featured
نہال صغیر
گوری لنکیش :رام راج کی شکار
نہال صغیر
بنگلور میں گوری لنکیش کو بھی برہمنزم
یا ہندوتوا کے سیاہ چہروں کو عوام کے سامنے لانے کی سزا ددے دی گئی ۔ انہیں
قتل کردیاگیا۔ان کے قتل پر پورے ملک کی صحافی برادری نے بھرپور احتجاج درج
کیا ۔ لیکن کرناٹک کے وزیر اعلیٰ کے بیان میں وہ سختی نہیں ملی جو کہ ایسے
بزدلانہ اور دہشت گردانہ کارروائی کے بعد ہونی چاہئے ۔ انہوں نے رپورٹ
منگوائی ہے اور شاید تفتیش کے بھی احکام دیئے جاچکے ہیں ۔کرناٹک میں ایسے
کئی قتل کے واردات انجام دیئے جاچکے لیکن اس کی تفتیش کرکے قاتل کو یا اس
گروہ کو جو اس میں ملوث ہے کو عبرتناک سزا نہیں دی گئی نتیجہ ایک اور قتل
کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔ گوری کے قتل بعد ہر اس صحافی کی پیٹھ میں
ٹھنڈی لہر کا دوڑ جانا یقینی ہے جو ظلم کو بے نقاب کرنے اور سفید پوش
بھیڑیوں کو عوام کے سامنے لانے میں مصروف کار ہیں ۔ لیکن جن لوگوں نے صحافت
کو ایک مشن کے طور پر اپنایا ہے وہ کب اس کی پرواہ کرتے ہیں کہ ان کی کس
تحریر کا کا بہانہ بنا کر ان کی زندگی کا چراغ گل کردیا جائے ۔ مجھے تو
محسوس ہوتا ہے کہ ایسے بزدلانہ قتل سے بھلے ہی کچھ دیر کیلئے سنسنی کی سی
کیفیت پیدا ہو جاتی ہو لیکن ہم پھر اگلے ہی لمحے اس بات کا اعادہ کرتے ہیں
کہ سچائی کو عام کرنے اور جھوٹوں کی مکاری کو سب کے سامنے لانے کے مشن سے
کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ جسے جو کچھ کرنا ہے کرلے ۔خواہ ایسے صحافیوں کو
سرکاری مشنری کے ذریعہ پریشان کیا جائے یا گوری لنکیش کی طرح خاموش کردیا
جائے ،مشن تو جاری رہے گا۔
آزاد ہندوستان ،جس کے بارے میں ہمارے اکابرین سے لے کر آج کے جدید دیش بھکت تک کا یہ کہنا ہے کہ اس جیسا پرامن ملک دنیا میں کہیں نہیں ہے نیز ہم جتنا یہاں محفوظ ہیں کہیں اور نہیں ۔ممکن ہے کہ وہ لوگ ایسا کہنے میں حق بجانب ہوں ۔یا ان کے محدود تصور اور وطن پرستی کے نشے نے ان سے اس طرح کی جذباتی باتیں کہلوائی ہوں ۔لیکن یہ کوئی ایک دن کی یا ایک بار کی کہی ہوئی بات نہیں ہے ۔یہ مسلسل کہی جاتی ہے ۔لیکن یہ ان لوگوں کے ذریعہ کہی جاتی ہیں جو ایک خاص نظریہ رکھتے ہیں ۔ہم جب غور کرتے ہیں تو کئی بار ہمیں یہ سوچنا پڑتا ہے کہ یہ ملک کس نوعیت سے دنیا کا سب سے پرامن خطہ ہے ۔اس ملک میں بھی کئی ریاستوں میں مزاحمت اور پرتشدد تحریک جاری ہے ۔اس کے علاوہ یہاں زنا بالجبر اور قتل عام کی وارداتیں عام ہیں ۔میں نے دو سال قبل کی اقوام متحدہ کی رپورٹ دیکھی ہے جو کہ دنیا کے مختلف خطوں میں صحافیوں کی جان کو ہونے والے خطرات اور ان کی اموات کے تعلق سے تھی ۔عراق اور شام میں بھی پندرہ کے آس پاس صحافیوں نے اپنی جانیں قربان کیں کیوں کہ وہ ممالک جنگ زدہ خطہ میں شمار ہوتی ہیں اس لئے ان میں سے اکثر جنگوں کے راست رپورٹنگ کے دوران ہلاک ہوئے ۔جبکہ ہمارا ملک ہندوستان پرامن ہے لیکن یہاں اس پرامن ملک میں پندرہ صحافیوں کا قتل ہوا ۔میں نے ابھی تک یہ چیک نہیں کیا ہے کہ ان برسوں میں ہندوستان میں کتنے صحافیوں کو اپنی پیشہ وارانہ مصروفیت کے دوران ان کے مخالفین نے قتل کیا ۔نہ ہی پارلیمنٹ میں کسی رکن نے اس تعلق سے کوئی سوال کیا کہ کتنے صحافیوں کو قتل کیا گیا ۔ہم آئے دن خبروں میں پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں کسی مافیا یا کسی سیاست داں کے سیاہ کارناموں کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی پاداش میں فلاں صحافی کو اپنی جان سے دھونا پڑا مطلب اسے قتل کردیا گیا ۔ دھمکیاں توروز کا معمول ہیں ۔ہمارے ایک ساتھی ہفت روزہ شودھن کے سابق مدیر نوشاد عثمان کو بھی برہمنی گروہ کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکی دی جاچکی ہے ۔لیکن صحافیوں کے تحفظ اور ان کی سلامتی کے تعلق سے اب تک کسی بھی حکومت نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ۔گوری لنکیش کے بزدلانہ قتل پر ایک گروپ ایک صحافی نے لکھا کہ ’’کوئی غنڈہ کسی کو تنگ کررہا ہے تو صحافی آواز بلند کرے ،نیتا عوام کی نہیں سن رہے تو صحافی آگے آئے ،کسی محکمہ میں مافیا کی گھس پیٹھ زیادہ ہو گئی تو صحافی کا قلم حرکت میں آئے ،کسی لیڈر کو عوام میں تعارف چاہئے تو صحافی کی خدمات لی جائے ،لیکن جب صحافی پر کوئی بات آتی ہے اس کو دھمکی دی جاتی یا اس کو قتل کردیا جاتا ہے تو صرف صحافی ہی میدان میں آئے وہی آواز اٹھائے ،اس کی حمایت میں سماج کے دیگر طبقات کیوں نہیں آگے آتے ‘‘۔ اس بیچارے غریب صحافی کو شاید پتہ نہیں کہ یہاں گوری لنکیش جیسی بہادر صحافیہ کو قرل کردیئے جانے پر جو یہ کہتا ہے کہ کتیا مر گئی وہ نریندر مودی کو فالو کرتا ہے ۔اس پر معذرت پیش کرنے کی بجائے ان کے ہمنوا کہتے ہیں کہ یہ کسی کیلئے کیریکٹر کی سند نہیں ہے کہ وہ نریندر مودی کو فالو کرتا ہے ۔لیکن یہی لوگ اگر ذاکر نائک کوئی ایسا نوجوان فالو کرتا ہے جو کسی معاملہ میں ماخوذ کیا جاتا ہے تو طوفان سر پر اٹھا لیتے ہیں ۔ملک میں جب تک یہ جانب داری اور حزب اقتدار کے سایہ میں غنڈہ گردی جاری رہے گی یہاں کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا خواہ دنیا میں ہم اپنے پرامن ہونے کا کتنا ہی ڈھول کیوں نہ پیٹیں ۔
آزاد ہندوستان ،جس کے بارے میں ہمارے اکابرین سے لے کر آج کے جدید دیش بھکت تک کا یہ کہنا ہے کہ اس جیسا پرامن ملک دنیا میں کہیں نہیں ہے نیز ہم جتنا یہاں محفوظ ہیں کہیں اور نہیں ۔ممکن ہے کہ وہ لوگ ایسا کہنے میں حق بجانب ہوں ۔یا ان کے محدود تصور اور وطن پرستی کے نشے نے ان سے اس طرح کی جذباتی باتیں کہلوائی ہوں ۔لیکن یہ کوئی ایک دن کی یا ایک بار کی کہی ہوئی بات نہیں ہے ۔یہ مسلسل کہی جاتی ہے ۔لیکن یہ ان لوگوں کے ذریعہ کہی جاتی ہیں جو ایک خاص نظریہ رکھتے ہیں ۔ہم جب غور کرتے ہیں تو کئی بار ہمیں یہ سوچنا پڑتا ہے کہ یہ ملک کس نوعیت سے دنیا کا سب سے پرامن خطہ ہے ۔اس ملک میں بھی کئی ریاستوں میں مزاحمت اور پرتشدد تحریک جاری ہے ۔اس کے علاوہ یہاں زنا بالجبر اور قتل عام کی وارداتیں عام ہیں ۔میں نے دو سال قبل کی اقوام متحدہ کی رپورٹ دیکھی ہے جو کہ دنیا کے مختلف خطوں میں صحافیوں کی جان کو ہونے والے خطرات اور ان کی اموات کے تعلق سے تھی ۔عراق اور شام میں بھی پندرہ کے آس پاس صحافیوں نے اپنی جانیں قربان کیں کیوں کہ وہ ممالک جنگ زدہ خطہ میں شمار ہوتی ہیں اس لئے ان میں سے اکثر جنگوں کے راست رپورٹنگ کے دوران ہلاک ہوئے ۔جبکہ ہمارا ملک ہندوستان پرامن ہے لیکن یہاں اس پرامن ملک میں پندرہ صحافیوں کا قتل ہوا ۔میں نے ابھی تک یہ چیک نہیں کیا ہے کہ ان برسوں میں ہندوستان میں کتنے صحافیوں کو اپنی پیشہ وارانہ مصروفیت کے دوران ان کے مخالفین نے قتل کیا ۔نہ ہی پارلیمنٹ میں کسی رکن نے اس تعلق سے کوئی سوال کیا کہ کتنے صحافیوں کو قتل کیا گیا ۔ہم آئے دن خبروں میں پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں کسی مافیا یا کسی سیاست داں کے سیاہ کارناموں کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی پاداش میں فلاں صحافی کو اپنی جان سے دھونا پڑا مطلب اسے قتل کردیا گیا ۔ دھمکیاں توروز کا معمول ہیں ۔ہمارے ایک ساتھی ہفت روزہ شودھن کے سابق مدیر نوشاد عثمان کو بھی برہمنی گروہ کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکی دی جاچکی ہے ۔لیکن صحافیوں کے تحفظ اور ان کی سلامتی کے تعلق سے اب تک کسی بھی حکومت نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ۔گوری لنکیش کے بزدلانہ قتل پر ایک گروپ ایک صحافی نے لکھا کہ ’’کوئی غنڈہ کسی کو تنگ کررہا ہے تو صحافی آواز بلند کرے ،نیتا عوام کی نہیں سن رہے تو صحافی آگے آئے ،کسی محکمہ میں مافیا کی گھس پیٹھ زیادہ ہو گئی تو صحافی کا قلم حرکت میں آئے ،کسی لیڈر کو عوام میں تعارف چاہئے تو صحافی کی خدمات لی جائے ،لیکن جب صحافی پر کوئی بات آتی ہے اس کو دھمکی دی جاتی یا اس کو قتل کردیا جاتا ہے تو صرف صحافی ہی میدان میں آئے وہی آواز اٹھائے ،اس کی حمایت میں سماج کے دیگر طبقات کیوں نہیں آگے آتے ‘‘۔ اس بیچارے غریب صحافی کو شاید پتہ نہیں کہ یہاں گوری لنکیش جیسی بہادر صحافیہ کو قرل کردیئے جانے پر جو یہ کہتا ہے کہ کتیا مر گئی وہ نریندر مودی کو فالو کرتا ہے ۔اس پر معذرت پیش کرنے کی بجائے ان کے ہمنوا کہتے ہیں کہ یہ کسی کیلئے کیریکٹر کی سند نہیں ہے کہ وہ نریندر مودی کو فالو کرتا ہے ۔لیکن یہی لوگ اگر ذاکر نائک کوئی ایسا نوجوان فالو کرتا ہے جو کسی معاملہ میں ماخوذ کیا جاتا ہے تو طوفان سر پر اٹھا لیتے ہیں ۔ملک میں جب تک یہ جانب داری اور حزب اقتدار کے سایہ میں غنڈہ گردی جاری رہے گی یہاں کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا خواہ دنیا میں ہم اپنے پرامن ہونے کا کتنا ہی ڈھول کیوں نہ پیٹیں ۔
0 comments: