Muslim Issues

اور کتنے جنید


دوٹوک ۔ قاسم سید

اب ان سوالوں سے نظریں چرانے،شور سن کر گھر کا دروازہ بند کرنے کا وقت نہیں رہا کہ اکثر ہمارا مہذب ترقی یافتہ تکثیری سماج کا ایک حصہ جنون ودیوانگی کے ساتھ درندگی اور وحشی پن پر کیوں اترآیا ہے۔ ہمارے آنگن میں رواداری کے کبوتر اترناکیوں بند ہوگئے۔جمہوری مزاج میں بلاکی تندی، تلخی،زہر،نفرت کے جراثیم کیوں اثرانداز ہورہے ہیں۔ بھیڑتنتر کے بھڑیا تنتر میں بدلنے میں کتناوقت اور لگے گا۔ یہ سب اچانک ہونے لگا یا اس کی تیاری کافی عرصہ سے کی جارہی تھی اوراب اسے کھل کر پھلنے پھولنے اور کھادفراہمی کا بے روک ٹوک موقع ملا ہے۔ اسے پھلنے پھولنے کیوں دیاجارہا ہے کیا سب کا ساتھ اور سب کا وکاس اور ہندوتو اکے کاک ٹیل سے سیاسی تخلیق کا عمل جاری تھا وہ حقیقی شکل لے چکا ہے۔ کیا گاندھی کا رام راجیہ اور آر ایس ایس کا ہندو راشٹر اس راستہ سےآئے گا جہاں مخالفین کو سڑکوں پر گھیرکر چند منٹوں میں فیصلہ سنایاجانے لگے گا۔ واقعی ہندو راشٹر کی عملی تصویر بنی ہے یاپھر اقلیتوں، آدیواسیوں اور دلتوں میں ذلت وخواری کا احساس پیدا کرکے انہیں خوف ودہشت کانفسیاتی مریض بنایا جارہاہے تاکہ ان کی مزاحمتی قوت کا مزاج ختم ہوجائے۔ اخلاق سے پہلو خاں اور معصوم روزہ دار جنید کا قتل اس مہم کاناگزیر حصہ ہےکہ گر تم ہمارے مزعومہ ہندوتو کے آگے نتمستک نہیں ہوتےتو تمہاری ہڈیاں توڑدی جائیں گی۔ چاقوئوں سے گود کر سڑکوں پر پھینک دیاجائےگا۔ تم ہاتھ جوڑ کر رحم کی بھیک مانگوگے تو بھی زندگی نہیں بخشی جائے گی۔ تمہارے گھروں میں آگ لگادیں گے۔ دکانوں کوجلاکر راکھ کردیں گے اورتمہیں ذہنی افلاس کا شکار بناکر دوسرے کے لئے عبرت بنادیں گے۔ سیاسی پارٹیاں جنہیں تم سیکولر کہہ کر پکارتے ہو جو تمہارا خون پی کر اقتدار کے مزے لوٹتی ہیں، تمہاری لاشوں کی تجارت کرتی ہیں تمہاری مدد کو نہیں آئیں گی۔ کیونکہ ہم نے منہ بھرائی اور خوشامد کی بات کہہ کر ان کی زبانیں بند کردی ہیں۔اب وہ صرف روایتی بیان جاری کرکے ذمہ داری سے پلہ جھاڑ لیں گی۔ اور پردھان سیوک بھی کچھ نہیں کہے گا۔
یہاں ایک سوال اورپیداہوتا ہے کیا جو کچھ ہو رہا ہے یہ ہماری خاموشی،مصلحت پسندی، خود غرضی اوربزدلی کانتیجہ ہے یاپھر ہم اب اس لائق نہیں کہ ہمیں اخلاق،پہلو خان اور جنید بنادیاجائے۔ ان جیسے مسائل پر مسلم قیادت کا سواداعظم بیان بازی سے آگے کیوں نہیں بڑھتا وہ جنتر منتر پر جمع اس ہجوم کا حصہ کیوں نہیںبنتا جو جنید کے بے رحمانہ قتل اور کھٹر کے انصاف سے بے چین ہواٹھااور سڑکوں پر اتر گیا پورے ملک میں یہ جذبہ دکھائی دیا اوربغیر کسی پارٹی کے بینر اور لیڈر کی تصویر کے ہزار وں لوگ ہندوستانی رواداری اس کی شرافت وانسانیت کا تحفظ کرنے کے لئے جمع ہونے لگے ہیں۔ ان کا لیڈر سوشل میڈیاہے جس نے چھوٹے چھوٹے پیغامات کے ذریعہ سونے والوں کو بیدا رکردیا ان کی روح کو جھنجھوڑدیا مگرہم اپنے محلوں،حجروں اور خانقاہوں سےباہر آنے میں اب بھی جھجک کر رہے ہیں تو کیوں کالی پٹی باندھنے کے جواز اورعدم جواز پر الجھ گئے۔ اگر کسی میں احتجاج کرنے کی حس بھی ختم ہوجائے تو اس کا مرجانا ہی بہتر ہے۔انہیں معلوم نہیں کہ جب عوام کا غصہ سمندری طوفان بنتا ہے تو وہ محلوں اور سبزہ زاروں کو بھی نہیں بخشتا۔ اخلاق احمد کو گھر سے نکال کر سڑک پر مار دیاجاتا ہے اور جیل میں بند اخلاق کے قتل کا ملزم بیماری کی وجہ سے مرجاتا ہے تو اس کی لاش کو ترنگے میں لپیٹ کر درشن کے لئے رکھ دیاجاتا ہے۔ مرکزی وزیر شردھانجلی دینے آتے ہیں اور یوپی سرکار وارثین کو لاکھوں کامعاوضہ دیتی ہے گویا وہ سرحد پر لڑکر شہادت کاربند حاصل کرکے آیا ہو۔ ملک بھر میں گئو ماتا کو بچانے اور’راشٹرنرمان کے لئے کچھ بھی کر گزرجانے کی شہیدی تمنا لئے گئو رکشوں کو اس سے حوصلہ ملتا ہے۔ گئو ماتا بچانے سے زیادہ اسے خریدوفروخت کرنے والوں کو دہشت زدہ کرنا،چوراہوں پر کھلے عام پیٹنا،پولیس اور انتظامیہ کا اس مقدس کام میں دخل اندازی نہ کرنا ان کاقتل پوتر کام ہے۔ کس نےبتایا اور سکھایا کہ ان کا دشمن کون ہے۔ دشمن کی پہچان کیسے ہو اور یہ بھروسہ کہاں سے آیا کہ اگر مقدس فریضہ انجام دینے پر پکڑ ے گئے تو قانون تمہارا کچھ نہیں بگاڑ پائے گا کیونکہ جو کچھ کر رہے ہو وہ راشٹر نرمان اور سماج کی تعمیر کے لئے ضروری ہے۔ اجودھیا میں بجرنگ دل خود حفاظت کیمپ میں ہتھیار چلانے کی ٹریننگ کے دوران دیش دروہیوں کو ٹوپی اور داڑھی والا بناکر دکھایاجاتا ہے اور پانچ جنیہ کے ایک مضمون میں لکھاجاتا ہے۔’’وید کا آدیش ہے کہ گئو ہتیا کرنے والے  پانکی کے پران لے لو،اس کا نظارہ دیکھنے کے لئے پہلو خان کے قتل کا ویڈیو دیکھ لیاجائے۔ سڑک پر بری طرح کھدیڑنے،لاتیں گھونسے مارتے ہائی وے کے فٹ پاتھ پر بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا ہے پھر اس کے سفید کرتاپاجامہ اور داڑھی والا یہ شخص شکاری کتوں کےد رمیان ایسے گھرا ہوا ہے جیسے میمنہ ہو،لڑکوں کے سرپر خون سوار ہے وہ جتنامارتے ہیں ان کا جنون بڑھتا ہے کہیں دن کے اجالے میں کہیں رات کی چاندنی میں چلتی سڑک پر بھیڑکسی کو پکڑتی ہے بیف کاالزام لگاکر اس کا خون جائز قرار دیتی ہے اور قتل کی واردات کا ویڈیوبناکر سوشل میڈیا پر وائرل کیاجاتا ہے تاکہ دوسروں کے دلوں پر خوف بیٹھ جائے اور سرکاری سسٹم کو چیلنج کہ یہ ہم نے کیا ہے۔ کچھ بگاڑسکتے ہوتو بگاڑ لواورسادھو سماج سے آوازیں اٹھنے لگیں کہ جو بیف کھائے گا ماراجائے گا۔ ایک لڑکی اٹھائیں ہم سواٹھاکر لائیں گے۔ ’لوجہاد، کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دی جائے تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ سماج کو کہاں لے جایاجارہاہے۔ جنید اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ مبینہ سیٹ کا جھگڑا ان کے مسلمان،پاکستانی ایجنٹ اور غدار ہونے تک جاپہنچا۔ ٹوپی اچھال دی گئی۔ داڑھی کھینچی گئی اور روزہ دارنابالغ جنید پر چاقو کے آٹھ واریہ کہہ کر کئے گئے کہ تم بیف کھاتے ہو۔ اس کے بعد جھارکھنڈ میں بزرگ عثمان انصاری کو محض اس لئے ادھر مرا کردینا اور اس کے گھر کو نذرآتش کردینا کہ اس کے گھر کے باہر مردہ گائے پڑی تھی۔ یعنی اقلیتوں میں احساس ذلت اوراحساس کمتری پیداکرنے کی منظم سازش سیکولر پارٹیوں کی خاموش حصہ داری کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا جو منہ بھرائی کے خوف سے اس ظلم کے خلاف کھل کر سامنے آنے سے ڈر رہی ہیں گرچہ ان سیکولر فرقہ پرستوں کی منافقانہ روش سے ہمیشہ نقصان پہنچا ۔خاص طور سے منڈل نے ہندوتو کو مضبوط کیا۔ سماجی انصاف کی مبینہ سیاست کو ہندوتو اور فاشزم کے لئے کوئی خطرہ نہیں یہ ان کی درد میں شریک نہیں ہے یہ بنیادی طور پر سنگھ کے ایجنٹ اور رنگیلے سیار ہیں جنہوں نے سیکولرازم کا رنگ چڑھا لیا ہے۔ اس لئے مایا،نتیش اور ملائم جیسے سیکولر فرقہ پرستوں کو بی جے پی سے ہاتھ ملانے میں کوئی تکلف نہیں ہوتی۔ کانگریس مسلمانوں کو ڈرانے کے لئے مودی کو بڑھاوادیتی رہی اب خود اس کے جال میں پھنس گئی۔ یہ ان جیسی پارٹیوں نے ہمیں صرف قربانی کا بکرا بنایا ہے ۔ بھارت کا پاکستانی کرن ہونے پر انہیں کوئی تشویش نہیں غیرآئینی طاقت کے نئے مراکز کے نیٹ ورک سے کوئی پریشانی نہیں۔ مسلم قیادت نے بحالت مجبوری ان سانپوں کو دودھ پلایا وہ ڈستے رہے تو ہم دودھ پلاتےرہے۔ ایک طرف کھائی تو دوری طرف کنواں اور آج بھی ان کی مدح سرائی اور فرشی سلام کرنے ،حضور میں سجدہ بجالانے،قدم بوسی کرنے اور دربار میں کورش بجانے سے کوئی گریز نہیں۔
صرف سول سوسائٹی امیدوں کا اکلوتامرکز ہے جس کی روح زندہ ہے۔ہر ناانصافی کے خلاف کھڑی ہوجاتی ہے۔ جنید کے بے رحمانہ قتل نے اس کے اضطراب کی گانوں کو چھیڑ دیا یہ سڑکوں پر نکل آتی ہے۔Not in my nameنے پورے ملک کو ایک لڑی میں پرودیا۔ صفیں پھر آراستہ ہیں ہم گھر میں آرام فرما رہے ہیں تو یہ نہیں چلے گا۔ سوشل میڈیانیا قائد بن کرابھرا ہے یہ بے چہرہ قیادت خطرہ لیتی ہے مگر جب ہم آرام طلبی میں رہیں گے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کریں گے،اپنی لکشمن ریکھا کھینچ کر بیٹھ جائیں گے تحفظات کے ساتھ بات کریںگے تو معاف کیجئے گا تاریخ آپ کا انتظار نہیں کرےگی۔ بھیڑ کا انصاف کیا کیجئے بلامسلک پوچھے صرف مسلمان سمجھ کر جان لیتاہے۔ نوجوان بہت غصہ میں ہے جھنجھلاہٹ کاشکار ہے اس کی رہنمائی کیجئے ورنہ پانی اپناراستہ بنالیتا ہے

0 comments:

Muslim Issues

کوئی بچانے نہیں آئے گا




قاسم سید 
جمہوری انتخابی سیاست میں صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے والے ہی کامیاب رہتے ہیں۔ جو حالات کی ضرورت اور نزاکت کے مطابق پالیسی بناتے اور ان پر عمل کرتے ہیں جو ضرورت کے ساتھ مصلحت کومدنظر رکھ کرلچک کے قائل ہوتے ہیں تاکہ جمہوریت کے ثمرات وفواکہات سے بھرپور استفادہ کیاجائے۔ ہندوستانی سیاست و ثقافت، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی، عوام دشمنی کی بدترین تجربہ گاہ ہے جہاں دوست کو اجنبی اور اجنبی کو دوست بننے اور بنانے میں دیر نہیں لگتی۔ سیکولرازم اور فرقہ واریت کی دیواریں برف کی طرح پگھل جاتی ہیں۔ کب کون سیکولر اورفرقہ پرست بنادیاجائے کہنا مشکل ہے۔ آئے دن اس کا مشاہدہ ہوتا رہتاہے۔ شایدہی موجودہ دور میں کوئی ایسی پارٹی یا سیاست داں ہو جس نے سیکولرازم یافرقہ واریت سے ضرورت پڑنے پر علیحدگی اختیار نہ کی ہو۔
گذشتہ چند سال سے سیاست جس رخ پر جارہی ہے اس سے پریشان ہونے والوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ سب کاساتھ سب کا وکاس کے ساتھ ہندوتو ،گائے،گیتا اور گنگا کا کاک ٹیل تیار کیا ہے چنانچہ ہر لیڈر کے لب ولہجہ میں غیرمعمولی تبدیلی دیکھی جانے لگی ہے۔ ایک طبقہ میں رعونت،گھمنڈ‘اہنکار،غرور،تکبر،حقارت،نفرت، دشمنی کے مظاہر شدت کے ساتھ پروان چڑھائے جارہے ہیںوہیں اقلیتوں،دلتوں اور سماج کے مظلوم طبقات کی پیٹھ دیوار سے لگادی گئی ہے۔ انہیں احتجاج کرنے اور اختلاف رائے کے حق سے بھی محروم کردیاگیا ہے۔ پہلے وہ میڈیا ٹرائل سے پریشان تھے جس کے تحت اقلیتی طبقہ کو دہشت گرد اور علیحدگی پسندی کی بات کرنے کی مہم چلائی جاتی تھی جس کا آغاز یوپی اے سرکار کے دور میں خاص حکمت عملی کے تحت ہوا پھر اس کا پبلک ٹرائل ہونے لگا ۔اخلاق احمد،اونادلت کانڈ،پہلو خان،ظفر خان وغیرہ پبلک ٹرائل کی علامتیں ہیں، اس پر خاموشی نے ان لوگوں کے حوصلے بڑھا دئیے ہیں جو پتھر کے ذریعہ سڑک پر آناً فاناً فیصلہ کرنے کے لئے اکسائے جاتے ہیں۔شمالی ہندوستان کی بیشتر ریاستیں اس کے زیر اثر ہیں۔ خواہ وہ مہاراشٹر ہو، راجستھان ہو یا اترپردیش یا بہار کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ کھانے پینے کی روایتوں پر قانون کی آڑ میں یاپھر پابندی کے ساتھ آنے والے وقت میں مذہبی آزادی پر مشروط پابندیاں انتظار کر رہی ہیں ۔سول سوسائٹی میں یہ احساس زور پکڑ رہا ہےکہ ہم غیر اعلانیہ ایمرجنسی میں جی رہے ہیں۔ پاکستان کے میچ جیتنے پر نعرے لگانے والے نادانوں کو غداری کے مقدمہ کے تحت جیل میں ڈالنا، گائے لے جانے والوں پر لاتوں،گھونسوں،ہتھیاروں سے بے رحمانہ حملہ کرکے موت کے گھاٹ اتاردینا اور پھر انہی پر مقدمہ قائم کرنا جگہ جگہ پاکستان کو منہ توڑجواب دینے کے نام پر اکثریتی فرقہ کے نوجوانوں کو آتشیں اسلحہ چلانے کی ٹریننگ ،مورل پولسنگ کے ذریعہ بے گناہوں کو پریشان کرنا،گھروں میں گھس کر انہیں مارپیٹ کرنے کی اجازت، ہندو گورو کی دھار تیز کرنے کی حوصلہ افزائی اور سب سے بڑی بات یہ کہ حکومتوں کی طرف سے ایسے عناصر کی خاموش حوصلہ افزائی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ایک برے آزمائشی دور میں داخل ہوگئے ہیں، جہاں دستوری آئینی ضمانتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ جمہوری اقدار کی کوئی اہمیت نہیں، آر ایس ایس کی قومی سیاست میں کلیدی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ حکومتوں اور آر ایس ایس کے درمیان رابطہ کمیٹی کی موجودگی اس کا طاقتور مظہر ہیں۔ شاید تاریخ میں پہلی بار صدارتی انتخاب میں آر ایس ایس کی موجودگی دیکھی گئی ہے، جو ہر اہم آئینی عہدے پر اپنے نظریاتی وفاداری کو نبھانا چاہتا ہے اور اس میں کامیاب بھی ہے۔ ہندوتو کی لہر نے سیکولرازم کی دیواروں میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ اچھے اچھوں کا ایمان ڈانواڈول ہوگیا ہے اور یہ سب اچانک نہیں ہوا ہے۔ ہندوستانی سیاست پر گہری نظررکھنے والے جانتے ہیں کہ کم وبیش ہر پارٹی نے ہندوتو کو گالیاں ضرور دیں، لیکن اس کو پروان چڑھایا، غذا پہنچائی، اس کے جینے اور پھلنے پھولنے کے سامان کا انتظام کیا۔ کانگریس تو اس کی جننی ہے جو سیکولرازم کی جڑوں میں ہندوتو کا پانی ڈالتی رہی اور شاخوں پر قومی یک جہتی کی پھواریں۔ اس نے کارپٹ بچھاکر اقتدار بی جے پی کے حوالے کردیا۔ آج اس کے اند ر ہندوتو سے لڑنے کی قوت ارادی صفر ہوگئی ہے۔ یہی حال علاقائی پارٹیوں کا ہے اور جہاں ان کے لیڈروں میں دم خم ہے وہ سی بی آئی اور دیگر تفتیشی ایجنسیوں کے شکنجہ میں ہیں۔ لالو یادو اور ممتا بنرجی کو مثال کے طور پر دیکھاجاسکتاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی اسٹائل کی سیاست نے سب کی بولتی بند کردی ہے۔ کہیں مصلحت سے تو کہیں خوف سے سب کی زبانیں بند ہیں، جوبولنے کی ہمت دکھاتے ہیں ان کو سبق سکھانے کا انتظام کردیا جاتا ہے۔ مودی جو پریوگ کر رہے ہیں وہ گھٹانہیں بڑھا ہے۔ وہ کئی چیزیں جوڑ رہے ہیں، ان کا حلقہ چاہتا ہے کہ ان کی مقبولیت بڑھے، اس لئے وہ نئی بھاشا استعمال کررہے ہیں، وہ کٹر ہیں ہندوتو وادیوں میں اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مودی کی بھاشا کا سیاسی پارٹیوں پر اثر پڑا ہے۔ کانگریس سمیت دیگر قومی وسیاسی پارٹیاں لڑکھڑا رہی ہیں۔ انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی مودی کے ایجنڈے کی حمایت کرنی پڑرہی ہے۔ وہ گائے کے تقدس سے انکار نہیں کرسکتیں۔ وہ جاپانی وزیراعظم کو گیتا دینے پر اعتراض نہیں کرسکتیں۔ وہ گنگا کی صفائی پر ہزاروں کروڑ خرچ کرنے پر انگلی نہیں اٹھاسکتیں۔ وہ پاکستان دشمنی کی سیاست کو مسترد نہیں کرسکتیں۔ وہ فوج کے موجودہ رویہ کے خلاف بیان دینے سے گریزکو ترجیح دیتی ہیں، کیونکہ بصورت دیگر ہندو مخالف اور دیش دروہ کا الزام کےلئے تیار رہنا ہوگا۔ اس صورت حال نے انہیں دفاعی پوزیشن پر لاکھڑاکیا ہے۔ مودی ایجنڈا طے کرتے ہیں اور سیاسی پارٹیاں اسے لے کر جھنجھنا بجاتی ہیں اور وہ یہی چاہتے ہیں۔ مودی مخالف سیاست کے جال میں ہرپارٹی پھنس گئی ہے۔ وہ حکومت کی پالیسیوں پر گھیرنے کی بجائے مود ی پر ٹوٹ پڑتی ہیں اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہتے ہیں۔ گذشتہ تین سال میں اپنے وعدوں کو نبھانے میں بری طرح ناکام سرکار بے فکر ہے، کیونکہ مقابلہ پر کوئی نہیں ہے۔ اپوزیشن کے تار پھر بکھیردئیے گئے ہیں۔ ایسے میں اقلیتوں خاص طور سے حیران وپریشان مسلمانوں کی دادرسی کی ہمت کون دکھائے گا۔ حال ہی میں راہل گاندھی نے کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں اپنے لیڈروںکو مشورہ دیا کہ وہ مسلمانوں کے مسائل ضرور اٹھائیں، مگر اس بات کا خیال رکھاجائے کہ پارٹی پر مسلمانوں کی خوشامد اور منہ بھرائی کا الزام نہ آئے۔ یہ ہے وہ فکر جو آر آیس ایس اور بی جے پی نے ہر پارٹی میں پیداکرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ گذشتہ تین سالوں کی سیاست کا یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوںنے ہندوگورو کے نام پر تمام ہندوئوں کو بظاہر اکٹھا کرنے میں بڑی پیش رفت کی ہے۔ انتخابی نتائج تو یہی بتاتے ہیں حالانکہ ہندوتو حکمت عملی کا تضاد اسے چوراہے پر لاکھڑا کرتاہے، اس لئے کہ دلتوں کو ہندو ہونے کے باوجود ان کے حقوق نہیں دئیے جاتے۔ ان کے سامنے ایک طرف امبیڈ کر کا بنایاہوا قانون ہے تودوسری طرف مہرشی منو کی تخلیق اور منواسمرنی پر مبنی سماجی نظام، ان دونوں میں توازن قائم کرنا اور اس کا عملی ثبوت ہندوتو کے لئے ہمیشہ چیلنج رہا ہے۔ اوپر سے روغن اورسفیدی کا مطلب یہ نہیں کہ اندر سے دیوار بھی ایسی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی نظام میں پایا جانے والاعدم مساوات جب بھی آواز اٹھتی ہے اسے طاقت سے دبایاجاتا ہے خواہ وہ کنہیا کمار ہو یاجگدیش میگوانی یابھیم آرمی کا چندر شیکھر آزاد راون، یہ ظلم وتشدد کے خلاف اٹھنے والی نوجوان آوازیں بزور قوت کچلنے کی کوشش کی گئی، ان کے خلاف غداری اور دیش دروہ کے مقدمات لگے، نکسلیوں اور دہشت گردوں سے رشتے جوڑکر یہ ثابت کیاگیا کہ ایسے عناصر ملک اور سماج دونوں کے لئے خطرہ ہیں، یہی وجہ ہےکہ جیلوں میں قیدیوں کی سب سے زیادہ تعداد دلتوں اور پھر مسلمانوں کی ہے۔ اس طرح پھانسی پانے والوں میں اکثریت دلتوں اور مسلمانوں کی ہے۔ یہ اعدادو شمار آن ریکارڈ ہیں۔ دلتوں کےمندر بنانے پر پابندی ہے، وہ عالیشان مندر نہیں بناسکتے۔ وہ اعلیٰ ذات کےنل سے پانی نہیں بھر سکتے۔ شادی پر ان کا دولہا گھوڑی پر نہیں چڑھ سکتا۔ سماجی روابط تو بہت دور کی بات ہے۔ اس درجہ پر آہستہ آہستہ مسلمانوں کو پہنچانے کی حکمت عملی پر کام ہورہا ہے۔ ان کے خلاف نفرت اورتشدد کا ماحول بڑی تیزی کے ساتھ بنایا جارہا ہے، وہیں پبلک ٹرائل کے ذریعہ خوف و دہشت پیدا کیا جارہا ہے۔ کیا کوئی تصورکرسکتاتھا کہ مسلمان ہاتھ جوڑکر رحم کی بھیک مانگتا ہوا دکھائی دے۔ آج یہ مناظر عام ہوگئے ہیں۔ ہندوتو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہماری خاموش اور جامد سیاست نے انہیں ایندھن فراہم کیا ہے۔ ہر واقعہ پر ارباب سیاست کی طرف سے پراسرار خاموشی ان کے حوصلے بڑھا رہی ہے۔ سب اپنے حجروں میں قید ہیں، سب کو اپنی فکر ستارہی ہے۔ سب کو اپنی کمزوریاں یاد آرہی ہیں، اس لئے منہ پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ مسلم سماج کے اندر مسلکی اختلافات کے نتیجہ میں جاری اتھل پتھل نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ مسلم قیادت پر جب دبائو پڑتا ہے تووہ ملک چھوڑ دیتی ہے اور عمرہ پر چلی جاتی ہے۔ شاید اس سے بہتر گوشۂ عافیت نہیں۔ اگر حسن ظن سے کام لیا جائے تو وہ امت کی پریشانیوں کے حل کے لئے دعا کرنے جاتی ہے۔ انہیں یہ جاننا چاہئے کہ موجودہ صورت حال میں خاموشی سے عافیت اور جائے پناہ نہیں ملنے والی۔ اگر سلسلہ ایسے ہی دراز ہوتا رہا تو خاکم بدہن نہ مدرسے بچیں گے نہ ادارے اور نہ ہی ہماری تنظیمیں۔ لالو یادو اور ممتابنرجی جیسے طاقتور سیاست دانوں کے ساتھ جوکچھ ہورہا ہے ہمارے سامنے ہے۔ اپنے وجود اور مذہبی تشخص کے ساتھ آئینی حقوق کے تحفظ کی لڑائی اپنے کاندھوں پر لڑنی پڑے گی۔ نتیش کمار ہوں یا اکھلیش سنگھ، سب کا شجرہ سامنے ہے۔ نتیش ایک بار پھر بی جے پی کے سامنےنمستک ہوگئے۔ رفیق الملک اور مسیحائے ملت ملائم سنگھ پہلے ہی بیعت کرچکے ہیں اور گاہے بگاہے اس کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔ ہماری بے لچک سیاست اور اس سے ملنے اور اس سے نہ ملنے کی بچکانہ ضد سے کس کا نقصان ہورہا ہے، اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پارٹ ٹائم سیاست نے ہمیشہ ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ راہل کی طرح پارٹ ٹائم سیاست سے چند لوگوں کا ضرور بھلا ہوجاتا ہے، لیکن مسلمانوں کو اس سے کبھی کچھ نہیں ملنے والا۔ اترپردیش جیسی ریاست سے پارلیمان میں نمائندگی سے محرومی ہمارے سیاسی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔ کیا یہ مناسب نہیں کہ ایک دوسرے کو بی جے پی کا ایجنٹ، غدار قوم، منافق، زندیق اور کافر کہنے کی سرگرمیوں سے عارضی طور پر نجات حاصل کرلیں۔ مسلکی منافرتوں پر فی الحال چادر ڈال دیں۔ عراق اور ایران، سعودی عرب، قطر کے جھگڑوں پر اپنی وفاداری کا رخ طے کرنے سے گریز کریں اور سر پر کھڑے طوفان اور کڑکتی بجلیوں کا مقابلہ کرنے کےلئے مل جل کر راہ عمل تلاش کریں۔ سوشل میڈیا پر ذہنی و فکری عیاشی سے اجتناب کرکے اپنی توانائی کو اتحاد کی ٹوٹتی دیوار کو بنانے میں توانائی کھپائیں۔ علامتی سیاست کا وقت گذر چکا ہے۔ اب کوئی ٹھوڑی میں ہاتھ ڈالنے نہیں آئےگا۔ ہمارے ووٹ کی قیمت صفرکردی گئی ہے۔ یہ دامادی کاشوق اور عادت چھوڑنی ہوگی، کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے موجودہ سیاسی اتھل پتھل کا اصل ہدف ہم ہیں، دلتوں نے اس راز کو جان لیا ہے، وہ اپنی صفیں درست کرنے میں لگے ہیں۔ ہمیں کب ہوش آئے گا۔ اگر ایک دوسرے کا گلا دبانے کی روش سے باز نہیں آئے تو ایک ایک کرکے شکار کیاجائے گا۔ پیچھے مڑکر دیکھیں گے تو کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔
qasimsyed2008@gmail.com

0 comments:

Muslim Worlds

قطر کی ناکہ بندی اسلامی اقدار کے خلاف



 عبدالعزیز
    اس وقت مسلم ممالک میں ترکی حکومت ایک ایسی اسلامی حکومت ہے جو امریکہ یا کسی بھی بڑی طاقت کے دباؤ کے بغیر حق و صداقت کی آواز بلند کرتی ہے۔ مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت جب امریکہ ، اسرائیل اور سعودی بادشاہ کے اشارے پر یہودی نواز جنرل عبدالفتاح السیسی نے فوجی بغاوت کی اور 26 ہزار اخوانیوں کو تہ تیغ کر دیا اور پچاس ہزار اخوان المسلمون کے لیڈروں اور کارکنوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا تو ترکی حکومت کے صدر طیب اردوگان نے جو اس وقت ملک کے وزیر اعظم تھے منتخب مصری صدر کے خلاف فوجی بغاوت کو غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کی کوئی مہذب فوج اپنے منتخب صدر کے خلاف ایسا غیر مہذب اور وحشیانہ رویہ نہیں اپنا سکتی ہے۔ اس کے برعکس سعودی عرب، بحرین، عرب امارات نے السیسی کی کھلم کھلا حمایت کی تھی۔ آج یہی فاسد طاقتیں قطر کی ناکہ بندی کر رہی ہیں۔ اس مہینہ میں کر رہی ہے جسے ماہ رمضان کہا جاتا ہے۔ جس کی رحمت اور فضیلت اللہ کے رسولؐ نے بیان کی ہے۔ مسلمانوں کو اپنے ماتحتین پر نرم رویہ اپنانے کی تاکید کی ہے۔ مگر ارض القرآن کا حکمراں آج کیا کر رہا ہے، اللہ رحم فرمائے۔
    صدر ترکی طیب اردوگان نے سعودی عرب اور ان کے دوست ممالک جو اپنے آپ کو مسلم ممالک کی فہرست میں شامل کرتے ہیں ان کے بارے میں کہا ہے کہ ان ممالک نے اسلامی اقدار کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی۔ رمضان جیسے مقدس مہینہ میں قطر کی ہر طرح سے ناکہ بندی کر دی تاکہ قطر کی حکومت اور اس کے شہری پریشان ہوجائیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب قطر کا پڑوسی ملک ہے اور قطر کا ایک ہی بری راستہ ہے جو سعودی سرحد سے ملا ہوا ہے۔ اشیائے خوردنی اسی راستہ سے قطر کو سپلائی ہوتی ہیں۔ سعودی عرب نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حکم پر اس راستہ کو ہی نہیں بلکہ فضائی اور بحری راستہ کو بھی بند کر دیا ہے اور اس کے آس پاس کے ممالک نے بھی سعودی بادشاہ اور ٹرمپ کے اشارے پر قطر کی ہر طرح سے ناکہ بندی کر دی ہے۔
    امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ میں صاف صاف کہا ہے کہ عرب ممالک قطر سے جو سلوک کر رہے ہیں وہ میرے کہنے پر کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کٹر یہودی نواز ہیں اور اسرائیل کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ ٹرمپ سعودی عرب کی راجدھانی ریاض سے اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب گئے تھے۔ دونوں ملکوں میں انھوں نے قطر کا نام نہیں لیا۔ ایران کی دشمنی کی بات کی۔ قطر تو اس اجلاس میں شریک تھا جس میں سعودی بادشاہ دنیا کے مسلم ممالک سے اتحاد و اتفاق کی بات کر رہے تھے۔ اجلاس ٹرمپ کے دوسرے یا تیسرے ہی دن سعودی حکومت نے قطر کے خلاف جارحانہ اقدام کا اعلان کیا۔ ٹرمپ یا امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ مسلم دنیا اتحاد کے بجائے انتشار کا شکار رہے تاکہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کوئی مسلم ملک سوچ بھی نہ سکے۔ سعودی عرب یا ان کے ساتھی ممالک جو اخوان المسلمون اور حماس کا نام لے رہے ہیں۔ یہ دونوں تنظیمیں اسرائیل کے وجود اور جارحیت کے خلاف ہیں۔ اخوان المسلمون تو مصر کی تنظیم ہے۔ ایک بار اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہوچکی ہے۔ حماس تو اسرائیلی جارحیت اور شیطنت کی مزاحمت کیلئے ہی عالم وجود میں آئی ہے۔ سعودی بادشاہت کو ایران، اخوان اور حماس سے خطرہ ہے۔ یہ بات صدر ٹرمپ اپنے بادشاہ کو سمجھانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
    سعودی بادشاہ اور ان کے شہزادوں کو خاص طور سے شاہ سلمان کے 32سالہ شہزادہ محمد بن سلمان جس کی حقیقت میں سعودی عرب میں حکمرانی ہے۔ اس  کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے۔ شاہ سلمان اَسی برس کے ہوگئے ہیں۔ ان کا حافظہ بھی کمزور ہے اور وہ جسمانی طور پر بھی کمزور ہیں۔ مشکل سے چل پھر سکتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو اپنی بات بھی یاد نہیں رہتی۔ شہزادہ اپنے باپ کے پردے میں اس وقت سعودی عرب کا حکمراں ہے۔ شہزادوں کی جو حالت ہوتی ہے اسی طرح کی ان کی حکومت ہوتی ہے۔سعودی عرب کے بادشاہ سلامت بوڑھے ہوچکے ہیں۔ ان کو ہر بات میں ہاں کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ عام طور پر مرحوم شاہ فیصل کے سوا سعودی عرب کے سارے بادشاہوں کا یہی حال رہا۔ شاہ فیصل نے امریکہ کی بات سننے سے انکار کردیا تھا جس کی وجہ سے ایک شہزادہ نے امریکہ کی سازش کا شکار ہوکر شاہ فیصل کو شاہی محل میں ہی قتل کردیا۔ قاتل شاہ فیصل کے کسی بھائی کا لڑکا تھا۔ بادشاہت عام طور پر ایسی ہوتی ہے۔ اسے نہ اسلامی اقدار کی پرواہ ہوتی ہے نہ رمضان جیسے مہینہ کی رحمت اور برکت سے کوئی مطلب ہوتاہے۔ اسے اپنے اقتدار یا بادشاہت کو باقی رکھنے سے سروکار ہوتا ہے۔ اس وقت سعودی بادشاہت اسی کام میں لگی ہوئی ہے۔
    دنیا بھر کے مسلمانوں کے پیسے جو حاجی سعودی عرب کو ادا کرتے ہیں وہ پیسے بھی اسرائیل اور امریکہ کے کام آرہے ہیں اور یہ دونوںحکومتیں مسلم اور اسلام دشمنی پر ان پیسوں کو خرچ کر رہی ہیں۔ صدر ٹرمپ کو سعودی بادشاہ نے ہزاروں ڈالر کی قیمت کے ہیرے جواہرات تحفہ کی شکل میں دیا ہے اور لاکھوں ڈالر امریکہ کو ہتھیار خریدنے کیلئے سعودی حکومت نے امریکی صدر کے دورے کے موقع پر دیئے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں کے پیسے ہی مسلم اور اسلام دشمنی پر خرچ ہورہے ہیں۔ بھلا ایسی بادشاہت جو اسلام اور مسلم دشمنی کا ذریعہ بنی ہوئی ہو اسے اسلامی اقدار سے کیاسروکار ہوسکتا ہے؟                           
موبائل: 9831439068    azizabdul03@gmail.com     

0 comments:

Muslim Issues

معرکہ حق و باطل کا تاریخی نظریہ



عمر فراہی ۔ای میل :  umarfarrahi@gmail.com

دنیا میں معرکہ حق و باطل کی یہ تاریخ رہی ہےکہ حق نے جب جب بھی طاقتور ہونے کی کوشس کی ہے باطل کے کان کھڑے ہوگئے ہیں اور پھر اہل باطل نے وہی کیا ہے جو فرعون نمرود نے حضرت موسیٰ و ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کیا ۔ اصحاب کہف کو پہاڑی غاروں میں پناہ کیوں لینی پڑی اور اصحاب اخدود کو زندہ آگ میں کیوں ڈالا گیا ،ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام میں سے کسی کوزندہ آروں سے چیرا گیا کسی کو سولی پر چڑھایا گیا۔ یہ تاریخ بھی بہت ہی طویل ہے کہ کس کو اللہ نے کس طرح کن آزمائش میں ڈالا اور کس کی وجہ سے کتنی قومیں عذاب کا شکار ہوئیں - شاید مشیت ایزدی بھی یہی ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو آزمائش میں مبتلا کرکے ان کے درجات کو بلند کرے ۔ کفر کرنے والوں کا بھی امتحان لے ۔ آج بھی کم وبیش وہی صورتحال ہے۔استعماری طاقتیں اپنے مخالف ممالک پر طرح طرح سےمعاشی اور عسکری پابندی لگا کر اپنے حریف کو کمزور کرنے کی سازش میں مصروف ہیں ۔خلیج میں عراق ایران جنگ کے بعد ایران پر پابندیاں لگائی گئیں۔اس کے بعد عراق کے گرد گھیرا تنگ کر کے صدام حسین کو پھانسی پر چڑھایا گیا ۔ چین اگر نارتھ کوریا کی پشت پناہی نہ کرتا تو اب تک نارتھ کوریا کے حکمراں کا حشر بھی صدام حسین اور قذافی سے مختلف نہ ہوتا۔ہمارا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ استعماری طاقتوں کا طریقہ کار بدلا ہے نظریہ نہیں ، جو ہر دور میں باطل طاقتوں نے اہل حق یا اپنے حریفوں کے ساتھ کیا ہے ۔جس طرح سعودی عربیہ نے اپنے عرب قبائیلی حکمرانوں کے ساتھ مل کر قطر کے ساتھ تعلقات توڑ کر اسے معاشی طور پر کمزور کرنے کی کوشس کی ہے اور ایک بڑے ملک امریکہ کو تحفے تحائف دیکر قطر کے بائیکاٹ کےتعلق سے اعتماد میں لینے کی کوشس کی ہے مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور کی وہ تمام سازشیں یاد آتی ہیں جو مشرکین مکہ نے اہل حق کی ایک قلیل جماعت کے عروج سے خوفزدہ ہو کر کیا ۔ یہ وہ دور ہے جب آپ ﷺ کے چچا ابو طالب حیات تھے اور آپ کی تحریک کے شانہ بشانہ کھڑے تھے مشرکین مکہ نے آپ کو اور آپ کے تمام حمایتیوں کو جن میں سے کچھ لوگ آپ پرایمان بھی نہیں لائے تھے شعب ابی طالب کی گھاٹیوں میں قید کردیا اور بنی ہاشم پر ہر طرح کی خرید وفروخت پر پابندی لگا دی تاکہ وقت کا رسولﷺ اپنی تحریک سے باز آکر ان کی مرضی کو قبول کرلے اور جو نبی کی حمایت کررہے تھے یہ لوگ بھی مجبور ہوکر نبی کا ساتھ چھوڑ دیں ۔ مشرکین مکہ کی اس سازش کو جب اللہ نے ناکام بنا دیا تو انہوں نے آپ کے ساتھیوں پر جبر وتشدد کرنا شروع کردیا - رسول کو جب اپنے ساتھیوں کی تکلیف دیکھی نہیں گئی تو انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی صلاح دی ۔صحابہ کرام کی ایک قلیل تعداد چپکے چھپکے حبشہ کی طرف ہجرت کر گئی ۔ مشرکین کو صحابہ کرام کا حبشہ میں پناہ لینا بھی اچھا نہیں لگا ۔سرداران قریش نے حبشہ کے بادشاہ کو قیمتی تحفے تحائف بھیج کر مسلمانوں کو اس کے ملک میں پناہ نہ دینے کا مطالبہ کیا۔چونکہ اس وقت دہشت گردی کی اصطلاح ایجاد نہیں ہوئی تھی اس لئے انہوں نے عیسائی بادشاہ کو گمراہ کیا کہ یہ لوگ تمہارے مذہب کو برا بھلا کہتے ہیں ۔نجاشی نے مسلمانوں سے سچائی جاننے کیلئے دربار میں بلایا ۔دربار میں نجاشی نےجعفر بن ابی طالب کے قرآنی دلائل سے متاثر ہوکر مشرکین کےتحفے واپس کروادیے اور مکہ کے مشرکین کو اپنے ملک سے نامراد واپس بھیج دیا۔مشرکین جب ہر طرح سے ناکام ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی ۔مشرکین کی اس انتہائی سازش کے بعد رسول ﷺ کو مدینہ کی طرف ہجرت کا فیصلہ کرنا پڑا ۔ اکیسویں صدی میں حق و باطل کی معرکہ آرائی کا نظریہ بھی کم وبیش وہی ہے ۔پہلے روس نے وسطی ایشیا کے مسلمانوں کے ساتھ یہی کیا ، افغانستان میں پناہ لینے والے مجاہدین پر چڑھائی کی اور شکست سے دوچار ہوا ۔ بعد میں جدید سپر پاور امریکہ نے بھی وہی کیا ۔ عراق اور افغانستان پر پابندی لگائی اور پھر اپنے حریف صدام حسین قذافی اور بن لادن کو شہید کیا۔ عرب ڈکٹیٹر وں نے قطر کے خلاف جو ناکہ بندی کی ہے تو اس کی وجہ بھی صاف ہے کہ اس نے مظلوم اخوانیوں اور فلسطینی رہنماؤں کو پناہ  دے رکھی ہے یا ان کی مالی مدد کر رہا ہے ۔یہ قدم اٹھانے سے پہلے سعودی عربیہ نے اپنے ملک میں پچاس مسلم ممالک کی کانفرنس بلائی اور پھر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو دعوت دی کہ وہ ان ممالک کو دہشت گردی کے خلاف امن کا سبق پڑھائے ۔
ڈونالڈ ٹرمپ وہی شخص ہے جس نے صدارتی الیکشن سے پہلے جہاں اسرائیل کو خوش کرنے کیلئے اسرائیل کی راجدھانی کو یروشلم میں منتقل کرنے کی بات کی تھی۔ سعودی عربیہ کو 9/11 کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے یہ عہد بھی لیا تھا کہ وہ لیبیا کی طرز پر سعودی حکومت پرہرجانے کا دعویٰ کرے گا ۔ صدر منتخب ہونے کے بعد اسے ہوش آیا کہ سعودی عربیہ امریکی معیشت کا ایک اہم ستون ہے اس لئے اسے ابھی ناراض کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔ لیکن چونکہ اسے اپنے صہیونی دوستوں کو بھی توخوش کرنا تھااس لئےاس نے جہاں داعش کی دہشت گردی کا تذکرہ کیا پچاس مسلم ممالک کی اس کانفرنس میں اسرائیل کی دو دشمن تنظیم اخوان اور حماس کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیا۔ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے اپنی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹرمپ کے اس خیال کی یہ کہتے ہوئے مذمت کی کہ اخوان اور حماس ریاستی دہشت گردی کے شکار ہیں انہیں دہشت گرد تنظیم کہنا درست نہیں ہے ۔ امیر قطر کی یہ بات اصل میں اسرائیل اور امریکہ کو بری لگنی چاہئے تھی لیکن مصر اور سعودی عربیہ نے امیر قطر کے اس بیان کو اس لئے سنجیدگی سے لیا کیونکہ اقتدار کے لالچی عرب ممالک اصولی سیاست اور اسلامی غیرت وحمیت سے محروم ہوکر صہیونی مفاد میں استعمال ہو رہے ہیں ۔ 2012 میں جمہوری طور پر منتخب اخوانی صدر مرسی کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اور اس بغاوت میں جہاں ایران اسرائیل نے خفیہ سازش کی ،مصر اور سعودی عربیہ نے علی الاعلان وہی کیا جو فرعون و نمرود اور ابو جہل وابو لہب کا شعار رہا ہے ۔ قطر کے امیر بھی خاموش رہتے ہوئےدیگر عرب حکمرانوںکی طرح منافقانہ کردار ادا کر سکتے تھے اور خاموش رہنے میں ان کا فائدہ ہی تھا نقصان نہیں ۔ لیکن جمال عبد الناصر انور سادات اور حسنی مبارک کے دور میں اخوانیوں پر جب جب بھی زمین تنگ کی گئی انہیں پناہ دینے کے عہد پر قائم رہے ۔ تاریخ ہمیشہ یہ بات یاد رکھے گی کہ نجاشی نے تو جعفر بن ابی طالب کے دلائل سن کر مشرکین مکہ کو جو کہ اس وقت حرم کی پاسبانی کے دعویدار تھے دربار سے باہر نکلوا دیا لیکن قطر اور ترکی کے علاوہ حرم کے جدید پاسبانوں نے حرم کے اصل سپاہیوں کو پناہ نہیں دی ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کل تک تو آل نہیان اور آل سعود ان مظلوموں کے ساتھ تھے آج ان کے دشمن کیوں ہوگئے ؟کل اخوان آپ کے بھائی آج دہشت گرد کیسے ہوگئے ؟ اخوانیوں کا قصور یہ تھا کہ وہ پرامن سیاسی جدوجہد سے مصر کی حکومت پر غالب آگئے تھے ۔ان کے اس غلبے سے ڈرنا تو امریکہ اور اسرائیل کو چاہئے تھا لیکن جب مصر کی فوج نے ناجائز طریقے سے بغاوت کی تو سعودی حکمراں عبداللہ نے ظالم السیسی کی اس بغاوت کو یہ کہہ کر جائز ٹھہرایا کے فوج نے مصر کو گہری کھائی میں گرنے سے بچا لیا ۔ آج قطر کے ساتھ بائیکاٹ کو یہ کہہ کر جائز ٹھہرایا جارہا ہے کہ وہ سعودی عربیہ کے دشمن ایران سے تعلقات بڑھا رہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ عرب کے شاہوں کو یہ بات اچانک کیسے یاد آئی کہ ایران ان کا دشمن ہے ۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ ایران ایک زمانے سے مشرق وسطیٰ پر بری نظر رکھے ہوئے ہے پھر بھی شاہ عبداللہ نے سعودی عربیہ کی ایک کانفرنس کے دوران تمام سرکاری پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایرانی صدر احمدی نژاد کو اپنی گود میں بٹھایا تھا ۔ تاریخ بہرحال اس کا بھی فیصلہ کردیگی کہ فتح کس کے نصیب میں لکھی جانی ہے وہ جنھوں نے رسول اور ان کے ساتھیوں کو شعب ابی طالب کی گھاٹیوں میں قید کیا یا ان کےجنھوں نے مکہ سے حبشہ اور حبشہ سےمدینہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے تکلیفیں برداشت کیں ۔

0 comments:

Politics

اگر اڈوانی صدر جمہوریہ بن گئے تو۔۔۔؟


نہال صغیر

فی الحال بیف اور اس کے لئے لوگوں کی جان لینے کے ساتھ ملکی سیاست میں صدر جمہوریہ کا انتخاب بھی موضوع بحث ہے ۔یوں تو کئی نام سامنے آئے ہیں لیکن فی الحال حکمران بی جے پی اور اپوزیشن کانگریس میں سے کسی جانب سے بھی واضح اشارے نہیں ملے ہیں ۔شروع میں شیو سینا نے موہن بھاگوت کا نام لے کر اس بحث کو نیا موڑ دیا ۔اس سے قبل اڈوانی کے نام کی قیاس آرائیاں جاری تھیں۔ہو سکتا ہے یہی دونوں نام سامنے آئیں اور یہ بھی ممکن ہے کسی تیسرے کا نام بھی سامنے آئے ۔لیکن ہماری گفتگو کا اہم موضوع صرف یہ ہے کہ موہن بھاگوت اور اڈوانی میں سے کون اس پر وقار اور شہنشاہی عہدہ پر پہنچے گا ۔ویسے پردھان سیوک اور سنگھ کی پہلی پسند تو موہن بھاگوت ہی ہوں گے ۔لیکن اپوزیشن اور بی جے پی کے غیر مطمئن گروپ کی پہلی پسند اڈوانی ہو سکتے ہیں ۔یہ غیر مطمئن گروہ وہی ہے جس نے بی جے پی کوآج اس مقام پر پہنچایا ہے جہاں پہنچنے کا انہوں نے کبھی گمان بھی نہیں کیا ہوگا ۔لیکن جیسے ہی بی جے پی کو غیر معمولی کامیابی ملی تو اس پورے سینئر سٹیزن کو ہی کوڑے دان میں ڈال کر نشان عبرت بنا دیا گیا۔اب ان کا حال یہ ہے کہ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں ۔اللہ تعالیٰ کی سنت بھی ہے کہ وہ ایک فساد کو دوسرے سے یا ایک ظالم کو دوسرے سے ہٹا تا رہتا ہے ۔اللہ کا فرمان ہے کہ اگر ایسا نہیں کیا جائے تو یہ دنیا فساد سے بھر جائے۔ ماضی قریب میں اڈوانی نے بھی خوب آگ اور خون کی ہولی کھیلی تھی لیکن آج کی ضعیفی میں تنہائی کا عذاب جھیل رہے ہیں ۔کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا وہاں صرف دماغ کام کرتا ہے اور دماغ کسی کی محبت اور وفا داری سے یکسر خالی ہوتا ہے اسے صرف مفاد اور نفع و نقصان کی ضرب تقسیم سے مطلب ہے ۔اب آج کی حقیقت نریندر مودی ہیں اور انہوں نے اڈوانی کے نقش قدم پر چل کر آج یہ مقام حاصل کیا ہے ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ آج بی جے پی کی حکومت میں ملک میں افراتفری کا ماحول اس لئے ہے کیوں کہ یہاں کوئی تجربہ کار نہیں اور نا ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ ۔بس سب کے سب صرف برہمنی سیاسی ایجنڈہ کو نافذ کرنے کے جوش میں ہوش سے بیگانہ ہو کر کام کررہے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ ہرطرف فساد ہی فساد ہے ۔بہر حال جو ہونا ہے وہ تو ہوگا ہے ۔
غور کیجئے بابری مسجد کا معاملہ دہائیوں سے چل رہا ہے اب اس قدر پیش قدمی ہو ئی ہے کہ ان نامور ہستیوں پر مقدمہ چلے گا جنہوں نے اسی بابری مسجد کے ملبہ سے بی جے پی کی حکومت کی تعمیر کی ہے ۔لیکن اب وہ تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ ہیں اور اپنے احتساب کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ہم یہ مانتے ہیں کہ سنگھ کے ایجنڈے کے مطابق ہی ملک میں بی جے پی کی حکومت چل رہی ہے ۔لیکن انسان میں لالچ کا مادہ اتنا گہرا ہوتا ہے کہ کئی بار اسے سمجھنا اور اس کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ یہ لالچ اور ہوس پردھان سیوک میں بھی ہو سکتاہے ۔بلکہ یہ ہے ۔اسی کے تحت وہ پارٹی یا برہمنی ایجنڈہ کو صرف نافذ کرنے کیلئے ہی نہیں بلکہ اپنی انا اور خود غرضی کی تسکین کیلئے بھی حکومت کررہے ہیں ۔اس کو ایسے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ جب اخوان کی مرسی حکومت میں السیسی جیسے منافق نے اخوانیوں کا اعتماد جیت کر انہیں نقصان پہنچایا تو بی جے پی میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ یہی لالچ اور خود غرضی ہی انسان کو اس کے بدترین انجام تک پہنچاتی ہے ۔حق کے ساتھ منافق ہو سکتے ہیں تو باطل کے ساتھ بھی لالچی اور مفاد پرست ہو سکتے ہیں ۔ہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ پردھان سیوک کیسی کیسی اداکاری کرتے رہتے ہیں ۔انہوں نے اپنے جانتے ہوئے تو اپنے دشمنوں کو ٹھکانے لگادیا ۔لیکن یوپی میں یوگی کے عروج سے جہاں ہندوتوا کا ایجنڈا مضبوط ہوا وہیں مودی کی ون مین آرمی والی کیفیت کو بھی چوٹ لگی ۔اس سے عدم تحفظ کا احساس یقیناًان کے اندر پیدا ہو ا ہوگا ۔اسی لئے سرد خانوں میں دبے ہوئے بابری مسجد کے مقدمے میں جان ڈال کر اڈوانی کی راہوں کو مسدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ صدر جمہوریہ کی ریس سے دور رہیں ۔ اگر اڈوانی ان ساری مشکلات کو توڑتے ہوئے صدر جمہوریہ بن جاتے ہیں تو نریندر مودی کے لئے یہ نیک فال نہیں ہے ۔انہوں نے سواتین سال جتنی آسانی سے پرنب دا کی سر پرستی میں نکالا ہے وہ اڈوانی کے زیر سایہ آسانی میسر نہیں ہوگی ۔
لوگ کہہ سکتے ہیں کہ بھلا اڈوانی اپنی ہی حکومت کے خلاف کیوں جائیں گے؟ اس کا جواب تو اوپر والا وہی جملہ ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ہے ۔ وہاں صرف مفاد کی بات کی جاتی ہے ۔ انسان میں شاید اقتدار کی ہوس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کیلئے رشتے اور دوستی بھی کوئی معنی نہیں رکھتے۔کانگریس نے بھی اپنے دور میں خود اپنی ہی ریاستی حکومت کو نہیں بخشا محض اس خوف کی وجہ سے کہ کہیں وہ وزیر اعلیٰ وزیر اعظم سے بڑی قوت والا نہ بن جائے یا اس کا سیاسی قد کچھ زیادہ ہی بلند نہ ہو جائے ۔مثال کے طور پر بہار میں کانگریس دور حکومت میں وزیر اعلیٰ کی فہرست دیکھ لیں ۔کانگریس نے خود اپنی ہی حکومت کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے کئی بار صدر راج کا نفاذ کیا۔دو سری جانب کانگریس نے عوامی ذہن کو دوسرا رخ دینے کیلئے جموں کشمیر کی منتخب عوامی حکومت کو بھی معمولی وجوہات کی بنا پر برخواست کیا ۔گیانی ذیل سنگھ بھی راجیو گاندھی حکومت کیلئے کئی بار مشکلات پیدا کرنے والے صدر جمہوریہ کے طور پر جانے جاتے ہیں جبکہ وہ بھی کانگریس کے ہی تھے اور راجیو گاندھی کی حکومت کوئی کمزور حکومت نہیں تھی وہ بی جے پی کی موجودہ حکومت سے زیادہ بڑی تعداد میں اراکین پارلیمنٹ رکھنے والے وزیر اعظم تھے 542 سیٹوں کی پارلیمانی سیٹوں پر 411 کانگریس کے ممبران تھے۔اسی سے اندازہ ہو جائے گا کہ موجودہ حکومت بھی اپنے ہی منتخب صدر جمہوریہ اگر اڈوانی ہوتے ہیں تو مطمئن نہیں رہ پائے گی ۔ اس پر ہر آن تلوار لٹکتی رہے گی۔نریندر بھائی نے اڈوانی کو بھی کنارہ لگا کر انہیں وہی سیاست کا اصول سمجھایا ہے۔ اسی لئے بابری کیس کو کھلوایا گیا ۔ ہو سکتا ہے مزید کچھ اور کوششیں بھی ہوں ۔لیکن تقدیر کے قاضی نے اگر سب کچھ بہتر نہیں لکھا ہے تو ساری بندشوں کے باوجود اڈوانی کے صدر جمہوریہ بن جانے پر بہر حال مودی جی اور ان کے رفقاء کے اچھے دن ختم ہو جائیں گے ۔ مودی حکومت کے شروعاتی دنوں میں اڈوانی کئی عوامی فورم پر بول چکے ہیں کہ ملک میں ایمرجنسی کا خدشہ بنا ہوا ہے ۔ وہ مودی کے اپنے گرد ارتکاز اقتدار کی پالیسی پر دبے لفظوں میں شکایتیں بھی کرچکے ہیں ۔اس بات کو شاید لالو پرشاد بھی سمجھ رہے ہیں اسی لئے انہوں نے اڈوانی کے نام پر نرمی کا اظہار کیا ہے ۔ 

0 comments:

Muslim Issues

غزوۂ بدر سے فتح مکہ تک فکر و عمل کا عظیم انقلاب


 
ڈاکٹر سلیم خان

اللہ رب العزت اہل ایمان کو یاددلاتا ہے ’’یاد کرو وہ وقت جبکہ تم تھوڑے تھے،زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا،تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبُوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا، تا کہ تم شکر گزار بنو‘‘۔ اب سردار ان مکہ کی پارلیمان دارالندوہ کا قرآنی منظر ملاحظہ فرمائیں ’’ وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ کافر آپ کے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپکو قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کر دیں۔وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔ اس وقت کسی کے وہم گمان بھی یہ بات نہیں تھی کہ ہجرت کے بعد دوسال کے اندر کیا ہونے والا ہے؟
آئیے میدان بدر میں چلیں ۔ نبی کریم ؐ اپنے ۳۱۳ جانبازوں کے ساتھ دست بہ دعا  ہیں ’’اے اﷲ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما، اے اﷲ.... اگر آج یہ مٹھی بھر نفوس ہلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا“۔ اس کے مقابلے مشرکین کے لشکر جرار کا سردار ابوجہل دعا کررہا ہے ’’اے اللہ ! ہم میں سے جو فریق قرابت کو زیادہ کاٹنے والا اور غلط حرکتیں زیادہ کرنے والا ہے اسے توآج توڑ دے۔اے اللہ ! ہم میں سے جو فریق تیرے نزدیک زیادہ محبوب اور زیادہ پسندیدہ ہے آج اس کی مدد فرما‘‘۔ اب دعا کا جواب دیکھیں ’’اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو، فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا۔ اب باز آ جاؤ تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے، ورنہ پھر پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اسی سزا کا اعادہ کریں گے اورتمہاری جمعیت، خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آ سکے گی اللہ مومنوں کے ساتھ ہے‘‘۔
۱۷ رمضان۲ھ کو غزوہ ٔ  بدر میں دو نوعمرجوانوں نے ابوجہل کو قتل کردیا۔ اس کے ساتھ ۷۰ سرداران قریش مارے گئے ۔ ان کی لاشوں کو ایک کنویں میں ڈال دیا گیا۔ واپسی سے قبل آپﷺ کنویں کی باڑ پر کھڑے ہوگئے۔ پھر انہیں ان کا اور ان کے باپ کا نام لے لے کر پکارا۔ اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں ! کاش کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺاطاعت کی ہوتی؟ کیونکہ ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے ہم نے برحق پایا تو کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے تم نے برحق پایا ؟یہ دیکھ کرحضرت عمرؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہؐ! آپ ایسے جسموں سے کیاباتیں کررہے ہیں جن میں رُوح ہی نہیں ؟ نبیﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ؐ کی جان ہے! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سن رہے ہو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تم لوگ ان سے زیادہ سننے والے نہیں لیکن یہ لوگ جواب نہیں دے سکتے‘‘۔
کفار مکہ اس انجام بد سے اس لیے دوچار ہوئے کہ انہوں نے رب کائنات کی اس تنبیہ سے روگردانی کی تھی ’’اور یہ لوگ اس بات پر بھی تلے رہے ہیں کہ تمہارے قدم اِس سر زمین سے اکھاڑ دیں اور تمہیں یہاں سے نکال باہر کریں لیکن اگر یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھیر سکیں گے۔یہ ہمارا مستقل طریق کار ہے جو اُن سب رسولوں کے معاملے میں ہم نے برتا ہے جنہیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا تھا، اور ہمارے طریق کار میں تم کوئی تغیر نہ پاؤ گے‘‘ ۔ آج بھی اہل ایمان اگر اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے اٹھیں تو یہ معجزہ رونما ہوسکتا ہے؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو          اتر سکتے ہیں عنبر سے قطار اندر قطار اب بھی
غزوہ ٔ بدر کی شکست کو بھلا دینا مشرکین مکہ کے لیے ناممکن تھا اس لیے اگلے سال انہوں نے بڑے لشکر کے ساتھ انتقام لینے کا فیصلہ کیا ۔ احد کے میدان میں مسلمانوں سے مقابلہ ہوا جس میں ابتداء میں کفارکو شکست ہوئی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔ اس جنگ سے لوٹتے ہوئے انہوں نے آئندہ سال بدر کے میدان میں ملنے کا چیلنج کیا جسے محمد ؐ نے قبول کیا۔ اگلے سال نبی کریمؐ اپنے لشکر کے ساتھ بدر کے میدان میں تشریف لے گئے لیکن وہ درمیان سے لوٹ گئے اور گویا جنگ کے بغیر شکست تسلیم کرلی ۔ اب ان لوگوں کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ تنہا مسلمانوں کوشکست نہیں دے سکتے اس لئے ۵ ھ میں سارے قبائل نے مل کر چڑھائی کرنے کا فیصلہ کیا اس لئے وہ جنگ احزاب کہلائی ۔ نبی کریم  ؐنے منفرد انداز میں خندق کھود کر اپنا دفاع کیا اور اللہ تعالیٰ نے دورانِ محاصرہ ایک ایسی زبردست آندھی بھیجی کے زبردست فوجی تیاری کے باوجوددشمنانِ اسلام کوبے نیل و مرام لوٹنا پڑا۔ 
اس کے بعدوالے سال میں مسلمانوں نے عمرہ کے لیے نکلنے کا اقدام کیا اور بالآخر یہ قصد صلح حدیبیہ پر منتج ہوئی ۔ معاہدہ ٔ صلح لکھوا کر فارغ ہونے کے بعد آپؐ نے فرمایا:  اٹھو ! اور اپنے اپنے جانور قربان کردو ، لیکن کوئی ٹس سے مس نہ ہوا ۔ پھر نبی کریم ؐ نے اپنا جانور ذبح کرکے سرمنڈوا لیا۔ یہ دیکھ کر صحابہ نے بھی اپنے اپنے جانور ذبح کرکےباہم ایک دوسرے کا سر مونڈدیا۔صلح حدیبیہ کی دو شرائط سے ایسا محسوس ہوتا تھا گویا آپؐ نے قریش کے دباؤ میں صلح کی ہے جس کے باعث اہل ایمان  حُزن وغم کا شکار تھے چنانچہ  حضرت عمر بن خطابؓ نے نبی کریم ؐ سےعرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا ہم لوگ حق پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا : کیوں نہیں ؟ انہوں نے کہا : کیاہمارے مقتولین جنتی اور ان کے مقتولین جہنمی نہیں ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا : کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا: تو پھر کیوں ہم اپنے دین کے بارے میں دباؤ قبول کریں ؟ اور ایسی حالت میں پلٹیں کہ ابھی اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا : خطاب کے بیٹے ! میں اللہ کا رسول ہو ں اور اس کی نافرمانی نہیں کرسکتا۔ وہ میری مدد کرے گا۔ اور مجھے ہرگز ضائع نہ کرے گا ۔
اس موقع پر سورہ فتح کی پہلی آیت نازل ہوئی ’’ بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہوئی فتح عطا کی ہے‘‘۔ ان حالات میں اس آیت کے  اسرارو رموز کی رسائی ناممکن تھی مگر بعد میں پیش آنے والے واقعات اس کی حقانیت کے شاہد و مفسربن گئے ۔ بنو بکر اور بنو خزاعہ کے درمیان قدیم عداوت تھی ۔صلح حدیبیہ کے تحت بنو خُزاعہ  نےرسول اللہؐ سے عہد وپیما ن باندھ لیا اور بنو بکر قریش کے ساتھ ہوگئے۔ بنو بکر نے بنو خزاعہ سے پرانا بدلہ چکا نے کی غرض سے رات کی تاریکی میں ان پر حملہ کردیاجس میں کئی لوگ مارے گئے ۔ قریش نےبدعہدی کرکے بنوخزاعہ کی پشت پناہی کی اور انہیں کھدیڑ کر حرم تک  لے آئے۔ حرم کعبہ میں بنو بکر نےفریاد کی کہ : اے نوفل ، اب تو ہم حرم میں داخل ہوگئے۔ تمہارا الٰہ ! ... تمہارا الٰہ ! ... اس کے جواب میں نوفل نے رعونت سے جواب دیا : بنو بکر !آج کوئی الٰہ نہیں۔ اپنا بدلہ چکا لو۔ میری عمر کی قسم ! تم لوگ حرم میں چوری کرتے ہو تو کیا حرم میں اپنا بدلہ نہیں لے سکتے۔اس سانحہ کے بعد عمرو بن سالم خزاعی نے دربار رسالتماب میں حاضر ہو کر اس طرح دہائی دی :’’اے پروردگار ! میں محمدﷺ سے ان کے عہد اور ان کے والد کے قدیم عہدکی دہائی دے رہا ہوں۔ ہم نے تابعداری اختیار کی اور کبھی دست کش نہ ہوئے۔ اللہ آپ کو ہدایت دے۔ آپ پُر زور مدد کیجیے اور اللہ کے بندوں کو پکاریئے ، وہ مدد کو آئیں گے۔ آپ ایک ایسے لشکر ِ جرار کے اندر تشریف لائیں گے جو جھاگ بھرے سمندر کی طرح تلاطم خیز ہوگا۔ یقینا قریش نے آپ کے عہد کی خلاف ورزی کی ہے اور آپ کا پُختہ پیمان توڑدیا ہے۔ انہوں نے رات میں حملہ کیا اور ہمیں رکوع وسجود کی حالت میں قتل کیا‘‘۔ قریش کی اپنی بدعہدی کا خوف لاحق ہوا تو ابوسفیان صلح صفائی کے لیے مدینہ آیا لیکن نامراد لوٹا قریش نے دریافت کیا تو بولا : میں محمد ؐ کے پاس گیا۔ بات کی تو واللہ! انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر ابو قحافہ کے بیٹے کے پاس گیا تواس کے اندر کوئی بھلائی نہیں پائی۔ اس کے بعد عمر بن خطابؓ کے پاس گیا تو اسے سب سے کٹر دشمن پایا۔ پھر علیؓ کے پاس گیا تو اسے سب سے نرم پایا۔ اس نے مجھے ایک رائے دی اور میں نے اس پر عمل بھی کیا۔ لیکن پتہ نہیں وہ کارآمد بھی ہے یا نہیں ؟ لوگوں نے پوچھا : وہ کیا رائے تھی؟ ابو سفیان نے کہا: وہ رائے یہ تھی کہ میں لوگوں کے درمیان امان کا اعلان کردوں۔ اور میں نے ایسا ہی کیا۔قریش نے کہا : تو کیا محمد نے اسے نافذ قرار دیا۔ ابو سفیان نے کہا : نہیں۔ لوگوں نے کہا : تیری تباہی ہو۔ اس شخص (علی) نے تیرے ساتھ محض کھلواڑ کیا۔ ابو سفیان نے کہا : اللہ کی قسم! اس کے علاوہ کوئی صورت نہ بن سکی۔
۱۰ رمضان ۸ ھ کو رسول ؐنے دس ہزار صحابہ کے ساتھ مکے کا رخ کیا۔ مکہ کے قریب مراء الظہران میں آپؐ نےدریافت کیا:اے ا بو سفیان! تم پر افسوس ، کیا اب بھی تمہارے لیے وقت نہیں آیا کہ تم یہ جان سکو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ؟ ابو سفیان نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ، آپ کتنے بردبار ، کتنے کریم اور کتنے خویش پرورہیں۔ میں اچھی طرح سمجھ چکاہوں کہ اگر اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہوتا تو اب تک میرے کچھ کام آیا ہوتا۔
آپؐ نے فرمایا : ابو سفیان تم پر افسوس ! کیا تمہارے لیے اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم یہ جان سکو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ابو سفیان نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر فدا۔ آپ کس قدر حلیم ، کس قدر کریم اور کس قدر صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔ اس بات کے متعلق تو اب بھی دل میں کچھ نہ کچھ کھٹک ہے۔ اس پر حضرت عباسؓ نے کہا: ارے ! گردن مارے جانے کی نوبت آنے سے قبل اسلام قبول کرلو !اور اقرار کر لو کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ اس پر ابو سفیان نے اسلام قبول کرلیا اور حق کی شہادت دی۔ ابو سفیان جب مکہ کے ایک  ٹیلے کے او پر سے مسلمانوں کے لشکر جرار میں شامل مختلف قبیلوں کا مشاہدہ کرچکا تو کہنے لگا: بھلا ان سے کون لڑ سکتا ہے ؟  اس کے بعد حضرت عباسؓ سے مخاطب ہوکر گویا ہوا ! تمہارے بھتیجے کی بادشاہت تو واللہ بڑی زبردست ہوگئی۔ حضرت عباسؓ نے کہا : ابو سفیان ! یہ نبوت ہے۔ ابو سفیان نے جواب دیا: ہاں ! اب تو یہی کہاجائے گا۔
اس موقع پر انصار میں سے حضرت سعد بن عبادؓنے اعلان کیا '،آج خونریزی کادن ہے۔ آج حرمت حلال کرلی جائے گی اللہ نے آج قریش کی ذلت مقدر کردی ہے ۔ یہ سن کر رسول اکرم ؐ نے فرمایا : نہیں بلکہ آج کعبہ کی تعظیم کا دن ہے۔ آج کے دن اللہ قریش کو عزت بخشے گا۔ اورحضرت سعدؓ سےپرچم لےکران کے صاحبزادے قیسؓ کے حوالے کردیا۔ اس کے بعد ابو سفیان نے مکہ میں اعلان کیا : قریش کے لوگو! یہ محمدؐ ہیں۔ تمہارے پاس اتنا لشکر لے کر آئے ہیں کہ مقابلے کی تا ب نہیں ، لہٰذا جو ابو سفیان کے گھر گھس جائے اسے امان ہے۔ لوگوں نے کہا :اللہ تجھے مارے ، تیرا گھر ہمارے کتنے آدمیوں کے کام آسکتا ہے ؟ ابو سفیان نے کہا : اور جو اپنا دروازہ اندر سے بند کرلے اسے بھی امان ہے۔ اور جو مسجد حرام میں داخل ہوجائے اسے بھی امان ہے۔ یہ سن کر لوگ اپنے اپنے گھروں اور مسجد حرام کی طرف بھاگے۔
انصار ومہاجرین کےساتھ نبی کریم ؐ مسجد حرام کے اندر آئے حجرِ اسود کو چوما اور بیت اللہ کا طواف کیااور ایک کمان سے بیت اللہ کے گرد اور اس کی چھت پرموجود۳۶۰   بُتوں ڈھا کر اعلان کردیا:’’حق آگیا اور باطل چلاگیا، باطل جانے والی چیز ہے‘‘۔ خانہ کعبہ سے رسول اللہؐ نےقریش کومخاطب کرکے فرمایا:اللہ کے سواکوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا سارے جتھوں کو شکست دی۔ سنو ! بیت اللہ کی کلیدبرداری اور حاجیوں کو پانی پلانے کے علاوہ سارا اعزاز یاکمال یا خون میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہے۔ اے قریش کے لوگو! اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کردیا۔ سارے لوگ آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے۔ اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی :اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تم میں اللہ کے نزدیک سب سے باعزت وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔ بیشک اللہ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔
آج کو ئی سرزنش نہیں:اس کے بعد آپؐ نے فرمایا : قریش کے لوگو! تمہارا کیا خیال ہے۔ میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرنے والا ہوں ؟ انہوں نے کہا : اچھا۔ آپ کریم بھائی ہیں۔ اور کریم بھائی کے صاحبزادے ہیں۔ آپؐنے فرمایا : تو میں تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں جو یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی کہ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔یہ حسن اتفاق ہے کہ ۱۷ رمضان ۲ھ کو غزوۂ بدر کے ساتھ شروع ہونے والی مہم ۲۰ رمضان ۸ ھ کو اختتام پر پہنچی اور عالم ِ انسانیت کو ہر قسم کی غلامی سے نجات دلا کر عظیم ترین آزاد ی سے شرفیاب کر گئی ۔ فکر و عمل کا وہ عظیم انقلاب برپا ہوگیا جس کی بابت علامہ  اقبال فرماتے ہیں؎
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب        پادشاہوں کی نہیں‘ اللہ کی ہے یہ زمیں!
(اس تحریر کے واقعاتِ سیرت الرحیق المختوم سے مستعار ہے)

0 comments:

Muslim Issues

دین وسیاست کا رشتہ

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

اسلام ایک جامع دین ہے اور اس کے جامع ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ عبادت وریاست کا مجموعہ ہے مرکزی حیثیت یقیناًخدا کے ساتھ لگاؤ اور تعلق کو حاصل ہے اور وہ اصلاً مطلوب ہے، لیکن خدا کے ساتھ تعلق کی استواری اور پھر اس کے بعد خدا کے عادلانہ قوانین کے نفاذ کے لئے اختیار اور طاقت کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ اس کے لئے بھی سعی وکاوش ایک دینی ضرورت ہے، نہ حکومت کے بغیر زمین میں فتنہ وفساد کودفع کیا جاسکتاہے اور نہ اللہ کے بندوں کے درمیان عدل وانصاف اور امن وامان کا قیام ممکن ہے، کچھ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حکومت اللہ کی طرف سے صرف انعام ہے۔ اور قرآن میں اعمالِ صالحہ پر عزت وحکومت کی خوشخبری دی جاچکی ہے،چونکہ حکومت اہل ایمان کے لئے ایک بشارت اور وعدہ الہٰی ہے اس لئے جو چیز وعدۂ الہٰی کی حیثیت رکھتی ہو اس کے لئے سعی وجانفشانی کی ضرورت نہیں،یہ تصور بہت سے مذہبی لوگوں میں عام ہے ۔ لیکن یہ تصور ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ یہ دنیا عالم اسباب ہے، اللہ تعالی کے وعدوں کا ظہور بھی عام طور پر اسباب کی سطح پر ہوتاہے، جب اللہ تعالیٰ کسی انعام کا وعدہ فرماتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتاہے کہ وہ اسباب وتدابیر کے بغیر اس کو پورا کردے گا۔ اگرچہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے لیکن یہ اس کی سنت عادیہ کے خلاف ہے، اس عالم اسباب وتدبیر میں اس نے اپنے موعودات کے لئے اسباب وعلل کا واسطہ رکھا ہے مثال کے طور پر ، اللہ تعالیٰ نے ا پنی مخلوق کے لئے روزی ورزق کا وعدہ فرمایا(وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقہا) ترجمہ’’نہیں ہے کوئی چلنے والا زمین پر مگر یہ کہ اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘لیکن اس کے باوجود اس نے حصول رزق کو طلب اور کوشش پر موقوف رکھا ہے، اور رزق حلال کے حصول کے لئے تدبیر اختیار کرنے کا حکم دیا ہے (وابتغو من فضل اللہ)ترجمہ’’ اور تلاش کرو اللہ کا فضل رزق میں سے‘‘۔ اسلام کی تاریخ جدید میں فقہاء محدثین مفسرین اور شارحین حدیث کی کمی نہیں لیکن اسلامی علوم کی جامعیت اور سیرت نبوی اور تاریخ اسلام میں رسوخ وکمال کے اعتبار سے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے بعد جن شخصیتوں کا ہندوستان میں نام لیا جاسکتا ہے ان میں ایک اہم نام علامہ سید سلیمان ندوی کا ہے۔ علامہ ندوی اس موضوع پر رقم طراز ہیں: ’’اسلام دین ودنیا اور جنت ارضی وجنت سماوی اور آسمانی بادشاہت اور زمین کی خلافت دونوں کی دعوت کو لے کر اول ہی روزسے پیدا ہوا ہے۔ اس کے نزدیک عیسائیوں کی طرح خدا اور قیصر دونہیں، ایک ہی شہنشاہ علی الاطلاق ہے جس کے حدود حکومت میں نہ کوئی قیصر ہے نہ کوئی کسریٰ ، اس کا حکم عرش سے فرش تک اورآ سمان سے زمین تک جاری ہے۔ وہی آسمان پر حکمراں ہے وہی زمین پر فرماں روا ہے (ہو الذی فی السماء الہ وفی الارض الہ)‘‘ (سیرت النبی جلد ۷ صفحہ ۷)
اسلام کے تصور دین کی وضاحت میں تو ازن اکثر کھویا گیاہے۔ کبھی ایسا ہوا کہ اسلام کے سیاسی پہلو کو اس طرح اور اتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے کہ اعتقادات وعبادات کو بھی اس کا تابع کردیا گیا اور کبھی ایسا ہوا کہ اسلام کی سیاسی تشریح سے کشتی لڑکرکچھ لوگ رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوگئے اور دوسری انتہاء تک پہونچ گئے۔ انھوں نے اس قسم کا دین پیش کیا ہے جس میں نہ جہاد ہے نہ احتساب نہ اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش اورنہ کوشش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور تائیداور نہ دل کے اندر اس کی آرزو اور تمنا۔ اس موضوع پر مکمل اعتدال اورمکمل توازن جن علماء میں پایا جاتا ہے ان میں میرے محدود مطالعہ میں علامہ سید سلیمان ندوی کا نام سر فہرست ہے ۔ان کے فکر ی توازن کا اندازہ اس ا قتباس سے ہوسکتا ہے:
اسلام کے سارے دفتر میں ایک حرف بھی ایسا موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ قیام سلطنت اس دعوت کا اصل مقصد تھا اور عقائد وایمان، شرائع واحکام اس کے لئے بمنزلہ تمہید تھے بلکہ جو کچھ ثابت ہوتاہے وہ یہ ہے کہ شرائع اور حقوق وفرائض ہی اصل مطلوب تھے اور ایک حکومت صالحہ کا قیام ان کے لئے وجہ اطمینان اور سکون خاطر کا باعث ہے تاکہ وہ احکام الٰہی کی تعمیل بآسانی کرسکیں۔ اس لئے وہ( حکومت اور اقتدار ) بھی عرضاً مطلوب ہے (سیرت النبی جلد ۷، صفحہ ۶)
سید صاحب اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت حکومت وسلطنت اور دنیا کی سیاست ہے۔ ‘‘
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام کی تاریخ سلطنت ومذہب کے اشتراک کی تاریخ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں مکی ومدنی دونوں زندگی جمع کردی گئی تھی آپ کی ذات مبارک میں امامت ونبوت دونوں کو اس طرح بہم کردیا گیا تھا کہ بقول علامہ سید سلیمان ندوی ’’ایک کو دوسرے سے جدا کرنا ناخن کو گوشت سے علیحدہ کرنا ہے‘‘، یہ بھی امر واقعہ ہے کہ اسلام میں قتال وجہاد کی دعوت بر ملادی ہے قرآن میں سلطنت کے ملنے کو عزت اور سلطنت کے چھن جانے کو ذلت قرار دیا گیا ہے۔
(اللہم مالک الملک تؤتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء وتعز من تشاء وتعز من تشاء بیدک الخیر)ترجمہ ’’ اے اللہ حکومتوں کے مالک تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے۔ توجسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے اور تیرے ہی قبضے میں ہر قسم کا خیر ہے‘‘۔
اس آیت میں عزت سے مراد سلطنت کا ملنا او اور ذلت سے سلطنت کا چھن جاناہے، بلاغت کی اصطلاح میں اس ترتیب کو’’ لف ونشر مرتب ‘‘کہتے ہیں۔یعنی ’’تؤتی الملک من تشاء‘‘کا تعلق ’’ تعز من تشاء‘‘ کے ٹکڑے سے ہے اور ’’ تنزع الملک ممن تشاء‘‘ کا تعلق ’’ تذل من تشاء‘‘سے ہے یعنی عزت کا تعلق اقتدار اور حکومت سے ہے اور حکومت کی طاقت سے محروم ہونا عزت سے محروم ہونا ہے
اس دور میں بہت سی اسلامی تحریکیں ہیں جو وہی دینی فکر رکھتی ہیں جس کی وضاحت علامہ سید سلیما ن ندوی نے کی ہے ۔ اس طرز فکر سے مسلم حکومتیں ہمیشہ خائف ہوتی ہیں اورایسے طر ز فکر رکھنے والوں کے خلاف فتوے جاری کرتی ہیں اور ان کو دہشت گرد قرار دیتی ہیں ۔اس مضمون کی روشنی میں لوگوں کو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ بہت سی حکومتیں اور سلطنتیں مسلم تحریکات اور بہت سے علماء کے خلاف کیوں ہو جاتی ہیں ۔ یہ حکومتیں علماء کو دہشت گرد کیوں کہتی ہیں یہ حکومتیں ان علماء سے کیوں خوش رہتی ہیں جو خاک کے آغوش یں تسبیح ومناجات کو دین سمجھتے ہیں او ر سیاست اور حکومت کو بے دینی سمجھتے ہیں اس مضمون کی روشنی میں لوگوں کوبے حد اہم سوال کا جواب مل جاسکتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جن تحریکوں پر اور جن شخصیات پر دہشت گردی کا الزام ہے ان کو دور دور تک دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں رہا اور خود حکومتیں بھی یہ بات اچھی طرح جانتی ہیں ۔لیکن دین کے مذکورہ بالا تصور کے حامل ہونے سے اورنگ نشین اصحاب کر وفر سلاطین کی نیند اڑ جاتی ہے اور وہ علماء کی تحریروں کے خدوخال اور آرائش خیال سے اندیشہ ہائے دور دراز میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور ان کو ڈراؤنے خواب نظر آنے لگتے ہیں ۔ یہی ڈراؤنے خواب تھے جو فرعون کو نظر آنے لگے تھے اور اس نے بنی اسرائیل کے نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ان ملوک وسلاطین کو چاہئے کہ ایسے کالج اور ایسے تعلیمی ادارے قائم کریں جن میں پڑھ کر نوجوان علماء کے نقطہ نظر کے خلاف ہوجائیں ۔ اکبر الہ بادی نے حکمرانوں کو یہی راستہ سمجھایا تھا
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کے فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

0 comments:

Muslim Worlds

مشرق وسطیٰ کو سکون نہیں!



نہال صغیر

مشرق وسطیٰ ایک بار پھر بارود کے ڈھیر پر ہے ۔ویسے پچھلی دو دہائی سے وہاں بارود ہی بارود ہے ۔لیکن بیچ بیچ میں ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ابھی بس سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور امن ہی امن ہوگا ۔لیکن دو وجوہات سے وہاں امن کی فی الحال کوئی گنجائش نہیں ہے اول امریکہ اور صہیونی ناپاک سازشیں اور دوم ہمارے عربوں کی احمقانہ حرکتیں ۔ایک بار پھر انہوں نے وہی حرکتیں کی ہیں جو کبھی نوے کی دہائی میں کی تھی جس کا خمیازہ پوری امت مسلمہ اب تک بھگت رہی ہے ۔قطر کو چھ عرب اور دیگر مسلم ملکوں نے علیحدہ کردیا ہے ۔اس پر الزام ہے کہ وہ شدت پسندوں کی مدد کررہا ہے ۔تین نام آئے ہیں ان میں آئسس یعنی داعش کا نام تو صرف دباؤ بنانے کیلئے اور امریکہ بہادر یا عالم انسانیت میں امن کے دیگر ٹھیکیداروں کو متحرک اور ان کو مدعو کرنے کیلئے لیا گیا ہے ۔ہاں حماس اور اخوان المسلمون کی مدد اور انہیں دہشت گرد ماننے سے انکار ہی اصل جرم ہے جو نام نہاد عرب ملکوں کو پسند نہیں ہے ۔ایک صدی سے عالم عرب اور عالم اسلام مغربی استعماری قوتوں کی چیرہ دستیوں کامرکز ہے ۔اسی دور میں مسلمانوں کی قوت کو مجتمع کرنے اور انہیں عالمی پیمانے پر موثر رول ادا کرنے کے قابل بنانے کیلئے اخوان المسلمون وجود میں آئی تھی۔داعش کو تو آج تک کسی بھی مسلم ملک نے شرف قبولیت نہیں بخشا۔اسے قبولیت مل بھی کیسے سکتی ہے جبکہ اس کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے سیدھے اپنی خلافت کا اعلان کردیا ۔یہ بات اب مسلمانوں کو صرف تقریروں اور تحریروں میں اچھی لگتی ہے لیکن عمل کے میدان چونکہ سخت اور صبر آزماء ہوتے ہیں اس لئے اسے رد کردیاجاتا ہے ۔دوسری بات یہ کہ خلافت یا ایسی کسی بھی تحریک جس سے مسلمانوں کے عالمی پیمانے پر متحد ہونے کا دشمنوں کو خدشہ ہو وہ سیدھے دہشت گردی کے زمرے میں آجاتی ہے ۔دشمن توخیر دشمن ہی ٹھہرے وہ تو اسی کام کیلئے ہی بنے ہیں پر مسلمانوں کے شاہان بھی ایسی کسی تحریک کے حق میں اس لئے نہیں ہیں کہ اس سے ما بدولت کی پر تعیش زندگی میں رخنہ پڑ جائے گا۔انہیں شاہی محلوں سے نکل کر میدان عمل کا رخ کرنا ہوگا ۔داعش کو اتنے خطرناک دہشت گرد کے روپ میں دکھایا گیا کہ شاید ہی کوئی ہو جو ان کی حمایت کرے گا ورنہ ان کا نام آتے ہی مسلمان کان کو ہاتھ لگاتا ہے ۔ اخوان المسلمون اور حماس چونکہ تحریکی جماعتیں ہیں۔اس کی جڑیں زمین میں کافی گہرائی تک پیوست ہیں اس لئے عالم عرب کے یہ چند بے وقعت حکمراں اگر اس کے ساتھ کوئی تعاون نہ بھی کریں تو عوام کا دل تو ان کے ساتھ ہی ہے اور انہوں نے مالی اخلاقی اور افرادی مدد بھی کی ہے ۔یہ شاید پہلی بار ہے جب کھل کر ایک عرب ملک نے ان کی حمایت کی ہے اور اتنی سختیوں کے باوجود بھی وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے ۔شاہان عرب کے غیر دانشمندانہ ، دوسرے کی ایماء اور عجلت میں کئے گئے یہ فیصلے تیسری خلیجی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں ۔اگر ایسا ہوا تو معاشی مندی کی شکار دنیا کو ایک نئے کرب سے گزرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے ۔
قطر پر پابندی اور اسے تنہا کرنے کی کوشش پر ترکی صدر طیب ارودگان نے کہا کہ یہ ایک بڑی غلطی ہے اور خطے میں عدم استحکام کا سبب بنے گا ۔یہاں ترکی وہ واحد ملک ہے جو قطر کے ساتھ کھڑا ہے ۔بلکہ سوشل میڈیا پر تو ایک تصویر وائرل ہورہی ہے اس کے مطابق قطر نے ترکی سے اشیائے خوردونوش منگوانا شروع کردیا تھا ۔کیوں کہ عرب ملکوں نے اچانک اس پر پابندی عائد کرکے سارے تعاون سے ہاتھ اٹھا لیا ۔بہر حال ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قطر پر پابندی کیوں لگائی گئی اور اب اس سے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔قطر پر پابندی کی اصل وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ مسلم ملکوں میں ترکی کے بعد ایک ابھرتی ہوئی معاشی قوت بن رہا تھا ۔بلکہ جو کچھ تفصیلات آرہی ہیں اگر وہ سچ ہیں تو وہ ترکی کے بعد دوسرے مسلم ملک ہے جو دینے کے قابل بن گیا ہے ۔قطر کے ساتھ ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے مسلم امہ کے خلاف صہیونی میڈیا کا جواب دینے کیلئے ایک ایسا نیوز چینل کھڑا کردیاجس کے بارے میں ملک کے سربراہ سے لے کر قومی لیڈر اور علاقائی قائد تک صرف باتیں کرتے ہیں اور بس لیکن اس نے بین الاقوامی معیار کا چینل کھڑا کرکے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا کہ کام ایسے کیا جاتا ہے ۔ قطر صحت تعلیم معیشت سب میں ایک مثال قائم کرتا جارہا تھا ۔یہ باتیں ان قوتوں کو ہضم کیسے ہوں گی جنہوں نے منصوبہ ہی بنا رکھا ہے کہ مسلمانوں کو کبھی آگے نہیں آنے دینا ہے ۔ان کے سامنے ترکی کی مثال ہے جب وہ خود کفیل ہو گیا اور عالمی بینک سے قرض لینے کی بجائے اسے دینے کے قابل ہو گیا تو اب اپنے فیصلے خود ہی کرتا ہے ۔اس پر کسی دباؤ کا اثر نہیں ہوتا ۔اسی طرح قطر بھی کرنے لگا اور پھر دیگر اور بھی مسلم ملک سامنے آتے گئے تو کیا ہوگا ۔
شاید ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ میں عرب سربراہان کو جہاں دہشت گردی سے لڑنے کے اسباق پڑھائے وہیں انہوں نے ان کے احساس عدم تحفظ کو اور گہرا کردیا ۔حماس اور اخوان کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش اور شہنشاہوں کی ان کے تئیں نفرت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ظاہر کرتا کہ اگر یہ عوامی تحریکیں زور پکڑ گئیں اور انہیں عوام میں تو مقبولیت حاصل ہی ہیں اگر انہیں اس میں مزید کامیابی مل گئی تو ان کی خاندانی بادشاہت کیا ہوگا ۔حالانکہ یہ محض ایک واہمہ ہے ۔یہ وہم بزدلوں اور ظالموں کو ہر آن ڈراتا رہتا ہے ۔مسلم امہ کی جو صورتحال ہے اور ہر میدان میں ہماری پسماندگی پر جو تقریریں کی جاتی ہیں اور کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں اس کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے عملی شکل میں لایا جائے اور ایسی عوامی تحریک کو ابھارا جائے جس سے مسلمانوں کی طاقت مضبوط ہو اور وہ عالمی پیمانے پر قائدانہ رول اداکرسکیں ۔لیکن برا ہو عدم تحفظ کے احساس کا جس نے سب پر پانی پھیر دیا ہے ۔سعودی عرب اور عرب امارات ہمیشہ ایران سے خدشہ کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ علاقہ میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے ۔یہ سچ بھی ہے ۔لیکن سعودی عربیہ کی سربراہی میں موجودہ قطر مقاطعہ سے پیدا ہونے والی بے چینی سے تو خطہ میں کسی کو فائدہ ہوگا تو وہ صر ف ایران ہے ۔یہ بھلا کہاں کی دانشمندی ہے کہ محض اپنی خاندانی حکومت کو بچانے اور اس کی طرف سے کسی خدشہ میں پڑ کر ایسی کارروائی کی جائے جس سے علاقے میں دوسروں کو کھیل کھیلنے کا موقعہ ملے ۔آج تک عرب ممالک اپنی کوئی مضبوط و مستحکم فوج نہیں بنا سکے ۔اگر انہوں نے حماس اور اخوان جیسی تنظیموں کی سرپرستی کی ہوتی تو خطہ ایک فوجی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آچکا ہوتا ۔لیکن انہوں نے بجائے یہ کہ اخوان کی قوت میں اضافہ کا سبب بنتے ان کی فکر اور اس کی قوت کو کچلنے میں اپنا سرمایہ لگایا ۔مصر میں سیسی کی بغاوت اور مرسی کی گرفتاری اور اس کے بعد ہزاروں اخوانیوں کے قتل عام سے آخر کیا ظاہر ہوتا ہے ۔ آج وہی دہشت گرداور باغی سیسی قطر کے خلاف کھڑا دنیا کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وکالت کررہا ہے ۔بہتر ہوگا کہ سعودی عرب اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرے اور امت کے وسیع تر مفاد میں قطر کے خلاف مقاطعہ کو ختم کرے ۔اگر وہ ایران کی مداخلت اور بحرین اور یمن میں نہیں چاہتا تو اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ خطے کے ممالک کو یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھنا پڑے گا ۔ورنہ اس طرح کی غیر دانشمندانہ کارروائی سے وہ فوجی اتحاد جو سعودی عرب کی سربراہی میں ہوا ہے جس سے مسلمانوں کو کافی امیدیں تھیں دم توڑ دیں گی۔قطر پر یہ الزام کہ وہ عرب عوام کو خبروں کے ذریعہ گمراہ کررہاہے بچکانہ پن ہے ۔ساری دنیا جانتی ہے کہ آج کل ہیکر کتنے سرگرم ہو گئے ہیں ۔وہ ہیک کرکے کچھ بھی اور کبھی بھی کرسکتے ہیں ۔جیسا کہ الزام لگایا جارہا ہے کہ روسی ہیکروں نے قطر کی سرکاری نیوز ایجنسی میں ہیکنگ کے ذریعے ایران کی حمایت اور سعودی عرب کے خلاف نیوز پوسٹ کئے ۔یہ ممکن بھی ہے ۔روس فی الحال مشرق وسطیٰ میں پھر سے متحرک ہونے کی کوشش میں ہے ۔اس لئے ترکی اور کویت کی گزراشات پر غور کیاجائے اور خطہ میں عدم استحکام کو روکا جائے ۔بہت دنوں کے بعد سعودی عرب کی عوامی حمایت میں جو اضافہ ہوا تھا وہ موجودہ بحران سے متاثر ہوگا ۔سعودی عرب کو اس کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔

0 comments:

Muslim Worlds

بہار عرب:اک عمر گذری حسرت فصل بہار میں



پروفیسر محسن عثمانی ندوی

مختلف سیاسی نظریات کے تجربے کئے جاتے رہے ہیں اسلام کا سیاسی نظریہ جو قرآن وسنت پر مبنی ہے وہ بھی تاریخ میں تجربہ سے گذر چکا ہے پہلا تجربہ قرون اولی میں کیا گیا تھا ۔ اسلامی سیاست کے طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دور کے مسلم ملکوں کے نظام کا جائزہ لیتا رہے کہ وہ نظام اسلام کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔اس طرح سے اسلام کا سیاسی نظام کیا ہے اس کی تشریح کے بعد اس کی بھی ضرورت ہے کہ بتایا جائے کہ موجودہ عالم اسلام کا سیاسی نظام اسلا م کے معیار مطلوب سے کس قدرنزدیک ہے یا کس قدردور ہے اور اس سے اسلام کی کیا نیک نامی یا بدنامی ہورہی ہے۔ ایک مدت سے علماء یہ محسوس کرتے تھے کہ مسلم ملکوں کا نظام اسلام کے جمہوری نظام سے یا شورائی نظام سے ہٹ چکا ہے اس میں بہت سی خرابیاں در آئی ہیں ۔ایسے میں جب کئی ملکوں میں انقلاب نے دستک دی تو امید کی کرن سینوں میں جاگی تھی۔ تمام مخلوقات میں انسان کو اللہ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ حالات کو تبدیل کرسکتا ہے اور غلطیوں کو درست کرسکتا ہے یہ صلاحیت اللہ نے دوسری مخلوقات کو نہیں عطا کی ہے ۔ انسان کو یہ حوصلہ دیا گیا ہے کہ وہ ماحول کے رحم وکرم پر نہ رہے اور جو نظام غلط ہے اس کو بدلنے کی کوشش کرے ۔ اس لئے عرب دنیا میں تبدیلی کی لہر چلی تو اہل عقل وشعور نے اس کا خیر مقدم کیا تھا ۔عرب دنیا میں جمہوریت کی بہار اور نسیم جاں فزا آنے کو تھی، Arab spring یعنی بہار عرب کے آنے کے بڑے چرچے تھے، آمد بہار کی خبر پورے گلستاں میں عام تھی، اسلامی ذہن کے لوگوں کو خوشی تھی کہ شاید اب صحیح اسلامی حکومت قدیم جابرانہ مسلم حکومتوں کی جگہ پر قائم ہوجائے ا ور جسے اسلامی جمہوریہ کہا جاسکے ، خیر مقدم کے لئے لوگوں نے راہ وفا میں دل سا ایک چراغ جلا رکھا تھا، لیکن پھر کیا ہوا ؟ یہ ہوا کہ کوئے وفا میں روشنی نہ ہوسکی اور وہی ہوا جو ایک شاعردلنواز کلیم عاجز نے کہا تھا :
کچھ دور ہی بہارِ چمن آکے رہ گئی
ابھری نہ تھی کہ آرزو مرجھا کے رہ گئی
پھیلائے ہاتھ شاخ نے پھیلاکے رہ گئی
خوشبوئے گل نہ جانے کہاں جا کے رہ گئی
اک عمرگزری حسرت فصلِ بہار میں
اب تک تڑپ رہے ہیں اسی انتظار میں
فصل بہار کے انتظار میں واقعی اک عمر گذری تھی،صحیح اسلامی ریاست صرف خلافت راشدہ کے دور تک رہی ،اس کے بعد تھوڑے تھوڑے وقفے ملتے ہیں جس میں اسلام کا نظام حکمرانی جلوہ افروز نظر آتا ہے ورنہ بحیثیت مجموعی اسلام صرف عبادات میں باقی رہا، اسلام نے جمہوریت اور آزادی رائے کا چراغ اس وقت روشن کیا تھا جب ساری دنیا میں استبدادی نظام اور موروثی بادشاہت کا اندھیرا چھایا ہوا تھا ،اسلام نے انسان کو بنیادی سیاسی اور سماجی حقوق اس وقت دیئے تھے جب دنیا کے ملکوں میں ان کا وجود نہیں تھا آج اس دور میں جب ساری دنیا میں جمہوریت کا دلفریب نغمہ گونج رہا ہے انسانی حقوق کا چارٹر موجود ہے خود ہندوستان کے اندرلوگ اپنی مرضی سے جسے چاہتے ہیں اقتدار کی کرسی پر بٹھاتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں بے راج اور بے تاج کردیتے ہیں ، لیکن عرب ملکوں میں قیصر وکسری کا استبداد ی نظام اور ملوکیت کا دلدوز دلفگار اور دلخراش ماحول چھایا ہوا ہے ۔مزید یہ کہ اسلامی اسٹیٹ کے مقاصد بھی ان سے پورے نہیں ہورہے ہیں ۔غیر اسلامی اور غیر جمہوری اور غیر عادلانہ حکومت کا زمانہ ان ملکوں میں اتنا طویل ہوگیا کہ بہت سے لوگ اسے اب ضروری نہیں سمجھتے ہیں کہ تبدیل لائی جائے، اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور استبدادی نظام کے خلاف کہیں صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے تو مفتیان حرم اس کے خلاف فتویٰ کی بندوق کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ حضرات صرف ذکر وفکر صبح گاہی اور مزاج خانقاہی کواوربے دین اور ظالم حکمراں کی بے چوں چرا اطاعت کو مکمل اسلام سمجھتے ہیں۔عرب ملکوں میں اور بالخصوص خلیجی ریاستوں میں درہم ودینار کے معاشی مفادات میں مشغول رہنے والے کچھ ظاہری طور پر دیندار لوگ خود کو ربانیت کا علم بردار کہتے ہیں ،ان کی ربانیت نماز وروزہ سے مکمل ہوجاتی ہے باقی اسلامی نظام اور قوانین شریعت کے نفاذ کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے،اور قوانین شریعت کے نفاذ کی تحریک کے علم برداروں پرمصر اور شام اور خلیجی ریاستیں ،سعودی عرب ، امارات اور بحرین ظلم کریں اور اپنے مفاد کے لئے ان کو دہشت گرد قرار دیں انسانی حقوق کو روند ڈالیں آزادی تحریر وتقریر کو کچل دیں اور عبد الفتاح سیسی جیسے غاصب اور غدار کی اربوں ڈالر سے مدد کریں اور اگر کوئی ملک جیسے قطر دینی جماعت کے لوگوں کو پناہ دے تو وہاں کی حکومت کو دھمکیاں دے اور اس کے ساتھ تعلقات منقطع کرلے توان مسلم ملکوں کے نام نہاد دین داروں کے سروں پربھی جوں نہیں رینگتی ہے ، ان میں بہت سے لوگ حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں۔دنیاکے موجودہ جمہوری نظام کی طرح اسلام میں بھی ظلم کے خلاف احتجاج کا اور اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کا پورا حق دیا ہے اور دنیا اس حق کو تسلیم کرتی ہے۔ اخوان اور دوسری دینی تحریکات نے کئی عرب ملکوں میں حکومتوں کے خلاف احتجاج کی پر امن تحریکیں چلائی تھی لیکن یہ عرب حکومتیں پر امن احتجاج کو برداشت نہیں کرسکیں دنیا میں ہرجگہ احتجاج کا حق تسلیم کیا گیا ہے ۔ گاندھی جی نے اسی نظریہ کے تحت برطانوی حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلائی تھی اور دنیا میں آج بھی اظہار خیال کی آزادی کو کوئی نہیں روکتا ہے، لیکن ان مسلم حکومتوں میں کوئی آزادی نہیں ۔ حرمین شریفین کی سرزمین کے والی بھی جب خلاف اسلام حرکت کرنے لگیں اور دینی تحریکات پر دہشت گردی کا الزام لگا نے لگیں اور قطر سے اپنے تعلقات اس لئے منقطع کرلیں کہ وہاں اخوان کو پناہ دی جاتی ہے اور اس مقدس سرزمیں یعنی حجازکے علماء بھی اپنی حکومت کا ساتھ دینے لگیں تو مایوسی پیداہوتی ہے ۔ قیامت قریب ہے وہاں یہ فیصلہ ہوگا کہ کس کا نقطہ نظر درست تھا،ان علماء کا جواپنی حکومت کی غلط پالیسی کی تائید میں بیانات دیتے رہے اور ظلم کا ساتھ دیتے رہے یا وہ علماء جو اللہ کی شریعت کے نفاذ کی تحریک چلاتے رہے اور حکومت کے مظالم برداشت کرتے رہے، یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ وفاداری اسٹیٹ کے ساتھ ہوتی ہے نہ کہ حکومت کے ساتھ ، اسلام میں اور جمہوریت میں حکومت پر ہر طرح کی تنقید کی اجازت ہے ۔یہ اجازت عہد حاضرکی بیشتر مسلم حکومتیں دینے کے لئے تیارنہیں ہیں،اس اعتبار سے یہ سب صرف مسلم حکومتیں ہیں نہ کہ اسلامی حکومتیں۔ان حکومتوں میں بہت سی حکومتیں ہیں حہاں اسلامی قوانیں پر بھی عمل نہیں ہوتا ہے ۔ اسلامی قوانین یا خدائی قوانین ان ضابطوں کو کہتے ہیں جنہیں خدا نے اپنے برگزیدہ بندوں یعنی نبیوں اور پیغمبروں کے ذریعہ عام انسانوں کی ہدایت کے لئے بنایا ہے ۔ چنانچہ بہت سے عرب اور مسلم ملک ہیں جہاں شراب خانہ خراب پر کوئی پابندی نہیں ہے جہاں فحاشی کے اڈے موجود ہیں ، سودی کاروبار کی پوری اجازت ہے ۔ان برائیوں کے خلاف جب دینی تحریکیں مورچہ سنبھالتی ہیں تو ان کو پولیس اور فوج کی طاقت کے ذریعہ کچل دیا جاتاہے ۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ مغرب میں جمہوریت کے دعوے دارٍ مشرق میں اور عرب ملکوں میں جمہوریت کے مددگا نہ بن سکے ، کیونکہ عرب دنیا میں جمہوریت کے پردہ سے اور انتخابات کے ذریعہ جولوگوں کا پسندیدہ نظام نکل کر سامنے آیا وہ اسلامی نظام تھا اور جو لوگ منظر عام پر آئے وہ اسلام پسند اور دین وشریعت کے وفادار لوگ تھے۔ مغرب نے سوچا کہ دنیا میں ہر جگہ جمہوریت رہے لیکن عرب ملکوں میں جمہوریت نہ آئے تو بہتر ہے۔ چنانچہ پانسا پلٹ دیا گیا، اسلامی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا،استبدادی نظام پھر سے قائم ہوگیا اور اسلام پسند دار ورسن کے حوالے یا پس دیوار زنداں ڈال دیئے گئے۔ موج خوں سروں پر سے گذر گئی ۔ کرب وبلا کی خوں چکاں داستان پھر سے تازہ کی گئی اور جمہوریت کے چاہنے والے اہل اسلام جو اسلام کے سیاسی نظام کو دیکھنے کے لئے چشم براہ تھے سر راہ وفا د ل برباد کو ہاتھوں سے تھامے جمہوریت کا چہرہ زیبا دیکھنے کے لئے بس انتظار ہی کرتے رہ گئے ۔ شام میں اسلام کی شام غریباں زلف جاناں کی طرح دراز ہوتی چلی گئی ۔ کوئی پوچھے ٹوٹے ہوئے ارمانوں کا اور زخمی دلوں کا حال شیخ یوسف القرضاوی سے اور راشد الغنوشی سے اورہندوستان اور دنیا کی اسلامی جماعتوں سے وابستہ ہزاروں اہل فکر اور اہل قلم سے جنہوں نے اسلام کے سیاسی نظام کے روئے زیبا کے دیدار کی خاطر بہار عرب کا خیر مقدم کیاتھا ۔ یادوں کے زخم اتنے ہیں کہ مندمل ہونے کا نام نہیں لیتے اورسب کا ذکربھی مشکل ہے ۔ وا دریغا کہ ظلم کی چکی میں پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں بھی اہل ایمان پیسے جارہے ہیں دیندار اور تہجد گزار لوگوں کو تختہ دار پر لٹکایا جارہا ہے ۔شام ومصر میں انقلاب بدوش اہل دین آزمائش کی بھٹی میں ڈالے جارہے ہیں۔ ایسے وقت میں ترکی ایسا مسلم ملک ہے جس نے بنگلہ دیش سے بھی احتجاج کیا اوراس نے مصر کی بھی مذمت کی جس کے صدر نے ایک سازش کے تحت محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور تر کی نے شام کے ظالم بشار الاسد کیخلاف سخت موقف اختیار کیااور اپنی سرزمین پر لاکھوں لاکھ شامیوں کو پناہ دی۔
یادش بخیر ، ۱۹۹۰ میں جب الجزائر میں بلدیہ کا الیکشن ہوا تو اسلامی جماعت اسلامک سالویشن فرنٹ نے ۲۳۱ نشستوں میں سے ۱۸۸ نشستوں پر قبضہ کرلیا ، یہ الیکشن کا پہلا مرحلہ تھا، حکمراں پارٹی نیشنل لبریشن فرنٹ نے صرف ۱۶ سیٹیں حاصل کی تھیں ، قوی امید تھی کہ دوسرے مرحلہ انتخاب میں جو بعد میں ہوتے یہی اسلامی جماعت کامیابی کاجھنڈا گاڑدیتی اور حکومت کی تشکیل کرتی، فرانسیسی استعمار سے رہائی کے بعد قربانیوں کا صلہ ملتا ، لیکن دوسرے مرحلہ کے آنے سے پہلے مغرب نواز فوج نے مغربی ملکوں کے اشارے پر حکومت کا تختہ پلٹ دیا اور اس طرح اسلامک فرنٹ کو اقتدار میں آنے سے روک دیا ۔اس طرح سے مغربی ملکوں کی جمہوریت نوازی کا پرفریب چہرہ بے نقاب ہوگیا ۔
حماس فلسطین کی اسلام دوست دین پسند تنظیم ہے۔ ۲۰۰۶ میں جب اس نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو اس کڑوے گھونٹ کو مغربی طاقتوں کے لئے برداشت کرنا مشکل ہوگیا، چنانچہ اس کا راستہ روک دیا گیا ۔ مغربی حکومتیں جمہوریت کو پسند ضرور کرتی ہیں لیکن جب جمہوریت کے ذریعہ اسلام پسند اقتدار پر فائز ہوتے ہیں تو وہ جمہوریت کے خلاف سازش کرکے حکومت کا تختہ الٹ دیتی ہیں اور جمہوریت کی بہار پھر سے خزاں میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح ۳ جولائی ۲۰۱۳ مصر کی تاریخ کاوہ روز سیاہ ہے جب جمہوری اعتبارسے منتخب صدر محمد مرسی کی جائز اور جمہوری اور دستوری حکومت کا تختہ الٹ کر فوج برسر اقتدار آگئی ، وہ فوج جس کا کام سرحدوں کی حفاظت تھا اس نے ناجائز طریقہ سے زمام اقتدار پر قبضہ کرلیا ، الاخوان المسلمون کے سرکردہ لیڈروں کو جیل میں ڈال دیا گیا، مظاہرہ کرنے والوں پر گولیاں چلائی گئیں ، مرنے والے ہزاروں کی تعداد میں تھے اور زخمی ہونے والے ا س سے کئی گنا زیادہ ۔ اخوان کے لیڈروں کو سزائے موت سنائی گئی ۔ ظلم ودرندگی کی کوئی انتہا نہ تھی جو مصر میں جمہوریت کا راستہ روکنے کے لئے اختیار نہ کی گئی ہو ۔ افسوس صد افسوس کہ خلیجی ملکوں نے اسلام کے خلاف سازش کا پوراساتھ دیا۔ اور ر ہے ہمارے محترم پیر حرم ، تو علامہ اقبال ان کے بارے میں کہہ گئے ہیں ،’’ پیر حرم کو دیکھا ہے میں نے ، کردار بے سوز گفتار واہی‘‘ ۔ آج کل پیر حرم مصر اور اپنے محرم ملک یعنی خلجی ملکوں کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر قطر کے خلاف محاذ بنارہے ہیں اور ہر طرف سے اس کا محاصرہ کر ہے ہیں تعلقات منقطع کررہے ہیں۔ کیونکہ قطروہ واحد عرب ملک ہے جو اخوان سے اور حماس سے ہمدردی رکھتا ہے اور انکو پناہ دیتا ہے۔لوگوں کے ذہن میں یہ بات تازہ ہے کہ سعودی عرب وہ بد قسمت ملک ہے جس نے حرمین کے تقدس کا بھی لحاظ نہیں کیا اور اپنی دینی ذمہ داری کو بھی نہیں سمجھا اور مصر میں اسلامی جمہوریت کے داخلہ کا راستہ روک دیامحمد مرسی کی جائز حکومت کا تختہ الٹا، اور بہار عرب کو خزاں آلودہ کردیااور اسلام پسندوں کوعبدالفتاح سیسی کے ذریعہ آتش وآہن کے سپرد کردیا،کیونکہ سعودی عرب کو اپنا مستقبل خطرہ میں نظر آنے لگا تھا کیونکہ اس کے یہاں ملوکیت اور موروثیت کا جوغیر اسلامی نظام رائج ہے اس کے خلاف ملک کے اندرمستقبل میں آواز اٹھ سکتی تھی۔سعودی عرب میں زبان وقلم پر پابندیاں عائد ہیں وہاں کے عوام بے زبان جانوروں کی طرح رہتے ہیں جس سے لوگ گھٹن محسوس کرتے ہیں اور یہ اسلام کی دی ہوئی آزادی کے خلاف ہے ، اس لئے سعودی عرب نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ یہ اسلامی ذہن پروان چڑھے اس پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اسے پابند سلاسل کردو ۔ اس طرح سے سعودی سازش کے ذریعہ اسلامی جمہوریت کا درخت اور اسلامی نظام سیاست کا پودا مرجھا گیا ۔ مغربی طاقتیں بھی اس سازش میں شریک تھیں، مغربی طاقتیں جمہوریت کی قائل ضرورہیں لیکن اس جمہوریت کی قائل نہیں ہیں جس کے ذریعہ اسلام ایوان سیاست میں داخل ہوسکے اورغم وافسوس کی بات ہے کہ تمام خلیجی ملک ان مغربی طاقتوں کے حاشیہ بردار، خوشہ چیں، مقلد اور زلہ ربا اوردست نگرہیں اور پیر حرم کا کیا کہنا وہ تو ڈونالڈ ٹرمپ کے ہاتھ پر حال ہی میں بیعت کرچکے ہیں اور چار ارب ملین ڈالر کا نذرانہ عقیدت بھی پیش کرچکے ہیں تاکہ اسلحہ کے نام پر کھلونے ہاتھ میں پکڑا دیے جائیں ۔سعودی عقل پر ماتم کرنے کا جی چاہتا ہے۔اب سعودی عرب اور اس کے حلیف ملکوں نے علامہ یوسف القرضاوی سمیت ۵۹ علماء کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے ۔ڈاکٹر یوسف القرضاوی تو ایسے دہشت گرد ہیں جن کو دبئی کی حکومت اپنا سب سے بڑا ایوارڈ اسلامی علوم کی خدمت کا دے چکی ہے اور سعودی حکومت انہیں فیصل ایوارڈ سے نواز چکی ہے۔سعودی حماقتوں پر لوگوں کے صبر کا پیمانہ اب لبریزہونے کو ہے لوگ سوچنے لگے ہیں کہ سعودی حکومت تولیت حرمین کا استحقاق کھونے لگی ہے ۔ اب با شعور اور شعر و ادب والوں کی زبان پر پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کا شعر آنے لگا ہے
تشنہ لبی نے جب بھی ذوق عمل دیا ہے
رندوں نے میکدہ کا ساقی بدل دیا ہے
اس دنیا کی تاریخ میں ایک سے ایک باجبروت طاقتور سلطنتیں رہ چکی ہیں وہ اب سب زمین کا پیوند ہوگئی ہیں ۔ سعودی سلطنت کا زوال بھی یقینی ہے ۔مستقبل کا مؤرخ جب سعودی حکومت کے زوال کے اسباب لکھے گا تو وہ لکھے گا کہ اس حکومت کے کار پرداز اس وقت کی بڑی طاقتوں کی سازش کا شکار ہوگئے تھے بڑی طاقتوں نے اپنے خاص مقاصد کے تحت الزام لگایاتھاکہ عرب ملکوں میں دہشت گردی پیدا ہورہی ہے۔ عرب ملکوں نے فوراً اس الزام پر یقین کرلیا اور اپنے یہاں ان تنظیموں کو جو مغربی تہذیب کا مقابلہ کررہی تھیں دہشت گرد قرار دے دیا اور علماء اور اعیان فکر اسلامی کو گرفتار کیااور جوکام مغربی طاقتوں سے نہیں ہوسکتا تھا وہ ان عرب ملکوں نے کردکھایا ۔ اگر سلمان بن عبد العزیز سچ مچ اپنے الزام میں مخلص ہیں کہ اخوان المسلمون دہشت گردوں کی جماعت ہے اور گردن زدنی ہے اور شیخ یوسف القرضاوی دشمن امن وامان ہیں تو حرم شریف میں رمضان میں ختم قرآن کے موقعہ پر جو طویل دعا ہوتی ہے اس میں امام حرم سے یہ دعا بھی کروائیں کہ اے اللہ خادم الحرمین کو روز حشرحسن البناء اور یوسف القرضاوی اور محمد مرسی اور اخوان کے ساتھ محشور مت کر بلکہ جمال عبد الناصر، حسنی مبارک اور عبد الفتاح سیسی کے ساتھ ان کا حشر کر ۔’’ویرحم اللہ عبدا قال آمینا ‘‘( اللہ اس بندے پر رحم کرے جو آمین کہے )

0 comments: