featured

معاشی ناہمواری اور نا انصافی جرائم کا سبب

1:36 PM nehal sagheer 0 Comments



نہال صغیر

معاشی نا ہمواریاں اور نا انصافی بھی انسانی معاشرے میں مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافہ کا بنیادی اسباب میں سے ایک ہے ۔ اس کے سبب نا امیدی اور مایوسی بڑھتی ہے جو بالآخر انسان کو انتہائی قدم کی جانب لے جاتے ہیں ۔ انسانی معاشرہ یہ چاہتا ہے کہ اس کے آس پاس جرائم نہ ہوں اور ہر طرف امن و امان ہو ۔ اس خواہش کی تکمیل اسی وقت ہو سکتی ہے جبکہ اس کیلئے خالق کائنات کی جانب سے تفویض قوانین پر عمل پیرا ہو ا جائے ۔ دنیا میں انسان کی آمد سے ابتک قیام امن کیلئے صرف ایک ہی اصول ہے اور وہ انصاف ۔ یہ انصاف ہر معاملے میں ۔ ہر مرحلے میں ہر طبقے کیلئے ہو ۔ انصاف بہت چھوٹا لفظ ، نفاذ میں بہت آسان اور سہل ہے اگر کسی طرح کا مفاد وابستہ نہ ہویا انصاف کے نفاذ میں کسی طرح کی اقربا پروری وغیرہ کی خواہش نہ ہو ۔ آج کی دنیا میں جرائم اور افراتفری کا اصل سبب صرف اور صرف نا انصافی اور عدم مساوات ہے ۔ لوگ جرائم اور فساد سے پریشان بھی ہیں ۔ اس کے خاتمہ کیلئے قانون بنانے اور اس کے سختی سے نفاذ کی باتیں بھی کرتے ہیں لیکن اس کے اصل سبب کی جانب بہت کم لوگوں کا ذہن جاتا ہے ۔ معاشرے میں فساد اور جرائم ہو یا کوئی وبائی امراض دونوں ہی جگہ ایک بات قدر مشترک ہے کہ اس کے اصل محرک کی جانب نظر ڈالی جائے اور اس کا سد باب کیاجائے تو آپ اس پر قابو پا سکتے ہیں ، بصورت دیگر اس کا خاتمہ دیوانے کا خواب کے سوا اور کچھ نہیں ۔ عام طور پر وبائی امراض میں اس کے اصل محرک کی جانب حکومت معاشرہ اور غیر سرکاری تنظیمیں سب ہی متوجہ ہوتے ہیں اس لئے اس پر بہت ہی قلیل مدت میں قابوبھی پالیا جاتا ہے ۔ لیکن معاشرے میں اخلاقی بیماریوں کی جانب معاشرہ ، حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں میں سے کوئی بھی اصل محرک پر غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے ۔ جرائم میں آجکل چوری ، ڈاکہ زنی اور اغوا برائے تاوان جیسے معاملات میں عام طور پر معاشی ناہمواری ، محنت کا مناسب معاوضہ نہیں ملنا ، اس طرح کی وجوہات شامل ہیں ۔ مجبور ہو کر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مجبور لوگ جرم کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں ۔
ممبئی سے شائع ہونے والے ایک معروف اردوروزنامہ میں ۳ ؍ نومبر کی اشاعت میں صفحہ دو پر ناگپور کی ایک خبر شائع ہوئی ہے جو کہ چوری سے متعلق ہے ۔ ایک خاتون ایک گھر میں چاقو لے کر داخل ہوئی اور اس نے اہل خانہ کو ڈرا دھمکا کر زیورات اور نقد روپئے کی مانگ کی لیکن بد قسمتی سے وہ پکڑی گئی ۔ اس کی جو کہانی سامنے آئی ہے وہ ملازمین کے استحصال کی داستان ہے ۔ مذکورہ  ملزمہ کسی دوکان میں کمپیوٹر آپریٹر کی ملازمت کرتی ہے جہاں سے اسے معاوضہ کے طور پر صرف ساڑھے تین ہزار روپئے ملتے ہیں وہ تنخواہ بھی اسے ایک ماہ سے نہیں ملی ، مجبورا ً اس نے چوری کرکے اپنی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کی ۔ ایسی بہت سی کہانیاں روز سامنے آتی ہیں پر ہماری بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ ہم اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے ۔ اسلام نے انسانی معاشرے پر جو بہت سارے احسانات کئے ہیں ان میں سے اس کا نظام عدل بھی ہے ۔ در اصل اسلام انسانی زندگی کو پرسکون دیکھنا چاہتا ہے ۔ اسی لئے اس نے عدل کا حکم دیا ہے ۔ عدل کے سبب اس معاشرے میں کوئی محروم طبقہ نہیں ہوتا ۔ جو غربا اور مساکین کا طبقہ ہوتا ہے اس کی ضرورتیں اس کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے پوری ہوتی ہیں ۔ اس کی برکت سے کسی فرد میں کسی کے خلاف کوئی مقابلہ آرائی یا حریفائی اور حسد جیسی کوئی منفی جذبات نہیں پلتے ۔ اشتراکیت نے مساویانہ حقوق کے نعرہ کی آڑ میں انسانوں کو باہم دست و گریباں کردیا ۔ امیر اور غریب طبقہ میں کش مکش کو عروج پر پہنچا دیا ۔ اس حریفائی نے بدامنی کو عروج بخشا ۔ اسلام نے ابتدا سے ہی اس جانب توجہ دی اور اپنے ماننے والوں کو اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے لئے زور ڈالا کہ وہ سبھی کے حقوق کا خیال رکھیں۔اپنے زیر دستوں کے ساتھ  شفقت اور مہربانی کا سلوک کریں ۔ نبی ﷺ کی کئی احادیث مبارکہ میں اپنے ماتحتوں کے تعلق سے اس بات کی تاکید ملتی ہے کہ ہے جو کچھ تم کھائو اسے بھی کھلائو اور جو خود پہنو وہی انہیں بھی پہنائو ۔ اوپر جس ملازمہ کا ذکر کیا گیا اس کو ملنے والے قلیل تنخواہ کے بارے میں غور کیجئے اور انصاف سے کہئے کہ آج کی مہنگائی کے دور میں اس کی ضرورتیں ساڑھے تین ہزار میں کس طرح پوری ہوں گی ۔ یہ عام مزاج بن گیا ہے کہ صنفی مساوات کی بات کرنے والے خواتین کو آزادی کا جھانسہ دے کر بازار میں لے آئے اسے رونق محفل تو بنادیا لیکن آج بھی اسے اس کی محنتوں کا ثمرہ نہیں ملتا ۔ ملازمت میں ہر جگہ صنفی تفریق اس کا مقدر ہے ۔ مردوں کے مقابلے خواتین کو اسی طرح اور ایسے ہی کام کے لئے کم معاوضہ ملتا ہے ۔ لیکن فیمنزم کے چمپیئن کبھی اس پر زبان نہیں کھولتے ۔ صرف اسلام ہے جو سب کے ساتھ انصاف اور عدل کی بات کرتا ہے ۔ وہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اس کے معاوضے کی ادائیگی کی بات کرتا ہے اور ایسا نہیں کرنے والے کو وعید سناتا ہے ۔ اسلامی مملکت جہاں اسلام کا مکمل قانون نافذ ہو وہاں کے حکام اس پر نگرانی رکھتے ہیں ۔ دنیا آج بھی خلافت راشدہ کی مثال دیتی ہے ۔ تاریخ میں ایسے بیشمار واقعات بھرے پڑے ہیں ۔ انہیں میں سے حضرت عمر ؓ کا وہ واقعہ بھی ہے جب انہوں نے ایک یہودی بوڑھے شخص کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو بیت المال سے اس کی ضرورت کے مطابق رقم جاری کروائی اور کہا کہ اس کی جوانی میں ہم نے اس سے کام لیا تو اب ہم پر فرض ہے کہ ہم ضعیفی میں اس کی نگرانی کریں ۔ آج بھی جہاں جس قدر اسلامی نظام نافذ ہے وہ اسی قدر جرائم سے پاک ہے ۔ اسلام چوری کرنے والوں کو ہاتھ کاٹنے کی سزا سنا تا ہے تو اس سے پہلے وہ اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے حاکم وقت کو اس کا مکلف بھی بناتا ہے ۔

0 comments: