ہندوستان ایک بار پھر سونے کی چڑیا بن سکتا ہے اگر

7:32 PM nehal sagheer 0 Comments


umar shaikh <umarfarrahi@gmail.com>

عمر فراہی

ملک کے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کےبعد  نریندر مودی کا پہلا دورہ بھوٹان کا تھا -ہمیں  نہیں پتہ کہ انہوں نے سب سے پہلے ایک بہت ہی چھوٹے سے غیر ترقی یافتہ ملک کا دورہ  کرنے کا فیصلہ کیوں کیااور اس کے پیچھے کیا حکمت عملی رہی ہوگی لیکن اگر انہوں نے عرب کے ایک چھوٹے سے مسلم ملک متحدہ عرب امارات اور خاص طور سے دبئ کا دورہ کر لیا ہوتا تو شاید وہ اس نتیجے پر ضرور پہنچنے کی کوشس کرتے کہ اگر دبئ کے حکمراں ایک ریگستان کو سونے کی چڑیا بنا سکتے ہیں تو ہندوستان کے حکمراں کیوں نہیں-مگر ایک کٹر مسلم مخالف سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر یہ سوال بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ انہیں مسلم ممالک پر بہت اعتماد نہیں ہے اور یہ شک جائز بھی ہے کیوں کہ پاکستان جو کہ اپنی مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد پر عربوں سے بہت ہی قریب ہے وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ ہندوستان اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوں - ہندوستان کا شک جائز کہا جاسکتا ہے کیونکہ ہماری سرکار نے کئی بار دبئ کی حکومت سے داؤد ابراہیم کو حوالے کرنے کی مانگ کی مگر اس  حکومت نے داؤد کو ہمارے حوالے نہ کر کے  پاکستان کے حوالے کر دیا - خیر بالآخر دیر ہی سے نریندر مودی نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور شاید دنیا کے کسی ملک میں  انہیں اتنی پذیرائی نہیں ملی یا کسی ملک کے سربراہ نے ذاتی طور پر دنیا کی دوسری عظیم جمہوریت کے وزیراعظم پر اتنی توجہ نہیں دی جو متحدہ عرب امارات کے خلیفہ محمد بن زاید النہیان نے عزت بخشی اور اپنی کٹر اسلامی روایت کے برعکس ابوظہبی میں ہندو مندر کی تعمیر کا تحفہ بھی پیش کیا -ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حال ہی میں ابوظہبی کے بادشاہ کے دورے پر ہماری سرکار بھی بابری مسجد کی دوبارہ  تعمیر کا وعدہ کرکے اینٹ کا جواب پتھر سے دیتی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا - شاید محمد زاید بن النہیان کو بھی دنیا اور ہندوستان کے  مسلمانوں کے مسائل سے اتنی بھی دلچسپی نہیں جتنا کہ امریکہ کے صدر اوبامہ کو ہے جو کہ صرف ایک مسلمان باپ کے بیٹے ہیں انہوں نے اپنی ذمہ داری کا ثبوت اور انسانی غیرت کا اظہار کرتے ہوئے یوم جمہوریہ کے ایک ایسے موقع پر جبکہ اسی دن ہمارے آئین کی تخلیق ہوئی تھی اپنے دوست نریندر مودی کو راج دھرم کے پالن کی تلقین کر ڈالی اور یہ کہنے کی جرات کی کہ ایک ملک جو گاندھی کے اہنسا کا علمبردار تھا اب اس روایت کا پاسدار نہیں رہا -اوبامہ کو یہ بیان دینےکی ضرورت نہیں تھی اور ابھی تک کے کسی امریکی صدر کی یہ روایت بھی نہیں رہی ہے- اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ان کا نقصان بھی نہیں تھا جبکہ اپنے ان الفاظ سے انہوں نے ایک طاقتور ملک کی جمہوری عوام اور میڈیا کو بھی ناراض کیا مگر واپس جانے کے بعد انہوں نے خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی مزار کیلئے چادرروانہ کر کے یہ پیغام بھی دینے کی کوشس کی کہ وہ صرف ہندوستانی سرکار کے ہی مہمان نہیں تھے اور نہ ہی اس آمد اور دعوت میں خاص تجارتی مقاصد ہی شامل ہیں بلکہ وہ اپنی واپسی پر ہندوستان کی دبی کچلی اقلیتوں کا درد بھی ساتھ لیکر جارہے ہیں -بدقسمتی سے ابوظہبی کے خلیفہ محمد بن زاید نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا-مگر کچھ خاص تجارتی معاہدے کے علاوہ جو سب سے اہم بات کی گئی وہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور اتحاد واتفاق کے معاملات پر سنجیدہ رخ اختیار کرنا ہے  -چونکہ عرب ممالک کے سربراہان 2010 کے عرب انقلاب کے بعد اپنے اقتدار کے چھن جانے کی دہشت میں مبتلا ہیں اس لئے اب 2013 میں عرب حریت پسندوں کی مسلح جدوجہد نے جو عالمگیر تحریک اختیار کر لی ہے اس تحریک سے تقریباً ہر وہ ممالک خوفزدہ ہیں جہاں سیاستدانوں کی بد نظمی اور بدعنوانی عروج پر ہے اور یہ نہیں چاہتے کہ ایسے کسی ملک میں عام آدمی کے انقلاب کو شہرت حاصل ہو اور انہیں کسی بھی عوامی انقلاب کی صورت میں اپنی ناجائز قبضہ کی ہوئی دولت کا حساب دینا پڑے -ابوظہبی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اسی عالمی حکمت عملی کے تحت پچھلے ایک سالوں میں عرب حریت پسندوں سے رابطے کے الزام میں کئی مسلمان لڑکوں کو ہندوستانی سرکار کو سونپا ہے - خودہمارے ملک میں بھی ہماری حکومت نے اپنے عرب مہمان کو خوش کرنے کیلئے ان  کے آنے سے پہلے ہی عرب حریت پسندوں  سے رابطے کے الزام میں  تقریباً بیس سے پچیس مسلم نوجوانوں کی  گرفتاری کی ویڈیو تیار کر لی تھی-اس کے علاوہ ان گرفتایوں کے پیچھے ایک مقصد یہ بھی ہے  کہ ملک کے دیگر پسماندہ طبقات میں جو بے چینی پائی جاتی ہے اور مختلف اوقات میں جو روہت ویمولا اور کنہیا کمار جیسے نڈر ہندو نوجوان سر اٹھا رہے ہیں وہ اس دہشت سے خاموش رہیں - ہماری سرکاریں کہاں تک اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوتی ہیں اور یقیناً زیادہ دن تک کامیاب بھی نہیں ہو سکتیں ہیں کیونکہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اکیسویں صدی کو انیسوی صدی سے بالکل مختلف بنا دیا ہے اور ملک کے نوجوان اس میڈیا کے ذریعے بغیر مذہب ملت کی تفریق کے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اور پوری دنیا میں کیسے  کیا ہورہا ہے انہیں پتہ ہے -سوال یہ ہے کہ ابو ظہبی کے حکمراں نے تو اپنے مفاد کیلئے  ہمییں کچھ دینے کی کوشس کی مگر مودی جی نے متحدہ عرب امارات کے دورےسے کیا سیکھا اور جو کچھ ہم نےان سے  حاصل کیا ہے کیا ہم اس کا فائدہ بھی اٹھا سکیں گے -میرا مطلب یہ ہے کہ اس ملک کو مسلم حکمرانوں اور خاص طور سے مغلوں نے اگر اکھنڈ بھارت اور سونے کی چڑیا بنایا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اس ملک کو اپنا ملک سمجھا اور جس طرح ایک شخص اپنے گھر اور کمرے کو خوبصرتی سے سجاتا ہے انہوں نے خوبصورت عمارت اور سڑکوں سے آراستہ کیا اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پورے ہندوستان میں ریاستوں اور شہروں کی منصوبہ بندی سے لیکر ان کے درمیان نظم وضبط عدلیہ کے ساتھ ساتھ  پل اور سڑک کی صورت میں آمدورفت کا نظام بھی انہیں کا بنایا ہوا ہے اور بعد میں انگریزوں نے جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے جگہ جگہ ریلوے لائن کی شروعات کی جس کا فاںُدہ بھی ہم اٹھا رہے ہیں مگر آذادی کے تقریباً ستر سالوں میں ایک دو میٹرو لائن اور کوکن ریلوے کے علاوہ ملک کی ترقی میں اگر ہماری کوئی قربانی ہے تو وہ صرف ایک عدد پارلیمنٹ اور اربوں روپئے کے قرض کا بوجھ ہے -تعجب ہے کہ ہم جن عربوں کو جاہل اور عیاش کہتے ہیں انہوں نے کم سے کم اپنی عوام کی بنیادی ضروریات میں کوئی کمی نہیں کی-اس مضمون کے شروع میں ہم نے اپنے وزیراعظم کو اسی لئے مشورہ دیا ہے کہ انہیں پہلے دبئ جانا چاہیے تھا کیونکہ وہ بھی ایک پسماندہ ملک تھا ان کے پاس کوئی پٹرول کی دولت نہیں تھی- وہاں کے لوگ سمندروں سے مچھلیاں مارنے کا کام کرتے تھے مگر سمندروں میں کشتیوں کا کھیل کھیلنے والے عربوں نے سمندر سے موتیاں تلاش کرنا شروع کر دیں -اور پھر ایک زمانہ یہ بھی آیا کہ مچھلیوں اور موتیوں کا کاروبار کرنے والے ملاحوں نے دبئ کو دنیا کےمرکزی بازار میں تبدیل کردیا اور اب دنیا کی ہر کمپنی جسے  دیگرممالک میں اپنے مال کو بیچنا ہوتا ہے کوشس کرتی ہے کہ دبئ میں اس کا اپنا شو روم ہو -سوال یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جس کے پاس مغلوں اور انگریزوں کا دیا ہوا سب کچھ موجود تھااس نے زرخیز زمین کو بھی بنجر بنا دیا اور عربوں نے اس کے باوجود کہ ان کے یہاں آئ اے ایس اور آئی ایف ایس کی ڈگری لئے ہوئے  تعلیم یافتہ نوجوان بھی نہیں ہیں وہاں کے حاکموں نے یوروپ سے  رابطہ بنا کر تیل کی ندی بہا دی اس کے علاوہ خوبصورت عمارات, آمدورفت کا نظام  ,تعلیم وتربیت ,ہاسپٹل اور سیرو تفریح کی سہولیات کے ساتھ ساتھ جو نظم و ضبط اور قانون اور قاعدے بنائے ہیں کم سے کم دنیا کے غیر مسلم امیر طبقات کا یہ خواب ہے کہ اگر انہیں امریکہ میں گرین کارڈ نہ مل پائے تو دبئ میں  رہائش کی اجازت تو مل ہی جائے-ایک زمانہ تھا کولمبس بھی یہی خواب لیکر ہندوستان کو ڈھونڈھنے نکلا تھا آج کا کولمبس دبئ کی تلاش میں ہے-اس وقت قدیم ہندوستان اگر سونے کی چڑیا بن سکا تو اس لئے کہ مغلوں نے ہندوستان کو دل سے اپنا ملک تسلیم کیا اور اسے اپنے گھر اور دروازے کی طرح اپنا کر سجایا- ہندوستان آج بھی سونے کی چڑیا بن سکتا ہے اگر ہمارے سیاستداں اسے دل سے اپنا بنا لیں اور دیش بھگتی کا جھوٹا ڈرامہ نہ کریں -

0 comments: