دہشت گردانہ کارروائی تھی اور نہ ہی کسی ٹرین بس اور سیلاب میں سیکڑوں افراد کی ہلاکت کا سانحہ , لیکن جب ایک آرٹسٹ نے  اڈیشہ کے ایک غریب قبائلی مانجھی کو اپنے کاندھے پر اپنی بیوی کی لاش کو ڈھوتے ہوئے  ساتھ میں روتی ہوئی اس کی بارہ سال کی بچی کو اپنے تصور میں قید کیا تو اس نے  اس پورے حادثے کی یوں منظر کشی کی جیسے کہ مانجھی کے کاندھے پر اس کی بیوی کی لاش نہیں بلکہ پورے ہندوستانی جمہوریت کا بوجھ ہو - حقیقت میں یہ ایک سانحہ ہی تھا اور مصور اس تصویر سے جو پیغام دینا چاہتا تھا اسے پوری دنیا کے لوگوں نے دیکھا اور ان کے ذہنوں میں ہندوستان کی جو شبیہ قائم ہوئی ہوگی شاید اب دنیا اس تصویر کو بھی اسی طرح نہ بھلا پائے جیسے کہ گجرات فساد کے دوران اپنی جان بخشی کیلئے  ہاتھ جوڑتے ہوئے قطب الدین انصاری کی تصویر آج بھی ظلم اور درندگی کی علامت کے طورپر میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہے - خوف دہشت اور لاچاری انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے اور اس کی عزت نفس پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے زندگی کی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی تصویر صرف قطب الدین انصاری,روہت وومیلا اور مانجھی کی بےبسی  اور لاچاری میں ہی نہیں قوموں اور ملکوں کے ضمیر اور ان کے اقدامات سے  بھی جھلکتی ہے -  
انڈین ایکسپریس کے سابق ایڈیٹر اور بی جے پی کے لیڈر ارون شوری نے اپنی کتاب Self deceive یعنی" خود فریبی" میں ایسی ہی ایک تصویر پیش کی ہے - انہوں نے پنڈت جواہر لال نہرو سے لیکر منموہن سنگھ تک کے ذریعے چین کے تعلق سے اپنائی گئی حکومت ہند کی حکمت عملی پر 2008 کے بیجنگ اولمپک گیم کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ دنیا کی کسی حکومت نے جو کام نہیں کیا وہ ہماری منموہن حکومت نے کیا یعنی بیجنگ اولمپک گیم کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کیلئے دلی کے وجئے چوک پر بیس ہزار سیکورٹی فورس کے حصار میں اولمپک مشعل کی رسم نمائش کیلئے نہ صرف دو کلو میٹر تک راستے کو بند رکھا گیا بلکہ سرکاری آفس, میٹرو ٹرین اور پارلیمنٹ تک جانے کا راستہ بھی بند تھا - اس دوران احتجاج کر رہے تبتی رفیوجیوں کی بھی پولس نے دوڑا دوڑا کر پٹائی کی - آگے وہ لکھتے ہیں کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا اولمپک کھیل سے محبت کی وجہ سے کیا گیا ؟
نہیں یہ چین کے خوف کی وجہ سے تھا تاکہ  وہ ہم سے خوش رہے اور ہم اس کے عتاب کا شکار نہ ہوں -   
ارون شوری کے اس اقتباس کو پیش کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ پندرہ اگست 2016 کو جب ہم نے سوشل میڈیا پر مدارس میں پرچم کشائی کا شاندار منظر دیکھا تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوئےکہ پتہ نہیں یہ سوشل میڈیا کا کمال ہے یا پھر مدارس میں پرچم کشائی کا یہ اہتمام آزادی کے بعد سے ہی جوش و خروش سے منایا جاتا رہا ہے - اس کا جواب دس بیس سال پہلے مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ ہی دے سکتے ہیں - بہرحال اگر اس رسم سے وطن سے محبت کی علامت ظاہر ہوتی ہے تو محبت کوئی بری چیز نہیں لیکن ہر چیز میں اعتدال اور خلوص کے جذبے کا شامل ہونا بھی ضروری ہے - یہ بھی ضروری ہے کہ کیا ہم اس رسمی محبت اور وفاداری کا مفہوم بھی سمجھ رہے ہیں یا پھر یہ محض دکھاوا اور خوف زدگی کی علامت ہے جو اکثر مغلوب ذہنیت کے لوگوں کی طرف سے غالب قوموں کو خوش کرنے کیلئے ادا کی جاتی ہے - حالانکہ پرچم کشائی کی یہ رسم چند مدارس کے ذمہ داران اور علماء کے ساتھ بھی ادا کی جاسکتی تھی لیکن ہزاروں بچوں کو ایک صف میں کھڑا کرکے جو مظاہرہ کیا گیا ایسا لگتا تھا جیسے عید کی نماز کا منظر ہو اور کہیں نہ کہیں سے ان تقریبات سے بے چارگی صاف جھلک رہی تھی - بہت کم لوگوں نے تحریری شکل میں مدارس کی اس پرچم کشائی پر تبصرہ کیا ہے لیکن اکثر نے محسوس کیا کہ کہیں ارون شوری نے جس بات کی طرف اشارہ کیا ہے مدارس اسلامیہ کے لوگ بھی تو اسی خوفزدگی کی نفسیات میں مبتلا نہیں ہیں ؟ اگر نہیں تو کیا جن مدارس اور مکتب کے  بچوں کو جمع کرکے یہ تقریب منعقد کی جارہی ہے ان بچوں کو آزادی, ناانصافی اور پرچم کشائی کا مفہوم بھی بتایا جاتا ہے - کیا ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ پرچم کشائی کی رسم کہاں سے شروع ہوئی اور پرچم کا حقیقی مفہوم اور اسلامی نظریہ کیا ہے - ہو سکتا ہے کچھ مولوی حضرات جو داڑھی ٹوپی اور پائجامے وغیرہ کو لیکر اپنی بحث میں بہت ہی سنجیدہ نظر آتے ہیں اس پرچم کشائی کا بھی شرعی جواز ڈھونڈھ لیں کہ یہ وطن سے محبت کی علامت ہے - یہ جواب بھی بالکل معقول ہے اور ہمیں بھی اس محبت اور امن والی باتوں سے پوری طرح اتفاق ہے اور اسلام کا اصل نصب العین بھی یہی ہے کہ زمین سے پوری طرح فتنہ اور فساد اور فحاشی کا خاتمہ کیا جائے - دنیا میں انبیاء کرام اور ان کے ماننے والے جن کو مسلمان کہا جاتا ہے انہوں نے اسی مقصد کیلئے تحریک شروع کی تھی اور پھر ایک  جماعت کی تشکیل اور اس کے قائد کا انتخاب عمل میں آیا - اسی جماعت کی شناخت کیلئے اہل حق اور اہل باطل دونوں ہی نے اپنے اپنے پرچم تخلیق کئے - قرآن نے اسی جماعت کے تعلق سے اللہ والوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ
کنتم خیر امتٍ اخرجت الالناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر-
سوال یہ ہے کہ جس آزادی کا جشن ہم منا رہے ہیں اور جس پرچم کو سلام کیا جارہا ہے کیا ہم نے حقیقت میں اس تحریک اور پرچم کے ذریعے وہ مقصد حاصل کر لیا اور ہمارا وہ  کیا مقصد تھا جو ہم حاصل کرنا چاہتے تھے - اس کی حقیقی خوشی کا اندازہ تو وہی  لگا  سکتے ہیں جنھوں نے انگریزوں کے دور میں ان کی نا انصافی اور مظالم کو برداشت کیا ہے اور اب وہ اپنے آپ کو انگریزوں کے دور سے بہتر سمجھتے ہونگے لیکن کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ نہ صرف ہندوستان میں بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھی پسماندہ ذات کی اکثریت کل بھی مظلوم تھی اور آج بھی مظلوم ہے - ایوان سیاست یا مقدس سمجھی جانے والی جمہوری پارلیمنٹ میں کل بھی ان کی نمائندگی صفر تھی اور آج بھی صفر ہے - کیا  کوئی ہمارے اس سوال کا جواب دے سکتا ہے کہ اس لوک تنتر میں کتنے ایسے  غریب اور پسماندہ ذات کے لوگ ہیں جو   لوک سبھا کے الیکشن کے اخراجات کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں- اگر نہیں تو کیوں ؟ 
سچ تو یہ ہے کہ پندرہ اکست 1947 کا دن ہمارے ملک کے عوام کیلئے اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ اس ملک کو ترقی اور عروج کے جس مقام پر انگریزوں کو لیکر جانا چاہیے تھا یا ملک میں نظم و ضبط کی جو صورتحال تھی انگریز اسے قابو پانے میں ناکام رہے ہیں اور اس وقت ہمارے ملک میں جو خالص ہندوستانی قیادت  موجود تھی انہیں یہ احساس تھا کہ وہ انگریزوں کے برخلاف ملک کی بہتر قیادت کر سکیں گے - جنگ آزادی کی اس تحریک کے مجاہدین میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی تھے اور وہ اپنے مقصد میں اسی لئے کامیاب بھی ہوسکے کہ وہ ایماندار مخلص اور بےباک تھے - مگر اب ملک میں ایک بار پھر بدعنوان سیاستدانوں کی طرف سے خوف اور دہشت کا جو ماحول بنایا جاچکا ہے اب ایسا ممکن بھی نظر نہیں آتا کہ مستقبل میں ہندوستان کو کوئی نڈر اور بے باک قیادت میسر آ سکے- یا پھراللہ تعلیٰ کو ہی کچھ اور منظور ہو اور اسے اس ملک کے لوگوں پر رحم آجائے - یہاں پر ہم نے جان بوجھ کر مسلمانوں کی بجائے لوگوں کا استعمال کیا ہے کیونکہ قحط الرجال اور خوف و دہشت کی اس صورتحال سے صرف مسلم قیادت ہی دوچار نہیں ہے غیر مسلم لیڈر شپ میں بھی اس جرات اور نظریے کا فقدان ہے - فرق اتنا ہے کہ مسلمان اپنے ہی ملک کے سیاسی فاشزم سے خوفزدہ ہیں اور وہ اپنی بقا کیلئے وہی زبان بولنے کیلئے مجبور ہیں جو ہماری حکومتیں اور ایجنسیاں چاہتی ہیں اور ہمارے ملک کی سیاسی قیادت عالمی طاقتوں کے دباؤ میں ہے - خاص طور سے ہماری سرحد سے لگی ہوئی چین کی سرحد سے جو خطرات لاحق ہیں ہمارے ملک کی سیاسی قیادت اپنے بچاؤ کیلئے اپنے مہذب ہونے کا ڈرامہ کر رہی ہے - ارون شوری کے لفظوں میں اسی کا نام خود فریبی ہے -


0 comments:

جہنم کو بھر دیں گے صحافی ہمارے


اردو اخبارات کی دنیا میں ایک اخبار ہے جس کا نام سیرت ہے یہ اپنے نام کی طرح سچا اور کھرا ہے رپورٹ کے مطابق اس کو اس کے مشن سے ہٹانے کے لئے ہر طرح کے حربے اپنائے گئے لیکن اس نے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا چنانچہ اب لوگوں نے اس کی راہوں میں تقریبا آنے خود کو معذور ثابت کردیا ہے ۔ حالیہ دنوں میں ایک نوجوان صحافی شاہد انصاری کے خلاف ایک مذہبی ٹھیکیدار کے مریدوں کی جانب سے جب ناجائز طور پر اسے دبانے اور سچ لکھنے سے باز رکھنے کے لئے جگہ بجگہ سے ایف آئی آر درج کروائی گئی تو سیرت نے دیگر اردو اخبارات کے بر خلاف کھل کر شاہد انصاری کی حمایت کی زیر نظر رپورٹ اسے ثابت کرنے کے لئے کافی ہے 

سیرت کا مشن حقائق کو دنیا کے سامنے لانے کا ہے ۔الحمد اللہ سیرت نے اس سلسلے میں آج تک کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔سچ
 کو سچ لکھا اور اس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا بھی پڑا ۔لیکن جو لوگ سچائی کی راہوں کے مسافر ہو تے ہیں انہیں اللہ کے علاوہ کسی کا ڈر نہیں ہوتا ۔وہ زمانے کی پرواہ نہیں کرتے ۔ابھی جو کچھ شاہد انصاری کے ساتھ ہو رہا ہے وہی سب کچھ سیرت نے بھی جھیلا ہے ۔ تقریبا دو سال قبل ہفتہ روزہ سیرت کے مالک ،پرینٹر پبلشراور مدیرمعین الدین اجمیری پر دو ایسی خبریں جو ہندی اخباروں میں شائع ہو چکی تھیں محض سیرت میں اس کو شائع کرنے پر ہتک عزت اور توہین اہل بیت کا مقدمہ درج کیا گیا ۔معین الدین اجمیری پر تین مختلف جگہوں سے ایف آئی بھی آر درج ہوئے ۔ گرفتاری سے بچنے کے لئے زمین دوز ہونا پڑا لیکن بالآخر ہائی کورٹ سے انہیں ضمانت ملی جس کے بعد وہ منظر عام پر آئے اور کئی مہینوں یا تقریبا ایک سال کی جد و جہد کے بعد پھر سے سیرت اپنے اسی رنگ و ڈھنگ کے ساتھ قارئین کے سامنے اپنی آرا پیش کرنے میں قائدانہ رول ادا کررہا ہے ۔بلا شبہ سیرت نے ممبئی میں اردو اخبارات کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا اور آج بھی وہ ادا کررہا ہے اور اللہ کی مرضی ہوئی تو وہ انہی راہوں پر چلتا رہے گا ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سیرت کے بند ہونے کے بعد کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ فلاں صاحب کی کرامت ہے لیکن مسلسل جد و جہد اور اللہ کی بے پایاں رحمت نے اس کرامت کو بے اثر کردیا اور آج سیرت آپ کے سامنے سچائی پیش کرنے کے لئے اسی کھڑا ہے ۔
شاہد انصاری کا صرف ایک گنہہ ہے اور وہ ہے کہ اس نے مذہب کے نام پر دوکانداری کرنے والے ہمارے مذہبی مافیا کی چوری کو بے نقاب کرنے کی جسارت کی اور جسارت کسی ڈرگس مافیا یا غنڈوں کے یہاں تو قابل معافی ہو سکتا ہے لیکن مذہبی مافیا کے یہاں اس کے لئے کوئی معافی نہیں ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں ووٹوں کی اہمیت ہے اور یہ مذہبی مافیا سیاست دانوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہے کہ اس کے پاس کثیر تعداد میں ووٹوں کا ذخیرہ ہے ۔سیاست داں یہ سمجھتے ہیں کہ مذہبی مافیا قوم کے رہبر ہیں اور مسلم عوام ان کے ساتھ ہے جبکہ بے چارے پولس والے یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست داں ان کے مرید ہیں اور وہ بے چارے دباؤ اور خوف کی وجہ سے ان کی ذرا سی چھینک پر بھی ایف آئی آر درج کرلیتے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ ہمارے معاشرے کے ایک جاہل طبقہ میں مذہبی مافیا کافی مضبوط ہو گیا ہے ۔ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس مافیا کو مضبوط کرنے میں اہم کردار کس کا ہے ؟اس کے لئے جواب یہ ہے کہ اس مذہبی مافیا کو کھڑا کرنے اور اسے مضبوط کرنے اسے قوم پر مسلط کرنے کے لئے صرف اور صرف اردو کے وہ اخبارات ذمہ دار ہیں جو رات دن قوم کے غم میں گھلے جاتے ہیں ۔یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ قوم پرست مسلم اخبارات کارپوریٹ میڈیا کو گالیا ں دیتے ہیں جبکہ ان کارپوریٹ اخبار نے اردو صحافت کی لاج رکھ لی ورنہ اردو اخبارات نے دلالی کے علاوہ بھی کچھ کیا ہے ؟
سیرت کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کوئی اخبارات کیا شائع کرتا ہے اور کیا نہیں کرتا لیکن ہمیں بحیثیت صحافی ہمارا مشن یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں پوری ایمانداری سے حقائق کو عوام کے سامنے پیش کرنا چاہئے ۔شاہد انصاری کے معاملہ میں بھی اسی صحافتی دیانت داری کا خیال رکھا جانا چاہئے تھا کہ اگر ایک فریق نے کسی صحافی کے خلاف کسی خبر کو جھوٹی خبر قرار دے کر اس کے خلاف سیاسی دباؤ ڈلواکر ایف آئی آر درج کروادیا اور اس کو کسی اردو اخبارات کے نمائندہ نے خالص مریدین و متوسلین کی زبان میں لمبے چوڑے القاب کے ساتھ رپورٹ تیار کی تو کم از کم شاہد کا موقف بھی پوچھ لیا ہوتا نیز اس میں جس متنازعہ اراضی کا معاملہ ہے اس کے ذمہ دار وں کی بھی رائے لے لی ہوتی تو آج اردو اخبارات کو اس سبکی کا احساس نہیں ہوتا اور وہ دیگر میڈیا کے سامنے اپنا سر جھکا ہوا محسوس نہیں کرتے ۔اردو میڈیا جو اپنی ابتدائی دور سے ہی حق گوئی اور حق شناسی کے لئے مشہور ہے کو آج چند اردو اخبارات کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں سے جو نقصان پہنچا ہے وہ ناقابل تلافی ہے ۔یہ اردو صحافت کے اقدار کا زوال ہے۔اس وقت اتنا ہی کافی ہے ۔آئندہ ہفتہ آپ کی خدمت میں آپ کے مطالعہ کے لئے پیش کئے جائیں گے مسلمانوں میں مذہبی مافیا کے مکمل خد وخال،شاہد انصاری کے رپورٹ کی حقیقت ،زمینی خرد برد کا ذمہ دار کون؟تب تک انتظار کریں اور موجودہ اردو صحافت اور ان کے صحافیوں کے لئے مولانا حالی کی مسدس سے کچھ تبدیلی کے ساتھ چھ مصرعے پیش ہیں ۔اس کے لئے ہم اردو کے صحافیوں ادیبوں اور شاعروں کے معذرت خواہ ہیں ۔
جھوٹی رپورٹ لکھنے کی گر کچھ سزا ہے ۔ عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے 
تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے ۔ مقر جہاں نیک و بد کی سزا ہے 
گنہگار چھوٹ جائیں گے سارے ۔ جہنم کو بھر دیں گے یہ صحافی ہمارے 

0 comments:

جب جاگـے تبھی سویـرا

قاسم سید 

معمولی عقل رکھنے والا بھی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اترپردیش میں اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات 2019 کے لوک سبھا الیکشن کی زمین تیار کریں گے اور اس کے خدوخال کو نمایاں کریں گے، یہی وجہ ہے کہ تمام قابل ذکر سیاسی پارٹیاں حکمت عملی ترتیب دینے میں مصروف ہیں، اہداف طے کررہی ہیں، ایجنڈے کو آخری شکل دے رہی ہیں اور ماحول میں اتار چڑھائو پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جو زندہ، باشعور، متحرک، فعال ہیں اور دوررس نتائج کو فوقیت دیتے ہیں، ان کی سیاسی بساط تو پہلے ہی بچھ چکی ہے، ان کے مہرے، وزیر، بادشاہ سب تیار ہیں یا اپنے ہتھیاروں کو صیقل کررہے ہیں، جبکہ امداد، عنایات، خیرات، مراعات، فیوض و برکات پر گزربسر کرنے والے ابھی بہت وقت ہے سمجھ کر سورہے ہیں یا سونے کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سونے والے کو جگایا جاسکتا ہے، مگر جو سونے کا ڈھونگ کررہا ہو اسے بیدار کرنا مشکل ہے۔ اسی طرح مقدر کا رونا رونے والوں اور ہر مسئلہ کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینے والوں کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔
ملک کے اقتدار پر قابض پارٹی نے اترپردیش کے لئے اپنا ایجنڈہ طے کرلیا ہے اور شاید اسی کے اردگرد انتخابی مہم گھومے گی، اگر کوئی غیرمعمولی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ دلتوں کی بیداری کی ٹائمنگ نے ضرور اس کے ماتھے کی سلوٹوں میں اضافہ کردیا ہے۔ ہندوتو کے پرجوش اور بے قابو علم بردار جو کبھی اس کے ہراول دستے تھے وہی ممکنہ فاتحانہ پیش قدمی کی راہ کا سب سے بڑا روڑہ بن سکتے ہیں۔ وزیراعظم کی تنبیہ اور اپنی جان دینے کی جذباتی پیشکش کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ یہ سمجھنا بڑا مشکل ہے کہ کس کی کمان کس کے ہاتھ میں ہے اور کون کس کو زیر کرنا چاہتا ہے۔ آر ایس ایس حکومت پر حاوی ہے یا حکومت آر ایس ایس کو زیرمنقار لانا چاہتی ہے یا دونوں مل کر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں، اس لئے کہ وزیراعظم نے گئورکشکوں کی 80 فیصد تعداد کو غنڈوں اور سماج دشمن عناصر تو کہہ دیا، مگر ان کے خلاف عملی اقدامات یا کریک ڈائون کا معمولی سا واقعہ بھی سامنے نہیں آیا۔ ہاں دلتوں اور مسلمانوں کی بے رحمانہ پٹائی کے واقعات ضرور سامنے آرہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گئورکشک اترپردیش الیکشن تک آزاد ہی رہیں گے۔ یوپی سرکار نے بھی نرم رویہ اپناکر سافٹ ہندوتو کے راستے کو اپنالیا ہے، اس نے داعش کا مقابلہ کرنے کے لئے ریاست کے مختلف مقامات پر جاری ٹریننگ کیمپوں کے خلاف کارروائی نہ کرکے صاف عندیہ دیا ہے کہ بی جے پی اور سماجوادی پارٹی کی سوچ میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے۔ مظفرنگر فساد کے زخم ابھی ہرے ہیں اور اخلاق احمد کا قتل انصاف مانگ رہا ہے۔ سماجوادی پارٹی نے فرقہ پرست عناصر کے خلاف ساڑھے چار سال کے عرصہ میں کوئی بھی سخت کارروائی نہ کرکے ان کے دل میں نرم گوشہ بنانے کی کوشش کی ہے اور ہمارے دل مسل دیے ہیں، کیونکہ 8 فیصد یادو، 20 فیصد مسلمانوں کو اپنا غلام سمجھتا ہے۔ نہ سماجوادی پارٹی کے گونگےبہرے مسلم ممبران اسمبلی کی ہمت ہے اور نہ ہی پارٹی کے دیگر مسلم لیڈروں میں اتنی جرأت ہے کہ وہ پارٹی قیادت سے ساڑھے چار سال کا حساب مانگیں اور صرف اتنا دریافت کرلیں کہ حضور بے گناہ مسلم نوجوانوں کی رہائی اور 18 فیصد ریزرویشن کا ایفا ہوا؟ جس کی بنیاد پر مسلمانوں نے جھولی بھرکر ووٹ دیا تھا، ان کے لعل تو آج بھی سلاخوں کے پیچھے زندگی کی سانسیں گن رہے ہیں اور کہیں روزگار کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ یہ سوال تو ان لوگوں سے بھی کرنا چاہیے جنھوں نے سماجوادی پارٹی کو این او سی دے کر ریاست بالخصوص مسلمانوں کے لئے باعث خیر و برکت بتایا تھا اور ساڑھے چار سال سے اس کے حق میں بیٹنگ کررہے ہیں اور سرکاری مراعات کا بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔ کچھ وفاداروں، تابع داروں اور رات کو دن کہنے والوں کو درجہ حاصل وزیر بنادینا یا قانون ساز اداروں میں نمائندگی دینے سے بنیادی مسائل حل ہوجاتے ہیں تو پھر بسم اللہ کہیں، اور دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اسی معاہدہ وفاداری کی پانچ سال کے لئے تجدید ہوجائے۔
دوسری طرف ہر حالت میں اترپردیش پر قبضہ کرنے کی ضد میں بی جے پی نے وکاس کےساتھ جارح قوم پرستی کے ساتھ انتخابی مہم چھیڑدی ہے۔ یہ قوم پرستی یا راشٹرواد کی جتنی تعبیریں اور تشریحات ہیں ان میں مسلمان مرکزی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اب معاملہ صرف لوجہاد، گھرواپسی، گئورکشا تک نہیں رہ گیا ہے، ہندو آبادی میں کمی اسے بڑھانے کی تحریک ورنہ مسلمان اکثریت میں آجائیں گے، یوپی میں ہار کا مطلب پاکستان کی جیت اور گئوماتا نہ کہنے والوں کو بھارت میں رہنے کا کوئی ادھیکار نہیں جیسے جذباتی اور پاگل پن کے اظہار والے ایشو کا نشانہ مسلمان ہی ہیں۔ اترپردیش جیسے پیچیدہ اور مشکل سوال کو ہندوتو کے قلم سے حل کرنے کا فارمولہ کہاں تک کامیاب ہوگا یہ دیکھنے کی بات ہے۔ کیا بہار کا تجربہ کامیاب ہوگا یا ذات پات کے ساتھ فرقہ پرستی کے جغرافیہ پر بی جے پی قابو پالے گی؟ کہنا بہت مشکل ہے، لیکن اس نے سارے گھوڑے کھول دیے ہیں۔ ریاست کی زمین پر ایک اور مظفرنگر کے بیج بڑی مہارت و فنکاری سے بوئے جارہے ہیں اور ریاستی حکومت کی خاموش رضامندی شامل نظر آتی ہے۔ خدا کرے کہ یہ احساس بے بنیاد ہو اور مفروضہ ثابت ہو، لیکن ایسا ہوگیا تو یہ ریاست کی 20فیصد آبادی ہی نہیں پورے انتخابی منظرنامہ کو متاثر کردے گا۔ راشٹرواد خوف و نفرت کا دودھ پی کر پرورش پاتا ہے، اس میں اکثریت کے اندر رعونت و فرعونیت اور بالادستی کا گھمنڈ پیدا کرنے کے ساتھ ایک دشمن کی تخلیق کی جاتی ہے، اس سے خوف دلایا جاتا ہے اور دل میں نفرت کا زہر گھولا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے پارٹی کو حال ہی میں مشورہ دیا کہ ہم راشٹرواد کی بنیاد پر اقتدار میں آئے ہیں اور اسے کسی بھی حال میں چھوڑنا نہیں ہے۔ راشٹرواد کے جو مظاہر دادری سے اونا اور کشمیر کے حوالہ سے سامنے آرہے ہیں اس نے ایک بات تو واضح کردی ہے کہ آپ کو ان کی شرائط پر جینے کے لئے تیار رہنا ہوگا ورنہ زنجیریں آپ کا انتظار کررہی ہیں۔ اختلاف کا مطلب مخالفت اور مخالفت کا مطلب دیش دروہ، اس کے آگے کچھ جاننے سوچنے سمجھنے کی ضرورت نہیں، کشمیر کے حالات پر ہماری صفوں میں پائی جانے والی پراسرار اور خوف زدہ خاموشی کا مطلب بہت صاف ہے۔ جب حکومت کی پالیسیوں کو دیش بھکتی سے جوڑ دیا جائے تو اقلیتوں اور سول سوسائٹی کو کیا مشکلات آسکتی ہیں، بتانے کی ضرورت نہیں۔ اور یہ بھی طے ہے کہ اترپردیش میں بی جے پی کی جیت کا مطلب یہ ہے کہ اسے 2019میں لوک سبھا الیکشن کی تاریخ دہرانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اپوزیشن میں انتشار اور مضبوط قیادت کا فقدان بی جے پی سرکار کے لئے سنجیونی ثابت ہورہا ہے ورنہ اس کی ناکامیاں زمیں دوز کرنے کے لئے کافی تھیں۔ آگے بھی اپوزیشن میں اتحاد یا مفاہمت کے بظاہر آثار نہیں ہیں، کم از کم اترپردیش میں جو تصویر ابھررہی ہے وہ خوش کن نہیں کہی جاسکتی۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہونا چاہئے؟ کیا ایک بار پھر سیکولرازم کی جوتیاں سیدھی کرنے کا فریضہ ادا کریں اور سیکولر پارٹیوں سے یہ سوال نہ کریں کہ اگر واقعی آپ بی جے پی کو سیکولرازم کے لئے خطرہ سمجھتی ہیں تو مفاہمت یا مشارکت کیوں نہیں کرتیں؟ کیوں پارٹی مفادات ہی حرف آخر ہیں؟ ہم اس منافقانہ کھیل کا حصہ کیوں بنیں؟ کیوں ان کی نازبرداری کریں اور کیوں صرف ہرانے کے لئے ووٹنگ کریں جتانے کے لئے نہیں؟ ہم کیوں اپنا فیصلہ خود نہ کریں اور ان کو ہی اپنا ملجا ماویٰ اور پالن ہار سمجھیں؟ کیوں اپنی شرطوں پر سیاست نہ کریں؟ جب سیکولر پارٹیاں ایک ساتھ نہیں آسکتیں تو ان کو منافقت کی سزا کیوں نہ دی جائے؟ بی جے پی کو ہراتے ہراتے اسے مرکز میں پہنچادیا گیا، اس سے آگے کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بی جے پی کو ہرائے اسے ووٹ دو کی پالیسی ناکام ہوگئی، ہماری قیادت سیاست سے توبہ کرتی ہے، البتہ الیکشن کے وقت کسی نہ کسی کے حق میں فیصلہ ضرور صادر کرتی ہے مگر چلمن کی اوٹ سے، کیوں صاف صاف نہیں کہا جاتا کہ آپ صرف فلاں پارٹی کو ووٹ دیں۔سب کو خوش کرنے اور رکھنے کی پالیسی نے ان کا بھلا کردیا ہو مگر مسلمان کو کوڑے دان میں پہنچادیا۔ ٹیکٹیکل ووٹنگ کی پیلٹ گن نے ہمارے جسم کو چھلنی کردیا ہے اور یہ سب ٹھیکیدارانہ اور ٹنڈرزدہ سیاست کے سبب ہوا ہے۔ مٹھی بھر لوگ بالائی سطح پر گفتگو کرکے بھیڑوں کا ریوڑ پانچ سال کے لئے حوالہ کردیتے ہیں۔ اب ایسی سیاست کا مزید متحمل نہیں ہوا جاسکتا۔ ارباب بست و کشاد کو اپنے انداز بدلنے ہوں گے۔ اترپردیش واضح جرأت مندانہ حکمت عملی چاہتا ہے کہ ہم لینے کے ساتھ دینے والے بھی کہلائیں، صرف مانگنے والے نظر نہ آئیں، مانگنے والوں کو بھیک ملتی ہے اور دینے والوں کو حق، اس کا طریقہ کیا ہو، وہ کیا راستہ ہو کہ مسلمانوں کی سیاسی عظمت رفتہ کی بحالی کا آغاز اسی سرزمین سے ہو، اس پر سر جوڑکر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ مسلم رہنمائوں کی چوٹی میٹنگ طلب کی جائے، کوئی راہ نکالی جائے، ورنہ انتشار کی موجودہ صورت حال ایسے چوہوں میں تبدیل کردے گی جن پر صرف تجربے کئے جاتے ہیں۔

0 comments: