featured

رفیعہ ناز کے بہانے یوگا کی باسی کڑھی میں پھر ابال

1:58 PM nehal sagheer 0 Comments



نہال صغیر

ملک کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ کاروبار معطل ہیں ۔ شرح نمو کی رفتار دھیمی ہو گئی ہے ۔ مہنگائی نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے ۔جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی ۔ چھوٹے تاجر پریشان ہیں ۔ مسٹر پردھان سیوک نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ صرف کارپوریٹ گروپ کے وزیر اعظم ہیں ۔ ساری پالیسیاں انہی کے مفاد کی نگرانی کیلئے ہیں ۔ تاجروں کے سخت احتجاج اور گجرات الیکشن کے مد نظر حکومت کی ساری اکڑ نکال دی ہے اور مجبوراً مرتا کیا نہ کرتا ایک سو ستہتر اشیاء پر جی ایس ٹی میں تخفیف کردی گئی ہے ۔موجودہ حکومت میں اول جلول فیصلوں اور پالیسیوں کے نفاذ کا خاص رجحان پایا جاتا ہے ۔ کرنسی منسوخی میں بھی انہوں نے ہر روز دو چار تبدیلیاں کیں اور اب جی ایس ٹی جو موجودہ حکومت کی گلے کی ہڈی بن چکی ہے میں بھی مسلسل تبدیلیاں اور قانونی سختی میں نرمی برت رہی ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ اس پالیسی پر عمل پیرا ہوں جس کے تحت پہلے کسی کو بھوکوں ماردیا جائے اور پھر اسے وقفے وقفے سے تھوڑی تھوڑی غذا دی جائے تاکہ بھوکا انسان بھوک کا عادی بھی ہو جائے اور اس میں اس کی سختی کا احساس بھی کم ہو جائے ۔ اسی طرح انہوں نے پہلے جی ایس ٹی کو ایسا بنا کر پیش کیا کہ عوام بلبانے لگے اور پھر ہوا کا رخ دیکھ کر دھیرے دھیرے اس میں کچھ راحت رسانی کا کام کررہے ہیں تاکہ عوام کو یہ کہنے کے لائق رہیں کہ دیکھو ہم نے تمہاری تکلیف کو محسوس کیا اور اسے کم کرنے کی کوشش کی ۔لیکن یہ بہت معمولی نسخہ ہے ۔ اس سے بھی بڑا نسخہ ان کے پاس ہے عوام کے ذہنوں کو دوسرے بے فیض مسائل میں الجھانا ۔ اس میں ان کا ساتھی ملک کا غدار میڈیا بنا ہوا ہے ۔
حالیہ حکومت جس نے اپنی میقات کے ساڑھے تین قیمتی سال خواہ مخواہ گنوادیئے ہیں نے پہلے سال میں یوگا کا ہنگامہ کھڑا کیا ۔یوگا ڈے منایا گیا اور زبردستی اسے سب پر لاگو کرنے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن زبردست عوامی احتجاج کے بعد اس کو اختیاری تو کیا گیا پر شوشے چھوڑے جاتے رہے کہ یہ نماز کی طرح ہے ۔ یا اس میں سے سوریہ نمسکار والا حصہ نکال دیا جائے تو مسلمانوں کو اس سے کوئی اعتراض نہیں ۔ایسے اور نہ جانے کتنے نکات لائے جاتے رہے ۔ یہ سب کچھ نام نہاد مولویوں اور مسلمانوں کے درمیان بکاؤ دانشور کے ذریعہ پھیلایا گیا ۔جبکہ مسلمانوں کا دو ٹوک جواب تھا ہے اور رہے گا کہ ’یوگا ہندو کلچر کا حصہ ہے ، اس لئے مسلمان اسے کسی طور بھی نہیں کرے گا ‘۔ ادھر کافی عرصہ سے یوگا پر کوئی گفتگو نہیں ہو رہی تھی ایسا لگ رہا تھا لوگ یوگا کو بھول جائیں گے ۔ معاشی بدحالی نے ان کے روز مرہ کے اخراجات کو پورا کرنے میں مشکلات پیدا کردیا تھا تو کون یہ یوگا وغیرہ کے چکر میں پڑے ۔ سادہ لوح عوام کو یہاں بیوقوف بنانا بہت آسان ہے انہیں مذہب کے نام پر من گھڑنت قصے کہانیوں اور دیو مالائی قیاسات میں الجھا دیا جائے تو وہ سب بھول بھال کر اسی میں لگ جاتے ہیں ۔رام مندر کے چراغ کا سارا تیل جل چکا ہے ۔ گائے بھی کوئی خاص کرامات دکھانے میں کامیاب نہیں ہو پارہی ہے ۔ ایک یوگا ہی ہے جسے صحت کے نام پر عوام کے ذہنوں پر تھوپا جاسکتا ہے ۔ اس میں مذہب کے ساتھ ہی صحت کا عنصر جان بوجھ کر شامل کیا گیا ہے ۔
رانچی کی رفیعہ ناز کو اس کام کیلئے منتخب کرلیا گیا ۔بقیہ کام تو الیکٹرانک میڈیا کرہی ڈالتا ہے ۔ آخر اسے بھی تو سنسنی پھیلانے کیلئے کوئی ایسی خبر ملنی چاہئے جس میں خواتین کی آزادی یا مسلمانوں کی جانب سے دیگر مذاہب کا احترام نہ کرنے جیسی کوئی بات ہو ۔سنا ہے کہ رفیعہ کسی یوگ کلاس میں یوگا سکھانے جاتی ہے ۔ ہم نے آج تک نہیں سنا تاوقتیکہ اس کے تعلق سے یہ خبر میڈیا کی زینت نہیں بنی کہ ’رفیعہ کے یوگا سے ڈر گئے مولانا ‘۔ سوچئے اس خبر کی سرخی میں کتنا گھٹیا پن ہے ۔ یہی گھٹیا پن اب ہندوستانی میڈیا کی پہچان ہے ۔ کسی کے یوگا کرنے سے کیوں کوئی مولانا ڈر جائیں گے اور اس سے مسلمانوں کو کیا لینا دینا ۔مسلمانوں نے اپنا موقف پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ وہ ہندو کلچر پر عمل نہیں کریں گے ۔ انہیں یہاں اسلامی تہذیب پر عمل پیرا رہنے کی دستوری آزادی حاصل ہے ۔ میڈیا نے رفیعہ کے بہانے پھر وہی کہانی دہرانے کی کوشش کی جو وہ ہمیشہ کرتا ہے ۔ رفیعہ کو آج تک کے نیوز روم میں روتے ہوئے بھی دکھا دیا گیا ۔ یہی نہیں یہ خبر بھی چلادی گئی کہ اس کے گھر کے باہر شدت پسند جمع ہیں اور انہوں نے اس کے گھر پر پتھراؤ بھی کیا ہے ۔ اچھی بات یہ رہی کہ ادارہ شریعہ رانچی کے سربراہ نے اس کی تردید کی اور یہ کہا کہ کوئی بھی ذاتی طور پر کسی بھی قسم کا طریقہ کار اپنانے کیلئے آزاد ہے ۔ رفیعہ کو کوئی کیوں روکے گا ۔ ہاں نصیحت کے طور پر کسی نے کچھ کہا ہو تو اس میں کیا حرج ہے کہ ہم اپنی قوم کے کسی فرد کو بتائیں کہ اس کیلئے کسی غیر مذہب کے عقیدے اور تہذیب پر عمل کرنا کیسا ہے ۔ یہاں جب سب کو آزادی ہے کہ وہ جو عقیدہ چاہے اپنائے تو اسے یہ بھی آزادی ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کرے اور اپنی قوم کو اس تہذیب سے آشنا بھی کرے ۔ تعجب ہے کہ جب رفیعہ جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو فرد کی آزادی کا مخالف طبقہ بھی اسی آزادی کی دہائی دینے لگتا ہے جس کی مخالفت کرنا اس کے نظریہ میں شامل ہے ۔
رفیعہ جیسے کردار ہمارے دشمنوں کو ہمیشہ حاصل رہے ہیں ۔ ان سے گفتگو کرنے جو لوگ ٹی وی چینلوں کو جاتے ہیں انہیں ایسے لوگوں سے نمٹنے کا طریقہ کار معلوم نہیں ہوتا ۔ وہ ٹی وی چینلوں کے لائق نہیں ہوتے وہ اپنی بھی سبکی کرواتے ہیں اور اسلام کو غلط طریقہ سے پیش کرنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں ۔ جیسے کہ ٹی وی چینل نے جب یہ پوچھا کہ کیا اسلام میں یوگا کرنا حرام ہے تو عالی جناب خاموش ہو گئے ۔ یہ خاموشی ان کی اس وجہ سے ہے کہ وہ خوف کی نفسیات میں مبتلا ہیں ۔ انہیں کہنا چاہئے تھا کہ حرام اور حلال کو جانے دو یہ کہو کہ یہ جب ہندو کلچر کا حصہ ہے تو مسلمان اسے کیوں کریں ۔ تم اپنی صحت کا خیال رکھا مسلمانوں کی صحت کی فکر مت کرو ۔ اللہ نے مسلمانوں کو ایسا نظام دیا ہے جس کا مقابلہ قیامت تک کوئی دوسرا نظام نہیں کرسکتا ۔ یہاں پھر ایک بات کہنا چاہوں گا کہ مسلم تنظیمیں اور قائدین جو جیسے بھی ہیں وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس طرح کی افواہ طرازی کے جواب کیلئے کچھ منصوبہ بندی کریں ۔ آر ایس ایس جس کی بنیاد ہی فتنہ و فساد پر ہے اس نے الگ سے ایک قانونی چارہ جوئی شعبہ بنا یا ہے جس کے تحت وہ اپنے خلاف بولنے اور لکھنے والوں کے خلاف عدالتوں میں مقدمات کررہے ہیں ۔ ہمارے یہاں جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں اس کے باوجود ہم آپس کے سر پھٹول سے وقت ہی نہیں نکالتے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف افسانہ تراشنے والوں کو قانونی چارہ جوئی کرکے ان پر جھوٹ بولنا مشکل کردیں ۔

0 comments: