Latest

کیا واقعی 2024 میں بی جے پی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؟

 نہال صغیر



۲۰۱۴ سے ایک جملہ بار بار دہرایا جاتا ہے کہ کچھ بھی کرلو آئے گا تو مودی ہی اور بھارتی ووٹروں کی اکثریت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ بالکل درست ہے ۔ بار بار سوشل میڈیا پر ایسے انٹر ویوز سامنے آئے ہیں جس میں کوئی شخص کہتا ہے کہ ہم ہزار روپئے پیٹرول خرید یں گے مگر ووٹ تو مودی کو ہی دیں گے ۔ اسی طرح کسی سے پوچھا جاتا ہے کہ آخر آپ مودی کو کیوں ووٹ دیں گے ؟ اس سوال کے جواب میں مفلوک الحال نظر آنے والا بے روزگار نوجوان کہتا ہے کہ مودی نے مسلمانوں کو سبق سکھایا ہے ہندوئوں کی حفاظت کی ہے ۔حالانکہ کے اس شخص سے جب کوئی صحافی کائونٹر سوال کرتا ہے تو وہ دائیں بائیں جھانکتا نظر آتا ہے ؟ آپ ہجومی تشدد کے مناظر یا رام نومی کے موقع پر ہونے والے تشدد کے مناظر دیکھیں اور مشاہدہ کریں کہ جن ہندو نوجوانوں نے اس میں حصہ لیا ان کی شکل اور ان کے لباس سے ان کی مفلوک الحالی عیاں تھی ۔یعنی غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ اس کی سب سے اہم وجہ حکومت کا سارے میڈیا اداروں پر قبضہ اور ان کے ذریعہ اپنے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنا ہوسکتی ہے ۔ ویسے بھی اوپر کی دو مثالوں اور پانچ سال کی ناکام حکمرانی کے باوجود ۲۰۱۹ میں بی جے پی کو دوبارہ حکومت سونپنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کے عوام پورے کے پورے نہیں تو کم از کم پچاس فیصد کی سوچ بالغ نہیں ہوئی ہے وہ اندھی دشمنی میں اپنا سب کچھ تباہ کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پلوامہ کے بعد پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک نے مودی حکومت کی نائو پار لگائی ورنہ وہ ۲۰۱۹ میں کسی بھی طور حکومت میں نہیں آپاتی ۔لیکن یہ بھی یہاں کے عوام کی بچکانہ سوچ کو ہی ظاہر کرتی ہے ۔ جہاں کے عوام بچوں کی طرح محض معمولی ٹافی جیسے جملوں سے بہل جائیں اور مہنگائی سمیت دیگر کسی بھی عوامی مسائل ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے وہاں نکمی اور ناکارہ حکومت کو کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا ۔ہم مان لیتے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا پر مودی اور ان کی نام نہاد جادوئی شخصیت کا اشتہار چلتا رہتا ہے ، کسی بھی ایسی خبر کو وہاں جگہ نہیں ملتی جس میں حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہو ۔لیکن یوٹیوب سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے ذریعہ تو عوام کے سامنے حقائق پہنچ رہے ہیں نا ، اس کا اثر کیوں نہیں ہورہا ہے ؟ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کان سچائی سننے اور آنکھیں سچ دیکھنے کیلئے بند کررکھے ہیں ۔کہا جاتا ہے سوتے ہوئے کو جگانا آسان ہے لیکن جو سونے کی اداکاری کررہا ہو اسے نہیں جگایا جاسکتا۔
اب بعض آزاد صحافی اور یو ٹیوب پر اپنی بھڑاس نکالنے والے زور شور سے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ۲۰۲۴ میں مودی حکومت کیلئے راہیں بہت مشکل ہوں گی ، بعض کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ وہ سو سیٹیں بھی نہیں حاصل کرسکے گی ۔ لیکن ۲۰۲۴ کو ابھی ایک سال ہے اور یہاں کے عوام جیسے احمق ضعیف الاعتقادی میں اپنی مثال آپ ہیں وہ کسی بھی قسم کی اداکاری یا مسلم دشمنی کے ایشو پر وہ ووٹ تو مودی کو ہی دے سکتے ہیں ۔ اگر کسی کو اس میں شک ہے کہ یہاں کے عوام احمق نہیں ہیں تو وہ ثابت کریں کہ جس حکومت کو اپنی ناکامیوں اور طرز حکمرانی سے بے بہرہ ہونے کی پاداش میں پہلے ہی ٹرم میں درمیان میں گر جانا چاہئے تھا اس نے دوسرے ٹرم کیلئے بھی ووٹ کیسے حاصل کرلیا ۔ ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم سب سے بڑے جمہوری ملک ہیں ،معتبر یا نظریاتی طور سے پختہ نہیں ہوجاتے ۔کچھ لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ ای وی ایم کی وجہ سے بی جے پی جیت کا جھنڈا بلند کررہی ہے ۔ لیکن اس پر بھی یقین اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ سب سے زیادہ زور و شور سے ای وی ایم مشین کیخلاف میدان میں آنے والے کیجریوال کی ٹیم کی جانب سے بھی آواز آنا بند ہوگئی ہے اور کانگریس کی جانب سےجسے اب بھی سب بڑی پارٹی ہونے کا زعم ہے کی جانب سے کبھی ای وی ایم کیخلاف کوئی مضبوط آواز نہیں اٹھی ۔بہتر ہوتا کہ مشینوں اور دیگر ذرائع کو الزامات دینے کی بجائے ہم یہ تسلیم کرلیتے کہ یہاں کا ووٹر اب بھی ذہنی طور بالغ نہیں ہوا ہے ۔ اسے صحیح فیصلہ کرنے میں اب بھی صدیاں درکار ہیں ۔لطیفہ سنئے ، جب این آر سی کیخلاف احتجاج شباب پر تھا اس وقت ملک کے طول و ارض سے یہ خبریں آئیں کہ دلت اور دیگر پسماندہ طبقات لوگ مسلمانوں کے گھروں پر نظر گڑائے ہوئے تھے کہ ’’جب یہ میاں پاکستان بھاگے گا تو اس میں ہم رہیں گے‘‘۔اسی طرح کشمیر سے دفعہ ۳۷۰ ہٹانے کے بعد بھی شیخ چلی کے خوابوں کی طرح یہ باتیں سامنے آئیں کہ وہ کشمیر میں زمینیں خریدیں گے ۔
اب ۲۰۲۴ میں بی جے پی کے زوال کی پیش گوئی جو لوگ کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جس پلوامہ حملہ (جس میں چالیس نیم فوجی جوانوں کی موت ہوگئی تھی) کی وجہ سے بی جے پی کو ۲۰۱۹ کا الیکشن سر کرنے میں آسانی ہوئی تھی اب اسی کی وجہ سے اسے ۲۰۲۴ میں اسے اقتدار سے بے دخل ہونا پڑسکتا ہے ،کیونکہ اس وقت مودی اور ڈوول نے ستیہ پال ملک کو خاموش رہنے کیلئے کہا تھا ۔ اب ستیہ پال ملک نے اس راز پر سے پردہ ہٹا دیا ہے کہ چالیس جوانوں کی موت کی ذمہ دار مودی حکومت تھی ، ان کی وزارت نیم فوجہ دستوں کی نقل مکانی کیلئے ہوائی جہاز مہیا کرانے سے انکار کردیا تھا ۔ اس کےعلاوہ بھی کئی باتیں تھیں جو منظر عام پر آئی ہیں ۔ بات تو پہلے بھی سامنے آئی تھی مگر وہ آزاد صحافیوں کی جانب سے تھی جس میں خفیہ ایجنسی کی ناکامی اور اتنے بڑے نیم فوجہ دستہ کے قافلہ کا بذریعہ روڈ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ۔مین اسٹریم میڈیا کل بھی خاموش تھا آج بھی اسے سانپ سونگھ گیا ہے ۔ لیکن اس بار تھوڑی سی تبدیلی یہ ہے کہ اس وقت جموں کشمیر کے جو گورنر تھے انہوں نے خود سے حکومت کے نکمے پن پر برسر عام آواز اٹھائی ہے ۔ جو کچھ ستیہ پال ملک نے کہی ہے اگر یہاں کے عوام بیدار مغز ہوتے تو وہ سڑکوں پر آجاتے اور ایسی حکومت کو ایک ساعت کیلئے برقرار رہنے پر راضی نہیں ہوتے ۔ مگر یہاں کے عوام تو جب کرنسی نوٹ کی منسوخی اور کووڈ کے وقت غیر منصوبہ بند لاک ڈائون کے سبب مصائب بھی بنام مسلم دشمنی برداشت کرگئے توستیہ پال ملک کا انکشاف بھی انہیں کسی اہم پیش قدمی سے روکے گا ۔واضح ہوکہ جب یہاں پانچ سو اور ہزار کے نوٹ بن کئے گئے تھے تو اس کے دو چار روز بعد کسی ملک نے ایسا ہی فیصلہ لیا تھا لیکن وہاں کے عوام کے شدید احتجاج کے سبب حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے ۔آپ اندازہ لگائیں یہاں نوٹ بندی میں ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد بینکوں کی لائن میں اور لاکھوں افراد کووڈ میں حکومت کی نااہلی کے سبب لقمہ اجل بن گئے مگر ایک پتہ تک نہیں ہلا۔
کچھ روز سے دہلی کے جنتر منتر پر کچھ پہلوان دھرنے پر بیٹھے ہیں جس میں خواتین کی اکثریت ہے ، ان میں سے اکثر نے عالمی پیمانے پر ملک کا نام روشن کرنے کا کام کیا ہے ۔ ان کا الزام ہے کہ ان کی کمیٹی کا سربراہ جنسی استحصال کا گھنائونا کھیل کھیلتا رہا ہے ۔ ان لوگوں نے کئی ماہ قبل بھی دھرنا دیا تھا تب انہوں نے احتجاج اس وقت ختم کیا تھا جب ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ملزمین کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا مگر جب ان کے ملزم کو تمام الزامات سے بری کردیا گیا تو انہوں نے دوبارہ شدت کے ساتھ دھرنے پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا اور اب سپریم کورٹ کے دبائو کے بعد دہلی پولس نے ریسلنگ فیڈریشن کے صدر اور بی جے پی کے ایم پی برج بھوشن کیخلاف ایف آئی آر درج کرلیا ہے ۔ گرفتاری اب بھی نہیں ہوئی ہے ، اپوزیشن اس کی گرفتاری کا مطالبہ کررہا ہے لیکن اپوزیشن کی کیا اوقات رہ گئی یہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ بولتا ہندوستان نے ۲۵؍ اپریل کو اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے ونیش پھوگاٹ کے حوالہ سے ٹوئٹ کرکے بتایا کہ برج بھوشن پر سو دو سو نہیں ایک ہزار سے زائد خواتین کے جنسی استحصال کا الزام ہے ۔ اتنے کریہہ اور گھنائونے الزامات کے بعد بھی کسی شخص کا عہدہ اور پارلیمنٹ میں برقرار رہنا صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ وہ بی جے پی کا پکا نمک خوار ہو ۔آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ جن مہاشے پر پہلوان لڑکیوں جنسی زیادتی کے الزامات عائد کئے ہیں اس پر چالیس مجرمانہ معاملات درج ہیں ۔ آپ کو یہ جان کر بھی یقینا حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے ارکان پارلیمان یا اسمبلی میں بی جے پی کاحصہ سب سے زیادہ ہے کیوں کہ یہ ہزاروں سال پرانی سنسکرتی کے علمبرداروںکی پارٹی ہے ۔کیا کیا گنایا جائے اور کیا چھپایا جائے ، سو کروڑ کی جعل سازی میں ملوث فرد پی ایم کا قریبی ہوتا ہے اور پی ایم او کا افسر بتاکر کوئی ٹھگ کشمیر جیسے حساس علاقوں سے گھوم آتا ہے اور اسے ہر جگہ وی آئی پی ٹریٹمنٹ ملتا ہے ۔ کوئی ہوتا جو جعل سازی ،جھوٹ ، زنا بالجبر ، ڈکیتی ،چوری اور قتل وغیرہ میں ملوث بی جے پی سے متعلق افراد کی مکمل فہرست کو کتابی شکل میں ہم جیسوں کیلئے تیار کرتا ۔
ہمارے ایک بزرگ مضمون نگار نے۲۰۲۱ میں کسانوں کے دھرنوں اور احتجاج کے درمیان کہا تھا کہ مغربی اتر پردیش سے بی جے پی کا صفایا ہوجائے گا لیکن معمولی نقصان سے زیادہ کچھ نہیں ہوا جبکہ یہ پورا علاقہ کسانوںکا ہے ۔ میرے لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ (چند لکھنے والے یا آزاد صحافی) خواہ کچھ بھی کہیں مگر جن لوگوں کا نعرہ ہے کہ’’ آئے گاتو مودی ہی‘‘ کچھ سوچ کر ہی انہوں نے یہ نعرہ دیا ہے ۔ بی جے پی کو جن لوگوں کا ووٹ مل رہا ہے ان کے ذہنوںپر کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ انہیں صرف ایک بات ہی یاد رہتی ہے کہ مسلمانوں کو ان کی اوقات میں رکھنے کیلئے مودی سے بہتر کوئی نہیں ہے ۔ برج بھوشن کے سیاہ کارنامے سے بھی ان کے ذہنوں میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ جو قوم زنا بالجبر اور قتل کے مجرمین کا خیر مقدم پھولوں کی مالا اور مٹھائیاں کھلا کراور ترنگا یاترا کے ذریعہ کرتی ہو اس میں تبدیلی ممکن نظر نہیں آتی ۔ اس لئے زیادہ خوش فہمی کی ضرورت نہیں کہ ۲۰۲۴ میں جبر کی اس حکومت کوزوال کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ مجھے تو محسوس ہوتا ہے کہ ابھی مزید کئی ٹرم یہی لوگ آئیں گے اور ملک کو تباہی کے ایسے دلدل میں لے جائیں گے جہاں سے اس کا نکلنا آسان نہیں ہوگا ۔ ان کا یہ کام یہاں کے بے حس اور ناپختہ ذہن کے عوام کررہے ہیں ۔اب کوئی شخصیت یا پارٹی انہیں جب حساس اور فکری طور پر پختہ کرنے کا کام کرے گی تب ہی کسی تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے ۔ یہ امریکہ نہیں ہے کہ جہاں ٹرمپ کو دوبارہ حکومت میں آنے سے عوام روک دیتے ہیں اور وہاں کا عدالتی نظام دیکھئے کہ عارضی طور سے ہی سہی لیکن سابق صدر کو گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔ سوچئے یہاں ایسا ممکن ہے ؟

یا صبا حاہ ! یا صبا حاہ !



عمر فراہی

وقت کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا کی چوٹی سے مکہ کے لوگوں کو اسلام کی دعوت کیلئے پکارا تو یا صبا حاہ ! یا صبا حاہ !کا وہی نعرہ لگایا جو کسی بستی پر حملے کے وقت پکارنے والا پکارتا ہے ۔اس نعرے کے بعد جب مکہ کے لوگ آپﷺ کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے کہا کہ اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے عقب سے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے تو کیا میرا یقین کرو گے ۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قومیں پہلے بھی دوسری قوموں پر غالب آنے کیلئے سازشیں کیا کرتی تھیں اور ان میں لوگوں کو خبر کرنے والے بھی ہوتے تھے وہ آج بھی موجود ہیں ۔ہاں اس غالب آنے کی حکمت عملی میں جو فرق آیا ہے وہ یہ کہ پہلے ایک قبیلہ دوسرے قبیلے پر چھپ کر شب خون مارا کرتا تھا اور قتل عام کر کے دوسرے قبیلوں کے مویشی اور کھانے پینے کے سامان لوٹ لیا کرتا تھا۔ موجودہ مہذب جمہوری معاشرے میں یہی کام سلیقے سے نام نہاد قانون کے دائرے میں انجام دیاجاتا ہے۔ پکارنے والا آج بھی الفاظ و معنی کے تفاوت کے ساتھ اپنے پکارنے کا کام کر رہا ہے ۔فرق اتنا ہے کہ اب یا صبا حاہ ! کی یہ آواز عالمی اور قومی میڈیا کی طرف سے لگائی جاتی ہے اور لوگوں کو اسلامی دہشت گردی کے عنوان سے مسلمانوں کی اذان ،نماز ،قرآن اور حجاب سے ہوشیار کیا جاتا ہے ،جبکہ حقیقت میں یہ پکارنے والے ہی ایک مذہب کے لوگوں پر شب خون مارنے کی مسلسل تیاری میں رہتے ہیں اور کئی مسلم ملکوں کو باقاعدہ عالمی ادارے اقوام متحدہ کی حمایت سے تباہ و برباد بھی کر دیا گیا ہے ۔بیسویں صدی میں مذہب کو سیاست سے جدا کر کے گلوبلائزیشن کے عنوان سے اقوام متحدہ کا جو تصور سامنے آیا ہمارے بزرگوں نے بھی خوشی خوشی اس قومی یک جہتی کے فلسفے کو تسلیم کرتے ہوئے قوم رسول ہاشمی ﷺکے عالمی اسلامی تصور کو رد کردیا ۔دیگر  قوموں نے یقیناًابلیس کے اس لادینی نظام کو پوری طرح قبول کر لیا ہے لیکن پاکستان سے لیکر افغانستان ،ایران، عراق ،مصر، ترکی ،یمن ،فلسطین ،صومالیہ، لیبیا اورچچنیا وغیرہ میں مسلمانوں کی مکمل آبادی ابھی بھی پوری طرح ایک سیکولر اسلام کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ جو اقوام متحدہ کے بانی اور حکمراں ہیں انہوں نے ان ممالک پر شب خون مار کر انہیں تباہ و برباد کرنے کی پوری کوشش کی ہے ۔باقی برما ، سری لنکا اورفرانس وغیرہ میں جہاں اللہ کا نام لینے والے اقلیت میں ہیں اور ان پر وہاں کے حکمراں اور سیاستداں جو ظلم کر رہے ہیں اقوام متحدہ خاموش ہے ؟
عافیہ صدیقی پس زنداں ہے اور آسیہ بی بی جیل کے باہر ۔مذہبی ہم آہنگی اور قومی یک جہتی کا مطلب تو یہ ہے کہ آسیہ کی رہائی کیلئے تحریک چلانے والے عافیہ کی رہائی کیلئے بھی تحریک چلاتے ۔کبھی غور کرنا کہ دبئی کے حکمراں کی بیٹی شہزادی لطیفہ جو اپنے فرانس کے غیر مسلم بوائے فرینڈ سے شادی کرنے کیلئے اپنے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں تھی وہ ابھی اپنے باپ راشد المکتوم کے حکم پر نظر بند ہے اس کی رہائی کیلئے تو آزادی نسواں کی علمبردار تنظیمیں سرگرم نظر آتی ہیں اور ابھی حال میں انہوں نے امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن سے بھی لطیفہ کی رہائی کیلئے دبئی کے حکمراں پر دباؤ ڈالنے کیلئے کہا ہے لیکن اسی جوبائیڈن سے عافیہ صدیقی اور مصر کی جیلوں میں قید اخوانی بہنوں کی رہائی کی کوئی درخواست اور تحریک اٹھتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے تو اس لئے کہ عافیہ اور اخوانی بہنیں باعمل مسلمان ہیں جبکہ آسیہ عیسائی ہے اور لطیفہ ایک آزاد خیال عورت ہے اور اپنے دین سے بغاوت پر آمادہ ہے !
اس معاملے میں مسلم ممالک کے حکمرانوں کا رویہ تو مایوس کن ہے ہی کچھ مذہبی جماعتیں اور ان کے علماء بھی کم قصوروار نہیں ہیں ۔موجودہ دور جمہوریت میں قوم رسول ہاشمی ﷺکے نمائندوں کو جو مواقع میسر ہیں وہ بھی یا صبا حاہ ! یا صبا حاہ ! کے نعرے کے ساتھ اپنی قوم کو جگانے کی جرأت تو کر رہے ہیں لیکن وہ اپنے محدود وسائل اور کوہ صفا جیسی بلندی کے مقامات سے محروم ہونے کی وجہ سے اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے مکمل طور پر باخبر نہیں ہیں ۔ہم اپنی اسی بے خبری اور ضعیفی کی وجہ سے ہر روز کسی نہ کسی سرخی میں رہتے ہیں ۔یہی تقدیر کے قاضی کا فتویٰ بھی ہے اور اسی جرم ضعیفی کی سزا ہلاکت اور تباہی بھی ہے !
کبھی کسی اخلاق اور تبریز کو جئے شری رام کے نعرے لگا کر گھسیٹ کر مار دیا جاتا ہے کبھی قرآن کے تعلق سے شیطان رشدی یا رضوی کا جن باہر آ جاتا ہے کبھی کسی آصفہ تو کبھی آصف کو اس کے آصف ہونے کی سزا ملتی ہے ۔کبھی کسی سرکاری نصاب میں اسلامی دہشت گردی کو موضوع بنا کر مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کا واقعہ سامنے آتا ہے تو بے چاری صوفی سنتوں کی جماعت جس نے کبھی زمین کے اوپر کی بات ہی نہیں کی اسے بھی فساد فی الارض کی دفعہ کویڈ 19 کے جرم میں گرفتار کر لیا جاتا ہے ۔
سوشل میڈیا پر بحث ہو رہی تھی کہ ایم بی بی ایس کی کسی میڈیکل کی کتاب میں تبلیغی جماعت کے خلاف کوئی منفی تبصرہ کیا گیا ہے جسے خیر سے چند باخبر مخلص نوجوانوں کی مداخلت پرپبلشر نے حذف تو کر دیا ہے لیکن کیا اس کی خبر تبلیغی جماعت والوں کو بھی ہے۔ اس تعلق سے میں نے مسجد میں تبلیغی نصاب پڑھ کر اٹھ رہے چند نوجوانوں سے پوچھا کہ بھائی آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ کسی میڈیکل کی کتاب میں آپ کے خلاف کچھ لکھا گیا ہے ۔کچھ نے تو برجستہ جواب دیا کہ نہیں ہمیں نہیں معلوم ۔کچھ جو تھوڑا عمر دراز تھے یا سال چھ مہینے کے چلے سے فارغ نظر آرہے تھے انہوں نے بہت ہی اطمینان سے جواب دیا کہ بھائی اسلام کے خلاف تو ہر دور میں ایسی سازشیں ہوتی رہی ہیں ہم لوگ دین کا کام کر رہے ہیں اللہ ہماری حفاظت کرے گا اور کبھی کبھی اللہ اپنے دشمنوں سے بھی اپنے دین کا کام لے لیتا ہے ۔میں نے ان سے زیادہ بحث نہیں کی، لیکن دل میں سوچنے لگا کہ ایمان کی محنت کرنے والے ان بھائیوں کا ایمان کتنا پختہ ہے کہ وہ اپنا کام کر رہے ہیں اور ان کے خلاف سازشیں کرنے والوں کے خلاف لڑنے کیلئے اللہ نے سمیع اللہ خان اور ایس آئی او کے بچوں کو کھڑا کر دیا ۔
تبلیغی بھائی اکثر کہتے ہیں کہ کامیابی اگر حکومت میں ہوتی تو فرعون ناکام نہ ہوتا ۔کاش یہی بات افغانی ملاؤں ، مصر کے اخوانی جوانوں ،فلسطین اور کشمیر کے حریت پسندوں کے ساتھ ساتھ طیب اردگان ،محمد بن سلمان ، السیسی اور عمران خان وغیرہ کو بھی سمجھ میں آجاتی اور وہ سب سیاست اور حکومت کے غلیظ کاروبار کو اپنے ملک کے بدمعاشوں کو سونپ کر دعوت دین کے کام میں لگ جاتے ۔ملت کے اس فکری تضاد پر میں اپنی بات حالی کی اس دعائیہ نظم پر ختم کرتا ہوں کہ  ؎  ائے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے /امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے /جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کسریٰ /خود آج وہ مہمان سرائے فقراء ہے / جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہبان /اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے

حکومت سوشل میڈیا سے خوفزدہ کیوں ہے ؟



نہال صغیر 

نریندر مودی کا ہی پسندیدہ جملہ ہے جو میڈیا میں اکثر گردش کرتا رہتا ہے ،انہوں نے کہا تھا پاکستان کو اسی کی بھاشا میں جواب دینا چاہئے ؟ پتہ نہیں اس کا مطلب اور اس کے پس منظر کو کسی نے سمجھا یا نہیں مگر ہندوستانی عوام خصوصی طور سے سماجی کارکنان ، حزب اختلاف اور مسلم نوجوانوں نے اسے سمجھ کر میڈیا کے دورخے پن کا جواب بقول نریندر مودی اسی کی زبان میں بخوبی دینا شروع کیا جس سے سب دم بخود رہ گئے ۔ کہا یہ بھی جاتا ہے اور حقیقت بھی ہے کہ دشمن کے پاس جو ہتھیار ہو خواہ کمزور ہی سہی لیکن وہی آپکے پاس بھی ہونا چاہئے ، تب ہی آپ وہ جنگ جیت سکتے ہیں ۔حکومت نے ٹی وی اور پرنٹ میڈیا کے اکثر اداروں کو اپنا زر خریدبنالیا ہے ایسے میں انکے ذریعہ حکومت کی قدم بوسی کا جواب سوشل میڈیا کے ذریعہ دینا ہی متبادل تھا ۔ اس کو استعمال کیا گیا اور خوب استعمال کیا گیا جس سے حکومت اور سنگھ کے کارندے سر پکڑ کر بیٹھ گئے ۔ اس کا جواب وہ کیا دیتے مگر انہوں نے بھی اتنی جلدی ہارنا نہیں سیکھا ہے سو انہوں نے سوشل میڈیا  کی خامیاں بیان کرتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ یہ غیر معتبر ہے یعنی اسے عوام کے سامنے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اور اب گذشتہ پیر ۲۱ ؍ ستمبر ۲۰۲۰ کو  مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میںحلف نامہ داخل کرکے سوشل میڈیا کو ساری خرابیوں کی جڑ قرار دیا ہے ۔ واضح ہو کہ مین اسٹریم میڈیا کی خامیاں اور اس کے حقائق کو چھپانے اور عوام کو زمینی سچائی سے بے خبر رکھنے والے رویہ کیخلاف سدرشن نیوز معاملہ میں سپریم کورٹ کے ججوں کا تبصرہ موضوع بحث ہے ۔اس دوران جبکہ سدرشن ، ریپبلک وغیرہ جیسے چینل کی اعتباریت پر بڑے پیمانے پر سوال اٹھ رہے ہیں تو ایک بار پھر مرکزی حکومت نے اپنے چہیتوں کو بچانے کیلئے سوشل میڈیا کا کارڈ سپریم کورٹ میں پھینکا ہے ،حکومت کا یہ رویہ اس کے خوف کو ظاہر کرتا ہے ۔ 

بے بسی کے اس دور میں جب عوام کی کوئی سننے والا نہیں تھا سوشل میڈیا ان کیلئے صحرا میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی طرح آیا جہاں وہ اپنی بات کہہ سکتے ہیں اور مین اسٹریم میڈیا کی زہرلی سوچ کا تریاق بھی  ڈھونڈ سکتے ہیں ۔عوام نے سوشل میڈیا کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ۔ آج سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ پر ایسی ہزاروں سائٹیں ہیں جہاں آپ کی بات من و عن پیش کی جاتی ہیں ۔ حکومت کی پریشانی یہی ہے کہ وہ ہزاروں کروڑ روپئے جس سچائی کو پوشیدہ رکھنے اور عوام کو بدگمانی میں مبتلا رکھنے کیلئے خرچ کررہی ہے ، سوشل میڈیا کے جہد کار چند منٹوں میں اس کی ہوا نکال دے رہے ہیں ۔ اس لئے حکومت چاہتی ہے کہ وہ اس شعبہ کی خامیوں کا پروپگنڈہ کرکے اس پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرے ۔ اس لئے مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں سدرشن ٹی وی کیس میں حلف نامہ داخل کرکےکہاکہح ’’ ویب پر مبنی ڈیجیٹل میڈیا کو کنٹرول کرنا چاہئے۔ جس میں ویب میگزینز اور ویب پر مبنی نیوز چینلز اور اخبارات شامل ہیں۔موجودہ وقت میں یہ مکمل طور پربے قابو ہیں۔ فی الحال ، ڈیجیٹل میڈیا بڑے پیمانے پر پھیل گیا ہے۔ جہاں متعدد متضاد ویڈیوز ، متضاد خبریں اور حقائق چلائے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ متاثر ہورہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ، قانونی طور پر اس کے لئے رہنما اصول اور قواعد طے کرنا ضروری ہے‘‘۔ حکومت سوشل میڈیا کے تئیں اپنے مقاصد میں کتنی کامیاب ہوتی ہے یہ تو وقت بتائے گا ، مگر اس کیلئے اپنے پروپگنڈوں کو سچائی پر تھوپنے کا عمل مشکل ضرور ہوگیا ہے ۔معاشرے میں گندگی مین اسٹریم میڈیا کا وہ طبقہ پھیلارہا ہے جسے عرف عام میں گودی میڈیا کہتے ہیں مگر الزام سوشل میڈیا پر دھرا جارہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ سدرشن نیوز چینل کیخلاف جاری سماعت سے حکومت اپنے مفاد کا حصول چاہتی ہے کیوں کہ ججوں نے بے لگام الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کی بات کی ہے۔

مرکزی حکومت کے خوف کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے مین اسٹریم میڈیا سے جن سینکڑوں صحافیوں کو دبائو ڈال کر باہر نکلوادیا تھا انہوں نے سوشل میڈیا پر مورچہ سنبھال لیا ہے ، جو حکومت سے ہر روز سوال کرتے ہیں اور وہ سوال حکومت قابل توجہ سمجھے یا نہیں مگر ملک کے عوام سمیت اقوام عالم تک ان کی باتیں ضرور پہنچ جاتی ہیں اور اس سے مرکزی حکومت بھری دوپہر میں بے لباس ہوتی رہتی ہے ۔آج حالت یہ ہے کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر مورچہ جمائے صحافیوں نے عوامی مفاد کی باتیں اسقدر کی ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا کا اعتبار تو ختم ہو ہی گیا ہے اور عنقریب انہوں نےروش تبدیل نہیں کی تو ان کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا ۔ اسی لئے حکومت اپنے چاپلوس میڈیا اور اس کے مالکان کی سلامتی کیلئے سوشل میڈیا کو بدنام کرنے کی جانب قدم بڑھارہی ہے ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آج مین اسٹریم میڈیا کا وجود کیوں خطرہ میں ہے ؟ ہم نےسیر پر سوا سیر کی کہاوت سنی ہے ، سو آج مین اسٹریم میڈیا کے سیر کو سوشل میڈیا کا سوا سیر مل گیا ہے ۔ اگر انہوں نے اپنی ذمہ داری ادا کی ہوتی تو ان پر غیر یقینی کے یہ حالات نہیں آتے ، انہوں نے اپنا اعتبار خود کھویا ہے ۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ، سوشل میڈیا اسی ضرورت کی تکمیل کیلئے ہمارے سامنے ہے ۔ بہتر ہوتا کہ مرکزی حکومت سوشل میڈیا کی نام نہاد خامیاں سپریم کورٹ کے روبرو رکھنے کی بجائے مین اسٹریم میڈیا کے ذریعہ جو زہر معاشرے میں پھیلایا جارہا ہے اس پر کنٹرول کیلئے کوئی تجویز پیش کرتی، جیسا کہ سپریم کورٹ کے ججوں نے سدرشن معاملہ میں الیکٹرانک میڈیا کیلئے اصول و ضوابط اور انہیں اقدار کا پابند بنانے کی بات کی ہے ۔ 

ہندوستانی میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے؟یہ ایک سوال ہے جو یقینا ً بہتوں کے دماغ میں گردش کررہا ہوگا ۔ اس طرح کے سوال کی وجہ یہاں کے میڈیا ہائوس کا بے لگام ہوجانا ہی نہیں ہے بلکہ اکثریت اور دولت کے زعم میں مسلمانوں کو بدنام کرنا اور پسماندہ طبقات کیخلاف سازشیں کرنا ہے ۔ کسی مہذب معاشرے میں جہاں میڈیا کو پابند نہیں کیا جاسکتا اور نا ہی اس کی خبروں کو سینسر کیا جاسکتا ہے ۔مگر دیگر شعبوں کی طرح یہاں بھی کچھ اصول نافذ ہوتے ہیں جس کو عمل میں لائے جانے کی ضرورت ہے ۔کہا جاتا ہے کہ انسانوں کی بستی میں میڈیا کیا کسی کی بھی آزادی کلی نہیں ہے ۔ جہاں آپ کی باتوں یا آپ کی نام نہاد آزادی سے کسی کو ناحق نقصان پہنچے وہاں آپ کی آزادی ختم ہوجاتی ہے ۔میڈیا کے ایک بڑے طبقہ کے بے لگام ہوجانے کی کہانی اتنی بھیانک ہے کہ اس کی خطرناکی کو بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ رویش کمار اکثر اپنے شو میں میڈیا کے اسی رویہ کو نشانہ بناتے ہوئے اکثریتی فرقہ کو کہتے ہیں کہ آپ ٹی وی نہ دیکھیں یہ آپ کے بچوں کو فسادی بنارہا ہے۔ حکومت کو خود پر سوال اٹھانے والوں سے خوف ہے اور وہ اسے فساد کی جڑ مانتی جبکہ سپریم کورٹ کے ججوں نے مین اسٹریم میڈیا کی تباہی کو اس حد تک محسوس کیا کہ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کو کہنا پڑا ، ’’سپریم کورٹ کا کسی چیز پر روک لگانا ایٹمی میزائل کی طرح ہے۔لیکن ہمیں آگے آنا پڑا کیونکہ کسی اور کے ذریعےکوئی کارروائی نہیں کی جا رہی تھی۔ ایک سرکاری افسرنے خط لکھا بس‘‘۔سپریم کورٹ کے مذکورہ بنچ کے ججوں یہ کہنا کہ ’’میڈیا میں یہ پیغام جانا چاہئے کہ خاص کمیونٹی کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ۔ ہمیں مستقبل کے ملک کو دیکھنا ہے جو جو متحد اور متنوع ہو‘‘۔بہر حال سپریم کورٹ نے میڈیا کیلئے جس حدود کی بات کی ہے اس کا نافذ ہونا بہت ضروری ہے ۔ لیکن یہ حدود حکومت کی ریشہ دوانیوں سے آزاد ہواور اس کی نگرانی کرنے والے لوگ سبھی کمیونٹی سے ہوں جو مبنی بر انصاف فیصلے لے سکیں ۔ ورنہ سدرشن چینل جیسے میڈیا ہائوس اس ملک کو جلا کر خاک کردیں گے اور اس وقت کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ ہمیں اس تناظر میں ریڈیو روانڈا کی زہرناکی کو یاد رکھنا چاہئے ۔جس کی نفرت پر مبنی پروپگنڈہ کے سبب  لاکھو ں انسان قتل کردیئے گئے تھے۔ 

گاندھی اور گوڈسے

 


ممتاز میر  

   چند دنوں پہلے ممبئی سے ایک دوست کا فو ن آیا۔وہ ڈاکٹر ہیںممبئی قیام کے دوران ہفتے میں ۴؍۵ دن ان سے ملاقات رہتی تھی۔انتہا درجے کے دوٹوک اور خوش مزاج ہیں ۔جسمانی روگوں کا علاج دواؤں سے تو کرتے ہی ہیںمگر ان کی باتیں بھی کسی ٹانک سے کم نہیں ہوتیں۔ہم اکثر اپنا موڈ درست کرنے کے لئے ان سے باتیں کرتے ہیں جو اکسیر بھی ثابت ہوتی ہیں۔کہنے لگے چھ ماہ ہورہے ہیں آپ ممبئی نہیں آئے۔ ہم نے کہا ،پہلے تو اس انتظار میں رہے کہ سی ایس ٹی والی گاڑیاں شروع ہو تو ریزرویشن کرائیں ۔اس سے مایوس ہوئے تو کر لا ٹرمنس کا ریزرویشن ڈھونڈنے لگے۔اب ملا ہے تو یکم اکتوبر کو یہاں سے نکلیں گے ۔ پوچھا، کہ دو،اکتوبر کی صبح پہونچ جائیں گے ، ہم نے کہا ، انشا ء اللہ ،کہنے لگے ۔یعنی آپ گاندھی جینتی ہمارے ساتھ منائیں گے ،دیش بھکتی کے گیت گائیں گے۔ہم نے کہا ۔یہ تو ٹھیک ہے کہ ہم دو اکتوبرکو ممبئی میں ہوں گے مگر باقی سب کرتے ہوئے اب ڈر لگتا ہے ۔ پوچھا،کیوں؟ہم نے کہا کہ بھائی NSA سے ڈر لگتا ہے ۔پوچھاNSA اور گاندھی جینتی کا کیا تعلق۔ ہم نے کہا ،اب گاندھی جی دیش بھکت کہاں رہے ۔ اب تو دیش کا ہیرو اور دیش بھکت ناتھو رام گوڈسے ہے ۔اب جگہ جگہ گاندھی کے بازو میں ناتھو رام گوڈسے کی تصاویر لگائی جا رہی ہے ۔کہیں ایسا بھی ہوا ہوگا کہ گاندھی کی تصاویر نکال کر ناتھورام کی لگائی گئی ہوں۔ انشاء اللہ وہ وقت بھی آئے گا جب گاندھی جی کو راشٹر پتا کے’’عہدے‘‘ سے ہٹا کر ’’ناتھو رام جی‘‘ کو راشٹر پتا بنا دیا جائے۔اوراگر یہ ممکن نہ ہوا تو راشٹر دادا بنا دیا جائے۔ ویسے بھی ناتھو رام جی کا تعلق جن لوگوں سے تھا وہ دادا گیری میں ہی یقین رکھتے ہیں۔یہ سب بھی ممکن نہ ہوا تو بھارت رتن تو کبھی بھی دیا جا سکتا ہے۔اور یہ سب اس لئے ہوگا کہ ہماری سول سوسائٹی یا تو بے حس ہے یا منافق۔

   کچھ مسلمان دانشوروں کا خیال ہے کہ گاندھی جی سنگھیوں کے ہی فرنٹ مین تھے ۔جس طرح یہودی چت اور پٹ دونوں پر داؤں کھیلتے ہیں بالکل اسی طرح ہمارے یہاں سنگھی ہر جگہ اپنے آدمی بٹھا کر رکھتے ہیں ۔ جیسے حالیہ تاریخ میں نرسمہا راؤ۔وہ کانگریس میں سلیپر سیل کی طرح تھے ،قسمت نے یاوری کی وزیر اعظم بن گئے۔دکھا دیا اپنی اصلی چہرہ ،گروادی بابری مسجد۔اسی طرح ان دانشوروں کا خیال ہے کہ گاندھی جی جو کچھ بھی کرتے رہے اس میں ہندو مہا سبھا کی مرضی شامل تھی ۔بلکہ وہ سبھائیوں کی بتائی ہوئی چالیں چلتے تھے۔مگر فرنٹ مین بہرحال ہوتا تو ایک جاندار انسان ہی ہے ۔بے جان مشین کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی کوئی عقل اور جذبات نہیں ہوتے ۔انسان کبھی کبھی خود بھی سوچ لیتا ہے ۔کبھی کبھی اس کی عقل متاثر بھی ہوجاتی ہے ۔شقی القلب انسانوں کے بھی جذبات کبھی متاثر ہوجاتے ہیں۔پھر گاندھی برہمن تو تھے نہیں،وہ وطن عزیز کی تقسیم کے مخالف تھے۔مگر جب تقسیم نوشتہء دیوار بن گئی تو انھوں نے پاکستان کے لئے کچھ ہمدردی دکھائی۔ان کا موقف تھا کہ پاکستان کو اس کے حصے کے ۵۵ کروڑ کی رقم ادا کی جائے جب کہ سنگھ چاہتا تھا کہ پاکستان بھوکا مر جائے ۔

  آجکل ہم الجمیعتہ دہلی کے ۱۹۲۵ سے ۱۹۲۸تک کے اداریے و مضامین پڑھ رہے ہیں ۔ان تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ ہندو مہا سبھا کسی حال میں وطن عزیز میں نہ امن قائم ہونے دینا چاہتی تھی نہ اتحاد ۔ جہاں ذرا بھی امن و امان کی اور ہندو مسلم اتحاد کی صورت بنتی نظر آتی تووہاں زہریلی تقریریں کی جاتیں ہندؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جاتا اور فساد برپا کرادیا جاتا۔اور پھر برسوں کے لئے ہندو مسلم اتحاد خواب بن کر رہ جاتا جو انگریزوں سے چھٹکارے کے لئے ضروری تھا۔آج جو ہورہا ہے وہی سو سال پہلے بھی ہوا ۔ہندوؤں کے جن بڑوں کو اس وقت ایکشن لینا چاہئے تھا وہ سب اپنے اپنے گوشہء عافیت میں پڑے رہے اور میدان شر پسندوں کے لئے خالی چھوڑدیا ۔جب میدان میں مقابل کوئی ہے ہی نہیںتو کمزور سے کمزور ٹیم ہو جیتے گی تو وہی۔آج بھی تاریخ کے دھارے کو موڑنے یا روکنے کی کوئی کوشش کہیں نظر نہیں آتی۔بہرحال گاندھی جی کی پاکستان نوازی سنگھ کے روڈ میپ کے خلاف تھی ۔فرنٹ مین باغی ہو گیا تھا ۔ایسی حالت میں ناتھو رام جو پرانا سنگھی تھا سنگھ کی مدد کو آیا۔ آج ناتھو رام کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ اسی احسان کا بدلہ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137 


طالبان : یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے




   نہال صغیر ۔ ای میل  sagheernehal@gmail.com 

علامہ اقبال نے مومن کے تعلق سے ایک بات کہی تھی ؎ جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں/اِدھر ڈُوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈُوبے اِدھر نکلے۔ اقبال کے اسی بندہ مومن کی زندہ مثال طالبان ہیں جن کی بے پناہ قربانیوں کے سبب ملت سر اٹھا کے جینے کے قابل ہے ورنہ کچھ اس کی خامیوں اور کچھ اغیار کے پروپگنڈوں نے تو مسلمانوں کو دنیا کی ذلیل ترین مخلوق کے مشابہ بنادیا تھا ۔ مگر اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ مومنین صادقین کی مدد کرنے سے اپنا ہاتھ نہیں روکے گا ۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے مگر یہ ہم پر ہے کہ ہم اپنے مومن ہونے اور اللہ کے پاکباز بندوں میں اپنا نام لکھوانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں ۔ طالبان کو دنیا بدنام کرتی رہی ، ان کے خلاف جھوٹے پروپگنڈے ہوتے رہے اور صرف اسلام دشمن قوتیں ہی نہیں مسلک کے قیدی مولوی اور ان کے مرید مسلمان نیز مسلمانوں کی ہمدردی کا دعویٰ کرنے والے سیکولر لبرل جمہوریت پرست طبقہ بھی طالبان کو ہدف تنقید بناتا رہا اور امریکہ کے آگے سرنگوں رہا مگر بقول اوریا مقبول جان ملا عمر ؒ نے کہا تھا ’میں اپنی زندگی میں ایسا کوئی بھی کام نہیں کروں گا جس سے مسلمانوں کو شرمندہ ہونا پڑے‘۔ ملا عمر ؒ اور ان کے ساتھیوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ مسلمانوں کے وقار بلند کرنے والے لوگ ہیں ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ اسلام نے ہمیں عزت بخشی ہے ۔ یہ بات قیامت تک کیلئے اٹل ہے کوئی اسلام سے الگ ہٹ کر اگر عزت تلاش کرے گا تو وہ ذلیل و رسوا ہوگا ۔ تاریخ کے صفحات ایسے افرادسے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے اسلام میں عزت پائی ، انہیں فرعون وقت نے ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کی مگر جیسا کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ’عزت تو الله اوراس کے رسول اور مومنین ہی کے لیے ہے لیکن منافق نہیں جانتے‘ سورہ منافقون آیت ۸ ۔اللہ نے اپنے نیک بندوں کیلئے عزت مختص کررکھی ہے کسی کو یہ سمجھ میں آئے یا نہیں آئے ویسے طالبان کے ساتھ امریکی سمجھوتہ سے تو یہ بات سمجھ میں آجانی چاہئے ۔ کتنے متکبرانہ انداز میں جارج بش نے کہا تھا طالبان ختم ہوگئے ۔ مگر آج دنیا نے دیکھ لیا کہ جو ٹھیک ٹھیک اسلام نافذ کرنا چاہتا ہے اس کیلئے مشکلات دنیا کے شیاطین کی جانب سے کھڑی تو کی جاسکتی ہیں مگر اللہ اپنے مسلم بندوں کو رسوا نہیں ہونے دے گا ،وہ انہیں عزت دے کر رہے گا ۔طالبان کےمعاہدہ کی پہلی شق ہی ان کے کامل ایمان کیلئے کافی ثبوت ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کے سبھی اداروں کو اسلامی خطوط پر ترقی دیں گے ۔ 
غلامی ایسی نحوست بھری چیز ہے جس میں انسان خود کو پہچاننا بھول جاتا ہے ۔ دنیا میں ہم اس کی کئی مثالیں دیکھ سکتے ہیں ۔ خود وطن عزیز کی پچاس فیصد سے زائد تعداد رکھنے والی آبادی برہمنوں کی غلامی میں اپنی خودی کو اتنی بھول چکی ہے کہ وہ ہندو نہیں ہوتے ہوئے بھی سارے ہندو رسم و رواج مناتی ہے ۔ حالانکہ ان کے لیڈر انہیں بتاتے نہیں تھکتے کہ وہ ہندو نہیں ہیں اور ہندو کے نام پر ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش کی جارہی ہے مگر وہ پندرہ فیصد والی آبادی میں برہمنیت کے علمبرداروں کی سازش کا شکار ہوکر مسلمانوں کی دشمنی میں دیوانے ہورہے ہیں اور یوں اپنا ہی نقصان کررہے ہیں ۔ یہ لوگ تو خیر تین ہزار سال کی غلامی کے سبب اس ذہنی سطح تک پہنچے ہیں مگر اسی ملک میں مسلمانوں کی حالت محض ستر پچھتر برسوں میں یہ ہوگئی ہے کہ وہ مسلمانوں کی کسی بڑی کامیابی کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے ۔ غلطی عام مسلمانوں کی بھی نہیں ہے ،یہ ان عناصر کے پھندے ہیں جو عافیت پسند ہیں اور مغرب یا امریکہ کے ٹکنالوجی اور اس کی ترقی سے مرعوب ہیں ۔اس مرعوبیت میں یہ حضرات قوم پر بھی مایوسی مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ طالبان اور امریکہ کے درمیان سمجھوتے کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ سمجھوتہ کامیاب نہیں ہوگا یا پھر ان کا یہ ماننا ہے کہ طالبان نے یہ سمجھوتہ گر کر کیا ہے اور طالبان کی جیت نہیں ہار ہے ۔ اس طرح کے خیالات پیش کرنے والے افراد قوم کو مغالطہ میں رکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ جیسے وہ بزدل ہیں ویسے ہی پوری قوم بن جائے ۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ پوری ملت بزدلی کے مرض میں مبتلا نہیں ہوئی ہے ۔ 
اگر طالبان امریکہ سے خائف ہوتے اور وہ کمزور پڑتے تو امریکہ کبھی ان سے سمجھوتہ نہیں کرتا مگر طالبان کے دبائو نے امریکیوں کو مجبور کیا کہ وہ سمجھوتہ کرلیں اور یوں اپنے آٹھ دس ہزار فوجیوں کو موت کے منھ سے بچاکر لے جائیں ۔ اس کے برعکس یہ صحرا نشین طالبان پوری دنیا سے بے نیاز اور دنیاوی قوت سےبے خوف ہوکر گوریلا جنگ لڑتے رہے اور بالآخر فرعونی قوت کو ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے ۔کئی سال قبل طالبان کی روسیوں پر فتح کی ضمن میں شاہنواز فاروقی نے لکھا تھا اور اپنی کسی تقریر میں اس کا حوالہ بھی دیا تھا کہ جو کچھ طالبان نے حاصل کیا ہے اگر یہ کسی مغربی ملک کو میسر ہوا ہوتا تو پانچ ہزار سے زائد کتابیں محض اس موضوع پر شائع ہوچکی ہوتیں ۔مگر غلام ذہنیت اور ٹکنالوجی کی مرعوبیت کے سبب مسلمانوں کے دانشور طبقہ کو یہ بات ہضم ہی نہیں ہوتی کہ طالبان نے محض چالیس سال میں دنیا کی دوبڑی طاقتوں کو شکست دے کر تاریخ رقم کردی ہے ۔یہ اس دانشور طبقہ کا ہی حال نہیں ہے مسلمانوں کے درمیان کئی اہم تحریکی شخصیت کا بھی یہ خیال ہے کہ مسلمان اس دور میں کوئی کارنامہ انجام دے ہی نہیں سکتے ۔ جیسے ایک بار نوجوانوں کی تنظیم کے ایک ذمہ دار سے یہ کہا گیا کہ امریکہ میں دو مسلم تنظیمیں اتنی متحرک ہیں کہ وہ کئی اہم پالیسی پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں تو یہ بات انہوں نے تسلیم ہی نہیں کی ۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے آگے کچھ نہیں ہو سکتا وہ جو چاہے گا وہی ہوگا ۔ ان کے اس طرح کے خیال سے بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا اس امر پر ایمان کمزور ہے کہ اس کائنات کا نظام اللہ چلا رہا ۔
بہر حال امریکہ طالبان کے ساتھ سمجھوتہ کرچکاہے اور سمجھوتہ کوئی اسی وقت کرتا ہے جب وہ سامنے والے سے مقابلہ کی سکت نہیں رکھتا اور یہ اسی طرح حقیقت ہے جیسا کہ دن کے وقت سورج ۔ذرا سوچئے کفار قریش نے حدیبیہ میں مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کیوں کیا ؟ جبکہ اس سے قبل وہ مسلمانوں سے گفتگو کو تیار نہیں تھے ، ان کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے تھے کہ ان سے کسی قسم کا تعلق رکھا جائے ۔ مگر جب کفار قریش کو یہ یقین ہو گیا کہ مسلمان ایک بڑی طاقت بن چکے ہیں اور جلد یا بدیر وہ پورے عرب پر چھاجائیں گے تو انہیں سمجھوتہ کی میز پر آنا ہی پڑا ۔ اسلام کسی سے اسی وقت تک لڑنے کی تاکید کرتا ہے جب تک وہ لڑنا چاہئے ، اگر وہ صلح چاہے تو اسلام فوراً صلح کو اہمیت دینے کی بات کرتا ہے ۔ کیوں کہ اسلام کے نزدیک بلا عذر کسی انسان کوقتل کرنا پوری انسانیت کا قتل ہے ۔
طالبان سے بھی جب امریکہ نے صلح کی پیش کش کی تو انہوں نے اپنی شرائط کے ساتھ اسے قبول کیا ۔غور کیجئے ایک وقت تھا جب افغانستان کو طالبان سے پاک کرنے کی بات کی گئی تھی ، دنیا کی ساری قوتیں اس پر متفق تھیں لیکن طالبان ہمیشہ اصولوں کی بات کرتے رہے ۔امریکہ چونکہ طالبان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے عہد کے ساتھ آیا تھا اس لئے اس کی اس میں بڑی سُبکی تھی کہ جنہیں اس نے مٹانے کا عزم کیا تھا ان کو (قوت کے معاملہ میں) اپنا ہم پلہ سمجھتے ہوئے مذاکرات کرے ۔ اس سُبکی سے بچنے کیلئے اوبامہ کے دور میں اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح ایجاد کی گئی اور گفتگو کرنے کیلئے اچھے طالبان کا انتخاب کیا گیا ، حالانکہ طالبان جو تھے وہی اب بھی ہیں ۔ان کی گفتگو کے انداز زمین پر چلنے پھرنے کا طریقہ ان کے لباس وغیرہ کچھ بھی تو نہیں بدلا ۔وہ جہاں بھی گئے جس سے بھی گفتگو کی اسی عاجزی و انکساری والے رویہ کے ساتھ لیکن اسلامی اقدار کی روشنی میں ، مسلمانوں کے عزت و وقار کو سامنے رکھتے ہوئے ۔اب کسی کو وہ لوگ جاہل احمق اور دہشت گرد نظر آتے ہیں تو اسے اپنے دماغ کا علاج کرانے کی ضرورت ہے ۔
طالبان کے عروج پر علامہ اقبال کا ایک شعر صادق آتا ہے ؎ نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا/سُنا ہے یہ قُدسیوں سے مَیں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا۔ وہ شیر طالبان کی صورت میں ہوشیار ہوچکا ہے اور وہ دوسرے شیروں کو جو کہیں اخوان المسلمین اور حماس کی شکل میں موجود ہیں اور جو فرعونی جبر کا مقابلہ پامردی کے ساتھ کررہے ہیںانہیں بھی قوت بخشے گا کیوں اللہ کے نبی ﷺ نے کہا مومن ایک عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسرے کو قوت دیتی ہے ۔علامہ اقبال نےاسپین وغیرہ میں مسلمانوں کی ماضی کے باقیات دیکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا تھا ؎کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے/عشقِ بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں!۔ علامہ رحمتہ اللہ علیہ کی روح کو ان کے سوالوں کاجواب افغان طالبان کی صورت میں مل گیا ؎ افغان باقی، کُہسار باقی/اَلْحُکْمُ لِلّٰہ! اَلْمُلْکُ لِلّٰہ!۔

دہلی قتل عام اور حکومت کی بے شرمی


نہال صغیر

دہلی فساد جسے قتل عام کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے میں اب تک تصدیق شدہ انسانی اموات کی تعداد ۴۲ سے زائد ہوچکی ہیں ۔ تین دن تک دہلی جلتی رہی اور ہمارے پردھان سیوک ٹرمپ کے ساتھ انسانیت اور دہشت گردی پر گفتگو کرتے رہے ۔ پوری دنیا سے حکومت پر لعنت کے ٹھیکرے برس رہے ہیں مگر ہمارے وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کانگریس اور حزب مخالف نے کرایا ہے ۔ مہاراشٹر سے ایک اور دلت لیڈر اور برہمنزم کے غلام رام داس اٹھاولے کہتے ہیں کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے یہ فساد کرایا ہے ۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ ایک نہیں دسیوں ویڈیو یہ ثابت کرتے ہیں کہ فسادات ہوتے رہے فسادی آزاد  گھومتے رہے اور دہلی کی نکمی اور بے شرم پولس خاموش تماشائی رہی ۔ انہیں ان کے آقائوں نے امن کے قیام کی کوشش کیلئے متحرک ہونے کا حکم ہی نہیں دیاتھا ۔ پولس کے اسی رویہ کے سبب مسلم نوجوانوں نے بحالت مجبوری حفاظت خود اختیاری کے طور پر اپنا دفاع کیا اور یوں انہوں نے مزید نقصان ہونے سے بچالیا اور کئی فسادی بھی مارے گئے ۔
واضح ہوکہ مسلمان جن سیکولر اور جمہوریت پسند طبقہ پر جان چھڑکتے ہیں ان کے نزدیک مسلمانوں کا حفاظت خود اختیاری والا رویہ بھی قابل مذمت ہے ۔ حفاظت خود اختیاری کی بنیاد پر ہی طاہر حسین نے جو احتیاطی تدبیر کی اس کی وجہ سے انہیں فساد کا ماسٹر مائنڈ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ میڈیا اور پولس کا یہ رویہ نیا نہیں ہے تقریبا آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ ہی ایسا ہوتا آیا ہے ۔ ابھی تک گرفتار لوگوں کے تعلق سے یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ ان میں فسادی کتنے گرفتار کئے گئے اور مسلمان کتنے مگر مجھے یہاں کے بدترین متعصب انتظامیہ سے یہی امید ہے کہ انہوں نے رہی سہی کسر پوری کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا ہوگا جیسا کہ طاہر حسین کے معاملہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔مگر حکومت کی بے شرمی دیکھئے کہ پوری دنیا جس کی حقیقت کو اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے اس کے تعلق سے سچائی تسلیم کرنا قصورواروں کیلئے مشکل ہورہا ہے ۔ سچ ہی کہا ہے نبی ﷺ نے ’جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر‘۔ (بخاری،ج 2،ص470، حدیث:3484) ۔ مذکورہ حدیث کی روشنی میں ہم حکومت کی بے شرمی بے غیرتی اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔
موجودہ حکومت عوام اور اس کی تحریک سے اتنی خوفزدہ ہے کہ وہ انہیں دھوکے میں رکھنے والا کام رات کے اندھیرے میں ہی کیا کرتی ہے ۔ رات کے اندھیرے میں نوٹ بندی ، جی ایس ٹی کا نفاذ اور مہاراشٹر میں اپوزیشن کو دور رکھنے کیلئے رات کے اندھیرے میں ہی صدر راج اٹھانا اور صبح تڑکے ہی حلف برداری ۔اسی طرح اس نے جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ بھی رات کے اندھیرے میں ہی کردیا ۔ شاید یہ تاریکی کے پجاری ہیں ۔دہلی فساد میں پولس اور انتظامیہ کی مجرمانہ خاموشی کیخلاف دہلی ہائی کورٹ نے سخت نوٹس لیتے ہوئے دہلی پولس کو سخت پھٹکار لگاتے ہوئے اشتعال انگیز بیانات دینے والے بی جے پی لیڈروں پر کارروائی کا حکم کیا دیا کہ حسب روایت بی جے پی کی موجودہ حکومت میں رات کے بارہ بجے جج مرلی دھر کا تبادلہ اچانک اور فوری اثر کے ساتھ کردیا گیا ۔
الزامات کے جواب میں کہا جارہا ہے کہ کالجیم نے ان کے تبادلہ کی سفارش ۱۲؍ فروری کو ہی کردی تھی ۔ لیکن یہ محض ایک بہانہ ہے اور اس کی حیثیت تار عنکبوت سے زیادہ نہیں ہے ۔ دنیا جانتی ہے کہ آناً فاناً میں جج کا تبادلہ صرف اس لئے کیا گیا ہے کہ بی جے پی کے لیڈر کو موجودہ فساد کے الزام اور مواخذہ سے بچایا جاسکے ۔ اس کی وجہ یہ ہے جسٹس مرلی دھر نے فسادکے دوران پولس کے کردار پر اٹھ رہے سوال پر بہت سخت تیور اپنائے تھے اور وہ تاریخی اور نہایت شدید ریمارک دیا تھا کہ ہم ۱۹۸۴ جیسے فساد کا اعادہ نہیں ہونے دیں گے ۔ جج کے اس طرح کے انصاف پر مبنی رویہ کو دیکھتے ہوئے ہی جسٹس مرلی دھر کو رات میں ہی فوری تبادلہ کے احکام دے دیئے گئے ۔ حکومت کا یہ رویہ انتہائی شرمناک ہے ۔ یہ شرم و حیا والا معاملہ ان کے لئے ہے جن میں یہ موجود ہو۔ دنیا کی تاریخ میں اتنے بے شرم اور ڈھیٹ قسم کے حکمراں شاید ہی کہیں دیکھے گئے ہوں ۔ وہ بھی اکیسویں صدی کے جمہوری دور میں جس پر دانشوروں کا طبقہ بضد ہے کہ دنیا میں اس سے بہتر نظام حکومت نہیں ہے ۔ جبکہ ہمیں اس جمہوری نظام نے وہ حکمراں عطا کئے ہیں جن کا تصور بادشاہت اور آمرانہ طرز حکومت میں بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ کانگریس نے بجا طور پر الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی لیڈروں کو بچانے کیلئے جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ کیا گیا ہے ۔ یہ بات اسی طرح سچ اور واضح ہے جس طرح دوپہر میں سورج کی موجودگی ۔ خواہ اب بی جے پی یا حکومت کے ذمہ داروں کی جانب سے کچھ بھی جواز گڑھے جائیں ۔
ہندوستا ن میں موجودہ حکومت کے دور میں سارے عوامی ادارے تباہ ہو چکے ہیں ۔ جمہوریت کے جتنے بھی ستون کہے جاتے ہیں ان میں کہیں کوئی جان نہیں بچی ہے ۔ عدلیہ بھی پوری طرح اپنا وقار کھو چکی ہے ، بس اتنا ہے کہ کچھ ججز جن کا ضمیر زندہ ہے اور وہ عدلیہ کا نام روشن دیکھنا چاہتے وہ اپنی جانب سے بساط بھر کوشش کرتے ہیں ۔ ایسی ہی کوشش جسٹس مرلی دھر نے کی اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ جہاں پوری دنیا کے انصاف پسندوں نے ان کے جرات کی ستائش کی وہیں ان کے فیصلہ کی زد پر آنے والوں کے حامیوں نے بہر حال انہیں اس سیٹ سے ہٹانے کے احکام دے دیئے جہاں رہ کر وہ مظلوموں کی دادرسی کرسکتے اور ظالموں کی گردن ناپ سکتے تھے ۔ہندوستان میں جمہوریت کا چوتھا ستون مانا جانے والا ذرائع ابلاغ تو کب سے حکومت کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکا ہوا ہے اسی کا انجام ہے کہ اب کوئی ان کی باتوں پر توجہ نہیں دیتا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں  ۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ لوگ حکومت کی چاپلوسی کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتے ۔ مگر عدلیہ کے بگاڑ کے باوجود بعض ججوں کی اپنے فرائض اور ذمہ داری کے تئیں سنجیدگی شاید یہاں کے بے بس عوام کا آخری سہارا ہیں ۔ اگر انہیں بھی کام نہیں کرنے دیا گیا تو عوام میں جو بے چینی پھیلے گی اور اس بے چینی کے نتیجہ میں جو نقصان ہوگا اس کا ذمہ دار کون ہوگا ؟
یہ سوال آج کے ہر اس شخص کو اعلیٰ حکومتی اہلکاروں سے ضرور کرنا چاہئے جو موجودہ حالات سے واقف ہیں اور اس کے ردعمل سے بھی ۔ وطن پرستی کے نام پر پورے ملک میں جس اندھیرے کو مزید گہرا کیا جارہا ہے ایک دن ایسا بھی آئےگا جب اس اندھیرے سے کبھی ہم اجالے کی جانب پہنچ پائیں گے تو ہمیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوگا کہ اس عرصہ میں ہم نے کیا کیا کھو دیا ۔بہتر ہوتا کہ ہم اس اندھیرے کی گہرائی میں پہنچنے سے پہلے ہی تیزی سے پیچھے کی جانب پلٹیں ورنہ اس وقت پچھتانے سے کچھ نہیں ہوگا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’اب پچھتاوت کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت‘۔بیدار ہو جائیے باہر نکل آیئے کہ خواتین ناقابل تصور حوصلہ دکھاتے ہوئے دوماہ سے زائد عرصہ سے گھر کا سکھ چھوڑ کر ملک اور اپنے آنے والی نسلوں کے مستقبل کیلئے سڑکوں پر نکل آئی ہیں ۔ موجودہ حکومت تاریک ذہن کی ہے اور وہ پورے ملک کو تاریک دور میں لے جانا چاہتی ہے ۔کیا آپ یہ چاہیں گے کہ یہ لوگ ملک کو تاریک دور میں لے جائیں اور ہم دیکھتے رہیں ؟

افغانستان : الہ کے اصل مفہوم اور نظریے کی فتح


  
عمر فراہی ۔ ای میل  :  umarfarrahi@gmail.com

بالآخر افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے بیچ قطر کی راجدھانی دوحہ میں جہاں طالبان کا ہیڈ کوارٹر پہلے سے موجود تھا امن معاہدے پر دونوں ملکوں کے نمائندوں نے دستخط کر دئیے ہیں ۔ امید کی جارہی ہے کہ برسوں سے اس خطے میں جو خونریزی کا ماحول تھا اب اس میں کمی آئے گی یا اس پر قابو پالیا جائے گا ۔ لیکن ابھی بھی ایک طبقہ شک اور شبہے میں مبتلا ہے کہ کیا اس معاہدے سے افغانستان میں امن دیرپا ثابت ہوگا ۔ ان کا خدشہ یہ ہے کہ اسی طرح کا معاہدہ تو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس اور افغان مجاہدین کے درمیان بھی ہوا تھا مگر اس کے بعد کیا ہوا ۔مجاہدین آپس میں ہی لڑ پڑے اور اپنے ہی بھائیوں کے خون کے پیاسے ہو گئے۔بات تو صحیح ہے کہ جس طرح افغانستان میں اور بھی کئی دھڑے ہیں اور خود کابل میں ایک نام نہاد منتخب حکومت موجود ہے یہ معاہدہ کہاں تک اپنی کامیابی کی دہلیز تک قدم رکھ پائے گا کہا نہیں جاسکتا۔ہمارا بھی خیال یہی ہے کہ امریکہ کے افغانستان چھوڑنے کے بعد بھی طالبان کیلئے اتنی جلدی خطے میں امن قائم کرنا بہت آسان اس لئے نہیں ہوگا کیوں کہ خود امریکہ چور دروازے سے اپنے ہم خیال گروہوں کی مدد سے باز نہیں آئے گا ۔ لیکن اگر امریکہ نے ایسا کیا تو طالبان جن سے کہ اس معاہدے میں وعدہ لیا گیا ہے کہ وہ القاعدہ سے تعلقات منقطع کر لیں گے ان کا استعمال کر سکتے ہیں ۔
خیر جو بھی ہو سن اسی کی دہائی کے افغان مجاہدین جن میں برہان الدین ربانی، گلبدین حکمت یار، رشید دوستم اور ملا مسعود خان کی کمان میں مجاہدین کے کئی گروہ اس معاہدے میں شامل تھے۔ 2020 کے طالبان اور افغانستان میں کئی تبدیلیاں آچکی ہیں ۔آج کا معاہدہ صرف امریکہ اور طالبان کے درمیان نہیں طے پایا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ یہ معاہدہ امارت اسلامیہ افغانستان اور یونائیٹیڈ اسٹیٹ آف امریکہ کے درمیان طے پایا ہے ۔ امریکہ چاہتا تھا کہ اس معاہدے میں افغان حکومت کو بھی شامل کیا جائے مگر طالبان نے امریکہ کے اس مطالبہ کو اس لئے رد کر دیا کہ افغانستان میں ابھی بھی طالبان کی امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت قائم ہے اور امریکہ کو ان کے اس دعوے کو تسلیم کرکے ہی معاہدہ کرنا ہوگا یعنی ابھی بھی افغانستان میں طالبان ہی اصل حکمران ہیں جبکہ کابل حکومت امریکہ کی مدد سے ناجائز طریقے سے بنائی گئی ہے ۔
اس معاہدے کا مطلب صاف ہے کہ طالبان جن علاقوں پر قابض ہیں امریکہ نے فی الحال ان کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے اور ماضی میں کابل پر کس کی حکومت ہوگی یہ افغانستان کے عوام طے کریں گے اور معاہدے کے تحت امریکہ کو کسی طرح کی مداخلت کا حق نہیں ہوگا ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکہ نے جس طرح فوجی طاقت سے طالبان سے کابل اور قندھار کے علاقوں کو چھینا تھا امریکہ دوبارہ پرامن طریقے سے ان شہروں کو طالبان کو سونپ کر جاتا لیکن کہیں نہ کہیں اگر امریکہ کی اپنی نیت میں کھوٹ ہے تو کہیں طالبان نے بھی مستقبل کے لائحہ عمل کے طور پر پیچھے ہٹ کر پسپائی قبول کر لی ہے ۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اب طالبان کیلئے کابل اور قندھار تک جانے کا راستہ صاف ہو چکا ہے اور اس معاہدے میں جس طرح پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے جیسا کہ ابھی حال ہی میں ڈونالڈ ٹرمپ نے احمدآباد کے اسٹیڈیم میں خطاب کے دوران افغانستان کا تذکرہ کرتے ہوئے عمران خان کی تعریف کی ایک بار پھر پاکستان یہ چاہے گا کہ طالبان کابل پر حکومت بنا لیں اور اس حکومت کو اقوام متحدہ میں تسلیم بھی کر لیا جائے۔یاد رہے پچھلی بار بھی طالبان کی حکومت کو سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا تھا بعد میں سعودی عرب نے بھی منظوری دے دی تھی ۔ اب عالمی حالات تھوڑےسے بدلے ہوئے ہیں ۔
اس بار ترکی اور ملیشیا کے ساتھ کئی اور مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ یوروپی ممالک بھی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے آگے آسکتے  ہیں ۔ممکن ہے کہ روس چین یا خود امریکہ میں سے بھی کوئی طاقت آگے بڑھ کر اسے تسلیم کرنے کی پہل کریں ۔وقت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس خطے میں دائمی امن کےمدنظر بھارت بھی پہل کرے جیسا کہ نومبر 2013 میں گوا میں منعقد ایک کانفرنس کے دوران ترون تیج پال کو ایک سیکس اسکینڈل کے ذریعے پھنسایا گیا تھا اس کانفرنس میں بھارت سے محمود مدنی اور طالبان کے ترجمان ملا عبدالسلام ضعیف کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔اس اجلاس میں محمود مدنی کی شمولیت ملا عبدالسلام ضعیف کی وجہ سے تھی تاکہ محمود مدنی کی دستار سے ملا ضعیف کے سامنے ہندوستانی مسلمانوں کا ملائی چہرہ پیش کیا جائے۔ٹائمس آف انڈیا نے ایک چھوٹے سے کالم میں اس خبر کا تذکرہ کر دیا تھا ورنہ حکومتی سطح پر ملا عبدالسلام ضعیف کے اس دورے کو بہت مشتہر نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کے اس دورے کا سبب ہی معلوم ہو سکا لیکن اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت کے صدر اوبامہ نے عراق سے جس طرح امریکی فوجوں کا مکمل انخلاء کر لیا تھا افغانستان سے بھی آدھی فوج بلا لی تھی بھارت کو اندازہ تھا کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء سے طالبان کا عروج لازمی ہے اس لئے کیوں نہ حفظ ماتقدم کے تحت سفارتی عمل کو آگے بڑھایا جائے۔بعد میں بھارت نے حالات کو کچھ اپنے حق میں دیکھتے ہوئے بہت سنجیدگی نہیں دکھائی ۔ خاص طور سے ٹرمپ کے صدر بنتے ہی ایسا لگا کہ وہ ایک بار پھر افغانستان میں اپنی مہم تیز کر دیں گے اور تیز کیا بھی مگر ڈونالڈ ٹرمپ نے شاید اقبال کے بقول ابلیس کا فرمان ٹھیک سے پڑھا نہیں تھا ۔ ابلیس کہتا ہے کہ؎ وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا/رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو /فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات/اسلام کو حِجاز و یمن سے نکال دو /افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج/مُلّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو ۔
امریکہ عرب حکمرانوں کی فکر پر فرنگی تخیلات غالب کرنے میں تو کامیاب ہو سکا ہے لیکن ملاؤں کو ان کے کوہ و دمن سے نکالنے کی بجائے خود نکلنے کا راستہ پانے کیلئے ان سے معاہدہ پر مجبور ہو گیا ۔افغانی ملاؤں کی یہی سب سے بڑی فتح ہے کہ روس کے بعد دوسری سپر پاور امریکہ کو بھی ان کے جذبہ حریت کو تسلیم کرنا پڑا ۔دیکھتے ہیں حالات آگے کیا رخ اختیار کرتے ہیں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اس بار سرد جنگ کی طرح کے حالات نہیں ہیں ۔اس وقت افغان مجاہدین کئی دھڑوں میں بٹے ہوئے تھے اس بار طالبان امارت اسلامیہ افغانستان کے تحت نہ صرف متحد اور منظم ہیں بلکہ انہیں حکومت کا تجربہ بھی ہے ۔
قوی امید ہے کہ کچھ مزاحمت کے بعد افغانیوں کو دوبارہ امن کا ماحول میسر ہو جائے گا ۔ ویسے طالبان کے پانچ سالہ دور میں مکمل امن ہی تھا جو امریکہ کی مداخلت کی وجہ سے ناپید ہو چکا تھا ۔خود 2001 سے 2020 تک کے سفر میں طالبان جن کے بارے میں کئی منفی افواہیں اڑائی گئی انہوں نے ثابت کیا کہ وہ متحد ہیں اور افغانستان میں ان کے وجود کو تسلیم کئے بغیر امن ایک ٹیڑھی کھیر ہی ثابت ہوگا ۔اللہ کرے افغانیوں کو امن کا ماحول نصیب ہو ۔اب یہ تو آنے والے حالات ہی طے کریں گے کیوں کہ ابھی بھی کچھ طاقتیں نہیں چاہتیں کہ ایسا ہو ۔یہ سوال اپنی جگہ ،مگر دوسرا سوال اللہ کے ان بندوں سے ہے جو امریکہ کی زبان بولتے ہوئے کبھی افغانیوں کو مجاہد اور طالبان کو دہشت گرد بولتے اور تسلیم کرتے ہوئے‌نظر آئے اب وہ نئے طالبان کیلئے کیا لقب استعمال کرتے ہیں؟ 
کیا یہ معاہدہ امریکہ اور دہشت گردوں کے درمیان طے پایا ہے ؟نہیں امریکی نمائندوں نے باعزت طریقے سے اپنے ان مخالف حکمرانوں سے معاہدہ کیا ہے جو کبھی امارت اسلامیہ کے نام سے افغانستان کے حاکم تھے ۔مشکل یہ ہے کہ اب امریکہ نے اپنی زبان بدل دی تو کیا اہل ایمان بھی اپنی زبان بدل دیں گے ؟۔دیکھئے غور کیجئے اور سوچئےکہ کہیں آپ الہ کے اصل مفہوم اور نظریے کے باغی تو نہیں ہیں ؟


امولیہ سے وارث پٹھان تک عجب عالم بدحواسی ہے




نہال صغیر

بنگلور میں ایک انیس سالہ لڑکی اس اسٹیج سے جہاں اسدالدین اویسی موجود تھے ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگاتی ہے ،اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی اس سے مائیک چھین لیا گیا اور ایک پولس افسر اسے گھسیٹ کر لے گیا لیکن وہ پھر کسی طرح چھوٹ کر واپس بنا مائیک کے ہندوستان زندہ باد کا نعرہ لگاتی ہے ۔ اسے چاروں طرف سے گھیر لیا جاتا ہے اور اسے ملک سے غداری کے مقدمہ میں جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کوئی بارود کا گولا ہے کہ اس کا نام لیتے ہیں وہ پھٹ پڑے گا اور اس سے پورا ملک تباہ ہوجائے گا کہ ایک عالم بدحواسی میں سب اکٹھا ہو جاتے ہیں اور بقول رویش کمار جو افسر کبھی اپنی ذمہ داری ڈھنگ سے نہیں نبھاتا وہ بھی ایسے موقعوں کو غنیمت جان کر محب وطن ہونے کا ثبوت دینے کیلئے فورا حرکت میں آجاتا ہے ۔ اس واقعہ کے بعد اسی کرناٹک کے دوسرے شہر میں ایک اور جلسہ میں وارث پٹھان یہ بولتے بولتے یہ کہہ جاتے ہیں سو پر پندرہ بھاری ہے ۔ بس پھر کیا تھا ان کے خلاف بھی مذمت کا سلسلہ دراز ہوجاتا ہے اور شاید کئی پولس اسٹیشنوں میں مقدمہ بھی کردیاجاتا ہے ۔ یہ دونوں ہی معاملے میں ایک چیز واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے اور وہ ہے عالم بدحواسی ۔کسی کو مزید کچھ نہیں کہنے دینا ہے ،اس کو صفائی کا موقع بھی نہیں دینا ہے ۔ امولیہ آگے اور کیا کہنا چاہتی تھی اس کی بات سننے کو کوئی راضی نہیں بس اس نے پاکستان زندہ باد کیوں کہا ؟ یہی ایک مسئلہ ہے ۔ رویش کمار کے مطابق گویا ہندوستان کوئی پتہ ہے جس کا وجود پاکستان زندہ باد کہہ دینے سے ہی بکھر جائے گا ۔ امولیہ نے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کسی صورت جان چھڑا کر ہندوستان زندہ باد کے بھی نعرہ لگائے اور اس کے فیس بک اکائونٹ کے مطابق اس کے ذہن میں اپنے پڑوسی ممالک کے لئے بھی زندہ باد کا نعرہ ہے محض ہندوستان ہی زندہ باد نہیں ہے اور وہ وہاں اسٹیج پر ان سبھی ممالک کیلئے زندہ باد کہنا چاہتی تھی جس کا اسے اس کا موقع نہیں دیا گیا ۔ 
وارث پٹھان کا سو پر پندرہ بھاری والا بیان غیر ضروری اور غیر حکیمانہ سہی مگر اس کیخلاف اتنی شدت نہیں آنی چاہئے کہ ان کے پتلے جلائے جائیں اور ان کے خلاف ہائے ہائے کے نعرے لگائے جائیں جبکہ ان کے سیاسی رفیق امتیاز جلیل کہا’وارث پٹھان کا یہ بیان سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی کیخلاف برہمی کا اظہار ہے جو جبرا مسلمانوں پر تھوپ کر اس بیان کو سیاسی رنگ دیا جارہا ہے‘ میں سمجھتا ہوں امتیاز جلیل کی باتوں پر توجہ دی جانی چاہئے تھی لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے دماغ سے سوچنے کی قوت سے محروم ہوچکے ہیں ۔ آج ہم اپنی حب الوطنی کو ثابت کرنے اور دوسروں (سنگھی، لبرل اور دہریہ) کو خوش کرنے کیلئے مذمت اور احتجاج یا ہائے ہائے کا نعرہ لگارہے ہیں ۔ ۲۱ ؍ فروری ۲۰۲۰ کو شام سات بجے سے ممبئی کے اسلام جمخانہ کے دیوان خاص ہال میں ’الائنس اگینسٹ سی اے اے ، این آر سی ، این پی آر‘ کی مہاراشٹر و ممبئی اکائی کی جانب سے رضاکاروں ، ارکان اور کارکنان کیلئے تہنیتی پروگرام رکھا گیا تھا ۔ جس میں کانگریس کے سابق ایم ایل اے اور اسلام جمخانہ کے موجودہ سربراہ یوسف ابراہانی نے وارث پٹھان کیخلاف ہائے ہائے کے نعرے لگوائے جبکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن مسئلہ کانگریس میں اپنی جگہ بنانے اور کچھ قوتوں کی چاپلوسی کا تھا اس لئے وہاں الائنس کے پلیٹ فارم سے ایک غیر ضروری کام کیا گیا ۔ ہم نے یوسف ابراہانی کا ایک ویڈیو پیغام بھی دیکھا جس میں وہ وارث پٹھان اور مجلس اتحادالمسلمین کیخلاف عوام کو ورغلاتے نظر آرہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ وارث پٹھان ہوتے کون ہیں مسلمانوں کی جانب سے قیادت کا دعویٰ کرنے والے لیکن ابراہانی خود وارث پٹھان کے بیان کے تعلق سے معافی مانگتے ہوئے خود کو پندرہ کروڑ مسلمانوں کا لیڈر قرار دے رہے ہیں ۔جبکہ دونوں کی پوزیشن ایک ہی ہے ۔  دونوں عوام کے ٹھکرائے ہوئے ہیں ۔پھر کیا وجہ ہے کہ عوام سے ٹھکرایا ہوا ایک کانگریسی عوامی طور پر مسترد کئے ہوئے دوسرے شخص کو قوم کا ٹھیکیدار تسلیم نہیں کرتا لیکن پندرہ کروڑ مسلمانوں کی جانب 
سے معافی مانگ کر خود کو مسلمانوں کے قیادت کی دعویداری کررہا ہے ۔

ایک بات واضح کردوں کہ میری نظر میں بھی وارث پٹھان کا بیان غیر ضروری اور غیر حکیمانہ ہے ۔ بس میرا کہنا یہ ہے
 کہ اس پر اتنی ہنگامہ آرائی کی ضرورت نہیں ہے ۔ پٹھان نے کہا آپ نے اس سے کنارہ کشی اختیار کی بس ۔ اس سے آگے کی تحریک یا کارروائی یہ ظاہر کرتی ہے کہ آپ کسی کے دبائو میں ضرورت سے زیادہ روادار اور محب وطن بننے کی کوشش کررہے ہیں ۔ حالات بتارہے ہیں کہ اگر آپ گرم لوہے کی سلاخ ہاتھوں میں لے کر اپنی وفاداری کا یقین دلائیں گے تو ہ طبقہ آپ کی وفاداری تسلیم نہیں کرے گا ۔ اس حقیقت کے باوجود آپ کا وطیرہ بن گیا ہے کہ اتحاد کی لالچ میں وہ کرتے چلے جارہے ہیں جس کی مخالفت قوم برسوں سے کرتی آرہی ہے ۔ یہاں دو مثالیں کافی ہیں جو میں الائنس اگینسٹ سی اے اے ، این آر سی اینڈ این پی آر کے ذریعہ آزاد میدان میں منعقد احتجاجی اجلاس عام میں اس کے ہی ایک شریک کنوینر کی جانب سے لگائے گئے نعروں اور اس کے جواب میں مسلمانوں کی جانب مسلمانوں کا جواب دیکھا ۔ الائنس کے شریک کنوینر ایڈووکیٹ راکیش راٹھوڑ نے ۱۵ ؍ فروری ۲۰۲۰ کو آزاد میدان کی احتجاجی ریلی میں بھارت ماتاکی ۔۔۔۔اور وندے ۔۔۔ کے نعرے لگائے اور مسلمانوں کی جانب سے اس کا جواب بھی دیا گیا ۔ حالانکہ کچھ عرصہ قبل تک مسلمان اس سے بچتا ہوا نظر آرہا تھا ۔ آزاد میدان کے اس نعرے اور جگہ بجگہ سیکولر لبرل طبقہ کی جانب سے مسلمانوں کی بھیڑ سے اپنی لیڈر شپ کاشت کرنے کی فکر نے مجھے بے چین کیا ہے ۔ اگر کسی کو بے چینی نہیں ہوتی میں کیا کرسکتا ہوں ۔ اوروں کی طرح میں بھی ہندو مسلم اتحاد کو پسند کرتا ہوں ۔ بلکہ اس سے دو قدم آگے جاکر مسلمانوں کے ساتھ تمام پسماندہ طبقات کے اتحاد کو زیادہ بہتر اور موثر سمجھتا ہوں ۔ مگر اپنی قومی اور مذہبی شناخت سے سمجھوتہ کئے بغیر ۔ہم نے شیواجی کی یوم پیدائش پر مذہبی شناخت کے ساتھ شیواجی کی قد آدم مورتی پر پھول اور ہار چڑھاتے مسلمانوں کی تصویر بھی دیکھی ہے ۔ سوچئے ہم اتحاد اور رواداری کی خواہش میں کہاں چلے جارہے ہیں ۔ ہم انہیں یہ بات کیوں نہیں بتا سکتے کہ ہم شیواجی یا امبیڈکر سمیت اس جیسے لیڈروں کی قدر کرتے ہیں لیکن تمہاری تہذیب کے مطابق ان کی عبادت نہیں کرسکتے ۔ 
غور کیجئے وارث پٹھان کے بیان کیخلاف بیان دیتے ہوئے کہا گیا کہ موجودہ تحریک میں ہم بڑی مشکل سے غیر مسلموں کے ساتھ اتحاد بنا پائے ہیں جسے وارث پٹھان یا کل ہند مجلس اتحاد المسلمین تباہ کرنا چاہتی ہے ۔ یہ صرف خوش فہمیاں ہیں جو کچھ لوگوں کے ذریعہ ہمارے درمیان پھیلائی جارہی ہے ۔ مجھے اپنی اس شہری ترمیم قانون یا این پی آر اور این آر سی کیخلاف تحریک میں سوائے اسٹیج کے کہیں بھی کوئی غیر مسلم دکھادیں ، تو مان جائوں گا کہ آپ نے اتحاد بین المذاہب کو حاصل کرلیا۔ ہر جگہ اس بھیڑ میں انہیں تلاش کررہا ہوں مگر میری آنکھیں لوٹ آتی ہیں اور وہ کہیں نظر نہیں آرہے ہیں جبکہ ہمیں ہر وقت یہی بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ غیر مسلم بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی اس تحریک سے جڑے ہوئے ہیں ۔ جڑے تو مگر صرف لیڈر اور اسٹیج کی حد تک جیسا اوپر ذکر کیا گیا ۔ حالانکہ مذکورہ قانون سے مسلمانوں سے زیادہ پسماندہ طبقات کو ہی نقصان ہونے والا ہے کیوں کہ وہ لوگ بے زمین تھے اور آج بھی ایک بڑی آبادی بے زمین ہے ۔ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں اور اسی کی بنیاد پر برہمنوں کی پروردہ موجودہ مودی حکومت دستور میں دی گئی ریزرویشن کی سہولت کو ختم کردینا چاہتی ہے ۔ مگر انہیں مسلم دشمنی کی شراب اتنی پلائی گئی ہے کہ اس کا نشہ اترتا ہی نہیں ۔ مسلم دشمنی کی آڑ میں انہیں اپنی تباہی نہیں دِکھ رہی ہےکہ این آر سی کے بعد ان کا وہ دور واپس آجائے گا جب انہیں اپنے پیچھے جھاڑو باندھنا اور گلے میں مٹکہ لٹکانا ہوگا ۔ ان کے لیڈر انہیں یہ سمجھانے سے قاصر ہیں ۔بہتر ہے کہ یہ باتیں انہیں سمجھانے کی کوشش کریں اور اپنے درمیان کے کسی شخص سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کی ہلکی پھلکی سرزنش کرکے تنہائی میں اسے سمجھائیں کہ اس نے کیا غلطی کی ہے اور اس کی یہ بات کیوں حکمت کیخلاف ہے ۔ مگر مرعوبیت اور مغلوبیت یا غلامانہ ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئے کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے قوم کا مورال پست ہو ۔ آپ لوگوں کی یہ حالت دیکھ کر منظر بھوپالی کا یہ شعر ٹھیک معلوم ہوتا ہے 
 ؎  کدھر کو جائیں گے اہلِ سفر نہیں معلوم/وہ بدحواسی ہے اپنا ہی گھر نہیں معلوم


مسلمانوں کا مسئلہ اورامر بالمعروف کےفریضہ کی ادائیگی



ممتاز میر 
  
 دنیا کے کسی ملک میںاگر کوئی شخص فوج میں بھرتی ہونے کی تمنا کرے ،منتخب بھی ہوجائے،ڈرل نشانے کی مشق اور دیگر مشقیں بھی مکمل کرلے مگر جب جنگ کا موقع آئے تو انکار کردے تو کیا اسے فوجی کہا جائے گا؟کیا یہ سال دو سال کی مشقیں اسے ،بغیر جنگ لڑے فوجی بنے رہنے میں کام آسکیں گی؟کیا فوجی ڈسپلن کا ادارہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دے گا؟یقیناٍ ایسا نہیں ہوگا ،بلکہ اسے جزا نہیں سزا ملے گی۔مگر، مسلمانوں کا معاملہ دنیا سے الگ ہے ۔انھوں نے بھی اسلام کی چند ابتدائی چیزوں کو پکڑ کر مسلم حنیف ہونے کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ان کے علماء ان کی کھوپڑیوں میں صدیوں سے یہ بات اتار رہے ہیںکہ نماز روزہ حج زکوٰۃ ہی بس دین ہے۔اور اس پر زیادہ سے زیادہ عمل جنت کی ضمانت ہے۔ باقی جو کچھ بھی ہے یہ دنیا داری کی باتیں ہیں۔جس کا ان جیسے ’’با عمل ‘‘مسلمانوں کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔اگر ہم مسلمان ہونے کے بعد ابتدائی مشقوں کو ہی دین تصور کرلیںتب بھی جنت نشین ہونے کی کوئی ضمانت کم از کم ہمیں ملتی نظر نہیں آتی۔کیونکہ نمازیں تو خوب ہو رہی ہیں مگر حال یہ کہ ’’رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی‘‘۔ جب موبائل نہیں تھا تب بھی مسلمانوں کی نمازوں میں خشوع و خضوع نظر نہ آتا تھا ۔آج یہ حال ہے کہ موبائل آن رکھ کر نمازیں پڑھی جا رہی ہیںتاکہ حالت نماز میں ہی پتہ چل جائے کہ کسی کا فون آیا تھا۔اوقات نماز میں اگر فون آجائے تو دیگر نمازیوں کا خیال اب کسی کو نہیں رہتا۔عام لوگوں کی بات کیابڑے بڑے مفتی اور علماء کو یہ حدیث یاد نہیںجس میں حضور ﷺ نے کہا تھا ہماری مسجد میں کوئی پیاز اور لہسن کھا کر نہ آئے۔جب کم و بیش سارے نمازی نو سو چوہے کھا کر مسجد کا در پکڑ رہے ہوں تو اتنی چھوٹی سی حدیث کون یاد رکھے گا۔کچھ لوگ فرض ہی نہیں نفل روزے بھی رکھتے ہیں۔بلکہ کچھ لوگ تو باقاعدہ ہر ماہ ایام بیض کے روزے رکھتے ہیںمگر اللہ نے انسانوں پر روزے کیوں فرض کئے یہ شعور ان کی زندگی میں کبھی کہیں ظاہر نہیں ہوتا۔زکوٰۃ کے تعلق سے کہا نہیں جا سکتا کہ کون دیتا ہے کون نہیں دیتا۔مگر یہ تو ہے کہ پہلے کے مقابلے اب زیادہ نکالی جا رہی ہے مگر اس میںبھی قربانی کی طرح نمائش کا پہلو غالب ہو گیا ہے۔اب یہ بھی دماغ میں چڑھ گیا ہے کہ ہم زکوٰۃ لینے والے پر احسان کر رہے ہیں۔دو دہائی پہلے تک حج کے لئے بھی خال خال لوگ ہی جاتے تھے ۔مگر حج تو چھوڑئیے عمرہ بھی اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے تو دوسری پکنک۔اب تو لوگ حج کا احرام باندھتے ہی واٹس ایپ پر سیلفیاں پوسٹ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اور واپس آکر جاہل ہوا تو حاجی اور تعلیم یافتہ ہوا تو خود کو الحاج کہلوانا شروع کر دیتا ہے ۔
  مذکورہ بالا تمام مشقوں کی وجہ سے مسلمانوںکے دل و دماغ سے یہ بات ہی نکل گئی ہے کہ وہ اس دنیا میں کیوں بھیجے گئے ہیں۔ان کا دنیا میں مقصد بعثت کیا ہے؟ہمارے نزدیک ان کا مقصد بعثت ابلیس سے مقابلہ کرنا اور اسے شکست دینا ہے ۔اور وہ صرف نماز روزہ حج زکوٰۃکی ابتدائی ٹریننگ سے ممکن نہیں ۔اگر ایسا ہوتا تو قرآن اتنا ضخیم نہ ہوتا۔صبر کا ذکر نہ ہوتا۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تلقین نہ ہوتی ۔جہادکی تیاری کا حکم نہ ہوتا ۔عورتوں کو پردے میں چھپانے کی ضرورت نہ ہوتی۔ضرورت پڑ نے پر اصحاب کہف کی روش اختیار کرنے کو نہ کہا جاتا ۔قرآن میں ان باتوں کے علاوہ بھی بہت سارے احکامات ہیںمگر صرف قرآن میں ہی ہمارے لئے ہدایات نہیں ہیںبلکہ احادیث اورسنت رسول اللہ بھی ہمارے لئے سر چشمہء ہدایات ہیں۔وراثت کا حکم ہے ،مسلمانوں کے لئے وصیت کی گنجائش ہے تو مگر محدود ہے۔مگر ہمارے یہاں وراثت کے جھگڑے عام ہیںجبکہ وراثت کے احکامات کے ہوتے ہوئے وراثت کے جھگڑے ہونا ہی نہیں چاہئے۔خاص طور پر بہنوں کو وراثت میں حصہ دینے کا تصور تو ختم ہی ہو چکا ہے۔اور وہی احساس جرم ہمیں دھڑا دھڑ حج و عمرے کی ترغیب دیتا ہے ۔اسلام کہتا ہے وہ مومن نہیں جس کے ہاتھوں دوسرا مسلمان اور پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔سوچئے کا ہمارا رویہ ان ہدایات سے میل کھاتا ہے۔ہمارا حال یہ کہ ہم ایک دوسرے سے اس لئے رنجش رکھتے ہیںہمارا دوست یا پڑوسی ہم سے زیادہ بڑی قربانی کر رہا ہے یا اس کاگھر ہم سے زیادہ شاندار ہے۔ ایک حدیث کہتی ہے کہ مومن زانی ہو سکتا ہے ،قاتل ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا ہے اس حدیث پر عمل تو دور اسکی اہمیت کا اندازہ اس پر عمل کے فوائدہماری عوام تو کجا ہمارے بڑے بڑے علماء کو بھی نہیں ہے ۔ اور ہم یہ بات یونہی ہوامیں نہیں کہہ رہے ہیں ۔ہمیں اس کا ذاتی تجربہ ہے۔اور دور کیوں جائیے ۔ابھی ابھی ایک بڑے مولانا نے پہلے شاہین باغ کے خلاف بولا پھر تھو تھو ہونے پر اپنے بیان سے مکر گئے جبکہ دنیا انھیں ویڈیو پر شاہین باغ کے خلاف بیان دیتے دیکھ اور سن رہی ہے۔اور یہ ان کا حال ہے جو قبروں میں پیر لٹکائے بیٹھے ہیںکیا موت کا نہیں صرف نقصان کا خوف ،خوف خدا سے بڑھ نہیں گیا ہے ۔اس اقرار میں حرج کیا تھاکہ پولس میری چھاتی پر کھڑی تھی اس لئے ڈر کر میں نے شاہین باغ کے خلاف بیان دیا ۔اس اخلاقی جرأت سے عوام بھی سمجھ جاتی خدا کی سزا سے بھی بچ جاتے۔اسی لئے ہمارے علمائےکرام نے دین کو نماز روزے حج و زکوٰۃ میں قید کر کے رکھ دیا ہے ۔ایسا کیوں کیا گیا؟اسلئے کیا گیا کہ اگر لوگ نماز روزے اور حج و زکوٰۃ سے آگے بڑھ کر عمل کرنے لگے تو پھر وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر بھی لازماً عمل کریں گے اور ہمارے رہنمایان کو عوام کے سامنے جوابدہAccountable ہونا پڑے گا ۔
  ہم بڑے شوق سے خوشی سے فخر سے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں کہ ہمارے خلفائے راشدین نے خلیفہ بننے کے بعد جو پہلا خطبہ دیا تو کہا کہ لوگو ! میری اطاعت تم پر اس وقت تک فرض ہے جب تک  میں تمھیں معروف کا حکم دوں اور جب میں راہ راست سے بھٹک جاؤں تو،لوگوں نے یا صحابہ نے تلوار پر ہاتھ رک کر کہا ہم تمھیں اس سے سیدھا کر دیں گے ۔ ہم یہ کیوں نہیں کرتے ؟ ہم یہ بات بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اس دنیا میں حضرت عمر فاروقؓ سے بہتر دورحکمرانی آج تک کسی کا نہیں ہوا ہے۔اور یہ مسلمان ہی نہیں صاحب مطالعہ غیر مسلم بھی مانتے ہیں ۔یہ وہ دور حکومت تھا جس میں ایک عورت بھی بر سر منبر خلیفہء وقت کی غلطی کی نشاندہی کر دیتی تھی اور خلیفہء وقت بر سر منبر بآواز بلند اپنی غلطی تسلیم بھی کر لیتا تھا ۔ عام آدمی بھی سر راہ خلیفہ کو روک کر اسے باتیں سنا سکتاتھااور اسے کوئی روکنے کی کوشش کرتا تھا تو خلیفہ کہتا تھا ۔ایسے ایک شخص کا وجود ہمارے تمام مفتوحہ علاقوں سے زیادہ مفید ہے۔اس لئے ہم دہائیوںسے لکھ رہےہیں کہ نماز روزہ حج زکوٰۃ سے بڑا فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔کوئی اس سے منہ موڑ کر نماز روزے حج و زکوٰۃ میں اگر پناہ ڈھونڈتا ہے تو کم سے کم ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایسے روزہ نماز حج زکوٰۃ اس کے منہ پر مار دئے جائیں گے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں متعدد جگہ اس فریضے کے تعلق سے آگاہ فرماتے ہوئے کہتا ہے ۔سورہء آل عمران ۱۱۰ کا ترجمہ ہے ۔تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے برپا کی گئی ہے۔کیوں کہ تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو ۔برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو ۔کم وبیش اسی مفہوم کے احکامات ہمیں قرآن میں سورہء توبہ۷۱،۱۱۲۔سورہء اعراف ۱۵۷،سورہء الحج۴۱اور سورہء لقمان ۱۷ میں بھی ملے۔ممکن ہے اور مقامات پر بھی ہوں اور ہم تلاش نہ کر پائیں ہوں۔سورہء اعراف میں تو اسے نبی کی دعوت کا حصہ بتایا گیا ہے۔تمام مقامات کے احکامات پڑھنے کے بعد جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم امر بالمعروف کا فریضہ انجام دیں تو ہمارا معاشرہ بھی قریب قریب اسی طرح مثالی بن جائے گا جیسے کہ صحابہء کرام کا تھا ۔جبکہ آج ہمارا معاشرہ مثالی نہیں گالی ہے۔
  نماز کس لئے ضروری ہے۔نماز ایک مکمل ورزش ہے جسمانی بھی دماغی بھی اور روحانی بھی ۔مگر آج ۹۹ فی صد لوگ جو نماز پڑھتے ہیں وہ ریاکاری کے سوا کچھ نہیں۔اس لئے جو فوائد حاصل ہونے چاہئیں وہ نہیں ہوتے ۔اسی طرح روزہ بھی ہے۔آپ کے جسم کے تمام فاسد مادوں کو ختم کر دیتا ہے ۔جسم کو صحتمند رکھتا ہے ، آپ کو بتاتا ہے کہ بھوک کیا چیز ہے ۔پھر کچھ اوقات ایسے بھی ہوتے ہیں جس میں آپ کو بھوک برداشت کرنے کی عادت ہونی چاہئے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔زکوٰۃ آپ کو مالی قربانی پر مائل کرتی ہے۔لالچ کو ختم کرتی ہے۔آپ کے اقربا و احباب میں محبت پیدا کرتی ہے۔حج اپنے مالک کے غلام بن کر مکمل سپردگی اختیار کرنے کا نام ہے۔اس کے لئے ہر قسم کی قربانی بخوشی دینے کا نام ہے ۔یہ چند فوائد جو ہم نے یہاں گنائے ہیں ان چاروں عبادتوں سے حاصل ہونے والے فوائد کا عشر عشیر بھی نہیں ہے ۔ان عبادتوں کو ان کی روح کے ساتھ ادا کرنے کے بعد ہی ہم اس دنیا میں ابلیس کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔اب اس کسوٹی پر عوام ہی نہیں علما کو بھی اپنے آپ کو پرکھنا چاہئے کہ کیا ہم واقعی ان عبادتوں کو ان کے صحیح تناظر میں ادا کرنے کی یا برتنے کی خواہش رکھتے ہیں؟کیا ہم ان عبادتوں کے ذریعے انسانوں کے دشمن سے اللہ کے مغضوب سے لڑ سکیں گے؟ 
  ہم برسوں سے لکھ رہے ہیں کہ اب مشرق میں ایک دوہی چھوٹے ٹاپو بچے ہیں جہاںامت مسلمہ باقی بچی ہے۔ہمارے نزدیک اب امت مسلمہ مغرب میں تیار ہو رہی ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد چند ماہ اسلام کا مطالعہ کرکے ابلیس سے مقابلہ اور اللہ کی نصرت تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں۔
   7697376137