ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق!



ملک عزیز میں ہر روز کوئی نہ کوئی نیا ہوتا ہی رہتا ہے ۔یہ الگ مسئلہ ہے کہ وہ نیا کیا ہو رہا ہے ۔زیادہ تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں اب تو ملک کا بچہ بچہ ملک عزیز کی پالیسی اور مودی حکومت کی آئے دن کی ہنگامہ آرائیوں کو جان چکا ہے ۔افضل گرو کی پھانسی جس کے بارے میں ہمارے ارباب اقتدار بتاتے نہیں تھکتے کہ وہ قانون کی حکومت میں یقین رکھتے ہیں اور افضل گرو کو قانونی طور پر عدالت کی نگرانی میں ہی پھانسی دی گئی ہے ۔لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے یہ صرف آدھا سچ ہے ۔افضل کی پھانسی پر سوالات اٹھتے ہی رہیں گے ،اس کی پھانسی حکومت ہند کے گلے کی پھانس بن چکا ہے ۔سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں جو کچھ لکھا ہے وہ ملک میں عدالتی نظام کو دنیا کے سامنے مشکوک بنا کر ہی پیش کریں گے ۔دعویٰ تو یہ ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے ۔مودی جی پوری دنیا میں گھوم کر حکومت ہند کی رواداری ،عدم تشدد،مساوات اور جمہوری اداروں کی آزادی کی مثال پیش کرتے ہیں ۔انہیں شاید یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ دنیا اندھی ہی نہیں بہری اور گونگی بھی ہے کہ اسے حقیقت حال کا علم نہیں ہوگا اور وہ ان سے کوئی سوال نہیں کریں گے ۔لیکن پونے کے نوجوان مسلم انجینئر محسن شیخ ،ایئر فورس کے ہندوستانی جوان کے باپ اخلاق ، حیدر آباد کا نوجوان دلت اسکالر روہت ویمولا اور اب جے این یو کے کنہیا کے ساتھ حکومت اور اس کے چیلے چانٹوں کی کارروائی نے دنیا کو یہ پیغام دے دیا ہے ۔اور غیر ملکی میڈیا میں اس پر سوالات بھی اٹھنے لگے ہیں ۔اب بھی ان کی خوش فہمیاں دور نہیں ہوئیں تو صرف تین سال بچے ہیں جب ان کی خوش فہمیوں کا ہمالہ زمین بوس ہونے والا ہے ۔آخر روہت ویمولا کو خود کشی کے لئے مجبور کردینا ،کنہیا کو جھوٹے اور فرضی الزامات میں گرفتار کرنا اور عدالت کے احاطے میں کنہیا پر وکیل نما غنڈوں کا حملہ ،جے این یو کے پروفیسروں اور میڈیا کے لوگوں پر کمرہ عدالت میں جج کی موجودگی میں حملہ اور گالی گلوج کون سے قانون کے حکمرانی کے تحت آتا ہے ۔ان واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت نے یہ طے کرلیا ہے کہ وہ عوامی آواز کو ہر ممکن طریقے سے دبا دے گی یہی سبب ہے کہ وہ عوامی بے چینی کو جان بوجھکر نظر انداز کررہی ہے ۔یہ الزام محض نہیں ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت جن حسین خواب اور جھوٹے پروپگنڈے کے سہارے بر سر اقتدار آئی تھی،دو سال کاعرصہ پورا ہونے کو ہے لیکن ابھی تک ایک وعدہ بھی پورا ہوتا نظر نہیں آتا ۔اور حکومت کا رویہ یا اس کی جو پالیسی سمجھ میں آرہی ہے اس سے تو یہی ظاہر ہے کہ پانچ سال میں بھی کچھ ہونے کونہیں ہے ۔لیکن عوام تو حساب مانگ رہے ہیں ۔انہوں نے نریندر مودی میں زبردست اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے توقعات سے کہیں زیادہ سیٹ پارلیمنٹ میں انہیں دے کر سنہرے ہندوستان کے سپنے سجائے تھے ۔لیکن وہ سارے سپنے ایک ایک کرکے ٹوٹتے بکھرتے نظر آرہے ہیں ۔حکومت سنبھالتے ہی نریندر مودی نے غیر ملکی سفر کا لا متناہی سلسلہ شروع کیا تو مذاق کا سبب بن گیا ۔وہ کبھی اپنے غیر ملکی سفر کے جواز کے لئے جھارکھنڈ کی انتخابی ریلی میں یہ کہتے ہیں کہ وہ کیلا میں وٹامن کی مقدار بڑھانے کے سلسلے میں سائنسدانوں سے ملاقات کے لئے بیرون ملک گئے تھے ۔تو کبھی سائنس کانفرنس میں سخت گیر ہندوؤں کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہندوستان ہزاروں سال قبل ہی جنیٹک سائنس اور پلاسٹک سرجری نیز ٹیکنالوجی کو حاصل کرچکا تھا ۔اب بے چارے ان کے چاہنے والے سوشل میڈیا پر ان کے نقادکو مغلظات سے نوازتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔کیا کریں جب صحیح جواب یا کوئی دلیل نہ ہو تو پھر گالی گلوچ کے علاوہ اور بچتا ہی کیا ہے ۔لیکن یہ اس پارٹی کے لئے قابل غور تو ہے ہی کہ وہ پارٹی جو ساری دنیا کو اخلاقیات کا سبق پڑھایا کرتی تھی ذرا سی تنقید سے اس کے بھکت ساری اخلاقیات بھول کر بھونڈا اور انتہائی نازیبا کلمات ادا کرنے لگے ہیں ۔
جب ترقی کے وعدے سب کا وکاس سب کا ساتھ کا وعدہ پورا نہیں ہو رہا ہے تو عوام کا ذہن کہیں نہ کہیں مصروف تو رکھنا ہی پڑے گا ۔نتیش کمار کی رائے میں یہ حکومت عوام کے ذہن کو ملک کے اصل مسائل ہٹانے کے لئے اس طرح کے معاملات اٹھارہی ہے ۔اس لئے اس دوران جو کچھ ہوگا وہ یہ ہوگا کہ فساد پھیلانے ،اشتعال انگیز بیانات دینے اور اقلیتوں اور دلتوں کو روندنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے گی ۔جس کی شروعات حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے ایک ماہ کے اندر ہی ہو گئی تھی۔دفعہ 370 ،یکساں سول کوڈ ،مسلم پرسنل لاء،مسلمانوں سے حق رائے دہی چھین لینے کی بات کے درمیان لو جہاد،گؤ بھکتی اور اس کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا ۔اب جبکہ دو سال پورا ہونے کو ہے تو اس میں مزید اضافہ ہو گیا ہے ۔ہر نیا دن نئے ہنگاموں کو لے کر حاضر ہو تا ہے ۔دلت اسکالر روہت ویمولا کا معاملہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا اور اس واقعہ نے مودی حکومت کی ناک میں دم کر رکھا تھا کہ ایک دیگر معاملہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ لیڈر کی گرفتاری اور وہاں پولس کے کریک ڈاؤن نے نئے قضیہ کو مودی حکومت کے لئے نیا چیلنج بنا کرپیش کردیا ہے ۔اسی بات پر اروند کیجریوال نے اپنے ٹوئٹ پیغام میں کہا تھا کہ مرکزی حکومت ملک کے جوانوں سے حالات جنگ میں ہے۔مودی حکومت اور اس آئیڈیا لوجی والے لوگ ہر نئے ہنگاموں پر اپنی جعلی حب الوطنی کے سائے میں ہنگامہ کو فروع کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔لیکن فی الحال اس پر انہیں کوئی کامیابی نہیں مل رہی ہے ۔شاید عوام نے بھی ان کی حب الوطنی کی آڑ میں جعلسازی کو محسوس کرلیا ہے اسی لئے ایک خاص طبقہ کے علاوہ اور کوئی ان کی باتوں پر دھیان دینے کو راضی نہیں ہے ۔لیکن فی الحال کسی بھی طور ملک میں امن امان کی صورتحال سدھرتی نظر نہیں آتی کیوں کہ حکومت شاید خود ہی یہ فیصلہ کئے بیٹھی ہے کہ اگر ملک میں سکون ہوگا اور عوام پر سکون ماحول میں جینے لگیں گے تو ان کی کارستانیوں پر گرفت سخت ہونے لگے گی ۔اس لئے اس نے اپنے ان کارندوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں اور اگر کوئی اس پر احتجاج کرے تو اسے ملک مخالف بتاکر دیوا رسے لگانے کی جانب قدم اٹھایا جائے ۔ایسا ہی پچھلے دنوں ہوا تھا جب دہلی میں طلبہ تنظیموں نے آر ایس ایس دفتر کے باہر احتجاج کیا تو پولس نے انہیں بری طرح زدو کوب کرکے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی اور پولس نے اپنے ساتھ سادہ کپڑوں میں ایسے عناصر کو بھی اس گھناؤنے اور ظالمانہ کام میں لیا جن کے بارے میں اکثریت کی رائے یہ ہے کہ یہ لوگ سنگھ اور اس کی ذیلی تنظیموں کے کارندے تھے ۔اس واقعہ کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد دہلی پولس کٹہرے میں آگئی تھی ۔اس پر ہر طرف سے حملے تیز ہو گئے تھے ۔شاید اسی سے نکلنے کے لئے دہلی پولس اور ان کے ہمنواؤں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں کریک ڈاؤن کرکے اور طلبہ تنظیم کے لیڈر کو گرفتار کرکے یونیورسٹی کے وقار کو نقصان پہنچایا۔جس سے نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے اور روہت ویمولا جس پر وقت کی گرد پڑنے لگی تھی پھر سے تازہ ہونے کی امید ہے ۔کل ملا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ مودی حکومت خود اپنے تابوت میں کیل ٹھونکنے کا کام کررہی ہے بس عوام کو آخری کیل کا انتظار ہے۔ملکی حالات کے موجودہ تناظر میں صدیوں پہلے مرزا غالب نے کہا تھا ’ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق ۔۔نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی ‘ جو آج بھی حالات و واقعات کے عین مطابق ہے ۔ 


نہال صغیر ،موبائل :9987309013

0 comments:

ہندوستان ایک بار پھر سونے کی چڑیا بن سکتا ہے اگر


umar shaikh <umarfarrahi@gmail.com>

عمر فراہی

ملک کے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کےبعد  نریندر مودی کا پہلا دورہ بھوٹان کا تھا -ہمیں  نہیں پتہ کہ انہوں نے سب سے پہلے ایک بہت ہی چھوٹے سے غیر ترقی یافتہ ملک کا دورہ  کرنے کا فیصلہ کیوں کیااور اس کے پیچھے کیا حکمت عملی رہی ہوگی لیکن اگر انہوں نے عرب کے ایک چھوٹے سے مسلم ملک متحدہ عرب امارات اور خاص طور سے دبئ کا دورہ کر لیا ہوتا تو شاید وہ اس نتیجے پر ضرور پہنچنے کی کوشس کرتے کہ اگر دبئ کے حکمراں ایک ریگستان کو سونے کی چڑیا بنا سکتے ہیں تو ہندوستان کے حکمراں کیوں نہیں-مگر ایک کٹر مسلم مخالف سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر یہ سوال بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ انہیں مسلم ممالک پر بہت اعتماد نہیں ہے اور یہ شک جائز بھی ہے کیوں کہ پاکستان جو کہ اپنی مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد پر عربوں سے بہت ہی قریب ہے وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ ہندوستان اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوں - ہندوستان کا شک جائز کہا جاسکتا ہے کیونکہ ہماری سرکار نے کئی بار دبئ کی حکومت سے داؤد ابراہیم کو حوالے کرنے کی مانگ کی مگر اس  حکومت نے داؤد کو ہمارے حوالے نہ کر کے  پاکستان کے حوالے کر دیا - خیر بالآخر دیر ہی سے نریندر مودی نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور شاید دنیا کے کسی ملک میں  انہیں اتنی پذیرائی نہیں ملی یا کسی ملک کے سربراہ نے ذاتی طور پر دنیا کی دوسری عظیم جمہوریت کے وزیراعظم پر اتنی توجہ نہیں دی جو متحدہ عرب امارات کے خلیفہ محمد بن زاید النہیان نے عزت بخشی اور اپنی کٹر اسلامی روایت کے برعکس ابوظہبی میں ہندو مندر کی تعمیر کا تحفہ بھی پیش کیا -ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حال ہی میں ابوظہبی کے بادشاہ کے دورے پر ہماری سرکار بھی بابری مسجد کی دوبارہ  تعمیر کا وعدہ کرکے اینٹ کا جواب پتھر سے دیتی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا - شاید محمد زاید بن النہیان کو بھی دنیا اور ہندوستان کے  مسلمانوں کے مسائل سے اتنی بھی دلچسپی نہیں جتنا کہ امریکہ کے صدر اوبامہ کو ہے جو کہ صرف ایک مسلمان باپ کے بیٹے ہیں انہوں نے اپنی ذمہ داری کا ثبوت اور انسانی غیرت کا اظہار کرتے ہوئے یوم جمہوریہ کے ایک ایسے موقع پر جبکہ اسی دن ہمارے آئین کی تخلیق ہوئی تھی اپنے دوست نریندر مودی کو راج دھرم کے پالن کی تلقین کر ڈالی اور یہ کہنے کی جرات کی کہ ایک ملک جو گاندھی کے اہنسا کا علمبردار تھا اب اس روایت کا پاسدار نہیں رہا -اوبامہ کو یہ بیان دینےکی ضرورت نہیں تھی اور ابھی تک کے کسی امریکی صدر کی یہ روایت بھی نہیں رہی ہے- اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ان کا نقصان بھی نہیں تھا جبکہ اپنے ان الفاظ سے انہوں نے ایک طاقتور ملک کی جمہوری عوام اور میڈیا کو بھی ناراض کیا مگر واپس جانے کے بعد انہوں نے خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی مزار کیلئے چادرروانہ کر کے یہ پیغام بھی دینے کی کوشس کی کہ وہ صرف ہندوستانی سرکار کے ہی مہمان نہیں تھے اور نہ ہی اس آمد اور دعوت میں خاص تجارتی مقاصد ہی شامل ہیں بلکہ وہ اپنی واپسی پر ہندوستان کی دبی کچلی اقلیتوں کا درد بھی ساتھ لیکر جارہے ہیں -بدقسمتی سے ابوظہبی کے خلیفہ محمد بن زاید نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا-مگر کچھ خاص تجارتی معاہدے کے علاوہ جو سب سے اہم بات کی گئی وہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور اتحاد واتفاق کے معاملات پر سنجیدہ رخ اختیار کرنا ہے  -چونکہ عرب ممالک کے سربراہان 2010 کے عرب انقلاب کے بعد اپنے اقتدار کے چھن جانے کی دہشت میں مبتلا ہیں اس لئے اب 2013 میں عرب حریت پسندوں کی مسلح جدوجہد نے جو عالمگیر تحریک اختیار کر لی ہے اس تحریک سے تقریباً ہر وہ ممالک خوفزدہ ہیں جہاں سیاستدانوں کی بد نظمی اور بدعنوانی عروج پر ہے اور یہ نہیں چاہتے کہ ایسے کسی ملک میں عام آدمی کے انقلاب کو شہرت حاصل ہو اور انہیں کسی بھی عوامی انقلاب کی صورت میں اپنی ناجائز قبضہ کی ہوئی دولت کا حساب دینا پڑے -ابوظہبی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اسی عالمی حکمت عملی کے تحت پچھلے ایک سالوں میں عرب حریت پسندوں سے رابطے کے الزام میں کئی مسلمان لڑکوں کو ہندوستانی سرکار کو سونپا ہے - خودہمارے ملک میں بھی ہماری حکومت نے اپنے عرب مہمان کو خوش کرنے کیلئے ان  کے آنے سے پہلے ہی عرب حریت پسندوں  سے رابطے کے الزام میں  تقریباً بیس سے پچیس مسلم نوجوانوں کی  گرفتاری کی ویڈیو تیار کر لی تھی-اس کے علاوہ ان گرفتایوں کے پیچھے ایک مقصد یہ بھی ہے  کہ ملک کے دیگر پسماندہ طبقات میں جو بے چینی پائی جاتی ہے اور مختلف اوقات میں جو روہت ویمولا اور کنہیا کمار جیسے نڈر ہندو نوجوان سر اٹھا رہے ہیں وہ اس دہشت سے خاموش رہیں - ہماری سرکاریں کہاں تک اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوتی ہیں اور یقیناً زیادہ دن تک کامیاب بھی نہیں ہو سکتیں ہیں کیونکہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اکیسویں صدی کو انیسوی صدی سے بالکل مختلف بنا دیا ہے اور ملک کے نوجوان اس میڈیا کے ذریعے بغیر مذہب ملت کی تفریق کے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اور پوری دنیا میں کیسے  کیا ہورہا ہے انہیں پتہ ہے -سوال یہ ہے کہ ابو ظہبی کے حکمراں نے تو اپنے مفاد کیلئے  ہمییں کچھ دینے کی کوشس کی مگر مودی جی نے متحدہ عرب امارات کے دورےسے کیا سیکھا اور جو کچھ ہم نےان سے  حاصل کیا ہے کیا ہم اس کا فائدہ بھی اٹھا سکیں گے -میرا مطلب یہ ہے کہ اس ملک کو مسلم حکمرانوں اور خاص طور سے مغلوں نے اگر اکھنڈ بھارت اور سونے کی چڑیا بنایا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اس ملک کو اپنا ملک سمجھا اور جس طرح ایک شخص اپنے گھر اور کمرے کو خوبصرتی سے سجاتا ہے انہوں نے خوبصورت عمارت اور سڑکوں سے آراستہ کیا اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پورے ہندوستان میں ریاستوں اور شہروں کی منصوبہ بندی سے لیکر ان کے درمیان نظم وضبط عدلیہ کے ساتھ ساتھ  پل اور سڑک کی صورت میں آمدورفت کا نظام بھی انہیں کا بنایا ہوا ہے اور بعد میں انگریزوں نے جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے جگہ جگہ ریلوے لائن کی شروعات کی جس کا فاںُدہ بھی ہم اٹھا رہے ہیں مگر آذادی کے تقریباً ستر سالوں میں ایک دو میٹرو لائن اور کوکن ریلوے کے علاوہ ملک کی ترقی میں اگر ہماری کوئی قربانی ہے تو وہ صرف ایک عدد پارلیمنٹ اور اربوں روپئے کے قرض کا بوجھ ہے -تعجب ہے کہ ہم جن عربوں کو جاہل اور عیاش کہتے ہیں انہوں نے کم سے کم اپنی عوام کی بنیادی ضروریات میں کوئی کمی نہیں کی-اس مضمون کے شروع میں ہم نے اپنے وزیراعظم کو اسی لئے مشورہ دیا ہے کہ انہیں پہلے دبئ جانا چاہیے تھا کیونکہ وہ بھی ایک پسماندہ ملک تھا ان کے پاس کوئی پٹرول کی دولت نہیں تھی- وہاں کے لوگ سمندروں سے مچھلیاں مارنے کا کام کرتے تھے مگر سمندروں میں کشتیوں کا کھیل کھیلنے والے عربوں نے سمندر سے موتیاں تلاش کرنا شروع کر دیں -اور پھر ایک زمانہ یہ بھی آیا کہ مچھلیوں اور موتیوں کا کاروبار کرنے والے ملاحوں نے دبئ کو دنیا کےمرکزی بازار میں تبدیل کردیا اور اب دنیا کی ہر کمپنی جسے  دیگرممالک میں اپنے مال کو بیچنا ہوتا ہے کوشس کرتی ہے کہ دبئ میں اس کا اپنا شو روم ہو -سوال یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جس کے پاس مغلوں اور انگریزوں کا دیا ہوا سب کچھ موجود تھااس نے زرخیز زمین کو بھی بنجر بنا دیا اور عربوں نے اس کے باوجود کہ ان کے یہاں آئ اے ایس اور آئی ایف ایس کی ڈگری لئے ہوئے  تعلیم یافتہ نوجوان بھی نہیں ہیں وہاں کے حاکموں نے یوروپ سے  رابطہ بنا کر تیل کی ندی بہا دی اس کے علاوہ خوبصورت عمارات, آمدورفت کا نظام  ,تعلیم وتربیت ,ہاسپٹل اور سیرو تفریح کی سہولیات کے ساتھ ساتھ جو نظم و ضبط اور قانون اور قاعدے بنائے ہیں کم سے کم دنیا کے غیر مسلم امیر طبقات کا یہ خواب ہے کہ اگر انہیں امریکہ میں گرین کارڈ نہ مل پائے تو دبئ میں  رہائش کی اجازت تو مل ہی جائے-ایک زمانہ تھا کولمبس بھی یہی خواب لیکر ہندوستان کو ڈھونڈھنے نکلا تھا آج کا کولمبس دبئ کی تلاش میں ہے-اس وقت قدیم ہندوستان اگر سونے کی چڑیا بن سکا تو اس لئے کہ مغلوں نے ہندوستان کو دل سے اپنا ملک تسلیم کیا اور اسے اپنے گھر اور دروازے کی طرح اپنا کر سجایا- ہندوستان آج بھی سونے کی چڑیا بن سکتا ہے اگر ہمارے سیاستداں اسے دل سے اپنا بنا لیں اور دیش بھگتی کا جھوٹا ڈرامہ نہ کریں -

0 comments: