Politics

امیدوار نہیں پارٹی کا نظریہ اور اس کی کارکردگی دیکھئے

1:58 PM nehal sagheer 0 Comments

ممبئی بلدیہ انتخابات کی تشہیری مہم کے دوران محمد علی روڈ پر ریلی میں آگے آگے ایک معذور شخص مجلس انتخابی نشان والا سبز پرچم لہرا کر اپنے جذبے کا اظہار کرتے ہوئے  ( تصویر: شہزاد منصوری )  

نہال صغیر

ممبئی بلدیاتی انتخابی میں بس دو دن ہی بچے ہیں ۔منگل 21 ؍فروری کو ووٹنگ کا عمل ہوگا اور 23 ؍فروری کو اس کے نتائج کا اعلان کردیا جائے گا ۔اس بار حیدر آباد سے مجلس اتحاد المسلمین ’’اپنی جماعت ،اپنا اتحاد ، اپنی کامیابی ‘‘ کے نعرے کے ساتھ انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کررہی ہے ۔اس نے ممبئی بلدیہ کے لئے 59 امیدوار کھڑے کئے ہیں ۔مجلس اتحاد المسلمین کے حیدر آباد سے باہر قدم نکالتے ہی اس پر یہ الزام عائد کیا جانے لگا کہ یہ پارٹی مسلم ووٹوں کو تقسیم کروانے کیلئے آئی ہے ۔2014 کے لوک سبھا انتخاب میں تو اس پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ اس نے بی جے پی سے درپردہ سمجھوتہ کررکھا ہے یا وہ وہ بی جے پی کی ایجنٹ ہے ۔یہ الزام اب بھی برقرار ہے ۔الزام ان پارٹیوں اور افراد کی جانب سے لگایا جا رہا ہے جو آزادی ہند کے بعد سے ہی مسلم ووٹوں کے ٹھیکیدار بن کر مسلمانوں کو آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرستوں کا خوف دکھا کر ووٹ لیتے رہے ۔لیکن انہوں مسلمانوں کی ترقی کیلئے کو ئی کار ہائے نمایاں انجام نہیں دیئے ۔حتی ٰ کہ فسادات ،بم دھماکے میں مسلم اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی فرضی گرفتاری سے مسلمانوں کا یہ حال کیا کہ آزادی کے وقت جس قوم کی معاشی حالت قابل قدرتھی آج پسماندگی کے عمیق کھائی میں ہے اور سرکاری نوکریوں میں 35 فیصد سے گھٹ کر 3 فیصد کے قریب آ گیا ہے ۔مسلم محلے گندگی ،مفلسی اور یاسیت کا منھ بولتا نمونہ ہیں ۔ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے ان حالات سے نکلنے اور قوم کی حالت سدھارنے نیز سیاسی بے چارگی دور کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا ۔انہوں نے کوششیں کیں اس نے کچھ پھل بھی دیئے لیکن مسلمانوں کو جس اجتماعی مجرم ضمیری میں مبتلا کردیا گیا تھا اس کی وجہ سے وہ درخت زیادہ دنوں تک تو کیا ایک موسم سے زیادہ پھل نہیں دے سکا اور سوکھ گیا ۔ایسے دگر گوں حالات میں مسلمانوں کی جانب سے ایک بار پھر ایک نئی آواز جو نئی بھی نہیں ہے بلند ہوئی ہے ۔یہ آواز ہے مجلس اتحاد المسلمین کی آواز جس نے قوم کے حالات دیکھ کر سکون و اطمینان کو تج کر حید رآباد سے باہر قدم نکا لا ۔اس کے بڑھتے قدم سے گھبرا کر مسلمانوں کے درمیان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے مسلم نما دلال حرکت میں آگئے اور انہوں نے طرح طرح سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور ان میں شکوک کے بیج بونے شروع کردیئے ۔وہی پرانا ڈر اگر تم نے مجلس کو ووٹ دیا تو آر ایس ایس کا منصوبہ کامیاب ہو جائے گا ۔ایک صحافی جو کہ سوشل میڈیا پر کافی متحرک ہیں علی سہراب ان کا نام ہے انہوں نے ایسے ہی لوگوں پر اپنے ایک ٹوئٹ میں تنقید کیا ’’دلت ،دلت کو ووٹ دے تو آر ایس ایس نہیں جیتتا ،یادو یادو کو ووٹ دے تو آر ایس ایس نہیں جیتتا ،مسلم مسلم کو ووٹ نہ دیں ورنہ آر ایس ایس جیت جائے گی ، غضب کی منطق ہے‘‘۔
مجلس کے خلاف طرح کے پرپگنڈے کئے جارہے ہیں ۔اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جو کچھ بول رہے ہیں وہ جھوٹ ہے ۔لیکن میں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں وزیر اعلیٰ تلنگانہ اسمبلی میں اکبر الدین کے سوالوں اور مطالبات کا جواب دے رہے ہیں ۔اس سے یہ صاف ہو جاتا ہے کہ مجلس اپنی کم مائیگی کے باوجود مسلمانوں کے مسائل کو اٹھاتی بھی ہے اور اسے اتنی قوت سے اٹھاتی ہے کہ حکومت اس کو قبول کرنے میں ہچکچاتی بھی نہیں ہے ۔مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد کی سیاسی غلامی سے پیدا شدہ حالت نے انہیں یہ سوچنے کے قابل ہی نہی رکھا ہے کہ وہ بھی سیاسی قوت بن سکتے ہیں اور مرکز میں وہ اس قابل بن سکتے ہیں کہ حکومت ان کے اشاروں پر بنے اور گرے گی ۔لیکن یہ صورتحال اس وقت بنے گی جب مسلمان کسی ایک سیاسی جھنڈے کے نیچے جمع ہوں اور بیس پچیس سال تک اس کے ساتھ رہیں ۔ یہ ساتھ ذاتی مفاد کیلئے نہ ہو کرفقط قوم کیلئے ہو تو انشاء اللہ اچھے نتائج بر آمد ہوں گے ۔اس کے لئے ضروری ہے کہ آزادی کے بعد کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے ۔کانگریس اور اس کے کارنامے مسلمانوں کو بار بار بتائی جائیں ۔مسلمانوں کو یہ بھی بتایا جائے کہ کس طرح مسلم چہروں والے سیاسی دلالوں نے کانگریس کی حمایت میں مسلمانوں کا برا حال کیا ۔ان دلال نما مسلم لیڈروں کو بنگلہ اور کار تو مل گیا لیکن مسلمان مفلوک الحالی انتہائی گہرائی میں گرتا چلا گیا ۔اب اگر مجلس مسلمانوں کو آواز دے رہی ہے انہیں سیاسی طور پر متحد کرنا چاہتی ہے تو مسلمانوں کو ان کی آواز پر لبیک کہنا ہی چاہئے اور یہ دکھا دینا چاہئے کہ وہ اب جاگ گئے ہیں اور اپنے حقوق کیلئے سیاسی قوت بننے کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں ۔یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ ہو سکتا ہے کہ مجلس کا کہیں کوئی امیدوار انکے معیار پر کھرا نہیں اترے لیکن انہیں امیدوار کو نہیں مجلس کو ووٹ دینا چاہئے تاکہ ہم مستقل میں سیاسی قوت بن کر ابھر سکیں اور ہماری بیچارگی کا دور ختم ہو ۔ ہم اگر اسی طرح ذرا ذرا سی باتوں اور مختلف پہلو سے اپنے نمائندوں میں خامیاں ہی ڈھونڈتے رہیں گے تو یقین جانئے آپ کی سیاسی غلامی کا دور کبھی ختم نہیں ہوگا ۔دائیں بائیں مت دیکھئے سیدھا اس شخص کو دیکھئے جو اپنے سکون و آرام کو قربان کرکے آپ کی سیاسی بے وزنی ختم کرنے کیلئے فکر مند ہے ۔

0 comments: