عام انتخابات کے سیمی فائنل میں کانگریس کی ہزیمت: ابتدائے عشق ہے

یو پی اے دوم حکومت کی سربراہ کانگریس کو آخر کار عام انتخاب کے سیمی فائنل میں سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جو بوئوگے وہی کاٹوگے۔ کانگریس نے جو بویا تھا وہ اس نے کاٹا اور آگے بھی اس کے زہریلے فصل اسے ہی کاٹنے ہیں ۔2004 کے عام انتخابات میں عوام نے بڑے امنگوں اور آرزوئوں سے بی جے پی کے خلاف ووٹ دیکر واضح اشارہ دیا تھا کہ اسے فرقہ پرستی پر مبنی سیاست نہیں چاہئے ۔لیکن کانگریس نے کوئی واضح پالیسی اختیار نہیں کی ۔فرقہ پرستی کے معاملہ میں اس کا رویہ نرم ہندو توا کے حمایتی کا رہا ۔اس کے دور حکومت میں مسلم نوجوانوں کی بیجا گرفتاریاں فرضی بم دھماکے اور ناانصافیوں کا بول بالا رہا ۔مہنگائی کی بلندی نے ہمالہ پہاڑ کو بھی مات دے دیا ۔ہر دن اخبارات کی سرخیوں میں ایک نئی بد عنوانی کا خلاصہ ہوتا رہا اور کانگریس بے شرمی اور ڈھٹائی سے اسے نظر انداز کرتی رہی اور اس کے انجام اور عوام کے مزاج سے بے خبر ملک کو کوئی واضح پالیسی دینے میں ناکام رہی ۔

    بلاشبہ اس سیمی فائنل کا ہیرو اروند کیجریوال کو ہی کہا جاسکتا ہے ۔انہوںنے کانگریس کی آہنی دیوار سمجھی جانے والی شیلا دکشت کو بائیس ہزارسے زیادہ کے فرق سے ہرا دیا ۔ان کی اس جیت سے لوگوں کو تعجب ہے کہ اتنی وضح جیت کیسے حاصل کیا؟لیکن یہ سوال وہ لوگ اٹھا رہے ہیں جنہوں نے ہندوستان کی جمہوری حکومت میں دو پارٹی کے علاوہ اور کوئی آپشن پر نظر ہی نہیں دوڑایا یا وہ عوام کی تکلیف کا صحیح اندازہ لگانے میں سخت غفلت کے شکار رہے۔اروند کیجریوال نے ایک صحافی کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ جیت کی بات تو دور کی ہے ہم نے تو یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ ہم کبھی سیاست میں حصہ لیں گے لیکن ملک کے بد سے بدتر ہوتے حالات کے پیش نظر ہمیں سیاست میں آکر اپنی ذمہ داری ادا کرنے کیلئے مجبور کیا ۔اگر ملک میں سب کچھ ٹھیک ہوتا سیاسی پارٹیاں اور سیاستداں سب ملک کی ترقی کیلئے کام کرتیں تو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ مجھے اتنا سخت فیصلہ لینا پڑتا ۔صحیح کہا اروند کیجریوال نے ہندوستانی سیاست کوئی بچوں کا کھیل نہیں کہ کوئی بھی آئے اور حصہ لے ۔یہاں بڑی بڑی سیاسی مافیا سیاسی پارٹیوں کے روپ میں موجود ہیں جو کسی ایسی قیادت کو ابھرنے ہی نہیں دیتے جسے ملک کی ترقی کی فکر ہو ۔سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر اب عام آدمی پارٹی کو جیت کیوں ملی ۔اس کا سیدھا جواب ہے کہ عوام پچھلے 65 سالوں سے سیاسی مافیائوں کے ظلم اور لوٹ مار سے پریشان ہو کر کرو یا مرو کی پوزیشن میں آگئی ہے ۔اسے دلی میں ایک آپشن نظر آیا عوام اس طرف پر امید اور روشن مستقبل کی چاہ میں گئی ۔اگر اس کے علاوہ تین اور ریاستوں میں بھی اسے کوئی آپشن نظر آتا تو عوام بی جے پی کو واضح اکثریت سے منتخب نہیں کرتی ۔اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والا لوک سبھا انتخاب عوام کو یقینی طور پر نئے آپشنز سے متعارف کرائے گا۔

    انا ہزارے جو کہ اروند کے سیاسی پارٹی بنانے سے خوش نہیں تھے اور ان کی سادہ لوحی سے میڈیا نے خوب فائدہ اٹھایا اور اروند کے خلاف کئی بیان ان کے منھ میں رکھ کر میڈیا میں پیش کرکے اروند کیجریوال کے لئے پریشانیاں کھڑی کرنے کی کوشش کی گئیںاور بقول یوگیندر یادو کے ’’ہمیں دو وجوہات کی بنا پر واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی اول تو میڈیا کے ذریعہ جھوٹے اور گمراہ کن ایگزٹ پول جس میں بتایا گیا کہ عام آدمی پارٹی کو چار یا پانچ سیٹ سی زیادہ نہیںملے گی جس سے عوام میں یہ تاثر گیا کہ چار یا پانچ سیٹ والی پارٹی سے کیا بھلا ہونا ہے اس لئے عوام کا رخ آخری 72 گھنٹوں میں تبدیل ہوا ۔دوسری اور اہم وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ عام آدمی پارٹی کے ورکر بھی عام آدمی تھے جنہیں موجودہ سیاسی جوڑ توڑ نہیں آتی ‘‘۔اسی طرح کی باتیں اروند کیجریوال نے بھی اپنے انٹر ویو میں کہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ بی جے پی کہہ رہی ہے کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھے گی اور آپ بھی کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن میں بیٹھیں گے ،پھر حکومت کون بنائے گا ؟انہوں نے کہا کہ ابھی کچھ گھنٹے تو گزرنے دیجئے آپ ان کی جوڑ توڑ کی پالیسی سے ناامید نہیں ہونا چاہئے یہ لوگ اس میدان کے پرانے اور گھاگ کھلاڑی ہیں، یہ ضرور کوئی جوڑ توڑ کریں گے اور حکومت بنائیں گے ۔اروند نے مزید کہا کہ اگر یہ اتنے ہی ایماندار ہوتے تو ہمیں اپنا کریئر چھوڑ کر سیاست میں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔یوگیندر یادو اور اروند کیجریوال کی موجودہ سیاست اور سیاست دانوں پر تبصرہ بالکل عوامی تخیلات اور اور ان کی سوچ کے مطابق ہی ہے سیاست دانوں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس سے عوام میں کوئی مثبت پیغام جاتا ۔بے شک اروند کیجریوال نے بڑی دانشمندی اور سوجھ بوجھ کا ثبوت دیا ہے کہ جب آر ایس ایس کا پروردہ میڈیا انکو انکے گرو انا ہزارے سے لڑانے کی پوری کوشش کررہا تھا تب انہوں نے صبر و ضبط کا دامن تھامے رکھا جس کا فائدہ یقیناً انہیں اور انکی نوخیز پارٹی کو ہوا ۔حالانکہ بقول یوگیندر یادو کے میڈیا کے منفی رجحان اور سیاست دانوں کے سیاسی دائو پیچ کی وجہ سے انہیں نقصان ہوا ہے لیکن بہر حال اس میں حوصلہ شکن جیسی کوئی بات نہیں ۔کسی نے کہا ہے ’گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں ۔وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے۔

    اتر پردیش میں بھی ڈیڑھ سال قبل بھی کانگریس اور پانچ سالوں سے وہاں حکمراں جماعت مایا وتی کی بہوجن سماج کو بھی عوام نے رجیکٹ کرکے یہ پیغام دیدیا تھا کہ صرف وعدوں پربہلنے والی عوام کا دور چلاگیا اب اکیسویں صدی کی عوام تیز رفتار انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لیس ہے وہ ہر آن اپنے عمل اور فیصلوں کا محاسبہ کرتی ہے ۔اس لئے سیاسی پارٹیاں بھی اپنا محاسبہ کریں اور اپنی خامیوں کی طرف متوجہ ہوں نیز عوامی فلاح کے لئے کام کو اہمیت دیں ۔اب ان کی بدعنوانی کی خبر چھپنے والی نہیں بیدار عوام کا ایک طبقہ ان کی ٹوہ میں لگا رہتا ہے کہاں سے وہ ان کی چوری پکڑے اور عوام کے سامنے پیش کردے ۔مین اسٹریم میڈیا بھی سرمایہ داروں کی زیادہ جی حضوری نہیں کرسکتا کیوں کہ سوشل میڈیا نے عوام کو وہ قوت عطا کردی ہے کہ بغیر کسی خرچ کے صرف چند منٹوں کی محنت سے وہ ان بدعنوانیوں کو چند سیکنڈوں میں لاکھوں اور کروڑوںلوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔لیکن کانگریس نے اتر پردیس کی ہار سے بھی کوئی سبق نہیں لیا ۔یہ سبق لیں گے بھی کیوں ؟انہیں اصولی سیاست آتی ہی کب ہے یہ تو صرف جوڑ توڑ اور فرقہ پرستانہ نسلی امتیاز اور فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی سیاست کے پروردہ لوگ ہیں ۔کانگریس دعویٰ تو کرتی ہے کہ وہ اصولی سیاست کرتی ہے فرقہ ،پرستی ،علاقائی ،لسانی عصبیت سے پاک سیاست کا دعویٰ محض دعویٰ ہی رہ گیا ۔اس نے بی جے پی کے مقابلے میں نرم ہندو توا کا رول اپنایا ۔فرقہ پرستی کے معاملہ میں اس نے زبانی دعووں اورخوش کن نعروں کے علاوہ آج تک مسلمانوں کو اگرکچھ دیا ہے تو وہ ساٹھ ہزار سے زیادہ فسادات ،لاکھوں مسلمانوں کی ہلاکت اور اربوں کی جائداد کی بربادی ،بابری مسجد کی مسماری سمیت ان گنت ایسے سیاہ کارنامے ہیں کانگریس کے دامن پر کہ اب کسی مزید سیاہی کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ 

    اپنی شرمناک ہار پر کانگریسی لیڈروں کی طرف سے محاسبہ کئے جانے کی بات آئی ہے لیکن یقین کیجئے کہ وہ اب بھی دھوکہ دہی ،استحصال،چوری ،عوامی مسائل سے بے توجہی اور مسلمانوں کو عدم تحفظ کے ماحول سے نکالنے کیلئے کچھ نہیں کرے گی ۔کچھ لوگوں کا ایمان ہی کانگریس ہے وہ اسے اصول پسند اور واحد معتبر پارٹی تسلیم کرتے ہیں ۔انہوں نے عام آدمی کی طرف سے پیش قدمی کو بھی اپنی منافقانہ تحریروں سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن ارادے سچے ہوں تو انسان منزل پر پہنچ ہی جاتا ہے ۔گرچہ اروند کو میڈیا کی منفی روش اور سیاسی بازیگروں نے مکمل اکثریت سے روک دیا لیکن عوام کو آپشنز تو مل ہی گیا ۔اب عام آدمی پارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ کس حد تک عوامی توقعات پر کھری اترتی ہے یا وہ بھی ایسے تالاب میں جس میں ساری مچھلیاں ہی گندی ہیں اپنے وجود کو بھی کثافت زدہ کردیگی ۔امید پر دنیا قائم ہے ۔ ملک کی بگڑتی صورتحال سے ہر کوئی پریشان ہے ۔میں بھی اسی ملک کا شہری ہوں اس بری حالت سے میں بھی دکھی ہوں ۔لیکن میں آر ایس ایس بی جے پی اور کانگریس کی مبینہ روایتی وطن پرستی سے الگ سوچ رکھتا ہوں ۔میں چاہتا ہوں کہ کہیں مجھے یہ بتانے میں شرمندگی نہ محسوس ہوکہ میں ہندوستانی ہوں ۔پچھلے 65 سالوں سے ہمارے سیاست دانوں نے ہمیں شرمندگی کے علاوہ اور دیا ہی کیا ہے ۔دنیا میں شہریوں کو صاف پانی مہیا کرانے کا معاملہ ہو ،نومولود بچوں میں تغذیہ کی کمی کا معاملہ ہو یا غربت کی سطح کا معاملہ ہو ہماری حالت بنگلہ دیش پاکستان نیپال اور بعض پسماندہ تر افریقی ملکوں سے 

بھی زیادہ بری ہے ۔اور یہ معاملات کسی سنجیدہ شہری کیلئے شرمندگی کا ہی تو سبب ہیں کہ شور تو یہ ہے کہ ہم مستقبل کے سوپر پاور ہیں اور حالت یہ ہے کہ اپنے شہریوں کو بنیادی ضروریات تک مہیا نہیں کراسکتے ۔65 سالوں میں ساٹھ ہزار سے زیادہ فسادات کا کلنک ہمارے ماتھے پر چپکا ہوا ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی ہندوستان کو اس پستی اور ذلت سے نکالنے میں مستقبل قریب میں اہم رول ادا کرے گی۔ 

نہال صغیر۔
موبائل۔9987309013 
۔ای میلsagheernehal@gmail.com

0 comments: