Muslim Issues

اویسی ، تنازعات اور ہماری قیادت


نہال صغیر

کچھ لوگوں کو شکایت ہے کہ اسد الدین اویسی میں ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی رہبری کی خوبیاں ہیں لیکن ان میں سختی ہے ، انہیں چاہئے کہ وہ تھوڑی سی لچک پیدا کریں ۔جنہیں یہ شکایت ہے کہ اویسی میں لچک نہیں ہے ان کے مطابق مجلس کو کانگریس کے ساتھ مل کر بی جے پی کو ہرانے اور پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ایسی باتیں سوچنے اور کہنے والے سادہ لوح ہیں ۔ انہیں کانگریس کی منافقانہ روش سے ٹھیک ٹھیک آگاہی نہیں ہے ۔منموہن سنگھ حکومت میں اویسی کانگریس کے ساتھ تھے اور شاید آندھرا پردیش کی حکومت میں بھی اویسی کی پارٹی کانگریس کو حمایت دے رہی تھی ۔ لیکن مجموعی طور پر کانگریس کے دوغلے رویہ کے سبب ان کی پارٹی نے ان سے حمایت واپس لی ۔ حالانکہ اس حمایت لینے سے ویسے ہی کوئی اثر نہیں ہوا جیسے کہ پارلیمنٹ میں اکیلے اسد الدین کے بولنے سے کچھ نہیں ہوا۔کسی کے بولنے یا کسی کی جدو جہد سے کوئی نتیجہ نکلے یا نہیں ہمیں کوشش جاری رکھنی چاہئے۔کچھ نہیں کرنے سے بہتر ہے کہ کچھ نہ کچھ کیا جائے ۔ بات بھی یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں نتائج کا مکلف نہیں بنایا ہے اللہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ ہم نے کوشش کتنی کی اور کس نہج پر کی ۔ اسد الدین اویسی نے بھی اپنے طور پر کوششیں کی خواہ کامیاب ہوں یا نہ ہو ۔ ویسے بھی جنگل میں شیر اکیلا ہی ہوتا ہے ۔ 23 ؍جنوری کے ناگپاڑہ کے اجلاس میں اسد الدین اویسی پر دوران تقریر جوتا اچھالنے کی کوشش کی گئی جو پوڈیم سے لگ کر نیچے گر گیا ۔ اس سے تھوڑی دیر کیلئے افرا تفری کا ماحول بن گیا جسے خود اویسی نے اپنی مسلسل اپیلوں سے سرد کیا ۔ اب کئی لوگ یہ کہہ رہے ہیں یہ حرکت خود اسد الدین اویسی نے دانستہ کرائی ہے میڈیا میں موضوع بحث بننے کیلئے ۔ کچھ لوگ ہیں جن کا ایمان کانگریس سے کچھ ایسا پختہ ہوا ہے کہ اس میں کمی نہیں آرہی ہے ، وہی لوگ اویسی یا کسی بھی ایسی جماعت کے خلاف میدان میں آجاتے ہیں یا کانگریس ہائی کمان کے چشم و ابرو کے اشارے پر لائے جاتے ہیں اور وہ مسلمانوں میں اپنی طرح ایمان بالکانگریس راسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اویسی پر ایسی گھٹیا رائے رکھنے والوں سے میرا کہنا صرف یہ ہے کہ اس طرح کی حرکت وہ کرتا ہے جسے جھوٹی شہرت کی ہوس ہو ، جسے خود ہی شہرت اور پذیرائی مل رہی ہو اسے کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ اس طرح کی حرکتیں کرے ۔ ہم تو یہ کہتے ہیں اور ممکن ہے کہ میرا تجزیہ ٹھیک ہو اور نہ بھی ہو وہ یہ ہے کہ جن لوگوں کا اویسی کی شہرت اور قوم میں پذیرائی سے سیاسی کریئر خطرہ میں ہے یہ انہی کی حرکت ہو سکتی ہے ۔ اب یہ بات تو عام فہم رکھنے والے افراد بھی دیکھ رہے ہیں کہ اویسی کی سربلندی سے کون پستی میں جانے کو ہے ۔
کچھ لوگ اویسی پر ووٹوں کی تقسیم کا الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ اس طرح بی جے پی کو فائدہ پہنچا رہے ہیں پر اس کے ثبوت میں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔ اس طرح کے الزامات صرف اویسی پر ہی نہیں اس سے قبل بھی ان لوگوں پر لگتے رہے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی سیاسی قوت کیلئے میدان میں آنے کی جرات کی ، ایسے لوگوں میں سب سے نمایاں نام ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی مرحوم کا ہے ۔ جنہوں نے اپنی پریکٹس چھوڑ کر اور صحت کی پرواہ کئے بغیر قوم کی سر بلندی کیلئے عملی سیاست میں حصہ لیا ۔ ان کی کوششیں کامیاب بھی ہوئیں لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔ اویسی پر ووٹ کی تقسیم کے مفروضے کے سلسلے میں سب کچھ نظر انداز کربھی دیجئے تو گجرات الیکشن کا حوالہ ہی کافی ہے کہ وہاں تو ایم آئی ایم نہیں تھی پھر کیوں نہیں کانگریس نے حکومت بنانے کے لائق سیٹیں جیتیں ؟ اس طرح کی باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو مسلمان تو ہیں لیکن ان کا ایمان باللہ نہیں ایمان بالکانگریس ہے ۔ انہیں اس گئی گزری حالت میں بھی جب کانگریس آئی سی یو میں ہے اور اس نے مسلمانوں کے لئے جو کچھ کیا اس کا جیتا جاگتا دستاویزی ثبوت سچر کمیشن کی رپورٹ ہے ۔ کیا اس کے بعد بھی کچھ کہنے کی ضرورت ہے کہ کانگریس ہی وہ پارٹی ہے جو مسلمانوں کو ان کے حقوق دے سکتی ہے ؟ہمارا مشورہ ہے کہ اگر مسلمانوں میں کوئی دستاویزی اور تاریخی شواہد کے ساتھ بولنے والا نہیں ہے تو کم از کم دلت لیڈر وامن میشرام کی تقاریر ہی یو ٹیوب پر سن لیں وہ دستاویزی اور تاریخی حقائق کی بنیاد پر اپنی رائے پیش کرتے ہیں کہ ہمیں کانگریس اور کانگریسی مسلمانوں نے کتنا گمراہ کیا ۔جو لوگ مولانا آزاد کی بعض تقریروں اور تاریخی پیشن گوئی کا حوالہ دے کرلوگوں کو بدگمان کرتے ہیں وہ بتائیں کہ ان ستر برسوں میں مسلمانوں کی بدترین حالت کا ذمہ دار کون ہے ؟۔ ہم بتادیں کہ مسلمانوں کو اس ملک میں ترقی اور وسائل میں یکساں مواقع کیلئے کانگریس کے کاندھوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ مسلمانوں کو ایسے کاندھوں کی ضرورت ہے جو ان کا اپنا ہو اور وہ صرف مسلم سربراہ والی سیاسی جماعت سے ہی ممکن ہے ۔ اس کیلئے فی الحال ہمیں اسد الدین اویسی پر اتفاق کرنا ہی پڑے گا اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے ۔ ہمیں پارلیمنٹ میں کوئی تہجد گزار گونگا رکن نہیں چاہئے اسد الدین اویسی جیسا مرد میدان چاہئے جو تنہا ہو کر بھی سینکڑوں پر بھاری ہو ۔
مسلمان کانگریس کے پھیلائے گئے مفروضے سے جتنی جلدی باہر آکر اپنی سیاسی قوت بنانے کی جانب قدم بڑھائیں گے اتنا ہی بہتر رہے گا۔وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا انسان کو وقت کے ساتھ چلنا اور اس کے مطابق خود کو تبدیل کرنا ہوتا ہے ۔ آزادی سے قبل کے حالات اور آج میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ چھوڑ دیجئے ان اکابر کی پیش گوئی کو اور وقت کی ضرورت کے تحت اپنی سیاسی قوت کو مضبوط کیجئے ۔ آپ نے دیکھ لیا کہ کانگریس سے وابستہ تہجد گزار ایم پی اور کانگریس سے نظریاتی وابستگی رکھنے والے آسامی ایم پی نے پارلیمنٹ نہ پہنچ کر آپ کو کیا پیغام دیا ۔ کسی کی گاڑی ٹریفک میں پھنس گئی اور کسی کو اس کی پارٹی نے بولنے نہیں دیا ۔ بعد میں پریس ریلیز ، بیانات اور مضامین لکھنے سے کیا فائدہ ۔ قوم نے انہیں پارلیمنٹ اس لئے بھیجا تھا کہ یہ لوگ آپ کا موقف رکھیں ۔ اس میں وہ ناکام ہو گئے یا اس امتحان میں سخت تساہلی کا مظاہرہ کیا ۔ آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ پسماندہ طبقہ نوے فیصد بیدار ہو چکا ہے اور وہ برہمنوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود برہمنیت کی علمبردار سیاسی جماعتوں (کانگریس ،بی جے پی ) کیلئے چیلنج بن گیا ہے ۔ اسی کے ساتھ آپ بھی آجائیں اور پہلے سے غیر مشروط ان کی حمایت کریں ۔ مت دیکھئے کہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہونے کا دعویٰ کرنے والے کیا کررہے ہیں ۔ اگر ان کا رخ ٹھیک ہے ، انہوں نے حالات سے سبق لیا ہے تو ان کے ساتھ آئیں ورنہ انہیں چھوڑ دیں اور برہمنیت کے خلاف چھڑنے والی تحریک کا حصہ ہی نہیں بنیں بلکہ اس کی صفوں میں اول مقام پر آنے کی کوشش کریں ۔ ان کی تحریکوں میں شامل ہوں ، ان کے احتجاج کا بازو بنیں تاکہ یہ محسوس ہی نہ ہو کہ وہ اکیلے ہیں ۔ آج بھی مسلمانوں پر ان کے عزم اور حوصلوں کے سبب یہ لوگ زیادہ بھروسہ کرتے ہیں ۔ ہاں مسلم لیڈروں سے یہ بددل اس لئے ہوئے ہیں کہ مسلمانوں کا کانگریس پریم ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ نئی نسل ہندوستان کی نئی تاریخ لکھنے جارہی ہے ۔ اس کا مقابلہ دیش بھکتی کی ڈھونگ کرنے والی جماعت سے ہے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ خود اویسی کی پارٹی میں بھی ایسے افراد شامل ہیں جو اپنے دل میں اویسی کے تئیں مخلص نہیں ہیں ۔ یہاں آپ کے بھائی ہی کبھی آپ کے دشمن نکلیں گے ۔ اس کے علاوہ ایک بات اور ہے جو ہم میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم صرف باتوں کے غازی بن گئے ہیں ۔ چائے خانوں میں پریس کانفرنسوں میں اور ڈائننگ ہالوں میں قوم کے غم میں ماتم کرلینے اور آہیں بھرلینے کو ہی کافی سمجھ لیتے ہیں کہ بس ہم بولیں گے ، اظہار خیال کرلیں گے اور بقیہ کام اللہ تعالیٰ فرشتوں کو بھیج کر کروا دے گا ۔ عملی طور پرکوئی آگے آنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ کوئی آتا بھی ہے تو اس کا موازنہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں سے کرنے لگتے ہیں ۔ ہمیں اس روش سے باہر آنا ہوگا ورنہ کرتے رہئے آہ و زاریاں کچھ نہیں ہونے والا ۔ عملی اقدام ہی واحد راستہ ہے ۔ عملی طور پر آگے بڑھیں ، پرانی روش کو چھوڑیں اکابر اب قبر سے نکل کر نہیں آنے والے ۔ مسائل آپ کے سامنے ہیں وہ آپ کو ہی حل کرناہے ۔ آنکھیں کھول کر دیکھیں کون اپنی پارٹی کا وفادار اور آپ کا غدار ہے اور کون ہے جو تنہا ہونے کے باوجود اڑا رہا ، ڈٹا رہا ۔ اس کے بعد بھی آپ کی آنکھیں نہیں کھلیں تو کسی سے کیا گلہ ، ہم اپنی تباہی کے خود ہی ذمہ دار ہوں گے ۔

0 comments:

Muslim Issues

ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی بصیرت


نہال صغیر

تحریکیں ایک دو سال میں پھل نہیں لاتیں۔اس کے لئے برسوں جد و جہد کے ایک طویل اور صبر آزما دور سے گزر نا ہو تا ہے ۔ عام طور پر تحریک کی راہوں میں پھول بہت بعد کی نسلوں کے لئے ہوتی ہیں ۔جو لوگ کسی تحریک کی ابتدا کرتے ہیں انہیں کانٹوں پر چلنا ہوتا ہے اور آگ کے شعلوں کے درمیان سفر کرنا ہوتا ہے تب کہیں جاکر اگلی کسی نسل کو کامیابی ملتی ہے ۔یہ چند الفاظ اس لئے ادا کئے گئے ہیں کہ دو دن سے کسی نہ کسی ایسی میٹنگوں میں شامل رہا جس میں قوم کی موجودہ صورتحال اور سیاسی بے وزنی کا رونا رویا گیا ۔ پہلی ایک میٹنگ میں جہاں مسلمانوں کی اجمالی حالت کا جائزہ لیا گیا وہیں دوسری مختصر میٹنگ میں مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی پر گفتگو ہوئی ۔ پہلی میٹنگ میں سب کے بارے میں تو میں نہیں جانتا لیکن چند افراد ضرور ایسے تھے کہ ان کا اخلاص شبہ سے بالاتر ہے ۔دوسری میٹنگ چونکہ انتہائی مختصر تھی اور زیادہ سے زیادہ بارہ افراد پر مشتمل تھی اس لئے اندازہ ہے کہ اس میں سبھی کے دلوں میں قوم کی موجودہ حالت کے تئیں درد موجود تھا جس کا وہ درماں چاہتے ہیں ۔ معاشی اور تعلیمی میدان میں کئی برسوں سے لوگ کام کررہے ہیں اور وہاں ان کے اثرات نظر بھی آرہے ہیں ۔گرچہ اتنے نہیں ہیں جتنے اس قوم کو اس کی ضرورت ہے ، لیکن کچھ نہیں ہونے سے کچھ ہونا زیادہ بہتر ہے ۔ بہر حال چونکہ معیشت اور تعلیم پر کچھ پیش رفت ہوئی ہے اس لئے اس پرگفتگو کرنے کیلئے اور بہت سے ماہرین موجود ہیں اور وہ اس جانب قوم کی رہنمائی کے فرائض ادا بھی کررہے ہیں ۔سیاست میں مسلمان مسلسل زوال پذیر ہیں اور ان کی بے وزنی میں دن دونی رات چوگنی اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ اس جانب لوگ توجہ تو دے رہے ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ گاڑی کے چاروں طرف گھوڑے بندھے ہیں سب اپنی اپنی جانب زور لگا رہے ہیں ۔ اس لئے اس صورت میں منزل پر پہنچنا بہت مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔
ہندوستان کے عدم مساوات والے سماج میں مسلمانوں کو اپنی پوزیشن بنانا مشکل نہ تھا لیکن مسلم سلطنتوں کے زوال کے بعد انگریزوں کے ابتدائی دور میں تو لیڈر شپ کچھ بہتر رہی جس نے مسلمانوں کو سنبھالااور حالات اتنے برے نہیں ہوئے جتنے آج نظر آرہے ہیں ۔ لیکن جیسے ہی گورے انگریزوں سے آزادی کی تحریک چلی اور اس تحریک میں مسلمان صف اول میں نظر آئے ملک کے عدم مساوات کے مبلغین کی نظر میں وہ آگئے انہوں نے بڑی چالاکی سے دھیرے دھیرے اس تحریک کو اپنے حق میں موڑ لیا ۔اس دور کے سادہ لوح مسلم لیڈر جب تک سمجھ پاتے تب تک وہ خلافت تحریک کے بہانے مسلمانوں کی تحریک پر قابض ہو چکے تھے ۔اس سلسلے میں ان کی اس چال کو کوئی سمجھ سکا تو وہ تھے محمد علی جناح لیکن پاکستان کی تخلیق اور ملک کی تقسیم کا سارا ٹھیکرا انہی کے سر پھوڑ دینے کے سبب وہ ایک ایسی شخصیت بنادیئے گئے ہیں کہ جناح کے تعلق سے آپ نے کوئی بات زبان سے نکالی تو صرف ملک دشمن ہی قررنہیں دیا جائے گا بلکہ فتوے بھی صادر کئے جائیں گے ۔ مطلب آپ کبھی تاریخ میں جھانکیں نہیں بس جو کچھ آپ کو اسکرپٹ دے دیا گیا ہے اسی پر یقین کرتے چلے جائیں اور سر دھنتے رہیں ۔ کبھی بھی یہ دیکھنے کی کو شش نہ کریں کہ اکابرین نے کیا سیاسی غلطیاں کیں جس کے سبب آج مسلمانوں کا یہ حال ہے ۔ بہر حال اس پر پھر کبھی گفتگو ہو جائے گی فی الوقت اوپر جس دوسری میٹنگ کا حوالہ دیا گیا اس میں بامسیف نام کی ایک غیر سیاسی تنظیم میں مسلمانوں کی شمولیت پر گفتگو موضوع بحث ہے ۔ اس تنظیم کی سیاسی جماعت بھی عنقریب لانچ ہونے والی ہے ۔ اس لئے کئی افراد یہ کہہ رہے تھے کہ ہم اس سیاسی جماعت میں ہی شامل ہوں ۔ بامسیف نام کی غیر سیاسی تنظیم میں شامل ہو کر کیا ملے گا ۔ ایک صاحب یہ کہنے لگے کہ ہمیں اس میں شمولیت سے پہلے ہی شرائط طے کرلینے چاہئیں ۔ ان کی باتوں سے یہ اندازہ ہوا کہ وہ لوگ یا مسلمان اس پوزیشن میں ہیں کہ کوئی بھی انہیں ہاتھوں ہاتھ لے گا ، لیکن ایسا نہیں ہے ۔ مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ان کا ایمان اللہ سے تو ڈانوا ڈول ہو جاتا ہے کہ وہ توحید پرست ہیں پھر بھی اللہ ان کی مدد نہیں کررہا ہے ۔ لیکن کانگریس سے ان کا ایمان متزلزل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ مسلمانوں کی ایک جماعت تو جیسے اس کی غیر مشروط حمایت کے ایجنڈے پر اس حالت میں بھی قائم ہے جبکہ سب کہہ رہے ہیں جو کیا دھرا ہے کانگریس کا ہی ہے ۔ بامسیف جیسی تنظیمیں کھلے عام کہتی ہیں کہ بی جے پی سے زیادہ کانگریس برہمن بنیا پارٹی ہے جس سے مسلمانوں سمیت کسی بھی پسماندہ طبقہ کو تباہی کے سوا نہ کچھ ملا ہے اور نہ ہی آئندہ کچھ ملنے والا ہے ۔ کانگریس کا وہ منافقانہ کردار اسکے ابتدائی دور سے ہی ہے اور وہ آج بھی اس پر قائم ہے ۔
جس طرح مسلمان منتشر ہیں اسی طرح پسماندہ طبقات بھی مختلف خیموں میں منقسم ہیں ۔ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا تعلیم یافتہ بنو ، متحد ہو اور احتجاج کرو۔پسماندہ طبقہ تعلیم حاصل کررہا ہے احتجاج بھی شدید کرتا ہے لیکن متحد نہیں ہوتا ۔مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ تعلیم ،اتحاد اور احتجاج تینوں سے دور ہیں ۔اس صورت میں ان کے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ وہ پسماندہ طبقات کے ساتھ اتحاد پر زور دیں۔پہلے ان کے ساتھ شامل ان کی لڑائی میں شامل ہوں ۔اپنا رونا رونے سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ دیگر پسماندہ طبقات اور مظلوموں کی قوت اور ان کے مددگار بنیں ۔ایسا کچھ جگہوں پر مسلمان کر بھی رہے ہیں ۔اس سے سنگھ اور اس کی تنظیمیں حواس باختہ بھی ہیں ۔میں یہاں اس کی مثال نہیں دوں گا کہ کہاں کہاں مسلمانوں نے ایسا کیا ہے۔لیکن جہاں نہیں ہے وہاں وہاں مسلمانوں کو اس جانب آنا ہی پڑے گا ۔شکر ہے کہ بیداری آئی ہے اور اس نہج پر گفتگو شروع ہوئی ہے ۔کئی جگہ پر اس کے اچھے نتائج نظر بھی آئے ہیں ۔بامسیف کے ایک رکن نے بتایا کہ اتر پردیش میں بامسیف نے زمینی سطح پر کام کیا اور نتائج سامنے آئے کہ بی جے پی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن بکاؤ میڈیا کے سبب اس حوصلہ بخش خبر کو بی جے پی کی فتح کے طور پر پیش کیا گیا ۔جبکہ زمینی حقیقت یہ تھی کہ شہری اکائیوں میں بی جے پی نہیں سماج وادی ،بہوجن سماج وادی اور دیگر قوتیں فتح یاب ہوئیں ۔عام طور پر جب پسماندہ طبقات کے ساتھ اتحاد کی بات ہوتی ہے تو ایک سوال ضرور کیا جاتا ہے کہ فسادات میں سنگھ یا برہمن وادی طاقتیں انہی پسماندہ طبقات کا استعمال کرتی ہیں ۔ اس جواب ان کے لیڈروں کی جانب سے بھی دیا گیا اور یہاں بھی اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے ۔اول یہ کہ ہم نے اسلام کے مساوات کے سبق کو بھلا کر برہمنوں کی طرح ان سے وہی سلوک کیا جو برہمنوں نے ان کے ساتھ روا رکھا ۔دوسرا یہ کہ ہماری جانب سے بھی یہ کوشش کبھی نہیں ہوئی کہ برہمن انہیں استعمال نہ کرسکیں ۔آخر ہاردک پٹیل یہ بول سکتے ہیں کہ گجرات فسادات میں ہماری برادری کو استعمال کیا گیا لیکن اب ایسا نہیں ہوگا ۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ ہاردک پٹیل کی کس نے برین واش کی ؟اسی طرح ہمیں ہر گاؤں ہر شہر ہر محلہ میں کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیا ہم نے اس پر توجہ دینے کی کوشش کی ؟ جماعت اسلامی نے آزادی ہند یا تقسیم ہند کے بعد سے اس پر بہت کام کیا ۔انہوں نے مختلف بہانوں سے اس کام کو انجام دیا ۔افطار پارٹی ہمارے یہاں ایک سیاسی تماشہ بن گئی ہے لیکن جماعت اسلامی نے اسے اسلام کے مساوات کے سبق کو عام کرنے اور مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کے درمیان نزدیکیاں پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا ۔ اسی طرح عید ملن کو بھی جماعت اسلامی نے اتحاد اور یگانگت اور مسلمانوں کی دیگر اقوام کے ساتھ افہام و تفہیم کے ماحول کوبہتر بنانے کیلئے استعمال کیا ۔ اس کے بعد اسعد مدنی ؒ نے ادت راج کے ساتھ مل کر دلتوں اور مسلمانوں کے اتحاد کیلئے ایک پلیٹ میں کھانا کھانے کی تحریک شروع کی تھی لیکن پتہ نہیں وہ تحریک کن اسباب اور کس کے دباؤ کے سبب بند ہو گئی ۔ ابھی پھر سے جمعیتہ العلما نے گجرات میں قومی یکجہتی کانفرنس کا انعقاد کیا تو اس میں بھی وامن میشرام کو مدعو کرکے برہمنزم سے ملک کو درپیش خطرات کو عوام کے سامنے لانے کی کوشش کی ۔یہ ساری کوششیں مثبت ہیں ۔ عجلت اور افراتفری میں کچھ نہیں ہوتا ۔ تحریکیں برسوں چلتی ہیں تب کہیں جاکر اگلی نسلوں کو اس کا فائدہ ملتا ہے ۔ اس لئے بہتر ہے کہ ان پسماندہ طبقات کی سیاسی غیر سیاسی تحریکوں سے مسلمان جڑیں اور اپنی سیاسی لیڈر شپ کی جانب بھی توجہ دیں۔کانگریس کے کاندھے کو استعمال کرنا چھوڑ دیں جس نے انہیں ہمیشہ گہری کھائی میں پھینکا ہے ۔یہ وطیرہ چھوڑیں کہ کانگریس کے ساٹھ برس کی منافقانہ روش سے بھی اکتاہٹ نہیں اور اپنا کوئی اپنی پارٹی سے ہی آجائے تو اس کے پل پل اور ہر حرکت پر خورد بین اور دوربین سے نظر رکھنے کی کوشش کریں اور دوسروں کی پھیلائی گئی بدگمانی کا شکار ہو کر اپنی کلہاڑی سے اسی شاخ کو کاٹنے کی کوشش کریں جس پر بیٹھیں ہیں ۔ اگر یہی صورتحال رہی تو قیامت تک ہندوستان مسلمان یہاں کے اس کریہہ برہمنی نظام کا غلام ہی رہے گا آزاد نہیں ہو پائے گا ۔

0 comments:

Muslim Issues

حکومت مسلم عورتوں کی ہمدردی کا ڈھونگ رچ کر شریعت کو نشانہ بنارہی ہے


ممبئی : (نہال صغیر )جنوبی ممبئی کے ناگپاڑہ جنکشن پرتحفظ شریعت اجلاس میں موجود عوامی سیلاب سے خطاب کرتے ہوئے مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے مسلم نوجوانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ برائیوں سے خود کو بچا کر شریعت کے تحفظ میں عملی طور پر پیش قدمی کریں۔جلسہ تحفظ شریعت میں تقریر کرتے وقت ان پر کسی نے جوتا پھینکنے کی کوشش کی اس پر انہوں نے کہا کہ مجھ پر حملہ کرنے والے جان لیں کہ اسد الدین اویسی جسمانی طور پر بھلے ہی ختم ہو جائے گا لیکن نظریاتی طور پر ہم زندہ رہیں گے۔انہوں نے کہا ہمارے ملک میں پچھلے ڈھائی تین سال سے یہ پرپگنڈہ کیا جارہا ہے کہ اسلام میں خواتین کو حقوق حاصل نہیں ہیں ۔اس طرح سے دیگر ابنائے وطن کو دبایا جاتا ہے انہیں ترقی کیلئے آگے نہیں آنے دیاجاتا ۔اسلام میں عورتوں کو حقوق حاصل نہیں یہ جھوٹا اور بے بنیاد پروپگنڈہ ہے ۔اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے خواتین کو باپ کی جائیداد میں حق دیئے گئے ۔اسلام پر انگلی اٹھانے والے کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ بتائیں کہ کس نے کہا تھا کہ جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی وہ جنت میں جائے گا ۔میں بتاؤں کہ آپ کے یہاں کیا ہوتا ہے اگر میں یہ کھول کر کہ دوں تو میرے خلاف الزام لگایا جائے گا کہ یہ بھڑ کانے والی تقریر کرتے ہیں ۔انہوں نے وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اکثر صحافی ہم سے ہماری بیویوں کی تعداد پوچھتے ہیں ہمارا جواب ہوتا ہے کہ نومینیشن پیپر دیکھ لو اس میں لکھا ہے اور وہ بیوی میری میرے گھر میں ہی رہتی ہے ۔تین طلاق بل پر انہوں مضحکہ اڑاتے ہوئے کہا کہ کیا وہ اس کی گارنٹی دیتے ہیں کہ اس قانون کے بعد کوئی تین طلاق کا واقعہ پیش نہیں آئے گا ۔وہ کہتے ہیں کہ مسلم عورتوں کو انصاف دینے کیلئے یہ بل لارہے ہیں ۔ہریانہ میں چھ دن میں آٹھ خواتین کا ریپ ہوا۔ہندوستان میں جہیز کیلئے روزانہ بائیس عورتیں ماری جاتی ہیں ۔صرف قانون بنانے سے سماج میں سدھار نہیں ہو سکتا ۔اس کیلئے نظریہ چاہئے اور اخلاص کے ساتھ کوشش کرنا ضروری ہے۔ مسلم مہیلا آندولن نام کی تنظیم خاتون سربراہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کا حوالہ دے کر کہتی ہیں کہ یہ لکھا انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ جس نے کسی غیر مسلم سے شادی کی وہ زنا ہے۔تین طلاق پر علما کا اتفاق ہے کہ یہ غلط ہے اس طرح بیوی کو طلاق نہیں دو ۔اسدا لدین اویسی نے تین طلاق قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اس مضحکہ خیز شقیں ہیں جیسے کہ تین طلاق مانا بھی نہیں جائے گا اور اسے دینے والے کو تین سال کی سزا بھی ہے ۔انہوں نے کہاکہ اگر مودی حکومت کو مسلم خواتین سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو وہ طلاق شدہ مسلم خواتین کو پندرہ پندرہ ہزار روپیہ دیں وہ عوام کو تو پندرہ پندرہ لاکھ نہیں دیا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر انہیں مسلم عورتوں سے ہمدردی ہے تو مسلم عورتوں کو ہی اسمبلی اور پارلیمنٹ کی نمائندگی دیں ۔جس کے پاس مسلمان ایم پی ایم ایل اے نہیں ہے وہ ہماری خواتین کے حق کی بات کررہے ہیں۔ انہوں نے پدماوتی فلم پر ایک طبقہ کی جانب سے کھلے عام تشدد کرنے اور اس کی دھمکی دینے والے کی کوئی گرفت نہیں اگر میں ایسا کہتا تو میں آپ کے سامنے نہیں ہوتا بلکہ اب تک جیل میں ہوتا ۔بات یہ ہے کہ ہندوتوا کے نام پر تشدد کی سرپرستی حکومت کرتی ہے ۔انہوں احسان جعفری اور ذکیہ جعفری کا حوالہ دے کر بھی یہ کہنے کی کوشش کی کہ مودی کو مسلمانوں سے نفرت ہے وہ مسلمانوں کے ہمدرد نہیں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ آج تک جتنے آپ کے گؤ رکشکوں کی دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں ان کے والدین کو انصاف دو ۔آپ کہتے ہیں کہ مجھے ماردو لیکن ہمارے دلت بھائیوں کو مت مارو ۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم آپ کو ن مارسکتا ہے ،مسٹر مودی ہم آپکو دعائیں دیتے ہیں کہ آپ کی عمر ڈیڑھ سو سال ہو ۔ 

اسد الدین اویسی نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ برائیوں سے خود کو بچا کر شریعت کے تحفظ میں عملی طور پر پیش قدمی کریں

 
اسد الدین اویسی نے گجرات الیکشن میں کانگریس کے نرم ہندوتوا کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مندر مندر کھیل کر یہ لوگ سیکولر ہیں تو میں مسجد اور درگاہوں میں جاؤں تو میں فرقہ پرست ۔ زندگی میں کبھی اتنی تنہائی کا احساس نہیں ہوا جتنا پارلیمنٹ میں طلاق بل پر بولتے ہوا ۔مجھے گلہ آپ سے ہے کہ آپ اپنی آواز کو مقننہ میں پہنچائیں اگر پارلیمنٹ میں آپ کی آواز بلند کرنے والا دس پندرہ ممبر ہوتے تو یہ حالت نہیں ہوتی ۔آپ مہاراشٹر اسمبلی میں پانچ چھ ممبران ہوتے تو آپ کی آواز میں قوت ہوتی۔مسلم عورتوں سے انصاف بس ایک بہانہ ہے اصل میں شریعت ہی نشانہ ہے ۔گھریلو تشدد کے پچھتر فیصد واقعات ہندوؤں میں ہوتے ہیں ،ان پر بل لائیں گے ان کے ساتھ انصاف کریں ۔مسلم عورتوں کا درد اتنا ہی ہے تو انہیں ریزرویشن دیدیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ جو لوگ ذکیہ جعفری کو انصاف نہیں دے سکے وہ کیا انصاف کریں گے۔ہمیں آرٹیکل 29 کے تحت ہمیں اپنے تہذیب سے جڑے رہنے کی آزادی ہے۔انہوں نے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا کہ خوف مت کھاؤ دستور کے رو سے آپ کو مذہبی ،تہذیبی ،تعلیمی اور معیشت کی آزادی حاصل ہے ۔امتیاز جلیل نے مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دو ہزار چودہ سے پہلے جو کام کرتے تھے دو ہزار انیس کے بعد انہیں وہی کام کرنا ہوگا ۔جس عوام نے انہیں وزارت عظمیٰ کی کرسی دی تھی وہی انہیں اس سے اتار بھی نہیں دیں گے۔تین طلاق بل پر انہوں نے کہا کہ شریعت میں مداخلت کا کسی کو حق نہیں ہے ۔تم خواہ مسلمانوں کو کتنا ہی تقسیم کرنے کی سازش کرو لیکن شریعت کے نام پر اسد الدین اویسی کی تقریر سننے کیلئے امڈی بھیڑ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان شریعت کے نام پر اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متحد ہے ۔
وارث پٹھان نے کہا کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرلے گا لیکن وہ شریعت کے خلاف کسی بھی قدم کو برداشت نہیں کرے گا۔ترقی کے نام پر آنے والی حکومت اپنے خفیہ ایجنڈے پر چل رہی ہے۔تین طلاق کے معاملہ پر بولتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس علمائے کرام اور اسلامی اسکالر ہیں وہ شریعت پر اپنی رائے دیں گے تم کون ہوتے ہو شریعت پر اپنی رائے دینے والے ۔تین طلاق بل پر پارلیمنٹ میں کسی کی آواز نہیں نکلی لیکن واحد اویسی ہیں جنہوں نے وہاں آواز اٹھائی ۔ہم تو پہلے سے ہی کہتے رہے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو بیدار کرنے آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مسلمان اگر متحد ہو گئے تو حکومت کو جھکنا ہی پڑے گا ۔انہوں نے سوال کیا کہ کیا مودی حکومت کو پورے ملک میں کوئی مسلم اسکالر اور علمائے کرام نہیں ملے اس نے بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے پہلے ان کی رائے لیتی ۔انہوں نے مسلمانوں سے سوال کیا کہ مسلمانوں کو اس شخص کا ساتھ نہیں دینا چاہئے جو ان کی آواز پارلیمنٹ میں بلند کرتا ہے ان کے حقوق کیلئے لڑے ۔آپ نے مجھے مہاراشٹر اسمبلی میں بھیجا ہم آپ کی آواز مہاراشٹر اسمبلی میں اُٹھاتے ہیں اور آپ کے حقوق کیلئے لڑتے ہیں ۔آج طلاق پر بات آئی ہے کل مساجد کے لاؤڈ اسپیکر ،ہماری ٹوپیاں اور ہماری ماؤں اور بہنوں کے نقاب پر بھی اعتراض کیا جائے گا ۔اجلاس میں شہر کے سبھی معروف علمائے کرام بھی موجود تھے ۔ پورا ناگپاڑہ عوام کھچا کھچا بھرا تھا ۔عوام کا جوش قابل دید تھا وہ اسد الدین کی تقریر پر تالیوں اور نعروں سے اپنی تائید کا اظہار کررہے تھے ۔

0 comments: