Muslim Worlds

شاہان عرب کے جدید لٹھ مار !‎

2:50 PM nehal sagheer 0 Comments


ہندوستان میں جن بھائیوں نے قطر اور سعودی عربیہ کی حمایت میں فیس بک پر اپنے خون جلائے ہیں ان کے لیئے سعودی عربیہ اور قطر کے امور سیاست میں وزارت عظمیٰ کے عہدے کا یقیناً حق بنتا ہے ۔ پتہ نہیں عرب شہنشاہوں کو اس کا احساس بھی ہے یا نہیں کہ ہندوستانی مسلمان ان کیلئے سوشل میڈیا کی جنگ میں آپس میں لاٹھی اور ڈنڈا بھی اٹھانے کی سوچ رہے ہیں ۔مجھے تو امید بالکل نہیں ہے کہ ان کی آپس کی لڑائی کے فائدے میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہوگا سوائے اس کے کہ ہم ان کیلئے لٹھ مار کا کردار نبھاتے ہوئے زمیندار بابو کے چند ٹکڑوں پر قناعت کرلیں ۔ جنھوں نے انگریزوں کے دور میں زمینداری کا دور دیکھا ہے یا زمینداری کے دور کی کہانیاں پڑھی ہیں اورفلمیں دیکھی ہیں انہیں یاد ہونا چاہئے کہ زمیندار اپنی لگان وصولنے کیلئے لٹھ مار رکھتے تھے جو کاشتکاروں سے دھونس اور دھمکی سے لگان وصول کر زمیندار کو خوش کرتے اور بدلے میں زمیندار ان کے راشن وغیرہ کا انتظام کروا دیتا یا کاشتکاری کیلئے کچھ زمین کے ٹکڑے وغیرہ بھی دے دیتے تھے ۔اس وقت کی بھوجپوری زبان میں انہیں ڈھیل پھورا بھی کہا جاتا تھا -ڈھیل پھورے اکثر اوقات زمیندار بابو کیلئے لڑائی جھگڑے کے وقت میں اپنا سر بھی پھڑواتے تھے لیکن زمیندار کسی لڑائی میں کبھی سامنے نہیں آتے۔لٹھ ماروں کے علاوہ زمینداروں نے بھانٹوں کی ایک برادری بھی بسا رکھی تھی جو ان کی خوشی کے موقع پر خوش ہونے کا ڈرامہ اور دکھ کے موقع پر گریہ و زاری کرتے لیکن لٹھ ماروں اور بھانٹوں کی اوقات صرف محل کے باہر تک ہی محدود ہوتی تھی ۔باقی ان کے سیاسی ،معاشرتی اور ثقافتی معاملے میں انہیں نیچ اور کمتر کے درجے میں شمار کرکے نظر انداز کردیا جاتا تھا ۔ہم ہندوستانی مسلمانوں کے تئیں عربوں کی سوچ بھی تقریباً وہی ہے۔ عام طور پر عرب ہم ہندوستانیوں کو عجمی کہہ کر ذلیل کرتے ہیں ۔اگر عجمی کہیں تو بھی کوئی کراہیت کی بات نہیں، آخر بے غیرتوں کو بے غیرت نہیں تو کیا غیرت مند کہا جائے گا ۔ میں نے تو لوگوں سے سنا ہے کہ اکثر جاہل عرب ہندوستان کے مسلمانوں کو کافر بھی کہتے ہیں۔تحقیق کیا تو معلوم ہوا کہ پاکستانیوں نے عربوں کے ذہن میں بدگمانی پیدا کردی تھی، اب عرب ہوشیار ہوچکے ہیں۔ پاکستانیوں نے عربوں کو ورغلایا ہوگا اس کا ثبوت پاکستان کے ایک معروف سابق بیوروکریٹ اور صحافی اوریا مقبول جان کے ایک حالیہ بیان سے بھی ہوتا ہےجس میں انہوں نے بٹوارے کے موقع پر غیر مسلموں کا ساتھ دینے کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں پر کفر کا الزام لگایا ہے ۔کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ جس پاکستانی ٹیم کے جیتنے پر ہم نے پٹاخے چھوڑنے، جن عربوں کیلئے ہم اپنا سر پھوڑنے کیلئے تیار ہیں یہ لوگ اپنی پارلیمنٹ میں وزارت کا عہدہ تو دور کی بات فوج میں مرنے کیلئے بھی شاید نہ بھرتی کریں ۔صدام حسین کا حشر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جو خود عرب تھاجسے عرب کے شیخوں نے ایران سے جنگ پر آمادہ کیا ان کی بھر پور مدد کی تاکہ خمینی کے انقلاب کی یہ تحریک عرب میں نہ داخل ہونے پائے ۔ مگر جب صدام حسین معاشی بدحالی کا شکار ہوئے اور شیخوں سے مدد مانگی تو سب نے ہاتھ اٹھا دیا ۔ مرتا کیا نہ کرتا جس نے عربوں کو بچانے کیلئے اپنے ایک لاکھ عراقی جانبازوں کو شہید کروا دیا تھا جذبات میں آکر کویت پر حملہ کردیا ۔کویت میں عراقی فوج کے داخلے کا مطلب سعودی عربیہ جس نے کہ کبھی اپنے خالص سعودی باشندوں پر مشتمل پچاس ہزار فوج بھی اس لیئے نہی بنائی کہ کہیں دیگر عرب ممالک کی طرح ان کی حکومت کے خلاف بھی فوجی بغاوت نہ ہو اس کیلئے بھی خطرہ پیدا ہوگیا کہ کہیں عراقی فوجیں ریاض میں نہ داخل ہوجائیں فوری طور پر امریکہ سے فوجی امداد کا طلبگار ہوگیا۔ اس کے بعد سب نے مل کر صدام حسین کو پھانسی پر چڑھوا کر ہی دم لیا ۔ کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں عاشق اور حکمراں اپنے اصول بھی توڑ دیتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جب صدام حسین کی شہادت کے بعد شاہان عرب نے عراق کے سنی عوام کوجو خود بھی عرب ہیں انہیں ایرانی اور عراقی شیعوں کے رحم وکرم پر قتل ہونے کیلئےچھوڑ دیا ہے تو ہم عجمی مسلمان کس درجے میں آتے ہیں ۔ہمیں یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہم مسلمان اپنے ملک میں بڑے کا گوشت کھانے کی وجہ سے دوڑا دوڑا کر مارے جارہے ہیں لیکن شاہان عرب میں سے کسی حکمراں نے بھی کوئی آواز اٹھانے کی جرات نہیں کی ۔اب ہم اپنی اوقات کے بارے میں خود فیصلہ کریں کہ جو ہم ان کے بارے میں آپس میں ایک دوسرے پر طنز و تشنیع کر رہے ہیں کیاان کیلئے ہماری شبیہ لٹھ ماروں اور بھانٹوں کے علاوہ بھی کچھ  ہے؟اس کے برعکس یوم جمہوریہ کے موقع پر امریکی صدر باراک اوبامہ نے ہندوستان میں اقلیتوں کی حق تلفی پر مودی سرکار کو گاندھی کے اصولوں پر عمل کرنے کی تلقین کی تھی۔امریکہ جانے کے بعد خواجہ معین الدین چشتی کے مزار کیلئے چادر بھیجی ۔امسال یوم جمہوریہ کے موقع پر متحدہ عرب امارات کے امیر کا بھی دورہ ہوا لیکن وہ اس طرح سے خاموشی کے ساتھ واپس چلے گئے جیسے کہ انہیں ہندوستان کے مسلمانوں سے کوئی سروکار نہیں۔ہمیں کوئی شکایت نہیں کہ متحدہ عرب کے اس حکمراں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے تئیں یہاں کے حکمرانوں سے شکایت کیوں نہیں کی ۔مگر ہندوستان میں مسلمانوں کی مسلکی جماعتوں سے شکایت ہے کہ کیا ملک میں بحث کرنے اور سلجھانے کیلئے ہم مسلمانوں کے اپنے مسائل کم ہیں کہ ہم شاہان عرب کیلئے لٹھ مار اور بھانٹ کا کردار ادا کریں۔
عمر فراہی ۔ ای میل  :  umarfarrahi@gmail.com

0 comments: