featured

ہندوستان میں انسانی جان کے تئیں سیاست دانوں اور مقتدر طبقہ کی بے حسی

12:47 PM nehal sagheer 0 Comments


نہال صغیر

انسانی جان کی قدر و قیمت اپنی جگہ سب سے زیادہ اہم ہونے کی وجہ سے معمولی خطرہ سے بھی احتیاط برتنی کی کوشش کی جاتی ہے ۔دنیا کے بیشتر ملکوں نے اس کے لئے اپنے اپنے قوانین وضع کر رکھے ہیں ۔ ایک دوست کا ہائی فیشن جیولری کا کاروبار ہے جو کہ ایکسپورٹ ہوتا ہے ۔ وہ بتاتا ہے کہ اس کے بنائے ہوئے جیولری میں معمولی سا بھی کہیں کوئی تار نکلا ہوا ہو جس سے صارف کو معمولی سی بھی خراش آسکتی ہو تو وہ کوالٹی کنٹرول میں پاس نہیں ہو پاتا ۔اس نے بتایا تھا کہ اگر ایسا کوئی مال چلا گیا اور صارف کے ساتھ ایسا ہو گیا جس سے اس کے جسم میں معمولی خراش آگئی تو اسے ہزاروں ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے ۔یہ بات امریکہ اور یوروپ کی ہے ۔گجرات فسادات کے وقت بھی ایک بات کہیں رپورٹ میں پڑھی تھی کہ مذکورہ فسادات کو بین الاقوامی پیمانے پر شہرت کی وجہ یہ تھی کہ گجرات میں آئے دو برطانوی شہری بھی مارے گئے تھے ۔ لہٰذا برطانیہ نے اپنے شہریوں کی موت پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور اسے اتنی شہرت دی کہ نریندر مودی کو تاوقتیکہ وزیر اعظم نہ بن گئے ویزا نہیں ملا ۔یہ ان ممالک کا انسانی جان یا یہ کہہ لیں اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے تئیں حساسیت کا معیار ہے کہ ان کی تکالیف کو معاف نہیں کرتے ۔دوسری جانب ہمارا ملک ہے جہاں انسانی جانوں کی کوئی قدر قیمت نہیں ہے۔یہاں گائے کیلئے انسانوں کا خون بہایا جاتا ہے ۔ پوری دنیا کی سیر کرلیجئے اس کا مطالعہ کرلیجئے لیکن ہندوستان کے علاوہ اور کوئی دوسرا ملک نہیں پائیں گے جہاں انسانوں پر جانوروں کو مقدم رکھا جاتا ہو ۔پھر بھی ہمارے وزیر اعظم دنیا بھر میں ہندوستانی روایت اور اس کی انسان دوستی اور بھائی چارگی کا ڈھنڈورہ پیٹتے پھر رہے ہیں ۔دنیا ہماری احمقانہ حرکتوں پر ہنس رہی ہے لیکن ہم ہیں کہ آنکھیں بند کرکے اپنی پیٹھ تھپتھپا نے میں مصروف ہیں ۔روز کوئی نہ کوئی حادثہ ہمارا منتظر رہتا ہے ۔ ان سانحوں اور حادثوں میں سینکڑوں اور ہزاروں لوگ مرجاتے ہیں لیکن ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ بلکہ الٹا ہمارے سیاست داں جس میں سی ایم اور پی ایم بھی شامل ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ کیا اب ہم آپ کے بچوں کو بھی پالیں گے ؟ یا اخلاق کے دادری میں بے رحمانہ قتل پر پی ایم کہتے ہیں کہ اس میں ہمارا کیا قصور ؟ یہ ہے ہماری حساسیت اور انسانی جانوں کے تئیں ہماری سوچ ۔
ابھی دو روز قبل ہی بھینڈی بازار میں ایک مخدوش بلڈنگ گرگئی ۔جس میں دو درجن سے زائد افراد کی موت واقع ہو گئی ۔ یوں تو وزیر اعلیٰ نے مرنے والوں کے رشتہ داروں سے ہمدردی جتائی اور فوری طور پر پانچ پانچ لاکھ روپئے معاوضہ دینے کا وعدہ کیا ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے شہریوں کی زندگی کو اتنا بے وزن کیوں کردیا ہے کہ آئے دن کے حادثات سے بھی ہم بیدار نہیں ہو تے ۔بھینڈی بازار کی بلڈنگ مخدوش تھی جیسا کہ خبروں میں بتایا جارہا ہے کہ اس کے مکینوں کو خالی کرنے کا نوٹس دیدیا گیا تھا ۔ ہمیں اس بحث میں نہیں الجھنا ہے کہ اس بلڈنگ کے مالکانہ حق رکھنے والے کتنے ذمہ دار ہیں اور حکومت کا محکمہ کتنا ؟ ہمارا سوال صرف یہ ہے کہ عمارت کو مخدوش قرار دیئے جانے کے باوجود لوگ باگ موت کے سائے میں اس میں کیوں رہنا پسند کرتے ہیں ؟ کیا وہ شوق سے ایسا کرتے ہیں ؟ جہاں تک ہمارا مشاہدہ ہے کہ انسان کو اپنی جان سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے تقریبا یہی مشاہدے لوگوں کے بھی ہوں گے ۔ اگر عمارت کو خطرناک قرار دیئے جانے کے باوجود کوئی وہاں رہتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی کوئی ایسی مجبوری ہے جس کی وجہ سے وہ کہیں دوسری جگہ نہیں جاسکتا ۔ان مجبوریوں میں سب سے اہم مجبوری ہے پیسے کی کمی ۔آج کے دور میں گھر بنانا یا چھوٹا سا کمرہ یا ایک فلیٹ لینا انتہائی مشکل کام ہو چکا ہے ۔ممبئی جیسے شہروں میں تو اور بھی مشکل ہے کہ جہاں ایک دو کمروں کا ایک فلیٹ اتنی رقم میں آتا ہے جتنے میں بہار و یوپی میں ایک بہترین بنگلہ تعمیر ہو جائے ۔یہ حکومت جو پانچ یا دس لاکھ مرنے کے بعد دینے کا اعلان کرتی ہے ۔یہی رقم وہ ان کے زندہ رہتے ہوئے خرچ کرکے ان کے مکان کی مرمت کرادے یا ان کے کیلئے متبادل رہائشی انتظامات کرادے تو انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو اور عوامی ذرائع اور وسائل کی جو کھپت حادثات کی صورت میں ہوتی ہے وہ بھی بچے ۔ حکومت کے ڈھلمل رویے سے جانے کیوں کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے شاید فیملی پلاننگ کا یہ نیا فارمولہ ڈھونڈ نکالا ہے ۔ کیوں کہ مسلمان اور پسماندہ طبقات خاندانی منصوبہ بندی پر عمل نہیں کرتے ۔ اس لئے کہیں مخدوش بلڈنگوں میں دب کر،کہیں سیلاب میں سینکڑوں افراد کے بہہ جانے سے ، کہیں کسی بابا کے سماگم میں بھگدڑ میں درجنوں بھکتوں کو مار کر اور کہیں آکسیجن کی کمی سے بچوں کو ماردیا جاتا ہے تاکہ خاندانی منصوبہ بندی کو اس طرح پورا کیا جاسکے ۔ ہو سکتا ہے کہ میرا قیاس غلط ہو اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسے غلط ہی رہنے دے لیکن حکومت بتائے کہ اس کی تساہلی عدم دلچسپی اور انسانی جانوں کے تئیں حساسیت کی کمی کیا ہمیں ایسا سوچنے پر مجبور نہیں کررہی ہے؟
آخر ایسا کیوں ہے کہ ہمارے ساتھ ہمارے سیاست داں ایسا سلوک کرتے ہیں ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جذباتی باتوں اور جذباتوں ایشو میں بہہ جانے والے لوگ ہیں ۔ ہمیں بنیادی سہولیات کی ضرورت ہوتے ہوئے بھی ہم صرف انہی ایشو پر متوجہ ہوتے ہیں ۔ اسی لئے سیاست داں ہمارا استحصال کرتے ہیں ۔ ہمارے یہاں تعلیم ، روزگار، صحت اور معیشت کو گفتگو کا موضوع نہیں بنایا جاتا ۔ پورے ملک کو گائے ، گوبر اور گؤ موتر میں آلودہ کردیا گیا ہے ۔کسی دل جلے نے یوگی کے اس بیان کہ ’کیا اب حکومت تمہارے بچے بھی پالے گی ‘ پر کہا کہ نہیں ہم جانتے ہیں کہ تم گائے کو پالنے کیلئے آئے ہو ۔ اس طرح کے اندوہناک واقعات پر یوگی کا غیر ذمہ دارانہ بیان کوئی پہلا یا آخری بیان نہیں ہے ۔ اس سے قبل بھی اس طرح کے بیانات آتے رہے ہیں اور آپ یقین رکھیں کہ جس طرح سے ہم خود کو جذباتی مسائل میں الجھا لیتے ہیں آئندہ بھی اسی طرح کے غیر سنجیدہ بیانات کی توقع رکھیں ۔ واجپئی کی وزارت عظمیٰ کے دور میں اڑیشہ میں بھوک سے آدیباسیوں کی موت پر جب سوالات کھڑے ہوئے تو اٹل بہاری واجپئی نے کہا تھا کہ ’بھوک سے نہیں بلکہ زہریلی جڑی بوٹی کھانے سے ان کی موت ہوئی ہے ‘۔ لیکن واجپئی سے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا کہ آخر انہوں نے یہ زہریلی جڑی بوٹی کیوں کھائی ؟ ظاہر سی بات ہے کہ انہیں کھانے کو جب اناج کا دانہ نہیں ملا تو انہوں نے اپنی بھوک مٹانے کے لئے جنگلی جڑی بوٹیوں کا سہارا لیا ۔ ہماری نظر میں بھی اور میں سمجھتا ہوں دیگر افراد کی نظر میں بھی واجپئی کی قدر بڑھ جاتی اگر وہ اس کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے کہ ’ہمیں افسوس ہے کہ میرے دور حکومت میں کئی انسان محض بھوک کی وجہ سے مر گئے ‘۔ لیکن یہ خوبی جن کے بزرگوں میں پائی جاتی ہے اس کو تو عرصہ سے بدنام کیا جارہا ہے ۔ جس قوم نے اس ملک کو سونے کی چڑیا بنایا ۔ دنیا میں عزت اور مقام عطا کیا ۔ ایک ذلیل اور احسان فراموش طبقہ ان کی احسان مندی کے بجائے بڑی ڈھٹائی سے جھوٹ بول کر اس کے بزرگوں کی شخصیت کو داغدار کرنے کی کوشش میں ہے ۔ اب ایسے لوگوں سے اس کے سوا اور کیا توقع کی جائے ۔ بجائے اس کے کہ جس کے بچے آکسیجن کے بغیر مر گئے ان کے زخموں پر ہمدردی و شفقت کا مرہم رکھنے کہ دلوں کو توڑنے اور اس کی غربت اور مجبوری کا مذاق اڑانے والا بیان دے ۔ اس وزیر اعلیٰ کو یہ بھی نہیں پتہ شاید کہ حکومتوں کے محکموں میں ایک محکمہ اطفال و خاندانی بہود کا بھی ہوتا ہے اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ وہ کسی ملک یا قوم کی مستقبل کی ضمانت ہوتے ہیں ۔یہ بہبودگی کے کام کوئی سی ایم یا پی ایم اپنی دولت سے نہیں کرتا بلکہ وہ عوام کے محنت کی کمائی سے نکالے گئے ٹیکس سے پورا کیا جاتا ہے ۔ جس پر یہ پی ایم ، سی ایم اور سیاست داں پر تعیش زندگی گزارتے ہیں ۔ عوام نے ایسے جاہلوں اور نکموں کو منتخب کیا ہے تو اس کا خمیازہ بھی وہی بھگتیں گے ۔ کوئی دوسرا نہیں آئے گا ۔ اگر غلطی کا احساس ہو جائے تو اگلے انتخاب میں ایسے جاہل ، مغرور اور نکموں سے ملک کو بچالیجئے ۔ تاکہ وہ سونے کی چڑیا والی حالت پر واپس آسکے ۔

0 comments: