تعاقب: محمد مرسی کیلئے پھانسی کی سزا پر تحریروں کا جائزہ

یاسر محمود

وہ افراد جنھوں نے اس تعلق سے کچھ تحریر کیا ہے' انھوں نے آخر ایک لفظ بھی واضح طور سے سعودی عرب کے بارے میں کیوں نہیں لکھا؟ بلکہ امریکہ کے بارے میں لکھا ہے اور براہ راست امریکہ کو اس میں گھسیٹ لیا جبکہ سعودی عرب نے مرسی اور اخوان المسلمون کے مسئلہ میں علانیہ مخالفانہ اور کافرانہ رول ادا کیا ہے, یہاں تک کہ اْس وقت فوج کو سات ارب ریال کی امداد فورا دی جب فوج نے اخوان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور تمام اخوانی عہدیداران کو جیل میں ڈالدیا. جبکہ اس فوجی کریک ڈاؤن کے فورا بعد سعودی عرب نے اخوان المسلمون کو علانیہ عالمی دہشت گرد قرار دےدیا.....یہی وجہ ہیکہ مصری فرعون عبد الفتاح السیسی نے فوجی بغاوت کے بعد جس ملک کا سب سے پہلے شکریہ ادا کرنے کیلئے دورہ کیا وہ سعودی عرب ہے جہاں پہلی بار کسی مصری عہدیدار کا اتنا غیر معمولی استقبال کیا گیا_ اس مسئلہ کا براہ راست اور مکمل تعلق سعودی عرب سے ہے جس پر کوئی بھی واضح لفظ لکھے بغیر ہر ایسی تحریر اپنے اثرات کے لحاظ سے اصل اعداء اسلام اور مجرموں کو نفسیاتی پناہ اور سیدھا تعاون کرنے والی ہے جسکا واحد مقصد مسلم ذہن کو خارج میں دوسری اقوام کی طرف منتقل کرکے اصل تاریخی مجرموں اور انکے تسلّط کو سپورٹ کرنا اور محفوظ بنانا ہے... کاش یہ حضرات ایسی تحریریں نہ لکھتے تو مسلم ذہن اپنے مذہب اور دین کا سودا کرنے والے دشمنوں سے ایسے مواقع پر از خود واقف ہوجاتا. لیکن یہی وہ لوگ ہیں جو ایسے مبین مواقع (Turning Points) پر فورًا مسلم ذہن کو ڈائیورٹ کرنے کیلئے یہود, نصاری, انگریز, امریکہ......کے مصنوعی اسٹیچوز کا سہارا لیکر اس بیداری پر نفسیاتی بند لگادیتے ہیں.
اس موقع پر ایک اردو ناول کا واقعہ یاد آتا ہے؛
"ایک خاندان نے اپنی حفاظت کیلئے چند پہریداروں کو متعین کیا...ایک دن ایسا ہوا کہ رات کو چور آگئے اور گھر میں نقب لگانے لگے, اہل خانہ کے ہر بار سوال کرنے پر پہریداروں نے یہی جواب دیا دوسری سمت (خارج میں) میں گاڑی آئی ہے, سامان اتررہا ہے یا وہاں کام چل رہا ہے وغیرہ. چنانچہ اہل خانہ ہر مرتبہ واضح کھٹکہ اور آوازیں ہونے کے باوجود صرف اپنی حفاظت کیلئے متعین اور مامور پہریداروں اور انکے مطمئن کرنے اور کھٹاکے کی آوازوں کو خارج میں منتقل کرنے کے تبصرہ کی وجہ سے خود بھی کوئی حفاظتی بندوبست نہیں کرسکے...اور بالآخر سامان لُٹ گیا"
...اسکے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں کہ (1) یا تو انہیں رہزنوں سے ہمدردی ہے اور ان سے ملے ہوئے ہیں (2) یا بھر انہیں اہل خانہ سے عداوت ہے...
اسی قسم کی ایک اور تحریر اس موقع پر یاد آرہی ہے جو اس واقعہ کے حقیقی پہلو کو واضح کرتی ہے...
"ایک چور چوری کرکے فرار ہورہا تھا جسکو پکڑنے کیلئے عوام اسکا تعاقب کررہی تھی...رہزن نے حیرت انگیز نفسیاتی تدبیر اختیار کی اور تعاقب کرنے والوں سے رُخ بدلکر راہگیر بن کر یہ کہا 'چور ادھر ہے, اس سمت میں بھاگا ہے'...اسطرح رہزن خود بھی بھیڑ کا حصہ بنکر ایک مصنوعی (Utopian) چور کے پیچھے لگ گئے اور اصلی رہزن پوری طرح محفوظ ہوگئے"
...یہی وہ طریقہ ہے جو ہم نے صدیوں سے اپنایا ہوا ہے کہ ہر ایسے موقع پر امریکہ, یہود و نصاری کی سازش وغیرہ کی چیخ و پکار سے مسلم ذہن کو نفسیاتی طور پر واقعی چیلنجز کی شناخت تک نہیں ہونے دیتے اور اس طرح خارج کیطرف مسلم ذہن کو ڈائیورٹ کردیتے ہیں.
اس لئے محمد مرسی کے تعلق سے آنے والی ایسی تمام قومیت کا شاہکار تحریریں Counter-Productive ہیں_
 
28-05-15

0 comments:

سعودیت__یا__یہودیت

یاسر محمود
جسطرح سے یمن کی "آئینی حکومت" کی بحالی کیلئے سعودی اور اتحادی فورسز یمن پر مغربی طرز کے فضائی حملے کررہی ہیں اور وہاں ایک انسانی بحران پیدا کردیاہے اسی طرح سنّی مذہب کے ٹھیکہ دار سعودی, کویت اور اماراتی افواج نے مصر کی جائز "آئینی منتخبہ حکومت" (اخوان المسلمون) کو بچانے کیلئے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟
1- یمن میں "آئینی حکومت" کو بچانے کے نام پر سعودی مداخلت اور فوجی حملہ___جبکہ مصر میں آئینی حکومت کو گرانے کیلئے سات ارب ریال کی باغیوں کو اعلانیہ مدد
2- یمن پر مسلط شاہی طرز کی حکومت کیخلاف عوامی انقلاب کے بعد فرار حکمرانوں کو سنّی مذہب کے ٹھیکہ دار سعودی عرب کے ذریعہ پناہ دی گئی اور انہیں یمن کی جائز اور آئینی حکومت قرار دیکر انقلابیوں کے خلاف فوجی خونی کارروائی کی گئی____جبکہ مصر میں عوامی طور پر منتخب جائز آئینی اسلامی حکومت (اخوان المسلمون) کو امارات اور غرب اردن کے سفارتخانوں سے سعودی پراکسی وار کے ذریعہ ختم کیا گیا اور یمن کے برعکس سعودی مذہبی حکومت کے ذریعہ"اخوان المسلمون کو عالمی دہشت گرد" قرار دیا گیا....اور بلآخر آئینی سنّی اسلامی حکومت کو کچل دیا گیا
3- سنّی اسلام کے ٹھیکہ دار سعودی عرب کے ذریعہ یمن کی مفادات کی جنگ کو ہزار میل دور اسلام کے مرکز "حرمین شریفین" کی حفاظت سے جوڑکر پیش کیا گیا اور جنگ کیلئے مذہب اسلام کا سہارا لیا گیا____جبکہ سعودی عرب کے ذریعہ خالص اسلامی بنیادوں پر قائم, حقیقی وارثین انبیاء اورسنّی اسلامی جماعت "اخوان المسلمون" کو اسی اسلام کے ذریعہ یعنی مذہب کا استعمال کرکے اسلام ہی سے "عالمی دہشت گرد" قرار دے دیا گیا_
سعودی حواریین سے وضاحت مطلوب ہے.......؟ اور منافقت کی تعریف بھی مطلوب ہے؟ اور ساتھ ہی ساتھ حلال/جائز/طیبات کو مفادات اور ضرورت کے مطابق حرام/ناجائز/خبائث میں بدل ڈالنے کے قرآن میں بیان کردہ یہودی میکنزم کے عصری احیاء کا انطباق بھی مطلوب ہے؟؟؟
4- عوام کے ذریعہ منتخب آئینی حکومت' حقیقی اسلام کی اکیسویں صدی میں واحد نمائندہ تحریک اخوان المسلمون(حزب الحریۃ والعدالۃ) کے ذریعہ دوران حکومت جب اسلامی دستور پاس کیا گیا تو مذہبِ سعودی عرب کی نمائندہ سلفی (اہل حدیث) جماعت "النّور پارٹی" کے ذریعہ حکمراں اسلامی جماعت "اخوان المسلمون" کی اس بنیاد پر شدید مخالفت کی گئی کہ دستور میں اسلامی حدود (چور کے ہاتھ کاٹنا وغیرہ) اور اسعار کے نظام کو تدریجًا نافذ کیا گیا ہے فی الفور نہیں. یعنی سلفیوں کا کہنا تھا کہ بھلے ہی سیکولر اور ظالم حکومتوں کے بعد ایک مکمل اسلامی دستور نافذ کردیا گیا ہے لیکن چونکہ چور کے ہاتھ کاٹنا...وغیرہ سزائیں فورًا نافذ نہیں کی گئی ہیں اسلئے ہمارے لئے شرعًا یہ جائز نہیں کہ ہم اسکی تائید کریں. چنانچہ معتدل اسلامی دستور کے پاس ہوتے ہی سعودی سلفیوں نے اسکی مخالفت کی اور اسی بنیاد پر اخوان المسلمون سے (سعودی عرب کی کے حکم پر) حمایت واپس لے لی اور اسلامی دستور کی اسلام کے نام پر ہی مخالفت کی____جبکہ انہیں سعودی سلفیوں (النور پارٹی) نے اخوان المسلمون کو معزول کرکے جیل میں ڈالدینے کے بعد عبد الفتاح السیسی کی سیکولر حکومت کی ابتدائی ایام میں ہی حمایت کی اور عربی تاریخی رویہ کے عین مطابق عبد الفتاح السیسی کے ذریعہ پاس کئے گئے اخوان المسلمون کے "اسلامی دستور" کے برخلاف "مکمل سیکولر دستور" کی(سعودی منشا کے عین مطابق) سب سے پہلے اعلانیہ حمایت کی...
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی دستور کی مخالفت اسلئے شرعًا ضروری تھی کہ اسکا ایک حصہ حدود کے فی الفور نفاذ کے بجائے مدینہ کی نبوی ریاست کے عین مطابق تدریجی نفاذ پر مشتمل تھا___تو پھر مکمل غیر اسلامی دستور کی حمایت اور تائید اگلے ہی روز(ایک دو ماہ میں) کیسے شرعًا جائز ہوگئی؟؟؟
یہی وہ یہودیت کی تشکیل جدید ہے یعنی وقتِ ضرورت یا سیاسی مفادات کی بنیاد پر جائز/حلال کو ناجائز/ِحرام بنالینا اور ناجائز/حرام کو مفادات کیلئے جائز/حلال سے بدل ڈالنا...یعنی "ربّ بن جانا" ہے...
آخر ہم کب تک قرآن کو ماضی کی اقوام کے قصہ و کہانیاں کے طور پر پڑھتے رہینگے؟ اور حرام کو حلال اور حلال کو حرام بنانے کے یہودی میکانزم کو مچھلی پکڑنے اور سنیچر کے دن یا دن کی تبدیلی تک محدود رکھینگے؟ ہمیں ان طفلانہ تعبیرات سے کھلی آنکھوں کیساتھ حقیقی انسانی دنیا میں آنا ہوگا اور ہمارے اہل علم کو دیکھنا ہوگا کہ حلال/جائز کو حرام/ناجائز سے بدلکر رب بن جانے کی مثالیں پوری یہودی تاریخ میں اتنی نہیں ہیں جتنی صرف 1927 سے لیکر آج تک قیامِ سعودی عرب کے بعد عربی تاریخ میں ہیں...خواہ انکا تعلق:
1- انہدام خلافت
2- ترکوں (خلافت اسلامیہ) کے خلاف اسلامی عربی جہاد
3- عربی نسلی عصبیانہ بغاوت (1870...1907...1915...1923)
4- برٹش-عرب معاہدہ
5- پیرس کانفرنس (1890 اور 1907)
6- نظام حرمین یا نظام حج و عمرۃ
7- حرم پر قبضہ کا واقعہ
8- حرم کو یرغمال قراد دیکر اسکی بازیابی کیلئے برٹش ایلٹ کمانڈوز سے تعاون
9- گلف وار میں برٹش و امریکی افواج کا ارض حجاز میں داخلہ
10- امریکی ماہرین اور افواج کیساتھ Girl Friends اور Gay-Partners کی آمد اور قیام کے مذہبی و قانونی مسائل
11- امریکی و مغربی ماہرین کیساتھ Girl Friends اور Gay-Partners کی یونیورسٹی میں آمد و قیام کیلئے کیمپس کو سعودی معاشرتی قانون سے مستثنی رکھنا (2010...2012)
12- عراق-کویت جنگ کے وقت مغربی افواج کو ارض حرمین میں بلانے پر عوامی خدشات اور مخالفت کے جواب میں حکومت کے ذریعہ پیدا کردہ اُن افواج کے ساتھ آئی خواتین کے پردہ کی مذہبی اخباری بحثیں
13-تعمیر حرم
14............100- ....وغیرہ
سے ہو......یا انکا تعلق خارجہ پالیسی سے ہو.....فنون لطیفہ سے ہو ......یا معاشیات سے لیکر عالمی مسائل اور معاہدات ہوں....وغیرہ.
کیا سعودی عرب کا مذکورہ رویہ اور منافقت اسی قرآن میں بیان کردہ یہودی میکانزم(وقتِ ضرورت حرام کو حلال اور حلال کو حرام سے بدل ڈالنے) کا عصری احیاء نہیں؟ اور اگر نہیں تو پھر یہودی بھی اپنے مفادات اور ضروریات کے مطابق ایسا کرکے غلط نہیں تھے... اگر ہم اسطرح کے رویوں کو قرآنی یہودی میکانزم یعنی یہودیت کی تشکیل جدید نہیں قرار دینگے تو ہمیں یہودیوں کو اس بنیاد پر غلط کہنے کا کوئی حق نہیں....کیونکہ تاویلات اس مسئلہ میں انکے پاس بھی ہیں.
دنیا میں وہی اقوام باقی رہتی ہیں جنکے کچھ اصول ہوتے ہیں اور وہ واقعات و سانحات کا اصولی (قرآنی) جائزہ لیتی ہیں اور پھر جو نتائج بھی برآمد ہوں انکو پوری جراْت و حوصلہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبول اور اعترافِ حقائق (ایمان) کرتی ہیں...منافقت پر مبنی ثنویت (Dualism) ہمیشہ طویل المدت بقا کیلئے مہلک رہی ہے....یہی تاریخ کا فیصلہ ہے_
واضح رہیکہ علاقائی عصبیت کی کفریہ بنیاد پر قائم سعودی عرب ہو یا شیعہ اسلام کا ٹھیکہ دار' نسلی عصبیت کی کفریہ بنیاد پر قائم ایران___یہ نہ اسلام کے ٹھیکہ دار ہیں اور نا اسلام کسی عربی/ایرانی ثقافت کا نام ہے جیسا کہ اِنہوں نے بنادیا ہے...اسلام صرف اور صرف اصولوں کا نام ہے.

0 comments:

پیرس حملہ اور ہمارے قائدین کی گھبراہٹ

 
نہال صغیر
حالیہ پیرس حملہ میں ہلاک ہونے والوں کے غم میں دنیا نے جتنے آنسو بہائے ۔اگر اس کا ایک فیصد بھی وہ ظالمانہ آمرانہ حکومتوں کے ذریعے قتل کئے گئے افراد کے لئے بہاتے اور انہیں انصاف دلاتے ۔ظالموں کو تخت دینے کے بجائے تختہ دیتے تو شاید آج پیرس میں چند بچے یتیم نہ ہوتے اور نہ ہی عورتیں بیوہ ہوتیں ۔لیکن آج حالت یہ ہے کہ رد عمل پر سب ہی اپنے رد عمل کا اظہار کررہے ہیں لیکن کوئی بھی اس رد عمل کا محرک کیا تھا اس پر غور کرنے کو راضی نہیں ہے ۔ریاستی دہشت گردی پر کوئی ایک لفظ نہیں نکالتا ۔لیکن نجی دہشت گردی پر پوری قوم کو تباہ کرنے اور اسے مجرم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنے میں سب پیش پیش ہیں ۔داعش کا وجود پچھلے ڈیڑھ سال سے ہے ۔ڈیڑھ سال میں ان لوگوں نے ہزار لوگوں کو بھی نہیں مارا ہوگا لیکن اردن کے شاہ عبد اللہ کہتے ہیں کہ داعش نے ایک ملین سے زیادہ مسلمانوں کو ہلاک کردیا ہے ۔داعش نے اتنے لوگوں کو کہاں اور کب مارا یہ خبر کب آئی ہمیں تو پتہ ہی نہیں ۔شاہ عبداللہ اردن کے بادشاہ ہیں اور شاہان عرب کو بہار عرب سے بڑا خطرہ ہے ۔ان کی حکومت کبھی بھی عوامی بے چینی کی نظر ہو سکتی ہے ۔اس لئے یہ لوگ بے سر پیر کی اڑاتے ہیں ۔کوئی ان سے اس کی تحقیق تو کرتا نہیں ہے کہ بھائی یہ گنتی آپ کو کہاں سے معلوم ہوئی ۔ ایسی تنظیم کے بارے میں جو زیر زمین ہو اس کے تعلق سے تو کوئی بھی کچھ کہہ دے ۔کہیں کوئی بم دھماکہ کردے اور فون یا ای میل سے یہ قبول کرلے کہ یہ جو کچھ ہوا ہے یہ ہم نے کیا ہے ہم فلاں تنظیم کے فلاں ہیں ۔بس بھائی اتنا ہی کافی ہے ۔ نہ اس کی تفتیش ہوگی نہ ہی تحقیق ۔ اب ان زیر زمین تنظیموں کا کوئی صدر دفتر کوئی ترجمان عوام کے سامنے تو ہے نہیں کہ وہ اس کی تردید کرے ۔اور اگر انہوں نے تردید کربھی دی تو میڈیا اسے کوئی جگہ دینے کو راضی کب ہے ۔ یہاں تو بڑے بڑے جغادریوں نے یہ فیصلہ سنادیا کہ بس یہ کام اس نے کیا ہے تو اسی نے کیا ہے ۔مجال ہے جو کوئی اس پر کوئی آوازاٹھائے ۔
آج سے تقریباًچالیس سال قبل بچپن میں گاؤں کی اندھیری فضا اور اکثر جاڑے کی سرد راتوں میں جب کہیں کوئی آہٹ کوئی آواز نہیں ہوتی تھی ۔ہر طرف سناٹا ہو اکرتا تھا تب شاید سردی سے مجبور ہو کر کوئی گیدڑ کہیں ایک آواز نکالتا تو ان سناٹی راتوں میں گیدڑوں کی آواز سے آواز ملانے کی مقابلہ آرائی کی وجہ سے ایک عجب شور سا اٹھتا تھا جس سے ہم بچے خوفزدہ ہو کر بستروں میں اور زیادہ گھس جاتے ۔ کچھ ایسا ہی نظارہ ابھی پیرس حملہ کے بعد دیکھنے کو ملا ۔جہاں گیدڑوں نے تو شور مچایا ہی لیکن ان کی آواز سے آواز ملاتے ہوئے دوسری مخلوق نے بھی ان سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کی۔ فرانس کے شہر پیرس میں چند فدائین نے گولیوں کی برسات کرکے سو سے کچھ زیادہ لوگوں کو کیا قتل کردیا کہ پوری دنیا میں بھونچال آگیا ۔مذمت ،برات اور نصیحت کا ایک سیلاب سا آگیا ۔غیروں نے تو جو کچھ کیا سو کیا ۔لیکن مسلمانوں کے قائدین کی جانب سے بھی یہ سلسلہ طویل سے طویل تر ہونا کیا معنی رکھتا ہے ؟کیا ہم نے ایسا کبھی کیا ہے جو ہم اپنی صفائی پیش کریں ؟ہندی کے ایک نوجوان صحافی وسیم اکرم تیاگی کا بھی یہی سوال ہے کہ کیا ہم نے کبھی بابری مسجد کی شہادت پر پوری ہندو قوم کو مورود الزام ٹھہرایا اور کیا اس کے جواب میں ان میں سے کسی نے ہندو قوم کی جانب سے اپنی صفائی پیش کی ؟کیا گجرات فسادات پر ہم نے پوری قوم کو ملزم بنایا ،یاہندو قوم کی جانب سے کسی نے ہمارے سامنے آکر صفائی پیش کی ؟پھر کیوں ہم کہیں بھی کچھ ہوتا ہے تو اسلام دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا ،قرآن ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے، جیسے الفاظ کا گردان کیوں کرنے لگتے ہیں؟بھائی یہ گردان بند کریں دنیا سب جانتی ہے کہ نہ مسلمان ایسے ہیں اور نہ اسلام انہیں یہ سکھاتا ہے ۔یہ باتیں مسلم قائدین کو کہنے کی ہمت تو نہیں ہوتی لیکن اللہ غیر مسلموں سے کہلوا دیتا ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ۔وہ اپنے دین کی حقانیت اور سر بلندی کے لئے گیروا دھاریوں سے بھی کہلوا دیتا ہے کہ اسلام کیا ہے اور کیا نہیں ہے ۔ہمارے قائد خود کو تو مجرم تصور کرتے ہی ہیں اور پوری قوم کو بھی اسی مجرمانہ ذہنیت میں مبتلا کردیتے ہیں ۔گجرات فسادات کی ایک رپورٹ میں ایک اردو صحافی نے یہ نکتہ بیان کیا تھا کہ گودھرا ٹرین سانحہ کی بلا سوچے سمجھے مذمت کے لا متناہی سلسلے نے مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ انہوں نے ہی یہ جرم کیا ہے تو اس کی سزا ملے گی ہی اور نتیجہ ہوا کہ انہوں نے فسادیوں کے آگے سر تسلیم خم کردیا ۔ آخر مولانا محمود مدنی سے کس نے کہا تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف تحریک چلائیں ؟یا ان کو اس تحریک سے کیا فوائد نظر آرہے ہیں ؟سوائے اس کے کہ پوری قوم کو پست ذہنی کا شکار بنائیں! اس سے زیادہ بھی کچھ حاصل ہو سکتا ہے کیا؟جب ہم نہ دہشت گردی کرتے ہیں ۔نہ اسلام ہم کو یہ سکھاتا ہے تو پھر کیوں ہم صفائی پیش کریں ؟ایک طرف ہماری قیادت کے دعویداروں کا یہ حال ہے کہ میڈیا اور ریاستی پروپگنڈہ سے خوفزدہ ہو کر ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔اور دوسری جانب ہماری جوان نسل اب پورے حالات اور واقعات پر پوری سنجیدگی سے نظر رکھتی ہے ۔وہ کسی کے الزام کو بلا تحقیق قبول کرنے کی ذہنیت سے یکسر آزاد ہے ۔حالانکہ حالات بہت خراب ہیں ،اس کا اسے پتہ ہے ۔ اکثر اس کا اس نے بھگتان بھی کیا ہے ۔اس کے باوجود وہ پست ہمت نہیں ہوا ہے ۔وہ کسی کے الزام کے جواب میں مدافعانہ رویہ اپنانے کو راضی نہیں ہے ۔وہ قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے معاشرے کو آئینہ دکھاتا ہے ۔ اکثر الزامات عائد کرنے والے لوگ اس کے آئینہ دکھانے کے سبب بھاگتے نظر آتے ہیں ۔لیکن ہمارے ان جیسے قائد جنہیں مشکل حالات کا سامنا نہیں ہے وہ ایئر کنڈیشن گھروں گاڑیوں میں بیٹھ کر زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پتہ نہیں کس دنیا میں جی رہے ہیں کہ صفائی دینے کے لئے مذمت احتجاج اور برات کا اظہار کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔پیرس سانحہ کے بعد جب دنیا کے سارے لیڈر ایک رخ میں ہی باتیں کررہے تھے تب کچھ نوجوانوں نے سماجی رابطے کی سائٹ پر اپنے جذبات کا اظہار کیا ذیل میں اس کا مطالعہ کریں اور خود فیصلہ کریں کہ ہماری نوجوان نسل ان مشکل حالات میں بھی کس پا مردی سے کھڑی ہے ۔
’’فرانس والو مجھے معاف کرنا ،سنا ہے تم پر قیامت ڈھا دی گئی سنا ہے تمہارے کچھ بچے یتیم ہو گئے ہیں ۔اور چند سہاگ بھی اجڑ گئے ہیں ۔سنا ہے تمہاراقیمتی گرم گرم لہو (جس کی حفاظت کی قیمت مسلمانوں کے کئی بچوں عورتوں اور بوڑھوں نے اپنے خون سے ادا کی تھی)سڑکوں پر بہادیا گیا ہے۔سنا ہے تمہاری چیخوں نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔سنا ہے تم پر بہت ظلم ہوا ہے ۔لیکن ،فرانس والو!مجھے معاف کرنا ۔مجھے تمہارا لہو دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔کیوں کہ میری آنکھوں میں فلسطین و شام کے بچوں کا بے گناہ لہو ،آنسو بن کر چھلک رہا ہے اور ان آنسوؤں کے اس پار سے مجھے تمہارا لہو لہو نہیں منرل واٹر لگ رہا ہے ۔فرانس والو مجھے معاف کردینا ۔مجھے تمہارے اجڑے سہاگ کا بین ،بین نہیں لوری لگ رہا ہے ۔کیوں کہ میں اپنی لاکھوں مسلمان بہنوں کا اپنے ان سہاگ پر بین سن سن کر تھک چکا ہوں ۔جو تمہاری طاقت کے نشے کی بھینٹ چڑھ گئے فرانس والو بہت معذرت !مجھے تمہارے یتیم بچے دکھائی نہیں دے رہے ،کیوں کہ یہاں میری آنکھوں کے سامنے یتیم بچے بلک رہے ہیں ،جن کے سروں کا سایہ بے گناہی کے جرم نے چھین لیا ہے۔معاف کرنا !میں سخت دل نہیں ہوں ۔خون بہنے پر خوش بھی نہیں ہوں۔لیکن آج تمہاری اس آہ و بکا نے مجھے بے گناہ مسلمانوں کی وہ چیخیں یاد دلادی ہیں جس سے دنیا کے کانوں پر کبھی جوں بھی نہیں رینگی ۔سو، اے فرانس والومجھے معاف کرنا ،میں تمہارے غم میں شریک نہیں ہو سکتا ۔کیوں کہ جب تک میرا خون بہہ رہا ہے مجھے تمہارا خون نظر نہیں آسکتا‘‘۔دیکھئے کس خوبصورتی کے ساتھ دنیا میں ہورہے ہائے ہو پر ان کے سامنے آئینہ رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ وہ پیرس میں بہنے والے خون پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کررہا ہے ۔اس کے خیالات یہ بتا رہے ہیں کہ وہ اس خون خرابے سے از حد رنجیدہ ہے ۔ لیکن وہ ایک حقیقت کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کررہا ہے کہ جب کوئی شخص خودغمگین ہو تو اسے دوسروں کا غم دکھائی نہیں دیتا ۔وہ دنیا کی توجہ اس جانب دلانا چاہتا ہے کہ بہت ہو گیا یہ خون خرابا اب امن و انصاف کی بات کرو ۔لیکن ہمارے نام نہاد قائدین میں اتنی ایمانی جرات بھی نہیں کہ وہ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہہ سکیں کہ امن چاہتے ہو تو انصاف قائم کرو۔ورنہ یہ دنیا اسی طرح امن کو ترستی رہے گی ۔جبکہ کاٹجو اور دیگر غیر مسلم مذہبی اسکالر اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔
سماجی رابطے کی سائٹ پرایک اور نوجوان اپنے جذبات کا کچھ اس طرح اظہار کرتا ہے ’’میں پیرس حملے کی مذمت کرنا چاہتا ہوں،لیکن کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ۔مذمت کرنے نکلا تو پہلا پڑاؤ ہی افغانستان میں ہوا۔سوچا یہیں افسوس کرلوں لیکن چودہ سال دھکے کھانے کے باوجود نیٹو نے وقت نہیں دیا کہ ’مصروفیت ‘بہت تھی۔میں بھی لاشیں دفناتا رہا ۔یہاں سے گرتا پڑتا عراق کی طرف منھ کیا تو زخم اتنے تھے کہ گنتے گنتے شام آگیا ۔ شام کیا آیا غم کی شام ہو گئی ۔اتنے ’’ایلان‘‘دیکھے کہ بیرل بموں کی گنتی ہی بھول گیا ۔بھولنے سے یاد آیا کہ میں تو افسوس کرنے نکلا تھا لیکن فرانس کے سارے راستے بند دیکھ کر سوچا راستہ ہی بدل لیا جائے ۔ صومالیہ کا رخ کیا تو سوڈان کا زخم دکھنے لگا۔اسے نظر انداز کرکے لیبیا کی طرف نظر ماری تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔جی کڑا کرکے مالی پہنچا تو الجزائر کی تاریخ نے پاؤں پکڑ لئے ۔اب میں کیا کروں میں تو مذمت کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔مذمت کے فیشن میں مبتلا لوگ کہیں گے کہ یہ نوجوان غلط راہوں پر جارہا ہے ۔یہ مذمت کرنا ہی نہیں چاہ رہا ہے بلکہ یہ پیرس قتل کا جواز پیش کررہا ہے ۔لیکن غور سے پڑھیں وہ بالکل قتل کا جواز پیش نہیں کررہا ہے بلکہ وہ دنیا کے مکار لوگوں کو ان کے جرائم گنا رہا ہے اور ساتھ ہمارے نام نہاد قائد کی غیرت کو جگانے کی کوشش کررہا ہے جس کے جاگنے کی امیدکم ہی ہے ۔
ایک شخص نے مغرب اور صہیونیوں کی ریشہ دوانیوں پر انہیں متنبہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’جب آپ جمہوریت نافذ کرنے کابل ،بغداد اور دمشق پر چڑھائی کرسکتے ہیں تو وہ شریعت نافذ کرنے پیرس اور لندن کا رخ بھی کر سکتے ہیں ۔جب آپ کو اپنی مرضی کے میدان جنگ منتخب کرنے کا حق ہے تو انہیں بھی حق ہے کہ اوسلو ،پیرس یا لندن کو بیس کیمپ بنالیں۔اور ہم کتنے اچھے ہیں ،جنہوں نے ہمارے شہر لاکھوں افراد کو قتل کرکے تباہ کردئیے(کابل،قندھار،بغداد،بصرہ ،بن غاذی) ان کے شہروں میں چند سو لوگوں کے قتل پر سوگوار ہیں ،ان کے غم میں شریک ہیں ۔ہم کتنے اچھے ہیں ،کیوں کہ ہم جانتے ہیں’ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے‘‘۔اس کا یہ کہنا کہ ہم کتنے اچھے ہیں یہ ایک طنز ہے اور اپنے غصے کا اظہار بھی۔کیا قائدین کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ اصل مجرمین کی مذمت کریں ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہیں کہ اگر تم باز نہیں آئے تو ہم بھی مجبور ہیں ،کیوں کہسرپھرے تو بہر حال ہماری قوم میں بھی ہیں۔ایک اور غیر مسلم صحافی اجے بھٹا چاریہ ہندوستان میں گائے کے گوشت کی افواہ پرکئی مسلم نوجوان اور خاص طور سے دادری میں اخلاق کے قتل پر اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’یہ بہت ہی برا رویہ ہے اگر خدا نخواستہ مسلم نوجوانوں میں ان واقعات پر ردعمل کا اظہار ہونے لگا تو کیا ہوگا ۔ہر طرف ہاہاکار مچ جائے گا ۔ہر طرف خون کی ندیاں بہہ نکلیں گی ۔اس لئے اس پر قابو پانا حکومت کی ترجیحات میں ہونی چاہئے‘‘۔
داعش کے بارے میں نہ میں مذمت کرسکتا ہوں اور نہ ہی ان کی تعریف کیوں کہ میں ان کے تعلق سے کچھ بھی نہیں جانتا اور مغربی صہیونی میڈیا کی خبروں پر میں بھروسہ نہیں کرسکتا ۔وہ جو کچھ کہہ دیں وہ معتبر اور دلیل ہر گز نہیں ہے کہ ہم اسی بنیا د پر کسی کو ہیرو اور کسی کو دہشت گرد مان لیں ۔میں کوئی عالم اور کوئی مشہور شخصیت میں سے تو ہوں نہیں کہ سب کے ساتھ مل کر میں بھی مذمت مذمت کا کھیل کھیلنے لگوں ۔ ہمارے عالموں کو تو بند کمروں میں بیٹھ کر بغیر حالات کا مشاہدہ کئے فتویٰ دینے کی لت پڑ چکی ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب سے داعش کا شور سنا جارہا ہے اب تک تو سبھی مکتبہ فکر کے عالموں کا ایک گروپ عراق و شام جاکر خود سے حالات کا مشاہدہ کرکے آچکا ہوتا اور وہ امت مسلمہ کی صحیح رہنمائی کرتا ۔لیکن یہ لوگ مغربی ،صہیونی، ایرانی اور برہمنی میڈیا کے پروپگنڈہ سے جانے انجانے گمراہ تو ہو ہی رہے ہیں مسلم عوام کو بھی گمراہ کررہے ہیں ۔ساتھ ہی نا عاقبت اندیشانہ حرکتوں سے برادران وطن میں بھی یہ تاثر دے رہے ہیں کہ واقعی مسلم نوجوان دہشت گردی کی راہوں پر چل پڑے ہیں ۔ آخر ایک سال قبل کی اس خبر کی جانب کوئی توجہ کیوں نہیں دے رہا ہے جب عراق سے پچاس کے قریب نرسیں ہندوستان آئی تھیں اور انہوں نے ان کے بارے میں آنکھوں دیکھی کیفیت بتائی تھی جن کو آج دنیا کا سب سے خطرناک دہشت گرد گروپ بتایا جارہا ہے ۔اور جن کی شبیہ ہر بیتے دن کے ساتھ اور دھندلی اور دہشتناک بنائی جارہی ہے ۔
نہال صغیر
بلاد آدم ۔ ضلع ویشالی ۔ بہار
موبائل :9987309013
ای میل:sagheernehal@gmail.com

0 comments:

پیرس ہے لہو لہوشام ہے دھواں دھواں....!

                                                                                                                     عمر فراہی 
UmarFarahi <umarfarrahi@gmail.com>

پیرس میں ہوئی تخریبی کاروائی کے بعد فرانسیسی حکومت نے شام میں اسلامک اسٹیٹ کے علاقوں پر بے تکی بمباری کرنا شروع کر دیا ہے اور اس حملے میں اب تک ہزاروں معصوموں کی جان بھی جاچکی ہے -حالانکہ فرانس کی طرف سے یہ حملہ پیرس میں ہوئی تخریبی کاروائی کے ردعمل میں کیا جارہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے  فرانس نے مغربی ممالک کے ساتھ مل کر شام کے علاقوں کو کھنڈر بنانے کا یہ سلسلہ پیرس پر ہونے والی تخریبی کاروائی سے پہلے ہی شروع کررکھا ہے-اور ایک ایسے وقت میں جبکہ داعش کا وجود بھی نہیں تھا ان مغربی ممالک نے لیبیا کو اس وقت بمباری کرکے تباہ کر دیا جب کرنل قذافی نے اپنے سخت گیر نظریات سے توبہ کر کے مغرب سے مصالحت کرلی تھی- جیسا کہ اپنی حکومت کے شروع کے دور میں وہ مغرب کی دوغلی پالیسی کے خلاف اپنی زبان کا تیشہ برساتے رہے ہیں اور ان پر یہ بھی الزام تھا کہ انہوں نےامریکہ کے ایک جہاز کو دھماکوں سے اڑانے میں دہشت گردوں کی مدد کی تھی -بعد میں کرنل قذافی نے اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے جہاز میں مرنے والوں کے وارثین کو ہرجانہ ادا کرکے ان کے عتاب اور معاشی پابندیوں سے چھٹکارا حاصل کرلیااورلیبیا پرحملے سے کچھ عرصہ قبل ہی وہ فرانس کے دورے پر گئے جہاں نہ صرف ان کا پرجوش شاہانہ استقبال ہوابلکہ قذافی کو فرانس کے صدر نیکولس سرکوزی کے خصوصی مہمان کا شرف حاصل ہوا- اس طرح لیبیا اور فرانس کی حکومت کے بیچ کئی تجارتی معاہدے بھی ہوئے - مگرصرف ایک یا ڈیڑھ سال کےاندرعرب بہارکی شورش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پورایورپ لیبیا پرٹوٹ پڑااورفرانس جس کے ساتھ قذافی کے دوستانہ تعلقات قائم ہو چکے تھے اس حملے میں پیش پیش رہا ہے - سوال یہ ہے کہ کیا قذافی نے مغرب کے کسی ملک پر کوئی حملہ کیا تھا -جی نہیں مگر جو بات ہمارے  مفاد پرست اوربے غیرت مسلم دانشور بھی سمجھنا نہیں چاہتے اور بغیر کسی تحقیق کے کوئی طالبان اور القاعدہ پر لعنت بھیجتا ہے تو کوئی آل سعود کی نمک خواری کے عوض اخوان کو بھی یہودیوں آورایرانیوں کا ایجنٹ قرار دیتا ہے - داعش کے شدت پسندانہ نظریات کے تعلق سے تو مسلمانوں کے یہ تمام گروہ چاہے ایرانی ہوں سلفی ہوں دیوبندی ہوں بریلوی یا جماعت اسلامی ہند  کے لوگ مدافعانہ رخ اختیار کرتے ہوئے اس بات پر متفق ہیں کہ یہ لوگ  دہشت گرد اور یہودو نصاریٰ کے ایجنٹ ہیں! اوربیشک ہم یہ پہلی باردیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے بیشتردانشوراوران کی تنظیمیں دہشت گردی کے خلاف مغرب کے ساتھ ایک صف میں کھڑی نظرآرہی ہیں -جبکہ اسلام اور مسلمانوں کی نڈر اور بے باک قیادت کے تعلق سے مغرب کا اپنا نظریہ  شروع سے ہی جارحانہ رہا  ہے اور وہ کبھی یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ مسلمان یا مسلمانوں کا کوئی حکمراں انہیں آنکھ دکھائے -قذافی چونکہ آخری وقت میں مغرب کیلئے خطرناک تو نہیں رہے لیکن شیر بہرحال شیرہوتا ہےاورمسلمانوں کے دشمن کیا یہ پسند کریں گے کہ شیر کی نسل بھی باقی رہے ؟ عراق میں صدام حسین کے ساتھ ایسا ہی ہوا یعنی عمومی تباہی کے ہتھیار وں کا پروپگنڈہ کر کے صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا -ماضی میں شاہ فیصل , بھٹو اور ضیاء الحق کو ان کے جراتمندانہ فیصلے اور قومی وفاداری کی سزا دی گئی - جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مغرب عرب ممالک کو ٹکڑوں میں بانٹنے کیلئے داعش کا استعمال کر رہا ہے وہ یہ بھول رہے ہیں کہ عرب متحد ہی کب ہیں اور مصر کے صدر اخوانی رہنما ڈاکٹر محمد مرسی کو معزول کرنے میں خود ایران اور سعودی عرب نے جو کردار ادا کیا ان کے اس عمل سے کس کو فائدہ پہنچا کیا اسرائیل اور بھی محفوظ نہیں ہو گیا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کے پاس اب اور کھونے کیلئے کیا ہے؟ اس کے باوجود فلسطینیوں کی جانباز قیادت کو اسرائیل مسلسل شہید کرتا رہا ہے جن میں حماس کے بانی شیخ احمد  یاسین اپنی آنکھوں اور پیروں سے بھی معزور تھے اور ان کے اوپر ایسے  وقت میں ہوائی حملہ کرکے درندگی کا مظاہرہ کیا گیا جب وہ فجر کی نمازادا کرکے اپنی وہیل چیر سے گھرواپس لوٹ رہے تھے -کیا ہمیں نام نہاد مسلم دانشوروں اور دعوت و تبلیغ میں مصروف نام نہاد مسلم تنظیموں اورشعلہ بیان مقرروں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ انبیاء کرام کے پاس کون سی سلطنت اور پٹرول کی دولت تھی اور کھونے کیلئے بھی کیا تھا- اس کے باوجود انہیں شہید کرنے کی کوشس کیوں کی گئی ؟
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ  ہمیں اسلام دشمن طاقتوں کی سازش اور ابلیسی نظریے کو سمجھنے کی ضرورت ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جو کچھ پیرس میں ہوا وہ غلط تھا -خون چاہے دنیا کے کسی بھی علاقے اور خطے میں کسی بھی قوم کا بہے یہ سب آدم کی اولاد ہیں اوراسلام بالکل اس کی اجازت نہیں دیتا اور بے شک اس کی مذمت ہونی چاہیے مگر ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچئے کہ کیا فرانس اپنے اتحادیوں اورعرب ممالک کے ساتھ مل کرپچھلے ایک سال سے اسلامک اسٹیٹ کے علاقوں پر بمباری نہیں کر رہا ہے ؟ اور یہ تمام ممالک ہر روز پینتیس سے چالیس طیاروں سے ہزاروں ٹن بارود گرارہے ہیں اوراب تواس بمباری میں روس بھی شامل ہو چکا ہے آخر ان کی اس بمباری سے شہید ہونے والے کیا انسان نہیں ہیں - مگر جب کسی بستی پر چالیس چالیس طیارے آگ برسا رہے ہوں تواس قیامت خیزمنظراورخونریز تباہی کا درد وہی محسوس کر سکتے ہیں جن پر یہ جنگ مسلط کی گئی ہے -اب عراق اورشام کے مسلمان جواپنے ڈکٹیٹروں کے ظلم کو پچھلی پانچ دہائیوں سے برداشت کررہے ہیں اپنا دفاع کیسے کریں ؟ کیا فلسطینی مسلمانوں کی طرح شہید ہوتے رہیں اوردنیا تماشہ دیکھے..! یا دہشت گردی کے الزام سے بچنے کیلئے ہتھیار نہ اٹھا کربرما کے مسلمانوں کی طرح دریا برد ہو جائیں ۔۔!اوردنیا چیخ و پکار کا ڈرامہ کرکے خاموش ہو جائے۔۔! یا پھراخوانیوں کی طرح جمہوریت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہن کر سلاخوں کی زینت بنے رہیں۔۔۔! اب اگر اس کے علاوہ بھی کوئی معقول پرامن حل ہے تو اس کا حل بھی ضرورآنا چاہیے  اور اگر معصوموں کے قتل عام پر ہم واقعی غمگین ہیں اور روکر ثواب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہرروز اور ہروقت ماتم کریں کیوں کہ شام میں تو ہر لمحہ قیامت ہے....!
                                                                                     

0 comments:

مسجد اقصى: خيالات كا ايك سفر

محمد نوشاد نوري قاسمي
استاذ دار العلوم وقف ديوبند
 

وہ کالی رات تھی
 روشنی کانام ونشان تک نہ تھا
 نومبر کی سردرات تھی.
بسترسے لپٹ کرنیند لانےکی کوشش جاری تھی .
ایک انجانا ساڈرلگ رھاتھا.
ایساشایدھی پھلے کبھی ھواتھا.
خوف اپنی ذات سےزیادہ ان لوگوں کاتھا،  جوانتھائی بےسرو سامانی کے عالم میں ایک ایسی ظالم طاقت سے نبردآزما ھیں ، جو هرطرح کےجنگی اسباب سے لیس ھے.
اوردنیا کو مٹھی میں کرچکی ھے.
دنیاہرواقعہ کوانھیں کی نگاہ سےدیکھتی اورانھیں کے کان سےسنتی ھے.
وہ جب چاھے دنیا كوکھڑاکر دےاورجب چاھے بیٹھا دے -
آہ ! ان پرکیابیت رھی ھوگی؟
, آہ ! وہ یتیم بچے.
آہ ! وہ بیوہ عورتیں .
آہ ! وہ پابندسلاسل مردمیدان. کیاکھاتے ھونگے؟
کیاپھنتےھونگے؟
اپنےٹوٹےگھروں کو دیکھ کران کےدل میں حسرت ویاس کی کون سی کیفیت پیداھوتی ھوگی؟
سردی کی ٹھنڈی رات میں اپنے سر چھپانےکا کون ساسامان وہ کرتےھونگے؟
ابھی کیا وقت ھورھاھے؟
وھاں کیا وقت ھورھا ھوگا؟
کھیں کوئی نیا بم اورنیا میزائل ان کاتعاقب تونھیں کررھاھے؟
موت ایک نئی بارات لیکر ان کی دھلیزپردستک دینےکی تیاری تونھیں کررھی ھے؟
میں انھی خیالات میں گم سم تھا. محسوس ھورھاتھاکہ جیسےمیں فلسطین کی سرزمین سے قریب ھورھا ھوں، دیکھتے ھی دیکھتے( قبۃ الصخرہ) کی سنھری عمارت نظرآئی.
وهي مسجد اقصى كا سنهرا گنبد جو آج بهي اهل دل كے دلوں كانور اور آنكهوں كا سرور هے.
میرادل دھڑکنے لگا،
اس نےمجھےپھچان لیا.
بدحواسی میں ,میں وادئی مقدس کا ادب ھی بھول گیا.
نہ وضوکرسکا اورنہ جوتے اتارسکا.
میں نےھوش وحواس ٹھکانے کیے. اورآداب بجالانےکی تیاری کرنےلگا. کہ (قبۃ الصخرة) سےآوازآئی : آہ تم کس ادب کی بات سوچ رھےھو؟  کتنےغافل ھو؟
کیاتمھیں نھیں معلوم کہ اس سرزمین کےاقدار بدل گئےھیں؟
پانی کاوضو، یھاں جائز ھی نھیں ھے؛
یھاں تو خون جگرکا وضو ھوتا هے.
یہ زمینیں جوتمھیں رنگین نظرآرھی ھیں،  آخرکیوں رنگین ھیں؟
یھاں توخون کی محفلیں جماکرتی ھیں.
خوف و ھراس کےسایےمیں نماز عشق اداکی جاتی ھے.
یھاں جانوں کےنذرانے دیيے  جاتےھیں.
یہ اب وادئی مقدس کھاں؟
اجڑےھوئے کچھ مسلمانوں کا قیدخانہ یایھودیوں کی تفریح گاہ ھے.
اس کے محراب اب نمازسےنھیں؛ بلکہ یھودیوں کےرقص وسرورسےآبادھیں, ...........
میں حیرت کی تصویربن چکاتھا, (قبة الصخرة )کی زبان کا ایک ایک لفظ،  مجھےنشترسا محسوس ھورھاتھا.
وہ اپنےھرلفظ میں ایک نئی داستان بتارھاتھا.
سالوں سےاس کی زبان بندتھی.
مگرآج کھل گئی تھی.
لگ رھا تھا آج وہ سب کچھ کہہ دیناچاھتاھے.
یہ قبہ دوراموی کی یادگارھے . ابوالملوک خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اسے تعمیرکیاتھا.
خلفاء بنی امیہ اپنی غیرت وحمیت میں مشھوررھےھیں.
وہ فصاحت وبلاغت میں بهى ، اپنی خاص پھچان رکھتےتھے.
اگرتاریخ کی کتابوں سے اس قبہ کی نسبت بنوامیہ کی طرف ثابت نہ ھوتی،  توبھی اس قبہ کی فصاحت سے, ميرے نزديك یہ نسبت ثابت ھوجاتی-
میری سمجھ میں نھیں آرھاتھا کہ کیاکهوں؟
اتنے میں میری نظرقبہ کےنچلےحصہ پرپڑی.
وھاں کچھ سیاھی کےنشانات تھے. میں نے حیرت سےپوچھا: یہ آپ کےدامن میں سیاھی کانشان کیسا ھے؟
جھلاکر جواب دیا: کیا پوچھتےھو؟ آخرکتنے نشانات دکھاؤں ، اورکس کس کی وجہ بتاؤں؟
یھاں اب رکھا کیاھےکہ دیکھنے آئےھو؟
میں ایک زندہ لاش ھوں،
میری بنیاد کھوکھلی ھوچکی ھے. میرےجسم کا ایک زخم مندمل نھیں ھونے پاتاکہ دوسرا زخم لگادیا جاتا هے.
میری مثال اس جانورکی سی ھے،  قصائی جسے ذبح کرکے، لکڑی پرلٹکا دیتاھے،  اور نیچےسےکاٹنا شروع کردیتاھے، بالآخر پورےکو هی کاٹ کربیچ ڈالتا ھے-
اب تووہ کھیل بھی یھاں شروع ھوگیا جو پھلےکبھی نھیں ھواتھا.
میرےاندر آگ لگائی گئی.
اورمسجد اقصی کےکئی دروازوں کو جلانےکی کوشش کی گئی
اوراب یھاں اسی طرح آگ وخون کا کھیل چل رھاھے؛
لیکن یہ سب بھی میں گوارہ کرلیتا، اگر دوسرےاسلامی مقامات میں امن وسلامتی کابول بالا ھوتا.
یھاں تومیری چاروں طرف آگ لگ رھی ھے:
عراق جل رھاھے.
شام سلگ رھاھے.
یمن میں طوفان بپاھے.
لیبیا میں لوٹ وغارت گری کی حکومت ھے.
مصرمیں فرعون وقت کشت وخون کادردناک نظارہ پیش کررھاھے.
ایران اپنی مجرمانہ پالیسیوں سےعالم عربی کےنقشے بگاڑنےمیں لگاھواھے.
حزب اللہ ھوں کہ حوثی، داعش ھوں کہ نصیری، سب ایک ھی مقصد کے لیےکام کررھےھیں، کہ وسیع اسرائیل کاخواب جلد ازجلد پورا کردیاجائے.
اب بتاؤکہ اتنےزخم میں کیسےبرداشت کروں,؟
اوریہ قصئہ دردسناؤں توکسےاورکیسےسناؤں؟
اورھاں, یہ پوچھنا تورہ ھی گیاکہ آخرتمھیں میری فکرکیسےھوئی؟
تم ھوکون؟
کیاپیرس کاڈرامہ ختم ھوگیا؟
کیادنیا میں کوئی بم نھیں پھٹا؟
اگرھاں توپھریھاں سےجتنی جلدی ھوسکے, چلےجاؤ.
سواداعظم کےساتھ رھو.
اسی میں خیرھے.
یھی شریعت ھے.
تم توجاؤ، سواداعظم کےساتھ پیرس بم دھماکے کا،رونا روؤ،
ان کاچراغاں کرو،
انھیں خراج عقیدت پیش کرو،
اس کےقاتل کو تلاش کرو.
اس کےخلاف احتجاج کرو.
دھشت گردی کےخلاف عالمی تحریک چلاؤ.
سنو! ایک بھی دھشت گرد دنیامیں رھنےنہ پائے-
اور ہان یہ بھی یاد رکھنا کہ مین نے تمہیں اپنے راز کا محرم بنایا ہے،
اسے راز ہی رکھنا،
کسی سے بیان کرنے کی اجازت ہرگز نہین ہے،
کہیں کسی کی نیند خراب نہ ہوجاے.
کہیں کوئی پریشان نہ ہوجائے.
کسی کا مفاد متأثر نہ ہوجائے.
ایسی پیاری اور مست نیند ہر قوم کو نصیب کہاں؟
یہ تو صرف خیر الامت کا حصہ ہے.
اسے سونے دو.
  سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے .
(محمد نوشاد نوري قاسمي
استاذ دار العلوم وقف ديوبند)
E-mail: naushadnoori1985@gmail.com
mob: 09557908412

0 comments:

تلبیس حق و باطل

 
ممتاز میر 
اب یہ بات زبان زد خاص و عام ہو چکی ہے کہ جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا۔عوام تک سچ پہونچانے کو کوئی تیار نہیں۔نہ حکومت نہ اس کے کارندے اور نہ میڈیا۔میڈیا کا تو کام ہی یہ ہوتا ہے کہ جو سچ حکومت اور اس کے کارندے چھپائیں میڈیا اسے عوام تک پہونچائے۔مگر ہمارے عہد تک آتے آتے میڈیا بھی پیڈاورایمبیڈیڈ ہو گیا ہے اور وہ ہمیں وہ دکھاتا ہے جو ہوتا نہیں ۔وطن عزیز میں اس کی سب سے بڑی مثال انڈین مجاہدین ہیں۔یہ تنظیم کہیں نظر نہیں آتی۔نہ گھر ہے نہ دفتر۔نہ لٹریچر ہے نہ کارکن۔مگر برسوں سے اس کے نام پر بہت کچھ ہو رہا ہے۔اور یہ صرف ہندوستان کی حالت نہیں ہے۔مغرب میں بھی ایسا ہی سب کچھ ہے ۔جتنی بے خبر عوام ہمارے یہاں ہے اتنی ہی بے خبر عوام مغرب کے سرخیل امریکہ کی بھی ہے۔نصف صدی گزر چکی ہے مگر آج تک کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ان کے سب سے ہر دلعزیزاور مشہور صدر جان ایف کنیڈی کی قتل کی سازش کس نے کی تھی ۔ہندوستان کے کم و بیش سارے بڑے صحافیوں کو یہ بات معلوم ہے مگر نہیں معلوم تو امریکیوں کو ۔۱۱؍۹ حملوں کا ذمے دار کون تھا؟مسلمانوں کے ملوث ہونے کی دھجیاں تو خود امریکی محققین اڑا چکے ہیں۔پھر ابتدا میں جہاز اڑا نے والے جن سعودیوں کے نام لئے گئے تھے وہ بعد میں زندہ ثابت ہوئے۔یہ بھی طے ہے کہ یہودیوں کو پہلے سے ہی ان حملوں کا علم تھا۔مگر آج تک کسی نے یہ نکتہ نہیں اٹھایا کہ ان کو قبل از وقت کیسے علم تھا؟ اس پر کبھی کہیں کوئی جلسہ جلوس ریلی احتجاج نہیں ہوا،’’کینڈل نہیں جلیں ‘‘کہ امریکی حکومت نے تفتیشی ایجنسیوں کے کام کو نا ممکن بنا دیا تھا۔ٹوئن ٹاورس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا فولاد فوراً ریپروسیس کرکے ملک سے باہر کیوں بھیج دیا گیا؟یہی حال وطن عزیز کا بھی ہے ۔ پارلیمنٹ حملہ اور بمبئی کا ۲۶؍۱۱گورنمنٹ اسپانسرڈ ہونے کی بات خود اندر کا آدمی قبول کر چکا ہے۔مہاراشٹر کے سابق آئی جی جناب ایس ایم مشرف اورگوڈسے کی اولاد کے مصنف جناب سبھاش گتاڈے بھی اپنی کتابوں میں حکومتی کہانیوں کی دھجیاں اڑا چکے ہیں۔ اکشر دھام حملے کے ملزمین کو بھی عدالت رہا کر چکی ہے ۔ان حالات میں فرانس میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پرمیڈیا اور حکومت کی کہانیوں پر یقین کرنا مشکل ہے۔ہم یہ تو نہیں کہتے کہ داعش یا القاعدہ ایسا کر نہیں سکتیں مگر ان کا نام لے کر مسلمانوں کو کارنر کرنا فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا۔دنیا میں اس سے پہلے ایسے واقعات بہت ہوئے ہیں جن کا ذکر ہم آئندہ سطور میں کریں گے۔ہم سمجھتے ہیں کہ صرف مسلمان ہی اللہ سے یہ دعا مانگتے ہونگے کہ بار الٰہا!ہمیں چیزوں کو ویسی ہی دکھا جیسی کہ وہ فی الواقع ہیں۔اس کے باوجود کوئی دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔خامی تو ہم میں ہو ہی سکتی ہے۔تلبیس حق و باطل کی یہ بیماری کوئی نئی نہیں ہے۔پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے ۔ہر طاقتور نے کمزور کو دبانے کے لئے یہی کچھ کیا ہے۔ذیل میں ہم چند اور واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔اس میں وہی قومیں ملوث ہیں جو آج اپنے آپ کو مہذب کہتی ہیں ۔جو کہتی ہیں کہ ہم تہذیب یافتہ قوم ہیں اور مسلمان ہماری تہذیب سے خوف زدہ ہیں۔
(۱)سوویت یونین کے مشہور لیڈر نکیتا خرشیف نے تحریراً اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ سوویت فوج نے ۱۹۳۹ میں روسی دیہات پر خود بمباری کی تھی تاکہ الزام فن لینڈ پر لگا کر اس پر فوج کشی کی جا سکے۔(۲)۱۹۳۱ میں جاپانی دستوں نے اپنے ہی ملک میں ٹرین ٹریک پر دھماکہ کر کے الزام چین پر لگایا اور اس پر حملہ کر دیا۔ بعد ازاں انکشاف ہوا کہ یہ کام جاپانی فوج کا تھا۔(۳)اسی طرح ہٹلر کے دور حکومت میں یہی تیکنک نازی بھی اپناتے تھے ۔وہ یہ کام کبھی پولینڈ پر قبضے کے لئے کرتے تھے کبھی کمیونسٹوں کو بدنام (جیسے آج مسلمانوں کو کیا جا رہا ہے) کرنے کے لئے ۔ایسے ہی بیسیوں واقعات انٹرنیٹ پر تلاش کئے جا سکتے ہیں۔(۴)برطانوی حکومت اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ ۴۸؍۱۹۴۶ کے درمیان اس نے یہودیوں سے بھرے ۵ جہاز بمباری کر کے ڈبو دئے تھے ۔یہ یہودی یورپ سے موت کے خوف سے فرار ہو کر فلسطین جا رہے تھے۔اس بمباری کی ذمے داری برطانیہ ہی کے قائم کردہ ایک جعلی جہادی گروپ ڈیفینڈر آف عرب فلسطین نے فوراً قبول کرلی تھی ۔اس واقعہ کا تذکرہ حال ہی میں شائع کردہ ممتاز برطانوی مورخ کیتھ جیفرے کی کتاب میں موجود ہے۔پیرس واقعہ سے اس کی مشابہت پر توجہ کیجئے۔ 
پیو ریسرچ سنٹرکے ۲۰۱۰ کے اعداد و شمار کے مطابق یورپی ممالک جرمنی میں ۴۱ لاکھ اور فرانس میں ۳۶ لاکھ مسلمانوں کی آبادی ہے۔کچھ حضرات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلم آبادیاں اس سے کہیں زیادہ ہیں جتنی بتائی جاتی ہے۔پھر چند سالوں میں یورپ میں ایک طرف یہودیوں سے نفرت یا ناراضگی میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف فلسطینیوں سے ہمدردی میں۔بات اسرائیل کے مخصوص علاقوں میں بنی اشیاء کے بائیکاٹ تک پہونچ چکی ہے۔اسرائیلی حکومت فوج اور ایجنسیا ں ان یورپی اقدامات پر انتہائی برافروختہ ہیں اور ہر سطح پر اس کا اظہار کر رہی ہیں۔فرانس میں یہودیوں کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ پیرس میں ہونے والے پے در پے حملے یہودی حکمت عملی کا حصہ ہوں۔اس طرح وہ مسلمانوں کے خلاف ماحول بنا کریہودی ہمدردی میں اضافہ نہ سہی فلسطینی ہمدردی میں کمی کرنا چاہتا ہو ۔اب داعش کو لے لیجئے۔آج تک بحیثیت مجموعی مسلمانوں نے داعش کو اپنا نہیں سمجھا۔سب یہ سمجھتے میں کہ یہ امریکہ کی کھڑی کی ہوئی کٹھ پتلی ہے جیسے کہ وہ ڈیفینڈر آف عرب فلسطین تھے۔اور کثیرالمقاصد کام انجام دے رہی ہے۔ان کی ابتدا اور طالبان کی ابتدا میں کوئی فرق نہیں ہے ۔طالبان کو جب کھڑا کیا گیا تھا تو وہ بھی افغانستان میں بڑی آسانی سے فتوحات حاصل کرتے چلے گئے تھے۔مگر بعد کے حالات سے پتہ چلا کہ وہ خود استعمال نہیں ہوئے تھے انھوں نے اپنے مقاصد کے لئے امریکہ کو استعمال کیا۔طالبان نے جو سبق دیا تھا لگتا ہے وہ داعش کی منصوبہ بندی کرتے وقت ذہن میں رکھا گیا۔اسلئے اب داعش کو ہر اس مسلم گروہ کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جو مسلمانوں کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔ورنہ طالبان اور ترکی پر حملے مسلمانوں اور اسلام کی خدمت تو نہیں ہو سکتی ۔سعودی عرب جیسے کمزور اور ’’شریف ‘‘ ملک کو دھمکیوں کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟اسی تناظر میں داعش کاپیرس حملے سے تعلق کو دیکھا جا نا چاہئے۔مگر ایک اور پہلو ہے کہ جس پر سوچ سوچ کر بہت حیرت ہوتی ہے وہ ہے ہر اس طرح کے حملے کے وقت متعلقہ ملک کی سراغ رساں ایجنسیوں کا فیل ہوجانا۔اور یہ ہر جگہ ہوتا ہے ،انڈیا ہو یا امریکہ ۔فرانس ہو یا برطانیہ ۔اور اس پر گنے چنے لوگوں کے سوا کوئی سوالات کھڑے نہیں کرتا ۔ حکومت کارویہ تو ایسا ہوتا جیسے ایجنسیوں کے فرائض کا تقاضہ ہی یہ ہو ۔اور میڈیا اور عوام ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے رہتے ہیں،بلکہ اکثر میڈیا ایجنسیوں کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔امریکہ تو پہاڑوں پر رینگنے والی چیونٹی کو بھی دیکھنے کا دعویدار ہے ۔کم و بیش یہی حال یورپی ایجنسیوں کا بھی ہے ۔امریکہ مختلف ممالک کے تعلق سے الرٹ بھی جاری کرتا رہتا ہے ۔وہ سیاحوں کو یہ بتانا بھی اپنا فرض سمجھتا ہے کہ کہاں کا سفر کیا جائے اور کہاں کا نہیں۔خود فرانس کی خفیہ سروسز کے تعلق سے ہم حسن ظن رکھتے تھے۔دوران تعلیم ایک ناول پڑھ لیا تھا دی ڈے آف جیکل جو جنرل چارلس ڈیگال کے قتل کی سازش پر مبنی تھا اور اس میں فرنچ خفیہ سروسز کی کارکردگی کو بہت ہائی لائٹ کیا گیا تھا۔مگر اس قسم کے معاملات میں حفاظتی دستوں کے فلاپ ہو جانے کے باوجود ان کی جواب دہی طے نہیں کی جاتی۔ اپنے خلاف ان تمام سازشوں کے جواب میں مسلمان تو صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ۔۔ومکروا مکراللہ واللہ خیرا لماکرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137

0 comments:

ترکی جدید اسلامی انقلاب کی راہ پر


عمر فراہی
umarfarrahi@gmail.com
1923 میں ترکی کے فوجی حکمراں مصطفٰی کمال پاشا جسے اتاترک اور جدید سیکولر ترکی کا بانی بھی کہا جاتا ہے جب اس نے عالم اسلام کی آخری ریاست ترکی سے بھی  خلافت اسلامیہ کا خاتمہ کرتے ہوئے جدید سیکولر جمہوریہ کا اعلان کیا تو شاعر مشرق علامہ اقبال کی زبان سے بے ساختہ ایک آہ نکلتی ہے کہ  
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا 
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
ترکی میں اتاترک کو یہ کامیابی اور مقبولیت کیسے ملی اس کی بھی اپنی ایک طویل تاریخ ہے - مختصراً ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی کے جدید مادی  انقلاب نے صرف ترکی کو ہی متاثر نہیں کیا اس انقلاب کی زد میں تمام عالم اسلام اور ہند و پاک کے مسلمان بھی آئے - فرق اتنا ہے کہ عالم عرب ترکی مصر ایران انڈونیشیا افغانستان پاکستان اور بنگلہ دیش  وغیرہ کی آبادی خالص مسلمانوں پر مشتمل تھی اس لیے یہاں کے حکمرانوں کو بدلنے کیلئے کم سے کم ایک آئین تھا۔ پر ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی آبادی نے ایک علی گڈھ یونیورسٹی , سرسید اور چیخ و پکار پر ہی اکتفا کر لیا -مگر ان ممالک کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھانا بھی بے سود ہے کہ جب کسی ملک کا آئین بدلتا ہے تو اس ملک کی طرز سیاست بھی بدل جاتی ہے اور سیاست، اس ملک کی طرز معیشت و معاشرت اور تہذیب وتمدن اخلاق و اقدار تعلیمی نظام  کے زاویے کو بھی بدل کر رکھ دیتی ہے -بیسوی صدی میں پہلی جنگ عظیم کے بعد جیسے ہی خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرا دنیا کے بیشتر مسلم ممالک چند چنندہ رسم ورواج کی شرائط کے ساتھ سیکولر جمہوریہ میں تبدیل ہو گئے- مگر ترکی جو کبھی اسلامی خلافت کا مضبوط قلعہ سمجھا جاتا تھا اسے مصطفٰی کمال پاشا نے اپنے پندرہ سالہ دور اقتدار میں ایک ایسی ریاست میں تبدیل کردیا جہاں سرکاری اداروں میں اللہ اور اس کے رسول کا ذکر کرنا بھی سیکولرآئین سے کفر کے درجے میں شمار کیا جانے لگا - اس نے اسکولوں کے تعلیمی نصاب سے عربی رسم الخط کو مٹا کر لاطینی رسم الخط کو رائج کروایا - مدارس پر پابندی لگائی گئ مسجدوں میں تالے لگا کر اذان تک ممنون قراردیا گیا اورترکی کو جدید ڈھانچے میں ڈھال کر یوروپ سے ہم آہنگ ہونے کیلئے فحاشی عریانیت اور رقص وسرود کے ادارے اور شراب خانے قائم کیے گئے - یہاں تک کہ ایک وقت میں برطانیہ اور جرمنی کے بعد ترکی کو  شراب تیار کرنے والے تیسرے سب سے بڑے ملک میں شمار  کیا جانے لگا - ترکی کی سیکولر حکومتوں کے ان اقدامات سے مذہبی طبقے میں بے چینی تو پائی جاتی تھی مگر اتاترک کے مضبوط انٹلیجنس نیٹ ورک سےعوام بے بس نظر آئے مگر 1949 میں جب ترکی نے عالم اسلام کے ازلی دشمن اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اورانہوں نے 1950 کے الیکشن میں ترکی کے اعتدال پسند رہنما  عدنان میندریس کی ڈیموکریٹک پارٹی کو منتخب کرلیا -انہوں نے آتے ہی نہ صرف مساجد اورمدارس کے دروازے کھلوا دیئے بلکہ عوام کی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے 1959 میں اسلام کو ایک بارپھرترکی کا سرکاری مذہب قرار دے دیا-ڈیموکریٹک پارٹی کی ان اصلاحات کا بروقت فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام پسند رہنما پروفیسر نجم الدین اربکان نے 26 جنوری 1970 کوملی رفاع پارٹی کی بنیاد رکھی - مگر اس پارٹی کے اسلام پسند نظریات اور صوم و صلوٰۃ کی پابندی کی وجہ سے عدالت نے اسے غیر قانونی قرار دے دیا 
اس پابندی کے باوجود اربکان کے حوصلے پست نہیں ہوئے انہوں نے 17 اکتوبر 1971 میں ایک بار پھر ملی سلامت پارٹی کے نام سے نئ سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی اور 1973 کے الیکشن میں 74 ارکان کے ساتھا بلند ایجوت کی مخلوط حکومت میں نائب وزیر اعظم منتخب ہو گئے- اپنے اس دور میں نجم الدین اربکان   نے مساجد اورمدارس میں اسلامی تعلیمات کے تعلق سے قانون سازی تو کی ہی  خصوصاً ملیٹری اداروں میں اسلامی تعلیم کو لازمی قرار دینا ان کا سب سے اہم کارنامہ تھا- ترکی کی فوج جسے اتاترک نے آئین کے محافظ ہونے کا اختیارسونپ رکھا تھا اسلام پسندوں کی ان اصلاحات سے خوش نہیں تھی اسی لیے اس نے اقتدار پر قبضہ کرکے ملی سلامت پارٹی سمیت تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کردی جو 16جولائی 1983 تک قائم رہی- تین سال بعد جب دوبارہ سیاسی سرگرمیاں بحال ہوئیں توعوام جواربکان کی دیوانی ہو چکی تھی اس نے ایک بار پھر اربکان کی پارٹی کو اسی جذبے کے ساتھ کامیاب کیا اور 1996 تک وہ 153 ارکان اسمبلی کے ساتھ ترکی کے وزیر اعظم بن گئے - مگرایک بارپھر فوج نے نجم الدین اربکان کو ایک اسلامی نظم پڑھنے کے جرم میں اقتدار سے معزول کر دیا - فوج کے اس مسلسل جبر کی حکمت عملی سے اسلام پسندوں کی حمایت میں اضافہ ہی ہو رہا تھا - اسی دوران اربکان کے ایک دست راست اور موجودہ صدر طیب اردگان استنبول کے میئر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے - طیب اردگان اپنی محنت ایمانداری اورصلاحیت کی وجہ سے عوام کے اندر کافی مقبول ومعروف ہو چکے تھے اورعوام نے بھی اربکان کے بعد اردگان کی شکل میں اپنے مستقبل کی قیادت کا فیصلہ کرلیا تھا جنھیں خود بھی 1997 میں ایک باغیانہ اسلامی نظم پڑھنے کے جرم میں جیل جانا پڑا جس کے بول کچھ یوں تھے -
مسجدیں ہماری پناہ گاہیں ہیں 
ان کے مینار ہمارے نیزے ہے 
ان کے گنبد ہمارے ڈھال ہیں 
اور اہل ایمان ہمارے سپاہی ہیں 
اس سزا کے خلاف عوام اپنے ہردلعزیز رہنما کی حمایت میں سڑکوں پر اتر آئی -حکومت کو مجبوراً انہیں رہا کرنا پڑا -اتاترک چونکہ مغربیت سے مرعوب اور مذہب سے بدظن تھا اوروہ مغرب کی جدید ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ  مغرب کی  فحش تہذیب میں جدید ترکی کے عروج کا خواب دیکھ رہا تھا اور اسے ایک فوجی سپہ سالارکی حیثیت سے کچھ کامیابی بھی ملی تھی جیسا کہ خلافت عثمانیہ کے کمزورپڑجانے کے سبب پہلی جنگ عظیم میں ترکی کے جن علاقوں پر یونان نے قبضہ کر لیا تھا اتاترک نے اپنے دور میں فوج کشی کر کے اسے دوبارہ حاصل کرلیا مگراسے یہ نہیں پتہ تھا کہ سرحدوں اور زمینوں کو تو طاقت سے حاصل کیا جا سکتا ہے دلوں کو فتح کرنے کیلئے محبت کی ضرورت ہوتی ہے اور تہذیبوں کا احیاء جبر سے نہیں اخلاق سے ہوتا ہے اوراخلاق یہ ہے کہ انسان دوسروں کے مذہبی جذبات اور عقائد کو برداشت کرے - ویسے اقبال نے مغربی تہذیب کے زوال کی جو پیشنگوئی کی تھی کہ 
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا 
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کریگی 
ترکی میں اتاترک کی مغربی تہذیب کے احیاء کا منصوبہ ناکام ہو چکا ہے اور اربکان نے جس اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی طیب اردگان کی شکل میں ترک عوام نے 2002 کے الیکشن میں اسمبلی کی 550 سیٹوں میں سے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو 363 ارکان کے ساتھ اسمبلی میں پہچا دیا اور ترکی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ملک کے وزیراعظم اورصدر دونوں ایک اسلام پسند جماعت سے منتخب ہو کر آئے اور اکثر جو فوج صدرکی مدد سے منتخب جمہوری حکومتوں کو معزول کر دیا کرتی تھی اسے اپنے بیرکوں میں واپس جانا پڑا -2003 میں ایک بار پھر فوج نے طیب اردگان کی حکومت کے خلاف سازش کرنی چاہی مگر ناکام ہوئی -اور اس سازش میں مصروف سو سے زائد فوجیوں کو عدالت نے سزا سنا کر جیل میں ڈال دیا-اس طرح اپنی حکومت کے دوران اردگان نے جو سخت فیصلے لیے ان کے اس جرات مندانہ اقدام سے یہودیوں منافقوں اورسرمایہ داروں کی نیند حرام ہوچکی ہے -خصوصاً غزہ کے محصورین کی مدد کیلئے جانے والی کشتی  فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیل کی بمباری کے بعد اردگان حکومت نے جس طرح اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی اورسفارتی تعلقات کو منقطع کر نے کا اعلان کیا ان کے اس قدم نے نہ صرف انہیں خود اپنے ملک میں اور بھی مقبول بنا دیا بلکہ عالم اسلام میں بھی انہیں ایک ممتاز مسلم قیادت کا شرف حاصل ہو گیاہے -ترکی کے اس جدید اسلامی انقلاب میں طیب اردگان اور عبداللہ گل اور ان کے جانباز ساتھیوں کی قربانی کا احسان نہ صرف فلسطین کے مسلمانوں پر قرض ہے بلکہ ان کی اہلیہ اور وزیر اعظم نے برما کے مسلمانوں کی دادرسی کر کے اپنی اسلامی غیرت اور حمیت کا ثبوت دیا ہے اور اب جس طرح نومبر 2015 کے الیکشن میں ان کی پارٹی اکثریت سے کامیاب ہوئی ہے یہ ان کا حق تھا اورعالم اسلام خاص طور سے مشرق وسطٰیٰ میں جو نازک صورتحال ہے اور صہیونی طاقتیں جس طرح عرب کے آمروں کے ساتھ مل کر مصر اور شام میں گھناؤنا کھیل، کھیل رہی ہیں طیب اردگان کی یہ کامیابی عالم اسلام کیلئے فعال نیک ثابت ہوگی ،ان شاءاللہ -دیکھنا یہ ہے کہ عالم اسلام کے دیگر حکمراں بھی کہاں تک ترکی کے اس مرد مجاہد کی تقلید کرتے ہوئے صہیونیت کی غلامی کی زنجیروں کو اتار پھینکنے کی جرات کرتے ہیں 

0 comments:

مسئلہ یکساں سول کوڈ، طلاق ثلاثہ اور تعدد ازدواج


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472

آزاد ہندوستان کی تاریخ پر جن لوگوں کی نظر ہے، وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ ہماری جمہوری اور سیکولر حکومت اپنے قیام کے وقت سے ہی ملک میں بسنے والی تمام قوموں پر یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے کوشاں رہی ہے۔ لہٰذا مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مختلف عائلی قوانین خصوصاً مسلم پرسنل لا یکساں سول کوڈ کے نفاذ میں مانع رہا ہے، جس کی وجہ سے اب تک حکومت اپنے مقصد میں ناکام رہی ہے۔ البتہ ہندو پرسنل لا میں ترمیم و تنسیخ کرنے اور اسے ایک خاص درجہ دینے کے بعد یہ اعلان کیا کہ ’’ہندو قوانین میں جو اصلاحات کی گئی ہیں وہ عنقریب ہندوستان کی تمام آبادی پر نافذ کی جائیں گی۔ اگر ہم ایسا قانون بنانے میں کامیاب ہوگئے جو ہماری پچاس فیصد آبادی کے لیے ہوتو باقی آبادی پر اسے نافذ کرنا مشکل نہ ہوگا اور اس قانون سے پورے ملک میں یکسانیت پیدا ہوگی۔‘‘ واضح رہے کہ یہ اعلان 1956 میں جب ہندو پرسنل لا کو نیا روپ دیا جارہا تھا تو اس وقت کے وزیر قانون مسٹر پاسکر نے کیا تھا۔ علاوہ ازیں 1962 میں اور پھر 1972 میں متبنیٰ بل کے حوالے سے مسئلے کو اٹھانے کی کوشش کی گئی، اسی سال 1972 میں ہی لا کمیشن کے چیئرمین مسٹر گجندر گڈکر نے تو ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کی پُر زور وکالت کرتے ہوئے اس کو ہندوستان کی سالمیت، وحدت اور یک جہتی کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا ’’اگر مسلمانوں نے خوش دلی کے ساتھ یکساں سول کوڈ کو قبول نہیں کیا تو قوت کے ساتھ یہ قانون نافذ کیا جائے گا۔‘‘ مذکورہ بالا حوالوں سے ہمارے خیال میں ملک کی سب سے بڑی سیکولر پارٹی کانگریس کے نظریات و موقف کو بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
1956 سے آج 2015 تک تو بہ وجوہ حکومت کا یہ فیصلہ پورے ملک میں نافذ نہ ہوسکا لیکن رہ رہ کر کسی خوفناک ازدہے کی طرح سانسیں ضرور لیتا رہتا ہے جس سے ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے پرسنل لا پر اکثر و بیشتر خوف و ہراس کے بادل ضرور منڈلانے لگتے ہیں۔ اور اب تو مسلمانوں کے عائلی قوانین کی ترمیم و تنسیخ کی دو ڑ میں صرف کانگریس اور اس کی حکومتیں ہی نہیں بلکہ وہ عناصر بھی شامل ہوگئے ہیں جو مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کہاں تک جاسکتے ہیں ان کی حالیہ سرگرمیوں سے بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔ سب سے بڑی اور اہم بات تو یہ ہے کہ ان کے معاون ملک کا میڈیا و دیگر ذرائع ابلاغ ہیں جسے زبان عام میں سچ کا دشمن اور جھوٹ کا امام کہا جاتا ہے، جو اپنے آقاؤں اور پالنہاروں کے لیے من گھڑت کہانیاں گھڑنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔
اس تعلق سے اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے پرسنل لا پر چہار طرفہ یلغار ہے تو شاید غلط نہ ہو کیونکہ اسلام دشمنوں کے خیال میں مسلم پرسنل لا ایک ایسا قانون ہے جس میں خواتین کے ساتھ حق تلفی اور نا انصافی کے علاوہ بڑی زیادتیاں ہیں جس کی وجہ سے وہ گھٹ گھٹ کر جی رہی ہیں، یعنی ان پر ایسی پابندیاں ہیں جو مرد کی اجازت کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاسکتیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے نزدیک اسلامی قانون طلاق خصوصاً طلاق ثلاثہ اور تعدد ازدواج مسلم خواتین کے لیے زیادتی اور جبری قوانین ہیں جسے میڈیا کے ذریعے مستقل نہ صرف موضوع بحث بنا رکھا ہے بلکہ ان قوانین کی تضحیک کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ چاہے کتنی ہی سچی اور چشم کشا حقیقت ہو اس کی مخالفت بہرحال کرنی ہے۔
طلاق ثلاثہ
مسلم پرسنل لا پر پہلا اعتراض بجاطور پر طلاق ثلاثہ ہے۔ گزشتہ چند برسوں کی بات ہے۔ اہل حدیث طبقہ نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا تو اس پر خاصی لے دے ہوئی اور کہا گیا کہ ان کی تعداد ہی ملک میں کتنی ہے؟ گویا کسی صحیح بات کے لیے تعداد کی ضرورت لازمی ہے۔ یہ بھی جواز پیش کیا گیا کہ ’’طلاق ثلاثہ بدعت تو ضرور ہے مگر طلاق واقع ہوجاتی ہے۔‘‘ گویا ہم اسے گناہ بھی سمجھتے ہیں اور زندگی کے اس دُور رس معاملے میں جہاں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے، ہمیں یہ بدعت قابل قبول بھی ہے۔ اسی طرح کے تذبذب رویوں کی وجہ سے مخالفین کو مخالفت کا موقع ملا ہوا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے علماء خصوصاً پرسنل لا کے ذمہ داران اس معاملے میں کوئی مشترکہ لائحہ عمل کیو ں نہیں تیار کرتے؟ کیا اس سے ان کی روٹی روزی پر کوئی اثر پڑتا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو ایک عرصہ سے یہ مسئلہ اپنوں اور غیروں میں موضوع بحث کیوں بنا ہوا ہے؟
طلاق ثلاثہ کے تعلق سے جو لوگ اللہ کے رسولؐ اور حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں واقع ہونے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہیں وہ یقیناًکسی مصلحت کے تحت وقتی تھے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک نشست میں تین طلاق کا وہ واقعہ جسے سن کر آپ ﷺ غصے میں کھڑے ہوگئے اور ارشاد فرمایا کہ کیا میری زندگی میں ہی کتاب اللہ کا مذاق اڑایا جائے گا؟ یہاں تک کہ ایک صحابی نے کھڑے ہوکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ کیوں نہ میں اسے قتل کردوں؟
اور پھر قرآن نے جس وضاحت کے ساتھ طریقہ طلاق بیان کیا ہے اس نے ایک نشست میں تین طلاق دے دینے کے عمل کو محض جذباتی و اضطرابی اقدام قرار دیا ہے اور اس کے بجائے طلاق کو ایک سوچا سمجھا منصوبہ بند عمل قرار دیا ہے۔ یعنی دو بار کی طلاق رجعی کے ساتھ یہ حکم بھی دیا کہ اگر کسی (میاں بیوی) کے تعلقات بگڑنے کا اندیشہ ہو تو ایک ثالث مرد کے رشتہ دار اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو۔ وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا۔ (النساء) اتنے واضح اور صریح حکم کے بعد ایک وقت میں تین طلاق کا عمل بے معنی ہی کہا جائے گا۔ علاوہ ازیں اگر یہ کہا جائے کہ طلاق ثلاثہ سے راجعت کے حق کی بربادی بھی ہے اور اللہ کے بندوں پر پشیمانی کا دروازہ بھی بند ہوجاتا ہے اور اس سے وابستہ پشیمان زندگیوں، جڑے ہوئے کنبوں اور باپ کی زندگی میں ہی یتیم ہوئے بچوں کی حالت زار سے کسے ہمدردی نہیں ہوگی۔ لیکن افسوس کہ چند نفس پرست عاقبت نا اندیش لوگوں کی تجاوز کاریوں کے لیے شریعت اسلامیہ کو تو بدنام نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یہ طلاق ثلاثہ ہی ہے جس سے غیر مسلموں میں بڑی غلط فہمیاں ہیں۔ ان کے نزدیک ہر مسلمان جیسے طلاق کی بندوق لیے پھرتا ہے اور جب چاہتا ہے اپنی شریک حیات کے سینے پر داغ دیتا ہے۔ اس طرح کی غلط فہمیوں کے ازالے کی ذمہ داری ہمارے علما کی ہے۔ خاص طور سے پرسنل لا کے ذمہ داران سے گزارش ہے کہ وہ اس طرف پوری توجہ دیں۔
طلاق کے سلسلے میں قرآن نے بڑی شرطیں لگائی ہیں اور یہی نہیں بلکہ اس کے بعد بھی جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے کہ صلح و رجوع کا دروازہ کھلا رکھاگیا ہے اس لیے کہ شرعاً مطلوب ملاپ ہے، اور یہ چیز ایک نشست میں تین طلاق دے دینے میں نہیں پائی جاتی۔ جسٹس کرشنا آئر نے تو قرآنی طریقہ طلاق کو انتہائی سائنٹفک اور مہذب طریقہ قرار دیا ہے۔ عورت کی کسی بھی صورت میں حق تلفی نہ ہو اس لیے بار بار خدا کے خوف سے ڈرایا گیا ہے۔ قرآن نے عورتوں کے لیے جتنے حقوق دیے ہیں شاید ہی کسی اور مذہب میں دیے گئے ہوں۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ طلاق کے ساتھ عورتوں کو خلع کا حق بھی تفویض کیا گیا ہے۔
تعدد ازدواج
یکساں سول کوڈ کے حامیوں کے لیے مسلم عائلی قوانین میں قابل توجہ مسئلہ تعدد ازدواج کا ہے جو بطور خاص اس کے نفاذ میں رکاوٹ ہے اور جو اس وقت پورے زور و شور سے موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ جبکہ مسلم معاشرے میں اس کا رواج نہ ہونے کا ہے۔ تاہم چند ناعاقبت اندیش افراد (مسلم، غیر مسلم) مذہب کی آڑ لے کر جس طرح اس کا استعمال کر رہے ہیں اس سے شریعت اسلامی کی روح مجروح ہوتی ہے۔ اکثر نوجوان کثیر زوجگی کو سنت محمدی سے تعبیر کرتے ہیں لیکن عدل کی کڑی شرط کو بھول جاتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ایسے لوگوں کے بارے میں واضح اشارہ ہے کہ ’’اور دیکھو عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کرنے میں نیکی اور انصاف ملحوظ رکھو، اور اگر ایسا ہو کہ تمہیں کسی وجہ سے وہ ناپسند ہوں تو (بے ضبط اور بے قابو نہ ہوجاؤ) عجب نہیں کہ ایک بات تم ناپسند کرتے ہو اور اس میں اللہ نے تمہارے لیے بہتری رکھ دی ہو۔‘‘ (النساء: ۱۹)
قرآن کی نظر میں تو دخترکشی کو بھی سختی سے ممانعت ہے بلکہ لڑکیوں کی اچھی تعلیم و تربیت پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ ترکہ میں لڑکی کا حصہ مقرر کرکے شریعت اسلامیہ نے معاشرے میں اس کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرایا ہے اور یوں اس کا مقام و مرتبہ بلند و بالا کردیا ہے۔ اسے معاشی تحفظ صرف ترکہ ہی نہیں بذریعہ نفقہ اور بذریعہ مہر بھی فراہم کیا۔ نفقہ کے لیے حکم ہے کہ ’’مالدار اپنی استطاعت اور مفلوک الحال اپنی استطاعت کے مطابق نفقہ دے۔‘‘ (سورہ البقرہ)
بہر صورت یہ ایسے مسائل ہیں جن پر سنجیدگی سے مسلمانوں کے اہل علم حضرات کھل کر بحث کریں، اپنا محاسبہ یقیناًکوئی آسان کام نہیں۔ تاہم شترمرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے کا وقت بھی نہیں ہے۔ اجتہاد کا کام بے شک علماء و مجتہدین کا ہے لیکن انہیں کب زمینی حقیقتوں کا احساس ہوگا۔ کب وہ مسلکی تعصبات سے اوپر اٹھیں گے۔ یہ ایک بنیادی سوال ہے۔
جو لوگ اس وقت ہمارے پرسنل لا پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں وہ ہماری کوتاہیوں، غلطیوں کے سبب ہی ہیں۔ ان میں کچھ جان بوجھ کر اور کچھ انجانے میں ہمارے عائلی قوانین کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ انہیں ہمیں اپنے اعلیٰ کردار، استدلال و بلند اخلاق سے زیر کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر ہمیں دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں رسوا ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
***

0 comments:

اب چوہے بھاگیں گے

                                ممتاز میر  
  انتخابات کے طویل عمل سے گذر کر ۸ نو مبرکو بہار کے نتائج آگئے۔حسب توقع مودی اینڈ کمپنی کی یہ دوسری کراری ہار ثابت ہوئی ہے۔سب سے بڑی اور سب سے زبردست شکست مودی اینڈکمپنی کی دلی میں ہوئی تھی جو کئی معنوں بالکل الگ تھی۔بہار میں سارے کے سارے کھلاڑی پرانے،آزمودہ کار اور ماہر تھے۔مگر دلی میں ایک نوآموز نے انھیں خاک چٹا دی تھی۔انھیں اسی وقت اپنے منہ پر پڑنے والے طمانچے کا احساس ہو جانا چاہئے تھا مگر سنگھ کی تربیت میں انسان کو بے شرم بنانے کا عنصرسب سے قوی ہے۔اس لئے سنگھی ہر طرف سے پڑنے والے طمانچوں کے باوجود بے مزہ نہیں ہوتے اور وہی حرکتیں دہراتے رہتے ہیں جن کی بنا پر عوام،اور خواص بھی ان کو طمانچے مارتے ہیں۔امید تو یہی ہے کہ آنے والے انتخابات میں بھی وہ بس اوپر اوپر سے لیپا پوتی کرکے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔  حالیہ انتخابات میں بھی سنگھ اور اس کے پرچارکوں نے خود اپنی حماقتوں سے لالو اور نتیش کو کئی ایسے نکات تھالی میں سجا کر پیش کئے جس کو دونوں نے بخوبی کیش کیا۔مثلاً انتخابی مہم کے بالکل ابتداء میں مودی جی نے بہاریوں کے ڈی این اے کی بات کرکے بہاری عوام کو بھڑکا دیا۔پھر بہار میں جنگل راج کی بات کی گئی جبکہ ہر وہ شخص جس کے سر میں آنکھیں ہیں،بلکہ آنکھیں نہ ہونے والا شخص بھی دیکھ رہا ہے کہ جنگل
راج کی کیفیت تو راجدھانی کے آس پاس ہے۔اور اس جنگل راج کو برقرار رکھنے میں خود سنگھیوں کا ہاتھ ہے۔راجدھانی دہلی میں ایک دن میں ۴/۴ گینگ ریپ ہوتے ہیں اور مرکز پھر بھی پولس کو دہلی حکومت کو سونپنے کے بجائے اپنے ماتحت رکھنا چاہتا ہے۔موہن بھاگوت کا رزرویشن پر بیان بھی لالو اور نتیش کی مدد کے لئے ہی تھا۔لوگ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ این ڈی اے کا سب سے بڑا دوست شاید پاکستان ہی ہے۔جب جب بھی این ڈی اے مصیبت میں ہوتا ہے پاکستان کچھ نہ کچھ ایسا کرتا ہے جس سے این ڈی اے مصیبت سے باہر نکل آتا ہے۔
گروداس پور اٹیک کے بعد اب کوئی نہ بی جے پی کی کرپٹ مہارانیوں کا ذکر کرتا ہے نہ ویاپم گھوٹالے کا اس ہار سے سب سے زیادہ خوشی بہاری بابو شترو گھن سنہا کو ہوئی ہے اور ہونی بھی چاہئے۔امیت مودی جوڑی نے انھیں نوویئر کرنے کی کوشش کی تھی۔یہ بڑی عجیب انسانی نفسیات ہے کہ انسان اسی درخت کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کرتا ہے جس پر اس کا آشیانہ ہوتا ہے۔یہ شاہی دور میں بھی ہوتا تھا یہی جمہوری دور میں بھی ہو رہا ہے۔مسٹر مودی ہر شخص کو حاشیہ پر پہونچا رہے ہیں جنھوں نے انھیں یہاں تک پہونچانے میں دامے درمے مدد کی اور جس سے انھیں رتی برابر بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔۔خیر 
  اب آئیے حالیہ انتخابات کے نتائج کو دیکھتے ہیں۔مہا گٹھ بندھن یا عظیم اتحاد میں آر جے ڈی یا لالو پرساد کو ۰۸ سیٹیں ملی ہیں۔جے ڈی یو یا نتیش کمار کو ۱۷اور کانگریس کو ۷۲ سیٹیں ملی ہیں۔کانگریس کو جو نشستیں ملی ہیں وہ بھی عظیم اتحاد میں شمولیت کی بنا پر ملی ہیں۔راہل گاندھی کی محنت یا شخصیت کا اس میں کوئی کمال نہیں۔ہونا تو یہی چاہئے کہ اب کانگریس راہل گاندھی کو درمیان سے ہٹا کر الیکشن لڑے۔کانگریسیوں کو اس بات کا مکمل ادراک ہونا چاہئے کہ وہ اب ہر جگہ ایک جونیئر پارٹی بن چکی ہے اور اس میں سب سے بڑا ہاتھ ان کی منافقت یا نرم ہندتو کی پالیسی کا ہے۔ دوسری طرفاین ڈی اے کی پارٹی پوزیشن بھی دیکھ لیں۔بی جے پی کو ۳۵نشستیں حاصل ہوئی ہیں ایل جے پی کو صرف ۳آر ایل ایس پی کو بھی صرف دو نشستیں اور جتن رام مانجھی کو صرف ایک۔یعنی اپنی پارٹی میں خود ہی جیتے ہیں بس۔دیگر میں سی پی آئی ایم کی ۳ نشستیں ہیں اور آزاد ۴جبکہ ۰۱۰۲ کے الیکشن میں انہی پارٹیوں کی پوزیشن کچھ یوں تھی۔بی جے پی۔۱۹۔جے ڈی یو ۵۱۱۔کانگریس ۴۔آر جے ڈی  ۲۲۔سی پی آئی ایک۔ایل جے پی ۳۔یہ دونوں نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بی جے پی اسی وقت جیت سکتی ہے جب ووٹوں کی تقسیم عمل میں آئے اس کے علاوہ یہ بات بھی وطن عزیز کا ہر فرد جانتا ہے کہ بی جے پی نے آج تک اپنے دم پر لڑ کر کبھی کامیابی حاصل نہیں کی وہ ہمیشہ حمایتیوں کے ساتھ ہی میدان میں آئی ہے۔
  بہار میں جب انتخابی مہم جاری تھی تب ہی تجزیہ کاروں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا اس الیکشن میں این ڈی اے کی دال نہیں گلے گی۔آخری”چرن“ تو یہ بالکل واضح ہو گیا تھا کہ این ڈی اے الیکشن ہار گیا ہے۔مگر اب ہمارا میڈیا بھی اسی مٹی کا بن گیا ہے جس کا سنگھ پریوار بناہوا ہے۔سنگھ کی لغت میں شرم و حیا نام کا کوئی لفظ نہیں ہے۔تمام واضح علامات کے باوجود کچھ ایگزٹ پول این ڈی اے کو جیتتے ہوئے دکھا رہے تھے۔اس سے بھی آگے بڑھ کر نتائج کے دن صبح ۹ سے ساڑھے ۹ کے درمیان جب ووٹوں کی گنتی میں این ڈی اے لیڈ کر رہا تھا تو چینلوں کے تقریباً تمام اینکر کہہ رہے تھے کہ نتیش کی یہ ہار لالو کے ساتھ کی وجہ سے ہے۔کیا اتنا قبل از وقت اس طرح کا ریمارک دینا ٹی وی چینلوں کے اتنے ذمے دار صحافیوں کو زیب دیتا ہے۔پیڈ یا ایمبیڈصحافت کوئی نئی چیز نہیں۔کم و بیش ہر ملک میں یہ بیماری نظر آئے گی۔مگر کچھ انا،خودداری اور انفرادیت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔دنیا کے ایک بڑے جمہوری،طاقتور اور قابل احترام ملک کے میڈیا کی یہ روش کس نظر سے دیکھی جائے گی؟ نیپال سے ہمارے تعلقات بگاڑنے میں میڈیا کا بھی کچھ حصہ ہے مگر میڈیا کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے والے حکمراں میڈیا میں یہ شعور نہیں پیدا کرسکتے۔میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں کو سدھارنے کا کام میڈیا کی سفید(گوری)بھیڑوں کو ہی کرنا ہوگا۔وکالت کا کاروبار سب جانتے ہیں کہ جھوٹ پر ہی چلتا ہے۔حکومت بھی کلائنٹ بھی اور منصف بھی۔مگر نام کے لئے ہی سہی ایک پروفیشنل ایتھکس طلباء کو پڑھائی جاتی ہے جس میں بدقسمتی سے یہ بھی لکھا ہے کہ وکیل اپنی ذاتی رائے کو طاق پر رکھ ہر کلائنٹ(کم وبیش) کا کیس لے اس کا مطلب کم سے کم ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس کو وہ قاتل سمجھتا ہے اس کا کیس بھی لڑے۔مگر صحافت کے پیشہ ورانہ اخلاقیات میں تو ایسے پیچ نہیں ہے۔پھر اس میدان میں تو ہمارے اسلاف نے بڑی روشن مثالیں قائم کی ہیں۔عوام صحافیوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ چیزوں کو بالکل ویسی ہی دکھائیں گے جیسی کہ وہ ہیں۔عوام کی ذہم سازی مثبت بنیادوں پر ہوگی منفی نہیں۔اب اگر لالو پرساد اس طرح کے صحافیوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں تو کیا وہ غلط ہوگا؟اس الیکشن میں تو لالو پرساد سب سے بڑے کھلاڑی بن کر ابھرے ہیں۔اور سب سے زیادہ نشستیں جیتنے کے باوجود شیو سینا بی جے پی کی طرح وزارت اعلیٰ پر کوئی لڑائی نہیں ہے۔لالو سے پہلے ان کی دختر میسا نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار ہی ہوں گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نتیش کمار کے دس سالہ ترقیاتی دور کے باوجود لالو یا آرجے ڈی سب سے بڑی پارٹی بن کر کیوں ابھری؟
  یہ مانا جاتا ہے کہ لالو پرساد یادو نے اپنے دور حکومت میں بہار کی ترقی کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔مگر اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ لالو نے اپنے دور میں فرقہ پرستوں کو پوری طرح اپنے پیروں تلے دبا رکھا تھا۔ان کے دور حکومت میں فرقہ وارانہ منافرت کا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھالالو پرساد فرقہ پرستوں کے جتنے بڑے دشمن ہیں نتیش کماراپنے دور میں اتنے ہی بڑے دوست ثابت ہوئے۔ بی جے پی کی محبت میں انھوں نے بھی وہی ظلم کئے جو بی جے پی یا کانگریس کے لئے مخصوص ہیں اس لئے جیسے ہی ون بائے ون فائٹ کا موقع آیا مسلمانوں نے اپنا سارا وزن لالو کے پلڑے میں ڈال دیا۔اب اگر نتیش کو مسلمانوں کے ووٹ لینا ہے تو ان کے پاس اپنے گذشتہ گناہوں کی تلافی کرنے کا موقع ہے۔یاد رہے کہ اب سنگھی کیڈر بہار میں جنگل راج قائم کرنے کی پوری کوشش کریگا۔ان سے کن آہنی ہاتھوں سے نپٹا جاتا ہے وہ یہ سبق لالو سے لے سکتے ہیں۔ 
  کہتے ہیں کہ جب جہاز ڈوبتا ہے تو سب سے پہلے چوہے نکل کر بھاگتے ہیں۔لوک سبھا انتخابات کے کامیاب سفر کے بعد این ڈی اے کا جہاز اب بھنور میں پھنس چکا ہے۔اور مختلف انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ ڈوبنے کی شروعات ہو چکی ہے۔چوہوں کا بھاگنا شروع ہوا ہی چاہتا ہے۔دوسرے جہاز کے کپتانوں کو چاہئے کہ الرٹ رہیں۔یہ بھگوڑی مخلوق اب انھیں نشانہ بنائے گی۔وہ لوگ جو سیکولرزم کے چاہنے والے ہیں انھیں چاہئے کہ ان سے دور رہیں ورنہ۔۔یہ تو پبلک ہے یہ سب جانتی ہے۔
  آخر میں بزرگ صحافی حفیظ نعمانی  کے ایک مضمون سے چند سطریں نقل کرتے ہیں۔اس لئے کہ ہم ان کے خیالات سے مکمل اتفاق رکھتے ہیں ”ایک بات تمام سیاسی پاٹیوں سے عرض کرنا ہے کہ بے وجہ جو یو پی بہار اور بڑے صوبوں میں پانچ یا سات یا چار راؤنڈ میں الیکشن کرایاجاتا ہے یہ اس وقت تو ٹھیک تھا جب کہیں مار پیٹ ہو جاتی تھی کہیں بیلٹ باکس لوٹ کر لے جاتے تھے۔ کہیں دبنگ کمزوروں کو ووٹ نہیں ڈالنے دیتے تھے اور اپنے ساتھیوں براتیوں سے فرضی ووٹنگ کرا لیتے تھے۔لیکن اب جبکہ بہار کے پانچوں راؤنڈ میں ایک بھی سنگین واردات نہیں ہوئی تو دو مہینے الکشن کا ماحول طاری کرائے رکھنا اور بڑے لیڈروں کا قیمتی وقت برباد کرنا ہرگز مناسب نہیں۔بہار میں زیادہ سے زیادہ دو راؤنڈ میں (الیکشن) ہونا چاہئے۔“سوال یہ ہے کہ جن اندیشوں کی بنا پر اتنے لمبے الیکشن چلائے جاتے ہیں وہ کس کے پیدا کردہ ہیں۔اس تعلق سے حکومت کی کوئی ذمے داری ہے یا نہیں؟ملک میں امن و شانتی بنائے رکھنا کس کی ذمے داری ہے؟اس سال ترکی میں دو بار الیکشن ہوئے ہیں۔ایک بار اس وقت جبپی کے کے حکومت سے معاہد تھی اور دوسری بار اس وقت جب وہ دہشت گردانہ سرگرمیاں شروع کر چکی تھی۔دونوں بار ووٹنگ سے لے کر رزلٹ تک کا عمل ترکی میں ۴۲ گھنٹوں میں مکمل ہو گیا تھا۔ہمار ے یہاں ووٹنگ سے لے کر رزلٹ تک کا طویل عمل شایدمینوپولیشن کے لئے ہے۔عوام بے چاری صرف اتنا سوچتی ہے کہ ہم نیو کلیئر پاور ہیں۔اقوام متحدہ میں مستقل نشست کے دعویدار ہیں اور ڈھنگ سے الیکشن بھی نہیں کرا سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137


0 comments:

مذہب انسان اور فساد کی جڑ

عمرفرا ہی    umarfarrahi@gmail.com
لوگوں کی اکثریت وہ چاہے جس مذہب اور عقیدے سے تعلق رکھتی ہو اپنے آبائی مذہب   کو ہی حق سمجھتی ہے اور پوری زندگی دیگر مذاہب کا مطالعہ تو دور کی بات  اپنے دین اور مذہب کو بھی سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے- شاید اسی لیے اس کے ذہن و  دماغ میں دین اور مذہب کی اصل روح اور تصویر کبھی داخل نہیں ہو پاتی اور وہ اس دنیا کو بھی محض بازیچہ اطفال سمجھ کر مذہب کو بھی ایک کھلونے کی طرح استعمال کر رہے ہیں  - دنیا کی دیگر قومیں تو بہرحال مادہ پرستی کی لعنت میں مبتلا ہیں ان کے لیے دولت زمین جائداد اور سلطنت ہی سب کچھ ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ مسلم ملک مسلم معاشرے اور خاندان میں پیدا ہوئے ہیں وہ لوگ بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اللہ نے انہیں ایمان میں داخل کر کے ان کے ساتھ خصوصی رعایت کی ہے اور اگر انہیں ان کے گناہوں کے بدلے کچھ سزادی بھی گئ تو  بالآخر جنت تو ان کے لیے لازمی ہے-ان کا یہ عقیدہ اگر درست ہے تو اس کا مطلب اللہ نے دنیا کے دیگر انسانوں کو غیر مسلم معاشرے  میں پیدا کرکے گمراہی کی طرف موڑ دیا ہے اور وہ انہیں  اسی گمراہی کی نسبت سے جہنم میں داخل کرکے ان کے ساتھ ظلم کریگا - شاید ان بھولے بھالے مسلمانوں کو نہیں پتہ کہ اللہ نے انسانوں کو ایک قانون کا پابند بنایا ہے اور اس کی سنت یہ ہے کہ وہ ہر دور میں انسانوں کو حق و باطل کی معرکہ آرائی سے گذار کر اپنی آزمائش کے مرحلے سے گذارتا  اور اس کی اس آزمائش سے ایمان لانے والوں کا بھی گذرنا لازمی ہے جیسا کہ قرآن میں آتا ہے کہ اے ایمان والو ایمان لاؤ - اس نے آدم کی تخلیق کرکے اگر اپنے ایک خاص مقرب اور عبادت گذار بندے ابلیس کی فرماںبرداری کا امتحان لیا تو اسی طرح انبیاءِ کرام پر بھی جو اس نے ذمہ داری کا بوجھ ڈالا اس کی وجہ سے ان کی ایک بہت بڑی زندگی یا یوں کہ لیجئے کہ بہت سے انبیاءِ کرام کی پوری زندگی رنج و آلام کے دور سے گذری -سوال یہ ہے کہ کیا وہ دو وقت کی نماز ہی تھی جو حضرت نوح کی قوم کے لیے گراں گذر رہی تھی اور وہ  نو سو سال تک نوح کی دعوت کو ٹھکراتے رہی ہے یا پھر کوئی اور وجہ تھی جو نمرود نے حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالنے کی سزا تجویز کی  ,موسیٰ کا تعاقب کیا گیا-اصحاب کہف کو غار میں پناہ لینا پڑی  اور حضرت عیسیٰ کو سولی پر چڑھانے کا منصوبہ بنایا گیا- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کو قتل کرنے کی سازش کی گئ اور صحابہ کرام کو جلتی ہوئی ریت پر لٹایا گیا - مگر یہ کیسے لوگ تھے اور کیسے نوجوان تھے کیسی تحریک تھی اور کیسا انقلاب تھا جس کیلئے انہوں نے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالا -غرض کہ اکثر انبیاءِ کرام کے ساتھیوں کو اپنے عزم و ارادے سے دستبردار ہونے کی صورت میں انعام و اکرام کی لالچ  اور عہدے کی پیشکش بھی کی گئ- خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مشرکین مکہ نے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو ہم انہیں عرب کا بادشاہ تسلیم کر لیتے ہیں اور انہیں عرب کی کوئی خوبصورت دوشیزہ پسند ہو تو اسے آپ  کےنکاح میں دے دیا جائے گا- ان کا مطالبہ صرف اتنا تھا کہ آپ اپنے دین کو صرف اپنے تک محدود رکھیں لوگوں تک نہ پہنچائیں - شاید مشرکین کو یہ بات پتہ تھی کہ یہ تبدیلی جو وقت کے رسول کے ذریعے ہو رہی ہے یہ تحریک  صرف نماز اور زکوٰۃ  تک ہی محدود نہیں رہنے والی ہے بلکہ ان کےعلاقوں کی پوری سیاست اور تہذیب و تمدن کو بھی بدل کر رکھ دے گی اور پھر وقت کے امراء اور سرداران جو اقتدار پر قابض ہیں یا  لوگوں پر حاکم ہیں ان کی من مانی نہیں چلے گی- اگر ہم آج کے مسلمانوں کی اکثریت  کا عمل انبیاء کرام کے اس عمل کے پیمانے پر تولیں اور دیکھیں تو   کیا ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ آج بھی ایسا ہی ہورہا ہے-اگر نہیں تو اس کا مطلب نہ تو مسلمانوں کی دعوت میں اثر ہے اور نہ ہی ان کی اذان اور نماز بھی کسی کو سمجھ میں آرہی ہے اور اگر کہیں پر وہ ستایا بھی جارہا ہے یا مشکلات کے دور سے گذر رہا ہے تو اس کے اس ستائے جانے کی نوعیت کیا ہے -
سوال یہ ہے کہ اگر یہ مسلمان اپنے مذہب اور عقیدے کو ترک کرکے اپنے مخالفین کے مذہب اور عقیدے کو اختیار کر لیں یا ساری دنیا کے انسان خدا اور اس کے رسول کو باطل قرار دے کر بے عقیدہ ہو جائیں جیسا کہ لبرلسٹوں اور کمیونسٹوں کا خیال اور  عقیدہ ہے تو کیا دنیا میں امن اور سکون قائم ہو جائیگا - شاید یہ مذہب کو نہ ماننے والوں کی بھول ہےیاجو لوگ مذہب کو سارے فساد کی جڑ مانتے ہیں انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ اصل فساد کی جڑ انسان کا تکبر اور گھمنڈ ہے جو ہر وقت اس کے ذہن و دماغ میں ایک طرح کی برائی اور لعنت کی شکل میں پنپتا رہتا ہے اور یہی برائی اسے اونچ نیچ یا عام و خاص کی لعنت میں مبتلا کرتی رہتی ہے جو باالآخر اس کے لیے فتنے اور فساد کا سبب بنتی ہے یعنی کوئی بھی انسان چاہے وہ ایک ملک ایک قوم ایک خاندان اور مذہب سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتا ہو اگر وہ اپنے مقصد حیات اور انسانی رشتے سے نابلد ہے اوروہ تھوڑا سا بھی اثر و رسوخ اور رتبے کا مالک بن جائے تو اس کا ہم اور تکبر اسے  دوسرے انسان اور قوم پر اپنے افضل اور برتر ہونے کا دعویٰ کرنا  شروع کر دیتا ہیے اور پھر نسلی عصبیت کا یہی خمار انسان کو ایک طرح کی نفسیاتی مرض میں مبتلا کر دیتا ہے ابلیس کے ساتھ ایسا ہی ہوا اللہ نے اسے جو طاقت بخشی تھی اسی طاقت نے اسے متکبر بنا دیا اور اس نے آدم کو یہ کہہ کر سجدہ کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ آگ سے بنا ہے اور انسان مٹی سے-  جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے اور مذہب ہی فساد کی جڑ ہے وہ مذہب کے ذریعے نافذ کیے گئے حدود اور قیود کے منکر اور باغی ہیں -ان کے نزدیک مساوات یہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں برابر ہیں اور انہیں ایک نظر سے دیکھا جائے - خاص طور سے مسلمانوں میں رائج پردے کی روایت کو اسی نظریے سے دیکھا جاتا ہے کہ مسلم عورتوں کو اپنے لیے آزادانہ فیصلہ کرنے کی آزادی نہیں ہے  -دنیا کے بیشتر لبرل قسم کے مصنفنین جنھنیں مذہب کے خلاف لکھنے اور بولنے کی وجہ سے انعام و اکرام اور اعزاز سے بھی نوازا جاتا رہا ہے ان مصنفین کے گروہ میں شامل سلمان رشدی تسلیمہ نسرین وی ایس نائیپال ارشاد مانجھی اور خشونت سنگھ وغیرہ فرائیڈ اور رجنیش کے اس خیال سے متفق رہے ہیں کہ عورت صرف عورت ہے ,ماں بیٹی اور بہن کا درجہ تو عہد رفتہ کی قدیم جاہلانہ رسم ہے -اس لیے عورت جس مرد سے چاہے اپنی خواہش پوری کرے اور مرد جس عورت سے چاہے پیار کرے یہی اصل آزادی ہے - ان کا خیال ہےکہ اگر دنیا کے سارے انسانوں کو یہ آزادی دے دی جائے اور ان کی خواہشات کی تکمیل ہوتی رہے تو دنیا میں کوئی لڑائی جھگڑا اور فساد نہیں رہ جاےُ گا-رجنیش بھی کچھ ایسے ہی امیروکبیر عیاش قسم کے نوجوانوں کی نفسیات کا فائدہ اٹھاتے ہوےُ دنیا کے مختلف حصوں میں جنت نما آشرم بنا کر اپنے نظریات کی تبلیغ کر کے ایک خاص طبقے کا خود ساختہ بھگوان بن بیٹھا مگر وہ خود اپنی اس خوشنما جنت میں قید ہو کر یہ بھول گیا کہ اس دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی بستے ہیں جنھیں پورے دن میں ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے اور جب کوئی بغیر مفاد کے اسے ایک روٹی بھی نہیں دے سکتا تو کیا کوئی اسے اپنی خوبصورت بہن بیوی اور بیٹی کو حوالے کریگا - ٹھیک ہے آپ مذہب کو سماج اور معاشرے سے نکال دیں اور عورت کو مرد کے مدمقابل کھڑا کردیں مگر آپ امیری اور غریبی کو  ,بدصورتی اور خوبصورتی کو  اچھائی اور برائ کو اونچ نیچ اور عجزو انکساری کے ساتھ ساتھ جبر اور رحم کے جذبے کو ایک کیسے کر سکتے ہیں - جبکہ یہ ساری خصوصیات اور خصلتیں انسان کی اپنی فطرت میں شامل ہیں اور انسان اپنی انہیں خصلتوں اور عادتوں کی بنیاد پر تکبر اور رعونت کا شکار ہوتا ہے اور یہی وہ چیزیں ہیں جو طاقتوروں کو کمزوروں پر ظلم کرنے پر آمادہ کرتی ہیں -
مذہب دراصل انسانوں کو اسی حسد اور تکبر  سے باہر نکالتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے اور انسانوں کے درمیان یہ امیری غریبی اور خوبصورتی اسی خالق کی عطا کردہ نعمت ہے تاکہ وہ اسے آزمائے اور اسے مرنے کے بعد اس کا حساب بھی دینا ہے - اور پھر اسی خالق نے  انبیاء کرام کے ذریعے انسانوں کو ایک آسمانی قانون اور ضابطے کا پابند بنایا -انسانوں کے درمیان فساد کی اصل وجہ یہی ہے کہ اس نے قدرت کے اس فطری قانون کے خلاف بغاوت شروع کر دی ہے-
عمرفرا ہی    umarfarrahi@gmail.com

0 comments:

سیاسی پارٹیاں اور فرقہ واریت


جلال الدین اسلم، نئی دہلی 

ہماری سیاسی پارٹیاں خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی، علاقائی ہوں یا قومی سطح کی، سیکولر ہوں یا فرقہ پرست، ان سب نے فرقہ واریت کو بڑھانے اور فقہ وارانہ سوچ کو مسلسل غذا بہم پہنچانے میں انتہائی اہم رول ادا کیا ہے۔ انہوں نے مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ اپنے ووٹ بینک بنانے کی کوشش کی ہے بلکہ امیدواروں کے انتخاب کے معاملے میں مذہب اور ذات پات کے عنصر کو عملاً فیصلہ کن اہمیت دے کر ان لوگوں کی مسلسل حوصلہ افزائی بھی کی ہے جو اپنے فرقے میں اپنی جگہ بنانے کے لیے لوگوں کے جذبات سے کھیلنے اور آتش بار مسائل کو اُبھارنے کی روش پر گامزن رہے ہیں۔ سیکولر سیاست، سیکولر رویہ اور غیر جانب داری کی بات کرنے والے ہمارے سیاست داں انتخابات کو اقلیت اور اکثریت کے درمیان مفاہمت کے نت نئے پلوں کی تعمیر کا ذریعہ بنانے کے بجائے اور پہلے سے موجود پلوں کو تباہ کرنے کا وسیلہ ہی بناتے رہے ہیں۔ امیدواروں کے انتخاب میں مذہب اور ذات پات کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے اس کا اندازہ ایک سیاسی لیڈر کے اس ریمارک سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ”ہمارا انتخابی نظام عملاً ذات پات کی بنیاد پر ہی چل رہا ہے۔ امیدواروں کے انتخابات کے معاملے میں تقریباً ساری ہی پارٹیاں کوشش اس بات کی کرتی ہیں کہ امیدوار اسی شخص کو بنایا جائے جو متعلقہ حلقے میں اکثریت والی ذات یا فرقہ سے تعلق رکھتا ہو۔ دوسروں کو تو جانے دیجیے، دن رات سیکولرزم کی رٹ لگانے والی کمیونسٹ پارٹی بھی امیدواروں کے انتخاب میں ذات پات اور مذہبی عنصر کو نظر انداز نہیں کرپا رہی ہے۔ یعنی اسے آپ دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب ان پارٹیوں کے نزدیک اپنا کام، اپنا نظریہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔“ 
اگر اس روگ کو ہم چھ دہائی پرانا قرار دیں تو شاید غلط نہ ہو کیونکہ ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم نے 1960 کی دہائی میں قومی یک جہتی کے موضوع پر ایک کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے بڑے ہی دلنشیں انداز میں اس کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ”مولانا ابوالکلام آزاد کی ہماری قومی زندگی میں بہرحال ایک خاص اہمیت تھی، ان کا ایک خاص مقام تھا، انہوں نے جب چناؤ لڑنے کا فیصلہ کیا تو ان کے لیے رام پور کے پارلیمانی حلقے کا انتخاب کیا گیا، کیونکہ وہاں مسلمان ووٹ کافی تھے۔ مولانا نے رام پور سے چناؤ لڑنے سے انکار کردیا۔ بعد ازاں ان کے لیے گڑگاؤں کا حلقہ چنا گیا جہاں مؤ مسلمان قابل ذکر تعداد میں آباد تھے وہاں وہ جیت گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم ان کے لیے کسی ایسے حلقے کا انتخاب کرتے جہاں صد فی صد ہندو ووٹ ہوتے اور وہ ہار جاتے۔ ان کی یہ شکست عملاً یک جہتی کی اخلاقی فتح ہوتی کیونکہ ان صورت میں پارٹی کے لوگ اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کرتے اور پارٹی یک جہتی کے زیادہ مؤثر پروگرام کے ساتھ سامنے آتی۔“ 
کانگریس اُس وقت آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ سیکولر تھی اور اس میں ایسے لوگ بھی خاصی تعداد میں موجود تھے جن کے ذہن خاصے صاف تھے، لیکن کانگریس اُس وقت بھی اپنے آپ کو اس مقام پر نہ لاسکی جہاں قومی یک جہتی اور فرقہ وارانہ اتحاد کے لیے انتخابی خسارے کو برداشت کرلیتی۔ انتخابی فائدے کے حصول کے لیے ہمارے یہ سیاست داں کس حد تک جاسکتے ہیں اس کا اندازہ گزشتہ خصوصاً دو تین دہائیوں کے دوران ملک کے لوگوں کو بہت ہی اچھی طرح ہوچکا ہے اور ان کی اس روش کی نکتہ چینی تو اوروں کے علاوہ فسادات کی تحقیقات کرنے والے کمیشنوں تک نے کی ہے۔ 1967 میں رانچی کے فسادات کی تحقیقات کرنے والے رگھوبردیال کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سیاسی پارٹیوں کی اسی روش کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا ”سیاسی پارٹیوں کو اپنے نمائندوں کے لیے عوام کو استعمال کرنے کا رویہ ترک کردینا چاہیے۔ کسی بھی سیاسی، معاشی یا ثقافتی مسئلے پر خالص فرقہ وارانہ زاویہئ نظر سے نہ تو بحث و مباحثہ ہونا چاہیے اور نہ اس طرح کے مسائل کو لے کر فرقہ وارانہ بنیاد پر کوئی تحریک چلائی جانی چاہیے، سیاسی فائدے پر قومی ہم آہنگی کو بھینٹ چڑھا دینے کے طرز عمل سے بہرحال احتراز کیا جانا چاہیے۔“ 
فرقہ وارانہ جذبات کا استحصال صرف فرقہ وارانہ پارٹیاں ہی نہیں کرتیں بلکہ وہ پارٹیاں بھی کرتی ہیں جو اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہیں اور جنہوں نے اپنے دروازے بظاہر سب کے لیے کھول رکھے ہیں۔ بھیونڈی کے فساد (1970) کی تحقیقات کرنے والے مدان کمیشن نے ان کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ”ایسی سیاسی پارٹیاں اور تنظیمیں بھی ہیں جنہوں نے اپنی رکنیت کسی خاص فرقے کے افراد تک محدود نہیں رکھا ہے اس کے باوجود ان کی سرگرمیاں فرقہ وارانہ ہیں جن کا رخ ایک خاص فرقے کی طرف ہی ہوتا ہے۔ دکھانے کے لیے یہ دوسرے فرقوں کے کچھ افراد کو اپنا ممبر بھی بنالیتی ہیں او راکثر و بیشتر انہیں تنظیمی عہدے بھی دے دیتی ہیں۔ جاہ و منصب کے لالچی ہر فرقے میں پائے جاتے ہیں اور ان پارٹیوں اور تنظیموں کو اپنا حقیقی چہرہ چھپانے کے لیے اس طرح کے لوگوں کو تلاش کرلینا کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ اس طرح کی پارٹیوں اور تنظیموں کو بہرحال فرقہ پرست تنظیمیں ہی سمجھا جانا چاہیے۔“ 
اور مسئلہ صرف اس طرح کی تنظیموں کا ہی نہیں بلکہ وہ پارٹیاں بھی ہیں جنہوں نے حقیقتاً اپنے دروازے تمام فرقے کے لوگوں کے لیے کھول دیئے ہیں ان کا دامن بھی مذہب اور ذات پات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے معاملے میں صاف نہیں ہے، یہ بھی اپنے عمل اور بے عملی دونوں ہی کے ذریعے فرقہ وارانہ تلخی کو بڑھانے اور فرقہ وارانہ بنیاد پر ہندوستانی عوام کو تقسیم کرتے چلے جانے کے عمل میں بھرپور معاونت کر رہی ہیں۔ 1979 میں جمشیدپور اور اس کے قرب و جوار میں ہونے والے انتہائی بھیانک فرقہ وارانہ فساد کی تحقیقات کرنے والے ایک تین نفری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے بہت ہی دو ٹوک انداز میں کہا کہ ”فرقہ وارانہ اُمور کے تئیں سیاسی پارٹیوں کے رویہ اور ان کے عام رجحان کے تذکرہ کے بغیر سفارشات کی فہرست مکمل نہیں ہوسکتی، انہوں نے ہمیشہ ہی مختلف فرقوں کو اپنا ووٹ بینک تصور کیا ہے اور اسی کے مطابق اپنے منصوبے اور لائحہ عمل تیار کیے ہیں۔ ووٹ کا مطلب ہوتا ہے اقتدار و اختیار اور سیاست دانوں کو اقتدار و اختیار، دوسری تمام چیزوں سے کہیں زیادہ محبوب ہوتا ہے، اس رجحان کو بہرحال بدلنا چاہیے۔“ 
سیاسی پارٹیاں مذہب کا استحصال کس طرح کرتی رہتی ہیں اور فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے میں کیا رول ادا کرتی ہیں اس کا تذکرہ پارلیمنٹ میں بھی اکثر و بیشتر ہوتا رہا ہے۔ جولائی 1986 میں احمد آباد کے فسادات کے پس منظر میں لوک سبھا میں ہوئے مباحثہ کے دوران نیز اگست 1987 میں ہوئے فساد کے حوالے سے ملک میں فرقہ وارانہ صورت حال پر بحث کے دوران سیاست دانوں کی فرقہ وارانہ روش کا تذکرہ بار بار ہوا اور ایک دوسرے پر الزام بھی لگائے گئے۔ ایک رکن جن کا نام اس وقت یاد نہیں اپنی تقریر میں بڑی معنی خیز بات کہی جو ہمارے سیاست دانوں کے کردار پر بھرپور روشنی ڈالتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ”ہم یہاں اس ایوان میں کچھ کہتے ہیں اور جب اپنی ریاست اور اپنے حلقہئ انتخاب میں ہوتے ہیں تو کچھ اور کہتے ہیں اور جب اپنے ہم مذہب لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں تو ہماری گفتگو اور ہمارا لب و لہجہ بالکل بدلا ہوا ہوتا ہے۔“ ہمارے سیاست دانوں کی اس سے بہتر تصویر کشی اور نہیں ہوسکتی، اقتدار و اختیار کے حصول کے لیے ہمارے سیاست داں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، وہ یہ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ذات پات اور مذہب کی جڑیں بہت مضبوط ہیں لہٰذا ذات پات اور مذہب کے نام پر لوگوں کو بہ آسانی ورغلایا یا گمراہ کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ وہ فرقہ وارانہ جذبات کو حصول اقتدار کا ذریعہ بنانے کی راہ پر پوری یکسوئی کے ساتھ گامزن رہتے ہیں۔ گزشتہ ساٹھ برسوں سے یہی سب کچھ ہو رہا ہے اور ان کے اسی طرز عمل کے نتیجے میں فرقہ واریت کا ننھا پودا آج ایک ایسا تناور درخت بن گیا ہے کہ اس کی شاخیں ہر گھر اور ہر آنگن میں جھولتی نظر آرہی ہیں جو ہلکی سی ہوا بھی چلتی ہے تو اس کے زہریلے پھولوں اور پھلوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے، اتنا ڈھیر کہ ہمارا سیکولر آئین اور ہماری جمہوری قدریں سبھی کچھ اس کی نذر ہوتی نظر آرہی ہیں۔ 
٭٭٭

-- 

0 comments:

کیا بی جے پی اور آر ایس ایس اپنی ہزیمت کو ٹھنڈے پیٹ برداشت کرلیں گے؟


نہال صغیر
بہار میں فرقہ پرستوں کی ہار ہو گئی ۔سیکولر اتحاد جیت گیا ۔یہی عام خیال ہے ۔کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ مذہبی شدت پسندی پر روادار ہندوستان کی جیت ہے ۔یا یہ کہ بہار الیکشن نے یہ ثابت کردیا کہ یہاں عدم برداشت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔یہ ساری باتیں کچھ حد تک صحیح ہیں ۔بی جے پی کی مودی حکومت میں ملک میں عدم برداشت اور تشدد کی ایک عجیب فضا کو پیدا کیا ۔جس میں گائے ایک اہم موضوع بنا ۔گرچہ بہار میں دہائیوں سے گائے کا ذبیحہ قانوناً بند ہے ۔نتیش کمار نے اس کے تعلق سے شروع میں کہا بھی کہ بہار میں گائے انتخابی موضوع نہیں بن سکتا ۔لیکن بی جے پی بھی کوئی عام پارٹی نہیں ہے وہ بہت ہی ڈھیٹ ہے ۔اس نے آخر آخر تک میں گائے کو انتخابی مدعا بنا ہی ڈالا۔اتحاد میں بڑی قوت ہے ۔اس لئے اتحادی روادار طبقہ عددی اعتبار سے جیت گیا ۔اور غیر روادار اور تشدد پر آمادہ نیز ہندوستان کے لئے خطرہ بننے والی قوت کو ہزیمت کا منھ دیکھنا پڑا ۔کل ملا کر یہ کہنا چاہئے کہ کچھ دنوں کے لئے ملک کی سلامتی پر منڈلاتے خطرات کم ہو گئے ہیں ۔کیوں کہ جو طبقہ حاوہ ہو رہا تھا اسے صرف اپنے برہمنی ایجنڈے کو نافذ کرنے میں ہی دلچسپی ہے ،اس سے ملک کا کیا نقصان ہو گا۔ملک متحدہ رہ پائے گا یا نہیں اس سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔اسی لئے انہوں نے ہمیشہ توڑنے والی باتیں کیں اور تشدد کو ہوا دیتے رہے ۔ 
بہار الیکشن جس پر بلا مبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پوری دنیا کی نظر تھی کیونکہ یہ الیکشن ملک کے رخ کو طے کرنے والا تھا کہ یہ ملک روادار ملک کی حیثیت سے بنا رہے گا یا پھر غیر روادار ہندوتوا کے رنگ میں رنگ جائے گا ۔بہار کے بیدار عوام نے دنیا کے لوگوں کو یہ پیغام دے دیا کہ یہ ملک قاتلوں کی ہمنوائی نہیں کرسکتانیز تشدد پھیلا کر اپنا مفاد حاصل کرنے والوں کے لئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے ۔لیکن یہ صرف تصویر کا ایک رخ ہے ۔تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اب بھی اس ملک میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جس نے نہ صرف قاتلوں کی ہمنوائی کی بلکہ اس پر اپنا اعتمادکا اظہار بھی کیا ہے ۔ساڑھے چوبیس فیصد ووٹروں نے بی جے پی میں اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔یہ کوئی چھوٹی تعداد نہیں ہے۔ اپر کاسٹ یا سورن ہندوؤں کی آبادی تقریباً 15فیصد ہے ۔یعنی بی جے پی نے سورن ہندوؤں کے علاوہ دوسرے پسماندہ طبقات کا بھی ساڑھے نو فیصد ووٹ حاصل کیا ہے ،جو صدیوں سے انہی قوتوں کے زیر سایہ تذلیل جھیل رہا ہے اور انسانوں کی بستی میں بحیثیت انسان جگہ پانے کے لئے کوشاں ہے۔نتیش اور لالو سمیت کانگریس کی جیت میں مسلم اور پسماندہ ذتوں کاووٹ یکجا ہوا ہے ۔مسلم ووٹ تو تقریباً اٹھانوے فیصد یکطرفہ طور پر عظیم اتحاد کو گیا ہے۔اور وہی ان کی فیصلہ کن جیت کا سبب بھی بنا ہے ۔کانگریس کوجسے آزادی کے بعد سے سورن ہندوؤں کا بھی ووٹ ملتا رہا ہے ۔اب اس کا یہ ووٹ بینک بی جے پی کو ٹرانسفر ہو چکا ہے ۔اس کا ثبوت اسد الدین اویسی کی پارٹی مجلس اتحا دالمسلمین نے اپنے جن چھ امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا اس میں سے تین کوچہ دھامن،کشن گنج اور آرمور کے امیدواروں کو ہرا کر کا نگریس نے ہی جیت حاصل کی ہے ۔دو پر جنتا دل یونائیٹیڈ اور ایک پر سی پی آئی ایم ایل کا مسلم امیدوار کامیاب ہوا۔یعنی جن لوگوں نے میڈیا کے گمراہ کن پروپگنڈہ سے متاثر ہو کر مجلس کے لئے محض ووٹ کاٹنے والی پارٹی اور بی جے پی کا دلال جیسے سطحی الفاظ کا استعمال کرنا شروع کیا تھا ان کی باتیں پوری طرح غلط ثابت ہوئیں ۔نہ انہوں نے ووٹ کاٹے اور نہ ہی بی جے پی کی دلالی کا کوئی ثبوت دیا بلکہ چھ کے چھ سیٹ پر نام نہاد سیکولر پارٹی کے امیدوار ہی جیتے اور بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ بعض افراد نے جو کہ مسلمان ہیں اور میڈیا سے جڑے بھی ہیں انہوں نے بھی عام طور پر مروجہ مزاح میں مجلس کے سربراہوں کو گھسیٹ لیا کہ مجلس حلقہ انتخاب سے بی جے پی کی ہار کی وجہ سے بی جے پی نے رقم کا مطالبہ شروع کردیا ہے جو کہ اس کے لئے مجلس کو دی تھی ۔ اس طرح کے سطحی الفاظ کا استعمال بلا دلیل کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا لیکن اس ووقت ہم اخلاقی زوال کے شدیدی بحران کا شکار ہیں ۔پھر بھی مجلس نے اسی ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ۔یعنی کم از کم یہ تین امیدوار تو اسد الدین اویسی کو مل ہی سکتے تھے ۔لیکن مسلمانوں کو اتنا خوفزدہ کیا گیا تھا کہ انہوں نے کوئی رسک لینا گوارہ نہیں کیا ۔ بہر حال بی جے پی مخالف پارٹیوں کی شاندار جیت پرمبارکباد تو دیا ہی جاسکتا ہے ۔ مبارکباد اس لئے بھی کہ مجلس فیکٹر کی وجہ سے بھی مسلم امیدواروں اور جیتنے والوں کی تعداد بڑھی ہے ۔اس بار مسلم ایم ایل اے کی تعداد 24 ہے جبکہ 2010 میں یہ تعداد 19 تھی۔
عظیم اتحاد کی اس جیت پر سب سے پہلے اروند کیجریوال نے ٹوئٹ کرکے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تاریخی جیت ہے ۔لیکن اس طرح کی جیت کو تاریخی قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ بی جے پی نے ایک چوتھائی ووٹ حاصل کیا ہے ۔اس جیت کو تاریخی جیت کا درجہ تب حاصل ہوتا جب دہلی کی طرح بی جے پی کا صفایا ہو جاتااوروہ نشان عبرت بن جاتی ۔ حالانکہ دہلی میں بھی 2013 کے الیکشن کے بعد 2015 کے الیکشن میں بی جے پی کے ووٹ فیصد میں صرف ایک فیصد کی کمی آئی تھی ۔ہاں کانگریس کا ووٹ 15 فیصد کم ہو کر عام آدمی پارٹی کو گیا ۔بی جے پی کو اس بار گرچہ سیٹوں کا نقصان ہوا ہے لیکن اسے ووٹوں کے تناسب میں فائدہ پہنچا ہے ۔ 2010 میں بی جے پی کا نتیش کے ساتھ اشتراک تھا تب اسے صرف 16.49 فیصد ووٹ ہی مل پایا تھا ۔اس بار نتیش کمار سے علیحدگی کے باوجود اسے ساڑھے چوبیس فیصد ووٹ کا مل جانا فائدہ نہیں تو اور کیا ہے ۔جو کہ اس کے لئے امید افزا ہے ۔دوسری طرف نتیش کو موجودہ الیکشن میں 16.7 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ 2010 میں انہیں بی جے پی کے اشتراک میں 22.58 فیصد ووٹ ملا تھا۔لالو پرشاد کو اس بار 18.4 فیصد ووٹ ملا ہے جبکہ 2010 میں انہیں18.84 فیصد ووٹ ملا تھا ۔کانگریس کو اس الیکشن میں 6.7 فیصد ووٹ مل پایا ہے جبکہ 2010 میں کانگریس کو 8.37 فیصدووٹ ملا تھا۔عظیم اتحاد کو اس مرتبہ ووٹوں کے تناسب میں کمی کے باوجود سیٹوں میں اضافہ صرف اس لئے ممکن ہو پایا کیوں کہ وہ متحد تھے ۔دوسری اہم بات یہ کہ اس مرتبہ کہیں سے کوئی فتویٰ جاری نہیں ہواجس سے مسلم ووٹ زیادہ منتشر نہیں ہوا ۔حالانکہ یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ مسلم ووٹ بالکل بھی منتشر نہیں ہوا ہے ہاں اتنا ضرورہوا ہے کہ مسلم ووٹروں کی اکثریت نے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے لئے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے ۔
بی جے پی کے اتحادی ہم (مانجھی )کا وجود تو تازہ تازہ تھا لیکن لوک جن شکتی پارٹی کو اس بار 4.8 فیصد ووٹ ملا اور اس نے تین سیٹ حاصل کی جبکہ 2010 میں 6.74 فیصد ووٹ کے ساتھ تین سیٹ ملی تھی ووٹوں کے تناسب کا نقصان تو اسے بھی ہوا لیکن سیٹ کی پوزیشن برقرار رہی ۔مانجھی جو نتیش کمار سے بغاوت کرکے بی جے پی خیمہ میں چلے گئے تھے انہیں 2.2 فیصد ووٹ اور صرف ایک سیٹ پر سمٹ جانا پڑا ۔یہ نقصان نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ نقصانا اسے ہی ہوتا ہے جس کے پاس کھونے کے لئے کچھ ہو مانجھی کے لئے جو کچھ تھا وہ بس پانا تھا کھونے کے لئے کچھ نہیں تھا۔کل ملا کر اتحاد میں رہنے والوں کو ووٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا لیکن بی جے پی نے اپنے ووٹ بینک کے تناسب میں اضافہ کیا ہے ۔اس لئے یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ گائے اور ریزرویشن پر مودی کے بیان کہ وہ پسماندہ طبقات کے ریزرویشن کے تحفظ کے لئے اپنی جان کو بھی قربان کردیں گے فائدہ پہنچایا ہے ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو ساڑھے نو فیصد پسماندہ طبقات کا ووٹ انہیں نہیں ملتا ۔یہ ایک خطرناک رجحان ہے ۔عام طور پر جیت ملنے کے بعد لوگ اس طرف توجہ نہیں دیتے وہ بس جیت کے نشہ میں رہتے ہیں ۔اتحاد آج ہے کل نہیں بھی ہو سکتا ہے لیکن پسماندہ طبقات کو بی جے پی میں جانے سے روکنا وقت کی ضرورت ہے ۔ہندوستان میں ہونے والے ہزاروں فسادات بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ برہمن لابی نے مسلمانوں کی بربادی کے لئے ہمیشہ پسماندہ طبقات کا استعمال کیا ہے ۔ بی جے پی یا مودی کی اس ہزیمت سے ایسا نہیں ہے کہ وہ نچلا بیٹھ جائیں گے ۔وہ نئی کہانی نئے ستم اور اس کے نئے طریقے ایجاد کریں گے ۔بی جے پی کو چونکہ اس بار دانشور طبقہ کے سخت احتجاج نے اندرون ملک ہزیمت اور بیرون ملک رسوا کیاہے ۔اس لئے اس کی کوشش ہو گی کہ دابھولکر ،پنسارے اور کلبرگی کے قتل کے بعد گائے کے بہانے مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کے بعد ان کے سخت احتجاج نے پوری دنیا کو متوجہ کیا ۔اور موجودہ ہار میں اس کا بھی کچھ نہ کچھ ہاتھ ضرور ہے ۔اس کے اثرات کو وہ زائل کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں گے ۔اس کے لئے آر ایس ایس اور اس کی سیاسی ونگ بی جے پی اور ان کے ہمنوا کچھ نہ کچھ کھچڑی ضرور پکائیں گے اور وہ کھچڑی کیا ہو گی اس کے بارے میں غور کرنے اور ایسے ہر آنے والے طوفان کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلے سے تیار رہنے کی ضرورت ہے ۔
نہال صغیر 
بلاد آدم ۔ضلع ویشالی ۔بہار 
موبائل :9987309013

0 comments:

ہندوستانی مسلمانوں کیلئے مولانا آزاد کی رہنمائی (ایک تقریر جو نشان راہ ہے)

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

ہندوستانی مسلمان ایک ایسی ملت کا نام ہے جس کا ماضی عنوان ترقی وکمال ہے ، جس کاحال بے حال ہے اور جس کا مستقبل نہیں معلوم کہ نام عروج ہے یا نشان زوال ہے ۔آئیندہ کے بارے میں یقین معدوم ، امید موہوم اور تقدیر غیر معلوم ہے ۔ ماضی درخشان تھا جو گذر گیا‘ مستقبل پردہ غیب میں ہے جو کچھ ہمارے بس میں ہے وہ حال ہے اور حال میں صحیح سمت میں صحیح طریقہ سے سعی عمل کرنے پر روشن مستقبل کاانحصار ہے‘ صحیح سمت میں اور صحیح اندازمیں کوشش کس طرح کی جائے اس کا انحصار چند چیزوں پر ہے‘ ایک یہ کہ اپنے حالات سے متعلق مکمل شعور اور آگہی اور دوسرے اپنے مذہب کی روح سے مکمل واقفیت اور پھر صحیح منصوبہ بندی اور پھر عزم عمل۔
جہاں تک حالات کا تعلق ہے تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندوؤں کی بعض احیائی تحریکوں نے مسلمانوں کو معاشی سیاسی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ رکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔ مسلمانوں کا وجود بھی انہیں برداشت نہیں‘ مذہب اورتہذیب کو برداشت کرنے کا سوال تو بعد میں آتاہے‘ مسلم مکت بھارت ان کا نعرہ ہے بابری سے دادری تک افسوسناک واقعات کا جانگسل سلسلہ ہے، گجرات کے فسادات حکومت کی نگرانی میں کرائے گئے تھے اور آج وہ حکومت مرکز میں بھی حکمراں ہے جس کی تشکیل کا بنیادی عنصر مسلمان دشمنی ہے ۔ اس ملک میں مسلمانوں کے مسائل کا تعلق بڑی حد تک اسی رویہ سے ہے جواحیائی تحریکوں نے اختیار کر رکھا ہے‘ چنانچہ مسلمانوں کی تہذیب ‘ ثقافت نعلیمی اداروں ‘ زبان اور پرسنل لا کو خطرہ اسی طرح کی تحریکوں سے ہے اور یہ عناصر مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ 
یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ جب ہم ہندووں کی احیائی تحریکوں کانام لیتے ہیں تو اس سے ہماری مراد پوری ہندو قوم نہیں ہوتی ہے‘ ہندو قوم کی اکثریت احیائی ذہنیت نہیں رکھتی اور تمام ہندو مسلمانوں سے نفرت نہیں کرتے‘ بہت سے غیر مسلم ادیبوں نے دادر ی کے مسلم کش حادثہ پر احتجاج کرتے ہوئے ساہتیہ اکیڈمی کا اوارڈ اور پدم شری اوارڈ واپس کردیا ، یہ اہم واقعہ مرغ بادنما کی حیبثیت رکھتا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انصاف اور شرافت اس ملک میں زندہ ہے ، فرقہ پرستوں کو ادھر کچھ عرصہ سے فربہی ملی ہے لیکن یہ موٹاپا جسم کا ورم ہےٍ جو صحت مندی کی علامت نہیں، فرقہ پرستی کے غبارہ کی ہوا کچھ عرصہ میں نکل جائے گی، زیادہ تر ہندواور اس ملک اقلیتیں اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ہندوستان کی سرزمین مختلف نسلوں اورتہذیبوں اور مذہبوں کے قافلہ کی منزل رہی ہے‘ سیکڑوں سال سے ہندوستان کا وجود اس تکثیریت کے سانچہ میں ڈھل چکاہے اور اس سانچہ کو نہ توڑا جاسکتاہے اور نہ بدلا جاسکتاہے‘ صدیوں سے ہندوستان کی تقدیرمیں یہی رنگا رنگی اور یہی بوقلمونی ہے‘ ہندووں کی ایک اقلیت نے، اس حقیقت کو نہیں سمجھا جس طرح سے مسلمانوں کی ایک اقلیت نے اس صورت حال سے خود کو ہم آہنگ نہیں کیا‘ حال کے اس مجمل اور مختصر تجزیہ کے بعد اب سوال یہ پیدا ہوتاہے مذہب اسلام کی روح ان حالات میں کیا رہنمائی کرتی ہے اور اس تہذیبی اور مذہبی بو قلمونی میں ہندوستانی مسلمانوں کو کیا پیغام دیتی ہے‘ میرا خیال یہ ہے کہ مولانا آزاد کی بصیرت نے ان حالات میں اسلام کی روح کو سمجھتے ہوئے اور ہندوستان کے مخصوص مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے بہتر رہنمائی کی ہے اور یہ رہنمائی مولانا آزادکی ایک تقریر میں زیادہ صاف نظر آتی ہے‘ مولانا آزاد کہتے ہیں:
’’میں مسلمانن ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتاہوں کہ مسلمان ہوں ‘ اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثہ میں آئی ہیں‘ میں تیار نہیں کہ اس کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تعلیم،اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم وفنون ‘ اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہیکہ اس کی حفاظت کروں‘ بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں ایک خاص ہستی رکھتا ہوں‘ اور میں برداشت نہیں کرسکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے‘ لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتاہوں‘ اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی‘ وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے‘ میں فخر کے ساتھ محسوس کرتاہوں کہ میں ہندوستانی ہوں‘ میں ہندوستان کی ایک اور ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے ‘ میں اس کی تکوین کاایک ناگزیر عامل ہوں‘ میں اس دعوی سے کبھی دست بردار نہیں ہوسکتا‘‘۔
(خطبات آزاد مرتبہ شورش کا شمیری)
کیا ہندوستانی مسلمانوں کے لئے یہ صحیح ترین رہنمائی نہیں ہے جو اسلام کی روح سے واقفیت کے ساتھ حالات کے شعور اور تجزیہ پر مبنی ہے‘ کیا آج کے حالات میں ایک محب وطن مسلمان کا بعینہ یہی موقف نہیں ہونا چاہئے جس کا مولانا آزاد نے اپنے خطبہ میں ذکر کیا ہے ؟
اگر مولانا آزاد کی تقریر کا یہ اقتباس اہم ہے تو اس کی اہمیت کا احساس کتنے لوگوں نے کیاہے‘ یہ اقتباس اس قابل ہے کہ خوبصورت طریقہ سے اسے لکھوایا جائے‘ چھپوایا جائے ، تقسیم کیا جائے ، آسمان سے برسایا جائےٍ اور گھروں میں اور ڈرائنگ روم میں دیوراروں پر فریم کرواکے اسے آویزاں کیا جائے تاکہ صحیح راستہ کا تصور ذہن اور دماغ میں واضح رہے اور پورے طور پر راسخ ہوجائے‘ مولانا آزاد نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اسلام کے چھوٹے سے چھوٹے جز سے وہ دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ۔ مسلمانوں کے لئے کسی ملک کی طرف ہجرت نہ کرنے اور ہندوستان میں قیام کرنے کے فیصلہ کی یہ نظریاتی اسا س ہے۔ یعنی مسلمانوں نے اس ملک میں رہنے کا فیصلہ اس یقین دہانی پر کیا ہے کہ کوئی ان سے ان کا عقیدہ نہ چھینے گا اور کوئی ان پر اپنی مشرکانہ تہذیب مسلط نہ کرے گا ہندوستان کے دستور نے اس کی یقین دہانی کی ہے۔مسلمانوں نے طے کیا ہے کہ وہ گھٹنے ٹیک دیں گے اور ہر حال میں دستور کی حفاظت کریں گے اور ہندوستان کی غالب اکثریت بھی یہی چاہتی ہے اور فرقہ واریت اور جارحیت سے نفرت کرتی ہے۔دستور کو بچانے کی جدوجہد میں اقلیتیں بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ شریک ہوں گی اور اکثریتی طبقہ کے لوگ بھی بڑی تعداد میں شریک ہوں گے ۔ مسلمانوں کے لئے یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ غیر مسلم اکثریت کے ساتھ ان کی زندگی نوشتہ تقدیر بن چکی ہے‘ وہ چاہیں یا نہ چاہیں ان کو اس ملک میں اسی حال میں رہنا ہے‘ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی طرح وہ اس ملک کی آبادی کا ناقابل انکار حصہ ہیں‘ یہی قدرت کا فیصلہ ہے‘ اور اسلامی علوم کے ایک معمولی طالب علم کی حیثیت سے میں یقین کے ساتھ کہتاہوں کہ قدرت کا یہ فیصلہ عظیم امکانات کا حامل ہے‘ بشرطیکہ مسلمان اپنے اندر وہ صفت پیدا کرلیں ان کامذہب جس سے متصف ہونے کی انہیں دعوت دیتا ہے‘ مسلمانوں کو حیرانی اور برگشتگی کے عالم سے بلاتاخیر باہر آجانا چاہئے ‘ اور ایک محب وطن مسلمان کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہئے‘ مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ اور جارحانہ رویہ معلوم‘ بلکہ واقعات سے ثابت، اور روز روشن کی طرح عیاں ،لیکن مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ مسلمان اپنے مسلمان ہونے کی ذمہ داریوں کو اس ملک میں ادا نہیں کر رہے ہیں‘ کیا مسلمانوں نے رکاوٹوں کے باوجود تعلیمی اور معاشی پسماندگی کو دور کرنے کی پوری کوشش کی ہے؟کیا مسلمانوں نے اس ملک کے دوسرے مظلوم اور محروم طبقہ کے ساتھ خیر خواہی خیرسگالی خدمت ، اور توحید اور مساوات کے عقیدہ کے تعارف کے لئے روابط قائم کئے ہیں ؟کیا ہم نے مساوات کا عملی نمونہ ان کے سامنے پیش کیا ہے ، کیا ہمارے اعمال وکردار میں وہ خوبصورتی پیدا ہوگئی ہے اسلام نے جس کا ہم سے مطالبہ کیاہے ؟کیاہمارے اندر وہ اخلاقی خصوصیات موجود ہیں جن کا تجربہ کرکے برادران وطن یہ محسوس کریں کہ مسلمان ایک شریف انسان اوربہتر پڑوسی اور اچھا شہری ہوتاہے‘ اس کا پڑوسی ہونامحلہ کے لوگوں کے لئے اطمینان کی بات ہوتی ہے‘ اس کو اپنے کارخانہ میں اور اپنی کمپنی میں ملازم رکھنا کا رخانہ اورکمپنی کی ترقی کی ضمانت ہوتی ہے‘ کیونکہ وہ دوسروں سے زیادہ فہیم‘ مخلص ‘ محنتی‘ کارگذار اور امانت دار ہوتاہے‘ کیا ہم مسلمانوں نے خدمت ایثار اور قربانی اوراخلاقی بلندی کا کوئی نقش قائم کیاہے؟ ‘ ہم مسلمانوں کا حال بحیثیت مجموعی اقبال کے اس شعر کے مرادف ہے:
جس کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو
کاش کہ ایسا ہوتاکہ برادران وطن کے سامنے مسلمانوں کی بہت اچھی تصویر ہوتی‘ وہ سمجھتے کہ مسلمان بے ایمانی اور کام چوری نہیں کرسکتاہے‘ انصاف اور سچائی کا راستہ اسے پسند ہے‘ انسانی اخلاقی اور ورحانی اقدار کے اعتبار سے وہ دوسروں سے بلند ارو زیادہ ممتازہے‘ وہ مسجد میں عبادت بھی کرتاہے اور ایمان داری کے ساتھ کام کرنے کو بھی عبادت کا درجہ دیتاہے‘ وہ کمزوروں کا مددگار اور غریبوں کا غم خوار ہوتاہے۔خدمت خلق اس کی پہچھان ہے، وہ شریف بااخلاق اور تعلیم یافتہ ہوتا ہے ۔وہ مذہبی تنگ نظری سے دور ہوتا ہے اور تمام انسانوں کو خدا کا کنبہ سمجھتا ہے، لیکن اسی کے ساتھ اسے اپنی مذہبی شناخت پر اصرار بھی ہے، اوراس سے بھی زیادہ یہ کہ وہ اپنے مذہب کو اپنے ہم وطنوں کے لئے سوغات نجات سمجھتا ہے ۔ اور حکومت میں ان لوگوں کو بر سراقتدار لانے کی کوشش کرتا ہے جو منصف مزاج ہوں اور مذہبی تنگ نظری سے دور ہوں اور ہندوستان کے دستور کی روح سے متفق ہوں۔مسلمانوں کو اس ملک میں اپنی یہ تصویر بنانی ہوگی اور مولانا آزاد کے مبنی بر اعتدال اور مبنی بر روح اسلام پیام کو ہر گھر ،ہر دیوار ود رہر فردوبشر اور تمام بحر وبر تک پھیلانا ہوگا ۔آئے ہم عہد کریں کہ ہمیں اس کام کو کرنا ہے ۔
مولانا آزاد کا جو اقتباس اوپر نقل کیا گیاہے وہ مسلمانوں کے لئے اس ملک میں صحیح ترین راستہ ہے جو اسلام کے گہرے مطالعہ پر مبنی ہے‘ اوراسی کے ساتھ گرد وپیش کے حالات کے گہرے تجزیہ پر اس کی اساس ہے‘ مولانا آزاد کے اس پیغام کو ملک اور ملت میں عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان کا دستور بہت اچھادستور ہے۔ اسی دستور کی روح ہے جس کی بدولت بہت دیر سے سہی آزاد ہندوستان میں مولانا آزاد کے نام سے اردو کی ایک یونیورسیٹی قائم ہوسکی ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ اس ملک میں دیر سویر باہمی رواداری کی فضا عام ہوگی‘ تلخیوں اور کدورتوں کا خاتمہ ہوگا ، مولانا آزاد اور جواہر لال نہروکے طرز فکر کا بول بالا ہوگا، یہ دو علامتی نام ہیں جو سیکولرزم کے تانے بانے کی حیثیت رکھتے ہیں ، یہ تار حریر دورنگ ہیں جس سے خوبصورت قبائے وطن تیار ہوتی ہے اور اس خوبی اور خوبصورتی کے بغیر ہندوستان کی ہمہ جہت ترقی ممکن ہی نہیں ہے اور نہ امن وآشتی کا ماحول بن سکتا ہے‘ فیض احمد فیض کی طرح ہمیں بھی انتظار ہے
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مدارتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
09000018291

0 comments: