مسلمانوں کو وعدوں سے بہلانے والوں کی خیر نہیں۔

6:56 PM nehal sagheer 0 Comments

مسلمانوں میں اب بیداری آرہی ہے اور اب وہ ہر میدان مین اپنی مو جودگی درج کروا رہے ہیں۔پچھلے بیس سالوں میں اور اب کے حالات میں بہت ساری تبدیلیاں آئی ہیں ۔وہ تعلیمی میدان میں بھی رفتار پکڑ رہا ہے ساتھ ہی اس کا سیاسی شعور بھی کافی حد تک بیدار ہو چکا ہے۔اس کا ثبوت جہاں حال میں ہونے والے کچھ انتخابی نتائج ہیں وہیں ممبئی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں ای ٹی وی اردو کی جانب سے’’ مسلم اقلیت کے مسائل ‘‘ کو جاننے کے لئے منعقدہ یک روزہ سیمینار میں اس وقت دیکھنے کو ملا جب سیاسی بازیگروں کے مگر مچھی آنسوؤں پر سیمینار میں موجود سامعین جو سبھی مسلمان تھے ناراض ہو گئے اور انہوں نے کھل کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔اس ناراضگی کی شروعات تعلیمی میدان کے ایک مشہور کارکن پی اے انعامدار کی تقریر کے دوران ہوا جب انہوں نے مسلمانوں کی تعلیم سمیت سبھی طرح کی پسماندگی کے لئے مسلمانوں کو ہی مطعون کرنا اور حکومت اور جملہ انتظامیہ کی قصیدہ خوانی شروع کی انہوں نے بھی مولانا وستانوی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فرمایا کہ مسلمانوں کا راستہ کسی نے نہیں روک رکھا ہے یہاں سبھی کو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع حکومت کی جانب سے فراہم ہیں۔اس پرسامعین نے سخت اعتراض کیا اور اس قدر ہوٹنگ کی گئی کہ بالآخر انہیں اپنی تقریر بیچ میں ہی منقطع کرنا پڑی۔اس کے بعد کرپا شنکر نے یہ سمجھ کر مالیگاؤں اور ملک کے طول و ارض میں مسلمانوں پر ہورہے ظلم و ستم پر جب افسوس کا اظہار کیا کہ اس سے مسلمان خوش ہو کر تالیاں پیٹیں گے، تو انہیں بھی سخت سوالات اور شور وغل کا سامنا کرنا پڑا سامعین میں سے کئی لوگوں نے سوال اٹھائے اور سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کا اظہار کرنے کے بجائے کام کریں۔اسکے بعد سلمان خورشید کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا ،اس سے سبق لیتے ہوئے پرتھوی راج چوہان وزیر اعلیٰ مہاراشٹر نے کافی سنبھل کر اپنی باتیں پیش کیں اور مسلمانوں پر ہونے والی زیادتی پر افسوس کا نہ صرف یہ کہ اظہار کیا بلکہ اس کے لئے حکومت کی طرف سے ہونے والی کوتاہیوں کو قبول کیا اور انصاف کا یقین دلایا۔
ای ٹی وی اردوکی جانب سے منعقدہ پروگرام ’’مسلم اقلیت کے مسائل‘‘ ۔کو اگر کہا جائے کہ یہ انکا اپنا ایک ایجنڈا ہے اور وہ ہے پبلسٹی اسٹنٹ تو غلط نہیں ہوگا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ای ٹی وی کئی سالوں سے اپنی اردو سروس چلارہی ہے، جب سے اسکی انتظامیہ کو اسکا خیال نہیں آیا ۔وجہ یہ ہے کہ اس وقت اس کا کسی سے مسابقہ نہیں تھا ۔لیکن ابھی حال میں دو اردو ٹی وی چینل شروع ہوئے ہیں پہلے سہارا گروپ کا ’’عالمی سہارا‘‘اور ابھی ۲۶؍جنوری سے حیدرآباد کے کثیر الاشاعت اردو اخبار ’منصف‘ نے اپنی نشریات کا آغاز کیا ہے۔ یعنی اس کے دو اور حریف اس میدان میں آگئے۔ ایسی حالت میں ای ٹی وی کو اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لئے ایک نایاب تدبیر کہ مسلمانوں کے مسائل جاننے کی کوشش میں مسلمانوں کے درمیان اپنی بہتر ساکھ کے لئے اور کیا بہتر طریقہ کار ہو سکتا تھا۔بہر حال اسکے باوجود انکا یہ قدم مستحسن ہی کہا جائیگا کہ اپنی ٹی آر پی کے لئے بھی منفی کے بجائے مثبت طریقہ کار اپنایا اسے آپ اردو زبان کی جادوگری بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس میں منفی پیلوؤں کی گنجائش انتہائی محدود ہے۔
ای ٹی وی کے اس سیمینار سے ہمارے لیڈران کو تو یہ پیغام مل ہی گیا ہوگا کہ اب مسلم اقلیت کافی حد تک باشعور ہو گئی ہے اور اسے صرف وعدوں سے بہلایا نہیں جاسکتا اگر یہ بے ضمیر اب بھی نہیں جاگے اور انہوں نے اپنی موجودہ روش برقرار رکھی تو آگے اس سے بھی برے حالات کا انہیں سامنا کرنا پڑیگا اس کے لئے انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ برے حالات کیا ہونگے؟ عراق کے صحافی منتظر الزیدی کا واقعہ ابھی لوگ بھولے نہیں ہونگے اس کے بعد تو اس جوتے کا سفر نامہ کافی لمبا ہے کئی ملک اور اسکے سربراہان اس کے زد میں آئے ۔میں جان بوجھ کر مصر تیونس اور حالیہ کئی عرب ملکوں کی عوامی بغاوت کا ذکر نہیں کر رہا ہوں کیوں کہ یہ تو عوامی صبر وضبط کے انتہا کے بعد کا آتش فشاں تھا جس نے جابروں کی چولیں ہلادی ہیں اورعرب ملکوں کی دو حکومتوں کے جابر اس میں بہہ گئے۔یہ ہندوستان سمیت ساری دنیا کے لئے ایک واضح اشارہ ہے۔جسے ہم اردو والے نوشتہ دیوار سمجھتے ہیں ۔اگر بے ضمیر ظالم و جابر بھی ایسا ہی سمجھ

لیں تو ذلت آمیز حالات کا سامنا کرنے سے محفوظ رہیں گے۔
عام طور پر مسلمانوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ روادار نہیں ہیں وہ برداشت کی قوت کھو چکے ہیں ،یہ الزام گنتی کے چند لوگوں پر تو صادق آسکتا ہے لیکن پوری امت مسلمہ پر اس قسم کا غلیظ الزام بے بنیاد اور انصاف کے منافی ہے۔یہ اسی ذہنیت کی دلیل ہے جو کئی صدیوں سے پوری دنیا میں حاوی ہے۔مسلمانوں کے برداشت کرنے کی قوت کا دنیا کی کوئی دوسری قوم مقابلہ نہیں کرسکتی کوئی پچھلی ایک صدی کی تاریخ کا مطالعہ کرے تو اسے اندازہ ہوگاکہ پوری امت ظلم و استحصال کا شکار ہونے کے باوجوداس نے امن وامان بنائے رکھا اور دنیا کے ہر اس فورم تک گئے جہاں سے انہیں انصاف کی امید تھی لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ ’’اے بسا آرزو خاک شد‘‘انہیں ناامیدی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا ۔اس صورت حال کو آپ بین الاقوامی سطح سے ملکی سطح تک دیکھ لیں سب جگہ ہمدردی اور وعدوں کے علاوہ کیا مسلمانوں کو کچھ ملا۔اس ملک میں کانگریس کی ہی حکومت رہی لیکن اسکے وزیر مسلمانوں پر ہورہے ظلم و ستم پر افسوس کا اظہار کرینگے اور بقول سید شاہنواز حسین کے لفظی احسانوں کا بوجھ ہی ڈالیں گے تو کیا مسلمان انکی باتیں با ادب اور بغور سنتے اور تالیاں بجاتے رہیں ۔انہیں سننے سے منع کرنے یا ان سے کام کا حساب مانگنے کا حق نہیں ہے ؟ شکر منائیں کہ اس جمہوریت کا فائدہ عوام کو بھلے ہی نہ ہو رہا ہو لیکن آج یہ ضمیر فروش صرف جمہوریت کی کرامات کی وجہ سے محفوظ ہیں ورنہ مصر اور تیونس کی طرح انہیں بھی بھاگنا ہوتا۔
مسلمانوں میں عدم برداشت اس وقت آیا جب وہ مایوس ہوگئے، اور جب انہوں نے اپنی تحریکات شروع کیں اور ملک سمیت پوری دنیا میں ظالم طاقتوں کو انکی طرف سے سخت مزاہمت کا سامنا کرنا پڑا تو انہیں عدم برداشت،دہشت گرد ،بنیاد پرست اور شدت پسند کہا جانے لگا۔ایسا ہی کچھ ای ٹی وی کے پروگرام میں بھی مزاہمت سے گھبراکر کچھ لوگوں نے کہا جس پر وہیں پر موجود مقررین میں سے ایک سے زیادہ لوگوں نے اسکا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی قوت برداشت کا اس سے بہتر اور کیا ثبوت چاہےئے کہ اس سیمینار کی صدارت بھاجپا کے راج ناتھ سنگھ کررہے ہیں اور مسلمان پورے نظم و ضبط کے ساتھ سن رہے ہیں۔

0 comments: