featured

قومی مفاد میں سخت فیصلے : دل کے بہلانے کو غالب خیال اچھا ہے

3:56 PM nehal sagheer 0 Comments


نہال صغیر

موجودہ حکومت کی تین سال سے زائد کے عرصہ میں اس کی کارکردگی کا احوال یہ ہے کہ اس نے کوئی ایسا قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا ہے جس کو قومی مفاد میں قوی ترین مانا جائے بھلے ہی اس کے نتائج فی الفور بہتر نہ دکھیں لیکن جس کے مستقبل قریب میں بہتر نتائج کی امید ہو ۔انتخاب جیتنے سے قبل ان کی باتوں کا حال یہ تھا کہ بس وہ آگئے تو ملک کی ترقی ،بقا اور اس کی سلامتی کو چار چاند لگ جائیں گے ۔ ملک دنیا میں سر اٹھا کر اپنا قائدانہ رول ادا کرسکے گا۔لیکن الیکشن جیتنے اور وزیر اعظم بننے کے بعد تو ایک ایک دن کرکے ساڑھے تین سال بیتنے کو ہیں لیکن دور تک نا امیدی مایوسی ، بے روزگاری اور معیشت کی تباہی کے مناظر ہمارا منہ چڑا رہے ہیں ۔ملک کی سلامتی اور دشمن ملک خاص طور سے پاکستان کو سبق سکھانے کی بات بھی محض ہوا ہوائی ہی ثابت ہوئی ۔ چین سے حالیہ تنازعہ میں تو یہ محسوس ہوا کہ عدم تشدد پر گاندھی جی کا مذاق اڑانے والے لوگ اتنے بے بس تھے کہ گاندھی جی سے کہیں آگے انہوں نے اس کا مظاہرہ کیا اور چین کی ہر جارحیت اور ہر دشنام طرازی کا جواب انتہائی تحمل اور برد باری سے دیا گیا ۔دونوں ممالک کے درمیان کچھ سمجھوتے ہوئے ہیں اور اس کو کچھ دیسی میڈیا ہماری سفارتی جیت قرار دے رہا ہے ۔ لیکن چین کی میڈیا کو دیکھیں تو وہاں معاملہ الٹا ہی نظر آرہا ہے ۔ ابھی تک یہ صاف نہیں ہے کہ ڈوکلام پر ہم نے جو رخ اپنایا تھا اس کا انجام کیا ہوا ۔ سمجھوتہ میں کیا کیا خاص باتیں ہیں جو ہندوستان کے وقار میں اضافہ کرتی ہیں ۔ نریندر مودی کی خوبی یہ ہے کہ وہ پوری یکسوئی سے جھوٹ بولتے ہیں ۔ اس معاملے میں ان کی شخصیت منفرد ہے ۔ ان کا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے ۔بڑے نوٹوں کی منسوخی سمیت اپنے کسی بھی فیصلے پر تنقید کا جواب ان کے پاس بس اتنا ہے کہ ملکی مفاد میں سخت فیصلے لینے پڑتے ہیں ۔ اس سے آگے ان کی زبان سے کوئی دوسرے الفاظ نہیں نکلتے ۔ لیکن ان سخت فیصلوں سے قوم کو کیا فائدہ ہوا اس کی تفصیلات ان کے پاس نہیں ہے ۔حالیہ دنوں میں میانمار سے لوٹتے ہوئے ایک بار پھر انہوں نے وہی گردان کیا کہ ’’میری حکومت قومی مفاد کو سیاست سے بالا تر سمجھتی ہے ‘‘۔ پردھان سیوک صاحب کرنسی کی منسوخی کے سلسلے میں تنقید کا جواب دے رہے تھے ۔ حالانکہ نومبر 2016 کی اس تاریخی حماقت پر ان کے جتنے ہمالیائی دعوے تھے سب ایک ایک کرکے زمین بوس ہو چکے ہیں ۔ انہیں یہاں کے عوام کی کمزوری اور ان کی نفسیات کا پتہ معلوم ہو گیا ہے ۔ یہ نفسیات یا کمزوری ہے حب الوطنی کے زبانی دعوے اور ہندوتوا کے نام پر شور و ہنگامہ ۔ اس کمزوری کا وہ پورا فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ کرنسی کی منسوخی کا فائدہ انہوں نے اور ان کے ہمنواؤں نے یہ بتایا تھا کہ اس سے کالی کمائی پر قابو پانے میں کامیابی ملے گی اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے میں مدد ملے گی ۔ کالی کمائی کا معاملہ تو یہ ہے کہ ریزروبینک کوبا دل ناخواستہ بہر حال یہ اعلان کرناہی پڑا کہ اس کے پاس ننانوے فیصد نوٹ آچکے ہیں ۔ اب یہ کالا دھن کیا ہے اور کہاں ہے اس کا پتہ بتانے یا اپنی ناکامی یا حماقت کا اعتراف کرنے کی بجائے مسٹر پردھان سیوک اور ان کی ٹیم صرف یہ کہنے پر اکتفا کررہے ہیں کہ ملک کے مفاد میں سخت فیصلے لینے پڑتے ہیں ۔ اچانک نوٹ کی منسوخی سے کسی کی کمر اگر ٹوٹی ہے تو وہ اس ملک کو سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والے چھوٹے کاروباری ہیں ۔ ان میں سے اکثریت کے کاروبار مفلوج ہو چکے ہیں ۔جی ڈی پی میں ترقی کی بجائے اس میں گراوٹ آگئی ہے ۔ملک کی صنعتی پیداوار میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے ۔ اس کا لازمی انجام روزگار میں کمی کا حال یہ ہے کہ لاکھوں لوگ روزگار سے محروم ہو چکے ہیں ۔ غریب اور درمیانہ طبقہ بری طرح متاثر ہوا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کے بعد سے ابتک کی حکومتوں کا رویہ مل کی ترقی ،بقا اور اس کی سلامتی سمیت بدعنوانی سے پاک ہندوستان کی تعمیر کے معاملہ میں محض زبانی دعووں تک محدود رہا ہے ۔بی جے پی کی حکومت جس کے سربراہ مودی جی ہیں وہ دعووں کے معاملے میں حکومتوں کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں ۔جھوٹ اور چرب زبانی کے سوا نہیں کچھ نہیں آتا ۔سپریم کورٹ نے بھی انتخابات میں حصہ لیے والے امیدواروں سے متعلق ایک مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے بدعنوانی اور ایدواروں کے اثاثوں کے تعلق سے پوری معلومات فراہم نہیں کررہی ہے ۔ ظاہر سی بات یہ ہے کہ اگر موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں قدم آگے بڑھائے تو ان کی پارٹی کے نصف سے زائد مبران اس کی زد میں آجائیں گے ۔خود ان کی وزارت اور پارلیمانی ممبروں کی فہرست میں تقریبا پینتیس فیصد ارکان بدعنوان یا مجرمانہ معاملات میں ملوث ہیں ۔ایسی حکومت صرف یہ کرسکتی ہے اپنی حکومت کی شبیہ بہتر بتانے کیلئے قومی خزانے کا منہ کھول کر تشہیری کام میں جُٹی رہے گی،جیسا کہ موجودہ حکومت کررہی ہے ۔ وہ عدالت یا کسی عوامی تحریک کا سامنا کرنے کی حالت میں نہیں ہے ۔ یعنی موجودہ حکومت اور نریندر مودی کے دعوے بس وعدے ہیں وعدوں کا کیا،والی بات ہے ۔ چین کے دوروں کے درمیان پریس کیلئے جاری بیان میں یہ بات آئی کہ ہندوستان اور چین دونوں مل کر کام کریں گے ۔ چین ہندوستان کے ساتھ مل کر کام کرے یا نہیں لیکن ہندوستان تو ضرور ہی چین کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے ۔اسی لئے آر ایس ایس کی ذیلی تنظیمیں دیش بھکتی کے نام پر سادہ لوح عوام سے چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی بات کرتی ہیں تو نریندر مودی یا ان کی ریاستی حکومتیں چینی کمپنیوں سے لاکھوں کروڑ کے پرجیکٹ کا معاہدہ کررہی ہیں ۔ لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ پچیس پچاس روپئے والی چینی مصنوعات نہ خریدیں لیکن ناگپور میٹرو چین کو دیا جارہا ہے ۔شیواجی اور پٹیل کے لاکھوں کروڑ کے مجسمے چینی کمپنیوں سے بنوائے جارہے ہیں ۔ اتنی کھلی دوغلی پالیسی کے بعد بھی اگر یہاں کے لوگ بی جے پی کو ووٹ دے رہے ہیں اور انہیں ہر ریاست اور شہر میں قوی کررہے ہیں تو ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم اکیسویں صدی میں ہونے کی بجائے اٹھارہویں یا سترہویں صدی میں تو نہیں جی رہے ہیں ؟

0 comments: