Muslim Issues

اویسی ، تنازعات اور ہماری قیادت

5:28 PM nehal sagheer 0 Comments


نہال صغیر

کچھ لوگوں کو شکایت ہے کہ اسد الدین اویسی میں ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی رہبری کی خوبیاں ہیں لیکن ان میں سختی ہے ، انہیں چاہئے کہ وہ تھوڑی سی لچک پیدا کریں ۔جنہیں یہ شکایت ہے کہ اویسی میں لچک نہیں ہے ان کے مطابق مجلس کو کانگریس کے ساتھ مل کر بی جے پی کو ہرانے اور پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ایسی باتیں سوچنے اور کہنے والے سادہ لوح ہیں ۔ انہیں کانگریس کی منافقانہ روش سے ٹھیک ٹھیک آگاہی نہیں ہے ۔منموہن سنگھ حکومت میں اویسی کانگریس کے ساتھ تھے اور شاید آندھرا پردیش کی حکومت میں بھی اویسی کی پارٹی کانگریس کو حمایت دے رہی تھی ۔ لیکن مجموعی طور پر کانگریس کے دوغلے رویہ کے سبب ان کی پارٹی نے ان سے حمایت واپس لی ۔ حالانکہ اس حمایت لینے سے ویسے ہی کوئی اثر نہیں ہوا جیسے کہ پارلیمنٹ میں اکیلے اسد الدین کے بولنے سے کچھ نہیں ہوا۔کسی کے بولنے یا کسی کی جدو جہد سے کوئی نتیجہ نکلے یا نہیں ہمیں کوشش جاری رکھنی چاہئے۔کچھ نہیں کرنے سے بہتر ہے کہ کچھ نہ کچھ کیا جائے ۔ بات بھی یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں نتائج کا مکلف نہیں بنایا ہے اللہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ ہم نے کوشش کتنی کی اور کس نہج پر کی ۔ اسد الدین اویسی نے بھی اپنے طور پر کوششیں کی خواہ کامیاب ہوں یا نہ ہو ۔ ویسے بھی جنگل میں شیر اکیلا ہی ہوتا ہے ۔ 23 ؍جنوری کے ناگپاڑہ کے اجلاس میں اسد الدین اویسی پر دوران تقریر جوتا اچھالنے کی کوشش کی گئی جو پوڈیم سے لگ کر نیچے گر گیا ۔ اس سے تھوڑی دیر کیلئے افرا تفری کا ماحول بن گیا جسے خود اویسی نے اپنی مسلسل اپیلوں سے سرد کیا ۔ اب کئی لوگ یہ کہہ رہے ہیں یہ حرکت خود اسد الدین اویسی نے دانستہ کرائی ہے میڈیا میں موضوع بحث بننے کیلئے ۔ کچھ لوگ ہیں جن کا ایمان کانگریس سے کچھ ایسا پختہ ہوا ہے کہ اس میں کمی نہیں آرہی ہے ، وہی لوگ اویسی یا کسی بھی ایسی جماعت کے خلاف میدان میں آجاتے ہیں یا کانگریس ہائی کمان کے چشم و ابرو کے اشارے پر لائے جاتے ہیں اور وہ مسلمانوں میں اپنی طرح ایمان بالکانگریس راسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اویسی پر ایسی گھٹیا رائے رکھنے والوں سے میرا کہنا صرف یہ ہے کہ اس طرح کی حرکت وہ کرتا ہے جسے جھوٹی شہرت کی ہوس ہو ، جسے خود ہی شہرت اور پذیرائی مل رہی ہو اسے کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ اس طرح کی حرکتیں کرے ۔ ہم تو یہ کہتے ہیں اور ممکن ہے کہ میرا تجزیہ ٹھیک ہو اور نہ بھی ہو وہ یہ ہے کہ جن لوگوں کا اویسی کی شہرت اور قوم میں پذیرائی سے سیاسی کریئر خطرہ میں ہے یہ انہی کی حرکت ہو سکتی ہے ۔ اب یہ بات تو عام فہم رکھنے والے افراد بھی دیکھ رہے ہیں کہ اویسی کی سربلندی سے کون پستی میں جانے کو ہے ۔
کچھ لوگ اویسی پر ووٹوں کی تقسیم کا الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ اس طرح بی جے پی کو فائدہ پہنچا رہے ہیں پر اس کے ثبوت میں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔ اس طرح کے الزامات صرف اویسی پر ہی نہیں اس سے قبل بھی ان لوگوں پر لگتے رہے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی سیاسی قوت کیلئے میدان میں آنے کی جرات کی ، ایسے لوگوں میں سب سے نمایاں نام ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی مرحوم کا ہے ۔ جنہوں نے اپنی پریکٹس چھوڑ کر اور صحت کی پرواہ کئے بغیر قوم کی سر بلندی کیلئے عملی سیاست میں حصہ لیا ۔ ان کی کوششیں کامیاب بھی ہوئیں لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔ اویسی پر ووٹ کی تقسیم کے مفروضے کے سلسلے میں سب کچھ نظر انداز کربھی دیجئے تو گجرات الیکشن کا حوالہ ہی کافی ہے کہ وہاں تو ایم آئی ایم نہیں تھی پھر کیوں نہیں کانگریس نے حکومت بنانے کے لائق سیٹیں جیتیں ؟ اس طرح کی باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو مسلمان تو ہیں لیکن ان کا ایمان باللہ نہیں ایمان بالکانگریس ہے ۔ انہیں اس گئی گزری حالت میں بھی جب کانگریس آئی سی یو میں ہے اور اس نے مسلمانوں کے لئے جو کچھ کیا اس کا جیتا جاگتا دستاویزی ثبوت سچر کمیشن کی رپورٹ ہے ۔ کیا اس کے بعد بھی کچھ کہنے کی ضرورت ہے کہ کانگریس ہی وہ پارٹی ہے جو مسلمانوں کو ان کے حقوق دے سکتی ہے ؟ہمارا مشورہ ہے کہ اگر مسلمانوں میں کوئی دستاویزی اور تاریخی شواہد کے ساتھ بولنے والا نہیں ہے تو کم از کم دلت لیڈر وامن میشرام کی تقاریر ہی یو ٹیوب پر سن لیں وہ دستاویزی اور تاریخی حقائق کی بنیاد پر اپنی رائے پیش کرتے ہیں کہ ہمیں کانگریس اور کانگریسی مسلمانوں نے کتنا گمراہ کیا ۔جو لوگ مولانا آزاد کی بعض تقریروں اور تاریخی پیشن گوئی کا حوالہ دے کرلوگوں کو بدگمان کرتے ہیں وہ بتائیں کہ ان ستر برسوں میں مسلمانوں کی بدترین حالت کا ذمہ دار کون ہے ؟۔ ہم بتادیں کہ مسلمانوں کو اس ملک میں ترقی اور وسائل میں یکساں مواقع کیلئے کانگریس کے کاندھوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ مسلمانوں کو ایسے کاندھوں کی ضرورت ہے جو ان کا اپنا ہو اور وہ صرف مسلم سربراہ والی سیاسی جماعت سے ہی ممکن ہے ۔ اس کیلئے فی الحال ہمیں اسد الدین اویسی پر اتفاق کرنا ہی پڑے گا اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے ۔ ہمیں پارلیمنٹ میں کوئی تہجد گزار گونگا رکن نہیں چاہئے اسد الدین اویسی جیسا مرد میدان چاہئے جو تنہا ہو کر بھی سینکڑوں پر بھاری ہو ۔
مسلمان کانگریس کے پھیلائے گئے مفروضے سے جتنی جلدی باہر آکر اپنی سیاسی قوت بنانے کی جانب قدم بڑھائیں گے اتنا ہی بہتر رہے گا۔وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا انسان کو وقت کے ساتھ چلنا اور اس کے مطابق خود کو تبدیل کرنا ہوتا ہے ۔ آزادی سے قبل کے حالات اور آج میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ چھوڑ دیجئے ان اکابر کی پیش گوئی کو اور وقت کی ضرورت کے تحت اپنی سیاسی قوت کو مضبوط کیجئے ۔ آپ نے دیکھ لیا کہ کانگریس سے وابستہ تہجد گزار ایم پی اور کانگریس سے نظریاتی وابستگی رکھنے والے آسامی ایم پی نے پارلیمنٹ نہ پہنچ کر آپ کو کیا پیغام دیا ۔ کسی کی گاڑی ٹریفک میں پھنس گئی اور کسی کو اس کی پارٹی نے بولنے نہیں دیا ۔ بعد میں پریس ریلیز ، بیانات اور مضامین لکھنے سے کیا فائدہ ۔ قوم نے انہیں پارلیمنٹ اس لئے بھیجا تھا کہ یہ لوگ آپ کا موقف رکھیں ۔ اس میں وہ ناکام ہو گئے یا اس امتحان میں سخت تساہلی کا مظاہرہ کیا ۔ آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ پسماندہ طبقہ نوے فیصد بیدار ہو چکا ہے اور وہ برہمنوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود برہمنیت کی علمبردار سیاسی جماعتوں (کانگریس ،بی جے پی ) کیلئے چیلنج بن گیا ہے ۔ اسی کے ساتھ آپ بھی آجائیں اور پہلے سے غیر مشروط ان کی حمایت کریں ۔ مت دیکھئے کہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہونے کا دعویٰ کرنے والے کیا کررہے ہیں ۔ اگر ان کا رخ ٹھیک ہے ، انہوں نے حالات سے سبق لیا ہے تو ان کے ساتھ آئیں ورنہ انہیں چھوڑ دیں اور برہمنیت کے خلاف چھڑنے والی تحریک کا حصہ ہی نہیں بنیں بلکہ اس کی صفوں میں اول مقام پر آنے کی کوشش کریں ۔ ان کی تحریکوں میں شامل ہوں ، ان کے احتجاج کا بازو بنیں تاکہ یہ محسوس ہی نہ ہو کہ وہ اکیلے ہیں ۔ آج بھی مسلمانوں پر ان کے عزم اور حوصلوں کے سبب یہ لوگ زیادہ بھروسہ کرتے ہیں ۔ ہاں مسلم لیڈروں سے یہ بددل اس لئے ہوئے ہیں کہ مسلمانوں کا کانگریس پریم ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ نئی نسل ہندوستان کی نئی تاریخ لکھنے جارہی ہے ۔ اس کا مقابلہ دیش بھکتی کی ڈھونگ کرنے والی جماعت سے ہے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ خود اویسی کی پارٹی میں بھی ایسے افراد شامل ہیں جو اپنے دل میں اویسی کے تئیں مخلص نہیں ہیں ۔ یہاں آپ کے بھائی ہی کبھی آپ کے دشمن نکلیں گے ۔ اس کے علاوہ ایک بات اور ہے جو ہم میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم صرف باتوں کے غازی بن گئے ہیں ۔ چائے خانوں میں پریس کانفرنسوں میں اور ڈائننگ ہالوں میں قوم کے غم میں ماتم کرلینے اور آہیں بھرلینے کو ہی کافی سمجھ لیتے ہیں کہ بس ہم بولیں گے ، اظہار خیال کرلیں گے اور بقیہ کام اللہ تعالیٰ فرشتوں کو بھیج کر کروا دے گا ۔ عملی طور پرکوئی آگے آنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ کوئی آتا بھی ہے تو اس کا موازنہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں سے کرنے لگتے ہیں ۔ ہمیں اس روش سے باہر آنا ہوگا ورنہ کرتے رہئے آہ و زاریاں کچھ نہیں ہونے والا ۔ عملی اقدام ہی واحد راستہ ہے ۔ عملی طور پر آگے بڑھیں ، پرانی روش کو چھوڑیں اکابر اب قبر سے نکل کر نہیں آنے والے ۔ مسائل آپ کے سامنے ہیں وہ آپ کو ہی حل کرناہے ۔ آنکھیں کھول کر دیکھیں کون اپنی پارٹی کا وفادار اور آپ کا غدار ہے اور کون ہے جو تنہا ہونے کے باوجود اڑا رہا ، ڈٹا رہا ۔ اس کے بعد بھی آپ کی آنکھیں نہیں کھلیں تو کسی سے کیا گلہ ، ہم اپنی تباہی کے خود ہی ذمہ دار ہوں گے ۔

0 comments: