Politics
سب کے وکاس سے مجسموں کے ویناش تک کی کہانی!
نہال صغیر
سیوک
اور چوکیدار کہلانا پسند کیا ۔پھر ایک موقعہ ایسا آیا جب اپوزیشن کی
تنقیدوں سے تنگ آکر کہا کہ فقیر ہوں جھولا اٹھا کر چلا جائوں گا لیکن ان
کی بد نصیبی یہ رہی کہ اپوزیشن نے ان کی اس بات کو بھی یوں اڑایا کہ یہ
فقیر ایسا ہے جو لاکھوں کے سوٹ زیب تن کرتا ہے ۔صاحب تو اس وعدے کے ساتھ
آئے تھے کہ وہ سب کا وکاس کریں گے اس کیلئے انہوں نے سب کے ساتھ کی اپیل
کی عوام نے بھی خوب نوازا اور مکمل اور ریکارڈ توڑ اکثریت دے کر خوب موقعہ
فراہم کیا کہ لیجئے جناب کردیجئے ہمارا وکاس !لیکن ابتداء سے ہی ان کی
حکومت وکاس کی پٹری سے اتر کر تفرقہ اور فسادات کی پٹری پر دوڑنے لگی ۔اس
پر طرہ یہ ہے کہ ایک بعد ایک ریاست میں جوڑ توڑ سے حکومت ہتھیانے کی
کامیابی نے ان کے بھکتوں کا دماغ توازن بگاڑ دیا اور حالیہ شمال مشرق ریاست
میں کامیابی کے بعد مجسمہ شکنی کی نئی تحریک میں اول جلول حرکتیں کرنے میں
جٹ گئے ۔شروعات تو انہوں نے لینن کے مجسمہ سے کی جس کے بارے میں ملکی طور
پر کوئی خاص رد عمل نہیں ہو سکتا تھا اور ہوا بھی نہیں ۔ہاں بین الاقوامی
طور پر ملک کی جو شبیہ بنی ہے وہ کسی بھی طور وطن عزیز کیلئے نیک شگون نہیں
ہے۔ بہت جلد ان کے دل کے اندرون کی جھلک سامنے آنے لگی اور پیریار اور
ڈاکٹر امبیڈکر کی مورتیوں کو توڑنے میں بھی باک نہیں کیا ۔وہ تو خیر ہے کہ
دلتوں نے اپنے اس رد عمل کا اظہار نہیں کیا جو ان کی شناخت ہے ۔ممکن ہے کہ
اس کے پیچھے حکومت کی وہ پالیسی ہو جس کے تحت دلت لیڈروں کو پابند سلاسل
کرنے کی مہم بھی زوروں پر ہے ۔ہر چند کہ موجودہ حکومت نے دلتوں کے چند
لیڈروں جیسے رام ولاس پاسوان ،رام داس اٹھاولے اور ادت راج کو اپنے خیمہ
میں کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور شاید اسی وجہ سے موجودہ حکومت
کیخلاف دلتوں کی تحریک میں کوئی خاصشدت نظر نہیں آتی ۔لیکن دلتوں کی یہ
خاموشی وقتی بھی ہوسکتی ہے ۔وہ چند ماہ قبل بھیما کورے گائوں معاملہ میں
اپنی ناراضگی اور قوت کا مظاہرہ بھی کرچکے ہیں ۔اس وقت ویویندر فرنویس نے
وعدہ بھی کیا تھا کہ بھیما کوریگائوں کے ملزمین کو قانون کے دائرے میں لایا
جائے گا اور اس سلسلے میں عدالتی کمیشن کے ذریعہ اس کی تحقیقات کرکے حقیقی
مجرمین تک رسائی حاصل کی جائے گی ۔وہ وعدہ ہنوز عمل سے کوسوں دور ہے ۔کچھ
دلت لیڈروں سے میری بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس سیکڑوں ویڈیو
فوٹیج ہیں جنکی مدد سے مجرمین کی شناخت آسانی سے کی جاسکتی ہے ۔انہوں نے
اس سلسلے میں آزاد میدان میں دھرنا بھی دیا تھا اور وہ خاموش بھی نہیں ہیں
۔وہ بار بار وزیر اعلیٰ مہاراشٹر کو ان کے وعدے یاد دلاتے رہتے ہیں اور
بالآخر وہ گرفتاری سے کم پر راضی نہیں ہوں گے ۔گرچہ دلت تنظیمیں مسلم
تنظیموں کی طرح کمزور اور خوفزدہ نہیں ہیں لیکن چونکہ برہمنی نیٹ ورک زیادہ
متحرک ہے اور اسے حکومت کی درپردہ حمایت بھی حاصل ہے اس لئے ان کے دبائو
کے اثرات فی الحال ظاہر نہیں ہو رہے ہیں ۔ہماری تنظیمیں قانونی طور پر
ردعمل کا کوئی باقاعدہ اظہار نہیں کرتیں سوائے بے گناہوں کے مقدمے لڑنے کے
۔جب تک ہم خاطیوں کو گھیرنے کی کوشش میں سرگرداں نہیں ہوں گے تب تک حالات
کے بدلنے کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ سنگھ اور بے جے
پی کے پاس ساری قوتیں مہیا ہونے کے باوجود وہ بھی قانونی چارہ جوئی کرنے
اور عدالتی کارروائیوں کے ذریعہ اپنے خلاف بولنے والوں کو ہراساں کرنے میں
پیش پیش ہیں۔
بہر
حال بات چل رہی تھی موجودہ حکومت کے زیر سایہ مجسموں کی مسماری کے واقعات
کی ۔جب انسان کو غیر متوقع کامیابی مل جاتی ہے تو وہ ایسی ایسی حرکتیں کرتا
ہے جس سے اس کے زوال کی شروعات جلد ہی ہو جاتی ہے ۔یہی سب کچھ بی جے پی کے
ساتھ بھی ہوگا ۔موجودہ مجسمہ شکنی اسی کی علامت ہے۔وطن عزیز میں پیریار
اور امبیڈکر پسماندہ اور محروم طبقات کے لیڈر کے طور پر ہوتی ہے ۔ان کے
خلاف کسی توہین کا گہرا رد عمل ہوتا ہے ۔مصلحتاً اور وقت کی مناسبت سے ابھی
کوئی شدید ردعمل نہیں ہوا ہو پر دلتوں میں یہ پیغام تو چلا ہی گیا کہ
موجودہ حکومت کے درپردہ عزائم کیا ہیں ؟یہی باتیں مسلم تنظیموں کو عوام کے
سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ ہندو اسٹیٹ بننے کے بعد دلتوں پسماندہ اور محروم
طبقات کی حالت کیا رہے گی بجائے اس کے کہ کانگریس اور کانگریسی مسلمانوں
کے اشاروں پر اس پر واویلا مچایا جائے کہ اس حکومت سے مسلمانوں کو یہ نقصان
ہوگا اور وہ ہوگا ۔ ہمیں سب طرف سے رخ پھیر کر موجودہ حکومت سے غریبوں اور
محروم طبقات سمیت دلتوں کو ہونے والے نقصانات کی جانب عوام کو متوجہ کرنا
چاہئے ۔یہ محض خدشات ہی نہیں ہیں بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس ملک کے
مقتدر طبقہ یعنی برہمنوں اور ان کے ہمنوائوں نے کمزوروں کے ساتھ کیا سلوک
روا رکھا ۔اس کا تذکرہ وہ لیڈر کرتے بھی ہیں جو کہ آزاد ہیں اور کسی سیاسی
پارٹی سے وابستہ نہیں ہیں ۔ادھر موجودہ حکومت میں ظلم و جبر کے نئے باب کی
شروعات نے بھی کئی نئےدلت لیڈروں کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے جس میں
جگنیش میوانی ،ہاردک پٹیل اور چندر شیکھر راون وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔یہی لوگ
موجودہ سنگھی حکومت کی قبر کھود دیں گے ۔شرط صرف یہ ہے کہ مسلمان ہر
معاملہ کو خود سے جوڑنے کی بجائے اس کو وسیع ترتناظر میں دیکھیں اور اس
کیلئے لائحہ عمل ترتیب دے کر ہر تنظیم اور ہر لیڈر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد
الگ بنانے کی بجائے متحد ہو کر کچھ کرے ۔ موجودہ فرقہ پرست جوش میں ہوش
کھوکر ایسے کارنامے انجام دینے میں مصروف ہیں جو ان کے تابوت میں گزرتے وقت
کے ساتھ نئے کیل میں اضافہ کررہا ہے ۔حالات ملک کیخلاف جارہے ہیں اس میں
صرف مسلمانوں کا ہی نقصان نہیں ہے بلکہ یہاں کی کل آبادی کو اس کی قیمت
چکانی پڑے گی تو پھر مسلمان ہی کیوں حواس باختہ ہو رہے ہیں اور اس حالت میں
قوم میں مایوسی پھیلا رہے ہیں ۔2019 میں گرچہ بی جے پی اور مودی کے دوبارہ
آنے کی امیدیں جتائی جارہی ہیں تو اس سے ہم کیوں مایوس اور پریشان ہیں
کیا پچھلے ستر برسوں میں کانگریس نے ہمیں کسی جنت ارضی میں پہنچا دیا تھا
جو آج ہم پریشان ہیں کہ یہ جنت ہم سے چھن جائے گی؟ضرورت اس بات کی ہے کہ
حواس کو مجتمع کرکے مستقبل کی منصوبہ بندی کی جائے ۔اس کیلئے ضروری ہے کہ
مسلم لیڈر اور مسلم تنظیمیں بہر صورت متحد اور بیدار ہوں ،عوام کو بیدار
کرنے سے زیادہ ضروری قائدین اور تنظیموں کےمتحد اور بیدار ہونے کی
ہے ۔
0 comments: