اسلام کو بھی موقع دیجئے

7:40 PM nehal sagheer 0 Comments

وہ پوری نسل جس نے غلامی کو غروب ہوتے اور آزادی کو طلوع ہوتے با ہوش و حواس دیکھا تھا وہ آزادی کی آغوش میں چند سال گذارنے کے بعد ہی آزادی کے تعلق سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گئی تھی ۔اور چند دہائیوں کے بعد تو وہ آزادی کو، کالے حکمرانوں کو بآواز بلند کوسنے اور گالیاں دینے لگ گئے تھے ۔عجیب بات ہے کہ گورے حکمرانوں کو تو اپنی کالی رعایا کے دکھ درد کی کچھ نہ کچھ فکر تھی ۔وہ یقیناً غلام ممالک کے وسائل کو لوٹنے یہاں آئے تھے مگر کوشش کرتے تھے کہ رعایا کے آنسو آنکھوں میں رکے رہیں۔کیوں ؟کیوں کہ انھیں ڈر تھا کہ عوام بغاوت پر آمادہ ہو گئی تو انھیں بھاگنا پڑیگا۔جبکہ دیسی حکمرانوں کو ایسا کوئی ڈر نہیں۔عوام انھیں ووٹ نہ دیگی تو جائیگی کہاں؟حالانکہ آزادی کے بعد مملکت ہند کو بطور ویلفیئر اسٹیٹ وجود میں لایا گیا ہے ۔۔مگر کیا ہماری کوئی حکومت اب تک فلاحی مملکت کا نمونہ بن سکی ہے۔ آج تو یہ صرف چند فی صد لوگوں کی فلاح کی ذمہ دار ہے باقی لوگوں کو ان چند لوگوں کی فلاح کی خاطر عملاًبھوکا مارا جا رہا ہے ۔ایسا نہ ہوتا تو اشیاء خوردنی یوں مہنگی نہ ہوتی ۔مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے ۔کھانے پینے کی چیزیں ہر نئے سورج کے ساتھ غریبوں کے ہاتھوں سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔اور حکومت۔۔۔حکومت صرف غریبوں کے غصے کو ٹھنڈا رکھنے کا کام کر رہی ہے ۔چلئے !یہ بھی کیا غلط کر رہی ہے ورنہ وطن عزیز اگر تیونس یا مصر بن گیا تو دیش واسیوں کو کتنی تکلیف ہوگی ؟ کتنا خون خرابہ ہوگا؟کھانے کی چیزوں کا کیا ہے بازار میں نہ سہی گھورے پر تو مل جاتی ہیں ۔اور یہ چند لوگوں کی ترقی نے ،امبانی اور ٹاٹا و برلا کی فلاح و بہبود نے بین الاقوامی سطح پر دیش کے نام کو جو چار چاند لگا رکھے ہیں وہ بھی تو دیکھا جانا چاہیے ۔
آج ملک کی جو حالت ہے وہ اس کے باوجود ہے کہ ملک کو ہمارے سیاستداں ویلفیئر اسٹیٹ کہتے ہیں۔یہ نتائج ہیں۶۳ سالہ سیکولر جمہوریت کے ۔ہم بلا خوف تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تجربہ تو ناکام ہو چکا ہے ۔یہ صرف ہم کہہ رہے ہیں ایسا نہیں ہے بلکہ ملک کی ایک بڑی اکثریت یہ کہہ رہی ہے اور سمجھ بھی رہی ہے ۔خود حکمرانوں کا ہر ہر قدم عوام سے یہی کہتا ہے کہ موجودہ طرز حکومت ناکام ہو چکا ہے ۔ورنہ لاکھوں لاکھ کروڑ کے گھپلے ہوتے اور حکومت بے بس تماشائی نہ ہوتی۔ابھی چند دنوں پہلے کسی رسالے میں پڑھنے کو ملا کہ ۲۸۰ لاکھ کروڑ روپیہ ہندوستانیوں کا ملک سے باہر بینکوں میں جمع ہے ۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ کالا دھن اور گھپلوں کا پیسہ ملک کے خزانے میں جمع ہوتا تو ہمارے ماہانہ اخراجات صرف ایک تہائی رہ جاتے ۔یعنی اگر کسی کا ماہانہ گھر خرچ ۹ ہزار روپیہ ہے تو وہ صرف ۳ہزار ہوتا۔مگر ہمارے چور حکمرانوں نے چوریاں کر کر کے ہمیں مہنگائی کے سمندر میں غرق کر رکھا ہے ۔ہمارے ماہر معاشیات وزیر اعظم یہ بات ہم سے بہتر جانتے اور سمجھتے ہیں۔مگر مخلوط حکومت کو قائم رکھنے پر مجبور ہیں۔ہائے رے یہ مجبوری۔اور سیکولر جمہوریت ایسی ہی مجبوریوں کا نام ہے۔
اب ۲۰۰۸ سے یہ بات سننے کو مل رہی ہے کہ ہندتو والے بھی اس ملک کی حکومت کے امید وار ہیں۔اور ان کی یہ کوششیں کوئی نئی نہیں ہیں
وہ تو روز اول سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں ملک کی تقسیم کے پیچھے بھی یہی ذہنیت تھی۔ مگر اب وہ تیر و تلوار سے لیس کھل کر سامنے آرہے ہیں اور چونکہ حکومت نے ہندتو کے داعی حکومت کے امیدوار ہونے کی بنیاد پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ہندتو کو بھی بطور ایک طرز حکومت مانیتا دیدی گئی ہے ۔اس کے باوجود کے ہندتو والوں نے حکومت ملنے سے پہلے ہی یہ بتا دیا ہے کہ وہ حکومت ملنے کے بعد کیا کریں گے۔۔بابری مسجد کی شہادت ،گراہم اسٹینس کا قتل،گرجوں پر حملے ،دلتوں پر ظلم یہ خاص نشانیاں ہیں جو ہندتو حکومت کی روپ ریکھائیں سنوارتی ہیں۔اور ہماری سیکولر جمہوری حکو مت موقع ملنے پر اس طرز حکومت کو برداشت بھی کرنے کو تیار ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہندتو وادیوں میں سیمی والوں کی طرح اب تک بھگدڑ مچ جانا چاہیئے تھا۔۔مگر ۲۰۰۸ میں ثبوت ملنے کے بعد سے اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔وہ صرف ان الزامات کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کا تعلق دہشت گردی یا بم دھماکوں سے ہے ۔نظام ہندتو بزور بازو قائم کرنے کا ذکر کہیں نہیں ہے۔تو کیا ہماری حکومت کوئی نظام پر امن نہیں بزریعہء تشدد قائم کرنے کی اجازت دیتی ہے؟پھر نیپال کے ماوؤادیوں سے نفرت کیوں؟ارے۔۔۔نیپال کے ماوؤادی بھی تو ہندو ہی ہیں۔یہ ہمارا دوغلہ پن ہی ہے جس کی وجہ سے ماوؤادی ہوں کے کانگریسی بحیثیت مجموعی نیپالی ہم پر اعتبار نہیں کرتے۔حالانکہ ہم ان کی پرجا کو تعلیم و روزگار فراہم کرتے ہیں۔
اب آئیے کچھ نظر کمیونزم پر بھی ڈال لیں۔ہمارے یہاں کمیونزم کو بھی بطور ایک نظام حیات تسلیم کیا گیا ہے بلکہ ابتدائی وزرائے اعظم تو اسکی زلف گرہ گیر کے اسیر بھی رہ چکے ہیں۔ہر چند کے کمیونزم کو مرحوم ہوئے دو دہائیاں گزر چکی ہیں مگر ہمارے ہندوستانی کمیونسٹ آج بھی اس سے دست بردارہونے کو تیار نہیں ۔اور ان میں بھی مسلمانوں کا حال تو بہت ہی خراب ہے وہ سمجھتے ہیں کہ کمیونزم سے بھی طلاق لے لیں تو پھر جائیں کہاں؟کہیں دھوبی کے کتے نہ بن جائیں۔اور کمیونزم کی حالت تو سچ مچ ایسی ہی ہو چکی ہے ۔اب دنیا میں جو بھی کمیونسٹ باقی بچے ہیں وہ نام تو کمیونزم کا لیتے ہیں مگر کام سرمایہ داری کا کرتے ہیں۔اور انکے پاس جو بہاریں ہیں وہ سرمایہ داری کے دم سے ہے۔ مگر خود سرمایہ داری کا کیا حال ہے۔سرمایہ داری کے سرخیل امریکہ کے کیا حال ہیں۔پچھلے چند سالوں سے دنیا اسے چشم سر سے ڈوبتا دیکھ رہی ہے۔پوری سرمایہ دار دنیا امریکی جہاز کو بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے ۔اور یہ سب دیکھنے کے باوجود ہم بھی سرمایہ دارانہ نظام کے اسیر ہیں۔یہ اسی کے نتائج تو ہیں ہر روز لاکھوں کروڑ کے گھپلے سامنے آتے ہیں سونے پہ سہاگہ ہم لکشمی دیوی کے پجاری بھی تو ہیں۔بیرونی ملکوں میں جمع شدہ رقوم کے ہولناک اعداد و شمار پڑھنے کو ملتے ہیں مگر ہم بحیثیت قوم کچھ بھی ہوں ہم ان خوفناک اعداد وشمار کے عاشق ہو چکے ہیں فاقہ مستی میں یہ فخر کیا کم ہے کہ ہم بھی اتنی بڑی بڑی رقوم کے مالک ہیں۔
کچھ بھی ہو ہمارے لئے تو یہ بات باعث خوشی ہے کہ کمیونزم اور سرمایہ داری کے زوال سے یہ خیر برآمد ہوئی ہے کہ اب دنیا کی نیک نفوس نظام اسلامی کے بارے میں بھی سوچ رہی ہیں غیر ارادی ہی سہی ان کے منہ سے اسلامک بینکنگ یا بلا سودی نظام کی باتیں نکل رہی ہیں کچھ عرصے بعد یقین ہے کہ یہ پورے اسلامی نظام معیشت کو اپنائیں گے پھر یہ بھی یقیناً ہوگا کہ پورے نظام شریعت پر بات جاکے رکے گی ۔ خیر فی ا لوقت تو یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ کیرالہ ہائی کورٹ نے اسلامک بینکنگ کی اجازت دیدی ہے۔بحیثیت ملک بھی بلا سودی نظام پر غور کیا جا رہا ہے۔اور بات اتنی ہی نہیں ہے۔آزادی کے بعد سے ہندوپرسنل لاء میں جتنی بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ سب کے سب مسلم پرسنل لاء سے مستعار ہیں۔مسلم پرسنل لاء کو شاید مطعون ہی اسلئے کیا جاتا ہے کہ عوام کہیں ہندو کوڈ کی حقیقت کو نہ سمجھ لیں۔یہ تو تھی مسلم پرسنل لاء اور نظام معیشت کی باتیں،اب اسلام کے نظام انصاف کی بھی کچھ سن لیں۔
۲۰۰۸ میں انگلینڈ کے چیف لارڈ جسٹس فلپس نے کہا تھاکہ شریعت کورٹس کو بھی انگلینڈ کے نظام انصاف میں جگہ دی جانی چاہئے اور انھیں ازدواجی اور اقتصادی مسائل کے حل کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے۔لارڈ فلپس کے بیان پر جو غبار اٹھا وہ ابھی بیٹھنے بھی نہ پایا تھاکہ بالکل ایسا ہی بیان Archbishop of Canturburry جنابRowan Williamsنے بھی دے دیا۔انھوں نے بھی قانون شریعت کے کچھ حصوں کو لاگو کرنے کی بات کہی۔اس پر جو ہنگامہ مچا ہے اس نے انگلینڈکے معاشرے کو ایک بحث میں مبتلا کر دیا۔مگر انگلینڈ کی پارلیمنٹ نے تمام ہنگاموں کے علی ا لرغم خاموشی سے شریعت کورٹس کو قانونی حیثیت دیدی۔اب حال یہ ہے کہ ان شرعی عدالتوں سے مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔غیر مسلم بھی اپنے قضیے انہیں عؑ دالتوں سے فیصل کرا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ نظام اسلامی کے کچھ حصوں کو اپنا کرچند ٹکڑوں میں عوامی فلاح و بہبود کشیدکرنے کا فائدہ کیا ہے؟کیوں نہ پورے نظام کو اپنا کر پوراپورا فائدہ حاصل کرنے کا تجربہ کیا جائے۔ہم تو یہ چاہتے ہیں کے نظام اسلامی کا دعویٰ کرنے والوں کو بھی ۵
سال موقع دیکر دیکھا جائے۔ہندتو اور کمیونزم کی طرح انہےٰں بھی اپنی بات پیش کرنے کا اپنی کارکردگی دکھانے کا پورا پورا موقع دیاجائے ۔

ممتاز میر

0 comments: