Politics

کیا واقعی 2024 میں بی جے پی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؟

3:36 PM nehal sagheer 0 Comments

 نہال صغیر



۲۰۱۴ سے ایک جملہ بار بار دہرایا جاتا ہے کہ کچھ بھی کرلو آئے گا تو مودی ہی اور بھارتی ووٹروں کی اکثریت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ بالکل درست ہے ۔ بار بار سوشل میڈیا پر ایسے انٹر ویوز سامنے آئے ہیں جس میں کوئی شخص کہتا ہے کہ ہم ہزار روپئے پیٹرول خرید یں گے مگر ووٹ تو مودی کو ہی دیں گے ۔ اسی طرح کسی سے پوچھا جاتا ہے کہ آخر آپ مودی کو کیوں ووٹ دیں گے ؟ اس سوال کے جواب میں مفلوک الحال نظر آنے والا بے روزگار نوجوان کہتا ہے کہ مودی نے مسلمانوں کو سبق سکھایا ہے ہندوئوں کی حفاظت کی ہے ۔حالانکہ کے اس شخص سے جب کوئی صحافی کائونٹر سوال کرتا ہے تو وہ دائیں بائیں جھانکتا نظر آتا ہے ؟ آپ ہجومی تشدد کے مناظر یا رام نومی کے موقع پر ہونے والے تشدد کے مناظر دیکھیں اور مشاہدہ کریں کہ جن ہندو نوجوانوں نے اس میں حصہ لیا ان کی شکل اور ان کے لباس سے ان کی مفلوک الحالی عیاں تھی ۔یعنی غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ اس کی سب سے اہم وجہ حکومت کا سارے میڈیا اداروں پر قبضہ اور ان کے ذریعہ اپنے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنا ہوسکتی ہے ۔ ویسے بھی اوپر کی دو مثالوں اور پانچ سال کی ناکام حکمرانی کے باوجود ۲۰۱۹ میں بی جے پی کو دوبارہ حکومت سونپنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کے عوام پورے کے پورے نہیں تو کم از کم پچاس فیصد کی سوچ بالغ نہیں ہوئی ہے وہ اندھی دشمنی میں اپنا سب کچھ تباہ کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پلوامہ کے بعد پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک نے مودی حکومت کی نائو پار لگائی ورنہ وہ ۲۰۱۹ میں کسی بھی طور حکومت میں نہیں آپاتی ۔لیکن یہ بھی یہاں کے عوام کی بچکانہ سوچ کو ہی ظاہر کرتی ہے ۔ جہاں کے عوام بچوں کی طرح محض معمولی ٹافی جیسے جملوں سے بہل جائیں اور مہنگائی سمیت دیگر کسی بھی عوامی مسائل ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے وہاں نکمی اور ناکارہ حکومت کو کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا ۔ہم مان لیتے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا پر مودی اور ان کی نام نہاد جادوئی شخصیت کا اشتہار چلتا رہتا ہے ، کسی بھی ایسی خبر کو وہاں جگہ نہیں ملتی جس میں حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہو ۔لیکن یوٹیوب سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے ذریعہ تو عوام کے سامنے حقائق پہنچ رہے ہیں نا ، اس کا اثر کیوں نہیں ہورہا ہے ؟ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کان سچائی سننے اور آنکھیں سچ دیکھنے کیلئے بند کررکھے ہیں ۔کہا جاتا ہے سوتے ہوئے کو جگانا آسان ہے لیکن جو سونے کی اداکاری کررہا ہو اسے نہیں جگایا جاسکتا۔
اب بعض آزاد صحافی اور یو ٹیوب پر اپنی بھڑاس نکالنے والے زور شور سے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ۲۰۲۴ میں مودی حکومت کیلئے راہیں بہت مشکل ہوں گی ، بعض کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ وہ سو سیٹیں بھی نہیں حاصل کرسکے گی ۔ لیکن ۲۰۲۴ کو ابھی ایک سال ہے اور یہاں کے عوام جیسے احمق ضعیف الاعتقادی میں اپنی مثال آپ ہیں وہ کسی بھی قسم کی اداکاری یا مسلم دشمنی کے ایشو پر وہ ووٹ تو مودی کو ہی دے سکتے ہیں ۔ اگر کسی کو اس میں شک ہے کہ یہاں کے عوام احمق نہیں ہیں تو وہ ثابت کریں کہ جس حکومت کو اپنی ناکامیوں اور طرز حکمرانی سے بے بہرہ ہونے کی پاداش میں پہلے ہی ٹرم میں درمیان میں گر جانا چاہئے تھا اس نے دوسرے ٹرم کیلئے بھی ووٹ کیسے حاصل کرلیا ۔ ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم سب سے بڑے جمہوری ملک ہیں ،معتبر یا نظریاتی طور سے پختہ نہیں ہوجاتے ۔کچھ لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ ای وی ایم کی وجہ سے بی جے پی جیت کا جھنڈا بلند کررہی ہے ۔ لیکن اس پر بھی یقین اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ سب سے زیادہ زور و شور سے ای وی ایم مشین کیخلاف میدان میں آنے والے کیجریوال کی ٹیم کی جانب سے بھی آواز آنا بند ہوگئی ہے اور کانگریس کی جانب سےجسے اب بھی سب بڑی پارٹی ہونے کا زعم ہے کی جانب سے کبھی ای وی ایم کیخلاف کوئی مضبوط آواز نہیں اٹھی ۔بہتر ہوتا کہ مشینوں اور دیگر ذرائع کو الزامات دینے کی بجائے ہم یہ تسلیم کرلیتے کہ یہاں کا ووٹر اب بھی ذہنی طور بالغ نہیں ہوا ہے ۔ اسے صحیح فیصلہ کرنے میں اب بھی صدیاں درکار ہیں ۔لطیفہ سنئے ، جب این آر سی کیخلاف احتجاج شباب پر تھا اس وقت ملک کے طول و ارض سے یہ خبریں آئیں کہ دلت اور دیگر پسماندہ طبقات لوگ مسلمانوں کے گھروں پر نظر گڑائے ہوئے تھے کہ ’’جب یہ میاں پاکستان بھاگے گا تو اس میں ہم رہیں گے‘‘۔اسی طرح کشمیر سے دفعہ ۳۷۰ ہٹانے کے بعد بھی شیخ چلی کے خوابوں کی طرح یہ باتیں سامنے آئیں کہ وہ کشمیر میں زمینیں خریدیں گے ۔
اب ۲۰۲۴ میں بی جے پی کے زوال کی پیش گوئی جو لوگ کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جس پلوامہ حملہ (جس میں چالیس نیم فوجی جوانوں کی موت ہوگئی تھی) کی وجہ سے بی جے پی کو ۲۰۱۹ کا الیکشن سر کرنے میں آسانی ہوئی تھی اب اسی کی وجہ سے اسے ۲۰۲۴ میں اسے اقتدار سے بے دخل ہونا پڑسکتا ہے ،کیونکہ اس وقت مودی اور ڈوول نے ستیہ پال ملک کو خاموش رہنے کیلئے کہا تھا ۔ اب ستیہ پال ملک نے اس راز پر سے پردہ ہٹا دیا ہے کہ چالیس جوانوں کی موت کی ذمہ دار مودی حکومت تھی ، ان کی وزارت نیم فوجہ دستوں کی نقل مکانی کیلئے ہوائی جہاز مہیا کرانے سے انکار کردیا تھا ۔ اس کےعلاوہ بھی کئی باتیں تھیں جو منظر عام پر آئی ہیں ۔ بات تو پہلے بھی سامنے آئی تھی مگر وہ آزاد صحافیوں کی جانب سے تھی جس میں خفیہ ایجنسی کی ناکامی اور اتنے بڑے نیم فوجہ دستہ کے قافلہ کا بذریعہ روڈ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ۔مین اسٹریم میڈیا کل بھی خاموش تھا آج بھی اسے سانپ سونگھ گیا ہے ۔ لیکن اس بار تھوڑی سی تبدیلی یہ ہے کہ اس وقت جموں کشمیر کے جو گورنر تھے انہوں نے خود سے حکومت کے نکمے پن پر برسر عام آواز اٹھائی ہے ۔ جو کچھ ستیہ پال ملک نے کہی ہے اگر یہاں کے عوام بیدار مغز ہوتے تو وہ سڑکوں پر آجاتے اور ایسی حکومت کو ایک ساعت کیلئے برقرار رہنے پر راضی نہیں ہوتے ۔ مگر یہاں کے عوام تو جب کرنسی نوٹ کی منسوخی اور کووڈ کے وقت غیر منصوبہ بند لاک ڈائون کے سبب مصائب بھی بنام مسلم دشمنی برداشت کرگئے توستیہ پال ملک کا انکشاف بھی انہیں کسی اہم پیش قدمی سے روکے گا ۔واضح ہوکہ جب یہاں پانچ سو اور ہزار کے نوٹ بن کئے گئے تھے تو اس کے دو چار روز بعد کسی ملک نے ایسا ہی فیصلہ لیا تھا لیکن وہاں کے عوام کے شدید احتجاج کے سبب حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے ۔آپ اندازہ لگائیں یہاں نوٹ بندی میں ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد بینکوں کی لائن میں اور لاکھوں افراد کووڈ میں حکومت کی نااہلی کے سبب لقمہ اجل بن گئے مگر ایک پتہ تک نہیں ہلا۔
کچھ روز سے دہلی کے جنتر منتر پر کچھ پہلوان دھرنے پر بیٹھے ہیں جس میں خواتین کی اکثریت ہے ، ان میں سے اکثر نے عالمی پیمانے پر ملک کا نام روشن کرنے کا کام کیا ہے ۔ ان کا الزام ہے کہ ان کی کمیٹی کا سربراہ جنسی استحصال کا گھنائونا کھیل کھیلتا رہا ہے ۔ ان لوگوں نے کئی ماہ قبل بھی دھرنا دیا تھا تب انہوں نے احتجاج اس وقت ختم کیا تھا جب ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ملزمین کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا مگر جب ان کے ملزم کو تمام الزامات سے بری کردیا گیا تو انہوں نے دوبارہ شدت کے ساتھ دھرنے پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا اور اب سپریم کورٹ کے دبائو کے بعد دہلی پولس نے ریسلنگ فیڈریشن کے صدر اور بی جے پی کے ایم پی برج بھوشن کیخلاف ایف آئی آر درج کرلیا ہے ۔ گرفتاری اب بھی نہیں ہوئی ہے ، اپوزیشن اس کی گرفتاری کا مطالبہ کررہا ہے لیکن اپوزیشن کی کیا اوقات رہ گئی یہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ بولتا ہندوستان نے ۲۵؍ اپریل کو اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے ونیش پھوگاٹ کے حوالہ سے ٹوئٹ کرکے بتایا کہ برج بھوشن پر سو دو سو نہیں ایک ہزار سے زائد خواتین کے جنسی استحصال کا الزام ہے ۔ اتنے کریہہ اور گھنائونے الزامات کے بعد بھی کسی شخص کا عہدہ اور پارلیمنٹ میں برقرار رہنا صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ وہ بی جے پی کا پکا نمک خوار ہو ۔آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ جن مہاشے پر پہلوان لڑکیوں جنسی زیادتی کے الزامات عائد کئے ہیں اس پر چالیس مجرمانہ معاملات درج ہیں ۔ آپ کو یہ جان کر بھی یقینا حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے ارکان پارلیمان یا اسمبلی میں بی جے پی کاحصہ سب سے زیادہ ہے کیوں کہ یہ ہزاروں سال پرانی سنسکرتی کے علمبرداروںکی پارٹی ہے ۔کیا کیا گنایا جائے اور کیا چھپایا جائے ، سو کروڑ کی جعل سازی میں ملوث فرد پی ایم کا قریبی ہوتا ہے اور پی ایم او کا افسر بتاکر کوئی ٹھگ کشمیر جیسے حساس علاقوں سے گھوم آتا ہے اور اسے ہر جگہ وی آئی پی ٹریٹمنٹ ملتا ہے ۔ کوئی ہوتا جو جعل سازی ،جھوٹ ، زنا بالجبر ، ڈکیتی ،چوری اور قتل وغیرہ میں ملوث بی جے پی سے متعلق افراد کی مکمل فہرست کو کتابی شکل میں ہم جیسوں کیلئے تیار کرتا ۔
ہمارے ایک بزرگ مضمون نگار نے۲۰۲۱ میں کسانوں کے دھرنوں اور احتجاج کے درمیان کہا تھا کہ مغربی اتر پردیش سے بی جے پی کا صفایا ہوجائے گا لیکن معمولی نقصان سے زیادہ کچھ نہیں ہوا جبکہ یہ پورا علاقہ کسانوںکا ہے ۔ میرے لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ (چند لکھنے والے یا آزاد صحافی) خواہ کچھ بھی کہیں مگر جن لوگوں کا نعرہ ہے کہ’’ آئے گاتو مودی ہی‘‘ کچھ سوچ کر ہی انہوں نے یہ نعرہ دیا ہے ۔ بی جے پی کو جن لوگوں کا ووٹ مل رہا ہے ان کے ذہنوںپر کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ انہیں صرف ایک بات ہی یاد رہتی ہے کہ مسلمانوں کو ان کی اوقات میں رکھنے کیلئے مودی سے بہتر کوئی نہیں ہے ۔ برج بھوشن کے سیاہ کارنامے سے بھی ان کے ذہنوں میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ جو قوم زنا بالجبر اور قتل کے مجرمین کا خیر مقدم پھولوں کی مالا اور مٹھائیاں کھلا کراور ترنگا یاترا کے ذریعہ کرتی ہو اس میں تبدیلی ممکن نظر نہیں آتی ۔ اس لئے زیادہ خوش فہمی کی ضرورت نہیں کہ ۲۰۲۴ میں جبر کی اس حکومت کوزوال کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ مجھے تو محسوس ہوتا ہے کہ ابھی مزید کئی ٹرم یہی لوگ آئیں گے اور ملک کو تباہی کے ایسے دلدل میں لے جائیں گے جہاں سے اس کا نکلنا آسان نہیں ہوگا ۔ ان کا یہ کام یہاں کے بے حس اور ناپختہ ذہن کے عوام کررہے ہیں ۔اب کوئی شخصیت یا پارٹی انہیں جب حساس اور فکری طور پر پختہ کرنے کا کام کرے گی تب ہی کسی تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے ۔ یہ امریکہ نہیں ہے کہ جہاں ٹرمپ کو دوبارہ حکومت میں آنے سے عوام روک دیتے ہیں اور وہاں کا عدالتی نظام دیکھئے کہ عارضی طور سے ہی سہی لیکن سابق صدر کو گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔ سوچئے یہاں ایسا ممکن ہے ؟

0 comments: