featured

مخالفت کی آواز کو دبانے کا سلسلہ جاری ہے !

10:04 AM nehal sagheer 0 Comments



نہال صغیر

حکومت کوئی بھی ہندوستان کے سیاسی پس منظر میں وہ کانگریس ہو یا بی جے پی یا عالمی پیمانے پر سعودی کی شاہی خاندانی حکومت ہو یا ایران کی اسلامی جمہوری حکومت یا امریکہ کی آزادجمہوری حکومت سب جگہ ایک بات یکساں ہوتی ہے کہ مخالف آواز کو دبائی جائے ۔کہیں ان آوازوں کو بے رحمی سے کچل دیا جاتا ہے تو کہیں اس پر جدید جمہوری طریقہ آزما کر سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے والی صورت اختیار کی جاتی ہے ۔ ویسے امریکہ میں صحافیوں کی آواز کو دبانا ذرا مشکل ہوتا ہے ۔حالیہ وقت میں ڈونالڈ ٹرمپ کی مثال لی جاسکتی ہے جنہوں نے پریس کی آزادی کو سلب کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہاں کے آزاد صحافیوں نے اپنا کام جاری رکھا ۔لیکن اتنا تو ماننا ہی پڑے گا کہ بہر حال انہیں دبانے کی کوشش حکومتی سطح پر ہوئی یہ اور بات ہے اس آزاد معاشرے نے اس دباؤ کو قبول نہیں کیا ۔امریکہ سب سے پرانی جمہوریت کا دعویدار ہے تو ہمارا ملک ہندوستان سب سے بڑے جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ۔جمہوریت کے یہ دعوے وہ بھی کرتے ہیں جو ہٹلر اور مسولینی جیسی آمر شخصیت کو اپنا آئڈیل تسلیم کرتے ہیں ۔ ہندوستان میں صحافیوں کے ساتھ معاملہ بڑا عجیب ہے ۔عام تاثر تو یہ ہے کہ یہاں پریس مکمل آزاد ہے ۔اسے کچھ بھی لکھنے اور کہنے کی آزادی ہے ۔ لیکن تھوڑی سی آ نکھیں کھول کر اور دماغ کو آزاد چھوڑ کر دیکھیں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ یہاں پریس کو وہ آزادی نہیں جس کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ۔ یہ معاملہ کانگریس کے دور میں بھی تھا اور اب بی جے پی کے دور میں تو جیسے مخالف آواز کا گلا گھونٹنے کا ایک سلسلہ سا چل پڑا ہے ۔ بی بی سی کے سابق صحافی اور امر اجالا کے برقی مدیر رہ چکے ونود ورما کو جبری وصولی اور جان سے مارنے کی دھمکی دینے جیسے الزامات کے تحت چھتیس گڑھ پولس نے ان کے گھر غاذی آباد سے گرفتار کرلیا ہے ۔ چھتیس گڑھ کے بارے میں ایک سماجی کارکن بتاتے ہیں کہ وہاں بیباک اور بے لاگ صحافیوں کے خلاف ایک طرح کاکریک ڈاؤن چل رہا ہے ۔دہلی میں رہنے والے ایک اور صحافی سے میں گفتگو کی جو کہ چھتیس گڑھ میں ایسی ہی اسٹوری کے لئے پندرہ دن گزار کر آئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ وہاں اب کوئی صحافی بچا ہی نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ اب وہاں حکومت یا پولس انتظامیہ کے دلال کے طور پر ان کی شناخت ہے ۔انہیں سرکاری ٹینڈر ملتے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ سرکاری ٹینڈر کسی ایسے صحافی کو کیوں ملنے لگا جو حکومت کی غلط کاریوں کو عوام کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ایک بات یہ بھی ہے کہ ایک بے لاگ اور بیباک صحافی کبھی بھی اس طرح حکومت کی عنایات حاصل کرنے کی فکر نہیں کرتا ، اسے پتہ ہے کہ اگر اس نے حکومت کی عنایات سے فائدہ اٹھایا تو وہ اپنے پیشہ یا مشن سے انصاف نہیں کرپائے گا ۔
بہر حال ونود ورما کو گرفتار کرنے کے لئے جو جواز تلاش کیا گیا ہے وہ انتہائی گھٹیا اور پہلی ہی نظر میں یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ ان کو حکومت سے اختلاف کی سزا دی گئی ہے ۔چھتیس گڑھ کانگریس کے صدر اور ایم ایل اے بھوپیش بگھیل جو ونود ورما کے رشتہ دار ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’’ونود ورما کی رپورٹس سے حکومت ناراض تھی اور یہ گرفتاری صحافیوں کو ڈرانے کی کوشش ہے ‘‘۔ونود ورما کی گرفتاری کے جواز کے طور پر پولس نے ایک شخص کے ذریعہ جبری وصولی اور جان سے مارنے کی دھمکی پر ایف آئی آر کو پیش کیا ہے اور اس نے ان کے گھر سے پانچ سو سی ڈی بھی ضبط کرنے کا دعویٰ کیا ہے ۔ آج کے دور میں اطلاعاتی تکنیکی انقلاب نے جبکہ سی ڈی اور اس طرح کی دوسری ایسی چیزیں جس میں آپ اپنا ڈیٹا محفوظ رکھتے ہیں کو بے معنی بنادیا ہے ۔اب بہت سے راستے ہیں جہاں آپ اپنے تحقیقی کام کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور جب چاہیں آپ انہیں نکال کر استعمال کرسکتے ہیں ۔ایسے دور میں پولس کا پانچ سو سی ڈی ضبط کرنے کا دعویٰ کچھ شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے ۔ایسی کئی کہانیاں ہم نے اکثر گرفتاریوں کے بعد دیکھی اور پڑھی ہیں ۔عدالتوں سے پولس اور حکومت کو اس کے لئے ڈانٹ پھٹکار بھی پڑتی ہے لیکن پولس کے خلاف کوئی مناسب کارروائی نہیں ہوتی اس لئے وہ پھر اپنے سیاسی آقاؤں کے اشارے پر دوسرے لوگوں کو شکار کرنے میں کوئی جھجھک یا شرم محسوس نہیں کرتی ۔حکومت اور اس کی پولس صحافیوں کی اس طرح کی گرفتاری پر خواہ کچھ بھی جواز پیش کرے لیکن ہم سیدھے طور سے یہ کہتے ہیں کہ یہ صحافیوں کی آواز دبانے کی کوشش کا ہی حصہ ہے ۔حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہئے سچ بولنا اور سچ لکھنا یہ کسی کسی شخص کی تہذیب کا حصہ ہوتا ہے ۔ یہ کسی کے خون میں بھی شامل ہوتا ہے ۔وہ لوگ کٹنا تو جانتے ہیں لیکن جھکنا یا مُڑنا نہیں جانتے ۔اس لئے اس طرح کی ڈرانے دھمکانے والی کارروائی سے ایسے لوگوں کے کام کرنے کے حوصلے اور سچ بولنے کی جرات میں مزید اضافہ ہوتا ہے ۔انہیں کوئی دبا نہیں سکتا نہ روک سکتا ہے ۔ہاں اس طرح کی کارروائی سے دوسروں کو ڈرایا جاسکتا ہے ،عام لوگوں کو خوفزدہ کیا جاسکتا ہے کہ جب صحافی کو حکومت اس طرح پریشان کرسکتی ہے تو تمہاری کیا اوقات ہے ۔پر ایک سوال تو اپنی جگہ پر قائم ہے کہ اس طرح کی حرکت سے حکومت عوام کی آواز کوکب تک دبا پائے گی ۔ایک دن وہ ہار جائے گی ۔سچ لکھنے اور بولنے والے کبھی نہیں ہارے اور نا کبھی جھکے ہیں ۔یہ بات جتنی جلدی حکومت سمجھ لے اچھا ہے ۔

0 comments: