ڈھاکہ بم دھماکہ : مغربی میڈیا کی نئی اصطلاح مسلکی یا سیاسی دہشت گردی؟

7:59 PM nehal sagheer 0 Comments


نور محمد خان ممبئی


9/11 کے بعد یورپ اور امریکہ میں دین اسلام کو لوگ نئے ڈھنگ سے سمجھنا چاہتے تھے wtc پر ہویے حملے کو مغربی میڈیا کچھ اس انداز سے پیش کررہا تھا کہ قیام امن میں اسلام سب سے بڑی رکاوٹ ہے یعنی اسلام فساد فی الارض کی تعلیم دیتا ہے چودہ سو سال سے دنیا جس دین سے واقف تھی اسی دین کو جب دہشت گردی سے منسوب کیا تو لوگوں کے اندر اسلام کو پڑھنے اور سمجھنے کا اشتیاق پیدا ہوا جو کہ جنون میں تبدیل ہوگیا نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے جب اعلانیہ تبلیغ شروع کیا اور حج کا مہینہ آگیا تومشرکین مکہ نے ایک خفیہ میٹنگ کرتجویز پاس کیا کہ اہل قریش حاجیوں کے کیمپ میں جاکر نبی کریم کے بارے میں بتائیں کہ لوگ نئے دین سے بچ جائیں مشرکین کے مطابق تجویز مناسب تھی مگر ہوا الٹا جو رسول کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا وہ بھی جاننے کی کوشش کرنے لگا یہاں تک کہ حاجیوں کے کیمپ میں نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کے پہنچنے سے پہلے ہی آپ کا پیغام پہنچ گیا کچھ اس طرح کا معاملہ ذاکر نائیک کے ساتھ بھی ہوا ہے کہ جو نہیں جانتا تھا وہ بھی جاننے کی کوشش کرنے لگا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک دین اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں یا دہشت گردی کی تربیت دیتے ہیں ۔ مشرکین مکہ بھی رسول اللہ کے تبلیغ کے خلاف سازش تیار کررہے تھے رسول اکرم کے بعد خلفائے راشدین، محدثین و علماؤں کے ذریعے ہم تک دین پہنچا ہر دور میں لوگوں نے اسلام کو پڑھنا اور سمجھنا چاہا اور جسے سمجھ میں آیا اس نے اسلام قبول کر لیا اسی طرح یعنی کہ لوگوں کو ایک مرتبہ اور دین سمجھنے کا موقع ملے گا اور یہ موقع اہل مغرب نے فراہم کرادیا جو فکری طور پر اسلام دشمن ہیں تاتاریوں کے قدیم قصے  سن رکھے ہیں اسلام کے قلعے کو قمع کرنے کے عزم سے سرشار تاتاری جب دین کی محافظت کے لئے اٹھے تو دنیا سکتہ میں چلی گئی دراصل دنیا میں ایک طرح سے بے چینی پائی جاتی ہے کہ سارا نظام سارے فلسفے ساری ترکیبیں بے سود ثابت ہو رہی ہیں سارے ازم فیل ہو رہے ہیں سیکولر لبرل ڈیموکریسی سسٹم بھی فیل ہے ایسے میں لوگ فطرت کی طرف رجوع ہونا چاہتے ہیں پر صہیونی طاقتیں لوگوں کو فطرت سے بدظن رکھنا چاہتی ہیں اور فطرت کی ایسی تصویر پیش کررہی ہیں ۔ نفرت آمیز نگاہوں سے مغربی میڈیا عوام الناس کو یہ باور کرا چکی ہے کہ اسلام کے ہوتے ہوئے دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا مغرب کے قے کیے ہوئے جملے کو ہمارا میڈیا چبا چبا کر اپنا ہاضمہ خراب کر لیتا ہے انہیں تو یہ جاننا چاہئے کہ اسلام مخالف طاقتیں یعنی اہل مغرب اہل کتاب ہیں اور یہ بے کتاب ہیں ان کی دشمنی چودہ سو سال پرانی ہے پر آپ کیوں دشمن ہیں اور دشمنی کی وجہ کیا ہے؟ 
9/11 سے پہلے دنیا دہشت گردی سے واقف نہیں تھی wtc حملے کے بعد دہشت کی فصل پوری دنیا میں لہلانے لگی ہر کوئی اپنے طریقے سے دہشت کی اصطلاح کرنے لگا حکومتیں میڈیا اور پولیس ایک نہج پر کام کرنے لگیں یعنی کہیں بھی بم دھماکہ ہوگا ایک لمحہ بغیر ضائع کئے کسی مسلم تنظیم کا نام شائع کر دیا جائے اس نام کا اعلان خواہ میڈیائی سطح پر کیا گیا ہو یا سرکاری طور پر جانچ ایجنسیوں کی کارروائی شروع ہوجاتی ہے مثلا مالیگاؤں بلاسٹ کیس میں ATS قریب دس مسلمانوں کو نامزد کرتی ہے سی بی آئی ATS کے اقدام کو جائز قرار دیتی ہے لیکن NIA دونوں جانچ ایجنسیوں کی تحقیق کو خارج کر دیتی ہے جس کی وجہ سے حال ہی میں تمام ملزمین باعزت بری ہوچکے ہیں ۔

اب تک کے تمام دہشت گردانہ حملوں میں صرف اور صرف مسلمانوں کو ہی نامزد کیا گیا ہے اوراب تک تمام عدالتی فیصلے میں مسلمان باعزت بری ہوئے ہیں باوجود اس کے دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے مسلمانوں کو ہی قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے اس بار تو حد ہوگئی بم دھماکہ ہوتا ہے بنگلہ دیش میں اور تلاش ہوتی ہے بھارت میں بتایا یہ جارہا ہے کہ بھارت کے اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ایک دہشت گرد فالو کرتا تھا یہ خبر عام ہوتے ہی نایک صاحب موضوع بحث بن گئے سوشل میڈیا پر کسی کو فالو یا لایک کرنا اور باضابطہ کسی سے ملاقات کرنے میں بہت فرق ہے تو کیا اس فرق کو میڈیا نہیں جانتا تھا یا جاننا نہیں چاہتا تھا؟ مہاراشٹر اے ٹی ایس متوفی چیف ہیمنت کرکرے کے مطابق کرنل پروہت اینڈ کمپنی نے مالیگاؤں، مکہ مسجد اجمیر سمجھوتہ ایکسپریس ناندیڑ وغیرہ میں بلاسٹ کیے تمام حملوں میں ملوث تھے تو کیا میڈیا اس بات سے واقف نہیں ہے؟ مغرب کا یہ مفروضہ کہ مسلمان دہشت گرد نہیں لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ہیں اسی نظریہ کے تحت مسلمانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے ۔ 
اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ایک دہشت گرد فالو کرتا ہے تو اس کی زد میں ڈاکٹر صاحب آجاتے ہیں تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس جس ملکوں میں تبلیغ کی ہے وہاں کی حکومت نے ویزا دیا ظاہر سی بات ہے اس ملک کا وزیراعظم بھی جانچ کی زد میں آجانا ہے تو کیا ہماری جانچ ایجنسیاں اس ضمن بھی تحقیقات کرینگی؟ اگر ہاں تو ٹھیک ہے اگر نہیں تو انصاف کا دوہرا معیار کیوں ہے؟ قابل ذکر یہ بھی ہے کہ ذاکر نائیک پر جانچ ایجنسیاں دہشت گردی کی پاداش میں انگلیاں اٹھاتی ہیں تو مسلمانوں میں کہیں خوشی کہیں غم کا ماحول پیدا ہو گیا کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے ایک دو مرتبہ غلطی کی تھی تب رضا اکیڈمی نے احتجاج کیا اور ناراضگی کا اظہار کیا جس کو دیکھتے ہوئے معافی بھی مانگی تھی لیکن آج اس نازک موقع پر مسلمانوں کو خوشی منانا زیبا نہیں دیتا ہے کیونکہ کہ اللہ تبارک و تعالٰی کا فرمان ہے کہ جس نے اللہ رسول اور قرآن پر ایمان لایا اس کا محافظ میں ہوں نیکی کریگا تو جزا دونگا اور بدی کرے گا تو سزا دونگا حدیث مبارکہ میں ہے کہ ایک مسلمان جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہ دوسرے مسلمان بھائی کے لئے بھی پسند کرے قرآن و حدیث سے کہیں ثابت نہیں ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو تکلیف پہنچائے اللہ نے انسانی جانوں کو محترم قرار دیا ہے ظاہر سی بات ہے جو اللہ و رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ مسلمان کسی مسلمان کا قتل نہیں کر سکتا اور جو ایسا کرتا ہے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا کیونکہ جہاں اسلام ہے وہاں تشدد نہیں ہے اور جہاں تشدد ہے وہاں اسلام کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ 
بابری مسجد کی شہادت ہوئی ممبئی، مہاراشٹر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو تکلیف ہوئی تھی لیکن کسی مسلمان نے بابری مسجد کو مسلکی نظریہ سے نہیں دیکھا بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی میں پھوٹ پڑنے والے فسادات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تمام مسلمانوں کو تکلیف ہوئی 1992 سے لیکر اب تک دہشتگردی کے الزامات میں بے قصور مسلمانوں کی گرفتاری ہوئی تمام مکتب فکر کی مساجد میں دکھ کا اظہار کیا گیا جب عدالتوں نے تمام گرفتار ملزمان کو باعزت بری کردیا تب تمام مسلمان خوش ہوئے اور یہ یقین ہوگیا کہ ملک میں ابھی بھی انصاف کا علم بلند ہے لیکن جب ڈاکٹر ذاکر نائیک کو دہشت گردی سے منسوب کیا گیا تو افسوس کا مقام ہے کہ مسلمانوں کا نظریہ ہی مختلف ہوگیا جبکہ اللہ تبارک و تعالٰی نے تفرقہ و اتحاد بھلائی و برائی کے ضمن میں واضح طور پر اعلان کر دیا کہ '' اے ایمان والو اگر تم نے اہل کتاب کی بات مان لی تو تمہیں کفر کی طرف لوٹا دینگے تم کیسے کفر کر سکتے ہو تم پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو اور فرقوں اور گروہوں میں نہ بٹو، اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور اللہ نے اپنے فضل سے تمہیں بھائی بھائی بنا دیا تم آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے اللہ تعالٰی اسی طرح اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ پا لو تم بھلائی کا حکم کرنے اور برائی کو روکنے والوں میں سے ہو یہی لوگ نجات پانے والے ہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنھوں نے اپنے پاس روشن دلیل آنے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا ان لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے (آلعمران 100 تا 105) 
عالم اسلام کی سیاسی صورتحال پر غور کریں تو معلوم یہ ہوگا کہ ارض مقدس بیت المقدس کی سر زمین پر جب یہودیت مسلمانوں کا قتل عام کرتی ہے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اور یہ مسلمان بیت المقدس کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرتا ہے تو کوئی جماعت یہ نہیں پوچھتی کہ تم کس مسلک سے تعلق رکھتے ہو؟ جیسا کہ درج بالا آیت میں اللہ نے فرقوں اور گروہوں میں نہ بٹنے کا حکم دیا ہے اور اس وقت جب اوس اور خزرج کے درمیان جنگ ہوتی تھی ان لوگوں کو اللہ نے بھائی بھائی بنا دیا بلکہ اللہ تبارک و تعالٰی نے ہمیں تو بھلائی کا حکم کرنے کے لئے اور برائی کو روکنے کے لئے حکم دیا تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ 

اللہ تعالٰی انسانوں کے ضمیر سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے اور تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ اس کا حساب تم سے لے گا پھر جسے چاہے سزا دے اللہ تعالٰی ہر چیز پر قادر ہے (سورہ بقرہ 284) 
دنیا میں مسلمانوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ مُسلمان دوہری مار سہ رہا ہے ایک طرف اسلام مخالف طاقتیں ہیں تو دوسری طرف مسلکی اختلافات ہیں آج اسلام مخالف طاقتوں کے سامنے صرف اور صرف مسلمان ہی نشانہ ہیں نہ کہ مسلکی مسلمان ہیں آج اگر ہمارا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ اللہ کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں احکام الٰہی اور سنت رسول (احادیث ) پر عمل کرتے ہیں تو ایک بات ضرور جان لیں کہ '' بے شک جن لوگوں نے دین میں فرقے بنائے اور گروہوں میں تقسیم ہو گئے نبی کریم کا ان سے کوئی رشتہ نہیں ہے (الانعام 159 ) امریکہ و اسرائیل اور اس کی اتحادی فوجیں دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر مسلم ممالک پر بم باری کررہی ہیں تاکہ دہشت گردوں کا خاتمہ ہو جائے لیکن اس کا الٹا ہورہا ہے بم دھماکوں میں صرف اور صرف مسلمان ہی ہلاک ہو رہے ہیں مسلمانوں پر گرنے والے میزائل اور بم کو یہ نہیں بتایا گیا وہابی دہشت گردوں پر گرنا بلکہ یہ فرمان جاری کیا گیا ہے یہ بم مسلمانوں پر گرے گویا کسی بھی مسلک کا ہو کیونکہ یہ تو مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنا چاہتے ہیں اگر میں اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھتا ہوں تو معلوم یہ ہوا کہ گناہوں سے شرابور ہوں کیونکہ اللہ و رسول کی نافرمانی اللہ کی و رسول کی شان میں سب سے بڑی گستاخی ہے ایک بات قابل ذکر ہے کہ امسال ملک کے مختلف شہروں و علاقوں میں اتحاد ملت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق قائم کریں کیونکہ ملک کے حالات ایسے تھے کہ جہاں پر بھی دھماکے ہوتے ہیں اسے بلا تاخیر مسلمانوں سے جوڑ کر گرفتاریاں شروع ہو جاتی ہے اس لئے اتحاد کانفرنس کیا جارہا تھا لیکن ایک منظم سازش کے تحت ذاکر نائیک کو نشانہ بنا کر اختلافات کی فصل کو سیراب کر دیا گیا ہے لیکن کامیابی کا انحصار اس پر ہے جو اللہ و رسول کی اطاعت کریگا اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان کتنا عمل کرتا ہے؟


0 comments: