featured

آر ایس ایس کو نفرت انگیز مہم اور شر انگیزی کی قیمت تو چکانی ہی پڑے گی!



نہال صغیر

آر ایس ایس جسے عرف عام میں سنگھ کہا کرتے ہیں نے اپنے قیام کے دنوں سے ہی ہندو اکثریت پر خوف کی نفسیات مسلط کرکے انہیں یہاں کی اقلیت سے نبر آزما کرنے کو اپنا مقصد وجود بنایا ۔اس کے مقصد میں اب مزید تیزی آگئی ہے ۔سنگھ اور اس سے جڑے ہوئے افراد جن کی اکثریت برہمنوں پر مشتمل ہے نے ملک میں جو افراتفری اور فرضی خوف کا موحول بنایا اس کا پہلا اثر تو یہ ہوا کہ ہندوستان کے دو ٹکڑے ہو گئے ۔اس کے بعد بھی ان کی جارح ہندو قوم پرستی کا بھوت ختم نہیں ہوا ۔اس کا نتیجہ ہوا کہ ملک کے مختلف حصوں میں علیحدگی کی تحریک چلنے لگی جسے فی الحال مسلمانوں کے خلاف مہم چلا کر دبا دیا گیا ہے یا یوں کہہ لیں کہ اکثریت کو ہندو مسلم کے قضیہ میں الجھا کر ان کی نظروں سے ان تحریکوں کو اوجھل کردیا گیا ہے ۔موجودہ حکومت میں سنگھ اور اس کی ذیلی تنظیموں کو گویا مانگی مراد مل گئی ۔انہیں ملک میں ہر طرف تشدد کی کھلی چھوٹ ہے ۔جب وہ چاہیں کسی مسلمان یا دلت کو مار ڈالیں ۔دلتوں کی بستیاں اجاڑ ڈالیں اور مسلمانوں کی دکانوں اور املاک کو لوٹ لیں ۔ہر طرف ایک خوف کا ماحول ہے ۔اس خوفناک دہشت انگیز ماحول پر عدلیہ بھی کوئی موثر کردار ادا نہیں کررہی ہے ۔ممبئی ہائی کورٹ کی ایک جج نے تو محسن شیخ کے قاتلوں کو ضمانت دینے کیلئے جس طرح کے خیال کا اظہار کیا اس سے عدلیہ نے اپنی بچی کھچی ساکھ کو بھی دفن کردیا ہے ۔ ادھر ایک اور ہائی کورٹ نے ایک بین المذہبی شادی کے مسئلہ میں یہ کہا کہ ہر بین المذاہب شادی لو جہاد نہیں ہے ۔گویا فاضل منصف کسی لو جہاد کے قائل ہیں ۔جب کوئی منصف اس طرح کی بات کہنے لگے تو تشویش ہونا فطری ہے ۔بہر حال ملک کا ماحول تیزی کے ساتھ بدل گیا ہے ۔اس میں آر ایس ایس نے کانگریس اور دیگر حکومتوں کی مدد سے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے ۔لیکن اب اسی تشدد کا سایہ دراز ہوتے ہوتے خود سنگھ کے دامن تک پہنچ گیا ہے ۔ابھی پچھلے ہفتے 17 ؍اکتوبر 2017 کو پنجاب کے لدھیانہ میں آر ایس ایس کے کارکن رویندر گوسائی کو ان کے گھر کے باہر ہی گولیوں سے بھون دیا گیا اور آج اتر پردیش جہاں آجکل مسٹر یوگی کا رام راجیہ ہے کے غازی پور کے گاؤں ببھنولی کے دو سنگھ کارکن راجیش مشرا اور ان کے بھائی امتیش مشرا کو ان کے دوکان میں ہی بائیکروں نے گولیوں سے بھون دیا ۔کہنے والے کچھ بھی کہیں لیکن یہ آر ایس ایس کے اپنے کرموں کا ہی پھل ہے جو اب اس کے چھوٹے کارکن بھگت رہے ہیں ۔سنگھ نے جس دہشت کی داغ بیل ڈالی ہے اور اس کے سہارے جس طرح ملک کی فضا کو بگاڑا ہے اس میں اس کے سوا کیا ہوگا ۔جب کوئی تشدد کرے گا تو اس کو اس کا ردعمل بھی بھگتنے کیلئے تیار ہی رہنا چاہئے ۔
ملک ترقی ،بقا اور سلامتی یا اپنی تہذیب کی نشاۃ ثانیہ کوئی بری چیز نہیں ہے ۔بھلا کسی کو کیوں اس بات پر اعتراض ہوگا کہ آپ اپنی تہذیب کی بات کرتے ہیں ۔ہاں جب آپ اپنی تہذیب اور کلچر کو دوسروں پر بالجبر تھوپنے کی کوشش کریں گے اس کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری طور پر مہم چلائیں گے تو لوگوں کو اعتراض بھی ہوگا اس کا رد عمل بھی آئے گا اور مختلف فرقوں کے درمیان رواداری کی فضا کو بھی نقصان ہوگا۔اگر سنگھ کا صرف اتنا ہی مقصد ہوتا تو سوائے کمیونسٹوں کے کسی اور کو خاص طور سے مسلمانوں کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔لیکن اس نے اس کی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف جنگ جیسے حالات پیدا کردیئے۔سنگھ نے اپنی حرکتوں سے سکھوں کو بھی اپنا دشمن بنا لیا ۔آڑ ایس ایس کے سابق اور آنجہانی سر سنچالک سدرشن نے یہ کہہ کر سکھوں کو بر انگیختہ کردیا کہ سکھ مت بھی ہندو دھرم کا ہی حصہ ہے ۔اس کے علاوہ جارح ہندو قوم پرستی نے بھی سکھوں کو سکٹ گیر ہندوؤں یا برہمنوں سے دور کیا اور اس فرقہ میں بھی دشمنی کے جراثیم پھیلادیئے اس میں چوراسی میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پورے ملک میں سکھوں کی نسل کشی اور اس میں کانگریسیوں کے بھیس میں سنگھ اور اس سے جڑی تنظیموں کے کارکنان کی شرکت نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔سنگھ اور اس ذہنیت کے لوگوں نے کبھی گائے اور قربانی پر سوال ہی نہیں اٹھائے بلکہ اسے جبریہ روکنے کی کوشش ۔کبھی نماز اور اذان پر پابندی کی باتیں تو کبھی قرآن اور اسلام کو دہشت گردوں کا کی کتاب اور دہشت گردوں کا دین کہہ کر مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ماحول کی پرورش کرنا اور اس کی آڑ میں دلتوں کو واپس تین ہزار سالہ غلامی کے دور میں واپس لے جانا تاکہ برہمن حکومت کرنے اور باقی لوگوں سے خدمت لینے کے اپنے پرانے مقاصد میں کامیاب ہو جائیں ۔لیکن اس کے اس رویہ نے جارح رد عمل کو جنم دیا ۔ ہندی ریاستوں میں اگر سنگھ کے لوگ دائیں بازو کے لوگوں کا قتل کرتے ہیں تو کیرالا اور کرناٹک میں بھی ان کے خلاف ردعمل کے طور پر جوابی تشدد شروع ہو گیا ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر سنگھ اور اس سے جڑی تنظیموں کے ذریعہ گوری لنکیش اور اس سے قبل کلبرگی وغیرہ کا قتل نہیں ہوتا تو آج سنگھ پر بھی اس طرح کے حملے نہیں ہوتے ۔نفرت اور تشدد سے نفرت اور تشدد کے سوا اور کیا حاصل ہونا ہے ۔ہمارے یہاں کے صحافی اور ہندو شدت پسند پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں پر یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستان نے جو کچھ بویا تھا اسی کی فصل وہ کاٹ رہا ہے ۔لیکن ایسا بولتے ہوئے پتہ نہیں کیوں ہم خود کو فراموش کرجاتے ہیں ۔ ہمیں اس جانب ضرور توجہ دینا چاہئے خاص طور سے سنگھ کو کہ تشدد اور نفرت ملک اور اس کے عوام کیلئے ٹھیک نہیں ہے ۔ اپنی نسبی اور نسلی برتری کے ساتھ افسانوی کرداروں پر مبنی تہذیبی برتری کا رعب ڈال کر کوئی فائدہ نہیں ہے ۔وہ کیا ہیں اس سے ہم سے زیادہ وہ خود واقف ہیں یہ اور بات ہے کہ دوسروں کی حقیقی طور پر تہذیبی برتری انہیں نفسیاتی مرض میں مبتلا کررہا ہے اور اسی خوف کا ردعمل ہے جو وہ اپنی تہذیب اور اپنا مذہب جبریہ تھوپنے کی مہم چلا رہے ہیں ۔خوف کے ماحول سے جنتی جلدی ممکن ہو ملک کو نکال لیا جائے تو یقیناًہم اکیسویں صدی میں نئی تاریخ رقم کریں گے ۔ورنہ ہمارے لئے ہنگر انڈیکس جیسی ایکسو انیس کی فہرست میں سواں نمبر بھیانک تاریخ کے روپ درج تو ہوتا ہی رہتا ہے۔

0 comments:

featured

حوصلہ قرض لے کر بلیٹ ٹرین چلانے کا ۔۔۔!


نہال صغیر

موجودہ دور کو ہندوستان کی تاریخ میں بدترین کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ حکومت کے فیصلے اور اس کی پالیسیاں عجیب و غریب ہیں جہاں ملک و بیرون ملک بلیٹ ٹرین کے چلنے کی خبر سے ہندوستانیوں کے سینے پھولے نہیں سما رہے ہوں گے وہیں ان کے لئے یہ خبر بھی کم تکلیف دہ ثابت نہیں ہوگی جس میں جھاڑ کھنڈ کی قبائلی خاتون نے کہا کہ اس کی بچی بھوک سے صرف اس لئے مر گئی کیوں کہ جب وہ راشن لینے گئی تو اس سے کہا گیا کہ آدھار کارڈ نہیں ہونے کے سبب اسے راشن نہیں دیا جاسکتا ۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق جھاڑکھنڈ میں بھوک سے مرنے والوں کی کئی کہانیاں منظر عام پر آئیں ۔ اس خبر سے ایک ہفتہ قبل ایک اور دستاویزی اور شرمناک خبر نے بھی حساس ہندوستانیوں کو تکلیف کی شدت سے یقیناً گزارا ہوگاجس کے مطابق ہندوستان دنیا کے ایک سو انیس بھوکوں کی فہرست میں سو نمبر پر ہے ۔ حیرت انگیز یہ ہے کہ بنگلہ دیش ، نیپال اور میانمار جیسے پسماندہ ملک کی حالت بھی ہم سے اچھی ہے ۔ بھوکوں کی فہرست جسے ہنگر انڈیکس کہتے ہیں میں دو ہزار چودہ تک صورتحال بہتری کی جانب گامزن تھی لیکن دوہزار چودہ کے بعد حالت بگڑتے بگڑتے ہم یہاں تک پہنچے ہیں ۔ سروے رپورٹ اور اقوام متحدہ کی فہرستوں میں اور بھی کئی ایسے حیرت انگیز انکشافات ہیں جس سے ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ ہم شہریوں کو صاف پانی مہیا کرانے میں بھی کئی پسماندہ ممالک سے پیچھے ہیں ۔ سنیٹیشن میں ہم افغانستان جیسے انتہائی پسماندہ اور جنگ زدہ ملک سے بہت پیچھے ہیں ۔ جب ہم اس پر برادران وطن سے گفتگو کرتے ہیں تو وہ اسے شرمناک قرار دینے کے بجائے یہ توضیح بیان کرتے ہیں کہ یہاں کی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے سارے مسائل ہیں ۔ لیکن جب ہمیں یہ خبر ملتی ہے کہ امیت شاہ کے بیٹے جے شاہ کی املاک میں اچانک سولہ ہزار گنا اضافہ ہوگیا ہے تو بات سمجھنے میں وقت نہیں لگتا کہ مسائل کا اصل سبب کیا ہے ، بڑھتی آبادی یا سیاست دانوں کی دولت میں بے پناہ اضافہ ۔ پتہ نہیں ہم کس منھ سے دنیا کی سربراہی کا خواب لے کر ملکوں ملکوں پھر رہے ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ ایک بچی محض اس لئے بھوکوں مر گئی کہ اس کی ماں کو راشن دینے سے منع کردیا کہ آدھار نہیں تھا ۔ یہ وہی بی جے پی ہے جو منموہن حکومت میں آدھار کی مخالفت میں چیخ و پکار کیا کرتی تھی اور اب سپریم کورٹ میں یہ معاملہ زیر غورہے اور کسی بھی سرکاری کام کیلئے ابھی تک سپریم کورٹ نے آدھار کو لازمی قرار دینے کے معاملے میں فیصلہ نہیں دیا ہے ۔ آخر ہمارا دیش یونہی مہان تو نہیں ہوا نہ اس میں کچھ تو ہے اچھی بات نہ سہی تو شرمناک ہی سہی ۔ آخر ہم سوا ارب آبادی والے ملک ہیں ۔ ہماری پہچان الگ کیوں نہ ہو ؟
مذکورہ بالا دو واقعات ہمیں آئینہ دکھاتا ہے کہ اس میں ہم اپنی شکل دیکھ لیں ۔ لیکن ہم جب آئینہ دیکھتے ہیں تو غصہ اور شدت غضب سے آئینہ کو ہی پھوڑنے کے درپہ ہو جاتے ہیں کہ یہ ہماری شکل کو کریہہ بنا کر دکھا رہا ہے ۔ جبکہ آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا ۔ بہتر ہوتا کہ ہم آئینہ کو الزام دینے کی بجائے اپنے چہرے کے گرد و غبار کو صاف کرلیتے ۔ یہ گرد و غبار ہماری غریبی اور پسماندگی ہے ۔ جس کے تذکرہ سے ہمیں تکلیف تو ہوتی ہے لیکن اسے ہم دور کرنے کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کرتے ۔ اس کے برعکس ہماری موجودہ حکومت کو یہ سنک سوار ہے کہ نوے لاکھ کروڑ قرض لے کر بلیٹ ٹرین چلائیں گے ۔ جاپان نے دہائیوں قبل ترقی کی جانب قدم آگے بڑھا ئے تھے پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ اس نے یہ مقام اس کے باوجود حاصل کیا کہ امریکہ نے اسے تباہ و برباد کردیا تھا ۔ اس کی ترقی اس بات کی گواہ ہے کہ جب قومیں ترقی کی جانب قدم آگے بڑھا دیتی ہیں تو انہیں کوئی نہیں روک سکتا ۔ جاپانی قوم میں ملک و قوم کے تئیں ترقی کی حقیقی اسپرٹ پائی جاتی ہے ۔ جبکہ ہمارے یہاں ملک سے محبت محض ایک نعرہ بنا کر دوسرے فرقوں کے خلاف جنگ چھیڑنے کا بہانہ ہے ۔ ایسی پوزیشن میں ملک کہاں ترقی کی راہوں پر چلے گا ۔ جاپان نے اپنے یہاں بھوکمری پر قابو پایا ہے ۔ اپنے شہریوں کو ساری سہولتیں مہیا کرائی ہیں ۔ وہاں کسی عوامی سہولیات کیلئے کسی تحریک کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ جاپانی قوم اور وہاں کی حکومت کتنی سنجیدہ ہے اس کا اندازہ ایک سال قبل آئی اس خبر سے بھی ہوتا ہے جس میں دوردراز کے ایک گاؤں کی صرف ایک بچی کیلئے ایک ٹرین جاتی ہے پھر وہی ٹرین اس بچی کو شام کو اسکول کا وقت ختم ہونے پر اس گاؤں میں چھوڑ کر آتی ہے ۔ کیاہندوستانی حکومت اپنے یہاں کے کسی اسکولی بچہ یا بچی کو اس قدر سہولت دینے کا حوصلہ رکھتی ہے ۔ الٹے یہاں ایک بچی اس لئے بھوکوں مر جاتی ہے کہ آدھار کارڈ نہیں ہونے کے سبب اس کی ماں کو راشن نہیں دی گئی ۔ پھر بھی ہم بلیٹ ٹرین چلائیں گے تو دنیا ہم پر ہنسنے کے سوا اور کیا کر سکتی ہے اور ہمارے وزیر اعظم زبردستی سربراہان مملکت کے گلے پڑ کر اندرون ملک یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہیں گے کہ دیکھو ہم نے دنیا میں بھارت کا مقام کتنا بلند کردیاہے کہ سربراہان مملکت گلے ملنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن تصویر کو غور سے دیکھنے والے جان جاتے ہیں کہ کہانی کیا ہے ؟ کاش ہمارے پردھان سیوک ملک کی خدمت اور عوام کو سہولیات مہیا کرانے کیلئے سنجیدہ ہوتے !

0 comments:

Muslim Issues

ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی بصیرت اور کانگریس



نہال صغیر

کیا ہندوستانی مسلمانوں کی نجات صرف کانگریس کے ساتھ غیر مشروط وابستگی میں ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو کہ پچھلی ایک صدی سے آزاد ذہن تعلیم یافتہ مسلمانوں کے دماغ میں ابھرتا رہا ہے ۔ آزادی سے قبل بھی اور اب پون صدی کے قریب آزادی کے بعد بھی اسی طرح یہ سوال معلق ہے ۔ ایمان بالکانگریس والے مسلمان جس میں دینی مدارس کے فارغین سمیت جدید تعلیم یافتہ دونوں میں ایک بڑی تعداد کانگریس کی حمایت اور سیاسی وابستگی کو ہندوستانی مسلمانوں کی نجات کیلئے ضروری سمجھتا ہے ۔ میں نے ایمان بالکانگریس والے مسلمان کا لفظ بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے ۔ کچھ لوگوں کا ببانگ دہل کہنا ہے کہ وہ تو پیدائشی کانگریسی ہیں اور یہ کہ وہ بحیثیت کانگریسی ہی مرنا پسند کرتے ہیں ۔ یہی حالت آزادی سے قبل کے پر جوش اور بے بصیرت کانگریسی مسلمانوں کی تھی ان ہی کی باقیات کے نمونے آپ کو اب بھی مل جائیں گے ۔ میری والدہ اکثر بچپن میں جب بہت ناراض ہو جایا کرتیں تو کہا کرتی تھیں کہ ایک آنکھ کا اندھا ہوتا ہے اور دوسرا عقل کا اندھا ۔ میرے ایک صحافی دوست کا کہنا ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ مسلمان تعلیم اور دولت کے حساب سے غریب ہیں ، یہ غلط ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دور میں مسلمانوں پر اللہ کا جو عذاب ہے وہ یہ ہے کہ ان سے اللہ نے عقل سلب کرلی ہے ۔ اس قوم میں نہ دولت کی کمی ہے نا ہی صاحب ثروت افراد اور مروجہ تعلیم میں بے مثال افراد کی کمی ہے ۔ اس قوم میں جس کی کمی ہے وہ بصیرت والے افراد کی ۔ اس دوست کی بات مجھے جب بھی غور کرتا ہوں تو صد فیصد درست لگتی ہے ۔ اگر اس قوم کی بد بختی کی بات کی جائے تو آزادی سے قبل اور بعد کے ستر برسوں میں اس نے خوب اندازہ لگا لیا اور دیکھ بھال لیا کہ کون اس کا اصل دشمن ہے ۔ لیکن جس طرح ہندوستان کو متحد رکھنے کیلئے آر ایس ایس اور بی جے پی یا ان جیسی ذہنیت والوں کو ایک مشترکہ دشمن کی تلاش تھی جس پر کافی غور و خوض اورمنصوبہ بندی کے بعد پاکستان وجود میں لایا گیا اور اس طرح پاکستان اور مسلمانوں کے خوف سے ڈرا ڈرا کر یہاں کی مختلف النسل اور مختلف لسانی و تہذیبی گروہ کو کسی حد تک ابتک متحد رکھا گیا ہے ۔ اسی طرح کانگریس کو بھی مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کرنے کیلئے ایک عدد ان کے دشمن کی ضرورت تھی جس کو آر ایس ایس ، بی جے پی اور ہندو راشٹر کی شکل میں تلاش کرلیا گیا اور ستر برسوں سے اسی خوف کے سہارے کانگریس نے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کئے اور حکومت کرتی رہی ۔ اب بھی ناندیڑ میں یہی کچھ ہوا ۔ جب مسلمانوں کی اپنی قیادت اپنی سیاست کا نعرہ لگانے والی مجلس اتحاد المسلمین کو صفر پر آؤٹ کردیا گیا اور کانگریس کے صد فیصد مسلم امید وار کامیاب ہو گئے ۔ کانگریس نے اکیاسی سیٹ کے کارپوریشن میں تہتر سیٹیں حاصل کرلیں ۔ اس سے کانگریس کا جشن میں ڈوبنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن مسلمانوں کی خوشی ناقابل فہم ہے ۔ مسلمانوں کی اس خوشی کے اظہار پر کسی مسلم نوجوان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پربالکل صحیح کمینٹ کیا ہے، اس نے لکھا ہے کہ’’ مجلس کی ہار پر مسلمانوں کا حد سے زیادہ خوشی منانے کو دیکھ کر جسٹس سچر کو سلام ، انہوں نے یونہی نہیں کہہ دیا تھا کہ مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بد تر ہے‘‘۔ اس میں کسی کو کوئی شک ہے کہ دلتوں نے اپنی سیاسی حیثیت منوالی ہے اور انہوں نے اپنے لیڈر کے طور پر مایا وتی کو کئی بار اتر پردیش کی وزارت اعلیٰ کی کرسی سونپ دی ۔ یہ ان کی سیاسی بیداری نہیں تو اور کیا ہے ۔
سابق ایم پی الیاس اعظمی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ اپنے لیڈروں پر اعتماد نہیں کرتے اور جو لوگ آجکل قیادت کی دعویداری کیلئے اٹھے ہیں وہ اس کے لائق نہیں ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ غیروں اور ہماری قیادت میں اخلاق و کردار کا فرق تو واضح ہونا چاہئے یعنی ہماری قیادت صاف ستھرے کردار کی شخصیت کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے ۔ کانگریس اور مسلمانوں کی سیاسی بصیرت پر سینکڑوں مضامین لکھے جاچکے ہیں اور امید ہے کہ اس پر آئندہ بھی سمع خراشی ہو تی رہے گی ۔ ان مضامین میں اکثریت کی رائے یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں کیلئے ہندوستان میں کانگریس کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے ۔ اس قسم کی باتیں دراصل ذہنی غلامی کا ثبوت ہیں ۔ بچپن میں ایک محاورہ سنا اور پڑھا کرتا تھا جہاں چاہ وہاں راہ یعنی اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنا کر اس کی تکمیل کی جاسکتی ہے ۔ ایک کسی ہندی فلم میں عشق کی ماری ایک ہیروئن جو اپنے عاشق کے فراق میں زندگی کے باوجود مردہ جیسی تھی کہ بارے میں اس کا ڈاکٹر کہتا ہے کہ جو زندہ ہی نہیں رہنا چاہتا ہو ہم اس کا کوئی علاج نہیں کرسکتے ۔ یہی صورتحال ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی موت کا ہے ۔ مسلمانوں کو مولانا آزاد نے کہا تھاسیاسی طور پر اپنی الگ شناخت کبھی نہیں بنانا ، ایساکرنا تمہارے لئے خطرناک ہوگا ۔ ہم ابتک اسی نصیحت پر عمل کئے جارہے ہیں اور نتیجہ کے طور پر سیاسی موت سے ہمکنار ہو چکے ہیں ۔ کوئی ہمیں کتنا ہی جگانے کی کوشش کرے لیکن ہم زندگی کی رمق کھو چکے ہیں سیاسی طور پرزندہ رہنے کی کوئی خواہش نہیں رہی اس لئے ہمارا کوئی بہی خواہ ڈاکٹر اس بیماری کا علاج نہیں کرپارہا ہے اور نا ہی مستقبل قریب میں کرپائے گا ۔ مولانا آزاد کی دی گئی نصیحت کو مسلمانوں نے اتنی مضبوطی سے تھاما ہے کہ وہ فیوی کول سے بھی زیادہ مضبوط جوڑ ہے چاہے جتنا زور لگالو ٹوٹے گا نہیں ۔ اس پر ہندی فلموں میں دکھائے جانے والے اکثر مناظر یاد جاتے ہیں جب کوئی مرتے وقت اپنے کسی عزیز کا ہاتھ کسی کو سونپتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد اس کا خیال رکھنا اور وہ بہر صورت اسے نبھاتا ہے ۔ مسلمانوں نے بھی کانگریس کو اتنی مضبوطی سے تھاما ہے کہ گنتی کے چند موقعوں پر جہاں شاید غلطی سے ہاتھ چھوٹ گیا اس کے علاوہ ہمیشہ اس کا ساتھ نبھایا اور ماضی قریب کے اپنے اکابر کی نصیحت پر عمل پیرا رہے ۔ یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ ہماری قوم میں دو طرح کے لوگ وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں ایک اکابر پرست ہیں تو دوسرے مقابر پرست ۔ جتنی مضبوطی سے مسلمانوں نے اپنے ان کابرین کی نصیحت کو گرہ سے باندھ کر رکھا ہے اگراتنی مضبوطی سے انہوں نے اللہ کی رسی کو تھاما ہوتا تو آج ان کی حالت کچھ اور ہی ہوتی ۔
اب ہماری بات یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے ۔ صرف کانگریس ہی واحد نجات دہندہ ہے یا یوں کہہ لیں کہ کانگریس ہی وہ سیاسی جماعت ہے جو آپ کو آر ایس ایس ، بی جے پی اور ہندوراشٹر کے عتاب سے بچائے گی تو پھر فسادات میں اپنی جانی و مالی تباہی پر ، فرضی بم دھماکوں کے الزام میں فرضی گرفتاریوں پر ، جعلی تصادم کے نام پر مسلم نوجوانوں کے قانونی قتل عام پر ، آزادی کے بعد سرکاری نوکریوں میں تیس پینتیس فیصد سے راست دو تین فیصد پر آجانے پر ، معاشی طور پر مفلس اور قلاش ہوجانے پر اور نت نئے قانون کے ذریعہ ہراسانی پر بے فیض احتجاج اور ہنگامہ آرائی کس لئے ۔ آپ نے تو جانتے بوجھتے ہی اس کا انتخاب کیا ہے ۔ اس کے سارے جرائم کی فہرست آپ کے سامنے ہیں یعنی جب معلوم ہے کہ اسی نے یہ سارے جرائم کئے اسی نے ہمیں اس انجام تک پہنچایا اور پھر اسی کے آستانے پر سر جھکانے کیلئے سب کچھ بھول کر حاضری لگانے اور اسے ایوان اقتدار تک پہنچانے میں شراکت دار بنتے ہیں تو یہ احتجاج اور دھرنوں میں اپنا وقت اور وسائل کیوں ضائع کرتے ہیں ۔ بھیڑیا کو بکریوں کے گلہ نگہبانی سونپیں گے اور وہ قسطوں میں آپ کی بکری کو چٹ کرتا جائے تو شکایت کیسی ہے ۔ جانتے بوجھتے کانگریس پر اعتماد متزلزل نہیں ہونے پر میر کی ایک غزل کا آخری شعر ہے ؂ میر کیا سادے ہیں ،بیمار ہوئے جس کے سبب / اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

0 comments:

featured

ناندیڑ میں سیکولرزم کی جیت کا جشن



نہال صغیر

ناندیڑ میں کانگریس نے 81 سیٹوں میں سے 73 سیٹ جیت کر اس بات کا اعلان کردیا ہے کہ اب بی جے پی کی واپسی کی شروعات ہو گئی ہے ۔ناندیڑ کانگریس کا گڑھ رہا ہے پچھلے کارپوریشن میں بھی اقتدار اسی کے حصے میں آیا تھا ۔ اس بار اسے توقعات سے زیادہ سیٹوں نے یہ احساس دلایا ہے کہ اس نے اقتدار میں دوبارہ آنے کی طرف قدم بڑھادیا ہے ۔لیکن ایسا فی الواقعہ ہے اس کے تجزیہ کی ضرورت ہے ۔ کیوں کہ بی جے پی نے پچھلی دو سیٹوں کے مقابلہ اس بار چھ سیٹوں پر سبقت حاصل کی ہے اور تین فیصد کے مقابلہ اس بار انیس فیصد ووٹ ملے ۔ کانگریس کو زیادہ خوشی اس لئے ہے کہ اس نے ناندیڑ کارپوریشن میں اسی طرح کی جیت حاصل کی ہے جس طرح پارلیمانی انتخاب 2014 میں نریندر مودی کی سربراہی میں بی جے پی نے پارلیمنٹ سے حزب اختلاف کا صفایا کردیا ۔بہر حال یہ سیاسی داؤ پیچ کبھی کانگریس اور کبھی بی جے پی کے حق ہوتا رہے گا ۔ شیو سینا نے پارلیمانی الیکشن 2014 کے بعد بی جے پی سے اپوزیشن جیسا برتاؤ تو کیا لیکن اس سے علیحدگی اختیار نہیں کی صرف زبانی بیان بازیوں نے اس کے ووٹ بینک کو بھی متاثر کیا اور اس کا راست فائدہ بی جے پی کو ہو رہا ہے ۔ شیو سینا کے صاف چھپتے بھی نہیں پاس آتے بھی نہیں کی صورتحال نے ہی ناندیڑ میں بھی اس کی مٹی خراب کی کہ چودہ سے ایک سیٹ پر اسے سمٹ جانا پڑا ۔ این سی پی کو بھی اس کے شیو سینا کی طرز پر کبھی اسطرف اور کبھی اس جانب کے سبب دس سیٹ سے سیدھے صفر پر آنا پڑا ۔ مجلس اتحاد المسلمین جس نے مہاراشٹر میں 2012 میں ناندیڑ کارپوریشن سے زور دار داخلہ لیا تھا اس بار صفر پر سمٹ جانا پڑا ۔ لیکن مجلس کی ہار شیو سینا یا این سی پی کی طرح نہیں ہے ۔ ان دو سیاسی پارٹیوں کی ہار کی وجہ سیاسی ہے وہیں مجلس کی ہار مسلمانوں کے خوف کی نفسیات کے سبب ہے ۔ یہ خوف کی نفسیات کا سیکولر پارٹیوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور اس میں کانگریس نے اولیت حاصل کی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کانگریس کو پیشہ ور مولویوں ، مفتیوں اور قصاب ٹائپ کے نام نہاد مسلم قائدین کی خدمات حاصل ہیں ۔
کانگریس کی ناندیڑ کارپوریشن میں جیت کا جشن اور مبارکباد دینے میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ بیچارہ مسلمان بیگانی شادی میں عبد اللہ دیوانہ والی پوزیشن میں آگیا ہے ۔ کانگریس کو مسلمانوں نے بھرپور ووٹ سے نوازا اس کے 24 میں چوبیس مسلم امیدوار کامیاب ہو گئے ۔ یہ ویسی ہی کامیابی ہے جیسی یوپی اسمبلی میں مسلم امیدواروں کو ملی تھی اور ستر یا بہتر ایم ایل اے مسلمان ہوئے تھے ۔ اس کے باوجود فسادات میں مسلمانوں کا نقصان ہوتا رہا پر وہ کچھ نہیں کرسکے ۔ پارلیمنٹ میں بھی مسلم لیڈروں میں صرف وہی بولتا ہوا نظر آتا ہے جس کی نکیل کسی ایسی پارٹی کے ہاتھوں میں نہ ہو جس کا سربراہ غیر مسلم ہو اور جہاں مسلمان پالیسی سازی کا اختیار نہیں رکھتا ہو ۔ کچھ لوگوں کو کسی مجلس کے پرجوش رکن کا یہ تبصرہ کافی گراں لگا کہ ’’مسلمانوں تمہیں کانگریس کی غلامی مبارک ہو ‘‘ ۔اس میں برا لگنے جیسی کوئی بات نہیں تھی ۔یہ تو ایک سچائی ہے ۔ آزادی کے بعد سے مسلمانوں نے کانگریس کی غلامی میں ہی تو وقت گزارا ہے ۔ سب کچھ دیکھنے کے باوجود اس جانب کبھی توجہ نہیں دی جاتی کہ اس سیاسی بے وزنی کا تدارک کیسے ہو ؟ کوئی مخلص مسلم قائد اٹھتا ہے اور مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی ختم کرنے کی جانب قدم بڑھاتا ہے تو کانگریس کے برانڈیڈ مسلمان سیاسی لیڈر اور برانڈیڈ مفتی اور مولوی مسلمانوں کو بی جے پی اور آر ایس ایس کی دہشت سے اس قدر ڈراتے ہیں کہ وہ بھول جاتا ہے کہ ہمیں اس حالت میں پہنچانے والی یہی پارٹی اور اس کے مسلم شو بوائے رہے ہیں اور آج بھی یہ لوگ اتنے ہی متحرک ہیں ۔ مہاراشٹر کانگریس کے صدر اشوک چوان کہتے ہیں کہ ’’مسلمان یہ جان چکے ہیں کہ مجلس اتحاد المسلمین بی جے پی کا متبادل نہیں بن سکتی اس لئے انہوں نے کانگریس کو ووٹ دیا ‘‘۔ یہاں اشوک چوان کی زبان پارلیمانی طرز کی ہے اس لئے انہوں نے ایسا کہا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ تمہیں بی جے پی کی دہشت سے صرف کانگریس ہی بچاسکتی ہے ۔ کہاں تم فضول اپنی قیادت اپنی سیاست کے چکر میں ہو ۔ کانگریس کی اس شاندار جیت پر جماعت اسلامی کے ایک رکن یا کارکن نے اپنے ردعمل میں لکھا کہ ’’کانگریس کی جیت مسلمانوں کی متحدہ حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے صرف کانگریس کو ووٹ دیا اور اپنا ووٹ تقسیم نہیں ہونے دیا ‘‘۔ یہ مسلمانوں کی اس جماعت کے ایک فرد کا سیاسی شعور ہے جس کے بارے میں ہمیں اب تک غلط فہمی ہے کہ یہ واحد جماعت ہے جہاں مسلم دنشوروں کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے ۔ اب ایسی تنظیم کے افراد کی سیاسی بصیرت ایسی ہوگی تو عام مسلمانوں کا حال کیا ہوگا ۔ سچ کہا علامہ اقبال نے کہ غلامی میں بدل جاتا قوموں کو ضمیر ۔ اس قوم کا ضمیر بدل چکا ہے ۔ اس لئے بی جے پی کی حالیہ دہشت انگیزی پر سیکولرزم کا جشن منائیے اور اسی سوراخ سے خود کو ڈسواتے رہیں جس سے ستر برسوں سے ڈسے جاتے رہے ہیں ۔ جبکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا ۔

0 comments:

Muslim Issues

ہم وفادار نہیں توبھی تودلدار نہیں


قاسم سید

کہتے ہیں کہ محنت‘ حوصلے‘استقلال ‘مثبت فکر اور اتحاد کے مضبوط جذبے کے ساتھ کام کیاجائے تو مشکل ماحول میں بھی اپنے سماج کو بہت کچھ دیاجاسکتا ہے ۔ معاشی وسیاسی وجود کو مستحکم بنانے میں مدد ملتی ہے اور جب عادت زیادہ تر شکوے‘دوسروں پر بے جا تنقید‘وقت کا ضیا ع لایعنی فضول بحثوں میں توانائی کا بے دریغ استعمال محنت سے راہ فرار اپنی ذمہ داریوں اور جواب دہی کےاحساس سے بے نیازی دوسروں پر انگلی اٹھاکر طعن وتشنیع کے پتھر برسانے کی عادت‘ ذہنی تلذذ کے لئے کسی پرکوئی بھی الزام لگانے کی فراخدلی‘جھوٹ‘افترا پردازی‘ دروغ گوئی کو تفریحا مزاج کا حصہ بنانے کی خواور ہر مصیبت اور آزمائش کا قصوروار دوسروں کو بتانے کا مرض‘پتھروں سے سرٹکرانے کی حماقت امتیازی اوصاف میں شمار ہونے لگیں تو فکری وذہنی انتشار کی کیسی حالت ہوگی تصور کیا جاسکتا ہے ۔ کانٹوں سے الجھنے کی بجائے دامن کو بچاکر راستہ بنانا ہی حکمت ودانائی کا پتہ دیتا ہے۔ تعمیری مشن سے رخ ہٹ جانے سے ظاہر ہے ذاتی اغراض ومقاصدوقتی موقع پرستی اور سازش کرنے کی صلاحیتیں اپنے جوہر دکھانے لگتی ہیں اس وقت جو صورت حال ہے اس سے لگتا ہے کہ ہر شخص اپنی صلاحیتوں کے مطابق انتشار کو بڑھانے‘شگاف کو اور چوڑاکرنے اور اتحاد کی بچی کھچی امیدوں پر پانی پھیرنے کی مسابقتی جنگ میں مصروف ہے۔ مضبوط‘پراعتماد اور ملت کے تئیں مخلص قیادت کے فقدان کاروناکم وبیش ہر ایک کی زبان پر ہے اور اسے ہی اپنے تمام مسائل ومصائب کا ذمہ دار گرانتے ہیں۔یقینا اس کی کوتاہیاںشامل حال ہیں۔ تن آسانی بیانات وکانفرنسوں سےہر مرض کا علاج ڈھونڈنے کی سادہ لوحی اور کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستگی وغیر مشروط وفاداری کے لازمی نتائج بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ سوال ہمیشہ باقی رہے گا کہ اگر اس نے غلطیاں کیں اور ہم وفادار نہیں تو بھی تودلدار نہیں کہہ کرصرف شکوہ ہی کرتے رہے۔ علاج تنگی داماں ہونے کے باوجود اپنے حصہ کا فرض ادا نہیں کیاگیا۔چلئے مان لیتے ہیں کہ مسئلہ ٹھوس پرعزم مستقل مزاج باحوصلہ قیادت کے فقدان کا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا جاناچاہئے کہ اطاعت کا جذبہ کس حد تک نبھایا گیا۔ کسی کی سننے کی عادت ہی کب ڈالی گئی جو آیا اس پر شکوک وشبہات کی بوچھا رالزامات کی یلغار اور اس پر اصرار کی جارحیت سے فرصت کب ملی کہ سمع وطاعت کے نیک احساسات کو بھی خانہ دل میں جگہ دیتے ۔ گلہ شکوے کی زبان کی جگہ اتحاد کی کونپلوں کو تعاون کا پانی اور رفاقت کی کھاد دیتے ۔ حکم دینے کے ساتھ حکم لینے اور اس پر عمل کا بھی مظاہرہ کیاجائے تو پچاس فیصد صورت حال اس سے سنبھل سکتی ہے ۔ سوشل میڈیا کے طوفان نے بھی بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے ۔ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اور تبھی آواز بھی پیدا ہوتی ہے اگر کمیاں قیادت کی ہیںاس کے مزاج میں ایسی تبدیلیاں آئی ہیں جو ناپسندیدگی کے درجہ میں شمار کی جاتی ہیں تو دوسری طرف سے بھی وہ پیار‘اعتماد‘بھروسہ نہیں ملا جس کی وہ مستحق ہوسکتی ہے جب رشتوں میں اعتماد نہ ہو ‘شکوک وشبہات کے جنگل میں حقائق گم ہوجاتے ہیں تو پھر کوئی بی جے پی کا ایجنٹ کسی کو آر ایس ایس کا مخبر ‘ کسی پر کانگریس کا وفادار تو کوئی خفیہ ایجنسی کا ہمدرد بتاکر بدنامی وتہمتوں کے پتھروں سے بے دردی کے ساتھ سنگسار کردیتے ہیں۔ ماضی کی تاریخ بھی اس حوالہ سے بہت تابناک اورقابل فخر نہیں رہی ہے۔بڑے سے بڑے عالم دین اوربزرگ قائدین کی صداقت وذہانت پر کھنے کے لئے ایسی کسوٹی بنائی گئی کہ انسانوں کے لئے اس پر کھرا اترنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور رہا۔ اس معیار مطلوب پر تو صرف فرشتے ہی اترسکتے تھے آج بھی پوری ’جاہ وحشمت‘ کے ساتھ یہ روایت جاری ہے جسے ہم پسند کرتے ہیں اس کی شان وعظمت میں رتی بھر کمی برداشت نہیں کرسکتے جو ہماری عقیدتوں کا مرکز ہے اس میں ذرہ برابر خامی یا کمزوری کا تذکرہ بھی گناہ ماناجاتا ہے ۔ اس میں وہ تمام خوبیاں تلاش کرلیتے ہیں جن کا علم اس ذات کو بھی نہیں ہوتا ۔ اگر کسی نے گستاخی کی جرأت کی اس کی سات پشتوں کو بھی بخشنے کو تیار نہیں ہوسکتے دوسری طرف جو ہمارے معیار مطلوب پر کھرا نہیںاترتا یا ہمارے مرکز عقیدت سے اختلاف رکھتا ہے اس میں ڈھونڈنے میں بھی کوئی اچھائی نظرنہیں آتی وہ صرف سنگ ملامت کا ہی مستحق گردانا جاتا ہے اس افراط وتفریط نے ہمارے معاشرہ کو بھدا مذاق بناکر رکھ دیا ہے ۔ میڈیا جو ایسے معاملات میں غیر جانبداری سے حالات کاتجزیہ کرتا ہے اور چھپائے گئے سچ کو اجاگر کرتا ہے وہ بھی خاموش رہ کر تماشہ دیکھ رہا ہے یاپھر اس نے کسی کے ساتھ خود کوبریکٹ کرلیا ہے اس کا عقیدت مندانہ جھکائو خواہ کاروباری مفادات کی مجبوریوں کے تحت کیوں نہ ہو نظرآجاتا ہے جس سےاس کی امیج بھی مسخ ہوگئی جب معاشرہ بگڑتا ہے ‘اتھل پتھل ہوتی ہے یادھینگا مستی عام ہوجاتی ہے اس صورت کو میڈیا سنبھالتا ہے وہ امراض کی نشاندہی کرکے علاج کی تدابیر بتاتا ہے اس کو بھی مصلحتوں کا ڈینگو ہوگیا ہے ۔ زندہ رہنے کے دبائونے اچھے اچھوں کے کس بل نکال دئیے ہیں اور دم ہلانے پر مجبور کردیا ہے۔ عالمی سطح کے حالات اس سے مختلف نہیں ہیں مثلاً شام میں الجھی طاقتوں میں دونوں طرف مسلم ممالک نظرآئیں گے۔ قطر کے معاملہ پر ٹکرائو میں فریقوں میں مسلم ملک ہی ملیں گے۔ سعودی عرب ایران کے درمیان اختلافات‘کردستان پر جاری گھمسان ‘فلسطین کا تنازعہ‘یمن کی لڑائی اس وقت دنیا میں موضوع بحث مسائل ہیں زیادہ تر لڑائیاں خانہ جنگیاں ہم سے عبارت ہیں اسلام کے نام سے ہی تشدد وغارت گری کا بازار گرم ہے۔ مرنے اور مارنے والے دونوں مسلمان ہیں ۔ پاکستان میں بم دھماکوں میں مارے جانے والے اور خودکش دھماکوں میں جان گنوانے والے دونوں ہی کلمہ گو کہلاتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں روہنگیائی مہاجرین کے کیمپ اور مظفرنگر فسادکے بعد شاملی و آس پاس کے علاقوں میں آج بھی موجودہ پناہ گزین کیمپوں میں بظاہر کوئی فرق نہیں ۔ کوئی اپنے ہی ملک میں پناہ گزین بنادیاگیا اور کہیں شہریت کے سوال پر تاخت وتاراج کردئیے گئے۔ یعنی اپنوں کے ہاتھوں سے بھی مارے جارہے ہیں اور دوسرو ں نے بھی ستانے‘پریشان کرنے اور ہاتھ آزمانے کے لئے سب سے کمزور ولاچار طبقہ کی نشاندہی کرلی ہے۔ ہر طرف مذہبی انتہاپسندی نقطہ عروج پر ہے مذہب کا اعتدال پسند چہرہ کہیں گم ہوگیا ہے عدم برداشت کا دائرہ پھیلتاجارہا ہے ۔مسلکی شدت پسندی اس کا عملی نمونہ ہے۔ ایک ساتھ تین طلاق اور محرم کے بغیرسفر حج جیسے مسائل پر قوم کے جوہر خوب سامنے آئے ہیں ۔
جب ایک دوسرے کو برداشت کرنے اختلاف رائے کا احترام کرنے‘ مخالف کی باتوں کو صبرو تحمل سے سننے اور منطقی جواب دینے کی ضرورت کا جذبہ ختم یاکمزور ہوجائے‘رویوں میں لچک ‘مزاج میں نرمی اور جھکائو ‘انکساری‘ مواخاۃ‘بھائی چارہ کو جگہ نہ ملے تو ہزاروں کانفرنسیں کرلیجئے ۔ لاکھوں افراد کو جمع کرلیجئے۔ قومی یک جہتی ایکتا امن کی باتیں کرلیں جب دل کی زمین بنجر ہوجائے تو کوئی بھی بارش اسے سرسبز نہیں کرسکتی ۔ ہر عام آدمی کی زبان بن چکا سوشل میڈیا جس طرح شتر بے مہار ہوگیا ہے اور ہمارے فاضل نوجوان اپنی جولانیاں دکھارہے ہیں اس سے عمومی مزاج ورجحان کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ تعلیمی ادارے ومدارس کتنے ہونہار اورباصلاحیت فرزند پیداکر رہے ہیں اور وہ ملک وملت کو کہاں لےجاناچاہتے ہیں۔ ان کے پاس ذہانت ہے‘ دلائل ہیں مخالفین کا شجرہ ہے۔ ان سب کا استعمال کب اور کہاں کرنا ہے انہیں بخوبی معلوم ہے۔ وہ زبان پر لگام اور الفاظ کے استعمال پر کنٹرول کب اور کتنا کرنا ہے اس سے واقف ہیں دوسروں کی نیت میں کیا فتور ہے کس کے اشاروں پر کام کیاجارہا ہے کون کس کا ایجنٹ ہے یہ علم غیب بھی ہے۔ ممکن ہے انہی میں سے کچھ نوجوان نکل کر آئیں اور قوم وملت کی قیادت سنبھالیں اور خزاں رسیدہ ملت کو بہار کی رونقوں سے آشنا کریں ۔
ہندوستان کی 65فیصد سے زائد آبادی نوجوانو ںپر مشتمل ہے اس میں مسلم نوجوانوں کی قابل ذکر تعداد ہے۔ہر کمیونٹی میں نوجوان قیادت سامنے آرہی ہے یوگی اس کا ایک اظہارہیں انہیں آگے بڑھایاجارہا ہے۔ اس طرح ہادرک‘اپلیش‘ جگنیش اور چندر شیکھر جیسے نوجوانوں نے اپنی کمیونٹی کا اعتماد اور بھروسہ حاصل کرلیا ہے مگر یہ سب آسانی سے یا صرف سوشل میڈیا کی میز پر بیٹھ کر نہیں ملا‘ گائوں گائوں دورہ کیا۔ اپنے لوگوں کے مسائل سنے جھگی جھونپڑیوں میں وقت گزارا ۔ پولیس کی لاٹھیاں کھائیں جیلوں میں بند کئے گئے ۔ غداری جیسے سنگین الزامات کے تحت مقدمے چلائے گئے ۔ آئے دن گرفتاریوں کا سامنا کیا ۔ پسینہ ہی نہیں خون بھی بہایا ۔ عوام جن کےلئے ہم کام کرناچاہتے ہیں ۔ وہ بسوں میں بھر کر اس وقت تک لائے جاتے ہیں جب قیادت کے ساتھ براہ راست کنکشن نہ جڑا ہو ورنہ وہ پیدل چل کر وہاں پہنچتے ہیں جہاں بلایاجاتا ہے پھران کے روڈ شو میں بھیڑ امڈکر آتی ہے اور جان پر واری ہوتی ہے ۔
ہمیں یقین ہے کہ اس مٹی سے مطلوبہ قیادت ابھرے گی ۔ یہ دور نوجوانوں کا ہے یہ بات ابھی ہم سمجھ نہیں رہے یا سمجھنا نہیں چاہتے اس قوت کو زیادہ دنوں تک دباکر نہیں رکھاجاسکتا یاتو جگہ دینی پڑے گی ۔ یاپھر خالی کرنی ہوگی روایتی طور طریقوں سے کئے چیلنجو ں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ ذوق یقین سے چیلنجوں کی زنجیریں کاٹی جاسکتی ہیں مگر ذوق یقین کے ساتھ وسعت قلبی اور ذہنی کشادگی کے بغیر نہ لوگوں کو قریب کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی ان کابھروسہ واعتماد جیتاجاسکتا ہے ۔ قربانیاں لینے کا تقاضہ اس وقت کیا جائے جب قربانی دینے کا عملی مظاہرہ کیا جائے پھرکوئی کتنی کوشش کرے راستہ نہیں روکا جاسکتا ۔

0 comments:

featured,

کچھ قصوروار ہم بھی ہیں


قاسم سید

  
یہ راز کی بات نہیں کہ ذرائع ابلاغ جس کو عرف عام میں میڈیا کہاجاتا ہے ۔ اس کا اعزاز واکرام ،اس کی ساکھ داؤ پر ہے ۔ ساکھ کا بنیادی مرکز خبر کی صداقت ہے اسے باریک چھلنی سے بار بار گزاراجائے تاکہ کوئی صداقت پر حرف نہ رکھ سکے ۔ جو اس کاخیال رکھتے ہیں سماج انہیں عزت ورفعت سے دیکھتا ہے ۔ امین صادق بننے کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ آزمائش کے خارزاروں کو تلووں کا لہو پلانا پڑتا ہے تب جاکر یہ مرتبہ حاصل ہوتا ہے ۔ اگر احتیاط نہ برتی جائے تو کسی شخص یا ادارے کا کردار عمل اور حیثیت متاثر ہوسکتی ہے ۔ ادارتی نظم وضبط کو یقینی بنایاجائے اور جب صداقت کی کسوٹی پر خبرکھری اترتی ہوتو پھر اس کو ریڈر تک پہنچانے میں تکلف نہ کیاجائے اس وقت تمام طرح کی وابستگیاں کنارے رکھ دی جائیں ۔ تعلقات ومعاملات کو ثانوی درجہ پر رکھاجائے اس میں کتروبیونت نہ ہو بھلے ہی کوئی کتنا ناراض کیوں نہ ہو اس وقت محمد علی جوہر کی یہ بات یاد رکھی جائے ساری خدائی بھی مخالف ہوجائے اگر خدا ساتھ ہے تو وہ کافی ہے ۔ حالانکہ آزاد بے خوف میڈیا کبھی کسی کی پسند نہیں رہا خواہ حکمراں طبقہ ہویا اشرافیہ اس لئے کہ نکتہ چینی ان کے کانوں میں سیسہ بن کر اترتی ہے ۔ چتونوںپربل آجاتے ہیں ۔لہجہ میں غراہٹ اور چہرے پر بلبلاہٹ نظرآنے لگتی ہے ۔ دنیا بھر میں آزاد میڈیا زور آور طبقات کو عزیز نہیں ہوتا مسلم ممالک میں میڈیا کی مقبولیت اس لئے نہیں کہ وہ مخالفت کو برداشت نہیں کرتے۔ شاہی مزاج ویسے بھی نازک ہوتا ہے ۔ مسلمانوں کے اندر بھی میڈیا کو اس لئے نظراندازکیاگیا کہ ان کا طبقہ اشرافیہ صرف جی حضور ی‘قدم بوسی‘ فددیانہ ذہنیت اور غلامی کے انداز کو ہی قبول کرتا ہے اس کے یہاںانکار‘ اصرار اور تکرار کی کوئی اجازت نہیں ۔ حضرت جی کے مزاج نازک میں اتنی سکت نہیں ہوتی کہ انہیں کوئی مشورہ دینے کی جسارت کرے یا ان کے احکامات سے سرتابی کی مجال کا سودا سر میں سمائے ۔ وہ اپنے دائرہ ارادت و عقیدت میں گستاخ اور نافرمان عناصر کو برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ میڈیا فطری طور پر آزاداور باغیانہ مزاج رکھتا ہے ۔ وہ سماجی خرابیوں کا آپریشن کرتا ہے اس کے ہیئت ترکیبی میں خوشامد‘ چاپلوسی‘تملق اور غیر مشروط فرمانبردار ی کے عنصر موجود نہیں ہے ۔ اس لئے میڈیا کی اہمیت اس کی طاقت اور اثر پذیری کو سمجھتے ہوئے بھی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ۔ بدقسمتی سے اب میڈیا کی تجارتی ضرورتوں نے اس کا حلیہ ہی بدل دیا ہے ۔ اب وہ پالتو شیر کی طرح کسی کے قدموں پر بھی لوٹنے اور اس کے پائوں چاٹنے کے لئے تیار ہے ۔ چونکہ اس پر نکیل ڈالنا اور اثرو رسوخ کو محدود کرنا مشکل ہے ، اس لئے تجارتی ضرورتوں کی گاجر لٹکاکر اس کی ریڑھ کا سارا پانی نکال لیاگیا جو سیدھے راستے سے قابو میں نہیں آئے ، ان کو سیدھا کرنے کے دیگر ذرائع بھی ایجاد کرلئے گئے ہیں اور آج کل ان کا بے باکی سے استعمال ہو رہاہے۔ جس میں کسی خبر یارپورٹنگ سے ناراضگی پر سو کروڑ روپے کی دھمکی دینا شامل ہے ۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ میڈیا کی حد درجہ’ گستاخیوں‘ اور بلیک میلنگ کی ذہنیت نے اسے بازار و اور طوائف کا کوٹھا بنادیا ہے ۔ میڈیا کے زخم خوردہ طبقات کے لئے یہ صورت حال خوش کن ہوسکتی ہےکہ وہ خودشکنی اور خودکشی کی راہ پر چل پڑے۔ اس کی خبریں غیر معتبر ہوجائیں یہ وقار واعتبار اور ساکھ ہی قلعہ آزادی کی فصیلیں ہیں ۔ ان میں شگاف ہوجائے تو گستاخ ہوائوں کی یلغار روکنامشکل ہوجاتا ہے ۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ کئی اور کھڑکیاں کھل گئی ہیں ان میں سوشل میڈیا عام آدمی کی آواز بن کر ابھرا ہے جس کے پاس وسائل ہیں وہ بغیر خرچ کئے اپنی بات ہزاروں لوگوں تک پہنچا سکتا ہے اجارہ پسند ذہنیت کے لئے یہ صورت حال بہت پریشان کن ہے مگر رطب ویابس اور خس وخاشاک کی افراط نے اسے غیر معتبربنادیا ہے فیک نیوز کا طوفان بھی اسی کا حصہ ہے ۔ لیکن معاشرہ میں شعور کی پیہم پھیلتی روشنی میں اس کا خاص نمایاں حصہ ہے ۔ میڈیا صرف حکمرانوں کی بدعنوانیاں ہی اجاگر نہیں کرتا بلکہ سماجی کمزوریوں پر بھی کام کرتا ہے اس کے ساتھ لغزشوں اور کمزوریوں کا آناقابل فہم ہے مگر جب یہ عادت بن جائے ۔ یک رخا پن آجائے ‘لہجہ بے قابو ہونے لگے اور بے مہار اندازاسلوب لطافتوں کو مجروح کرنے لگے تو خود احتسابی کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے۔ میڈیا میں کارپوریٹ کی دراندازی نے اس کا چہرہ اور ساخت دونوں بدل دیا وہ فاشی طاقتوں کے اشاروں پر کام کرتا ہے ۔ سماج کے لئے سنگین خطرہ بن گیا ہے۔ کریکٹر کا قتل اس کا محبوب مشغلہ ہے ۔ وہ ایک مائنڈ سیٹ کے تحت کام کرتا ہے اس کا ایجنڈہ بھی سیٹ ہے اور وہ خفیہ نہیں ہے ۔ سماجی اکائیوں میں انتشار پیداکرنا انہیں باہم لڑانا‘ کمزور طبقات کو ٹارگیٹ کرنا ان کی حب الوطنی پر انگلی اٹھانا ‘ غریبوں واقلیتوں اور مظلوموں کے بنیادی مسائل سے روگردانی ‘راکھی ساونت ‘ اوم بابا‘ آسارام باپو‘ بابا رام رحیم اور ہنی پریت جیسے جوکروں کو پرائم ٹائم میں جگہ دینا‘اقلیتوں کامذاق اڑانا‘انہیںنان ایشوز میں پھنساکر رکھنا‘ان کے جذبات کو مشتعل کرنا‘ ہندوتو کے ایجنڈے کو قابل قبول بنانے کی مہم چلانا‘ حکمراں طبقہ کے ہرقدم کو سندجواز عطا کرنا اور اصل مسائل کو ایجنڈے سے ہٹادینا میڈیا کے بڑے سیکشن کا پروفائل بن گیا ہے ۔ ہمارا معصوم انجان اور حالات سے بے خبر طبقہ بھی ان کے جال میں آسانی سے پھنس رہاہے ۔ بے معنی بے مصرف اور بلاضرورت موضوعات پر ہونے والی ڈبیٹ میں شامل ہونے والے طبقہ کی اکثریت کو شاید یہ معلوم نہیں کہ وہ کس طرح خطرناک سازش کا حصہ بن رہے ہیں اورجانے انجانے میں ان کے اہداف کو مکمل کرنے میں معاون ہو رہے ہیں ۔ حلال وحرام جائز وناجائز کےفیصلے آدھا گھنٹہ کے شو میں طے کرنے کے لئے پہنچنے والے افراد ان کے بچھائے جال میں پھنستے چلے جارہے ہیں ۔ کسی مسلم ایکٹریس کی مانگ میں سیندور لگانے کو حلال وحرام قرار دینے کی بحث‘‘ثانیہ مرزا کے چھوٹے کپڑے پہن کر میچ کھیلنے کے جواز عدم جواز‘لڑکیوں کے بھنویں بنانے اور بال کاٹنے پر بحث وتکرار اور اس میں مسلمانوں کے نادان طبقہ کی سرگرم شمولیت چیخ وپکار‘ ہنگامہ آرائی، اسلام اور مسلمانوں کو ذلیل ورسوا کرنے ہر طرح کی مہذب گالیاں دینے کے لئے سجائے سیٹ پر ایسے چہروں کی موجودگی ان کو غذافرہم کرتی ہے جو رسوائی کو شہرت سمجھنے لگے ہیں اورگالیاں کھاکر بھی لب کی شیرینی کی وجہ سے بے مزہ نہیں ہوتے میڈیا بنیادی مسائل پر بحث سے بھاگتا ہے لیکن فروعی معالات کو اچھالنے میں مزا آتا ہے۔ عیدمیلادالنبیؐ پر گھر پر لگے سبز پرچم کو پاکستانی جھنڈا چمٹے کو بھالا‘ تکلے کو بم ثابت کرنے میں مہارت حاصل ہے۔ کہیں بھی ہونے والے دھماکوں میں فوراً مخصوص طبقہ کا ہاتھ تلاش کرنے کے فن میں طاق ہے خواہ مالیگائوں بم دھماکہ ہو یا لاس ویگاس میں اندھادھند فائرنگ کے ذریعہ60معصوم افرادکا اجتماعی قتل عام‘منفی پروپیگنڈہ کی طاقت سے کریکٹر اور کیریئر تباہ کردینا اس کی فطرت خبیثہ کا اظہار ہے ۔ انفرادی واجتماعی دونوں سطحوں پر میڈیا کی حرکتوں سے کمیونٹی کو نقصان ہوا۔ ہورہا ہے‘ ہوتارہے گا اگر ہم غیر شعوری طور پر اس کا آلہ کار بنتے رہے ‘اپنے گھر  سے ایندھن فراہم کرتے رہے اورتدارک کےبارے میں نہیں سوچا۔ نفرت کا سیلاب جو میڈیاکی گنگوتری سے آتا ہے اپنے پیچھے کیا کچھ چھوڑ کر جاتا ہے اندازہ لگانا مشکل ہے۔
عام آدمی کی آواز کے لئے متبادل کھڑا کرنا ہوگا ۔ میڈیا کو نظرانداز کرکے ہم نے ناقابل معافی جرم کیا ہے۔ ہم خود اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی سہل پسندی کا مزاج دوسروں پر الزام تراشی‘ان سے حق وانصاف کی توقع اور اپنے حصہ کا کام بھی ان کے کردینے کی آس نے لاچارو بھکاری بنادیا ہے۔ جس میڈیا کی تخلیق تخریب کاری کے لئے ہوتی ہو اس سے تعمیر کی امید رکھنا حماقت ہی کہی جائے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ وسائل کی کمی ہے یہ کام ہونہیں سکتا۔ بس ترجیحات کامعاملہ ہے جب کانفرنسوں میں لاکھوں روپیہ لگایا جاسکتا ہے ۔ (یقینا اس کے اثرات وثمرات ہوتے ہوں گے مگر ملت کا فائدہ کیا ہو رہا ہے ۔ ہم جیسے کم فہم ناآشنا ہیں) توپھر مضبوط مستحکم بااثر میڈیا کھڑا کرنے میں کوئی رکاوٹ کیسے آسکتی ہے ۔ دراصل طبقہ اشرافیہ جس کے ہاتھ میں باگ ڈور ہے اس کو اپنی ترجیحات میں میڈیا کو سرفہرست رکھنا ہی ہوگا ۔ بھلے ہی طاقتور میڈیا ان کی پسند نہ ہو مگر تھوڑی ہی دیر کے لئے اجتماعی وملی مفاد میں سوچنے کی عادت ڈالنی ہوگی ۔ یہ جلسے جلوس ہوتے رہیں ۔ اپناقدبڑا کرتے رہیں کس نے روکا ہے ۔ اپنے لوگوں کو کبھی یہاں کبھی وہاں اکٹھا کرتے رہیں کوئی کمبخت کیوں برامانے گا ۔ مگر بغیر زنجیر والا میڈیا ہم سب کی اولین ضروریات میں سرفہرست لانا ہی ہوگا ۔ کیونکہ ’وکاس‘ کی طرح میڈیا بھی پاگل ہوگیا ہے جس نے جھوٹ کو اپنا شعار اور چاپلوسی کو اپناکردار بنالیا ہے ۔ جو مداری کے بندر کی طرح اشاروں پر ناچتا ہے اور خود دار میڈیا کا جینامحال ہوگیا ہے ۔ کیاامید کریں کہ سوا داعظم اس پر عملی اقدامات کرے گا؟
qasimsyed2008@gmail.com

0 comments:

featured

یوپی میں دہشت کے سائے : کیرالہ میں تشدد کیخلاف یوگی کی یاترا


نہال صغیر

یوپی میں عوام دہشت کے سائے میں زندگی جینے کو مجبور ہیں جبکہ یوگی جی کیرالہ میں تشدد کے خلاف یاترا میں حصہ لے رہے ہیں ۔انہوں نے کیرالہ کی ریاستی حکومت پر سیاسی قتل کا الزام لگایا ۔ان کا کہنا ہے کہ وہاں بی جے پی اور آر ایس ایس کارکنوں کو سیاسی مخاصمت کی بنیاد پر قتل کیا جارہا ہے ۔ان کے اس الزام پر یقینا کچھ لوگوں کو ہنسی آئے گی کہ جو شخص زندگی بھر تشدد کا مبلغ رہا اور اب جس کی وزارت اعلیٰ کے دور میں اتر پردیش بد ترین تشدد کی زد میں ہے وہ دوسروں کو نصیحت کررہا ہے کہ وہ سیاسی تشدد کی واردات پر قابو پائیں ۔آج کے اخبار کو ہی لے لیں اس میں جہاں غیر بی جے پی والی ریاست جیسے کیرالہ اور مغربی بنگال حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہاں سیاسی قتل ہورہے ہیں وہیں یوپی کی ایک مسجد میں تشدد کی خبر ہے جہاں امام مسجد کو گالیاں دی گئیں اور انہیں گائوں چھوڑنے کیلئے کہا گیا ۔ایک اور فرمان یوگی کا ایسا ہے جس پر گمان ہوتا ہے کہ وہ کسی دانشور کی زبان میں بول رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ’’جمہوریت میں تشدد کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے‘‘۔بہتر ہوتا کہ یوگی آدتیہ ناتھ دوسری ریاستوں میں جاکر کوئی یاترا نکالنے یا تشدد کی مذمت کرنے کی بجائے وہ اتر پردیش کو جرائم اور تشدد سے پاک بناتے ۔ایسا وہ کر بھی سکتے ہیں اگر ان کے اندر سیاسی عزم و جرات ہو اور ان کی آنکھوں پر زعفرانی چشمہ نہ ہو اور دماغ میں نفرت کا لاوا نہ ابل رہا ہو ۔لیکن یہ سب اس لئے ناممکن ہے کیوں کہ وہ زندگی بھر تشدد کی تبلیغ ہی نہیں تشدد کو بذات خود ہوا دیتے رہے ہیں یہی سبب ہے کہ ان پر فساد پھیلانے اور جان سے مارنے کی دھمکی دینے اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے کئی مقدمات ہیں ۔جن پر نہ تو سماج وادی کی حکومت نے عمل آوری کرتے ہوئے انہیں قانون کا سبق پڑھانے کی کوشش کی اور اب تو وہ خود ہی اس ریاست کے سب سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں اب کون انہیں پابند کرسکتا ہے اور کس کی مجال کے انہیں قانون کی بالا دستی کا سبق پڑھائے ۔ معاملہ یہ ہے کہ پورے ملک پر تو ان کی بالادستی قائم ہو چکی ہے لیکن مغربی بنگال اور کیرالہ میں باوجود کوشش کے عوام نے ان کے دہشت گردانہ نظریات کو دھتکار دیاجس کی وجہ سے وہ اور ان کے حواری پیچ و تاب کھارہے ہیں کہ یہ دونوں ریاستیں کس طرح ان کی دست برد سے محفوظ ہیں ۔اسی لئے یہ لوگ چند واقعات کو بہانہ بنا کر وہاں کی فضا کو خراب کرنا چاہتے ہیں ۔مسٹر یوگی جیسے لوگوں کو ایسی کسی بھی نصیحت سے پہلے اپنے گریبان میں ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ کیا وہ اس قابل ہیں کہ دوسروں کو تشدد روکنے کی اپیل کریں اور تشدد کے خلاف احتجاج میں کسی یاترا کا انعقاد کریں۔اس کو ڈھیٹ پن اور بے شرمی نہیں تو اور کیا کہیں گے ؟ زعفرانی ٹولے کی اس بے شرمی پر اپوزیشن کو سخت نوٹس لیتے ہوئے اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن بالکل ہی ختم ہے اس کا کہیں کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔اس کا فائدہ بی جے پی کے بے غیرت لوگ اٹھارہے ہیں کہ انہیں اپنے دامن کا داغ نظر نہیں آرہا جس پر ساری دنیا تھو تھو کررہی ہے اور جس سے ملک کی بدنامی ہو رہی ہے لیکن انہیں کوکاتا اور کالی کٹ میں تشدد ہی تشدد نظر آتا ہے ۔بھلا کوئی ابھی چند روز قبل ہی بنارس ہندو یونیورسٹی میں لڑکیوں پر رات کے وقت اچانک پولس ایکشن کو بھول سکتا ہے جس میں احتجاج کررہی بے ضرر سی کمزور لڑکیوں نے دھرنا ہی تو دیا تھا ، انہوں نے کوئی توڑ پھوڑ کوئی آگ زنی یا تشدد کی کوئی دوسری کارروائی کی تھی جو اس طرح کا وحشیانہ برتائو ان کے ساتھ کیا گیا؟اپنی ریاست سنبھل نہیں رہی اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ اس سب سے بڑی ریاست کے نظم و نسق کو مناسب ڈھنگ سنبھال سکیں۔
ملک کی صرف چند ریاستیں ایسی ہیں جہاں بی جے پی کے زہریلے اثرات کامیاب نہیں ہو پارہے ہیں ۔ان میں کیرالا اورمغربی بنگال قابل ذکر ہیں ۔ یہی بات ان کی نظروں میں کھٹک رہی ہے ۔لیکن حالیہ دنوں میں عوامی رائے عامہ میں جس طرح کی تبدیلی دیکھی گئی اس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ جس 2019 میں انہوں نے دوبارہ ہندوستانی پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رکھا ہے وہ چکنا چور ہو تا ہوا نظر آرہا ہے ۔اسی خدشہ کے مد نظر اب یہ ان ریاستوں کو بدنام کرنے وہاں تشدد پھیلانے کے منصوبہ کے تحت اپنے کام میں لگ گئے ہیں تاکہ مشن دو ہزار انیس کو حاصل کرسکیں لیکن یہ خواب ان کا شاید اب پورا نہیں ہوگا۔اس پر کسی ٹوئٹر پر لکھا تھا ’نوٹ کرلو دو ہزار انیس میں یہ انیس سیٹ بھی حاصل نہیں کرپائیں گے‘۔لکھنے والے نے کس امید پر ایسا لکھا لیکن اتنی بری حالت ان کی نہ ہو پر ہدف تو بہر حال حاصل نہیں کر پائیں گے ۔انہوں نے ساڑھے تین سال ضائع کردیا ۔عوام کو وقتی طور پر گائے اور لو جہاد جیسے فضول اور تشدد آمیز پرپگنڈہ میں الجھا ضرور دیا اور اس کے فوائد انہیں حاصل بھی ہوئے کہ یوپی جیسی ریاست میں بھی انہیں کامیابی مل گئی۔ لیکن شاید ان کے پاپ کا گھرا بھر چکا ہے اور اب الٹی گنتی شروع ہو چکی جس کی ابتدا عنقریب گجرات اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی ہار یا سیٹوں میں بھاری کمی کی صورت میں آنے والا ہے ۔تشد د پر سنگھیوں کو اتنا زیادہ اعتماد ہے کہ انہوں نے اس سے صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ برہمنوں کے علاوہ تقریبا تمام ہی ذاتیوں کو نشانہ بنانے کا اپنا پرانا حربہ نہیں چھوڑا ہے ۔آج کے ہی اخبار میں مدھیہ پردیش سے کسانوں کے احتجاج کو سختی اور بزور قوت کچل دینے کی بھی خبر ہے جس کے مطابق ان کی پولس نے کسانوں کو بیدردی سے مارا اور انہیں بے لباس تک کردیا ۔اب ایسی حکمرانی کرنے والے جب دوسری ریاستوں کو نصیحت کریں گے تو دنیا ان پر ہنسے گی نہیں تو اور کیا کرے گی ۔اس ہنسی اور مضحکہ کے نتائج بھی سامنے آتے رہتے ہیں کہ گوگل میں احمق اور مجرم کیلئے کس کا نام آتا ہے وہ اب پردہ اخفا میں نہیں ہے ۔نیو یارک ٹائمز اور دیگر بین الاقوامی اخبارات اور ذرائع ابلاغ بھی چٹکی لیتے رہتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ حقائق دنیا کے سامنے لاتے رہتے۔انہوں نے ہندو دہشت گردی کا چہرہ کس کو کہا یہ بھی سب جانتے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ ٹھان لی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ہم اپنی روش نہیں بدلیں گے خواہ ملک کی نیک نامی کو کتنا ہی بٹہ لگے ۔جس پر کسی شاعر نے کہا تھا   ؎  بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔یہ اپنی بدنامی کو نیک نامی میں بدلنے کی بجائے کوشش یہ کرتے ہیں کہ دوسرے بھی بدنام ہو جائیں تاکہ اس گندگی میں ہم اکیلے نہ ہوں دوسرے بھی اس کے ساجھی دار ہوں ۔ان میں اگر اخلاقی جرات ہوتی تو یہ خود پر لگنے والے الزامات پر مقدمہ چلانے کی اجازت دیتے اور عدالت میں ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے خود کو امن کا علمبردار ثابت کرنے کی کوشش کرتے ۔یہ بات اس لئے بعید تر ہے کہ انسان کی فطرت نہیں بدلتی ہے ۔امن و انصاف کے علمبردار اپنی روایت اور شرافت سے پہچانے جاتے ہیں اور اس کے دشمن اپنی سرشت میں چھپے شر سے جانے جاتے ہیں ۔کچھ لوگ ریت میں سر چھپا کر یہ محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ خطرہ ٹل گیا ہے ۔لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا ۔جس کی شناخت تشدد سے عبارت ہے دنیا اسے اچھی طرح جانتی ہے ۔وہ چاہے جتنا بھی ملمع کاری کرنے کی کوشش کریں اکیسویں صدی کی اطلاعاتی تکنیکی دور میں ملمع اترتے زیادہ وقت نہیں لگتا ۔اب وہ پردھان سیوک کی امن کے تئیں اداکاری ہو جس پر جنوبی ہند کے ایک ایکٹر نے کہا کہ وہ ہم سے بڑے اداکار ہیں یا یوگی کی امن پسندی کا ڈھونگ دنیا سب کچھ دیکھ رہی اور جان رہی ہے ۔بس معاملہ یہ ہے کہ سفارتی اور پارلیمانی لہجہ اختیار کرنے کے سبب سربراہان مملکت کسی کے خلاف کچھ نہیں بولتے لیکن وہی باتیں اس ملک کا اخبار یا ذرائع ابلاغ کے دوسرے شعبوں میں کہہ ہی دی جاتی ہے ۔سمجھ داروں کے لئے اشارہ ہی کافی ہے ۔اس کے بعد بھی کسی کو اپنی پیٹھ خود ہی تھپتھپانے کی بری عادت ہو تو اس کا کیا علاج ہے ۔

0 comments:

News

گاندھی جینتی کے موقع پر سدبھاونا منچ کا احتجاج بعنوان گاندھی سے گوری تک سدبھاونا منچ کا خراج عقیدت: گاندھی کے ساتھ گوری کی یاد






گاندھی جینتی کے موقع سدبھاونا منچ کی جانب شام ۴ بجے مراٹھی پترکار بھون میں ایک احتجاجی پروگرام کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت اے پی سی آر کے سکریٹری جنرل اسلم غازی نے ۔ اس پروگرام  اردو ، مراٹھی اور انگریزی زبان کے اخبارات و ٹیلیویژن سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے اظہار خیال کیا۔ تلاوت کلام پاک اور ترجمہ کے بعد ڈاکٹر سلیم خان  شرکاء کا استقبال کیا اس اہتمام کے اغراض و مقاصد پیش کیے۔افتتاحی خطاب  گاندھی جی  کو عدم تشدد کے بجائے کچرا صفائی کی علامت بنا کررکھ دینے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ساتھ  ہی صحافتی آزادی  کی رینکنگ ملک کے ۱۳۳ ویں مقام کا ذکر ہوا۔   اس ایک  ماہ میں  تین صحافی قتل ہوئے اور ؁۱۹۹۲ کے بعد قتل ہونے ۳۹ صحافیوں میں سے صرف ۴ فیصد کی جزوی سزا کو اس کے لیے ذمہ دار قراردیا گیا۔ مہاراشٹر ون چینل کے صحافی  اور مراٹھی پترکار سنگھ کے نائب صدر سدھاکر کشیپ نے کہا ہماری جمہوریت لنگڑی ہوچکی ہے اس لیے اس کے ایک پیر ذرائع ابلاغ کو سرمایہ داروں نے خرید لیا ہے۔ آپ نے فرمایا ایسے میں ہمارے پاس سوشیل میڈیا اور منظم جدوجہد کا متبادک موجود ہے۔ ظلم کے خلاف جدوجہد کرنا  نہ صرف صحافی کی حیثیت سے  عام شہری کے ناطے بھی  ہماری ذمہ داری ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کے جواں سال صحافی وجیہ الدین  وہ  نظریاتی جنگ تھی جس میں  گاندھی جی کا قتل ہوا۔ حکومت بابائے قوم کے نظریات کی ترویج و اشاعت میں بخالت برت رہی ہے۔ رویش کمار کے خط کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے گویا آج کے دور میں  اختلاف کرنا  جرم ہوگیا ہے۔  اس قتل و گارتگری کامقصد الگ سوچ کےا ظہار پر قدغن لگانا ہے۔حکومت علی گڑھ یونیورسٹی کے معاملے میں  اقلیت دشمنی کا مطاہرہ کررہی ہے ۔ نہرو جی نے صحیح کہا تھااکثریت کی دہشت گردی اقلیتی فرقہ پرستی کے مقابلے زیادہ  خطرناک ہے لیج کل پنڈت نہرو اور ان کے قائم کردہ اداروں کو پامال کیا جارہا ہے۔ ایسا کرنے سے ملک کی سلمیت خطرے میں پڑ جائیگی۔ ای ٹی وی کے محی الدین عبدالطیف   نے فرقہ وارانہ ماحول ملک کے لیے خطرہ  بتاتے ہوئے کہا کہ نئی حکومت سے اقلیتوں کے لیے مشکلات متوقع تھیں لیکن اب تو اکثریتی طبقات بھی نشانے پر ہیں ۔ آپ نے  احمد فراز کی نظم  محاصرہ کے ذریعہ گوری لنکیش کو کو خراج عقیدت کیا۔

معروف سماجی کارکن اور اردو جرنلسٹ ایسو سی ایشن کے جنرل سکریٹری سرفراز آرزو نے کہا یہ   ہمہ پہلو موضوع ہے اور مختصر تقریر میں اس  احاطہ  ممکن نہیں ہے۔ جھوٹ ہمارے سماج میں زبردست پیمانے پردر آیا ہے۔ لنکیش کو سچ بولنے کی سزا دی گئی۔ قاتلوں کے پکڑنے سے کام نہیں چلے گابلکہ فسطائی  نظریات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ داعش سے رابطہ کرنے  کے الزام لوگ پکڑے جاتے  ہیں لیکن تمہارا حشر  بھی گوری جیسا ہوگا کہنے والے آزاد گھومتے ہیں ۔ اس لیے کہ ہمارے حکمراں اور نظام دہشت گردوں کا پشت پناہ ہے۔  سرکار سزا دینے میں جانبداری کرتی ہے کسی پکڑتی ہے کسی کو رہا کر دیتی ہے۔اختلاف رائے کوجرم سمجھتی ہے۔ گوری خود کو ہندو نہیں  لنگایت کہتی تھی مراٹھا بھی اپنی الگ شناخت بنارہے ہیں اس لیے کرناٹک اور مہاراشٹر میں تشدد کا کھیل رچا جارہا ہے۔ جب لوگ نظریہ کی جنگ ہارتے ہیں تو ہتھیار اٹھاکرڈراتے ہیں لیکن ہم خوفزدہ نہیں ہوں گے ۔ ’ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے‘ ۔  

مشہور سماجی کارکن اور کمیونلزم کمباٹ جریدے  کی بانی تیستا ستلواد نےممبئی کمزور احتجاج پر افسوس کا اظہار کیا اوربنگلورو میں تمام سماج کے۲۵ ہزار لوگ تھے ۔  انہوں نے سوال کیا کہ  ہم اختلاف کو تشدد کے ذریعہ سے حل کریں گے یا بات چیت سے طے کریں گےاور الزام لگایاسنگھ پریوار نے ہی  کالبرگی اور پانسرے اورلنکیش کو مارا ہے ۔ہمارے ملک میں اسلحہ پر پابندی ہے مگر سناتن سنستھا اور بجرنگ دل جیسے لوگ اسلحہ کی تربیت دیتے ہیں۔دہشت گرد بزدل ہیں لیکن وزیر اعظم کی انہیں حمایت حاصل ہے۔ہمارے صحافی سوال نہیں پوچھے جاتے ۔ انتطامیہ کا استعمال اقلیت کے خلاف ہوتاہے۔ جماعت اسلامی ہند کےعبدالحفیظ فاروقی نے کہا انصاف پسند دانشوروں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ جمہوری اقدار کا خاتمہ ہورہا ہے۔ یہ حملے ہندوتوا کے اندر خوف کی علامت ہے۔ رویش کمار جیسے لوگوں کو شکایت پیدا ہونا ہندوتوا کی کمزوری کی علامت ہے۔ ہٹلر اور مسولینی بھی اسی طرح چھا گئے تھے لیکن وہ بھی ختم ہوگئے اور یہ بھی ختم ہوجائیں گے ۔
اندھ شردھا نرمولن سنستھا کے صدر اویناش پاٹل  نے فرمایاگاندھی سے گوری تک ایک سیاسی سازش چل رہی ہے۔ اقتدار کے خلاف اپنے حقوق اور عزت نفس اور ضمیر کی آزادی کے حفاظت  جنگ جاری ہے۔سنگھ پریوار کے مطابق ناتھو رام گوڈ سے گاندھی کا قتل نہیں ودھ کیا۔ دیو راکشش کا ودھ کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک گاندھی راکشش ہے۔یہ ہمارے سامنے چیلنج  یہ ہے کہ اس ظلم کے خلاف ہم اپنے آپ کو کیسے منظم کریں؟ ہم جذباتی ہیں ردعمل کرتے ہیں۔ ہم خوف کو دوہراتے ہیں بے خوفی کے ساتھ دستوری حقوق اور انسانی اقدار کی بنیاد پر عوام کو ساتھ لے کر اس کا متبادل کھڑانہیں کرتے۔ ہٹ لسٹ تیار ہے اس پر گفتگو کرکے دہشت پھیلاتے ہیں ۔ دھمکی کا افسوس کا نہیں  آنا فخر کی بات ہے لیکن ہم اس سے خوف دور کرنے کے بجائے بڑھا رہے ہیں۔ تبادلہ خیال کرکےدور اندیشی کے ساتھ حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
مجرمین کو سزا دینے کے لیے کی جانے والی کوششوں کا تجربات ۔ ایک کروڈ لوگوں سے رابطے لیکن سرغ نہیں ملا۔ روح کو بلا کر بات کرکے اپنی جگ ہنسائی کرائی۔ ایس آئی ٹی اور سی بی آئی۔ عدالت کے زیر نگرانی تفتیش و تحقیق ہورہی ہے۔ سناتن سنستھا پانسرے اور دابھولکر کے قاتل ایک ضمانت پر رہا دوسراحراست میں ہے۔ یہ انفرادی قتل ہے نظریاتی قاتل ہے لیکن سناتن پر پابندی نہیں لگتی۔  انہوں نے تفصیل کے ساتھ اندھ شردھا نرمولن سمیتی کی سرگرمیوں اورکامیابیوں کا ذکر کیا ۔ 

اسلم غازی نے اپنے خطبۂ صدارت میں فرمایا  یہ کیسا وقت آیا ہے کہ لوگ بابائے قوم  کے یوم ولادت پر  خوشی کے بجائےسوگ منانے پر مجبور کردیئے گئے ہیں  ۳۰ جنوری کو گاندھی ۱۹۴۸ کا قتل کیا گیا تھا اور بڑی بے رحمی سے پچھلے ماہ ان گوری لنکیش  کو قتل کردیا گیا۔ اس دوران گاندھی اور گوری کے علاوہ بے شمار لوگوں کو قتل کیا گیا۔ صحافیوں کے علاوہ ہزاروں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گئے۔ گئورکشاکے نام ۱۰۰ سے زیادہ قتل ہوئے۔ ایم ایف حسین کو ملک بدر ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ مختلف لوگوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ یہ ملک نراج کا شکار ہوگیا ہے ۔ سیاسی  نظام نہیں کے چارستون امن و امان  قائم رکھنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ پہلے فساد ہوتا تھا اب قتل عام ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فسادیوں کو سزا نہیں دی جاتی۔ اکثریتی طبقے کے لوگوں کو سزا نہیں ہوتی۔ پہلو خان کے قاتل چھوٹ جاتے ہیں ۔ ممبئی فسادات کے مجرم پکڑے نہیں جاتے۔ لوگوں کو لوٹ مار اور قتل و غارتگری کی اجازت دی جاتی ہے۔ وزیراعظم وکاس کا فریب دے کر وناش کرتے ہیں۔ ترقی  کے لیےامن و امان ضروری ہے ۔معاشی  شرح نمو بھی خاطر خواہ نہیں ہے بدحالی بڑھ رہی ہے۔۔بدامنی پر قابو پانا حکومت اور اکثریت کی ذمہ داری ہے ۔ کیا اس طرح یہ لوگ اپنے مخالفین کو ختم کرسکتے ہیں؟ نہیں بلکہ  وہ اس کے ذریعہ خوف و ہراس  کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں تا کہ آواز اٹھانے والے والوں کو خاموش کیا جائے۔ اس کا حل یہ ہے  ہم موت سے بے خوف ہوکر ایک ساتھ آواز اٹھائیں۔ ہمارا ایمان ہےموت وقت سے پہلے نہیں آئیگی۔ متحدہ اقدام ضروری ہے۔ الگ الگ کوششیں اس آگ نہیں بجھا سکتیں ۔ اپنے دستوری حقوق کی خاطر جدوجہد لازم ہے۔
سدبھاونا منچ کے سکریٹر ی ہمایوں شیخ کے اظہار تشکر اجلاس  کا خاتمہ ہوا۔


0 comments: