نریندر مودی الیکٹرونک میڈیا کے وزیر اعظم


الیکشن 2014 کو بھارت کی تاریخ کا سب سے فیصلہ کن الیکشن کہیں تو بیجا نہیں ہوگا ۔اگر تھوڑی دیر کیلئے ہم مان لیں کہ بی جے پی اور کانگریس دو الگ نظریات کی پارٹی ہے ۔تو یہ حالات سے سے ظاہر ہے کہ دونوں کیلئے ہی فیصلہ کن اور کرو یا مرو والی پوزیشن ہے ۔ویسے دونوں کا دو الگ نظریہ مان لینا سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں ۔جنگ آزادی کے دوران اور اس کے بعد 65 سالہ کانگریسی دور حکومت میں ہونے والے فسادات اور مسلمانوں سے برتے جانے والے امتیازات یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ بی جے پی اور کانگریس میں زیادہ کچھ فرق نہیں ہے ۔فرق اگر ہے تو اتنا کہ آزادی سے قبل کانگریس دو حصوں میں منقسم تھی تشدد پسند اور گاندھی جی کی قیادت والی اہنسا وادی ۔آزادی کے بعد کانگریس اور بی جے پی (یا جن سنگھ،ہندو مہاسبھا وغیرہ) نرم ہندوتوا وادی اور سخت گیر ہندوتوا وادی۔ یہی کھیل ابھی بھی کھیلا جارہا ہے ۔آر ایس ایس کے موجودہ سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کی ان باتوں نے مجھے کوئی حیرت میں نہیں ڈالا تھا کہ سنگھ کے لوگ سبھی پارٹیوں میں ہیں یہاں تک کمیونسٹ پارٹیوں میں بھی ۔میں اس بات کو بھی نہیں مانتا کہ آر ایس ایس کسی ہندو اسٹیٹ کو قائم کرنا چاہتی ہے بلکہ وہ ایک برہمن اسٹیٹ قائم کرنا چاہتا ہے ۔جس میں ذات پات کا ظالمانہ اور غیر انسانی نظام قائم ہوگا اس میں مسلمانوں کی کیا پوزیشن ہوگی اسے تو درکنار کیا جائے لیکن اس میں خود اس گروہ سے تعلق رکھنے والے پسماندہ طبقات کا کیا ہوگا وہ ان کی سوچ اور ان کی منو وادی سیاست سے ظاہر ہے جس کو ہزاروں سالوں کی تاریخ نے محفوظ کیا ہوا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی دلت وزیر اعظم نہیں بنا ہاں صدرجمہوریہ بنا ہے اور اس کی حیثیت کیا ہے وہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں ۔
موجودہ الیکشن کا بگل بجنے کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے وہ خواہ راہل گاندھی کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کو پاکستانی خفیہ ایجنسی سے جوڑنا ہو ،مولانا محمود مدنی کا کانگریس کے بارے میں بیان ’’صاف چھپتے بھی نہیں پاس آتے بھی نہیں ‘‘ والا ہو یا بہار کے بی جے پی کی ہونکار ریلی میں آئی بی کی اختراع انڈین مجاہدین کے ذریعہ دھماکہ ہو یہ سب سوچے سمجھے پلان کا حصہ ہیں ۔اس میں سے کوئی بھی اچانک وقوع پذیرنہیں ہوا ۔ یہاں تک کہ سردار پٹیل کے نام کو گھسیٹا جانا بھی الیکشنی منصوبہ کا ہی حصہ ہے تاکہ اگر کچھ ووٹ ادھر ادھر ہو تو سردار پٹیل کی ہندوتوا والی پوزیشن کو کیش کروایا جائے ۔اور سب کچھ بہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ بالکل منصوبے کے مطابق انجام دیاجارہا ہے ابھی تک کہیں بھی کوئی روکاوٹ نہیں آئی ہے ۔کانگریس بھی اسی منصوبے پر عمل پیرا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کے RTI ،RTE منریگا اورغذائی تحفظ بل کو بھی کوئی خاص حصولیابی نہیں مل سکے گی ۔بی جے پی ،سنگھ اور کانگریس کے اندر کے سنگھیوں نے مل کر بہت بڑا الیکشنی گیم پلان تیار کیا ہے ۔رفتہ رفتہ انہوں نے مودی کو وزیر اعظم کا امید وار بناہی دیا ۔اس میں پورا الیکٹرانک میڈیا شامل ہے اور ظاہر ہے کہ الیکٹرانک میڈیا یوں ہی شامل نہیں ہے کتنے ارب روپئے دئے گئے ہونگے اور کئی خوشنما وعدے ہونگے اس کو کہا نہیں جاسکتا نہ ہی یہ کبھی منظر عام پر آسکتا ہے ۔کیوں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں ۔آج بروزجمعہ 8 ؍نومبر کو نریندر مودی کی انتخابی ریلی جو کہ اتر پردیش کے بہرائچ میں تھی جس طرح دس سے زیادہ انگلش اور ہندی نیوز چینلوں نے لائیو ٹیلی کاسٹ کیا وہ کہانی بیان کرنے کیلئے کافی ہے کہ دراصل نریندر مودی کو سرمایہ داروں اور الیکٹرانک میڈیا نے وزیر اعظم کا امید وار بنایا ہے ۔دوران ٹیلی کاسٹ یہ جاننے کی بار بار کوشش کی کہ دیکھیں عوام کی تعداد کیا ہے لیکن سبھی چینل بڑی عیاری سے اس کا کوریج کررہے تھے ۔وہ عوام کو دکھاتے تو ایک خاص زاویہ سے اور وہ بھی اتنی تیزی کے ساتھ آپ اندازہ ہی نہیں لگاسکتے ۔یعنی اتنا خرچ کرنے اور میڈیا کو مینج کرنے کے باوجود عوامی طور پر نریندر مودی کے جادو کا کوئی اثر نہیں دکھ رہا ہے ۔پھر بھی جس طرح ایک ایک مہرے اپنی اوقات کے حساب سے آگے بڑھائے جارہے ہیں اس کی وجہ سے قبل از وقت کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ۔
نریندر مودی بڑی چالاکی سے دو باتوں کو اپنی الیکشنی کمپین میں بیان کرتے ہوئے نظر آئے پٹنہ میں دھماکہ کو کانگریس کی سازش بتایا اور دوسرے گجرات کی ترقی کا شور جس کی ہوا کئی بار نکل چکی ہے ۔لیکن بہرحال اتر پردیس اور بہار میں جو پسماندگی ہے وہ عوام کے مزاج کو کبھی بھی بدل سکتا ہے ۔گرچہ بہار میں نتیش کی حکومت نے بجلی کی حالت کچھ بہتر کی ہے جہاں ہفتہ میں ایک دو گھنٹہ بجلی ہوا کرتی تھی اس بار وہاں بھی روزانہ آٹھ سے دس گھنٹہ بجلی دیکھی گئی اور شہروں میں بیس بائیس گھنٹے بجلی آرہی ہے ۔اتر پردیش میں لیکن ابھی بھی حالت ویسی ہی ہے ۔یہ بھی صحیح ہے کہ اکھلیش حکومت کی ڈیڑھ سالہ حکومت میں کوئی جادو نہیں ہو سکتا لیکن تبدیلی تو بہر حال نظر آنی چاہئے ۔تبدیلی آئی بھی ہے لیکن وہ ڈیڑھ سو سے زیادہ فسادات کی صورت میں ۔جس سے اتر پردیش کا مسلمان کافی ناراض ہے ۔امن و قانون کی دیگر صورت حال پر بھی اکھلیش حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔جس سے یقیناًمخالف قوتیں فائدہ اٹھائیں گی۔اکھلیش کا طلباء کو لیپ ٹاپ اور ودھیا دھن یوجنا کتنا کارگر ثابت ہوگا اور یہ کہ اس میں بی جے پی کس قدر سیندھ لگا سکتی ہے یہ وقت بتائے گا ۔ایسی صورت میں بی جے پی کو فائدہ تو ہوگا ہی لیکن اسقدر نہیں جس قدر میڈیا میں شور مچایا جارہا ہے اور بی جے پی آر ایس ایس اور ان کے ہمنوا دکھا رہے ہیں کہ گویا بس اس بار مودی ایک کرشماتی شخصیت بن کر ابھریں گے اور بی جے پی کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگادیں گے ۔ایسا کچھ ہوتا تو پٹنہ سمیت آج کی بہرائچ کی ریلی میں عوام کا جم غفیر نظر آتا لیکن مودی کی کرشماتی شخصیت کا سارا بھانڈا ہی پھوٹ گیا جہاں عوام کی عدم دلچسپی ان کی تعداد کی کمی سے صاف نظر آرہی تھی ۔اگر بی جے پی کو کوئی چیز فائدہ پہنچاسکتی ہے تو وہ کانگریس کی منافقت اور دیگر سیاسی پارٹیوں کی آپسی سر پھٹول اور کئی لوگوں کا پی ایم ان ویٹنگ میں ہونا ۔اور یہ بھارت اور اس کے عوام کی بد قسمتی ہی کہی جائیگی کہ جب فرقہ پرستوں کو ٹھکانے لگانے کا پورا موقع موجود تھا جب بھی یہ متحد ہو کر کچھ نہیں کر سکے پھر چاہے قیامت تک فرقہ پرستوں کو کوستے رہنے سے ملک کا کوئی بھلا نہیں ہونا ۔
نہال صغیر۔ موبائل۔9987309013  sagheernehal@gmail.com

0 comments:

“The Presidential Order of 1950: A Fraud on the Constitution.”



Paper submitted by Mr Mushtaq Ahmad, Advocate-on-Record, Supreme Court of India, New Delhi; Two-Day National Conference on Caste, Religion and Reservation with Special Focus on Dalit Muslims and Dalit Christians.
Dr K.R. Narayanan Centre for Dalit and Minorities Studies, Jamia Millia Islamia, New Delhi.
Greetings!
The third paragraph of the Constitution (Scheduled Caste) Order 1950, popularly known as Presidential Order, stipulates that “no person who professes a religion different from Hinduism, Sikhism and Buddhism shall be deemed to be a member of Scheduled caste.” Thus the Christians and Muslims of Scheduled Caste Origin are deprived of Scheduled Caste rights.
To announce the above said paragraph 3 as unconstitutional, (Civil)Writ Petitions were filed in the Supreme Court against Union of India.
Concerned with the above said cases, Government of India had taken the following cabinet decision and referred the matter to the National Commission for Religious and Linguistic Minorities (NCRLM).
“To give its recommendations (granting Scheduled Caste status to Dalit Christians) on the issues raised in various Writ Petitions filed in the Supreme Court and in certain High Courts relating to Constitutional validity of Para 3 of the Constitution (Scheduled Caste) order, 1950, in the context of ceiling of 50% on reservation as also the modalities of inclusion in the list of scheduled castes”.
On 28-11-2005 hearing, The Supreme Court Order is as follows:
“The challenge in this matter is the constitutional validity of paragraph 3 of the Constitution (Scheduled Caste) order, 1950. In substance, the grievance projected by the petitioners is that Scheduled Castes, on conversion of their religion to Christianity, lose all their benefits as Scheduled castes on account of the operation of paragraph (3) of the aforesaid order and, thus, the order is Constitutionally invalid. We may examine, if necessary, this question after we are informed as to the progress made in the proceedings before the National Commission for Religious and Linguistic Minorities. It has been pointed out that on 28th September 2005, terms of reference of the Commission have been amended and the commission has been asked to give its recommendation on the issues raised herein as also in the context of the ceiling of fifty per cent on reservation in terms of the decision of this court in Indra Sawhney Vs. Union of India and others (1992 Suppl. (3) S.C.C. 217). On the issues involved, at this stage, we express no opinion. We may have to hear the matter in detail after information is supplied, as afore noted. We are not linking the examination of the issue by this court only on the recommendation by the Commission and have directed for the afore said information because that may facilitate the examination, by this court”.
 As per the cabinet decision of the Union of India and the order of the Supreme Court of India, the National Commission for Religious and Linguistic Minorities (NCRLM) Report volume I, page 154, part 16.3.5 declares as follows:
NCRLM Report volume I, page 141, Sub division ‘a’
“So the Presidential Order of 1950 is unconstitutional and it is a black letter
written outside the constitution introduced through the back door by an
executive order Para 3 of the presidential order is anathema which disfigures
the beauty of the written Constitution of India.”
(Note: The NCRLM report was tabled in the Parliament without Action Taken
Report in December 2009).
The Supreme Court of India Order on 23-01-2008
“Learned Additional Solicitor General seeks eight weeks time to take a
decision in the matter, time sought is granted”.


As per the following letters the Secretary and the Director of Ministry of Social
Justice and Empowerment had requested the Central Agency Section, Ministry
of Law and Justice, Department of Legal Affairs, Supreme Court Building,
New Delhi to give them time to file a reply by the Indian Government.
i. D.O.No.12018/4/2005-SCD (R.L.Cell) July 13, 2009-Supreme Court may
be requested to give four months time to file the stand of Union of India.
ii. D.O.No.12018/4/2005-SCD (R.L.Cell) August 3, 2009 seek another four
months time for finalizing the stand of the Union of India.
iii. D.O.NO.12018/4/2005-SCD (R.L.Cell) October 5, 2009 seek another six
months time, for finalizing the stand of the Union of India.
iv. D.O.NO.12018/4/2005-SCD(R.L.Cell) December 7,2009 seek another
four months time for finalizing the stand of the Union of India.
v. D.O.NO.12018/4/2005-SCD (R.L.Cell) January 7, 2009 seek another
three months time, for finalizing the stand of the Union of India.
vi. D.O.NO.12018/4/2005-SCD (R.L.Cell) April 2, 2010 seek another three
months time, for finalizing the stand of the Union of India.
vii. D.O.NO.12018/4/2005-SCD (R.L.Cell) January 8, 2010 seek three
months time, for finalizing the stand of the Union of India.
As on date, response of the Union of India is not filed in the Supreme Court of India.
The Supreme Court had passed the following Order on 21st January, 2011
(headed by the Chief Justice Honourable Kapadia, Honorable Justice Swantrakumar and Honorable Justice Panikkar Radhakrishnan). On oral application made by learned counsel for the petitioners, National Commission for Minorities and National Commission for Scheduled Castes are to be added as party respondents since for the following constitutional issues are arising:
[1] Whether Paragraph (3) of the Constitution (Scheduled Caste) Order,
1950 issued in exercise of Article 341(1) of the Constitution of India,
which says that, “Notwithstanding anything contained in paragraph 2, no
person who professes a religion different from Hinduism, Sikhism and
Buddhism shall be deemed to be a member of a Scheduled Caste” is
unconstitutional and void, being violative of Articles 14, 15, 16 and 25 of
the Constitution of India?
[2] Whether a Scheduled Caste person professing a religion different from
Hinduism, Sikhism and Buddhism can be deprived of the benefit of
Paragraph 3 of the Constitution (Scheduled Castes) Order, 1950, in
violation of Articles 14, 15, 16 and 25 of the Constitution of India?
[3] Whether non-inclusion of “Christians” and “Muslims’ in Paragraph (3) of
the Constitution (Scheduled Castes) Order, 1950, along with Hinduism,
Sikhism and Buddhism, is discriminatory and violative of Articles 14,
15, 16 and 25 of the Constitution of India?
Both National Commission for Minorities and the National Commission for Scheduled Castes had filed very good written statement in favour of Dalit Christians and Dalit Muslims for granting them the Scheduled Castes status.
Constitutional validity of Paragraph 3 of the Constitution (Scheduled Castes) Order 1950.
Article 341(1) of the Constitution of India:
The President may with respect to any State or Union territory, and where it is a State after consultation with the Governor thereof, by public notification, specify the castes, races or tribes or parts of or groups within castes, races or tribes which shall for the purposes of this Constitution be deemed to be Scheduled Castes in relation to that State or Union territory, as the case may be.
But in the Constitution (Scheduled Caste) order 1950, President of India had brought religious restriction arbitrarily, it is nothing but a Constitutional fraud.
The term “Scheduled Castes” is defined in article 366(24) of the Constitution of India as follows:-“Scheduled Castes” means such castes, races or tribes or parts of or groups within such castes, races or tribes  as are deemed under Article 341 to be Scheduled castes for the purposes of the Constitution.”
Explanation:
14. Equality before law:
The State shall not deny to any person equality before the law or the equal protection of the laws within the territory of India.
15. Prohibition of discrimination on grounds of religion, race, caste, sex or place of birth.
(1) The State shall not discriminate against any citizen on grounds only of religion, race, caste, sex, place of birth or any of them.
(2) No citizen shall, on grounds only of religion, race, caste, sex, place of birth or any of them, be subject to any disability, liability, restriction or condition with regard to-
(a) Access to shops, public restaurants, hotels and places of public entertainment; or
(b) The use of wells, tanks, bathing ghats, roads and places of public resort maintained wholly or partly out of State funds or dedicated to the use of the general public.
(3) Nothing in this article shall prevent the State from making any special provision for women and children.
10[(4) Nothing in this article or in clause (2) of article 29 shall prevent the State from making any special provision for the advancement of any socially and educationally backward classes of citizens or for the Scheduled Castes and the Scheduled Tribes.
16. Equality of opportunity in matters of public employment.- 
(1) There shall be equality of opportunity for all citizens in matters relating to employment or appointment to any office under the State. 
(2) No citizen shall, on grounds only of religion, race, caste, sex, descent, place of birth, residence or any of them, be ineligible for, or discriminated against in respect of, any employment or office under the State. 
(3) Nothing in this article shall prevent Parliament from making any law prescribing, in regard to a class or classes of employment or appointment to an office under the Government of, or any local or other authority within, a State or Union territory, any requirement as to residence within that State or Union territory prior to such employment or appointment. 
12 (4A)  Nothing in this article shall prevent the State from making any provision for reservation in matters of promotion to any class or classes of posts in the services under the State in favour of the Scheduled Castes and the Scheduled Tribes which, in the opinion of the State, are not adequately represented in the services under the State.
12A (4B) Nothing in this article shall prevent the State from considering any unfilled vacancies of a year which are reserved for being filled up in that year in accordance with any provision for reservation made under clause (4) or clause (4A) as a separate class of vacancies to be filled up in any succeeding year or years and such class of vacancies shall not be considered together with the vacancies of the year in which they are being filled up for determining the ceiling of fifty per cent. reservation on total number of vacancies of that year.
(5) Nothing in this article shall affect the operation of any law which provides that the incumbent of an office in connection with the affairs of any religious or denominational institution or any member of the governing body thereof shall be a person professing a particular religion or belonging to a particular denomination.
25. Freedom of conscience and free profession, practice and propagation of religion.
(1) Subject to public order, morality and health and to the other provisions of this Part, all persons are equally entitled to freedom of conscience and the right freely to profess, practise and propagate religion.
(2) Nothing in this article shall affect the operation of any existing law or prevent the State from making any law
(a) Regulating or restricting any economic, financial, political or other secular activity which may be associated with religious practice;
(b) Providing for social welfare and reform or the throwing open of Hindu religious institutions of a public character to all classes and sections of Hindus.
Explanation I. The wearing and carrying of kirpans shall be deemed to be included in the profession of the Sikh religion.
Explanation II.- In sub-clause (b) of clause (2), the reference to Hindus shall be construed as including a reference to persons professing the Sikh, Jaina or Buddhist religion, and the reference to Hindu religious institutions shall be construed accordingly.

0 comments:

الیکشن 2014 :سیاسی بساط بچھائی جارہی ہے ،مہرے تبدیل کئے جارہے ہیں !


الیکشن 2014 کی ساری تیاری ہو چکی ہیں سیاسی مہاشے کچھ اپنے خول سے نکلنے لگے ہیں تو کوئی اپنے خول میں واپس جارہے ہیں ۔جس نے کھلے عام مسلم دشمنی کا وطیرہ اپنا رکھا تھا وہ مسلمانوں کا مسیحا بننے کی تگ و دو میں ہے ۔جو آزادی کی صبح سے ہی مسلم نوازی اور مسلم مسیحائی کا دعویدار تھا اس نے مسلم نوجوانوں کا تعلق آئی ایس آئی سے جوڑ دیا ۔کل ملا کر سیاست کے اکھاڑے میں سارے سیاسی پہلوان اتر چکے ہیں ۔نام نہاد مسلم قائدین کی قیمت لگائی جارہی ہے کہ کون کتنے میں مسلم ووٹ کا سودا کرئے گا ۔ہزاروں سال کی سنسکرتی کا راگ الاپنے والے ۔اجنتا اور کھجوراہو کے وارث سیاست میں بھی اتنے ہی ننگے ہیں جتنی کہ یہ مورتیاں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ان مورتیوں کو تراشنے والے کوئی اور تھے ۔اور یہ سیاست داں سیاست کے اس دلدل کے خود کھلاڑی ہیں ۔ان کو کسی نے نہیں تراشا ہے ۔مسلمانوں کے خون کی ارزانی پھر سے شروع ہو گئی ہے ۔مسلم نوجوانوں کی تیرہ شبی کا نیا دور شروع ہو چکا ہے ۔نئے علاقے نئے امکانات تلاش کرلئے گئے ہیں ۔مسلم قائدین (اندھے بہرے گونگے جیسے بھی )ان سب سے بے خبر اپنی دنیا میں مست ہیں ۔کوئی کانگریس میں اپنی جگہ بنانے کیلئے پہلے کانگریس کو ہدف تنقید بناتا ہے پھر کانگریس کی شکایت محبت آمیزطریقوں سے کرتا ہے تاکہ کوئی سیٹ کنفرم ہو جائے ۔قصور ان کا بھی کیا ہے وہ پلے ہی ہیں کانگریس نوازی اور کانگریس نوازوں کے سائے میں تو وہ کانگریس کے خلاف جا بھی کیسے سکتے ہیں ۔مسلمانوں میں تذبذب ہے ۔اضطراب ہے بے چینی ہے ۔حقیقت عوام پر پوری طرح منکشف ہے۔ایک عام اور ان پڑھ مسلم نوجوان بھی حالات کو سمجھ رہا ہے ۔آپ اس سے ملیں پوچھیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے ۔اس کے سوچنے کا یہ انداز خدا کرے قائم رہے ۔اگر ایسا ہی رہا اور الیکشن تک قائدین نے کوئی کنفیوژن پیدا نہیں کیا تو چناؤ نتائج بالکل ایسے ہی ہونگے جو مسلمانوں کیلئے مفید ہوں ۔
عام طور پر الیکشن کے قریبی سال میں ہی کانگریس کو مسلمانوں کی یاد آتی ہے اور وعدوں کی رنگ برنگی برسات شروع کی جاتی ہے ۔ریاست ہو کہ مرکز سب اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کو وعدوں کے لالی پاپ سے بہلانے کے علاوہ ان کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔جب تک بی جے پی اور آر ایس ایس کا بھوت اور مودی جیسے خطرناک عفریت ہندوستان میں ہیں کانگریس کیلئے راوی چین ہی چین لکھتا ہے ۔قائدین سے بات کرلیجئے مسلم تنظیموں سے بات کر لیجئے سب ایک پوائنٹ پر متفق کہ مسلمانوں کی بدحالی ان کے قتل عام ان کی بے آبروئی کیلئے کانگریس کے علاوہ اور آپشن ہی کیا ہے ۔65 سالوں سے یہی ہو رہا ہے ۔آگے جہاں تک مسلمانوں کی خواب غفلت کی انتہا رہے تب تک یہی کہانی رقم ہو تی رہے گی ۔نہ مسلمانوں میں اتحاد ہوگا اور نہ ہی ان کی بے وزنی ختم ہوگی ۔کچھ امیدیں کی جاسکتی ہیں تو صرف اس نوجوان نسل سے جو اعلیٰ اور جدید تعلیم کے ساتھ دین سے بھی کہیں نہ کہیں جڑا ہوا ہے ۔روشنی تو اسے ساڑھے چودہ سو سال پہلے سے حاصل ہو گی ۔ لہٰذا اب ساری توجہ نوجوان نسل کی طرف ہی مبذول کرنا لازمی ہے ۔دشمن بھی اس سے واقف ہے اسی لئے وہ نوجوان نسل کو فرضی بم دھماکوں اور فرضی معاملات میں پھنسا کر اس کی زندگی کو تاریکی میں دھکیلنا چاہتا ہے ۔تاکہ قوم کبھی سنبھل ہی نہ سکے ۔لیکن ان کی چال ہے اور اللہ بھی تدبیر کرتا ہے اور یقیناً اللہ کی ہی تدبیر کامیاب ہونے والی ہے ۔
پٹنہ بم دھماکہ ہو کہ نریندر مودی کا سردار پٹیل کے بارے میں دیاگیا گمراہ کن بیان سب اسی 2014 کے الیکشن کے سوچے سمجھے ہتھکنڈے ہیں ۔اب انہیں سازش بھی نہیں کہیں سازش چھپے ہوئے کو کہتے ہیں لیکن یہاں تو سارے معاملات دوپہر کی دھوپ میں انجام دئے جارہے ہیں کہیں کوئی پردہ نہیں ہے ۔آخر ایک تباہ حال بے وزن اور لٹی پٹی قوم کے خلاف کچھ کرنے کیلئے کوئی سازش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔کون ہے جو اس کی سدھ بدھ لیگا ۔کون ہے جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس قوم کی بے بسی کا حساب مانگے گا ۔اس لئے اب اس کے خلاف کھلے عام منصوبے بنے جاتے ہیں اور بھری دوپہر میں اس پر عمل کیا جاتا ہے ۔سردار پٹیل کون تھے ان کے منصوبے کیا تھے یہ کوئی چھپی ہوئی کہانی نہیں ہے ۔لیکن قصداً ان کا نام اچھال کر کانگریس کے ذریعے ان کو سیکولر اور غیر فرقہ پرست یا روادار ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔آخر مسلمان پٹیل کے ان بیانات کو کیسے بھول جائے گا جو انہوں نے مسلمانوں کے تعلق سے جنگ آزادی کے دوران دئے اور مسلم معاملات میں ٹانگ اڑائے جس کا نتیجہ پاکستان کی صورت میں نکلا۔مسلمان حید ر آباد کا پولس ایکشن بنام مسلمانوں کا قتل عام کیسے بھول جائے گا ۔ پٹیل کو کانگریسی تو کہا جاسکتا ہے لیکن بہرحال انہیں روادار اور سیکولر نہیں کہا جاسکتا ۔انہیں کے تو جانشین ہیں مودی پھر مودی کو بھی گجرات 2002 کے قتل عام کیلئے کیوں نہیں معافی دیدیتے ۔کیا صرف اس وجہ سے پٹیل روادار ہیں کہ وہ کانگریسی تھے یا پہلے وزیر داخلہ اور مودی کو صرف اس لئے مجرم گردانا جائے کہ اس کا تعلق بی جے پی سے ہے ۔یہ کیسا دوغلہ پن ہے ۔غیر کرے تو کرے اپنے بھی کیا اسی سر میں سر ملائیں گے ۔
قائدین اپنی قیادت ثابت کرنے کی کوشش کریں عمل سے ،صرف بیانات سے نہیں ۔وہ ثابت کریں کہ حالات پر ان کی گہری نظر ہے اور وہ ملت کے ساتھ ساتھ عالم انسانیت کے بھی بہی خواہ ہیں ۔پانچ اور دس ہزار میں اپنی حمایت بانٹنا بند کریں جس کی قیمت آج سے بیس پچیس سال پہلے تک تیس ہزار تھی (واضح ہو کہ میں نے یہ باتیں ممبئی کے تناظر میں لکھی ہیں ممکن ہو دوسری جگہوں کا ریٹ اس سے کم یا زیادہ بھی ہو سکتا ہے)۔ہر چیز کی قیمت بڑھتی ہے لیکن ہمارے قائدین کے حمایت کی قیمت گھٹ چکی ہے ۔پچھلے دنوں اعظم گڑھ سے کوئی ایم ایل اے صاحب کا فون آیا انہوں نے کہا کہ آپ کسی ایم ایل اے یا ایم پی کو مسلمانوں کا قائد نہ سمجھیں ۔سچ ہے ہم کسی ایم ایل اے یا ایم پی کو مسلمانوں کا قائد کیوں سمجھنے لگے ۔کسی صحافی دوست نے کہا کہ ممبئی کے ایک نامی گرامی ایم ایل اے جو کہ منسٹر بھی ہیں کانگریس کے شہزادے کیلئے اسٹیج بنانے میں نوکروں کی طرح اپنی خدمات انجام دے رہے تھے ۔اس کے برعکس دوسرے ایم ایل اے آئے اور شاہوں کی طرح اسٹیج پر رونق افروز ہوئے ۔میری زبان سے بے ساختہ نکلا جب اپنی ملت میں اپنا اعتماد بحال نہیں کریں گے تو یہ کیا ہے انہیں جوتے اور ٹوائلیٹ بھی صاف کرنے ہونگے ۔جھوٹ بول کر قوم کو شاید بے وقوف بنایا جاسکے لیکن اپنا وقار بلند نہیں کیا جا سکتا ۔قوم کیلئے کام کریں گے جس کیلئے قوم نے اپنے ووٹ سے انہیں چن کر اسمبلی یا پارلیمنٹ میں بھیجا ہے تو قوم ایسے قائد کو سر پر بٹھاتی ہے اور قوم کے ووٹوں سے جیت کر قوم کو نظر انداز کرنے والے اس سے بھی بھیانک انجام سے دو چار ہو چکے ہیں ۔لیکن انسان کو وقتی لذت اور وقتی فائدہ بہت محبوب ہے اسی وقتی لذت اور وقتی نفائدوں نے میر جعفر،میر صادق اور السیسی جیسے لوگ پیدا کئے ۔ تاریخ ان کے انجام بد کے عبرتناک انجام سے بھری پڑی ہے ۔قوم نے اپنے ہیرو کو سر آنکھوں پر بٹھایا ہے اور تاریخ میں ان کے بھی واقعات رقم ہیں ۔اب یہ انسان پر موقوف ہے کہ وہ گیدڑ کی سو سالہ ذلت آمیززندگی جینا چاہتا ہے یا شیر کی ایک روزہ شاندار زندگی۔ کسی سیاسی لیڈر کی طرف سے اپنا نام پکارے جانے یا اس کے ذریعے عزت دینے سے کسی کو عزت نہیں ملتی عزت ساری کی ساری اللہ کیلئے اس کے رسولﷺ کیلئے اور مومنوں کیلئے ہے ۔حقائق واضح ہے اور کسی بھی طرح کے ابہام سے پاک بھی اس کو جو جتنا جلدی سمجھ لے وہ اتنا ہی بہتر ہے ۔وقت کسی کے ساتھ مروت نہیں کرتا جو اس کے مطابق نہیں چلتا وہ اسے کچلتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے ۔اور نام و نشان بھی مٹ جاتا ہے ۔ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کا نام عزت و وقار سے لیا جاتا ہے لیکن کوئی میر جعفر یا میر صادق کا نام عزت سے لینے والا نہیں۔ ٹیپو سلطان کو ان کے دشمن نے بھی ان کی بہادری اور جوانمردی کی تحسین کرتے ہوئے ان کا جنازہ توپوں کی سلامی کے ساتھ اٹھایا تھا ۔جو اللہ کیلئے دنیا سے لاپرواہ ہوتے ہیں اللہ انہیں اسی طرح عزت و وقار عطا کرتا ہے ۔اب کسے کون سی زندگی عزیز ہے یہ اس کے ظرف کی بات ہے ۔
    نہال صغیر۔موبائل۔9987309013 sagheernehal@gmail.com 

0 comments:

بے گناہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور عدالتوں سے رہائی کا سلسلہ کہاں جاکر رکے گا؟


             
یہ سوال ہی سرے سے بے فیض ہے کہ جیل میں مجھے کیا کیا اذیتیں دی گئی یا جیل کے میرے شب و روز کیسے گزرے ۔اس طرح کے سوالات پچھلے سات سالوں سے آپ کررہے ہیں اور ہم جیسے لوگ اس کا جواب بھی دیتے رہے ہیں جسے آپ نے عوام اور حکومت کے سامنے پہنچایا بھی ہے لیکن کیا اس سے انتظامیہ اور حکومت پر کوئی اثر پڑا ۔نہیں !بلکہ آج بھی بے گناہوں کو فرضی مقدمات میں گرفتار کرنے اور انہیں انسانیت سوز اذیت پہنچاکر ان کے ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرنے کا سلسلہ بدستور قائم ہے ۔اس لئے میں اس طرح کے سوالات کا جواب دینا نہیں چاہتا ‘‘یہ الفاظ ہیں اورنگ آباد اسلحہ ضبطی مقدمہ میں پہلی ضمانت پانے والے اور رہا ہونے والے نوجوان جاوید انصاری کے جو بامبے ہائی کورٹ سے ضمانت کی منظوری (21 ؍اکتوبر2013 )اورآرتھر روڈ جیل سے اپنی رہائی (19 ؍نومبر2013 )کو جمعیتہ العلماء ممبئی کے دفتر میں میڈیا کے روبرو پیش کئے ۔مندرجہ بالا الفاظ ہی اس معصوم نوجوان کے درد کو بیان کرنے کیلئے کافی ہے ۔ہم نے آج تک جو کچھ کیا ہے وہ بس اتنا ہے کہ پریس کانفرنس ،جلسے اور چند مطالبات اس سے آگے ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں اور ممکن ہے کہ کسی نے سوچا ہو تو اس پر عمل کی نوبت نہیں آئی ۔جبکہ حالا ت یہ ہیں کہ ایک کے بعد دوسرا پھر تیسرا نہ بم دھماکے (آتش بازی کہنا زیادہ درست ہوگا)رک رہے ہیں اور نہ ہی ان میں فرضی گرفتاریوں کا سلسلہ رک رہا ہے۔اب تو آئی بی نے انڈین مجاہدین کو ثابت کرنے کیلئے کہ وہ گمراہ یا مایوس مسلم نوجوانوں کی تنظیم ہے اور اس کا وجود ہے کچھ نئے انداز میں گرفتاریاں اور تفتیش شروع کی ہے ۔کچھ غیر مسلم نوجوانوں کو بھی گرفتار کیا ہے ۔لیکن اس الزام میں کہ وہ حوالہ کا کام کرتے تھے ۔ہم میں سے کچھ لوگ جس میں ہماری صحافتی برادری بھی شامل ہے نے اس پر خوب شور مچایا کہ دیکھو یہ ہے اصلی مجرم ۔لیکن ہمارے یہ دوست نہیں سمجھتے کہ یہ ہاتھی دانت ہیں کھانے کے اور دکھانے کے اور، وہ آئی بی اور این آئی اے کی ذہنیت اور ان کے کام کرنے کے انداز کو سمجھ نہیں پارہے ہیں ۔ہر کوئی ہیمنت کرکرے نہیں ہے اور نہ ہی ہندوستان میں ہیمنت کرکرے کی تعداد زیادہ ہے ۔یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ ’’جو مخلص ہے جو سچا ہے ۔زہر پیالہ پیتا ہے‘‘۔اصل میں اگر ہم آزادی کے بعد سے ان کی اسٹریٹیجی کا مطالعہ کریں تو ہمیں اندازہ ہو پائے گا کہ آنے والی خبروں کا بین السطور کیا ہے اور کس جانب اس کا سفر جاری ہے ۔آئی بی ہو یا این آئی اے یا مجوزہ این سی ٹی سی سب کوایک ہی رخ میں کام کرنا ہے ۔سب میں اکثریت برہمنوں کی ہے اور ہوگی ۔ سب کے سامنے ایک ہی مسئلہ ہے ذات پات ،زبان اور علاقائیت میں منقسم ہندوستان کو منتشر ہونے سے بچانے کیلئے ایک مشترکہ دشمن کا وجود قائم رکھنا اور ان کے سامنے مشترکہ دشمن مسلمانوں سے بہتر کون ہو سکتا ہے ۔آزادی سے بہت پہلے ہی انہوں نے یہ طئے کرلیا تھا اسی مقصد کیلئے اسی گروپ اور اسی گروہ نے پاکستان کو آسانی سے بن جانے دیا تاکہ لمبے عرصے تک مشترکہ دشمن کے وجود کا نقشہ قائم رہے ۔ فسادات سے لیکر بم دھماکوں اور اس کے بعد فرضی گرفتاریاں سب میں وہی عوامل کار فرما ہیں ۔لیکن ہم ہیں کہ اگر ایک دو جانچ این آئی اے نے درست کردیا تو ہم نے اسی کی ڈفلی بجانا شروع کردیا اب جبکہ اس کا رخ بھی مڑتا ہوا نظر آتا ہے تب آپ کیا کریں گے ۔کیا آپ اب این آئی اے کے خلاف بولیں گے ۔چلئے یہ بھی آپ نے کرلیا تو تیسرا متبادل این سی ٹی سی تیار ہے آپ جائیں گے کہاں ۔چیختے رہیں آپ ۔آپ کی چیخ قصائی کی چھری کے نیچے آنے والی بکری کی ممیاہٹ سے زیادہ نہیں ۔کیوں کہ یہ وقت آپ نے اپنے اوپر خود ہی لادا ہے ۔اس حالت میں بھی آپ ہیں کہ متحد ہو کر کوئی لائحہ عمل تیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کو راضی نہیں ہیں ۔آپ کے علماء پانچ دس ہزار میں اپنی حمایت بیچتے ہیں آپ کے سیاسی لیڈر اپنی پارٹی کے پالتو کتے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔یہ میرے جذبات نہیں وہ حقائق ہیں جنہیں میں دیکھ رہا ہوں اور آنے والے وقت کی ہلکی سی قیاس آرائی کررہا ہوں ۔اگر کسی مولوی کو یہ خوش فہمی ہے کہ ہندوستان میں اسپین جیسے حالات نہیں آسکتے تو ہوں لیکن اسپین میں بھی اچانک حالات نہیں بدلے تھے سب کچھ اسی رفتار سے ہوا تھا جس رفتار سے ہندوستان میں حالات بدل رہے ہیں۔وہی کیفیت مسلمانوں کی اسپین اور بغداد میں تاتاریوں کی خون آشامیوں کے دور میں بھی تھا کہ مسلمان بنیاد دین کو چھوڑ کر فروعی اختلافات میں پڑا ہوا تھا ۔ہر فرقہ اور ہر گراہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا رہا تھا ۔یہی سب کچھ یہاں بھی ہو رہا ہے میر جعفر اور میر صادق کل بھی تھے آج بھی ہیں اور آئندہ بھی ہونگے ۔صرف نام جدا جدا ہونگے کردار سب کے ایک ہی جیسے ہیں بلکہ پہلے میر جعفر اور میر صادق ایک دو ہی ہوا کرتے تھے لیکن اب ہر گلی اور ہر محلے میں آپ کو میر جعفر اور میر صادق مل جائیں گے ۔اسی لئے شاعر صبر نہ کرسکا اور اس نے کہا
؂ ویرانی گلشن کیلئے ایک ہی الو کافی تھا ۔ ہر شاخ پر الو بیٹھا انجام گلستان کیا ہوگا
اوپر بیان کئے گئے حالات بہت تلخ ہیں لیکن صرف قیاس نہیں ۔حالات اسی اسی رخ کی جانب اشارہ کررہے ہیں ۔کسی ملک میں آپ انتظامیہ اور حکومت سے مایوس ہو جائیں تو عدالتیں واحد سہارا ہوتی ہیں جہاں سے آپ یہ امید کر سکتے ہیں کہ انصاف ہوگا لیکن جب عدالتیں ہی انصاف سے خالی ہو جائیں۔میں اس سلسلے میں زیادہ کچھ کہنے سے بہتر سمجھتا ہوں کہ آپ کو اس ملک کی دو عظیم عدالتوں کی مثال دے دوں جس میں ایک جگہ عقیدے کی بنیاد پر اور دوسری جگہ عوام کی اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے فیصلہ ہوا ۔اس کے علاوہ نچلی عدالتوں کے احوال جاننے کیلئے آپ مسلسل رہا ہونے والے بے گناہ نوجوانوں کی آپ بیتی سن لیجئے آپ کو پتہ چل جائے گا ۔ اسیش کھیتان کا اسٹنگ آپریشن دیکھ لیجئے اس میں ایک نوجوان کہتا ہے کہ جج کے سامنے ہی اے ٹی ایس کا افسر اسے لکھے ہوئے بیان دیا کرتا تھا جسے اسے اپنے بیان کے طور پر پڑھنا ہوتا تھا۔شبھردیپ چکرورتی کی ڈاکیومنٹری ’’آفٹر دی اسٹارم ‘‘ دیکھ لیجئے جس میں کولکاتا کا ایک نوجوان بتاتا ہے کہ اسے پھانسی کی سزا سنانے کے بعد جج نے اس کے وکیل کو اپنے چمبر میں بلایا اور اس سے کہا کہ میری طرف سے اپنے موکل سے معافی مانگ لینا میں ایسا فیصلہ دینے کیلئے مجبور تھا ۔ابھی حال ہی میں اورنگ آباد اسلحہ ضبطی کیس میں ضمانت پر رہا ہونے والے نوجوان جاوید انصاری نے میڈیا کے سامنے کہا کہ عدلیہ بھی متعصب ہو گئی ہے ۔بس اس میں کچھ جج ایسے ہیں جو انصاف کے تقاضون کو پورا کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ہماری عدلیہ کا حال یہ ہے کہ سیمی پر پچھلے بارہ سالوں سے پابندی ہے بیچ میں ایک جج نے اس پابندی کو رد کردیا جج نے جمعہ کو پابندی رد کیا تھا ۔یو پی اے کی سیکولر حکومت نے سنیچر کو ہی صبح صبح سپریم کورٹ پہنچ گئی اور سپریم کورٹ نے بھی پوری چابکدستی سے اس جج کے فیصلہ پر اسٹے دیدیا ۔لیکن اسی عدالت میں پچھلے بارہ سالوں سے سیمی کی اپیل پڑی ہوئی ہے لیکن وہ انصاف جمہوریت ،سیکولرزم اور مساوات کے مجاہدوں کی منافقت کو ظاہر کررہا ہے ۔ ابھی حال ہی میں جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر نے مہاراشٹر پولس کے سرکولر جس میں مسلم بچیوں کی تنظیم جی آئی او کو دہشت گردی میں ملوث بتانے کی شرمناک کوشش کی گئی تھی ،پر بامبے ہائی کورٹ میں دس کروڑ کے ہتک عزت کا دعویٰ کیا ہے ۔لیکن 24؍ ستمبر کو داخل کئے گئے اس کیس پر اب تک کسی طرح کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی کیا پتہ جماعت اسلامی کا یہ ہتک عزت کا دعویٰ بھی سیمی کی اپیل کی طرح عدالت کی آثار قدیمہ کی زینت بن کر رہ جائے ۔پھر بھی عدالت میں ضرور جانا چاہئے بلکہ سیاسی لیڈروں کے پاس ڈیلیگیشن لے کر جانے سے بہتر ہے کہ عدالتوں میں قانونی جنگ ہی لڑی جائے ۔کیوں کہ عدالتوں میں یقیناًمنصف کی تقسیم ہو گئی ہے اور ججوں کا ایک بڑا طبقہ بدعنوان اور متعصب ہو گیا ہے لیکن اس میں خال خال ہی سہی کوئی نہ کوئی انسانیت اور انصاف کو بچانے والا منصف ضرور نظر آجاتا ہے اور وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے حالانکہ اسے درپردہ انصاف کرنے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔لیکن ہمیں یہ گردان تو بہر حال ترک ہی کردینا چاہئے کہ ’’ہمیں عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے ‘‘۔اگر عدلیہ اتنی شفاف ہوتی تو اس کا ضمیر کیمپا کولا پر بیدار ہوجاتا ہے تو کسی جھونپڑ پٹی والوں کی پریشان حالی پر اس کا ضمیر کیوں سو جاتا ہے ۔وہ ذرا ذرا سی باتوں پر سو موٹو لے لیتی ہے لیکن پچھلے کئی سالوں سے مسلم نوجوانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے آشکارا ہونے کے باوجود کسی جج کا ضمیر کیوں نہیں بیدار ہوتا کیوں نہیں وہ کوئی سو موٹو ایکشن لیتا ہے ؟یہ ایسا سوال ہے جو ملک کی سالمیت اور اتحاد کے تانے بانے بکھیر دیگا ۔
مندرجہ بالا مثالیں اور عدلیہ کے دو فیصلے یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے تعلق سے کیاکچھ ہو رہا ہے یا آئندہی کی منصوبہ بندی کیا ہے ۔ اس کے باوجود ہماری قیادت کے دعویدار کھل کر کچھ بولنے کی جرات ہی نہیں کرتے جبکہ اسی ملک کا ایک شہری شانتی بھوشن سپریم کورٹ میں یہ کہنے میں باک محسوس نہیں کرتا کہ ’’اکثر جج بد عنوان ہیں ‘‘ ۔چیف جسٹس کے اعتراض کے باوجود انہوں نے اپنے بیان سے رجوع نہیں کیا ۔ایک صحافی وشو دیپک محمد احمد کاظمی کی گرفتاری پر لکھنے پر مجبور ہوا کہ ’’جمہوری غنڈوں کے اشاروں پر ناچنے والی پولس کہہ رہی ہے کہ جرم قبول کرو ورنہ ہم تمہیں موساد کے حوالے کردیں گے اور موساد جرم قبول کروانا جانتی ہے ‘‘لیکن کیا کوئی اردو داں مسلم صحافی اتنی سخت بات کہنے کی جرات کر سکتا ہے ۔ہر گز نہیں ۔لیکن یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا ۔اس کا اختتام کیا ہے ۔ریاستی دہشت گردی کا شکار نوجوان ہوتا رہے اور ہماری قیادت کے دعویدار صبر کی تلقین کرتے رہیں کوئی لائحہ عمل طے نہ کریں یہ کب تک چلے گا ۔ نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے اس مایوسی کا انجام کیا ہوگا ۔کل رونے اور سر پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔خدارا جو مخلص ہیں وہ باہر آئیں گوشہ نشینی سے مصیبتیں نہیں ٹلنے والی ۔
۔ موبائل۔9987309013 ۔
sagheernehal@gmail.com  نہال صغیر۔ 

0 comments:

الیکشن 2014 :سیاسی بساط بچھائی جارہی ہے ،مہرے تبدیل کئے جارہے ہیں


الیکشن 2014 کی ساری تیاری ہو چکی ہیں سیاسی مہاشے کچھ اپنے خول سے نکلنے لگے ہیں تو کوئی اپنے خول میں واپس جارہے ہیں ۔جس نے کھلے عام مسلم دشمنی کا وطیرہ اپنا رکھا تھا وہ مسلمانوں کا مسیحا بننے کی تگ و دو میں ہے ۔جو آزادی کی صبح سے ہی مسلم نوازی اور مسلم مسیحائی کا دعویدار تھا اس نے مسلم نوجوانوں کا تعلق آئی ایس آئی سے جوڑ دیا ۔کل ملا کر سیاست کے اکھاڑے میں سارے سیاسی پہلوان اتر چکے ہیں ۔نام نہاد مسلم قائدین کی قیمت لگائی جارہی ہے کہ کون کتنے میں مسلم ووٹ کا سودا کرئے گا ۔ہزاروں سال کی سنسکرتی کا راگ الاپنے والے ۔اجنتا اور کھجوراہو کے وارث سیاست میں بھی اتنے ہی ننگے ہیں جتنی کہ یہ مورتیاں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ان مورتیوں کو تراشنے والے کوئی اور تھے ۔اور یہ سیاست داں سیاست کے اس دلدل کے خود کھلاڑی ہیں ۔ان کو کسی نے نہیں تراشا ہے ۔مسلمانوں کے خون کی ارزانی پھر سے شروع ہو گئی ہے ۔مسلم نوجوانوں کی تیرہ شبی کا نیا دور شروع ہو چکا ہے ۔نئے علاقے نئے امکانات تلاش کرلئے گئے ہیں ۔مسلم قائدین (اندھے بہرے گونگے جیسے بھی )ان سب سے بے خبر اپنی دنیا میں مست ہیں ۔کوئی کانگریس میں اپنی جگہ بنانے کیلئے پہلے کانگریس کو ہدف تنقید بناتا ہے پھر کانگریس کی شکایت محبت آمیزطریقوں سے کرتا ہے تاکہ کوئی سیٹ کنفرم ہو جائے ۔قصور ان کا بھی کیا ہے وہ پلے ہی ہیں کانگریس نوازی اور کانگریس نوازوں کے سائے میں تو وہ کانگریس کے خلاف جا بھی کیسے سکتے ہیں ۔مسلمانوں میں تذبذب ہے ۔اضطراب ہے بے چینی ہے ۔حقیقت عوام پر پوری طرح منکشف ہے۔ایک عام اور ان پڑھ مسلم نوجوان بھی حالات کو سمجھ رہا ہے ۔آپ اس سے ملیں پوچھیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے ۔اس کے سوچنے کا یہ انداز خدا کرے قائم رہے ۔اگر ایسا ہی رہا اور الیکشن تک قائدین نے کوئی کنفیوژن پیدا نہیں کیا تو چناؤ نتائج بالکل ایسے ہی ہونگے جو مسلمانوں کیلئے مفید ہوں ۔
عام طور پر الیکشن کے قریبی سال میں ہی کانگریس کو مسلمانوں کی یاد آتی ہے اور وعدوں کی رنگ برنگی برسات شروع کی جاتی ہے ۔ریاست ہو کہ مرکز سب اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کو وعدوں کے لالی پاپ سے بہلانے کے علاوہ ان کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔جب تک بی جے پی اور آر ایس ایس کا بھوت اور مودی جیسے خطرناک عفریت ہندوستان میں ہیں کانگریس کیلئے راوی چین ہی چین لکھتا ہے ۔قائدین سے بات کرلیجئے مسلم تنظیموں سے بات کر لیجئے سب ایک پوائنٹ پر متفق کہ مسلمانوں کی بدحالی ان کے قتل عام ان کی بے آبروئی کیلئے کانگریس کے علاوہ اور آپشن ہی کیا ہے ۔65 سالوں سے یہی ہو رہا ہے ۔آگے جہاں تک مسلمانوں کی خواب غفلت کی انتہا رہے تب تک یہی کہانی رقم ہو تی رہے گی ۔نہ مسلمانوں میں اتحاد ہوگا اور نہ ہی ان کی بے وزنی ختم ہوگی ۔کچھ امیدیں کی جاسکتی ہیں تو صرف اس نوجوان نسل سے جو اعلیٰ اور جدید تعلیم کے ساتھ دین سے بھی کہیں نہ کہیں جڑا ہوا ہے ۔روشنی تو اسے ساڑھے چودہ سو سال پہلے سے حاصل ہو گی ۔ لہٰذا اب ساری توجہ نوجوان نسل کی طرف ہی مبذول کرنا لازمی ہے ۔دشمن بھی اس سے واقف ہے اسی لئے وہ نوجوان نسل کو فرضی بم دھماکوں اور فرضی معاملات میں پھنسا کر اس کی زندگی کو تاریکی میں دھکیلنا چاہتا ہے ۔تاکہ قوم کبھی سنبھل ہی نہ سکے ۔لیکن ان کی چال ہے اور اللہ بھی تدبیر کرتا ہے اور یقیناً اللہ کی ہی تدبیر کامیاب ہونے والی ہے ۔
پٹنہ بم دھماکہ ہو کہ نریندر مودی کا سردار پٹیل کے بارے میں دیاگیا گمراہ کن بیان سب اسی 2014 کے الیکشن کے سوچے سمجھے ہتھکنڈے ہیں ۔اب انہیں سازش بھی نہیں کہیں سازش چھپے ہوئے کو کہتے ہیں لیکن یہاں تو سارے معاملات دوپہر کی دھوپ میں انجام دئے جارہے ہیں کہیں کوئی پردہ نہیں ہے ۔آخر ایک تباہ حال بے وزن اور لٹی پٹی قوم کے خلاف کچھ کرنے کیلئے کوئی سازش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔کون ہے جو اس کی سدھ بدھ لیگا ۔کون ہے جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس قوم کی بے بسی کا حساب مانگے گا ۔اس لئے اب اس کے خلاف کھلے عام منصوبے بنے جاتے ہیں اور بھری دوپہر میں اس پر عمل کیا جاتا ہے ۔سردار پٹیل کون تھے ان کے منصوبے کیا تھے یہ کوئی چھپی ہوئی کہانی نہیں ہے ۔لیکن قصداً ان کا نام اچھال کر کانگریس کے ذریعے ان کو سیکولر اور غیر فرقہ پرست یا روادار ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔آخر مسلمان پٹیل کے ان بیانات کو کیسے بھول جائے گا جو انہوں نے مسلمانوں کے تعلق سے جنگ آزادی کے دوران دئے اور مسلم معاملات میں ٹانگ اڑائے جس کا نتیجہ پاکستان کی صورت میں نکلا۔مسلمان حید ر آباد کا پولس ایکشن بنام مسلمانوں کا قتل عام کیسے بھول جائے گا ۔ پٹیل کو کانگریسی تو کہا جاسکتا ہے لیکن بہرحال انہیں روادار اور سیکولر نہیں کہا جاسکتا ۔انہیں کے تو جانشین ہیں مودی پھر مودی کو بھی گجرات 2002 کے قتل عام کیلئے کیوں نہیں معافی دیدیتے ۔کیا صرف اس وجہ سے پٹیل روادار ہیں کہ وہ کانگریسی تھے یا پہلے وزیر داخلہ اور مودی کو صرف اس لئے مجرم گردانا جائے کہ اس کا تعلق بی جے پی سے ہے ۔یہ کیسا دوغلہ پن ہے ۔غیر کرے تو کرے اپنے بھی کیا اسی سر میں سر ملائیں گے ۔
قائدین اپنی قیادت ثابت کرنے کی کوشش کریں عمل سے ،صرف بیانات سے نہیں ۔وہ ثابت کریں کہ حالات پر ان کی گہری نظر ہے اور وہ ملت کے ساتھ ساتھ عالم انسانیت کے بھی بہی خواہ ہیں ۔پانچ اور دس ہزار میں اپنی حمایت بانٹنا بند کریں جس کی قیمت آج سے بیس پچیس سال پہلے تک تیس ہزار تھی (واضح ہو کہ میں نے یہ باتیں ممبئی کے تناظر میں لکھی ہیں ممکن ہو دوسری جگہوں کا ریٹ اس سے کم یا زیادہ بھی ہو سکتا ہے)۔ہر چیز کی قیمت بڑھتی ہے لیکن ہمارے قائدین کے حمایت کی قیمت گھٹ چکی ہے ۔پچھلے دنوں اعظم گڑھ سے کوئی ایم ایل اے صاحب کا فون آیا انہوں نے کہا کہ آپ کسی ایم ایل اے یا ایم پی کو مسلمانوں کا قائد نہ سمجھیں ۔سچ ہے ہم کسی ایم ایل اے یا ایم پی کو مسلمانوں کا قائد کیوں سمجھنے لگے ۔کسی صحافی دوست نے کہا کہ ممبئی کے ایک نامی گرامی ایم ایل اے جو کہ منسٹر بھی ہیں کانگریس کے شہزادے کیلئے اسٹیج بنانے میں نوکروں کی طرح اپنی خدمات انجام دے رہے تھے ۔اس کے برعکس دوسرے ایم ایل اے آئے اور شاہوں کی طرح اسٹیج پر رونق افروز ہوئے ۔میری زبان سے بے ساختہ نکلا جب اپنی ملت میں اپنا اعتماد بحال نہیں کریں گے تو یہ کیا ہے انہیں جوتے اور ٹوائلیٹ بھی صاف کرنے ہونگے ۔جھوٹ بول کر قوم کو شاید بے وقوف بنایا جاسکے لیکن اپنا وقار بلند نہیں کیا جا سکتا ۔قوم کیلئے کام کریں گے جس کیلئے قوم نے اپنے ووٹ سے انہیں چن کر اسمبلی یا پارلیمنٹ میں بھیجا ہے تو قوم ایسے قائد کو سر پر بٹھاتی ہے اور قوم کے ووٹوں سے جیت کر قوم کو نظر انداز کرنے والے اس سے بھی بھیانک انجام سے دو چار ہو چکے ہیں ۔لیکن انسان کو وقتی لذت اور وقتی فائدہ بہت محبوب ہے اسی وقتی لذت اور وقتی نفائدوں نے میر جعفر،میر صادق اور السیسی جیسے لوگ پیدا کئے ۔ تاریخ ان کے انجام بد کے عبرتناک انجام سے بھری پڑی ہے ۔قوم نے اپنے ہیرو کو سر آنکھوں پر بٹھایا ہے اور تاریخ میں ان کے بھی واقعات رقم ہیں ۔اب یہ انسان پر موقوف ہے کہ وہ گیدڑ کی سو سالہ ذلت آمیززندگی جینا چاہتا ہے یا شیر کی ایک روزہ شاندار زندگی۔ کسی سیاسی لیڈر کی طرف سے اپنا نام پکارے جانے یا اس کے ذریعے عزت دینے سے کسی کو عزت نہیں ملتی عزت ساری کی ساری اللہ کیلئے اس کے رسولﷺ کیلئے اور مومنوں کیلئے ہے ۔حقائق واضح ہے اور کسی بھی طرح کے ابہام سے پاک بھی اس کو جو جتنا جلدی سمجھ لے وہ اتنا ہی بہتر ہے ۔وقت کسی کے ساتھ مروت نہیں کرتا جو اس کے مطابق نہیں چلتا وہ اسے کچلتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے ۔اور نام و نشان بھی مٹ جاتا ہے ۔ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کا نام عزت و وقار سے لیا جاتا ہے لیکن کوئی میر جعفر یا میر صادق کا نام عزت سے لینے والا نہیں۔ ٹیپو سلطان کو ان کے دشمن نے بھی ان کی بہادری اور جوانمردی کی تحسین کرتے ہوئے ان کا جنازہ توپوں کی سلامی کے ساتھ اٹھایا تھا ۔جو اللہ کیلئے دنیا سے لاپرواہ ہوتے ہیں اللہ انہیں اسی طرح عزت و وقار عطا کرتا ہے ۔اب کسے کون سی زندگی عزیز ہے یہ اس کے ظرف کی بات ہے ۔
نہال صغیر۔موبائل۔9987309013 ۔ای میلsagheernehal@gmail.com

0 comments:

تاکہ بشار الاسد کا قتل عام جاری رہے۔۔۔۔!

تبدیلی دنیا کی فطرت میں شامل ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ پیدل اور گھوڑا گاڑیوں کے دور میں اس کی رفتار میں اتنی شدت اور تیزی نہیں واقع ہوا کرتی تھی ،جیسا کہ جدید سائنس اور ٹکنالوجی کے دور میں انٹر نیٹ اور فیس بک نے دنیا اور انسانی ذہن اور مزاج کو پل پل بدلنا شروع کردیا ہے۔اگر یہ بات درست ہے اور درست نہ ہونے کی کوئی وجہ اور دلیل بھی اس لئے نہیں ہو سکتی کیوں کہ مولاناروم ؒ ،اقبال ؒ اور بیشتر مورخین نے اپنے مضامین اور رباعیوں میں جس یونان و مصر اور روما کی شان و شوکت اور سلطنتوں کے تعلق سے اظہار خیال کیا ہے ان کی تہذیبیں ہزار وں سال کی تاریخ پر محیط رہی ہیں۔اس کے بعد خود اسلامی تہذیب و ثقافت اور سیاست کا رعب و دبدبہ بھی تقریباً ایک ہزار سال تک پوری دنیا پر غالب اور قائم رہا ہے جبکہ اس درمیان جس ٹکنالوجی کے سہارے برطانیہ ،روس ،فرانس اور امریکہ نے انیسویں صدی کے بعد بہت ہی تیزی کے ساتھ اپنے عروج کا سفر طے کیا صرف بیسویں صدی کے ایک قلیل وقفے میں اپنے انجام کو بھی پہنچ گئے ۔اسی طرح مستقبل کے سپر پاور چین کا نشہ بھی چڑھتے ہی اتر جائے گا ۔غیر فطری طریقہ کار جبر تشدد اور نا انصافی کے راستے سے جن تہذیبوں اور قوموں نے دنیا پر عروج و بالادستی کا خواب دیکھا ہے اقبال نے ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ ؂
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کریگی ...... جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
تو اب ہمیں اس بات کا اقرار کرلینا چاہئے کہ موجودہ سپر پاور امریکہ بھی وہ امریکہ نہیں رہا جب اسے ویتنام ،صومالیہ،لیبیا،سوڈان اور عراق وغیرہ پر حملہ کرنے کیلئے کسی کی اجازت اور رضامندی کی ضرورت نہیں پڑی تھی مگر شام کے معاملے میں امریکی صدر کے ساتھ خود امریکی عوام میں بھی جوش نہیں دکھائی دے رہا ہے ۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ امریکہ اتنا بھی طاقتور نہیں رہا بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتائج کے بعد نئی نسل کے مزاج اور نظریے میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ امریکی سیاستدانوں کی مداخلت کی وجہ سے وہ ایک بار پھر 9/11 جیسے حادثے کا شکار ہوں یعنی کہیں نہ کہیں وہ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ اس حادثے کے ذمہ دار بھی ہم خود ہی ہیں ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دنیا کے حالات سے باخبر نہیں ہیں اور دلچسپی نہیں رکھتے ۔
مصر اور شام کے معاملے میں بیشتر امریکی صحافیوں اور دانشوروں کی رائے یہ ہے کہ وہاں کی عوام کو ان کا جمہوری حق ملنا چاہئے اور اگر ان ممالک کے ڈکٹیٹر وں کو عوام کے قتل عام سے نہیں روکا گیا تو دنیا کے حالات اور بھی خطرناک ہو سکتے ہیں ۔مگر امریکہ تنہا یہ کام انجام نہیں دے سکتا۔اسی طرح روس کے ایک شہری Anna Neistat انا نیٹیٹ جو تنظیم انسانی حقوق کے معاون ڈائریکٹر بھی ہیں انہوں نے نیو یارک ٹائمس میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ایک مطبوعہ مضمون کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ روسی صدر نے شام کے تعلق سے جو بات امریکیوں کو نہیں بتائی اور نظر انداز کردیا وہ یہ ہے کہ بشارلاسد نے ہزاروں لوگوں کا قتل عام کیا ہے ۔ہزاروں لوگوں کا اغوا کرکے لاپتہ کردیا بلا اشتعال گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور ہزاروں لوگ شام کی جیلوں میں تشدد اور تعذیب سے گذارے جارہے ہیں جس کا مشاہدہ میں نے خود پچھلے ڈھائی سال سے شام کے اندر رہ کر کیا ہے ۔اس کے باوجود روس کی حکومت ایک ظالم حکمراں کی ہتھیاروں کے ذریعے مدد کررہی ہے ،جس کا کوئی بھی تذکرہ پوتن کے مضمون میں نہیں ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شورش کے دوران باغیوں کے ذریعے بھی کچھ ناانصافیاں ہوئی ہیں مگر ان حالات سے پہلے پر امن احتجاجیوں اور مظاہرین پر گولیاں کس نے چلائیں ۔ان کے لیڈروں کو گرفتار کرکے ٹارچر کس نے کیا ۔مگر اس جبر تشدد اور نا انصافی کے خلاف عالمی طاقتوں کی مسلسل خاموشی نے مخالف طاقتوں کو بھی تشدد پر آمادہ کیا جس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جاتا ۔روس کی یہ تجویز کہ شام کے کیمیاوی ہتھیاروں کو اپنے قبضے میں لے لیا جائے درست ہے ۔مگر کیا اس طرح قتل کئے گئے ، گرفتار کئے گئے ،اور جو گھر سے بے گھر ہوگئے ہیں اور ہو رہے ہیں ،انہیں انصاف مل جائے گا ؟بغیر کسی ثبوت کے باغیوں کو کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا مجرم ماننا بھی روسی صدر کو زیب نہیں دیتا ۔انہیں ایک مہذب اور نمائندہ ملک کے صدر ہونے کی حیثیت سے اپنی شخصیت کو اس طرح پیش کرنا چاہئے کہ ان کے عمل کو عالمی برادری اور روسی عوام میں اچھی نظر سے دیکھا جائے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب روس خود آگے بڑھ کر شام کی شورش کے خاتمے کیلئے مثبت قدم بڑھائے ۔بیشک دنیا اسی تبدیلی کا خیر مقدم کرتی ہے جو تعمیری ہو۔(ہندوستان ٹائمس14 ؍ستمبر 2013 )
ہمارے کچھ تحریکی دوست جو امریکہ کو اسلام کا دشمن نمبر 1 مانتے ہیں ان کا ماننا یہ ہے کہ امریکہ شام پر حملہ کرنے کا بہانہ ڈھونڈھ رہا ہے تاکہ اسرائیل محفوظ رہے جبکہ امریکی صدر باراک اوبامہ خود بھی تنہا پڑجانے اور صہیونی مقتدرہ اور اس کی زرخرید تنظیموں اور سیاستدانوں کے دباؤ میں اپنے فیصلے کو موخر کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ شام پر حملہ ہونے سے نیزعالمی طاقتوں کی مداخلت سے کیا واقعی اسرائیل محفوظ ہو جائے گا ؟فری سیرین آرمی کے سربراہ کرنل عبد الجبار العقیدی نے 11 ؍ستمبر کو العربیہ کو انٹر ویو دیتے ہوئے اس نظریہ کا جواب دیا ہے کہ عالمی طاقتیں کیمیاوی ہتھیاروں پر گندی ڈیل کررہی ہیں تاکہ اوبامہ کو اس درخت سے بچایا جائے جس پر وہ چڑھنے کی کوشش کررہے ہیں اور روس اس سیڑھی کو کھینچ رہا ہے تاکہ اسرائیل محفوظ رہے ۔واضح ہو کہ 1948 میں اسرائیل کی تخلیق کے بعد اس کو سب سے پہلے ایک ملک کی صورت میں منظوری دینے والا ملک روس ہی ہے ۔لیکن شاید ہمارے دوست تاریخ کے اس بدترین مسلم اور عرب دشمن ملک کو بھلابیٹھے ہیں ۔12 ؍ستمبر کو ہندوستان ٹائمس نے اپنے اداریے میں اسی موقف کا اظہار کیا ہے کہ جس طرح عالمی طاقتوں کی توجہ کیمیاوی ہتھیاروں کی حوالگی کی طرف موڑدی گئی ،بد قسمتی سے شام کے اصل مسئلہ کی طرف سے یعنی ہر روز اور ہر ہفتے قتل عام کا جو مسئلہ کیمیاوی ہتھیاروں کے حملے سے بھی زیادہ سنگین ہے عالمی برادری کی توجہ وہاں سے ہٹادی گئی ہے۔
اسی طرح 11 ؍ستمبر کے انڈین ایکسپریس میں واشنگٹن پوسٹ کے حوالے سے ایک تجزیہ خبر کا نظریہ بھی یہی ہے کہ امریکی کانگریس میں بہت سے ممبران شام پر اوبامہ کے حملے کی اس لئے بھی حمایت نہیں کررہے ہیں کہ اس طرح شام کی حکومت پر جو لوگ قابض ہونگے وہ بشار الاسد سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں کیوں کہ باغیوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو افغانستان کی طرح طالبان طرز کی حکومت چاہتے ہیں ۔تقریباً یہی نظریہ اسرائیل کے صدر بنجامن نیتن یاہو کا بھی ہے جو یکم ستمبر کے ہندوستان ٹائمس میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا بشار الاسد سے کوئی تنازعہ نہیں ہے کیوں کہ اس نے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی تصادم سے گریز کیا ہے ۔ اس کے برعکس عرب بہار سے اسرائیل کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا ہے اور ہم شام میں شدت پسند اور اعتدال پسند دونوں طبقات کو ناپسند کرتے ہیں ۔مگر ہم نہیں چاہتے کہ اسد کے پاس کیمیاوی ہتھیار ہوں اور اس کی وجہ سے ایران کو طاقت ملے ۔شام کے معاملے میں ایران کے اپنے موقف کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں یعنی شامی عوام کا قتل عام ہوتا ہے تو ہوتا رہے کیوں کہ بشار الاسد کے جانے سے ایران کو بھی ان لوگوں سے خطرات لاحق ہیں جن سے خود اسرائیل خوفزدہ ہے ۔شام پر حملے کے تعلق سے ہمارے تحریکی دوستوں کے جو مضامین اخبارات میں آئے انہیں دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی رائے بھی وہی ہے جو ایران اور اسرائیل کی ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ابھی بھی امریکہ کو مرحوم آیت اللہ خمینی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ ہم اسی طرف جھکیں گے جس طرف ایران جھکے گا ۔جبکہ امریکہ اور ایران دونوں کے اپنے موقف میں تبدیلی آچکی ہے ۔آیت اللہ خمینی مرحوم نے امریکہ ،روس اور اسرائیل تینوں کو برائی کا محور اور شیطان کی آنت کہا تھا ۔بعد میں ان کے جانشین سابق ایرانی صدر احمدی نژاد نے ایک شیطان روس سے دوستی کرکے وقت کے سب سے بڑے شیطان اسد رجیم کو اپنا بھائی قرار دے دیا ۔اس کے بعد اصلاح پسند وں کی حکومت میں تھوڑی سی اور اصلاح یہ ہوئی کہ ایران کے وزیر خارجہ نے ہولو کاسٹ کی مذمت کرکے اسرائیل دوستی کا اشارہ دے دیا ۔تیسرے دن ایرانی صدر حسن روہانی نے اپنے فیس بک پر یہودیوں کو نئے دن کی مبارکباد بھیجتے ہوئے اسرائیل کی سلامتی کو جائز ٹھہرایا ۔شاید فراخ دلی اس وجہ سے بھی ہے کہ اسرائیل کے سارے اقدامات خود ایران کے حق میں ہیں ۔ہم اپنے ایک مضمون ’’بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے‘‘ میں یہ لکھ چکے ہیں کہ اسرائیل ماضی کی طرح اپنے مفاد کیلئے ایران سے دوستی کر لے گامگر جس طرح ایران نے اسلامی انقلاب کا مکھوٹا اوڑھ کر شام میں اپنے گھناؤنے کردار کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کیلئے ایرانی حکمراں بھی جلد بازی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔اس طرح ایسا بھی لگتا ہے کہ تمام شیطانوں سے اپنے تعلقات کو استوار کرنے کیلئے ایران پانچویں شیطان سلمان رشدی کے خلاف لگائے گئے اپنے فتوے کو بھی واپس لے لے ۔بیشک تبدیلی آنی بھی چاہئے اور ایران کو اپنی ترقی اور کامیابی کیلئے ایسا کرنے کا حق بھی ہے ۔
دنیا ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی نفرت اور دشمنی کے ماحول میں مغرب کی ایک نسل کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔مغرب کی نئی نسل کیا سوچ رہی ہے ،ہم اس کا استقبال کریں یا نہ کریں ،کم سے کم ہماری اسلامی روایت اور تعلیمات اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم کسی بھی قوم کی دوستی اور دشمنی میں حد سے گذر جائیں اور جو ہماری طرف رجوع بھی ہونا چاہے تو ہم اسے پہچان نہ سکیں ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امریکی صدر اوبامہ بھی امریکہ کے سابق حکمرانوں مختلف نہیں ہیں ،وہ بغض معاویہ میں مبتلاء ہیں اور اگر وہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے تعلق سے ہم ان کے چہرے پر داڑھی اور ٹوپی دیکھنا چاہتے ہیں تو جناب دارھی اور ٹوپی والے مسلم حکمراں تو مسلمان ہو کر بھی مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں ۔ہم بہر حال اس فطری نظریے کے قائل ہیں کہ جب دولوگوں کے بیچ میں تنازعہ ہو تو تیسرے کی مداخلت کے بغیر فیصلہ ممکن ہی نہیں ہے ۔جو مسلم دانشور اور تحریکی علماء یہ کہتے ہیں کہ اوبامہ اور امریکہ کو شام میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ۔انہیں شاید اچھی طرح یہ بھی پتہ ہے کہ جو مسلم ممالک مداخلت کرکے روک سکتے ہیں وہ خود شام کے میدان میں ایک دوسرے کے خلاف فریق کا کردار ادا کررہے ہیں ۔چلئے اب یہ مداخلت کچھ وقت کیلئے رکی ہوئی بھی لگ رہی ہے اور خدا نخواستہ رک بھی گئی تو پھر؟۔چلئے ہم بھی آپ کے ساتھ نعرہ لگاتے ہیں کہ بشار الاسد کا قتل عام زندہ آباد اور اوبامہ کی امداد مرد ہ آباد ۔

عمر فراہی ،موبائل۔09699353811 ای میل umarfarrahi@gmail.com

0 comments: