Muslim Issues

معرکہ حق و باطل کا تاریخی نظریہ

10:46 AM nehal sagheer 0 Comments



عمر فراہی ۔ای میل :  umarfarrahi@gmail.com

دنیا میں معرکہ حق و باطل کی یہ تاریخ رہی ہےکہ حق نے جب جب بھی طاقتور ہونے کی کوشس کی ہے باطل کے کان کھڑے ہوگئے ہیں اور پھر اہل باطل نے وہی کیا ہے جو فرعون نمرود نے حضرت موسیٰ و ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کیا ۔ اصحاب کہف کو پہاڑی غاروں میں پناہ کیوں لینی پڑی اور اصحاب اخدود کو زندہ آگ میں کیوں ڈالا گیا ،ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام میں سے کسی کوزندہ آروں سے چیرا گیا کسی کو سولی پر چڑھایا گیا۔ یہ تاریخ بھی بہت ہی طویل ہے کہ کس کو اللہ نے کس طرح کن آزمائش میں ڈالا اور کس کی وجہ سے کتنی قومیں عذاب کا شکار ہوئیں - شاید مشیت ایزدی بھی یہی ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو آزمائش میں مبتلا کرکے ان کے درجات کو بلند کرے ۔ کفر کرنے والوں کا بھی امتحان لے ۔ آج بھی کم وبیش وہی صورتحال ہے۔استعماری طاقتیں اپنے مخالف ممالک پر طرح طرح سےمعاشی اور عسکری پابندی لگا کر اپنے حریف کو کمزور کرنے کی سازش میں مصروف ہیں ۔خلیج میں عراق ایران جنگ کے بعد ایران پر پابندیاں لگائی گئیں۔اس کے بعد عراق کے گرد گھیرا تنگ کر کے صدام حسین کو پھانسی پر چڑھایا گیا ۔ چین اگر نارتھ کوریا کی پشت پناہی نہ کرتا تو اب تک نارتھ کوریا کے حکمراں کا حشر بھی صدام حسین اور قذافی سے مختلف نہ ہوتا۔ہمارا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ استعماری طاقتوں کا طریقہ کار بدلا ہے نظریہ نہیں ، جو ہر دور میں باطل طاقتوں نے اہل حق یا اپنے حریفوں کے ساتھ کیا ہے ۔جس طرح سعودی عربیہ نے اپنے عرب قبائیلی حکمرانوں کے ساتھ مل کر قطر کے ساتھ تعلقات توڑ کر اسے معاشی طور پر کمزور کرنے کی کوشس کی ہے اور ایک بڑے ملک امریکہ کو تحفے تحائف دیکر قطر کے بائیکاٹ کےتعلق سے اعتماد میں لینے کی کوشس کی ہے مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور کی وہ تمام سازشیں یاد آتی ہیں جو مشرکین مکہ نے اہل حق کی ایک قلیل جماعت کے عروج سے خوفزدہ ہو کر کیا ۔ یہ وہ دور ہے جب آپ ﷺ کے چچا ابو طالب حیات تھے اور آپ کی تحریک کے شانہ بشانہ کھڑے تھے مشرکین مکہ نے آپ کو اور آپ کے تمام حمایتیوں کو جن میں سے کچھ لوگ آپ پرایمان بھی نہیں لائے تھے شعب ابی طالب کی گھاٹیوں میں قید کردیا اور بنی ہاشم پر ہر طرح کی خرید وفروخت پر پابندی لگا دی تاکہ وقت کا رسولﷺ اپنی تحریک سے باز آکر ان کی مرضی کو قبول کرلے اور جو نبی کی حمایت کررہے تھے یہ لوگ بھی مجبور ہوکر نبی کا ساتھ چھوڑ دیں ۔ مشرکین مکہ کی اس سازش کو جب اللہ نے ناکام بنا دیا تو انہوں نے آپ کے ساتھیوں پر جبر وتشدد کرنا شروع کردیا - رسول کو جب اپنے ساتھیوں کی تکلیف دیکھی نہیں گئی تو انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی صلاح دی ۔صحابہ کرام کی ایک قلیل تعداد چپکے چھپکے حبشہ کی طرف ہجرت کر گئی ۔ مشرکین کو صحابہ کرام کا حبشہ میں پناہ لینا بھی اچھا نہیں لگا ۔سرداران قریش نے حبشہ کے بادشاہ کو قیمتی تحفے تحائف بھیج کر مسلمانوں کو اس کے ملک میں پناہ نہ دینے کا مطالبہ کیا۔چونکہ اس وقت دہشت گردی کی اصطلاح ایجاد نہیں ہوئی تھی اس لئے انہوں نے عیسائی بادشاہ کو گمراہ کیا کہ یہ لوگ تمہارے مذہب کو برا بھلا کہتے ہیں ۔نجاشی نے مسلمانوں سے سچائی جاننے کیلئے دربار میں بلایا ۔دربار میں نجاشی نےجعفر بن ابی طالب کے قرآنی دلائل سے متاثر ہوکر مشرکین کےتحفے واپس کروادیے اور مکہ کے مشرکین کو اپنے ملک سے نامراد واپس بھیج دیا۔مشرکین جب ہر طرح سے ناکام ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی ۔مشرکین کی اس انتہائی سازش کے بعد رسول ﷺ کو مدینہ کی طرف ہجرت کا فیصلہ کرنا پڑا ۔ اکیسویں صدی میں حق و باطل کی معرکہ آرائی کا نظریہ بھی کم وبیش وہی ہے ۔پہلے روس نے وسطی ایشیا کے مسلمانوں کے ساتھ یہی کیا ، افغانستان میں پناہ لینے والے مجاہدین پر چڑھائی کی اور شکست سے دوچار ہوا ۔ بعد میں جدید سپر پاور امریکہ نے بھی وہی کیا ۔ عراق اور افغانستان پر پابندی لگائی اور پھر اپنے حریف صدام حسین قذافی اور بن لادن کو شہید کیا۔ عرب ڈکٹیٹر وں نے قطر کے خلاف جو ناکہ بندی کی ہے تو اس کی وجہ بھی صاف ہے کہ اس نے مظلوم اخوانیوں اور فلسطینی رہنماؤں کو پناہ  دے رکھی ہے یا ان کی مالی مدد کر رہا ہے ۔یہ قدم اٹھانے سے پہلے سعودی عربیہ نے اپنے ملک میں پچاس مسلم ممالک کی کانفرنس بلائی اور پھر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو دعوت دی کہ وہ ان ممالک کو دہشت گردی کے خلاف امن کا سبق پڑھائے ۔
ڈونالڈ ٹرمپ وہی شخص ہے جس نے صدارتی الیکشن سے پہلے جہاں اسرائیل کو خوش کرنے کیلئے اسرائیل کی راجدھانی کو یروشلم میں منتقل کرنے کی بات کی تھی۔ سعودی عربیہ کو 9/11 کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے یہ عہد بھی لیا تھا کہ وہ لیبیا کی طرز پر سعودی حکومت پرہرجانے کا دعویٰ کرے گا ۔ صدر منتخب ہونے کے بعد اسے ہوش آیا کہ سعودی عربیہ امریکی معیشت کا ایک اہم ستون ہے اس لئے اسے ابھی ناراض کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔ لیکن چونکہ اسے اپنے صہیونی دوستوں کو بھی توخوش کرنا تھااس لئےاس نے جہاں داعش کی دہشت گردی کا تذکرہ کیا پچاس مسلم ممالک کی اس کانفرنس میں اسرائیل کی دو دشمن تنظیم اخوان اور حماس کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیا۔ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے اپنی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹرمپ کے اس خیال کی یہ کہتے ہوئے مذمت کی کہ اخوان اور حماس ریاستی دہشت گردی کے شکار ہیں انہیں دہشت گرد تنظیم کہنا درست نہیں ہے ۔ امیر قطر کی یہ بات اصل میں اسرائیل اور امریکہ کو بری لگنی چاہئے تھی لیکن مصر اور سعودی عربیہ نے امیر قطر کے اس بیان کو اس لئے سنجیدگی سے لیا کیونکہ اقتدار کے لالچی عرب ممالک اصولی سیاست اور اسلامی غیرت وحمیت سے محروم ہوکر صہیونی مفاد میں استعمال ہو رہے ہیں ۔ 2012 میں جمہوری طور پر منتخب اخوانی صدر مرسی کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اور اس بغاوت میں جہاں ایران اسرائیل نے خفیہ سازش کی ،مصر اور سعودی عربیہ نے علی الاعلان وہی کیا جو فرعون و نمرود اور ابو جہل وابو لہب کا شعار رہا ہے ۔ قطر کے امیر بھی خاموش رہتے ہوئےدیگر عرب حکمرانوںکی طرح منافقانہ کردار ادا کر سکتے تھے اور خاموش رہنے میں ان کا فائدہ ہی تھا نقصان نہیں ۔ لیکن جمال عبد الناصر انور سادات اور حسنی مبارک کے دور میں اخوانیوں پر جب جب بھی زمین تنگ کی گئی انہیں پناہ دینے کے عہد پر قائم رہے ۔ تاریخ ہمیشہ یہ بات یاد رکھے گی کہ نجاشی نے تو جعفر بن ابی طالب کے دلائل سن کر مشرکین مکہ کو جو کہ اس وقت حرم کی پاسبانی کے دعویدار تھے دربار سے باہر نکلوا دیا لیکن قطر اور ترکی کے علاوہ حرم کے جدید پاسبانوں نے حرم کے اصل سپاہیوں کو پناہ نہیں دی ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کل تک تو آل نہیان اور آل سعود ان مظلوموں کے ساتھ تھے آج ان کے دشمن کیوں ہوگئے ؟کل اخوان آپ کے بھائی آج دہشت گرد کیسے ہوگئے ؟ اخوانیوں کا قصور یہ تھا کہ وہ پرامن سیاسی جدوجہد سے مصر کی حکومت پر غالب آگئے تھے ۔ان کے اس غلبے سے ڈرنا تو امریکہ اور اسرائیل کو چاہئے تھا لیکن جب مصر کی فوج نے ناجائز طریقے سے بغاوت کی تو سعودی حکمراں عبداللہ نے ظالم السیسی کی اس بغاوت کو یہ کہہ کر جائز ٹھہرایا کے فوج نے مصر کو گہری کھائی میں گرنے سے بچا لیا ۔ آج قطر کے ساتھ بائیکاٹ کو یہ کہہ کر جائز ٹھہرایا جارہا ہے کہ وہ سعودی عربیہ کے دشمن ایران سے تعلقات بڑھا رہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ عرب کے شاہوں کو یہ بات اچانک کیسے یاد آئی کہ ایران ان کا دشمن ہے ۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ ایران ایک زمانے سے مشرق وسطیٰ پر بری نظر رکھے ہوئے ہے پھر بھی شاہ عبداللہ نے سعودی عربیہ کی ایک کانفرنس کے دوران تمام سرکاری پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایرانی صدر احمدی نژاد کو اپنی گود میں بٹھایا تھا ۔ تاریخ بہرحال اس کا بھی فیصلہ کردیگی کہ فتح کس کے نصیب میں لکھی جانی ہے وہ جنھوں نے رسول اور ان کے ساتھیوں کو شعب ابی طالب کی گھاٹیوں میں قید کیا یا ان کےجنھوں نے مکہ سے حبشہ اور حبشہ سےمدینہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے تکلیفیں برداشت کیں ۔

0 comments: