عورت اسلام کی نظر میں

7:40 PM nehal sagheer 0 Comments

اسلام دین فطرت ہے ۔اس کے تمام قوانین انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے بنائے گئے ہیں ۔اسلام گھر کو سماج کی اکائی قرار دیتا ہے جس کی بنیاد پر معاشرہ پروان چڑھتا ہے اور اسی گھر کے بنیادی ستون شوہر و بیوی ہوتے ہیں ،اور انہی پر سماج کے بناؤ و بگاڑ کا انحصار ہوتا ہے ۔ظاہر ہے کہ جب گھر ٹوٹے گے تو معاشرہ بھی ٹوٹے گا۔اسی لیے معاشرے میں عورت کی حیثیت و اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب اسلام نے عورت کو ایسا با عزت و بلند مقام عطا کیا جس کی مثال دوسرے کسی مذاہب میں نہیں ملتی۔رسول ﷺ کی بعثت سے پہلے عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی ۔اسے مصائب و برائی کی جڑ سمجھا جا تا تھا۔کہیں اسے فروخت و خریدا جاتا تو کہیں زندہ درگور کیا جاتا اور کہیں اسے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ۔غرض عورت کا مقام جانور سے بھی بد تر تھا۔
اللہ کی رحمت جو ش میں آئی اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو معبوث فرمایا تاکہ جہالت کے اندھروں کو مٹا کر حق کی روشنی کو پھیلایا جائے جہاں ظلم و ستم کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے ۔معاشرہ میں عورت و مرد سب کے لیے یکساں حقوق ہوں۔اللہ فرماتا ہے ولھنَّ یثلُ الذی علیھن بالمعروف ( البقرہ
۲۲۸)۔اور ان عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر وہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر۔
سچ بات یہ ہے کہ اسلام پوری انسانیت کی فکر کرتا ہے اس لیے قرآن نے عورتوں کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ جہاں مردوں سے مخاطب ہوا وہاں عورتوں کو بھی خطاب کیا ہے جیسے اللہ کا ارشاد ہے کہ ’اور مومن مرد اورمومن عورتیں ایکدوسرے کے دوست ہیں اور اچھے کام کرنے کو کہتے اور بُری باتوں سے منع کر تے ہیں،نماز پڑھتے ہیں ،ذکوٰت دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ،یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا بے شک اللہ غالب اور حکمت والاہے(توبہ
۷۱
)
اسلام نے عورت کو تعلیم کا حق دیا ۔درس و تدریس ،تقریر و تحریر کی آزادی دی ۔اپنی پسند کی شادی کی اجازت دی ،نباہ نہ ہونے کی صورت میں خلع کا اختیار دیا ۔بیوہ کی دوسری شادی کی اجا زت دی اور اس کام کو اچھا کام کہا۔وِراثت ،مال و جائداد کے حقوق دئے ۔اسلامی حدود میں رہ کر بوقت ضرورت معاشی جدوجہد کی آزادی بھی عنایت کی گئی۔حتیٰ کہ جہاد میں شرکت سے بھی نہیں روکا ۔لہٰذہ جہاد میں زخمیوں کی تیمار داری کی مثالیں اسلامی تاریخ میں ملتی ہیں اس طرح جہاد میں شرکت کر کہ اپنے ثواب و مرتبہ کو بلندکر سکتی ہیں۔ساتھ ہی عورت کی عظمت کو اسلام نے ماں کے روپ میں ایک عظیم مقام عطا کیا۔لہٰذہ رسول ﷺ کا ارشا د ہے کہ ’ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے‘۔
ایک عورت کے لیے اس سے بڑھ کر کیا اعزاز ہوگا ۔اسی طرح ایک اور ارشاد ہے کہ بیٹی یا بہن کی اچھی پرورش اور اچھی جگہ نکاح کیا تو اس پر جنت کی بشارت دی گئی۔نیک سیرت بیوی کو دنیا کی بہترین متاع کہاگیا۔بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے سلسلے میں آپ ﷺ نے فرمایا ’ مومنوں میں مکمل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں اور تم میں سب سے اچھا وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو۔(ترمذی)
مگر افسوس! صد افسوس آج عورت ہی نے اپنے اس مقام کو بھُلا کر مغربی تہذیب کی دمک چمک کو اختیار کرنا اپنا مقام بنا لیا ہے۔آزادی کے نام پر وہ ایک چیز (پروڈکٹ ) بن کر رہ گئی ہے۔کہیں ہوٹلوں ،کلبوں دفتروں کی زینت ہے تو کہیں چلتا پھرتا اشتہار ہے تو کہیں مردوں کی ہوس کا شکار ہورہی ہے اور کہیں ضرورت سے زیادہ کام کا بوجھ اُٹھانے پر راضی ہے ۔ان مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں ہے ۔کیونکہ کوئی بھی ان باتوں کو مسئلہ نہیں سمجھ رہا ہے بلکہ عین ترقی سمجھ رہا ہے۔عورت پر اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے وہ بیک وقت ماں بننے کے فطری عمل سے گزر رہی ہے تو دوسری طرف دولت کی چاہ میں بازاروں میں اپنی خدمات فراہم کر رہی ہیں ۔اگر کوئی بہن انہیں مسائل سمجھ رہی ہے اور وہ ان سے چھُٹکارہ پانا چاہتی ہے تو اسے ایک ہی راہ ہے اور وہ راہ ہے اسلام کی۔خواتین عہد کرے ہم قرآن و سنت سے اپنا تعلق مضبوط کریں اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی گزارے اور اسلامی سماج کے قیام کے لیے جدوجہد کے۔تاکہ دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی کی سعادت حاصل ہو۔

عرشیہ شکیل

0 comments: