لوگ کیا کہیں گے۔۔۔؟

9:57 PM nehal sagheer 0 Comments



عمرفراہی

تقریباً بیس سال پہلے کی بات ہے ایک ستر سال کی عمر کے بزرگ جو رہتے تو گاؤں میں ہی تھے لیکن اہلیہ کے انتقال کی وجہ سے ممبئ میں اپنے بیٹے کے یہاں رہنے کیلئے آگئے تھے -چونکہ ان کے بیٹے اور ہمارے والد کے درمیان بہت اچھے تعلقات تھے اور والد کی عمر بھی ان بزرگ محترم کے تقریباً برابر ہی تھی اس لیئے اکثر چھٹی وغیرہ کے دن والد سے ملنے آجایا کرتے تھے - ایک روز انہوں نے والد صاحب سے کہا کہ میری زندگی تھوڑی بھی ہے اور زیادہ بھی اور اگر کبھی طبیعت وغیرہ خراب ہونے کی وجہ سے  کوئی تکلیف یا حاجت درکار ہوئی تو بہو تو میری خدمت کر نہیں سکتی اور لڑکا جو خود بھی اپنے کاروبار میں مصروف رہتا ہے جس کے اپنے بھی بچے بڑے ہو چکے ہیں اس کیلئے میری خدمت کرنا بہت مشکل ہے- اس لئے اگر آپ کی نظر میں کوئی بیوہ عورت ہو یا کوئی غیر شادی شدہ غریب عورت ہو تو میرا نکاح کرا دیجئے - والد صاحب نے کہا کہ اب آپ کے ناتی پوتے بھی بڑے ہو گئےہیں شادی کرنا مناسب نہیں ہے کچھ دن ایسے ہی گذار لو- والد صاحب کے  اس جواب پر وہ غصہ ہو گئے اور کہنے لگے کیا آپ کو پتہ ہے کہ میں کچھ وقت ہی زندہ رہونگا - آپ لوگ سماج اور معاشرے کو دیکھتے ہوئے اپنا فیصلہ تو سنا دیتے ہیں لیکن ایک مرد اور عورت کے جذبات کے تعلق سے اسلامی شریعت کیا کہتی ہے اس کا ذرہ برابر بھی خیال نہیں - چونکہ والد صاحب کا اصل تعلق ان کے بیٹے کے ساتھ ہی تھا اس لئے والد صاحب نے سوچا کہ اگر بالفرض کسی طرح کسی عورت سے نکاح کروا بھی دیا گیا تو یہ دونوں میاں بیوی کی ذمہ داری بھی ان کے صاحب زادے پر ہی آن پڑے گی اور پھر ممبئ جیسے شہر میں جہاں رہائش کی قلت ہوتی ہے ایک بزرگ کی شادی کے بعد مسئلہ کھڑا ہو جائے گا - خود والد صاحب نے جب اس کا تذکرہ ان کے بیٹے سے کیا تو بیٹے نے کہا کہ ابا سمجھ نہیں رہے ہیں انہیں کہنے دیجئے - اس طرح جب دوسری تیسری بار بھی بزرگ نے شادی کیلئے یاد دہانی کرائی تو والد صاحب نے یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا کہ ابھی آپ کے لائق کوئی رشتہ نظر میں نہیں ہے میں کوشس میں ہوں - لیکن ایک سال بیت جانے کے بعد وہ بہت غصہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ آپ لوگ میری بات مذاق میں لے رہے ہیں اور میری مجبوری کا کسی کو خیال نہیں ہے - والد صاحب نے کہا کہ شادی کر کے رکھو گے کہاں؟ انہوں نے کہا کہ میں نے پہلی بیوی کو کہاں رکھا تھا - آج میرے تین جوان بیٹے ہیں جو برسر روزگار ہیں ان کی پرورش اور تربیت میں نے اپنے گاؤں اور گاؤں کے کھیت سے ہی کی ہے میں دوسری بیوی کو بھی گاؤں میں ہی رکھونگا اگر اولادیں اب اپنے باپ اور اس کی بیوی کا خرچ نہیں دے سکتیں تو ہمارا خرچ گاؤں کی جائداد سے بھی پورا ہو سکتا ہے - بزرگ کی یہ بات میں بھی سن رہا تھا اورمیں نے بھی ان کی بات کو مذاق میں لیتے ہوئے کہا کہ چچا جان شادی تو مشکل نہیں ہے لیکن جیسا کہ یوپی میں ذات برادری کی بھی قید ہوتی ہے کہیں آپ کے ساتھ بھی تو یہ مسئلہ نہیں کھڑا ہوگا نا - انہوں نے کہا  کہ اب اس عمر میں ذات برادری کا کیا مطلب اگر ہندو بھی رہے گی تو بھی اسے مسلمان کر کے نکاح کر لیں گے - اتفاق سے اس وقت ہمارے گھر پر برتن دھلنے کیلئے ایک موسی آئی ہوئی تھی - میں نے کہا موسی تم ہر جگہ جاتی ہو دیکھو کوئی غریب عورت ہو تو چچا کی شادی کرا دیتے ہیں - اس نے کہا ٹھیک ہے سیٹھ کوئی عورت ہو گی تو بتاتی ہوں - ایک دن اچانک صبح صبح موسی نے دوازہ کھٹکھٹایا اور پھر میں نے دوازہ کھولا تو کیا دیکھتا ہوں اس کے ساتھ ایک اڑتیس سے چالیس سال کی قبول صورت تندرست مراٹھی عورت سامنے کھڑی ہے - میں نے کہا یہ کون ہے اس نے کہا سیٹھ بھول گئے آپ ہی نے شادی کیلئے ایک عورت کی بات کی تھی - میں ایک دم ہکا بکا رہ گیا - دل میں سوچا کہ میں نے تو اس سے مذاق کیا تھا کہ ایک بوڑھے آدمی سے کہاں کوئی عورت شادی کیلئے راضی ہوگی - لیکن اب اس عورت کے سامنے یہ بات کہنا بھی مناسب نہیں تھا - خیر میں نے دونوں کو اندر بلا لیا موسی اپنے کام میں لگ گئی میں اب یہ سوچنے لگا کہ کیسے عزت کے ساتھ اس عورت سے چھٹکارہ حاصل کروں تاکہ اسے بھی برا نہ لگے - میں نے کہا آپ کو تو موسی نے سب کچھ بتا دیا ہوگا - اس نے کہا ہاں - میں نے کہا کیا نام ہے آپ کا - اس نے کہا پرتبھا - میں نے کہا کیا آپ ایک ستر سال کے بزرگ آدمی سے شادی کیلئے تیار ہیں - اس نے کہا ہاں - میں نے کہا آپ ہندو ہیں اور وہ مسلمان - اس نے کہا معلوم ہے - میں نے کہا آپ کو بھی مسلمان ہونا پڑے گا - اس نے کہا ٹھیک ہے - میں نے کہا بڑی بڑی داڑھی اور مذہبی آدمی ہیں - اس نے کہا شریف ہونا چاہیئے- میں نے کہا آپ کو گاؤں میں رہنا ہوگا - اس نے کہا چلے گا ان کا اپنا گھر تو ہے نا - میں نے سوچا شاید سب کچھ حقیقت بتا دینے سے وہ خود ہی انکار کردیگی اور مجھے اپنے مذاق میں بولے گئے الفاظ سے بھی شرمندگی نہیں اٹھانی پڑیگی ۔ لیکن عورت نے ہر طرح سے تیار ہو کر مجھے مشکل میں ڈال دیا - خیر میں نے کہا کہ آخر آپ کی ایسی کیا مجبوری ہے جوایک ستر سال کے آدمی سے جو مسلمان بھی ہیں اور وہ خود اپنے بچوں کے سہارے پر ہیں ان سے  شادی کیلئے تیار ہو - اس نے کہا ہم دو بھائی بہن ہیں - میرے ماں باپ نے بہت اچھے سے ہم دونوں کی پرورش کی مگر اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے - بڑا بھائی شادی کرکے اپنی فیملی کے  ساتھ خوش تھا لیکن میری شادی میں شاید میرے والدین سے کوئی چوک ہوئی یا میری قسمت ہی خراب تھی شوہر شرابی نکلا اور تقریباً آٹھ سال تک مجھے کوئی اولاد بھی نہیں ہوئی اس لئے وہ اکثر شراب پی کر مجھے زدوکوب کیا کرتا تھا - میں نے مجبوراً اس عذاب سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا - اور سوچا اولاد تو ہے نہیں بھائی کے گھر رہ کر محنت مزدوری کرکے زندگی گذار لونگی لیکن جب شوہر کو چھوڑ کر گھر آئی تو تھوڑے ہی دن بعد بھابھی کا تیور بھی بدلنے لگا میری وجہ سے اس کی پرائیویسی اور آزادانہ رہن سہن میں خلل پڑنے لگا اور اب وہ طرح طرح کے بہانے بنا کر بھائی سے میری شکایت کرنے لگی - بھائی اکثر میری مجبوری کو دیکھتے ہوئے بھابھی کی باتوں کو نظر انداز کردیتا مگر کب تک ؟ اب وہ دھمکی دیتی ہے کہ کیا تم نے مجھ سے اپنی بہن کی دیکھ بھال کیلئے شادی کی ہے اگر تم اس کا کوئی انتظام نہیں کر سکتے تو مجھے میرے میکے چھوڑ دو - اب آپ بتائیں کہ میں کیا کروں - بیر باروں میں اچھی انکم ہے لیکن بھائی کی عزت سے ڈرتی ہوں جھاڑو برتن یا آفسوں میں نوکری بھی کرسکتی ہوں لیکن سر چھپانے کی جگہ تو چاہیئے - اس لئے اب میں ذلت کی زندگی سے نکل کر کسی سہارے کی تلاش میں ہوں تاکہ سماج میرے اوپر انگلی نہ اٹھا سکے ۔ اگر یہ آدمی مجھے سر چھپانے کیلئے ایک گھر دے سکتا ہے تو میں اس کی سوکھی روٹی پر یا محنت مزدوری کرکے اپنی زندگی گذار لونگی - اس عورت کی درد بھری داستان اور بڑے میاں کی طرف سے بار بار شادی کے اسرار پر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہم لوگ جسے مذاق سمجھتے ہیں اصل میں یہ زندگی کی حقیقت ہے جو زندگی اور عمر کے ایک کٹھن اور مشکل  مقام پر انسان کی ضرورت بن جاتی ہے - اب یہ الگ بات ہے کہ کچھ کمزورلوگ حالات سے شکست کھا جاتے ہیں کچھ لوگ صبر کر لیتے اور کچھ مقابلہ کرنے کی جرات کرتے ہیں مگر ساٹھ اور ستر سال کی عمر میں عمران خان اور دگ وجے سنگھ  جنھیں اللہ نے قوت اور وسائل سے نوازا ہے اپنی خواہش اور ضروریات کو پورا بھی کرلیتے ہیں تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا - یہ کوئی کہانی یا افسانہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقی واقعہ اور اچانک ذہن میں اسے رقم کرنے کا خیال اس لئے آیا کہ دو دن پہلے میں نے اپنے ایک دوست کے والد کو دیکھا جو اپنی اہلیہ کو ایکٹیوا گاڑی پر بٹھا کر جارہے تھے اچانک ہماری نظر ٹکرائی میں نے خیریت پوچھا انہوں نے کہا الحمد اللہ - مجھے خیال آیا کہ پانچ سال پہلے ہمارے دوست نے ہم سے مشورہ کیا تھا کہ اماں کے انتقال کے بعد ابا بہت الگ تھلگ محسوس کر رہے ہیں اور ہم تین بھائی جو کہ الگ ہی رہ رہے ہیں ان کے ساتھ بہت وقت بھی گذار نہیں پاتے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ابا کی شادی کرادوں - میں نے کہا اگر وہ تیار ہیں اور کوئی ایسی خاتون بھی نظر میں ہیں تو برا کیا ہے - باالآخر ہمارے دوست نے کرائے کا گھر لیکر اپنے والد کی شادی کرادی اور دونوں میاں بیوی خوش بھی ہیں - مگر اب جب کبھی میں بڑے میاں اور پرتبھا کے بارے میں سوچتا ہوں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آج پرتبھا پتہ نہیں کہاں ہے ؟ کیا اس نے بیر بار میں کام کرنا شروع کردیا ہوگا یا خودکشی کر لی ہوگی ؟ ایک مجبور اور مشرکانہ ماحول میں پرورش پانے والی غیر مسلم عورت ایسے حالات میں کوئی بھی راستہ اختیار کر سکتی ہے - اگر اس نے یہ راستہ اختیار کر لیا ہوگا تو اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ اور خود بڑے میاں بھی جو ابھی تک زندہ ہیں اگر انہیں مفت میں صرف روٹی کپڑا اور مکان کے عوض ایک خدمت گذار شریک حیات مل جاتی تو برا کیا تھا جبکہ عام طورپر آجکل کا ایک ماحول بن چکا ہے کہ جوان بیویوں سے اپنے دو تین بچے بھی نہیں سنبھلتے اور انہیں گھر کے جھاڑو برتن اور کپڑے دھلنے کیلئے نوکرانی کی ضرورت ہوتی ہے جو اکثر اوقات مرد اپنی بیویوں کی ان ضروریات کو پوری بھی کرتا ہے مگر اکثر یہی اولادیں کیا اپنے والدین کے بارے میں بھی ایسا ہی سوچتی ہیں - اگر پرتبھا کی بڑے میاں سے شادی ہوجاتی تو نہ صرف ایک اولاد کو اپنے والد کی خدمت کا ثواب ملتا ایک مشرک عورت جہنم کی آگ سے نجات حاصل کر سکتی تھی - مگر مشکل یہ ہے کہ جو معاشرہ ہم نے تشکیل دیا ہے یہاں پر  ہمارا ہر عمل اسلام کیلئے نہیں لوگوں کیلئے ہوتا ہے اور جو چیز اللہ نے ہمارے لئے حلال قرار دیا ہے ہم اسے اپنے اوپر اس لئے حرام کر لیتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں ۔۔؟ 

0 comments: