featured
یوپی میں عوام دہشت کے سائے میں زندگی جینے کو مجبور ہیں جبکہ یوگی جی کیرالہ میں تشدد کے خلاف یاترا میں حصہ لے رہے ہیں ۔انہوں نے کیرالہ کی ریاستی حکومت پر سیاسی قتل کا الزام لگایا ۔ان کا کہنا ہے کہ وہاں بی جے پی اور آر ایس ایس کارکنوں کو سیاسی مخاصمت کی بنیاد پر قتل کیا جارہا ہے ۔ان کے اس الزام پر یقینا کچھ لوگوں کو ہنسی آئے گی کہ جو شخص زندگی بھر تشدد کا مبلغ رہا اور اب جس کی وزارت اعلیٰ کے دور میں اتر پردیش بد ترین تشدد کی زد میں ہے وہ دوسروں کو نصیحت کررہا ہے کہ وہ سیاسی تشدد کی واردات پر قابو پائیں ۔آج کے اخبار کو ہی لے لیں اس میں جہاں غیر بی جے پی والی ریاست جیسے کیرالہ اور مغربی بنگال حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہاں سیاسی قتل ہورہے ہیں وہیں یوپی کی ایک مسجد میں تشدد کی خبر ہے جہاں امام مسجد کو گالیاں دی گئیں اور انہیں گائوں چھوڑنے کیلئے کہا گیا ۔ایک اور فرمان یوگی کا ایسا ہے جس پر گمان ہوتا ہے کہ وہ کسی دانشور کی زبان میں بول رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ’’جمہوریت میں تشدد کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے‘‘۔بہتر ہوتا کہ یوگی آدتیہ ناتھ دوسری ریاستوں میں جاکر کوئی یاترا نکالنے یا تشدد کی مذمت کرنے کی بجائے وہ اتر پردیش کو جرائم اور تشدد سے پاک بناتے ۔ایسا وہ کر بھی سکتے ہیں اگر ان کے اندر سیاسی عزم و جرات ہو اور ان کی آنکھوں پر زعفرانی چشمہ نہ ہو اور دماغ میں نفرت کا لاوا نہ ابل رہا ہو ۔لیکن یہ سب اس لئے ناممکن ہے کیوں کہ وہ زندگی بھر تشدد کی تبلیغ ہی نہیں تشدد کو بذات خود ہوا دیتے رہے ہیں یہی سبب ہے کہ ان پر فساد پھیلانے اور جان سے مارنے کی دھمکی دینے اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے کئی مقدمات ہیں ۔جن پر نہ تو سماج وادی کی حکومت نے عمل آوری کرتے ہوئے انہیں قانون کا سبق پڑھانے کی کوشش کی اور اب تو وہ خود ہی اس ریاست کے سب سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں اب کون انہیں پابند کرسکتا ہے اور کس کی مجال کے انہیں قانون کی بالا دستی کا سبق پڑھائے ۔ معاملہ یہ ہے کہ پورے ملک پر تو ان کی بالادستی قائم ہو چکی ہے لیکن مغربی بنگال اور کیرالہ میں باوجود کوشش کے عوام نے ان کے دہشت گردانہ نظریات کو دھتکار دیاجس کی وجہ سے وہ اور ان کے حواری پیچ و تاب کھارہے ہیں کہ یہ دونوں ریاستیں کس طرح ان کی دست برد سے محفوظ ہیں ۔اسی لئے یہ لوگ چند واقعات کو بہانہ بنا کر وہاں کی فضا کو خراب کرنا چاہتے ہیں ۔مسٹر یوگی جیسے لوگوں کو ایسی کسی بھی نصیحت سے پہلے اپنے گریبان میں ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ کیا وہ اس قابل ہیں کہ دوسروں کو تشدد روکنے کی اپیل کریں اور تشدد کے خلاف احتجاج میں کسی یاترا کا انعقاد کریں۔اس کو ڈھیٹ پن اور بے شرمی نہیں تو اور کیا کہیں گے ؟ زعفرانی ٹولے کی اس بے شرمی پر اپوزیشن کو سخت نوٹس لیتے ہوئے اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن بالکل ہی ختم ہے اس کا کہیں کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔اس کا فائدہ بی جے پی کے بے غیرت لوگ اٹھارہے ہیں کہ انہیں اپنے دامن کا داغ نظر نہیں آرہا جس پر ساری دنیا تھو تھو کررہی ہے اور جس سے ملک کی بدنامی ہو رہی ہے لیکن انہیں کوکاتا اور کالی کٹ میں تشدد ہی تشدد نظر آتا ہے ۔بھلا کوئی ابھی چند روز قبل ہی بنارس ہندو یونیورسٹی میں لڑکیوں پر رات کے وقت اچانک پولس ایکشن کو بھول سکتا ہے جس میں احتجاج کررہی بے ضرر سی کمزور لڑکیوں نے دھرنا ہی تو دیا تھا ، انہوں نے کوئی توڑ پھوڑ کوئی آگ زنی یا تشدد کی کوئی دوسری کارروائی کی تھی جو اس طرح کا وحشیانہ برتائو ان کے ساتھ کیا گیا؟اپنی ریاست سنبھل نہیں رہی اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ اس سب سے بڑی ریاست کے نظم و نسق کو مناسب ڈھنگ سنبھال سکیں۔
ملک کی صرف چند ریاستیں ایسی ہیں جہاں بی جے پی کے زہریلے اثرات کامیاب نہیں ہو پارہے ہیں ۔ان میں کیرالا اورمغربی بنگال قابل ذکر ہیں ۔ یہی بات ان کی نظروں میں کھٹک رہی ہے ۔لیکن حالیہ دنوں میں عوامی رائے عامہ میں جس طرح کی تبدیلی دیکھی گئی اس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ جس 2019 میں انہوں نے دوبارہ ہندوستانی پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رکھا ہے وہ چکنا چور ہو تا ہوا نظر آرہا ہے ۔اسی خدشہ کے مد نظر اب یہ ان ریاستوں کو بدنام کرنے وہاں تشدد پھیلانے کے منصوبہ کے تحت اپنے کام میں لگ گئے ہیں تاکہ مشن دو ہزار انیس کو حاصل کرسکیں لیکن یہ خواب ان کا شاید اب پورا نہیں ہوگا۔اس پر کسی ٹوئٹر پر لکھا تھا ’نوٹ کرلو دو ہزار انیس میں یہ انیس سیٹ بھی حاصل نہیں کرپائیں گے‘۔لکھنے والے نے کس امید پر ایسا لکھا لیکن اتنی بری حالت ان کی نہ ہو پر ہدف تو بہر حال حاصل نہیں کر پائیں گے ۔انہوں نے ساڑھے تین سال ضائع کردیا ۔عوام کو وقتی طور پر گائے اور لو جہاد جیسے فضول اور تشدد آمیز پرپگنڈہ میں الجھا ضرور دیا اور اس کے فوائد انہیں حاصل بھی ہوئے کہ یوپی جیسی ریاست میں بھی انہیں کامیابی مل گئی۔ لیکن شاید ان کے پاپ کا گھرا بھر چکا ہے اور اب الٹی گنتی شروع ہو چکی جس کی ابتدا عنقریب گجرات اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی ہار یا سیٹوں میں بھاری کمی کی صورت میں آنے والا ہے ۔تشد د پر سنگھیوں کو اتنا زیادہ اعتماد ہے کہ انہوں نے اس سے صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ برہمنوں کے علاوہ تقریبا تمام ہی ذاتیوں کو نشانہ بنانے کا اپنا پرانا حربہ نہیں چھوڑا ہے ۔آج کے ہی اخبار میں مدھیہ پردیش سے کسانوں کے احتجاج کو سختی اور بزور قوت کچل دینے کی بھی خبر ہے جس کے مطابق ان کی پولس نے کسانوں کو بیدردی سے مارا اور انہیں بے لباس تک کردیا ۔اب ایسی حکمرانی کرنے والے جب دوسری ریاستوں کو نصیحت کریں گے تو دنیا ان پر ہنسے گی نہیں تو اور کیا کرے گی ۔اس ہنسی اور مضحکہ کے نتائج بھی سامنے آتے رہتے ہیں کہ گوگل میں احمق اور مجرم کیلئے کس کا نام آتا ہے وہ اب پردہ اخفا میں نہیں ہے ۔نیو یارک ٹائمز اور دیگر بین الاقوامی اخبارات اور ذرائع ابلاغ بھی چٹکی لیتے رہتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ حقائق دنیا کے سامنے لاتے رہتے۔انہوں نے ہندو دہشت گردی کا چہرہ کس کو کہا یہ بھی سب جانتے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ ٹھان لی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ہم اپنی روش نہیں بدلیں گے خواہ ملک کی نیک نامی کو کتنا ہی بٹہ لگے ۔جس پر کسی شاعر نے کہا تھا ؎ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔یہ اپنی بدنامی کو نیک نامی میں بدلنے کی بجائے کوشش یہ کرتے ہیں کہ دوسرے بھی بدنام ہو جائیں تاکہ اس گندگی میں ہم اکیلے نہ ہوں دوسرے بھی اس کے ساجھی دار ہوں ۔ان میں اگر اخلاقی جرات ہوتی تو یہ خود پر لگنے والے الزامات پر مقدمہ چلانے کی اجازت دیتے اور عدالت میں ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے خود کو امن کا علمبردار ثابت کرنے کی کوشش کرتے ۔یہ بات اس لئے بعید تر ہے کہ انسان کی فطرت نہیں بدلتی ہے ۔امن و انصاف کے علمبردار اپنی روایت اور شرافت سے پہچانے جاتے ہیں اور اس کے دشمن اپنی سرشت میں چھپے شر سے جانے جاتے ہیں ۔کچھ لوگ ریت میں سر چھپا کر یہ محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ خطرہ ٹل گیا ہے ۔لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا ۔جس کی شناخت تشدد سے عبارت ہے دنیا اسے اچھی طرح جانتی ہے ۔وہ چاہے جتنا بھی ملمع کاری کرنے کی کوشش کریں اکیسویں صدی کی اطلاعاتی تکنیکی دور میں ملمع اترتے زیادہ وقت نہیں لگتا ۔اب وہ پردھان سیوک کی امن کے تئیں اداکاری ہو جس پر جنوبی ہند کے ایک ایکٹر نے کہا کہ وہ ہم سے بڑے اداکار ہیں یا یوگی کی امن پسندی کا ڈھونگ دنیا سب کچھ دیکھ رہی اور جان رہی ہے ۔بس معاملہ یہ ہے کہ سفارتی اور پارلیمانی لہجہ اختیار کرنے کے سبب سربراہان مملکت کسی کے خلاف کچھ نہیں بولتے لیکن وہی باتیں اس ملک کا اخبار یا ذرائع ابلاغ کے دوسرے شعبوں میں کہہ ہی دی جاتی ہے ۔سمجھ داروں کے لئے اشارہ ہی کافی ہے ۔اس کے بعد بھی کسی کو اپنی پیٹھ خود ہی تھپتھپانے کی بری عادت ہو تو اس کا کیا علاج ہے ۔
یوپی میں دہشت کے سائے : کیرالہ میں تشدد کیخلاف یوگی کی یاترا
نہال صغیر
یوپی میں عوام دہشت کے سائے میں زندگی جینے کو مجبور ہیں جبکہ یوگی جی کیرالہ میں تشدد کے خلاف یاترا میں حصہ لے رہے ہیں ۔انہوں نے کیرالہ کی ریاستی حکومت پر سیاسی قتل کا الزام لگایا ۔ان کا کہنا ہے کہ وہاں بی جے پی اور آر ایس ایس کارکنوں کو سیاسی مخاصمت کی بنیاد پر قتل کیا جارہا ہے ۔ان کے اس الزام پر یقینا کچھ لوگوں کو ہنسی آئے گی کہ جو شخص زندگی بھر تشدد کا مبلغ رہا اور اب جس کی وزارت اعلیٰ کے دور میں اتر پردیش بد ترین تشدد کی زد میں ہے وہ دوسروں کو نصیحت کررہا ہے کہ وہ سیاسی تشدد کی واردات پر قابو پائیں ۔آج کے اخبار کو ہی لے لیں اس میں جہاں غیر بی جے پی والی ریاست جیسے کیرالہ اور مغربی بنگال حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہاں سیاسی قتل ہورہے ہیں وہیں یوپی کی ایک مسجد میں تشدد کی خبر ہے جہاں امام مسجد کو گالیاں دی گئیں اور انہیں گائوں چھوڑنے کیلئے کہا گیا ۔ایک اور فرمان یوگی کا ایسا ہے جس پر گمان ہوتا ہے کہ وہ کسی دانشور کی زبان میں بول رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ’’جمہوریت میں تشدد کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے‘‘۔بہتر ہوتا کہ یوگی آدتیہ ناتھ دوسری ریاستوں میں جاکر کوئی یاترا نکالنے یا تشدد کی مذمت کرنے کی بجائے وہ اتر پردیش کو جرائم اور تشدد سے پاک بناتے ۔ایسا وہ کر بھی سکتے ہیں اگر ان کے اندر سیاسی عزم و جرات ہو اور ان کی آنکھوں پر زعفرانی چشمہ نہ ہو اور دماغ میں نفرت کا لاوا نہ ابل رہا ہو ۔لیکن یہ سب اس لئے ناممکن ہے کیوں کہ وہ زندگی بھر تشدد کی تبلیغ ہی نہیں تشدد کو بذات خود ہوا دیتے رہے ہیں یہی سبب ہے کہ ان پر فساد پھیلانے اور جان سے مارنے کی دھمکی دینے اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے کئی مقدمات ہیں ۔جن پر نہ تو سماج وادی کی حکومت نے عمل آوری کرتے ہوئے انہیں قانون کا سبق پڑھانے کی کوشش کی اور اب تو وہ خود ہی اس ریاست کے سب سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں اب کون انہیں پابند کرسکتا ہے اور کس کی مجال کے انہیں قانون کی بالا دستی کا سبق پڑھائے ۔ معاملہ یہ ہے کہ پورے ملک پر تو ان کی بالادستی قائم ہو چکی ہے لیکن مغربی بنگال اور کیرالہ میں باوجود کوشش کے عوام نے ان کے دہشت گردانہ نظریات کو دھتکار دیاجس کی وجہ سے وہ اور ان کے حواری پیچ و تاب کھارہے ہیں کہ یہ دونوں ریاستیں کس طرح ان کی دست برد سے محفوظ ہیں ۔اسی لئے یہ لوگ چند واقعات کو بہانہ بنا کر وہاں کی فضا کو خراب کرنا چاہتے ہیں ۔مسٹر یوگی جیسے لوگوں کو ایسی کسی بھی نصیحت سے پہلے اپنے گریبان میں ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ کیا وہ اس قابل ہیں کہ دوسروں کو تشدد روکنے کی اپیل کریں اور تشدد کے خلاف احتجاج میں کسی یاترا کا انعقاد کریں۔اس کو ڈھیٹ پن اور بے شرمی نہیں تو اور کیا کہیں گے ؟ زعفرانی ٹولے کی اس بے شرمی پر اپوزیشن کو سخت نوٹس لیتے ہوئے اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن بالکل ہی ختم ہے اس کا کہیں کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔اس کا فائدہ بی جے پی کے بے غیرت لوگ اٹھارہے ہیں کہ انہیں اپنے دامن کا داغ نظر نہیں آرہا جس پر ساری دنیا تھو تھو کررہی ہے اور جس سے ملک کی بدنامی ہو رہی ہے لیکن انہیں کوکاتا اور کالی کٹ میں تشدد ہی تشدد نظر آتا ہے ۔بھلا کوئی ابھی چند روز قبل ہی بنارس ہندو یونیورسٹی میں لڑکیوں پر رات کے وقت اچانک پولس ایکشن کو بھول سکتا ہے جس میں احتجاج کررہی بے ضرر سی کمزور لڑکیوں نے دھرنا ہی تو دیا تھا ، انہوں نے کوئی توڑ پھوڑ کوئی آگ زنی یا تشدد کی کوئی دوسری کارروائی کی تھی جو اس طرح کا وحشیانہ برتائو ان کے ساتھ کیا گیا؟اپنی ریاست سنبھل نہیں رہی اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ اس سب سے بڑی ریاست کے نظم و نسق کو مناسب ڈھنگ سنبھال سکیں۔
ملک کی صرف چند ریاستیں ایسی ہیں جہاں بی جے پی کے زہریلے اثرات کامیاب نہیں ہو پارہے ہیں ۔ان میں کیرالا اورمغربی بنگال قابل ذکر ہیں ۔ یہی بات ان کی نظروں میں کھٹک رہی ہے ۔لیکن حالیہ دنوں میں عوامی رائے عامہ میں جس طرح کی تبدیلی دیکھی گئی اس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ جس 2019 میں انہوں نے دوبارہ ہندوستانی پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رکھا ہے وہ چکنا چور ہو تا ہوا نظر آرہا ہے ۔اسی خدشہ کے مد نظر اب یہ ان ریاستوں کو بدنام کرنے وہاں تشدد پھیلانے کے منصوبہ کے تحت اپنے کام میں لگ گئے ہیں تاکہ مشن دو ہزار انیس کو حاصل کرسکیں لیکن یہ خواب ان کا شاید اب پورا نہیں ہوگا۔اس پر کسی ٹوئٹر پر لکھا تھا ’نوٹ کرلو دو ہزار انیس میں یہ انیس سیٹ بھی حاصل نہیں کرپائیں گے‘۔لکھنے والے نے کس امید پر ایسا لکھا لیکن اتنی بری حالت ان کی نہ ہو پر ہدف تو بہر حال حاصل نہیں کر پائیں گے ۔انہوں نے ساڑھے تین سال ضائع کردیا ۔عوام کو وقتی طور پر گائے اور لو جہاد جیسے فضول اور تشدد آمیز پرپگنڈہ میں الجھا ضرور دیا اور اس کے فوائد انہیں حاصل بھی ہوئے کہ یوپی جیسی ریاست میں بھی انہیں کامیابی مل گئی۔ لیکن شاید ان کے پاپ کا گھرا بھر چکا ہے اور اب الٹی گنتی شروع ہو چکی جس کی ابتدا عنقریب گجرات اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی ہار یا سیٹوں میں بھاری کمی کی صورت میں آنے والا ہے ۔تشد د پر سنگھیوں کو اتنا زیادہ اعتماد ہے کہ انہوں نے اس سے صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ برہمنوں کے علاوہ تقریبا تمام ہی ذاتیوں کو نشانہ بنانے کا اپنا پرانا حربہ نہیں چھوڑا ہے ۔آج کے ہی اخبار میں مدھیہ پردیش سے کسانوں کے احتجاج کو سختی اور بزور قوت کچل دینے کی بھی خبر ہے جس کے مطابق ان کی پولس نے کسانوں کو بیدردی سے مارا اور انہیں بے لباس تک کردیا ۔اب ایسی حکمرانی کرنے والے جب دوسری ریاستوں کو نصیحت کریں گے تو دنیا ان پر ہنسے گی نہیں تو اور کیا کرے گی ۔اس ہنسی اور مضحکہ کے نتائج بھی سامنے آتے رہتے ہیں کہ گوگل میں احمق اور مجرم کیلئے کس کا نام آتا ہے وہ اب پردہ اخفا میں نہیں ہے ۔نیو یارک ٹائمز اور دیگر بین الاقوامی اخبارات اور ذرائع ابلاغ بھی چٹکی لیتے رہتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ حقائق دنیا کے سامنے لاتے رہتے۔انہوں نے ہندو دہشت گردی کا چہرہ کس کو کہا یہ بھی سب جانتے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ ٹھان لی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ہم اپنی روش نہیں بدلیں گے خواہ ملک کی نیک نامی کو کتنا ہی بٹہ لگے ۔جس پر کسی شاعر نے کہا تھا ؎ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔یہ اپنی بدنامی کو نیک نامی میں بدلنے کی بجائے کوشش یہ کرتے ہیں کہ دوسرے بھی بدنام ہو جائیں تاکہ اس گندگی میں ہم اکیلے نہ ہوں دوسرے بھی اس کے ساجھی دار ہوں ۔ان میں اگر اخلاقی جرات ہوتی تو یہ خود پر لگنے والے الزامات پر مقدمہ چلانے کی اجازت دیتے اور عدالت میں ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے خود کو امن کا علمبردار ثابت کرنے کی کوشش کرتے ۔یہ بات اس لئے بعید تر ہے کہ انسان کی فطرت نہیں بدلتی ہے ۔امن و انصاف کے علمبردار اپنی روایت اور شرافت سے پہچانے جاتے ہیں اور اس کے دشمن اپنی سرشت میں چھپے شر سے جانے جاتے ہیں ۔کچھ لوگ ریت میں سر چھپا کر یہ محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ خطرہ ٹل گیا ہے ۔لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا ۔جس کی شناخت تشدد سے عبارت ہے دنیا اسے اچھی طرح جانتی ہے ۔وہ چاہے جتنا بھی ملمع کاری کرنے کی کوشش کریں اکیسویں صدی کی اطلاعاتی تکنیکی دور میں ملمع اترتے زیادہ وقت نہیں لگتا ۔اب وہ پردھان سیوک کی امن کے تئیں اداکاری ہو جس پر جنوبی ہند کے ایک ایکٹر نے کہا کہ وہ ہم سے بڑے اداکار ہیں یا یوگی کی امن پسندی کا ڈھونگ دنیا سب کچھ دیکھ رہی اور جان رہی ہے ۔بس معاملہ یہ ہے کہ سفارتی اور پارلیمانی لہجہ اختیار کرنے کے سبب سربراہان مملکت کسی کے خلاف کچھ نہیں بولتے لیکن وہی باتیں اس ملک کا اخبار یا ذرائع ابلاغ کے دوسرے شعبوں میں کہہ ہی دی جاتی ہے ۔سمجھ داروں کے لئے اشارہ ہی کافی ہے ۔اس کے بعد بھی کسی کو اپنی پیٹھ خود ہی تھپتھپانے کی بری عادت ہو تو اس کا کیا علاج ہے ۔
0 comments: