اسلام کو بھی موقع دیجئے

وہ پوری نسل جس نے غلامی کو غروب ہوتے اور آزادی کو طلوع ہوتے با ہوش و حواس دیکھا تھا وہ آزادی کی آغوش میں چند سال گذارنے کے بعد ہی آزادی کے تعلق سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گئی تھی ۔اور چند دہائیوں کے بعد تو وہ آزادی کو، کالے حکمرانوں کو بآواز بلند کوسنے اور گالیاں دینے لگ گئے تھے ۔عجیب بات ہے کہ گورے حکمرانوں کو تو اپنی کالی رعایا کے دکھ درد کی کچھ نہ کچھ فکر تھی ۔وہ یقیناً غلام ممالک کے وسائل کو لوٹنے یہاں آئے تھے مگر کوشش کرتے تھے کہ رعایا کے آنسو آنکھوں میں رکے رہیں۔کیوں ؟کیوں کہ انھیں ڈر تھا کہ عوام بغاوت پر آمادہ ہو گئی تو انھیں بھاگنا پڑیگا۔جبکہ دیسی حکمرانوں کو ایسا کوئی ڈر نہیں۔عوام انھیں ووٹ نہ دیگی تو جائیگی کہاں؟حالانکہ آزادی کے بعد مملکت ہند کو بطور ویلفیئر اسٹیٹ وجود میں لایا گیا ہے ۔۔مگر کیا ہماری کوئی حکومت اب تک فلاحی مملکت کا نمونہ بن سکی ہے۔ آج تو یہ صرف چند فی صد لوگوں کی فلاح کی ذمہ دار ہے باقی لوگوں کو ان چند لوگوں کی فلاح کی خاطر عملاًبھوکا مارا جا رہا ہے ۔ایسا نہ ہوتا تو اشیاء خوردنی یوں مہنگی نہ ہوتی ۔مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے ۔کھانے پینے کی چیزیں ہر نئے سورج کے ساتھ غریبوں کے ہاتھوں سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔اور حکومت۔۔۔حکومت صرف غریبوں کے غصے کو ٹھنڈا رکھنے کا کام کر رہی ہے ۔چلئے !یہ بھی کیا غلط کر رہی ہے ورنہ وطن عزیز اگر تیونس یا مصر بن گیا تو دیش واسیوں کو کتنی تکلیف ہوگی ؟ کتنا خون خرابہ ہوگا؟کھانے کی چیزوں کا کیا ہے بازار میں نہ سہی گھورے پر تو مل جاتی ہیں ۔اور یہ چند لوگوں کی ترقی نے ،امبانی اور ٹاٹا و برلا کی فلاح و بہبود نے بین الاقوامی سطح پر دیش کے نام کو جو چار چاند لگا رکھے ہیں وہ بھی تو دیکھا جانا چاہیے ۔
آج ملک کی جو حالت ہے وہ اس کے باوجود ہے کہ ملک کو ہمارے سیاستداں ویلفیئر اسٹیٹ کہتے ہیں۔یہ نتائج ہیں۶۳ سالہ سیکولر جمہوریت کے ۔ہم بلا خوف تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تجربہ تو ناکام ہو چکا ہے ۔یہ صرف ہم کہہ رہے ہیں ایسا نہیں ہے بلکہ ملک کی ایک بڑی اکثریت یہ کہہ رہی ہے اور سمجھ بھی رہی ہے ۔خود حکمرانوں کا ہر ہر قدم عوام سے یہی کہتا ہے کہ موجودہ طرز حکومت ناکام ہو چکا ہے ۔ورنہ لاکھوں لاکھ کروڑ کے گھپلے ہوتے اور حکومت بے بس تماشائی نہ ہوتی۔ابھی چند دنوں پہلے کسی رسالے میں پڑھنے کو ملا کہ ۲۸۰ لاکھ کروڑ روپیہ ہندوستانیوں کا ملک سے باہر بینکوں میں جمع ہے ۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ کالا دھن اور گھپلوں کا پیسہ ملک کے خزانے میں جمع ہوتا تو ہمارے ماہانہ اخراجات صرف ایک تہائی رہ جاتے ۔یعنی اگر کسی کا ماہانہ گھر خرچ ۹ ہزار روپیہ ہے تو وہ صرف ۳ہزار ہوتا۔مگر ہمارے چور حکمرانوں نے چوریاں کر کر کے ہمیں مہنگائی کے سمندر میں غرق کر رکھا ہے ۔ہمارے ماہر معاشیات وزیر اعظم یہ بات ہم سے بہتر جانتے اور سمجھتے ہیں۔مگر مخلوط حکومت کو قائم رکھنے پر مجبور ہیں۔ہائے رے یہ مجبوری۔اور سیکولر جمہوریت ایسی ہی مجبوریوں کا نام ہے۔
اب ۲۰۰۸ سے یہ بات سننے کو مل رہی ہے کہ ہندتو والے بھی اس ملک کی حکومت کے امید وار ہیں۔اور ان کی یہ کوششیں کوئی نئی نہیں ہیں
وہ تو روز اول سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں ملک کی تقسیم کے پیچھے بھی یہی ذہنیت تھی۔ مگر اب وہ تیر و تلوار سے لیس کھل کر سامنے آرہے ہیں اور چونکہ حکومت نے ہندتو کے داعی حکومت کے امیدوار ہونے کی بنیاد پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ہندتو کو بھی بطور ایک طرز حکومت مانیتا دیدی گئی ہے ۔اس کے باوجود کے ہندتو والوں نے حکومت ملنے سے پہلے ہی یہ بتا دیا ہے کہ وہ حکومت ملنے کے بعد کیا کریں گے۔۔بابری مسجد کی شہادت ،گراہم اسٹینس کا قتل،گرجوں پر حملے ،دلتوں پر ظلم یہ خاص نشانیاں ہیں جو ہندتو حکومت کی روپ ریکھائیں سنوارتی ہیں۔اور ہماری سیکولر جمہوری حکو مت موقع ملنے پر اس طرز حکومت کو برداشت بھی کرنے کو تیار ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہندتو وادیوں میں سیمی والوں کی طرح اب تک بھگدڑ مچ جانا چاہیئے تھا۔۔مگر ۲۰۰۸ میں ثبوت ملنے کے بعد سے اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔وہ صرف ان الزامات کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کا تعلق دہشت گردی یا بم دھماکوں سے ہے ۔نظام ہندتو بزور بازو قائم کرنے کا ذکر کہیں نہیں ہے۔تو کیا ہماری حکومت کوئی نظام پر امن نہیں بزریعہء تشدد قائم کرنے کی اجازت دیتی ہے؟پھر نیپال کے ماوؤادیوں سے نفرت کیوں؟ارے۔۔۔نیپال کے ماوؤادی بھی تو ہندو ہی ہیں۔یہ ہمارا دوغلہ پن ہی ہے جس کی وجہ سے ماوؤادی ہوں کے کانگریسی بحیثیت مجموعی نیپالی ہم پر اعتبار نہیں کرتے۔حالانکہ ہم ان کی پرجا کو تعلیم و روزگار فراہم کرتے ہیں۔
اب آئیے کچھ نظر کمیونزم پر بھی ڈال لیں۔ہمارے یہاں کمیونزم کو بھی بطور ایک نظام حیات تسلیم کیا گیا ہے بلکہ ابتدائی وزرائے اعظم تو اسکی زلف گرہ گیر کے اسیر بھی رہ چکے ہیں۔ہر چند کے کمیونزم کو مرحوم ہوئے دو دہائیاں گزر چکی ہیں مگر ہمارے ہندوستانی کمیونسٹ آج بھی اس سے دست بردارہونے کو تیار نہیں ۔اور ان میں بھی مسلمانوں کا حال تو بہت ہی خراب ہے وہ سمجھتے ہیں کہ کمیونزم سے بھی طلاق لے لیں تو پھر جائیں کہاں؟کہیں دھوبی کے کتے نہ بن جائیں۔اور کمیونزم کی حالت تو سچ مچ ایسی ہی ہو چکی ہے ۔اب دنیا میں جو بھی کمیونسٹ باقی بچے ہیں وہ نام تو کمیونزم کا لیتے ہیں مگر کام سرمایہ داری کا کرتے ہیں۔اور انکے پاس جو بہاریں ہیں وہ سرمایہ داری کے دم سے ہے۔ مگر خود سرمایہ داری کا کیا حال ہے۔سرمایہ داری کے سرخیل امریکہ کے کیا حال ہیں۔پچھلے چند سالوں سے دنیا اسے چشم سر سے ڈوبتا دیکھ رہی ہے۔پوری سرمایہ دار دنیا امریکی جہاز کو بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے ۔اور یہ سب دیکھنے کے باوجود ہم بھی سرمایہ دارانہ نظام کے اسیر ہیں۔یہ اسی کے نتائج تو ہیں ہر روز لاکھوں کروڑ کے گھپلے سامنے آتے ہیں سونے پہ سہاگہ ہم لکشمی دیوی کے پجاری بھی تو ہیں۔بیرونی ملکوں میں جمع شدہ رقوم کے ہولناک اعداد و شمار پڑھنے کو ملتے ہیں مگر ہم بحیثیت قوم کچھ بھی ہوں ہم ان خوفناک اعداد وشمار کے عاشق ہو چکے ہیں فاقہ مستی میں یہ فخر کیا کم ہے کہ ہم بھی اتنی بڑی بڑی رقوم کے مالک ہیں۔
کچھ بھی ہو ہمارے لئے تو یہ بات باعث خوشی ہے کہ کمیونزم اور سرمایہ داری کے زوال سے یہ خیر برآمد ہوئی ہے کہ اب دنیا کی نیک نفوس نظام اسلامی کے بارے میں بھی سوچ رہی ہیں غیر ارادی ہی سہی ان کے منہ سے اسلامک بینکنگ یا بلا سودی نظام کی باتیں نکل رہی ہیں کچھ عرصے بعد یقین ہے کہ یہ پورے اسلامی نظام معیشت کو اپنائیں گے پھر یہ بھی یقیناً ہوگا کہ پورے نظام شریعت پر بات جاکے رکے گی ۔ خیر فی ا لوقت تو یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ کیرالہ ہائی کورٹ نے اسلامک بینکنگ کی اجازت دیدی ہے۔بحیثیت ملک بھی بلا سودی نظام پر غور کیا جا رہا ہے۔اور بات اتنی ہی نہیں ہے۔آزادی کے بعد سے ہندوپرسنل لاء میں جتنی بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ سب کے سب مسلم پرسنل لاء سے مستعار ہیں۔مسلم پرسنل لاء کو شاید مطعون ہی اسلئے کیا جاتا ہے کہ عوام کہیں ہندو کوڈ کی حقیقت کو نہ سمجھ لیں۔یہ تو تھی مسلم پرسنل لاء اور نظام معیشت کی باتیں،اب اسلام کے نظام انصاف کی بھی کچھ سن لیں۔
۲۰۰۸ میں انگلینڈ کے چیف لارڈ جسٹس فلپس نے کہا تھاکہ شریعت کورٹس کو بھی انگلینڈ کے نظام انصاف میں جگہ دی جانی چاہئے اور انھیں ازدواجی اور اقتصادی مسائل کے حل کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے۔لارڈ فلپس کے بیان پر جو غبار اٹھا وہ ابھی بیٹھنے بھی نہ پایا تھاکہ بالکل ایسا ہی بیان Archbishop of Canturburry جنابRowan Williamsنے بھی دے دیا۔انھوں نے بھی قانون شریعت کے کچھ حصوں کو لاگو کرنے کی بات کہی۔اس پر جو ہنگامہ مچا ہے اس نے انگلینڈکے معاشرے کو ایک بحث میں مبتلا کر دیا۔مگر انگلینڈ کی پارلیمنٹ نے تمام ہنگاموں کے علی ا لرغم خاموشی سے شریعت کورٹس کو قانونی حیثیت دیدی۔اب حال یہ ہے کہ ان شرعی عدالتوں سے مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔غیر مسلم بھی اپنے قضیے انہیں عؑ دالتوں سے فیصل کرا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ نظام اسلامی کے کچھ حصوں کو اپنا کرچند ٹکڑوں میں عوامی فلاح و بہبود کشیدکرنے کا فائدہ کیا ہے؟کیوں نہ پورے نظام کو اپنا کر پوراپورا فائدہ حاصل کرنے کا تجربہ کیا جائے۔ہم تو یہ چاہتے ہیں کے نظام اسلامی کا دعویٰ کرنے والوں کو بھی ۵
سال موقع دیکر دیکھا جائے۔ہندتو اور کمیونزم کی طرح انہےٰں بھی اپنی بات پیش کرنے کا اپنی کارکردگی دکھانے کا پورا پورا موقع دیاجائے ۔

ممتاز میر

0 comments:

عورت اسلام کی نظر میں

اسلام دین فطرت ہے ۔اس کے تمام قوانین انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے بنائے گئے ہیں ۔اسلام گھر کو سماج کی اکائی قرار دیتا ہے جس کی بنیاد پر معاشرہ پروان چڑھتا ہے اور اسی گھر کے بنیادی ستون شوہر و بیوی ہوتے ہیں ،اور انہی پر سماج کے بناؤ و بگاڑ کا انحصار ہوتا ہے ۔ظاہر ہے کہ جب گھر ٹوٹے گے تو معاشرہ بھی ٹوٹے گا۔اسی لیے معاشرے میں عورت کی حیثیت و اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب اسلام نے عورت کو ایسا با عزت و بلند مقام عطا کیا جس کی مثال دوسرے کسی مذاہب میں نہیں ملتی۔رسول ﷺ کی بعثت سے پہلے عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی ۔اسے مصائب و برائی کی جڑ سمجھا جا تا تھا۔کہیں اسے فروخت و خریدا جاتا تو کہیں زندہ درگور کیا جاتا اور کہیں اسے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ۔غرض عورت کا مقام جانور سے بھی بد تر تھا۔
اللہ کی رحمت جو ش میں آئی اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو معبوث فرمایا تاکہ جہالت کے اندھروں کو مٹا کر حق کی روشنی کو پھیلایا جائے جہاں ظلم و ستم کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے ۔معاشرہ میں عورت و مرد سب کے لیے یکساں حقوق ہوں۔اللہ فرماتا ہے ولھنَّ یثلُ الذی علیھن بالمعروف ( البقرہ
۲۲۸)۔اور ان عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر وہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر۔
سچ بات یہ ہے کہ اسلام پوری انسانیت کی فکر کرتا ہے اس لیے قرآن نے عورتوں کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ جہاں مردوں سے مخاطب ہوا وہاں عورتوں کو بھی خطاب کیا ہے جیسے اللہ کا ارشاد ہے کہ ’اور مومن مرد اورمومن عورتیں ایکدوسرے کے دوست ہیں اور اچھے کام کرنے کو کہتے اور بُری باتوں سے منع کر تے ہیں،نماز پڑھتے ہیں ،ذکوٰت دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ،یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا بے شک اللہ غالب اور حکمت والاہے(توبہ
۷۱
)
اسلام نے عورت کو تعلیم کا حق دیا ۔درس و تدریس ،تقریر و تحریر کی آزادی دی ۔اپنی پسند کی شادی کی اجازت دی ،نباہ نہ ہونے کی صورت میں خلع کا اختیار دیا ۔بیوہ کی دوسری شادی کی اجا زت دی اور اس کام کو اچھا کام کہا۔وِراثت ،مال و جائداد کے حقوق دئے ۔اسلامی حدود میں رہ کر بوقت ضرورت معاشی جدوجہد کی آزادی بھی عنایت کی گئی۔حتیٰ کہ جہاد میں شرکت سے بھی نہیں روکا ۔لہٰذہ جہاد میں زخمیوں کی تیمار داری کی مثالیں اسلامی تاریخ میں ملتی ہیں اس طرح جہاد میں شرکت کر کہ اپنے ثواب و مرتبہ کو بلندکر سکتی ہیں۔ساتھ ہی عورت کی عظمت کو اسلام نے ماں کے روپ میں ایک عظیم مقام عطا کیا۔لہٰذہ رسول ﷺ کا ارشا د ہے کہ ’ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے‘۔
ایک عورت کے لیے اس سے بڑھ کر کیا اعزاز ہوگا ۔اسی طرح ایک اور ارشاد ہے کہ بیٹی یا بہن کی اچھی پرورش اور اچھی جگہ نکاح کیا تو اس پر جنت کی بشارت دی گئی۔نیک سیرت بیوی کو دنیا کی بہترین متاع کہاگیا۔بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے سلسلے میں آپ ﷺ نے فرمایا ’ مومنوں میں مکمل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں اور تم میں سب سے اچھا وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو۔(ترمذی)
مگر افسوس! صد افسوس آج عورت ہی نے اپنے اس مقام کو بھُلا کر مغربی تہذیب کی دمک چمک کو اختیار کرنا اپنا مقام بنا لیا ہے۔آزادی کے نام پر وہ ایک چیز (پروڈکٹ ) بن کر رہ گئی ہے۔کہیں ہوٹلوں ،کلبوں دفتروں کی زینت ہے تو کہیں چلتا پھرتا اشتہار ہے تو کہیں مردوں کی ہوس کا شکار ہورہی ہے اور کہیں ضرورت سے زیادہ کام کا بوجھ اُٹھانے پر راضی ہے ۔ان مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں ہے ۔کیونکہ کوئی بھی ان باتوں کو مسئلہ نہیں سمجھ رہا ہے بلکہ عین ترقی سمجھ رہا ہے۔عورت پر اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے وہ بیک وقت ماں بننے کے فطری عمل سے گزر رہی ہے تو دوسری طرف دولت کی چاہ میں بازاروں میں اپنی خدمات فراہم کر رہی ہیں ۔اگر کوئی بہن انہیں مسائل سمجھ رہی ہے اور وہ ان سے چھُٹکارہ پانا چاہتی ہے تو اسے ایک ہی راہ ہے اور وہ راہ ہے اسلام کی۔خواتین عہد کرے ہم قرآن و سنت سے اپنا تعلق مضبوط کریں اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی گزارے اور اسلامی سماج کے قیام کے لیے جدوجہد کے۔تاکہ دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی کی سعادت حاصل ہو۔

عرشیہ شکیل

0 comments:

مسلمانوں کو وعدوں سے بہلانے والوں کی خیر نہیں۔

مسلمانوں میں اب بیداری آرہی ہے اور اب وہ ہر میدان مین اپنی مو جودگی درج کروا رہے ہیں۔پچھلے بیس سالوں میں اور اب کے حالات میں بہت ساری تبدیلیاں آئی ہیں ۔وہ تعلیمی میدان میں بھی رفتار پکڑ رہا ہے ساتھ ہی اس کا سیاسی شعور بھی کافی حد تک بیدار ہو چکا ہے۔اس کا ثبوت جہاں حال میں ہونے والے کچھ انتخابی نتائج ہیں وہیں ممبئی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں ای ٹی وی اردو کی جانب سے’’ مسلم اقلیت کے مسائل ‘‘ کو جاننے کے لئے منعقدہ یک روزہ سیمینار میں اس وقت دیکھنے کو ملا جب سیاسی بازیگروں کے مگر مچھی آنسوؤں پر سیمینار میں موجود سامعین جو سبھی مسلمان تھے ناراض ہو گئے اور انہوں نے کھل کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔اس ناراضگی کی شروعات تعلیمی میدان کے ایک مشہور کارکن پی اے انعامدار کی تقریر کے دوران ہوا جب انہوں نے مسلمانوں کی تعلیم سمیت سبھی طرح کی پسماندگی کے لئے مسلمانوں کو ہی مطعون کرنا اور حکومت اور جملہ انتظامیہ کی قصیدہ خوانی شروع کی انہوں نے بھی مولانا وستانوی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فرمایا کہ مسلمانوں کا راستہ کسی نے نہیں روک رکھا ہے یہاں سبھی کو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع حکومت کی جانب سے فراہم ہیں۔اس پرسامعین نے سخت اعتراض کیا اور اس قدر ہوٹنگ کی گئی کہ بالآخر انہیں اپنی تقریر بیچ میں ہی منقطع کرنا پڑی۔اس کے بعد کرپا شنکر نے یہ سمجھ کر مالیگاؤں اور ملک کے طول و ارض میں مسلمانوں پر ہورہے ظلم و ستم پر جب افسوس کا اظہار کیا کہ اس سے مسلمان خوش ہو کر تالیاں پیٹیں گے، تو انہیں بھی سخت سوالات اور شور وغل کا سامنا کرنا پڑا سامعین میں سے کئی لوگوں نے سوال اٹھائے اور سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کا اظہار کرنے کے بجائے کام کریں۔اسکے بعد سلمان خورشید کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا ،اس سے سبق لیتے ہوئے پرتھوی راج چوہان وزیر اعلیٰ مہاراشٹر نے کافی سنبھل کر اپنی باتیں پیش کیں اور مسلمانوں پر ہونے والی زیادتی پر افسوس کا نہ صرف یہ کہ اظہار کیا بلکہ اس کے لئے حکومت کی طرف سے ہونے والی کوتاہیوں کو قبول کیا اور انصاف کا یقین دلایا۔
ای ٹی وی اردوکی جانب سے منعقدہ پروگرام ’’مسلم اقلیت کے مسائل‘‘ ۔کو اگر کہا جائے کہ یہ انکا اپنا ایک ایجنڈا ہے اور وہ ہے پبلسٹی اسٹنٹ تو غلط نہیں ہوگا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ای ٹی وی کئی سالوں سے اپنی اردو سروس چلارہی ہے، جب سے اسکی انتظامیہ کو اسکا خیال نہیں آیا ۔وجہ یہ ہے کہ اس وقت اس کا کسی سے مسابقہ نہیں تھا ۔لیکن ابھی حال میں دو اردو ٹی وی چینل شروع ہوئے ہیں پہلے سہارا گروپ کا ’’عالمی سہارا‘‘اور ابھی ۲۶؍جنوری سے حیدرآباد کے کثیر الاشاعت اردو اخبار ’منصف‘ نے اپنی نشریات کا آغاز کیا ہے۔ یعنی اس کے دو اور حریف اس میدان میں آگئے۔ ایسی حالت میں ای ٹی وی کو اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لئے ایک نایاب تدبیر کہ مسلمانوں کے مسائل جاننے کی کوشش میں مسلمانوں کے درمیان اپنی بہتر ساکھ کے لئے اور کیا بہتر طریقہ کار ہو سکتا تھا۔بہر حال اسکے باوجود انکا یہ قدم مستحسن ہی کہا جائیگا کہ اپنی ٹی آر پی کے لئے بھی منفی کے بجائے مثبت طریقہ کار اپنایا اسے آپ اردو زبان کی جادوگری بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں منفی پیلوؤں کی گنجائش انتہائی محدود ہے۔
ای ٹی وی کے اس سیمینار سے ہمارے لیڈران کو تو یہ پیغام مل ہی گیا ہوگا کہ اب مسلم اقلیت کافی حد تک باشعور ہو گئی ہے اور اسے صرف وعدوں سے بہلایا نہیں جاسکتا اگر یہ بے ضمیر اب بھی نہیں جاگے اور انہوں نے اپنی موجودہ روش برقرار رکھی تو آگے اس سے بھی برے حالات کا انہیں سامنا کرنا پڑیگا اس کے لئے انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ برے حالات کیا ہونگے؟ عراق کے صحافی منتظر الزیدی کا واقعہ ابھی لوگ بھولے نہیں ہونگے اس کے بعد تو اس جوتے کا سفر نامہ کافی لمبا ہے کئی ملک اور اسکے سربراہان اس کے زد میں آئے ۔میں جان بوجھ کر مصر تیونس اور حالیہ کئی عرب ملکوں کی عوامی بغاوت کا ذکر نہیں کر رہا ہوں کیوں کہ یہ تو عوامی صبر وضبط کے انتہا کے بعد کا آتش فشاں تھا جس نے جابروں کی چولیں ہلادی ہیں اورعرب ملکوں کی دو حکومتوں کے جابر اس میں بہہ گئے۔یہ ہندوستان سمیت ساری دنیا کے لئے ایک واضح اشارہ ہے۔جسے ہم اردو والے نوشتہ دیوار سمجھتے ہیں ۔اگر بے ضمیر ظالم و جابر بھی ایسا ہی سمجھ

لیں تو ذلت آمیز حالات کا سامنا کرنے سے محفوظ رہیں گے۔
عام طور پر مسلمانوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ روادار نہیں ہیں وہ برداشت کی قوت کھو چکے ہیں ،یہ الزام گنتی کے چند لوگوں پر تو صادق آسکتا ہے لیکن پوری امت مسلمہ پر اس قسم کا غلیظ الزام بے بنیاد اور انصاف کے منافی ہے۔یہ اسی ذہنیت کی دلیل ہے جو کئی صدیوں سے پوری دنیا میں حاوی ہے۔مسلمانوں کے برداشت کرنے کی قوت کا دنیا کی کوئی دوسری قوم مقابلہ نہیں کرسکتی کوئی پچھلی ایک صدی کی تاریخ کا مطالعہ کرے تو اسے اندازہ ہوگاکہ پوری امت ظلم و استحصال کا شکار ہونے کے باوجوداس نے امن وامان بنائے رکھا اور دنیا کے ہر اس فورم تک گئے جہاں سے انہیں انصاف کی امید تھی لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ ’’اے بسا آرزو خاک شد‘‘انہیں ناامیدی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا ۔اس صورت حال کو آپ بین الاقوامی سطح سے ملکی سطح تک دیکھ لیں سب جگہ ہمدردی اور وعدوں کے علاوہ کیا مسلمانوں کو کچھ ملا۔اس ملک میں کانگریس کی ہی حکومت رہی لیکن اسکے وزیر مسلمانوں پر ہورہے ظلم و ستم پر افسوس کا اظہار کرینگے اور بقول سید شاہنواز حسین کے لفظی احسانوں کا بوجھ ہی ڈالیں گے تو کیا مسلمان انکی باتیں با ادب اور بغور سنتے اور تالیاں بجاتے رہیں ۔انہیں سننے سے منع کرنے یا ان سے کام کا حساب مانگنے کا حق نہیں ہے ؟ شکر منائیں کہ اس جمہوریت کا فائدہ عوام کو بھلے ہی نہ ہو رہا ہو لیکن آج یہ ضمیر فروش صرف جمہوریت کی کرامات کی وجہ سے محفوظ ہیں ورنہ مصر اور تیونس کی طرح انہیں بھی بھاگنا ہوتا۔
مسلمانوں میں عدم برداشت اس وقت آیا جب وہ مایوس ہوگئے، اور جب انہوں نے اپنی تحریکات شروع کیں اور ملک سمیت پوری دنیا میں ظالم طاقتوں کو انکی طرف سے سخت مزاہمت کا سامنا کرنا پڑا تو انہیں عدم برداشت،دہشت گرد ،بنیاد پرست اور شدت پسند کہا جانے لگا۔ایسا ہی کچھ ای ٹی وی کے پروگرام میں بھی مزاہمت سے گھبراکر کچھ لوگوں نے کہا جس پر وہیں پر موجود مقررین میں سے ایک سے زیادہ لوگوں نے اسکا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی قوت برداشت کا اس سے بہتر اور کیا ثبوت چاہےئے کہ اس سیمینار کی صدارت بھاجپا کے راج ناتھ سنگھ کررہے ہیں اور مسلمان پورے نظم و ضبط کے ساتھ سن رہے ہیں۔

0 comments: