ہتھیاروں کا غلط استعمال

7:07 PM nehal sagheer 0 Comments


ریاست جموں و کشمیر برسوں کے نامساعد حالات کے سبب شورش زدہ ریاست تصور کی جا چکی ہے۔ جس کے بعد ریاستی حکومت نے مرکزی حکومت کے زیر کنٹرول ریاست میں اپنے قانون نافذالعمل کیے یعنی آرمڈ فورسزا سپیشل پاورس ایکٹ(افسپا) اور و ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ جو ریاست میں امن بحال کرنے کے لئے نافذ کیا گیا۔ ساتھ ہی ریاست کے اندر سی آر پی سی یعنی (کرمنل پراسیجر کوڈ) لاگو کیا گیا ۔اصل معنوں میں اس قانون کو ریاست کے اندر فوج کو قانونی تحفظ حاصل کرنے کی غرض سے ۱۹۹۷ ؁ سے لاگو کیا گیا۔ سی آر پی سی کا مطلب آرمڈ فورسز کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس قانون کی ہی وساطت سے ریاست میں آرمڈ فورسز کو ۲۴ گھنٹے آن ڈیوٹی قرار دیاگیا۔ فوج کو خصوصی اختیارات کے تحت کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔انہیں کبھی بھی جوابدہ نہیں بنایا جائے گا ۔یہی وجہ ہے کہ آرمڈفورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی بے انتہا پامالیاں ہو تی رہتی ہیں ۔ اس آمریت بنام جمہوریت کے کی چھتر چھایہ میں اس قانون کی پیروی کرنے والے کسی بھی فوجی اہلکارکے خلاف قانونی چارہ جوئی کی منظوری نہیں دی گئی ۔یہی وجہ ہے کہ اس شورش زدہ ریاست میں اگرچہ سال ۲۰۰۸ کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو اس کالے قانون کی وساطت سے ہزاروں معصوم نوجوانوں کی جانوں کا اتلاف ہو چکا ہے۔ اگرچہ اسلامی قانون کے مطابق بار بار اسکا تذکرہ کیا جا چکا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے ۔اُس لحاظ سے اس کالے قانون نے ریاست کے ہر فرد بشر کے جذبات و احساسات پر کلہاڑی ماری ہے۔ جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ریاست کی سو فیصدی آبادی افسپا کے سائے تلے دبائی جا چکی ہے۔ اس خاموش اکثریت والی ریاست میں ہزاروں بار خون آشامی کا خوف ناک کھیل کھیلا گیا ۔نہتے معصوموں کا بہیمانہ قتل عام ہوتے ہوئے دیکھا گیا ۔ہزاروں نوجوانوں کو گمشدگی کے طور پر کھو دینے کے بعد انکے غمزدہ لواحقین کو اُنکے آنے کی آس ابھی بھی ہے۔ کتنی بد قسمت مائیں گمشدہ بیٹے کی جدائی میں آخرت کا سفر باند ھ کر اس دنیا سے ہی کوچ کر گئیں، جو آخری ایام میں بھی بار بار یہی سوال دہرا تی رہیں کہ کن ناکردہ گناہوں کے سبب میرے لخت جگر کو اپنے عزیزو ں سے دور رکھا گیا؟ اگرچہ ریاست کی اب تک کی سبھی حکومتوں نے اس حساس معاملے میں اندیکھا کیا ،لیکن بین الاقوامی سطح پر یہ حساس معاملہ طشت از بام ہو چکا ہے کہ ریاست کے اندر برسوں سے جو ناگفتہ بہ حالات ہیں اس کے سبب جو خونین رقص جاری ہے اسکا تخمینہ لگانا کافی مشکل ہے لیکن جموں و کشمیر میں بشری حقوق کے علمبرداروں نے بار بار حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ ا س قتل ناحق کو بند کرو ۔نوجوانوں کی بلا وجہ کی گرفتاری پہ روک لگا ؤ۔ جس پر برسوں قبل انٹرنیشنل فورم فار جسٹس و ہیومن رائٹس سے وابستہ محمد احسن اونتو نے ہو رہے بہیمانہ ہلاکتوں اور فوج کی زیادتیوں کے خلاف بطور احتجاج اپنے آپ کو جلانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن بر وقت کارروائی ہونے سے اونتو صاحب کی جان بچ گئی ۔اگرچہ ایسا کرنا ایک غیر فطری عمل تھا لیکن قتل ناحق کے خلاف یہ حکومت کے مردہ ضمیر کو بیدار کرنے کا اس سے بہتر تدبیر نہیں ہو سکتی ۔آج کی دنیا میں اس کی مدد سے نا انصافی کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا جاسکتا ہے ۔ہم برسوں سے دیکھتے آئے ہیں کہ حقوق بشر کی کھلی خلاف ورزیوں اور ظلم و زیادتی کے خلاف حکومتیں اس وقت تک بیدار نہیں ہوتیں جب تک کوئی شخص جو حقوق بشر کے تحفظ کے لئے سرگرم عمل ہو وہ کوئی غیر فطری طریقہ نہ اپنائے ۔ حقوق بشر کی پامالی آج بھی حکومتوں کے لئے ایک بڑا سوال ہے۔ جموں و کشمیر حکومت کا رویہ ہمیشہ ہی جانبدارانہ رہا ہے اور یہیں وجہ ہے کہ حکومتی دفاع میں فوج خصوصی اختیارات کااستعمال نہتے کشمیریوں پر آزما تی رہتی ہے۔ اب بھی یہ خونی کھیل کھیلا جا رہا ہے ۔متاثرہ کنبہ کا اس ظلم و زیادتی اور درندگی کے خلاف آواز بلند کیا جانافطری ہے۔لیکن یقینی طور پر حکومت اُس وقت اپنے کانوں کو بند کئے سوتی رہتی ہے ۔لیکن کیا اس طرح کا احتجاج کوئی عام سی بات ہے یہ اُن ہزاروں لوگوں کی درد بھری چیخ ہوتی ہے جس کے ووٹوں کے بل پرریاستی حکومت کی داغ بیل ڈالی جاتی ہے ۔لیکن اُنکے اپنے حقیر مفادات کے سامنے یہ معصوم انسانوں کی چیخ و پکار اولاد کا غم اٹھانے والی ماؤں کی آہ بکا جس سے زمین و آسمان لرزنے لگتے ہیں اور پوری دنیا ان کی مظلومیت پر ماتم کناں ہوتی ہے لیکن ہماری ریاستی حکومت کے سامنے سب پھیکے پڑ جاتے ہیں۔یہ سب کچھ کئی عشروں سے ریاست کے اندر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ 
اکیسویں صدی میں حقوق بشر کے تحفظ کے لئے پوری دنیا سر جوڑ کر بیٹھتی ہے ۔دنیا میں موجود کئی تنظیمیں سال میں ایک بار اپنی رپورٹ پیش کرتی ہیں جن کا تذکرہ میڈیا میں ہوتا ہے ۔اس پر بحث بھی ہوتی ہے لیکن حقوق بشر کا تحفظ نہ کرپانے والی حکومتوں کے چشم و ابرو پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ان کی وہی چال بے ڈھنگی جاری رہتی ہے ۔انسانی جانوں کی ہلاکت اب روز کا معمول بن گیا ہے ۔اخبارات میں خبریں پڑھ پڑھ کر شاید آج کے دور کا انسان بھی بے حس ہو گیا ہے کہ اس کے ہی ہم جنسوں پر کہیں عرصہ حیات تنگ کیا جاتا ہے ۔انہیں عقوبت خانوں میں بدترین ایذا رسانی سے گزارا جاتا ہے ۔لیکن آج کا انسان بالکل خاموش شاید اپنی باری کا انتظار کررہا ہے کہ کب وہ ظالم درندے اپنے ظلم و درندگی کو وسعت دے کر اس کے گریبان تک پہنچتے ہیں ۔لیکن پھر ان کی چیخ و پکار بھی اسی طرح نظر انداز کردی جائے گی ۔جس طرح انہوں نے اپنے دوسرے ہم جنسوں کی چیخ و پکار آہ بکا پر کان نہیں دھرا تھا ۔ایک بات اور جو انتہائی قابل توجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ یا اس کی ذیلی تنظیمیں بھی حقوق بشر کے تحفظ کے نام پر صرف کمزور ممالک پر ہی اپنا رعب جمانے کے لئے حملہ آور ہوتی ہیں ۔جبکہ طاقتور ممالک میں کتنی ہی حقوق بشر کی پامالی ہو ان کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ۔آخر یہ دوغلہ رویہ کیوں اور کب تک ؟
اب چونکہ ریاست میں ایک خاتون وزیر اعلیٰ بر سر اقتدار ہیں۔ جو اپنے والد مرحوم کے خوابوں کے سہارے حکومت کر رہی ہیں اپنے وطن کو برباد کرکے ریاست کی وزیر اعلیٰ غیروں کے وطن کو آباد کرنا چاہتی ہیں شاید یہی انکا سیاسی منشور ہے۔ جو اس وقت وہ ریاست کے عوام کو والد مرحوم کے خوابوں کی داستان سنا رہی ہیں۔ اپنے حقیر مفادات کے لئے وہ عوام کے دلخراش سانحات کو نظر انداز کر چکی ہیں۔ جن فوجی اہلکاروں نے خاکی وردی میں ملبوس ہوکرکشمیر کے چپہ چپہ کو اپنے کالے کارناموں سے سیاہ کر دیاہے۔ غمزدہ اور متاثرہ خاندان ایک ہی سوال دہرا رہے ہیں خدا را ہمارے بچوں کے خون کا بدلہ دے دو۔ ایک متاثر کن بیان جب سامنے آتا ہے تودل پر ناقابل برداشت بوجھ محسوس ہوتا ہے ۔ ریاست میں اگرچہ تعمیرو ترقی پیسوں سے خریدی جا سکتی ہے ۔لیکن وہاں امن و امان بحال کرنے کے لئے سیاسی بالغ نظری سے کام لے کر متاثرین کی فریاد سن کر انہیں انصاف فراہم کرنا سے ہی امن و امان بحال کی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ فوج کو دئے گئے خصوصی اختیارات واپس لینے سے عوام کا اعتماد بحال ہو گا۔ جس سے یقینی طور ریاست کے اندر امن قائم ہوگا۔ لیکن ان سبھی منطقی باتوں کے لئے حکومت کے پاس وقت ہی نہیں۔
حال ہی میں انٹرنیشنل فورم فار جسٹس و ہیومن رائٹس سے وابستہ محمد احسن اونتو نے اس بات کا انکشاف کیا کہ ۲۰۰۸ ے اب تک فوج کے استعمال شدہ مہلک ہتھیاروں سے ۵۸ انسانی جانیں تلف اور پائین شہر میں جو ہفتہ میں دو بار پیپر گیس 249 پیلٹ گن 249 اور ٹئیر گیس سے مجموعی طور ہلاکتیں ہوئی ہے وہ ڈیوٹی پر معمور فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں سرزد ہوئی ہیں۔جس میں سے ایک بھی سزا کے مستحق قرار نہیں دئے گئے اور اسکا استعمال بظاہر احتجاجی مظاہروں پر کیا جاتا ہے ۔لیکن جس زہریلی گیس کا استعمال فوج کر رہی ہے اس سے پائین شہر کے کئی اشخاص کوجسمانی اذیتوں سے دو چار ہونا پڑا ۔آخر یہ ہتھیار جس نے بھی ایجاد کی ہیں اس کا مقصد اس کے سوا بھی کچھ تھا کہ اس سے مظلوموں کی دادرسی اور ظلم کا خاتمہ ہو ۔لیکن اس دور میں ان ہتھیاروں کا استعمال معصوم انسانوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے ۔ان کی آواز کو دبانے اور انہیں خاموش رہنے کے لئے کیا جارہا ہے ۔حکومتیں اب عوامی اعتماد کی وجہ سے برسر اقتدار نہیں بلکہ ان مہلک ہتھیاروں کا خوف دکھا کر اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا کر مسند اقتدار پر براجمان ہیں۔آخر اس اسرائیلی طرز کے مہلک ہتھیاروں کا خاتمہ کب ہوگا ؟ 

0 comments: