Politics

مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے نیک نیتی کی ضرورت

11:19 AM nehal sagheer 0 Comments



نہال صغیر

مسئلہ کشمیر پر ایک بار حکومت ہند نے اپنا خاص نمائندہ وادی میں بھیجا ہے تاکہ وہ مسائل کے حل کے نکات پر غور کرسکے اور حکومت کو اس سے آگاہ کرے ۔ ابھی غالبا پچھلے سال جبکہ برہان وانی کی موت کے بعد بھڑکی عوامی احتجاجی تحریک کو دبانے کیلئے حکومت نے طاقت کا بیجا استعمال کرتے ہوئے احتجاجیوں پر پیلیٹ گن کی برسات کرکے ہزاروں کو زخمی اور درجنوں افراد کو زندگی بھر کے لئے نابینا بنادیا تھا تب تین رکنی وفد وادی کے حالات کی جانکاری کے لئے وہاں گیا تھا ۔ ان لوگوں نے واپس آکر جو رپورٹ سونپی تھی جو کہ میڈیا میں بھی آئی تھی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ کشمیریوں کے اعتماد کا خون کیا گیاہے اب وہ ہم پر اعتماد نہیں کرتے ہماری باتوں بھروسہ نہیں کرتے ۔ جو بھی وفد جاتا ہے اس کا جو ایک نکاتی مشورہ ہوتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ اعتماد کی بحالی پر توجہ مرکوز کی جائے ۔ لیکن ہماری حکومت نے کبھی اس جانب توجہ نہیں دی ۔ اس نے ہمیشہ کشمیر کے تعلق سے ایک ایسے گروہ کے دباؤ میں کام کیا جس کا کہنا ہے کہ اینٹ کا جواب گولی سے دیا جائے ۔ موجودہ حکومت نے بھی اس دباؤ کے تحت ہی اینٹ پتھروں کا جواب پیلیٹ گن سے دے کر ہزاروں لوگوں کو زخمی تو کردیا اور درجنوں بینائی سے محروم تو ہوگئے لیکن کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے ۔بلکہ مسئلہ پہلے سے زیادہ سنگین ہو گیا ۔ کسی بھی مسئلہ کا حل اس کی نوعیت اور سنگینی کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے ۔ لیکن ہماری حکومتوں کے ڈھنگ نرالے ہیں ۔اس کے سامنے جب کو ئی تحریک اور احتجاج کرنے والے کی صورت مسلمانوں جیسی ہوتی ہے یا اس کا تعلق مسلمانوں سے ہوتا ہے تو اس کے سوچنے سمجھنے اور برتاؤ کا طریقہ یکسر بدل جاتا ہے ۔ اس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔ اسی زعم میں موجودہ حکومت نے بھی عوامی احتجاج کو حریت کی جانب سے برپا کئے جانے والی تحریک سے جوڑ کر یہ پروپگنڈہ کیا کہ پتھر پھینکنے والوں کو پانچ سو روپیہ دے کر یہ کام کروایا جاتا ہے ۔ جبکہ جن لوگوں نے بھی کشمیر ی نوجوانوں کی پتھر پھینکتی ہوئی تصویر یا ویڈیو دیکھی ہوگی اس کو بخوبی اندازہ ہے کہ یہ عوامی غصہ تھا کسی تحریک یا تنظیم سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔ لیکن حکومت جب کسی طرح کا الزام کسی پر عائد کردیتی ہے تو اسے ثابت کرنے کی احمقانہ ضد سے صورتحال کو اور بگاڑ دیتی ہے ۔ کشمیر کی صورتحال پرپیار محبت اور اعتماد سازی کے سبب قابو پایا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہ پہلے ہوا اور نہ اب ہو رہا ہے ۔
مودی حکومت نے آئی بی کے سابق ڈائریکٹر دنیشور شرما کو کشمیر مسئلہ کا خصوصی ایلچی بنا کر وادی میں بھیجا ہے ۔ دنیشور شرما نے بہت ہی محتاط اور پرجوش بیان میڈیا میں دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کشمیر میں تشدد کی وارداتوں سے بہت دکھی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مجھے ایسے حالات سے بہت دکھ پہنچتا ہے ۔ لیکن کیا محض دکھ کا اظہار کردینا ہے کشمیری نوجوانوں کی تکلیف کو دور کرنے کیلئے کافی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم میں اخلاص نہ ہو کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا اور تشدد کا جواب تشدد اور ایک کے بدلے دس کی دلیل اور اینٹ کا جواب گولی سے تو بالکل بھی نہیں ہو سکتا ۔ وادی میں موجودہ تحریک علیحدگی کی تحریک ہے جسے حکومت کی غلط اور مخاصمانہ پالیسی نے عوامی تحریک میں بدل دیا ہے یا یوں کہہ لیں کہ ہماری طاقت کے بیجا استعمال نے عوام کی اکثریت کو علیحدگی کی تحریک میں شامل ہونے پر مجبور کردیا ہے ۔ دنیشور شرما نے آئی اے این ایس کو دیئے انٹرویو میں کہا کہ ’’ میں درد محسوس کرتا ہوں اور کئی بار جذباتی بھی ہو جاتا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ سبھی طرف سے جتنی جلد ممکن ہو تشدد ختم کی جائے ‘‘ آگے انہوں نے کہا کہ خلافت قائم کرنے کی بات کرنے کے سبب کشمیر میں القاعدہ کے سربراہ ذاکر موسیٰ اور حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کو زیادہ توجہ ملی ہے ۔ حالانکہ دنیشور شرما کی ان باتوں میں اگر کچھ سچائی ہے بھی تو یہ آج کی بات ہے ۔ کشمیر پچھلے تین دہائیوں سے سلگ رہا ہے ۔ اس آگ میں پہلے جس نے پیٹرول ڈالنے کا کام کیا تھا وہ گورنر جگموہن تھے جنہوں نے سلامتی دستوں کو بڑے پیمانے پر گولیوں سے جواب دینے کی چھوٹ دی اس کا انجام یہ ہوا کہ اس وقت تک کشمیر کی تحریک جو صرف ہڑتال اور دھرنوں تک محدود تھی اس نے پر تشدد مزاحمت کی صورت اختیار کرلی ۔ گرچہ دنیشور شرما کی کاوشوں اور ان کی وادی میں آمد پر حریت لیڈروں کی جانب سے کوئی بیان نہیں آیا ہے لیکن شرما کے بیان سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ صرف کشمیری عوامی مزاحمت کاروں کو ہی الزام دے رہے ہیں ۔ اب تک انہوں نے سلامتی دستوں کی طاقت کے غلط استعمال اور جنسی تشدد وغیرہ پر کوئی بیان نہیں دیا جس سے عوام میں کو ئی مثبت پیغام جائے کہ موجودہ حکومت اور ان کے نمائندے وادی میں امن کے خواہاں ہیں ۔ شرما کہتے ہیں کہ اگر یہی حال رہا تویمن ، شام و لیبیا جیسے حالات ہو جائیں گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کر سمجھ رہے ہیں ۔ہم تو یہ سمجھ رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں کہ وادی پر حکومت ہند کی پکڑ مضبوط ہے اور وہاں لاکھوں کی تعداد میں چپے چپے پر انڈین آرمی تعینات ہے پھر کیسے وہاں کے حالات یمن ، شام و لیبیا جیسے ہو جائیں گے ۔ دنیشور شرما کے اس خدشہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
دنیشور شرما کا یک رکنی مشن بھی ناکامی سے ہی ہمکنار ہونے والا ہے ۔ایسا اس لئے کہہ رہا ہوں کہ انہیں اگر کشمیر کے مسائل کے حل کیلئے بھیجا گیا تھا تو اسی پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے ۔ انہیں کشمیری نوجوانوں سے آزادانہ طور پر ملنا چاہیے تھا ۔ ان کی شکایت سننا ان کی ترجیحات میں سے ہونا چاہئے تھا ۔وہ وہاں کہ علیحدگی پسند لیڈروں سے ملتے ۔ان کے موقف جاننے کی کوشش کرتے اپنی باتیں رکھتے ۔محض میڈیا کی خبروں پر کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا ٹھیک نہیں ۔لیکن وہ ایک جانب جہاں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں ان کے دکھوں پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں تو دوسری جانب بجائے مسئلہ کی جڑ تک پہنچنے کے انہیں وادی میں خلافت ، اسلام ، القاعدہ اور حزب المجاہدین ہی نظر آرہے ہیں ۔ یہ وہی نظریہ ہے جس پر یہ حکومت آئی ہے اور اسی کے سہارے عوام میں انتشار کے بیج بو کر اپنی حکومت کو آئندہ الیکشن کے بعد بھی وسعت دینے کی کوشش میں ہے ۔دنیشور شرما کی باتوں سے یہ محسوس ہوتا ہے وہ کشمیریوں میں اعتماد سازی کے بجائے انہیں درپردہ دھمکانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ قومی سلامتی اور یکجہتی کسی ملک کی اہم ضرورت ہے لیکن یہ سب کچھ اس طرح انجام پانا چاہئے کہ اس کی زد عوام پر نہ پڑے لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں ہو رہا ہے ۔ قومی سلا متی کے نام پر مسلمانوں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے ۔کشمیری بھی چونکہ مسلمان ہیں اس لئے یہ رٹ تو لگائی جاتی ہے کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ حصہ ہے ( یہ اٹوٹ حصہ ہندوستان کے ساتھ آزادی کے ایک سال بعد شامل ہوا ) لیکن اس میں کشمیریوں کو شامل نہیں کیا جاتا ۔کشمیر مسئلہ کے حل کی پہلی سیڑھی اعتماد سازی اور خوف سے آزاد ماحول ہے ۔ جب تک اس جانب پیش قدمی نہیں کی جائے گی تب تک ساری کارروائی اور کاوشیں محض خانہ پری ہیں جو عوام کو اس بھرم میں مبتلا کرنے کیلئے ہے کہ حکومت خاموش تماشائی نہیں ہے ۔ اس لئے دنیشور شرما جی اگر مرکزی حکومت نے آپ کو کچھ اختیارات دیئے ہیں تو اس کا استعما کرتے ہوئے نوجوانوں کو ہمدردی ، ایثار ، خلوص اور محبت سے قریب کرنے کی کوشش کریں ۔ دھمکی ، خوف ، لالچ اور تحقیر اعتماد کی بحالی میں ہمیشہ رکاوٹ رہے ہیں اور آج بھی ہیں ۔

0 comments: