Muslim Issues

دین وسیاست کا رشتہ

10:02 PM nehal sagheer 0 Comments

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

اسلام ایک جامع دین ہے اور اس کے جامع ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ عبادت وریاست کا مجموعہ ہے مرکزی حیثیت یقیناًخدا کے ساتھ لگاؤ اور تعلق کو حاصل ہے اور وہ اصلاً مطلوب ہے، لیکن خدا کے ساتھ تعلق کی استواری اور پھر اس کے بعد خدا کے عادلانہ قوانین کے نفاذ کے لئے اختیار اور طاقت کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ اس کے لئے بھی سعی وکاوش ایک دینی ضرورت ہے، نہ حکومت کے بغیر زمین میں فتنہ وفساد کودفع کیا جاسکتاہے اور نہ اللہ کے بندوں کے درمیان عدل وانصاف اور امن وامان کا قیام ممکن ہے، کچھ لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حکومت اللہ کی طرف سے صرف انعام ہے۔ اور قرآن میں اعمالِ صالحہ پر عزت وحکومت کی خوشخبری دی جاچکی ہے،چونکہ حکومت اہل ایمان کے لئے ایک بشارت اور وعدہ الہٰی ہے اس لئے جو چیز وعدۂ الہٰی کی حیثیت رکھتی ہو اس کے لئے سعی وجانفشانی کی ضرورت نہیں،یہ تصور بہت سے مذہبی لوگوں میں عام ہے ۔ لیکن یہ تصور ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ یہ دنیا عالم اسباب ہے، اللہ تعالی کے وعدوں کا ظہور بھی عام طور پر اسباب کی سطح پر ہوتاہے، جب اللہ تعالیٰ کسی انعام کا وعدہ فرماتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتاہے کہ وہ اسباب وتدابیر کے بغیر اس کو پورا کردے گا۔ اگرچہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے لیکن یہ اس کی سنت عادیہ کے خلاف ہے، اس عالم اسباب وتدبیر میں اس نے اپنے موعودات کے لئے اسباب وعلل کا واسطہ رکھا ہے مثال کے طور پر ، اللہ تعالیٰ نے ا پنی مخلوق کے لئے روزی ورزق کا وعدہ فرمایا(وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقہا) ترجمہ’’نہیں ہے کوئی چلنے والا زمین پر مگر یہ کہ اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘لیکن اس کے باوجود اس نے حصول رزق کو طلب اور کوشش پر موقوف رکھا ہے، اور رزق حلال کے حصول کے لئے تدبیر اختیار کرنے کا حکم دیا ہے (وابتغو من فضل اللہ)ترجمہ’’ اور تلاش کرو اللہ کا فضل رزق میں سے‘‘۔ اسلام کی تاریخ جدید میں فقہاء محدثین مفسرین اور شارحین حدیث کی کمی نہیں لیکن اسلامی علوم کی جامعیت اور سیرت نبوی اور تاریخ اسلام میں رسوخ وکمال کے اعتبار سے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے بعد جن شخصیتوں کا ہندوستان میں نام لیا جاسکتا ہے ان میں ایک اہم نام علامہ سید سلیمان ندوی کا ہے۔ علامہ ندوی اس موضوع پر رقم طراز ہیں: ’’اسلام دین ودنیا اور جنت ارضی وجنت سماوی اور آسمانی بادشاہت اور زمین کی خلافت دونوں کی دعوت کو لے کر اول ہی روزسے پیدا ہوا ہے۔ اس کے نزدیک عیسائیوں کی طرح خدا اور قیصر دونہیں، ایک ہی شہنشاہ علی الاطلاق ہے جس کے حدود حکومت میں نہ کوئی قیصر ہے نہ کوئی کسریٰ ، اس کا حکم عرش سے فرش تک اورآ سمان سے زمین تک جاری ہے۔ وہی آسمان پر حکمراں ہے وہی زمین پر فرماں روا ہے (ہو الذی فی السماء الہ وفی الارض الہ)‘‘ (سیرت النبی جلد ۷ صفحہ ۷)
اسلام کے تصور دین کی وضاحت میں تو ازن اکثر کھویا گیاہے۔ کبھی ایسا ہوا کہ اسلام کے سیاسی پہلو کو اس طرح اور اتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے کہ اعتقادات وعبادات کو بھی اس کا تابع کردیا گیا اور کبھی ایسا ہوا کہ اسلام کی سیاسی تشریح سے کشتی لڑکرکچھ لوگ رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوگئے اور دوسری انتہاء تک پہونچ گئے۔ انھوں نے اس قسم کا دین پیش کیا ہے جس میں نہ جہاد ہے نہ احتساب نہ اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش اورنہ کوشش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور تائیداور نہ دل کے اندر اس کی آرزو اور تمنا۔ اس موضوع پر مکمل اعتدال اورمکمل توازن جن علماء میں پایا جاتا ہے ان میں میرے محدود مطالعہ میں علامہ سید سلیمان ندوی کا نام سر فہرست ہے ۔ان کے فکر ی توازن کا اندازہ اس ا قتباس سے ہوسکتا ہے:
اسلام کے سارے دفتر میں ایک حرف بھی ایسا موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ قیام سلطنت اس دعوت کا اصل مقصد تھا اور عقائد وایمان، شرائع واحکام اس کے لئے بمنزلہ تمہید تھے بلکہ جو کچھ ثابت ہوتاہے وہ یہ ہے کہ شرائع اور حقوق وفرائض ہی اصل مطلوب تھے اور ایک حکومت صالحہ کا قیام ان کے لئے وجہ اطمینان اور سکون خاطر کا باعث ہے تاکہ وہ احکام الٰہی کی تعمیل بآسانی کرسکیں۔ اس لئے وہ( حکومت اور اقتدار ) بھی عرضاً مطلوب ہے (سیرت النبی جلد ۷، صفحہ ۶)
سید صاحب اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت حکومت وسلطنت اور دنیا کی سیاست ہے۔ ‘‘
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام کی تاریخ سلطنت ومذہب کے اشتراک کی تاریخ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں مکی ومدنی دونوں زندگی جمع کردی گئی تھی آپ کی ذات مبارک میں امامت ونبوت دونوں کو اس طرح بہم کردیا گیا تھا کہ بقول علامہ سید سلیمان ندوی ’’ایک کو دوسرے سے جدا کرنا ناخن کو گوشت سے علیحدہ کرنا ہے‘‘، یہ بھی امر واقعہ ہے کہ اسلام میں قتال وجہاد کی دعوت بر ملادی ہے قرآن میں سلطنت کے ملنے کو عزت اور سلطنت کے چھن جانے کو ذلت قرار دیا گیا ہے۔
(اللہم مالک الملک تؤتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء وتعز من تشاء وتعز من تشاء بیدک الخیر)ترجمہ ’’ اے اللہ حکومتوں کے مالک تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے۔ توجسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے اور تیرے ہی قبضے میں ہر قسم کا خیر ہے‘‘۔
اس آیت میں عزت سے مراد سلطنت کا ملنا او اور ذلت سے سلطنت کا چھن جاناہے، بلاغت کی اصطلاح میں اس ترتیب کو’’ لف ونشر مرتب ‘‘کہتے ہیں۔یعنی ’’تؤتی الملک من تشاء‘‘کا تعلق ’’ تعز من تشاء‘‘ کے ٹکڑے سے ہے اور ’’ تنزع الملک ممن تشاء‘‘ کا تعلق ’’ تذل من تشاء‘‘سے ہے یعنی عزت کا تعلق اقتدار اور حکومت سے ہے اور حکومت کی طاقت سے محروم ہونا عزت سے محروم ہونا ہے
اس دور میں بہت سی اسلامی تحریکیں ہیں جو وہی دینی فکر رکھتی ہیں جس کی وضاحت علامہ سید سلیما ن ندوی نے کی ہے ۔ اس طرز فکر سے مسلم حکومتیں ہمیشہ خائف ہوتی ہیں اورایسے طر ز فکر رکھنے والوں کے خلاف فتوے جاری کرتی ہیں اور ان کو دہشت گرد قرار دیتی ہیں ۔اس مضمون کی روشنی میں لوگوں کو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ بہت سی حکومتیں اور سلطنتیں مسلم تحریکات اور بہت سے علماء کے خلاف کیوں ہو جاتی ہیں ۔ یہ حکومتیں علماء کو دہشت گرد کیوں کہتی ہیں یہ حکومتیں ان علماء سے کیوں خوش رہتی ہیں جو خاک کے آغوش یں تسبیح ومناجات کو دین سمجھتے ہیں او ر سیاست اور حکومت کو بے دینی سمجھتے ہیں اس مضمون کی روشنی میں لوگوں کوبے حد اہم سوال کا جواب مل جاسکتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جن تحریکوں پر اور جن شخصیات پر دہشت گردی کا الزام ہے ان کو دور دور تک دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں رہا اور خود حکومتیں بھی یہ بات اچھی طرح جانتی ہیں ۔لیکن دین کے مذکورہ بالا تصور کے حامل ہونے سے اورنگ نشین اصحاب کر وفر سلاطین کی نیند اڑ جاتی ہے اور وہ علماء کی تحریروں کے خدوخال اور آرائش خیال سے اندیشہ ہائے دور دراز میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور ان کو ڈراؤنے خواب نظر آنے لگتے ہیں ۔ یہی ڈراؤنے خواب تھے جو فرعون کو نظر آنے لگے تھے اور اس نے بنی اسرائیل کے نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ان ملوک وسلاطین کو چاہئے کہ ایسے کالج اور ایسے تعلیمی ادارے قائم کریں جن میں پڑھ کر نوجوان علماء کے نقطہ نظر کے خلاف ہوجائیں ۔ اکبر الہ بادی نے حکمرانوں کو یہی راستہ سمجھایا تھا
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کے فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

0 comments: