معافی

شاہ نواز فاروقی

-اسلامی تہذیب کی تعریف جن تصورات، اقدار اور رویوں سے متعین ہوتی ہے اُن میں ایک تصور، ایک قدر اور ایک رویہ معاف کرنے کا بھی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اصل تہذیب احترامِ آدمیت ہے۔ احترامِ آدمیت کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ انسان کی عظمت، بزرگی، اس کے جلال و جمال اور اس کے علم و ذہانت کی وجہ سے اس کا احترام کیا جائے۔ لیکن اس احترام میں کوئی کمال نہیں ہے۔ احترام کا کمال یہ ہے کہ انسان کا احترام اس کی کمزوری کی حالت میں کیا جائے۔ معافی کا عمل ایک فرد کی طاقت اور ایک فرد کی کمزوری کی حالت میں ہی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ چنانچہ معافی احترامِ آدمی کی زیادہ کامل مثال ہے۔ لیکن یہ معاملہ صرف دو افراد کے تعلق تک محدود نہیں۔ اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ کسی معاشرے کے مہذب ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے کمزور لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں معاف کرنے کی اتنی اہمیت کیوں ہی؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق ہی، مالک ہی، رازق ہی، قادرِ مطلق ہی.... لیکن وہ سب سے زیادہ معاف کرنے والا بھی ہے۔ اس نے شریعتِ محمدی کے ذریعے انسانوں کو بتادیا ہے کہ گناہ کیا ہے اور وہ گناہ سے کتنا ناراض ہوتا ہے۔ مگر اس کے معاف کرنے کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی انسان سے سمندر کے قطروں اور صحرا کے ذروں کے برابر بھی گناہ ہوجائیں اور وہ سچی توبہ لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف کردے گا۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ قیامت کے روز ایک ایسا شخص خدا کے حضور پیش ہوگا جس کے بے حد طویل نامہ ¿ اعمال میں گناہوں کے سوا کچھ بھی نہ لکھا ہوگا، چنانچہ وہ شخص اپنے مستقبل سے مایوس ہوگا اور اس کا خیال ہوگا کہ جہنم اس کا مقدر ہے۔ مگر اچانک اس کے پاس سے کلمہ طیبہ برآمد ہوجائے گا۔ یعنی وہ شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والا ہوگا۔ چنانچہ میزان کے ایک پلڑے میں اس کے گناہ رکھے جائیں گے اور دوسرے پلڑے میں کلمہ طیبہ رکھا جائے گا، اور اس کے ایمان کا وزن اس کے گناہوں سے بڑھ جائے گا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی معافی کی ایک صورت ہوگی۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے آپ سے پوچھا کہ کیا انسان کے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گی؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں سارے گناہ۔ حضرت ابوذرؓ نے کہا کہ خواہ انسان نے چوری کی ہو؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں خواہ اس نے چوری کی ہو۔ حضرت ابوذرؓ نے پوچھا: خواہ اس نے زنا کیا ہو؟ آپ نے فرمایاکہ ہاں خواہ اس نے زنا کیا ہو۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا اور کہاکہ خواہ ابوذرؓ کو اپنی ناک ہی کیوں نہ رگڑنی پڑے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم افضل البشر ہی نہیں افضل الانبیا بھی ہیں۔ چنانچہ آپ کی معاف کرنے کی صلاحیت کُل عالم سے زیادہ تھی۔ اہلِ مکہ نے کون سا ظلم ہے جو آپ کے ساتھ نہیں کیا؟ آپ کی نبوت کو جھٹلایا، آپ کو شاعر اور کاہن کہا، آپ اور آپ کے اصحاب پر بدترین تشدد کیا، آپ کو آپ کے اہلِ خانہ کے ساتھ شعب ابی طالب میں ساڑھے تین سال تک محدود کردیا، جہاں تنگی ترشی کا یہ عالم ہوا کہ آپ اور آپ کے اہلِ خانہ کو پیڑ پودوں کی جڑیں تک ابال کر کھانا پڑیں۔ یہاں تک کہ آپ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ لیکن جب آپ طاقت ور بن کر مکہ آئے اور آپ نے مکہ فتح کرلیا تو آپ نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف کردیا۔ آپ سے ایک بار دریافت کیا گیا کہ گھروں میں کام کرنے والے نوکر غلطیاں کرتے ہیں، آخر انہیں کتنا معاف کیا جائی؟ آپ نے فرمایا: ایک دن میں 70 بار۔ ظاہر ہے کہ کوئی نوکر ایک دن میں 70 غلطیاں نہیں کرسکتا۔ چنانچہ آپ کے ارشادِ مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ نوکر بہت زیادہ غلطیاں بھی کرے تو اسے معاف کردیا جائے۔ حضرت زیدؓ دس سال تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہی، اور ان کا بیان ہے کہ دس برسوں میں آپ نے ایک بار بھی مجھے کسی غلطی پر برا بھلا نہیں کہا۔ آپ کے اسوہ حسنہ کو صحابہ کرامؓ نے مکمل طور پر جذب کیا۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ خود معاف کرنے کی علامت بن کر ابھرے۔ ایک سفر کے دوران جن لوگوں نے حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی اُن میں ایک ایسے صاحب بھی تھے جو حضرت ابوبکرؓ کے رشتے دار تھے اور حضرت ابوبکرؓ ان کی مالی مدد کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ پر تہمت کا واقعہ بہت ہی بڑا تھا اور حضرت ابوبکرؓ حضرت عائشہؓ کے والد تھی، چنانچہ انہیں حضرت عائشہؓ پر تہمت سے فطری طور پر گہرا دکھ ہوا اور انہوں نے کہاکہ اب وہ اپنے اس عزیز کی مالی اعانت نہیں کریں گے جس نے حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے کہاکہ یہ طرزعمل صدیق اکبرؓ کے شایانِ شان نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے نہ صرف یہ کہ اپنے اس عزیز کو معاف کردیا بلکہ ان کی مالی مدد میں اضافہ کردیا۔ حضرت امام حسینؓ پر ایک بار ان کی ایک ملازمہ نے سالن گرادیا۔ حضرت امام حسینؓ کے چہرے پر ناگواری ظاہر ہوئی۔ ملازمہ ذہین تھی، کہنے لگی: مومنوں کی شان یہ ہے کہ وہ غصے کو پی جاتے ہیں۔ امام حسینؓ نے فرمایا: میں نے غصے کو پی لیا۔ ملازمہ نے کہاکہ مومنین معاف کرنے والے ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ نے فرمایا: میں نے تجھے معاف کیا۔ ملازمہ نے کہاکہ مومنین احسان کرنے والے ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ نے فرمایا: میں نے تجھے آزاد کیا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ معاف کرنے کے عمل کے فوائد کیا ہیں؟ قرآن مجید فرقانِ حمید مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ خود کو اللہ کے رنگ میں رنگ لو۔ معاف کرنے کے عمل کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ معاف کرنے والا صبغت اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے خالق، مالک، رازق اور معبود کے تابع ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اللہ کے رنگ میں رنگنے کا مفہوم کیا ہی؟ اللہ اہلِ ایمان کو انصاف قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس لیے کہ انصاف قائم کیے بغیر معاشرے کو قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کسی نے ظلم کیا ہے تو اس سے اس ظلم کے مساوی بدلہ لیا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ یہ بھی کہتا ہے کہ اگر تم کسی کے جرم کو معاف کردو تو یہ انصاف سے زیادہ بڑی بات ہی، کیونکہ معاف کرنے والا اپنے حق سے دستبرداری کا اعلان کرتا ہے۔ یہ احسان کا مرتبہ ہی، اور اللہ تعالیٰ خود احسان کرتا ہے اس لیے وہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ غور کیا جائے تو معاف کرنا احسان کرنے کا عمل ہی، اور یہی اللہ کے رنگ میں رنگنے کا مفہوم ہے۔ معاف کرنے کی صلاحیت انسان کی روح، قلب، نفس اور ذہن میں وسعت پیدا کردیتی ہے۔ اس اعتبار سے معاف کرنے کا عمل انسان کی مجموعی شخصیت کے ارتقا کی ضمانت ہے۔ انسان کی ساخت ایسی ہے کہ تمام منفی خیالات، جذبات اور احساسات انسان کے باطنی ارتقا کے عمل کو روک دیتے ہیں، یہاں تک کہ یہ چیزیں انسان کے لیے قید خانہ بن جاتی ہیں اور انسان ساری عمر اپنے باطن کے زنداں میں کاٹ دیتا ہے۔ دنیا کی ہر قید اس قید کے مقابلے میں ہیچ ہے۔ اس لیے کہ ظاہر کی قید نظر آتی ہے مگر باطن میں انسان کی گرفتاری کسی اور کو کیا خود انسان کو بھی نظر نہیں آتی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو معاف کرنے کا عمل دراصل انسان سازی کا عمل ہے۔ اور انسان سازی کا دوسرا مفہوم تہذیب ہی، اس لیے کہ تہذیب انسان سازی یا Humanization کے مستقلاً جاری عمل کو کہتے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو معافی جسمانی طاقت کو روحانی طاقت میں بدل دینے کا عمل ہے۔ جسمانی طاقت انسان کو بدلہ لینے پر اکساتی ہی، انتقام پر مائل کرتی ہے۔ جسمانی طاقت اخلاق کی پابند ہو تو انسان کو ”انصاف“ کے تصور سے آگے نہیں بڑھنے دیتی۔ اسلام کے تصورِ حیات میں انصاف بہت اہم ہے۔ اس پر معاشرے کی بقا کا انحصار ہے۔ لیکن اسلام اہلِ ایمان کو انصاف کے تصور سے بھی بلند کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ اپنی مخلوق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ انصاف کا نہیں کامل احسان کا ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر انسانوں کے ساتھ انصاف کرنے لگیں تو کوئی انسان بھی بربادی سے نہ بچے۔ یہی معاملہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ اگر آپ فتح مکہ کے دن احسان کے بجائے انصاف کرتے تو مکے کے اکثر لوگ سزا سے نہ بچتے۔ معافی ایک عظیم روحانی، اخلاقی، نفسیاتی، جذباتی، ذہنی اور احساساتی ”مساوات“ کا نام ہے۔ معاف کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ وہ اس شخص سے کسی طرح ”برتر“ نہیں ہے جس کو معاف کیا گیا۔ روحانی، اخلاقی، نفسیاتی، جذباتی، ذہنی اور احساساتی مساوات کا یہ عمل انسانوں کے ظاہر اور باطن کو مسخ نہیں ہونے دیتا۔ حضرت نظام الدینؒ نے فرمایا ہے کہ اگر کانٹوں کے جواب میں کانٹے رکھے جائیں تو پوری دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت معاصر دنیا ہے جہاں انفرادی زندگی سے لے کر قومی زندگی تک، اور قومی زندگی سے بین الاقوامی زندگی تک معافی کا عمل زندگی سے خارج ہوچکا ہے۔ چنانچہ پوری دنیا کانٹوں سے بھرگئی ہے۔ کانٹوں کے جواب میں کانٹے رکھنے کا عمل کہیں ذہانت کہلاتا ہی، کہیں اسے ڈپلومیسی کہا جاتا ہی، کہیں اُسے خوف کے توازن کا نام دیا جاتا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو معاف نہ کرسکنے کا عمل ایک روحانی، اخلاقی، نفسیاتی، جذباتی اور احساساتی معذوری ہے۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ اربوں انسان اس معذوری کو اپنی اہلیت اور اپنی طاقت سمجھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔

0 comments:

یا بتا کیا ہے خطا یاپھر ہدف تبدیل کر
چند روز قبل NDTV پر جو یہ خبر آئی تھی کہ NIA نے مالیگاؤں کے جیل میں بند نو نوجوانوں کو بے قصور بتایا ہے ۔ان کا اس بم دھماکہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ساتھ ہی انہوں نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ ملزمین کے وکلاء اگر انکی ضمانت کی عرضی لگائیں گے تو ہم انکی مخالفت نہیں کریں گے۔ملک کی سب بڑی تفتیشی ایجنسی نے بھی انہیں بے گناہ مان ہی لیا ۔پھر بھی ہماری جمہوری حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی ہے۔اس کے باوجود ہم سینہ پھلاکر کہتے ہیں کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں ۔حکومت کے اس اندیکھی سے دل میں شکوک وشبہات جنم لے رہے ہیں کہ کہیں یہ بھی اسیما نند کے اعتراف جرم کی طرح تو نہیں کہ اسیمانند کے مجسٹریٹ کے سامنے اقبالیہ بیان دینے کے باوجود جب ان بے گناہوں کی طرف سے وکلاء نے ضمانت کی عرضی داخل کی تو سی بی آئی نے عدالت میں اس جواز کے ساتھ مخالفت کی کہ ابھی مقدمہ تفتیش کے مرحلہ میں ہے اس لئے انہیں ضمانت نہیں دی جانی چاہئے۔
جہاں حاکموں اور حکمرانوں کا وطیرہ ہی ناانصافی اور ظلم والا ہو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔اوپر سے نیچے تک تعصب کا زہر بھرا پڑا ہے ۔ حالات پر معمولی نظر رکھنے والے بھی ذرا سا غور کریں گے تو انہیں یہ بات سمجھ میں آجائے گی۔جب مسجد ،درگاہ اور قبرستان کے دھماکوں میں بھی مسلم نوجوانوں کو ہی گھسیٹ لیا جائے اور ان سے انکے آزادانہ جینے کا حق صرف اس بناء پر چھین لیا جائے کہ یہ نوجوان اس بے حیائی ،بے شرمی اور اسلام بیزاری کے دور میں بھی اس سے دور اور انسانیت سے نزدیک کیوں ہیں ؟وہ کیوں خود بھی برائی سے بچے اور معاشرے کو بھی اس دلدل سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں ؟وہ بھی کیوں نہیں اسی سڑے گلے نظام کا حصہ بنتے؟کیا یہی سب وجہ نہیں ہے ان کے بے قصور گرفتار کیئے جا نے کا؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مجھے کوئی یہ بتائے کہ انکی بے گناہی کا یقین ہوجانے کے باوجود بھی ہماری حکومت کہاں ہے۔ اسکی انصاف پسندی اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا فخر کہاں سو رہا ہے؟کیا اسی کا نام جمہوریت ہے کہ ملک کی بیس فیصد سے زیادہ کی آبادی کو ذہنی طور پر احساس جرم میں مبتلاء کردیا جائے؟ کیا یہی جمہوریت ہے کہ ظلم کی تحقیق ہونے کے باوجود حکومت یا متعلقہ محکمہ اس سلسلے میں ہلکا سا افسوس کا اظہار بھی نہ کرے ۔مجھے آج بھی یاد آتا ہے کہ کناڈا میں ایک پاکستان نزاد کنیڈیائی شہری کو عدالت نے جب باعزت بری کیا تو وہاں کے وزیر اعظم نے اس شخص سے پوری قوم کی جانب سے انتہائی لجاجت سے معافی مانگی اور کروڑوں ڈالر کا ہر جانہ بغیر کورٹ کے آرڈر کے ادا کیا اور ا سکے بارے میں بھی انکا یہ کہنا تھا کہ یہ حقیر رقم قبول کریں۔اس کے بعد بنگلور کے ڈاکٹرحنیف کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ آسٹریلیائی حکومت اور پولس نے علی الاعلان اپنی غلطی کا اعتراف کیا ۔ڈاکٹر حنیف کے وکیل نے جب ہرجانہ کا مقدمہ کورٹ میں ڈالا تو بغیر کسی حیل حجت کے عدالت نے ڈاکٹر حنیف کو معاوضہ دلوایا۔اسکے برعکس ہمارے حکمرانوں کا رویہ دیکھیں مسلم اقلیت کے تئیں انکا رویہ انتہائی سرد ہے اب تک کسی نے بھی جو احساس ندامت کیا ہو۔ہاں الیکشن کا وقت آجائے تب دیکھئے یہ کیسے مگر مچھی آنسو بہاتے ہیں۔ مسلمان بھی شاید پکے مومن نہیں رہے جب ہی تو ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے ہیں اور اب بھی اسی سوراخ سے ڈسنے کو تیار بیٹھے ہیں۔
مالیگاؤں کے بے گناہوں کو تو اسی وقت رہا کیا جانا چاہیئے جب کہ ایک سرکاری گواہ اپنے بیان سے پھر گیا تھا ۔یہ پھرنا اس کے ضمیر کی آواز کی وجہ سے تھاچونکہ پولس نے اسے ڈرا دھمکا کر اور بلیک میل کرکے ملزمین کے خلاف گواہی دینے پر مجبور کیا تھا تو جلد یا بدیر اسے تو ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا ہی تھا۔لیکن ساری شہادتیں اور گواہیاں بھی ان کی رہائی میں معاون نہیں بن رہی ہیں ۔اس کی وجہ ہے ہمارے نظام میں فرقہ پرست متعصب لوگوں کا دخول اور یہ اور کوئی نہیں وہی قوم ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ برہما کے مستشک سے پیدا ہوئے ہیں اس لئے وہ سارے گناہوں اور پاپ کے باوجود سارے انسانوں سے افضل ہیں ۔دنیا میں اس طرح کی دو ہی قومیں جو ایسا تصور رکھتی ہیں ۔دوسری قوم کا بھی تصور ہے کہ وہ اللہ کی محبوب قوم ہے ۔جبکہ عرصہ ہوا کہ اللہ کے نزدیک اب وہ ایک مغضوب قوم ہے۔کیوں کہ اللہ کے یہاں بڑائی اور بزرگی کا بس ایک ہی پیمانہ ہے اور وہ ہے کون کتنا زیادہ اللہ سے ڈرتا ہے۔
وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کچھ روز قبل قومی یکجہتی کاؤنسل کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اقلیتیں یہ سمجھتی ہیں کہانہیں نشانہ بنایا جارہا ہے‘‘ اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں جو سورج کی روشنی کی طرح واضح کرتی ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف یہ کہ تعصب برتا جاتا ہے بلکہ انہیں کھلے عام ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔لیکن انہیں کہیں سے اور کبھی بھی انصاف نہیں ملا آزادی کے بعد سے ابتک یہی پوزیشن ہے۔ہمارے سامنے تازہ مثالیں موجود ہیں ۔ممبئی بم دھماکہ 93 کے ملزمین کو مجرم ٹھہرادیا گیا ان میں سے کئی کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی کئی عمر قید کی سزاکے موجب قرار دئے گئے لیکن یہ بم دھماکے جن گھناؤنی حرکتوں کا رد عمل تھے یعنی بابری مسجد کی شہادت اور اس کے بعد ممبئی کا 92-93 کا مسلم کش فسادات اس کے مجرمین نہ صرف یہ کہ آزادانہ گھوم رہے ہیں بلکہ انہوں نے کھلے عام عدلیہ اور مقننہ دونوں کو دھمکایا کہ ہمیں سزاتو دیکر دیکھو۔ ان کی اس دھمکی نے واقعی کام کیا کہ انکے مقدمے ایک ایک کرکے ثبوتوں کی عدم موجود گی کاجواز بنتے ہوئے خارج ہوتے گئے۔بابری مسجد کی ملکیت کا فیصلہ جس طرح عدالت نے کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔ نریندرمودی کے خلاف پچھلے آٹھ نو سالوں میں کیا فیصلہ ہوا ؟جس کے خلاف وافر ثبوت موجود تھے جو اب شاید موجود نہیں جب پوری مشنری پر انصاف کا خون کرنے والے حاوی ہوں تو انصاف کیسے ہوگا۔استثناء کو چھوڑ دیں وہ تو ہر جگہ ہے۔لیکن اجمالی معاملہ یہ ہے کہ ملک عزیز میں مسلمانوں پر انصاف کے دروازے بند ہیں ۔
اگر ہمارے ارباب اقتدار واقعی جمہوریت اور انصاف کی حکمرانی چاہتے ہیں تو انصاف کی طرف بلا حیل و حجت قدم بڑھائیں صرف تقریریں کرنے سے انصاف کا عمل شروع نہیں کیا جاسکتا ۔اس کے لئے ایمانداری سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔اس کے لئے اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انصاف کو قایم کئے بنا ایک صالح معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔اور نہ عظیم ہندوستان کی یکجہتی برقرار رہ سکتی ہے۔ ڈنڈے کے زور پرکسی کو مین اسٹریم میں نہیں لایا جاسکتا۔جیسا کہ کئی مرتبہ سرکاری مشنری کی طرف سے اس بات کا اشارہ کیا جاچکا ہے کہ سیمی پر پابندی اس لئے لگائی جارہی ہے تاکہ مسلم نوجوانوں کو ملک کی مین اسٹریم میں شامل کیا جاسکے۔اس سے آگے کہنے کی گنجائش نہیں بچتی چدمبرم بھی انہیں خطوط پر چل رہے ہیں ۔ابھی حال ہی میں انہوں نے ایک انکشاف کیا کہ سیمی کے نوجوانوں کا بابری مسجد کی ملکیت کا فیصلہ کرنے والے ججوں کا قتل کرنے کا پلان تھا لیکن اسے ناکام کردیا گیا ۔کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ انہوں نے کس کی رپورٹ کو عوامی طور پر پریس کے حوالے کیا ۔اسی آئی بی کے رپورٹ کو جس پر ملک کی بیس فیصد اقلیت سمیت بیشتر انصاف پسندوں نے پہلے ہی سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔یہ وہی آئی بی ہے جو ہر روز افواہ پھیلانے میں اپنا جواب نہیں رکھتی۔جس کو یوم جمہوریہ ،یوم آزادی اور ہندو مسلم تہواروں کے موقعے پر دہشت گردوں کے آمد کی اطلاع مل جاتی ہے اس کا ہلیہ تک اسے پتہ چل جاتا ہے لیکن وہ کبھی پکڑ میں نہیں آئے۔بعض مبصرین کی رائے صحیح لگتی ہے کہ آئندہ گمراہ کن جالی انکاؤنٹر کے لئے بنیاد بنایا جاتا ہے۔تعجب ہے اتنے بڑے ملک کا وزیر داخلہ انہیں افواہوں کو سچ کا درجہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔اسے آپ اس ملک کی بدنصیبی نہیں تو اور کیا کہیں گے۔
حکومت کی نیت انصاف کرنے کی ہو تو انصاف مشکل نہیں ہے لیکن سب کچھ نیتوں پر موقوف ہے۔اگر حکومت کی نیت ٹھیک ہے تو وہ ان افسران کو تعزیر کے تحت لائے جنہوں نے انصاف کو رسوا کیا ہے۔ انہیں گرفتا رکیا جائے ۔ان پرمقدمات چلائے جائیں اور ایسی کوشش ہو کہ انہیں اپنے گناہوں کی قرار واقعی سزا ملے۔جن لوگوں کی زندگی برباد ہوئی ہے۔ ان کو بھاری معاوضہ دیا جائے ۔اس معاوضہ کو سرکاری خزانہ پر بوجھ نہیں بنایا جائے بلکہ انہی افسران کی تنخواہوں سے انکی گریجویٹی سے لیا جائے اگر ایسا کیا جائے تو کوئی بھی اس طرح کی غلیظ حرکت کرتے ہوئے سو بار سوچے گا۔پر بات یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی جان ومال عزت وآبرو کو افسران کے علاوہ حکومتوں نے بھی اپنے لئے حلال کرلیا ہے ۔ ہم حکومت پر شک کرنے میں غلطی پر ہیں تو اس کی نشاندہی یقیناًکی جانی چاہئے لیکن ہمیں امید ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا ہاں چند ڈپلومیٹک الفاظ کے ذریعہ حکومت کا دفاع ضرور کیا جاسکتا ہے ۔
ہم پھر سیمی کی طرف آتے ہیں 27 ؍ستمبر 2001 کو سیمی پر پابندی لگی تھی پورے دس سال ہوگئے اس ظلم اور ناانصافی کو اس دوران صرف 2008 جسٹس گیتا متل نے پابندی لگانے سے انکار کردیا کیوں کہ کوئی بھی با ضمیر ناجائز کو جائز نہیں کہہ سکتا یہی کچھ گیتا متل نے کیا لیکن مرکزی حکومت کی چابکدستی دیکھئے کہ اس نے محض چند گھنٹوں میں سپریم کورٹ پہونچ کر اس فیصلہ پر حکم امتنائی لے لیا اور سپریم کورٹ کی بھی فعالی ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے سالوں سے دھول چاٹ رہی سیمی کی درخواست کو قابل توجہ نہ سمجھا لیکن اسی سلسلہ میں مرکزی حکومت کی درخواست منظور کرلی۔یہاں ہمیں یہ سوچنا پڑتا ہے کہ ہماری جمہوری حکومت میں عدالتیں کس حد تک آزاد ہیں ۔کلدیپ نیر ایک کہنہ مشق صحافی ہیں انہوں اپنے مضمون میں ایک بات لکھی تھی کہ پاکستان کی ہم چاہیں جتنی برائیاں بیان کریں لیکن ایک بات مسلم ہے کہ پاکستان میں عدلیہ اور پریس آزاد ہے۔انہوں نے ملک عزیز میں ان دونوں کی کیفیت نہیں بتائی لیکن اپنی آنکھوں اور ذہنوں کو کشادہ رکھنے والوں سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ۔
نہال صغیر

0 comments: