featured
بیٹی بچاؤ ،بیٹی پڑھاؤ : شرم مگر تم کو نہیں آتی!
نہال صغیر
سوشل میڈیا پر زنا بالجبر اور قتل کے حیوانیت کو شرمندہ کرنے جیسے واقعات ننھی آصفہ اوراناؤ سانحہ سے مضطرب اور وطن کی حالت سے فکر مند افراد اپنا احتجاج درج کرارہے ہیں ۔بی بی سی پر دہلی میں خواتین تنظیموں کی جانب سے احتجاج کررہی خواتین نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سر عام اور درندگی کی حد تک ظہور پذیر ہونے والے واقعات سے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے لوگ خواتین کے تحفظ کے تعلق سے سخت تشویش میں مبتلا ہیں لیکن بیٹی بچاؤ ،بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ دینے والے خاموش ہیں ۔ایک خاتون نے بی بی سی کی خاتون نمائندہ کو بتایا کہ ہم وزیر اعظم کی زبان سے اس تعلق سے کچھ سننا چاہتے ہیں لیکن وہ بالکل خاموش ہیں ۔اس دوران کسی نے دو ہزار چودہ کا انڈیا ٹی وی پر آنے والی سیرئل ’آپ کی عدالت‘ کا ویڈیو بھی شیئر کیا جس میں نریندر مودی اپنے چہروں پر ناگواریت کے تاثر لاتے ہوئے خواتین کے خلاف ہورہے تشدد پر احتجاج کررہے ہیں کہ حکومت کیا کررہی ہے ۔آج یہی سوال عام لوگ کررہے ہیں اور کچھ خاص لوگ اس کے جواب میں کہہ رہے ہیں کہ آج حکومت مجرمین کو بچانے کی کوشش کررہی ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بی جے پی کو بدنام کرنے کیلئے ایسا کیا جارہا ہے ۔احساس شرمندگی اتنا زیادہ ہے کہ زبان کچھ کہنے اور قلم اسے بیان کرنے سے قاصر ہے لیکن کہنا پڑتا ہے کہ اس حکومت میں پتہ نہیں کس جنگل کے افراد شامل ہیں جنہیں بات کرنے کا سلیقہ ، مظلوموں کے درد کو جاننے کا انداز اور ان سے بات کرنے کی حکمت کا پتہ ہی نہیں ہے ۔کہنے کو کوئی سادھوی ہے اور کوئی سادھو کوئی اپنی پیشانی پر اپنی شناخت کے واضح ثبوت رکھتا ہے لیکن بات ایسی کرتا ہے گویا وہ انسانوں میں ہی نہیں ہے ۔ذرا غور کیجئے اس بیان پر کہ ’بھلا تین بچوں کی ماں کا کوئی ریپ کرے گا ؟‘۔کتنا شرمناک اور اس کی گندی ذہنیت کی عکاسی کرنے والا بیان ہے ۔لیکن نعرہ بیٹی بچاؤ ،بیٹی پڑھاؤ کا ۔ اب شاید عوام کی سمجھ میں آرہا ہو کہ انہوں نے کس سے بیٹی بچانے کی بات کی تھی ؟ ہمارے یہاں بات اس وقت تک سمجھ میں نہیں آتی جب تک اس سے منسوب واقعہ رونما نہ ہو جائے ۔ اب یہاں بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں تو لوگوں کو بات سمجھ میں آنے لگی ہیں ۔ ایک کارٹون جس میں چند بی جے پی والوں کو بیٹی بچاؤ ،بیٹی پڑھاؤ کا بینر اٹھائے نعرہ لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے وہیں دوسری جانب ایک جوڑا اپنی بیٹی کو چھپا لیتا ہے وہاں تحریر ہے بیٹی چُھپاؤ ۔غرض سوشل میڈیا سمیت پرنٹ میڈیا میں بھی ننھی آصفہ اور اناؤ معاملہ پرصدائے احتجاج کا زور ہے ۔ سب اپنی اپنی بساط بھرملک کے اجتماعی ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔یاہو نے بھی جسٹس فار آصفہ ،جسٹس فار آورڈاؤٹر مہم چلا رکھی ہے ۔اس میں اس نے سلیبرٹی کی مدد لی ہے ۔جہاں نعرے درج ہیں ہم ہندوستان ہیں ،ہم شرمندہ ہیں ۔ایک کارٹون بنانے والے تو ہندو مذہب کا سہارا لیتے ہوئے رام اور سیتا کو دکھایا ہے جس میں سیتا کہتی ہوئی نظر آرہی ہیں ’میں خوش ہوں کہ میرا اغوا راون نے کیا تمہارے بھکتوں نے نہیں ‘۔اس کے باوجود عوام اور دنیا پردھان سیوک اور چوکیدار کی زبان سے کچھ سننا چاہتے ہیں لیکن وہاں موت کا سناٹا ہے ۔دوہزار چودہ میں جن واقعات سے شرمندہ تھے آج وہی واقعات ان کی پارٹی ورکر انجام دے رہے ہیں ۔
سوشل میڈیا پر زنا بالجبر اور قتل کے حیوانیت کو شرمندہ کرنے جیسے واقعات ننھی آصفہ اوراناؤ سانحہ سے مضطرب اور وطن کی حالت سے فکر مند افراد اپنا احتجاج درج کرارہے ہیں ۔بی بی سی پر دہلی میں خواتین تنظیموں کی جانب سے احتجاج کررہی خواتین نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سر عام اور درندگی کی حد تک ظہور پذیر ہونے والے واقعات سے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے لوگ خواتین کے تحفظ کے تعلق سے سخت تشویش میں مبتلا ہیں لیکن بیٹی بچاؤ ،بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ دینے والے خاموش ہیں ۔ایک خاتون نے بی بی سی کی خاتون نمائندہ کو بتایا کہ ہم وزیر اعظم کی زبان سے اس تعلق سے کچھ سننا چاہتے ہیں لیکن وہ بالکل خاموش ہیں ۔اس دوران کسی نے دو ہزار چودہ کا انڈیا ٹی وی پر آنے والی سیرئل ’آپ کی عدالت‘ کا ویڈیو بھی شیئر کیا جس میں نریندر مودی اپنے چہروں پر ناگواریت کے تاثر لاتے ہوئے خواتین کے خلاف ہورہے تشدد پر احتجاج کررہے ہیں کہ حکومت کیا کررہی ہے ۔آج یہی سوال عام لوگ کررہے ہیں اور کچھ خاص لوگ اس کے جواب میں کہہ رہے ہیں کہ آج حکومت مجرمین کو بچانے کی کوشش کررہی ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بی جے پی کو بدنام کرنے کیلئے ایسا کیا جارہا ہے ۔احساس شرمندگی اتنا زیادہ ہے کہ زبان کچھ کہنے اور قلم اسے بیان کرنے سے قاصر ہے لیکن کہنا پڑتا ہے کہ اس حکومت میں پتہ نہیں کس جنگل کے افراد شامل ہیں جنہیں بات کرنے کا سلیقہ ، مظلوموں کے درد کو جاننے کا انداز اور ان سے بات کرنے کی حکمت کا پتہ ہی نہیں ہے ۔کہنے کو کوئی سادھوی ہے اور کوئی سادھو کوئی اپنی پیشانی پر اپنی شناخت کے واضح ثبوت رکھتا ہے لیکن بات ایسی کرتا ہے گویا وہ انسانوں میں ہی نہیں ہے ۔ذرا غور کیجئے اس بیان پر کہ ’بھلا تین بچوں کی ماں کا کوئی ریپ کرے گا ؟‘۔کتنا شرمناک اور اس کی گندی ذہنیت کی عکاسی کرنے والا بیان ہے ۔لیکن نعرہ بیٹی بچاؤ ،بیٹی پڑھاؤ کا ۔ اب شاید عوام کی سمجھ میں آرہا ہو کہ انہوں نے کس سے بیٹی بچانے کی بات کی تھی ؟ ہمارے یہاں بات اس وقت تک سمجھ میں نہیں آتی جب تک اس سے منسوب واقعہ رونما نہ ہو جائے ۔ اب یہاں بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں تو لوگوں کو بات سمجھ میں آنے لگی ہیں ۔ ایک کارٹون جس میں چند بی جے پی والوں کو بیٹی بچاؤ ،بیٹی پڑھاؤ کا بینر اٹھائے نعرہ لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے وہیں دوسری جانب ایک جوڑا اپنی بیٹی کو چھپا لیتا ہے وہاں تحریر ہے بیٹی چُھپاؤ ۔غرض سوشل میڈیا سمیت پرنٹ میڈیا میں بھی ننھی آصفہ اور اناؤ معاملہ پرصدائے احتجاج کا زور ہے ۔ سب اپنی اپنی بساط بھرملک کے اجتماعی ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔یاہو نے بھی جسٹس فار آصفہ ،جسٹس فار آورڈاؤٹر مہم چلا رکھی ہے ۔اس میں اس نے سلیبرٹی کی مدد لی ہے ۔جہاں نعرے درج ہیں ہم ہندوستان ہیں ،ہم شرمندہ ہیں ۔ایک کارٹون بنانے والے تو ہندو مذہب کا سہارا لیتے ہوئے رام اور سیتا کو دکھایا ہے جس میں سیتا کہتی ہوئی نظر آرہی ہیں ’میں خوش ہوں کہ میرا اغوا راون نے کیا تمہارے بھکتوں نے نہیں ‘۔اس کے باوجود عوام اور دنیا پردھان سیوک اور چوکیدار کی زبان سے کچھ سننا چاہتے ہیں لیکن وہاں موت کا سناٹا ہے ۔دوہزار چودہ میں جن واقعات سے شرمندہ تھے آج وہی واقعات ان کی پارٹی ورکر انجام دے رہے ہیں ۔
0 comments: