عام انتخابات کے سیمی فائنل میں کانگریس کی ہزیمت: ابتدائے عشق ہے

یو پی اے دوم حکومت کی سربراہ کانگریس کو آخر کار عام انتخاب کے سیمی فائنل میں سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جو بوئوگے وہی کاٹوگے۔ کانگریس نے جو بویا تھا وہ اس نے کاٹا اور آگے بھی اس کے زہریلے فصل اسے ہی کاٹنے ہیں ۔2004 کے عام انتخابات میں عوام نے بڑے امنگوں اور آرزوئوں سے بی جے پی کے خلاف ووٹ دیکر واضح اشارہ دیا تھا کہ اسے فرقہ پرستی پر مبنی سیاست نہیں چاہئے ۔لیکن کانگریس نے کوئی واضح پالیسی اختیار نہیں کی ۔فرقہ پرستی کے معاملہ میں اس کا رویہ نرم ہندو توا کے حمایتی کا رہا ۔اس کے دور حکومت میں مسلم نوجوانوں کی بیجا گرفتاریاں فرضی بم دھماکے اور ناانصافیوں کا بول بالا رہا ۔مہنگائی کی بلندی نے ہمالہ پہاڑ کو بھی مات دے دیا ۔ہر دن اخبارات کی سرخیوں میں ایک نئی بد عنوانی کا خلاصہ ہوتا رہا اور کانگریس بے شرمی اور ڈھٹائی سے اسے نظر انداز کرتی رہی اور اس کے انجام اور عوام کے مزاج سے بے خبر ملک کو کوئی واضح پالیسی دینے میں ناکام رہی ۔

    بلاشبہ اس سیمی فائنل کا ہیرو اروند کیجریوال کو ہی کہا جاسکتا ہے ۔انہوںنے کانگریس کی آہنی دیوار سمجھی جانے والی شیلا دکشت کو بائیس ہزارسے زیادہ کے فرق سے ہرا دیا ۔ان کی اس جیت سے لوگوں کو تعجب ہے کہ اتنی وضح جیت کیسے حاصل کیا؟لیکن یہ سوال وہ لوگ اٹھا رہے ہیں جنہوں نے ہندوستان کی جمہوری حکومت میں دو پارٹی کے علاوہ اور کوئی آپشن پر نظر ہی نہیں دوڑایا یا وہ عوام کی تکلیف کا صحیح اندازہ لگانے میں سخت غفلت کے شکار رہے۔اروند کیجریوال نے ایک صحافی کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ جیت کی بات تو دور کی ہے ہم نے تو یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ ہم کبھی سیاست میں حصہ لیں گے لیکن ملک کے بد سے بدتر ہوتے حالات کے پیش نظر ہمیں سیاست میں آکر اپنی ذمہ داری ادا کرنے کیلئے مجبور کیا ۔اگر ملک میں سب کچھ ٹھیک ہوتا سیاسی پارٹیاں اور سیاستداں سب ملک کی ترقی کیلئے کام کرتیں تو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ مجھے اتنا سخت فیصلہ لینا پڑتا ۔صحیح کہا اروند کیجریوال نے ہندوستانی سیاست کوئی بچوں کا کھیل نہیں کہ کوئی بھی آئے اور حصہ لے ۔یہاں بڑی بڑی سیاسی مافیا سیاسی پارٹیوں کے روپ میں موجود ہیں جو کسی ایسی قیادت کو ابھرنے ہی نہیں دیتے جسے ملک کی ترقی کی فکر ہو ۔سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر اب عام آدمی پارٹی کو جیت کیوں ملی ۔اس کا سیدھا جواب ہے کہ عوام پچھلے 65 سالوں سے سیاسی مافیائوں کے ظلم اور لوٹ مار سے پریشان ہو کر کرو یا مرو کی پوزیشن میں آگئی ہے ۔اسے دلی میں ایک آپشن نظر آیا عوام اس طرف پر امید اور روشن مستقبل کی چاہ میں گئی ۔اگر اس کے علاوہ تین اور ریاستوں میں بھی اسے کوئی آپشن نظر آتا تو عوام بی جے پی کو واضح اکثریت سے منتخب نہیں کرتی ۔اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والا لوک سبھا انتخاب عوام کو یقینی طور پر نئے آپشنز سے متعارف کرائے گا۔

    انا ہزارے جو کہ اروند کے سیاسی پارٹی بنانے سے خوش نہیں تھے اور ان کی سادہ لوحی سے میڈیا نے خوب فائدہ اٹھایا اور اروند کے خلاف کئی بیان ان کے منھ میں رکھ کر میڈیا میں پیش کرکے اروند کیجریوال کے لئے پریشانیاں کھڑی کرنے کی کوشش کی گئیںاور بقول یوگیندر یادو کے ’’ہمیں دو وجوہات کی بنا پر واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی اول تو میڈیا کے ذریعہ جھوٹے اور گمراہ کن ایگزٹ پول جس میں بتایا گیا کہ عام آدمی پارٹی کو چار یا پانچ سیٹ سی زیادہ نہیںملے گی جس سے عوام میں یہ تاثر گیا کہ چار یا پانچ سیٹ والی پارٹی سے کیا بھلا ہونا ہے اس لئے عوام کا رخ آخری 72 گھنٹوں میں تبدیل ہوا ۔دوسری اور اہم وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ عام آدمی پارٹی کے ورکر بھی عام آدمی تھے جنہیں موجودہ سیاسی جوڑ توڑ نہیں آتی ‘‘۔اسی طرح کی باتیں اروند کیجریوال نے بھی اپنے انٹر ویو میں کہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ بی جے پی کہہ رہی ہے کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھے گی اور آپ بھی کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن میں بیٹھیں گے ،پھر حکومت کون بنائے گا ؟انہوں نے کہا کہ ابھی کچھ گھنٹے تو گزرنے دیجئے آپ ان کی جوڑ توڑ کی پالیسی سے ناامید نہیں ہونا چاہئے یہ لوگ اس میدان کے پرانے اور گھاگ کھلاڑی ہیں، یہ ضرور کوئی جوڑ توڑ کریں گے اور حکومت بنائیں گے ۔اروند نے مزید کہا کہ اگر یہ اتنے ہی ایماندار ہوتے تو ہمیں اپنا کریئر چھوڑ کر سیاست میں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔یوگیندر یادو اور اروند کیجریوال کی موجودہ سیاست اور سیاست دانوں پر تبصرہ بالکل عوامی تخیلات اور اور ان کی سوچ کے مطابق ہی ہے سیاست دانوں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس سے عوام میں کوئی مثبت پیغام جاتا ۔بے شک اروند کیجریوال نے بڑی دانشمندی اور سوجھ بوجھ کا ثبوت دیا ہے کہ جب آر ایس ایس کا پروردہ میڈیا انکو انکے گرو انا ہزارے سے لڑانے کی پوری کوشش کررہا تھا تب انہوں نے صبر و ضبط کا دامن تھامے رکھا جس کا فائدہ یقیناً انہیں اور انکی نوخیز پارٹی کو ہوا ۔حالانکہ بقول یوگیندر یادو کے میڈیا کے منفی رجحان اور سیاست دانوں کے سیاسی دائو پیچ کی وجہ سے انہیں نقصان ہوا ہے لیکن بہر حال اس میں حوصلہ شکن جیسی کوئی بات نہیں ۔کسی نے کہا ہے ’گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں ۔وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے۔

    اتر پردیش میں بھی ڈیڑھ سال قبل بھی کانگریس اور پانچ سالوں سے وہاں حکمراں جماعت مایا وتی کی بہوجن سماج کو بھی عوام نے رجیکٹ کرکے یہ پیغام دیدیا تھا کہ صرف وعدوں پربہلنے والی عوام کا دور چلاگیا اب اکیسویں صدی کی عوام تیز رفتار انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لیس ہے وہ ہر آن اپنے عمل اور فیصلوں کا محاسبہ کرتی ہے ۔اس لئے سیاسی پارٹیاں بھی اپنا محاسبہ کریں اور اپنی خامیوں کی طرف متوجہ ہوں نیز عوامی فلاح کے لئے کام کو اہمیت دیں ۔اب ان کی بدعنوانی کی خبر چھپنے والی نہیں بیدار عوام کا ایک طبقہ ان کی ٹوہ میں لگا رہتا ہے کہاں سے وہ ان کی چوری پکڑے اور عوام کے سامنے پیش کردے ۔مین اسٹریم میڈیا بھی سرمایہ داروں کی زیادہ جی حضوری نہیں کرسکتا کیوں کہ سوشل میڈیا نے عوام کو وہ قوت عطا کردی ہے کہ بغیر کسی خرچ کے صرف چند منٹوں کی محنت سے وہ ان بدعنوانیوں کو چند سیکنڈوں میں لاکھوں اور کروڑوںلوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔لیکن کانگریس نے اتر پردیس کی ہار سے بھی کوئی سبق نہیں لیا ۔یہ سبق لیں گے بھی کیوں ؟انہیں اصولی سیاست آتی ہی کب ہے یہ تو صرف جوڑ توڑ اور فرقہ پرستانہ نسلی امتیاز اور فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی سیاست کے پروردہ لوگ ہیں ۔کانگریس دعویٰ تو کرتی ہے کہ وہ اصولی سیاست کرتی ہے فرقہ ،پرستی ،علاقائی ،لسانی عصبیت سے پاک سیاست کا دعویٰ محض دعویٰ ہی رہ گیا ۔اس نے بی جے پی کے مقابلے میں نرم ہندو توا کا رول اپنایا ۔فرقہ پرستی کے معاملہ میں اس نے زبانی دعووں اورخوش کن نعروں کے علاوہ آج تک مسلمانوں کو اگرکچھ دیا ہے تو وہ ساٹھ ہزار سے زیادہ فسادات ،لاکھوں مسلمانوں کی ہلاکت اور اربوں کی جائداد کی بربادی ،بابری مسجد کی مسماری سمیت ان گنت ایسے سیاہ کارنامے ہیں کانگریس کے دامن پر کہ اب کسی مزید سیاہی کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ 

    اپنی شرمناک ہار پر کانگریسی لیڈروں کی طرف سے محاسبہ کئے جانے کی بات آئی ہے لیکن یقین کیجئے کہ وہ اب بھی دھوکہ دہی ،استحصال،چوری ،عوامی مسائل سے بے توجہی اور مسلمانوں کو عدم تحفظ کے ماحول سے نکالنے کیلئے کچھ نہیں کرے گی ۔کچھ لوگوں کا ایمان ہی کانگریس ہے وہ اسے اصول پسند اور واحد معتبر پارٹی تسلیم کرتے ہیں ۔انہوں نے عام آدمی کی طرف سے پیش قدمی کو بھی اپنی منافقانہ تحریروں سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن ارادے سچے ہوں تو انسان منزل پر پہنچ ہی جاتا ہے ۔گرچہ اروند کو میڈیا کی منفی روش اور سیاسی بازیگروں نے مکمل اکثریت سے روک دیا لیکن عوام کو آپشنز تو مل ہی گیا ۔اب عام آدمی پارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ کس حد تک عوامی توقعات پر کھری اترتی ہے یا وہ بھی ایسے تالاب میں جس میں ساری مچھلیاں ہی گندی ہیں اپنے وجود کو بھی کثافت زدہ کردیگی ۔امید پر دنیا قائم ہے ۔ ملک کی بگڑتی صورتحال سے ہر کوئی پریشان ہے ۔میں بھی اسی ملک کا شہری ہوں اس بری حالت سے میں بھی دکھی ہوں ۔لیکن میں آر ایس ایس بی جے پی اور کانگریس کی مبینہ روایتی وطن پرستی سے الگ سوچ رکھتا ہوں ۔میں چاہتا ہوں کہ کہیں مجھے یہ بتانے میں شرمندگی نہ محسوس ہوکہ میں ہندوستانی ہوں ۔پچھلے 65 سالوں سے ہمارے سیاست دانوں نے ہمیں شرمندگی کے علاوہ اور دیا ہی کیا ہے ۔دنیا میں شہریوں کو صاف پانی مہیا کرانے کا معاملہ ہو ،نومولود بچوں میں تغذیہ کی کمی کا معاملہ ہو یا غربت کی سطح کا معاملہ ہو ہماری حالت بنگلہ دیش پاکستان نیپال اور بعض پسماندہ تر افریقی ملکوں سے 

بھی زیادہ بری ہے ۔اور یہ معاملات کسی سنجیدہ شہری کیلئے شرمندگی کا ہی تو سبب ہیں کہ شور تو یہ ہے کہ ہم مستقبل کے سوپر پاور ہیں اور حالت یہ ہے کہ اپنے شہریوں کو بنیادی ضروریات تک مہیا نہیں کراسکتے ۔65 سالوں میں ساٹھ ہزار سے زیادہ فسادات کا کلنک ہمارے ماتھے پر چپکا ہوا ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی ہندوستان کو اس پستی اور ذلت سے نکالنے میں مستقبل قریب میں اہم رول ادا کرے گی۔ 

نہال صغیر۔
موبائل۔9987309013 
۔ای میلsagheernehal@gmail.com

0 comments:

نریندر مودی الیکٹرونک میڈیا کے وزیر اعظم


الیکشن 2014 کو بھارت کی تاریخ کا سب سے فیصلہ کن الیکشن کہیں تو بیجا نہیں ہوگا ۔اگر تھوڑی دیر کیلئے ہم مان لیں کہ بی جے پی اور کانگریس دو الگ نظریات کی پارٹی ہے ۔تو یہ حالات سے سے ظاہر ہے کہ دونوں کیلئے ہی فیصلہ کن اور کرو یا مرو والی پوزیشن ہے ۔ویسے دونوں کا دو الگ نظریہ مان لینا سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں ۔جنگ آزادی کے دوران اور اس کے بعد 65 سالہ کانگریسی دور حکومت میں ہونے والے فسادات اور مسلمانوں سے برتے جانے والے امتیازات یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ بی جے پی اور کانگریس میں زیادہ کچھ فرق نہیں ہے ۔فرق اگر ہے تو اتنا کہ آزادی سے قبل کانگریس دو حصوں میں منقسم تھی تشدد پسند اور گاندھی جی کی قیادت والی اہنسا وادی ۔آزادی کے بعد کانگریس اور بی جے پی (یا جن سنگھ،ہندو مہاسبھا وغیرہ) نرم ہندوتوا وادی اور سخت گیر ہندوتوا وادی۔ یہی کھیل ابھی بھی کھیلا جارہا ہے ۔آر ایس ایس کے موجودہ سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کی ان باتوں نے مجھے کوئی حیرت میں نہیں ڈالا تھا کہ سنگھ کے لوگ سبھی پارٹیوں میں ہیں یہاں تک کمیونسٹ پارٹیوں میں بھی ۔میں اس بات کو بھی نہیں مانتا کہ آر ایس ایس کسی ہندو اسٹیٹ کو قائم کرنا چاہتی ہے بلکہ وہ ایک برہمن اسٹیٹ قائم کرنا چاہتا ہے ۔جس میں ذات پات کا ظالمانہ اور غیر انسانی نظام قائم ہوگا اس میں مسلمانوں کی کیا پوزیشن ہوگی اسے تو درکنار کیا جائے لیکن اس میں خود اس گروہ سے تعلق رکھنے والے پسماندہ طبقات کا کیا ہوگا وہ ان کی سوچ اور ان کی منو وادی سیاست سے ظاہر ہے جس کو ہزاروں سالوں کی تاریخ نے محفوظ کیا ہوا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی دلت وزیر اعظم نہیں بنا ہاں صدرجمہوریہ بنا ہے اور اس کی حیثیت کیا ہے وہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں ۔
موجودہ الیکشن کا بگل بجنے کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے وہ خواہ راہل گاندھی کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کو پاکستانی خفیہ ایجنسی سے جوڑنا ہو ،مولانا محمود مدنی کا کانگریس کے بارے میں بیان ’’صاف چھپتے بھی نہیں پاس آتے بھی نہیں ‘‘ والا ہو یا بہار کے بی جے پی کی ہونکار ریلی میں آئی بی کی اختراع انڈین مجاہدین کے ذریعہ دھماکہ ہو یہ سب سوچے سمجھے پلان کا حصہ ہیں ۔اس میں سے کوئی بھی اچانک وقوع پذیرنہیں ہوا ۔ یہاں تک کہ سردار پٹیل کے نام کو گھسیٹا جانا بھی الیکشنی منصوبہ کا ہی حصہ ہے تاکہ اگر کچھ ووٹ ادھر ادھر ہو تو سردار پٹیل کی ہندوتوا والی پوزیشن کو کیش کروایا جائے ۔اور سب کچھ بہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ بالکل منصوبے کے مطابق انجام دیاجارہا ہے ابھی تک کہیں بھی کوئی روکاوٹ نہیں آئی ہے ۔کانگریس بھی اسی منصوبے پر عمل پیرا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کے RTI ،RTE منریگا اورغذائی تحفظ بل کو بھی کوئی خاص حصولیابی نہیں مل سکے گی ۔بی جے پی ،سنگھ اور کانگریس کے اندر کے سنگھیوں نے مل کر بہت بڑا الیکشنی گیم پلان تیار کیا ہے ۔رفتہ رفتہ انہوں نے مودی کو وزیر اعظم کا امید وار بناہی دیا ۔اس میں پورا الیکٹرانک میڈیا شامل ہے اور ظاہر ہے کہ الیکٹرانک میڈیا یوں ہی شامل نہیں ہے کتنے ارب روپئے دئے گئے ہونگے اور کئی خوشنما وعدے ہونگے اس کو کہا نہیں جاسکتا نہ ہی یہ کبھی منظر عام پر آسکتا ہے ۔کیوں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں ۔آج بروزجمعہ 8 ؍نومبر کو نریندر مودی کی انتخابی ریلی جو کہ اتر پردیش کے بہرائچ میں تھی جس طرح دس سے زیادہ انگلش اور ہندی نیوز چینلوں نے لائیو ٹیلی کاسٹ کیا وہ کہانی بیان کرنے کیلئے کافی ہے کہ دراصل نریندر مودی کو سرمایہ داروں اور الیکٹرانک میڈیا نے وزیر اعظم کا امید وار بنایا ہے ۔دوران ٹیلی کاسٹ یہ جاننے کی بار بار کوشش کی کہ دیکھیں عوام کی تعداد کیا ہے لیکن سبھی چینل بڑی عیاری سے اس کا کوریج کررہے تھے ۔وہ عوام کو دکھاتے تو ایک خاص زاویہ سے اور وہ بھی اتنی تیزی کے ساتھ آپ اندازہ ہی نہیں لگاسکتے ۔یعنی اتنا خرچ کرنے اور میڈیا کو مینج کرنے کے باوجود عوامی طور پر نریندر مودی کے جادو کا کوئی اثر نہیں دکھ رہا ہے ۔پھر بھی جس طرح ایک ایک مہرے اپنی اوقات کے حساب سے آگے بڑھائے جارہے ہیں اس کی وجہ سے قبل از وقت کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ۔
نریندر مودی بڑی چالاکی سے دو باتوں کو اپنی الیکشنی کمپین میں بیان کرتے ہوئے نظر آئے پٹنہ میں دھماکہ کو کانگریس کی سازش بتایا اور دوسرے گجرات کی ترقی کا شور جس کی ہوا کئی بار نکل چکی ہے ۔لیکن بہرحال اتر پردیس اور بہار میں جو پسماندگی ہے وہ عوام کے مزاج کو کبھی بھی بدل سکتا ہے ۔گرچہ بہار میں نتیش کی حکومت نے بجلی کی حالت کچھ بہتر کی ہے جہاں ہفتہ میں ایک دو گھنٹہ بجلی ہوا کرتی تھی اس بار وہاں بھی روزانہ آٹھ سے دس گھنٹہ بجلی دیکھی گئی اور شہروں میں بیس بائیس گھنٹے بجلی آرہی ہے ۔اتر پردیش میں لیکن ابھی بھی حالت ویسی ہی ہے ۔یہ بھی صحیح ہے کہ اکھلیش حکومت کی ڈیڑھ سالہ حکومت میں کوئی جادو نہیں ہو سکتا لیکن تبدیلی تو بہر حال نظر آنی چاہئے ۔تبدیلی آئی بھی ہے لیکن وہ ڈیڑھ سو سے زیادہ فسادات کی صورت میں ۔جس سے اتر پردیش کا مسلمان کافی ناراض ہے ۔امن و قانون کی دیگر صورت حال پر بھی اکھلیش حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔جس سے یقیناًمخالف قوتیں فائدہ اٹھائیں گی۔اکھلیش کا طلباء کو لیپ ٹاپ اور ودھیا دھن یوجنا کتنا کارگر ثابت ہوگا اور یہ کہ اس میں بی جے پی کس قدر سیندھ لگا سکتی ہے یہ وقت بتائے گا ۔ایسی صورت میں بی جے پی کو فائدہ تو ہوگا ہی لیکن اسقدر نہیں جس قدر میڈیا میں شور مچایا جارہا ہے اور بی جے پی آر ایس ایس اور ان کے ہمنوا دکھا رہے ہیں کہ گویا بس اس بار مودی ایک کرشماتی شخصیت بن کر ابھریں گے اور بی جے پی کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگادیں گے ۔ایسا کچھ ہوتا تو پٹنہ سمیت آج کی بہرائچ کی ریلی میں عوام کا جم غفیر نظر آتا لیکن مودی کی کرشماتی شخصیت کا سارا بھانڈا ہی پھوٹ گیا جہاں عوام کی عدم دلچسپی ان کی تعداد کی کمی سے صاف نظر آرہی تھی ۔اگر بی جے پی کو کوئی چیز فائدہ پہنچاسکتی ہے تو وہ کانگریس کی منافقت اور دیگر سیاسی پارٹیوں کی آپسی سر پھٹول اور کئی لوگوں کا پی ایم ان ویٹنگ میں ہونا ۔اور یہ بھارت اور اس کے عوام کی بد قسمتی ہی کہی جائیگی کہ جب فرقہ پرستوں کو ٹھکانے لگانے کا پورا موقع موجود تھا جب بھی یہ متحد ہو کر کچھ نہیں کر سکے پھر چاہے قیامت تک فرقہ پرستوں کو کوستے رہنے سے ملک کا کوئی بھلا نہیں ہونا ۔
نہال صغیر۔ موبائل۔9987309013  sagheernehal@gmail.com

0 comments:

“The Presidential Order of 1950: A Fraud on the Constitution.”



Paper submitted by Mr Mushtaq Ahmad, Advocate-on-Record, Supreme Court of India, New Delhi; Two-Day National Conference on Caste, Religion and Reservation with Special Focus on Dalit Muslims and Dalit Christians.
Dr K.R. Narayanan Centre for Dalit and Minorities Studies, Jamia Millia Islamia, New Delhi.
Greetings!
The third paragraph of the Constitution (Scheduled Caste) Order 1950, popularly known as Presidential Order, stipulates that “no person who professes a religion different from Hinduism, Sikhism and Buddhism shall be deemed to be a member of Scheduled caste.” Thus the Christians and Muslims of Scheduled Caste Origin are deprived of Scheduled Caste rights.
To announce the above said paragraph 3 as unconstitutional, (Civil)Writ Petitions were filed in the Supreme Court against Union of India.
Concerned with the above said cases, Government of India had taken the following cabinet decision and referred the matter to the National Commission for Religious and Linguistic Minorities (NCRLM).
“To give its recommendations (granting Scheduled Caste status to Dalit Christians) on the issues raised in various Writ Petitions filed in the Supreme Court and in certain High Courts relating to Constitutional validity of Para 3 of the Constitution (Scheduled Caste) order, 1950, in the context of ceiling of 50% on reservation as also the modalities of inclusion in the list of scheduled castes”.
On 28-11-2005 hearing, The Supreme Court Order is as follows:
“The challenge in this matter is the constitutional validity of paragraph 3 of the Constitution (Scheduled Caste) order, 1950. In substance, the grievance projected by the petitioners is that Scheduled Castes, on conversion of their religion to Christianity, lose all their benefits as Scheduled castes on account of the operation of paragraph (3) of the aforesaid order and, thus, the order is Constitutionally invalid. We may examine, if necessary, this question after we are informed as to the progress made in the proceedings before the National Commission for Religious and Linguistic Minorities. It has been pointed out that on 28th September 2005, terms of reference of the Commission have been amended and the commission has been asked to give its recommendation on the issues raised herein as also in the context of the ceiling of fifty per cent on reservation in terms of the decision of this court in Indra Sawhney Vs. Union of India and others (1992 Suppl. (3) S.C.C. 217). On the issues involved, at this stage, we express no opinion. We may have to hear the matter in detail after information is supplied, as afore noted. We are not linking the examination of the issue by this court only on the recommendation by the Commission and have directed for the afore said information because that may facilitate the examination, by this court”.
 As per the cabinet decision of the Union of India and the order of the Supreme Court of India, the National Commission for Religious and Linguistic Minorities (NCRLM) Report volume I, page 154, part 16.3.5 declares as follows:
NCRLM Report volume I, page 141, Sub division ‘a’
“So the Presidential Order of 1950 is unconstitutional and it is a black letter
written outside the constitution introduced through the back door by an
executive order Para 3 of the presidential order is anathema which disfigures
the beauty of the written Constitution of India.”
(Note: The NCRLM report was tabled in the Parliament without Action Taken
Report in December 2009).
The Supreme Court of India Order on 23-01-2008
“Learned Additional Solicitor General seeks eight weeks time to take a
decision in the matter, time sought is granted”.


As per the following letters the Secretary and the Director of Ministry of Social
Justice and Empowerment had requested the Central Agency Section, Ministry
of Law and Justice, Department of Legal Affairs, Supreme Court Building,
New Delhi to give them time to file a reply by the Indian Government.
i. D.O.No.12018/4/2005-SCD (R.L.Cell) July 13, 2009-Supreme Court may
be requested to give four months time to file the stand of Union of India.
ii. D.O.No.12018/4/2005-SCD (R.L.Cell) August 3, 2009 seek another four
months time for finalizing the stand of the Union of India.
iii. D.O.NO.12018/4/2005-SCD (R.L.Cell) October 5, 2009 seek another six
months time, for finalizing the stand of the Union of India.
iv. D.O.NO.12018/4/2005-SCD(R.L.Cell) December 7,2009 seek another
four months time for finalizing the stand of the Union of India.
v. D.O.NO.12018/4/2005-SCD (R.L.Cell) January 7, 2009 seek another
three months time, for finalizing the stand of the Union of India.
vi. D.O.NO.12018/4/2005-SCD (R.L.Cell) April 2, 2010 seek another three
months time, for finalizing the stand of the Union of India.
vii. D.O.NO.12018/4/2005-SCD (R.L.Cell) January 8, 2010 seek three
months time, for finalizing the stand of the Union of India.
As on date, response of the Union of India is not filed in the Supreme Court of India.
The Supreme Court had passed the following Order on 21st January, 2011
(headed by the Chief Justice Honourable Kapadia, Honorable Justice Swantrakumar and Honorable Justice Panikkar Radhakrishnan). On oral application made by learned counsel for the petitioners, National Commission for Minorities and National Commission for Scheduled Castes are to be added as party respondents since for the following constitutional issues are arising:
[1] Whether Paragraph (3) of the Constitution (Scheduled Caste) Order,
1950 issued in exercise of Article 341(1) of the Constitution of India,
which says that, “Notwithstanding anything contained in paragraph 2, no
person who professes a religion different from Hinduism, Sikhism and
Buddhism shall be deemed to be a member of a Scheduled Caste” is
unconstitutional and void, being violative of Articles 14, 15, 16 and 25 of
the Constitution of India?
[2] Whether a Scheduled Caste person professing a religion different from
Hinduism, Sikhism and Buddhism can be deprived of the benefit of
Paragraph 3 of the Constitution (Scheduled Castes) Order, 1950, in
violation of Articles 14, 15, 16 and 25 of the Constitution of India?
[3] Whether non-inclusion of “Christians” and “Muslims’ in Paragraph (3) of
the Constitution (Scheduled Castes) Order, 1950, along with Hinduism,
Sikhism and Buddhism, is discriminatory and violative of Articles 14,
15, 16 and 25 of the Constitution of India?
Both National Commission for Minorities and the National Commission for Scheduled Castes had filed very good written statement in favour of Dalit Christians and Dalit Muslims for granting them the Scheduled Castes status.
Constitutional validity of Paragraph 3 of the Constitution (Scheduled Castes) Order 1950.
Article 341(1) of the Constitution of India:
The President may with respect to any State or Union territory, and where it is a State after consultation with the Governor thereof, by public notification, specify the castes, races or tribes or parts of or groups within castes, races or tribes which shall for the purposes of this Constitution be deemed to be Scheduled Castes in relation to that State or Union territory, as the case may be.
But in the Constitution (Scheduled Caste) order 1950, President of India had brought religious restriction arbitrarily, it is nothing but a Constitutional fraud.
The term “Scheduled Castes” is defined in article 366(24) of the Constitution of India as follows:-“Scheduled Castes” means such castes, races or tribes or parts of or groups within such castes, races or tribes  as are deemed under Article 341 to be Scheduled castes for the purposes of the Constitution.”
Explanation:
14. Equality before law:
The State shall not deny to any person equality before the law or the equal protection of the laws within the territory of India.
15. Prohibition of discrimination on grounds of religion, race, caste, sex or place of birth.
(1) The State shall not discriminate against any citizen on grounds only of religion, race, caste, sex, place of birth or any of them.
(2) No citizen shall, on grounds only of religion, race, caste, sex, place of birth or any of them, be subject to any disability, liability, restriction or condition with regard to-
(a) Access to shops, public restaurants, hotels and places of public entertainment; or
(b) The use of wells, tanks, bathing ghats, roads and places of public resort maintained wholly or partly out of State funds or dedicated to the use of the general public.
(3) Nothing in this article shall prevent the State from making any special provision for women and children.
10[(4) Nothing in this article or in clause (2) of article 29 shall prevent the State from making any special provision for the advancement of any socially and educationally backward classes of citizens or for the Scheduled Castes and the Scheduled Tribes.
16. Equality of opportunity in matters of public employment.- 
(1) There shall be equality of opportunity for all citizens in matters relating to employment or appointment to any office under the State. 
(2) No citizen shall, on grounds only of religion, race, caste, sex, descent, place of birth, residence or any of them, be ineligible for, or discriminated against in respect of, any employment or office under the State. 
(3) Nothing in this article shall prevent Parliament from making any law prescribing, in regard to a class or classes of employment or appointment to an office under the Government of, or any local or other authority within, a State or Union territory, any requirement as to residence within that State or Union territory prior to such employment or appointment. 
12 (4A)  Nothing in this article shall prevent the State from making any provision for reservation in matters of promotion to any class or classes of posts in the services under the State in favour of the Scheduled Castes and the Scheduled Tribes which, in the opinion of the State, are not adequately represented in the services under the State.
12A (4B) Nothing in this article shall prevent the State from considering any unfilled vacancies of a year which are reserved for being filled up in that year in accordance with any provision for reservation made under clause (4) or clause (4A) as a separate class of vacancies to be filled up in any succeeding year or years and such class of vacancies shall not be considered together with the vacancies of the year in which they are being filled up for determining the ceiling of fifty per cent. reservation on total number of vacancies of that year.
(5) Nothing in this article shall affect the operation of any law which provides that the incumbent of an office in connection with the affairs of any religious or denominational institution or any member of the governing body thereof shall be a person professing a particular religion or belonging to a particular denomination.
25. Freedom of conscience and free profession, practice and propagation of religion.
(1) Subject to public order, morality and health and to the other provisions of this Part, all persons are equally entitled to freedom of conscience and the right freely to profess, practise and propagate religion.
(2) Nothing in this article shall affect the operation of any existing law or prevent the State from making any law
(a) Regulating or restricting any economic, financial, political or other secular activity which may be associated with religious practice;
(b) Providing for social welfare and reform or the throwing open of Hindu religious institutions of a public character to all classes and sections of Hindus.
Explanation I. The wearing and carrying of kirpans shall be deemed to be included in the profession of the Sikh religion.
Explanation II.- In sub-clause (b) of clause (2), the reference to Hindus shall be construed as including a reference to persons professing the Sikh, Jaina or Buddhist religion, and the reference to Hindu religious institutions shall be construed accordingly.

0 comments:

الیکشن 2014 :سیاسی بساط بچھائی جارہی ہے ،مہرے تبدیل کئے جارہے ہیں !


الیکشن 2014 کی ساری تیاری ہو چکی ہیں سیاسی مہاشے کچھ اپنے خول سے نکلنے لگے ہیں تو کوئی اپنے خول میں واپس جارہے ہیں ۔جس نے کھلے عام مسلم دشمنی کا وطیرہ اپنا رکھا تھا وہ مسلمانوں کا مسیحا بننے کی تگ و دو میں ہے ۔جو آزادی کی صبح سے ہی مسلم نوازی اور مسلم مسیحائی کا دعویدار تھا اس نے مسلم نوجوانوں کا تعلق آئی ایس آئی سے جوڑ دیا ۔کل ملا کر سیاست کے اکھاڑے میں سارے سیاسی پہلوان اتر چکے ہیں ۔نام نہاد مسلم قائدین کی قیمت لگائی جارہی ہے کہ کون کتنے میں مسلم ووٹ کا سودا کرئے گا ۔ہزاروں سال کی سنسکرتی کا راگ الاپنے والے ۔اجنتا اور کھجوراہو کے وارث سیاست میں بھی اتنے ہی ننگے ہیں جتنی کہ یہ مورتیاں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ان مورتیوں کو تراشنے والے کوئی اور تھے ۔اور یہ سیاست داں سیاست کے اس دلدل کے خود کھلاڑی ہیں ۔ان کو کسی نے نہیں تراشا ہے ۔مسلمانوں کے خون کی ارزانی پھر سے شروع ہو گئی ہے ۔مسلم نوجوانوں کی تیرہ شبی کا نیا دور شروع ہو چکا ہے ۔نئے علاقے نئے امکانات تلاش کرلئے گئے ہیں ۔مسلم قائدین (اندھے بہرے گونگے جیسے بھی )ان سب سے بے خبر اپنی دنیا میں مست ہیں ۔کوئی کانگریس میں اپنی جگہ بنانے کیلئے پہلے کانگریس کو ہدف تنقید بناتا ہے پھر کانگریس کی شکایت محبت آمیزطریقوں سے کرتا ہے تاکہ کوئی سیٹ کنفرم ہو جائے ۔قصور ان کا بھی کیا ہے وہ پلے ہی ہیں کانگریس نوازی اور کانگریس نوازوں کے سائے میں تو وہ کانگریس کے خلاف جا بھی کیسے سکتے ہیں ۔مسلمانوں میں تذبذب ہے ۔اضطراب ہے بے چینی ہے ۔حقیقت عوام پر پوری طرح منکشف ہے۔ایک عام اور ان پڑھ مسلم نوجوان بھی حالات کو سمجھ رہا ہے ۔آپ اس سے ملیں پوچھیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے ۔اس کے سوچنے کا یہ انداز خدا کرے قائم رہے ۔اگر ایسا ہی رہا اور الیکشن تک قائدین نے کوئی کنفیوژن پیدا نہیں کیا تو چناؤ نتائج بالکل ایسے ہی ہونگے جو مسلمانوں کیلئے مفید ہوں ۔
عام طور پر الیکشن کے قریبی سال میں ہی کانگریس کو مسلمانوں کی یاد آتی ہے اور وعدوں کی رنگ برنگی برسات شروع کی جاتی ہے ۔ریاست ہو کہ مرکز سب اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کو وعدوں کے لالی پاپ سے بہلانے کے علاوہ ان کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔جب تک بی جے پی اور آر ایس ایس کا بھوت اور مودی جیسے خطرناک عفریت ہندوستان میں ہیں کانگریس کیلئے راوی چین ہی چین لکھتا ہے ۔قائدین سے بات کرلیجئے مسلم تنظیموں سے بات کر لیجئے سب ایک پوائنٹ پر متفق کہ مسلمانوں کی بدحالی ان کے قتل عام ان کی بے آبروئی کیلئے کانگریس کے علاوہ اور آپشن ہی کیا ہے ۔65 سالوں سے یہی ہو رہا ہے ۔آگے جہاں تک مسلمانوں کی خواب غفلت کی انتہا رہے تب تک یہی کہانی رقم ہو تی رہے گی ۔نہ مسلمانوں میں اتحاد ہوگا اور نہ ہی ان کی بے وزنی ختم ہوگی ۔کچھ امیدیں کی جاسکتی ہیں تو صرف اس نوجوان نسل سے جو اعلیٰ اور جدید تعلیم کے ساتھ دین سے بھی کہیں نہ کہیں جڑا ہوا ہے ۔روشنی تو اسے ساڑھے چودہ سو سال پہلے سے حاصل ہو گی ۔ لہٰذا اب ساری توجہ نوجوان نسل کی طرف ہی مبذول کرنا لازمی ہے ۔دشمن بھی اس سے واقف ہے اسی لئے وہ نوجوان نسل کو فرضی بم دھماکوں اور فرضی معاملات میں پھنسا کر اس کی زندگی کو تاریکی میں دھکیلنا چاہتا ہے ۔تاکہ قوم کبھی سنبھل ہی نہ سکے ۔لیکن ان کی چال ہے اور اللہ بھی تدبیر کرتا ہے اور یقیناً اللہ کی ہی تدبیر کامیاب ہونے والی ہے ۔
پٹنہ بم دھماکہ ہو کہ نریندر مودی کا سردار پٹیل کے بارے میں دیاگیا گمراہ کن بیان سب اسی 2014 کے الیکشن کے سوچے سمجھے ہتھکنڈے ہیں ۔اب انہیں سازش بھی نہیں کہیں سازش چھپے ہوئے کو کہتے ہیں لیکن یہاں تو سارے معاملات دوپہر کی دھوپ میں انجام دئے جارہے ہیں کہیں کوئی پردہ نہیں ہے ۔آخر ایک تباہ حال بے وزن اور لٹی پٹی قوم کے خلاف کچھ کرنے کیلئے کوئی سازش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔کون ہے جو اس کی سدھ بدھ لیگا ۔کون ہے جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس قوم کی بے بسی کا حساب مانگے گا ۔اس لئے اب اس کے خلاف کھلے عام منصوبے بنے جاتے ہیں اور بھری دوپہر میں اس پر عمل کیا جاتا ہے ۔سردار پٹیل کون تھے ان کے منصوبے کیا تھے یہ کوئی چھپی ہوئی کہانی نہیں ہے ۔لیکن قصداً ان کا نام اچھال کر کانگریس کے ذریعے ان کو سیکولر اور غیر فرقہ پرست یا روادار ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔آخر مسلمان پٹیل کے ان بیانات کو کیسے بھول جائے گا جو انہوں نے مسلمانوں کے تعلق سے جنگ آزادی کے دوران دئے اور مسلم معاملات میں ٹانگ اڑائے جس کا نتیجہ پاکستان کی صورت میں نکلا۔مسلمان حید ر آباد کا پولس ایکشن بنام مسلمانوں کا قتل عام کیسے بھول جائے گا ۔ پٹیل کو کانگریسی تو کہا جاسکتا ہے لیکن بہرحال انہیں روادار اور سیکولر نہیں کہا جاسکتا ۔انہیں کے تو جانشین ہیں مودی پھر مودی کو بھی گجرات 2002 کے قتل عام کیلئے کیوں نہیں معافی دیدیتے ۔کیا صرف اس وجہ سے پٹیل روادار ہیں کہ وہ کانگریسی تھے یا پہلے وزیر داخلہ اور مودی کو صرف اس لئے مجرم گردانا جائے کہ اس کا تعلق بی جے پی سے ہے ۔یہ کیسا دوغلہ پن ہے ۔غیر کرے تو کرے اپنے بھی کیا اسی سر میں سر ملائیں گے ۔
قائدین اپنی قیادت ثابت کرنے کی کوشش کریں عمل سے ،صرف بیانات سے نہیں ۔وہ ثابت کریں کہ حالات پر ان کی گہری نظر ہے اور وہ ملت کے ساتھ ساتھ عالم انسانیت کے بھی بہی خواہ ہیں ۔پانچ اور دس ہزار میں اپنی حمایت بانٹنا بند کریں جس کی قیمت آج سے بیس پچیس سال پہلے تک تیس ہزار تھی (واضح ہو کہ میں نے یہ باتیں ممبئی کے تناظر میں لکھی ہیں ممکن ہو دوسری جگہوں کا ریٹ اس سے کم یا زیادہ بھی ہو سکتا ہے)۔ہر چیز کی قیمت بڑھتی ہے لیکن ہمارے قائدین کے حمایت کی قیمت گھٹ چکی ہے ۔پچھلے دنوں اعظم گڑھ سے کوئی ایم ایل اے صاحب کا فون آیا انہوں نے کہا کہ آپ کسی ایم ایل اے یا ایم پی کو مسلمانوں کا قائد نہ سمجھیں ۔سچ ہے ہم کسی ایم ایل اے یا ایم پی کو مسلمانوں کا قائد کیوں سمجھنے لگے ۔کسی صحافی دوست نے کہا کہ ممبئی کے ایک نامی گرامی ایم ایل اے جو کہ منسٹر بھی ہیں کانگریس کے شہزادے کیلئے اسٹیج بنانے میں نوکروں کی طرح اپنی خدمات انجام دے رہے تھے ۔اس کے برعکس دوسرے ایم ایل اے آئے اور شاہوں کی طرح اسٹیج پر رونق افروز ہوئے ۔میری زبان سے بے ساختہ نکلا جب اپنی ملت میں اپنا اعتماد بحال نہیں کریں گے تو یہ کیا ہے انہیں جوتے اور ٹوائلیٹ بھی صاف کرنے ہونگے ۔جھوٹ بول کر قوم کو شاید بے وقوف بنایا جاسکے لیکن اپنا وقار بلند نہیں کیا جا سکتا ۔قوم کیلئے کام کریں گے جس کیلئے قوم نے اپنے ووٹ سے انہیں چن کر اسمبلی یا پارلیمنٹ میں بھیجا ہے تو قوم ایسے قائد کو سر پر بٹھاتی ہے اور قوم کے ووٹوں سے جیت کر قوم کو نظر انداز کرنے والے اس سے بھی بھیانک انجام سے دو چار ہو چکے ہیں ۔لیکن انسان کو وقتی لذت اور وقتی فائدہ بہت محبوب ہے اسی وقتی لذت اور وقتی نفائدوں نے میر جعفر،میر صادق اور السیسی جیسے لوگ پیدا کئے ۔ تاریخ ان کے انجام بد کے عبرتناک انجام سے بھری پڑی ہے ۔قوم نے اپنے ہیرو کو سر آنکھوں پر بٹھایا ہے اور تاریخ میں ان کے بھی واقعات رقم ہیں ۔اب یہ انسان پر موقوف ہے کہ وہ گیدڑ کی سو سالہ ذلت آمیززندگی جینا چاہتا ہے یا شیر کی ایک روزہ شاندار زندگی۔ کسی سیاسی لیڈر کی طرف سے اپنا نام پکارے جانے یا اس کے ذریعے عزت دینے سے کسی کو عزت نہیں ملتی عزت ساری کی ساری اللہ کیلئے اس کے رسولﷺ کیلئے اور مومنوں کیلئے ہے ۔حقائق واضح ہے اور کسی بھی طرح کے ابہام سے پاک بھی اس کو جو جتنا جلدی سمجھ لے وہ اتنا ہی بہتر ہے ۔وقت کسی کے ساتھ مروت نہیں کرتا جو اس کے مطابق نہیں چلتا وہ اسے کچلتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے ۔اور نام و نشان بھی مٹ جاتا ہے ۔ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کا نام عزت و وقار سے لیا جاتا ہے لیکن کوئی میر جعفر یا میر صادق کا نام عزت سے لینے والا نہیں۔ ٹیپو سلطان کو ان کے دشمن نے بھی ان کی بہادری اور جوانمردی کی تحسین کرتے ہوئے ان کا جنازہ توپوں کی سلامی کے ساتھ اٹھایا تھا ۔جو اللہ کیلئے دنیا سے لاپرواہ ہوتے ہیں اللہ انہیں اسی طرح عزت و وقار عطا کرتا ہے ۔اب کسے کون سی زندگی عزیز ہے یہ اس کے ظرف کی بات ہے ۔
    نہال صغیر۔موبائل۔9987309013 sagheernehal@gmail.com 

0 comments:

بے گناہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور عدالتوں سے رہائی کا سلسلہ کہاں جاکر رکے گا؟


             
یہ سوال ہی سرے سے بے فیض ہے کہ جیل میں مجھے کیا کیا اذیتیں دی گئی یا جیل کے میرے شب و روز کیسے گزرے ۔اس طرح کے سوالات پچھلے سات سالوں سے آپ کررہے ہیں اور ہم جیسے لوگ اس کا جواب بھی دیتے رہے ہیں جسے آپ نے عوام اور حکومت کے سامنے پہنچایا بھی ہے لیکن کیا اس سے انتظامیہ اور حکومت پر کوئی اثر پڑا ۔نہیں !بلکہ آج بھی بے گناہوں کو فرضی مقدمات میں گرفتار کرنے اور انہیں انسانیت سوز اذیت پہنچاکر ان کے ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرنے کا سلسلہ بدستور قائم ہے ۔اس لئے میں اس طرح کے سوالات کا جواب دینا نہیں چاہتا ‘‘یہ الفاظ ہیں اورنگ آباد اسلحہ ضبطی مقدمہ میں پہلی ضمانت پانے والے اور رہا ہونے والے نوجوان جاوید انصاری کے جو بامبے ہائی کورٹ سے ضمانت کی منظوری (21 ؍اکتوبر2013 )اورآرتھر روڈ جیل سے اپنی رہائی (19 ؍نومبر2013 )کو جمعیتہ العلماء ممبئی کے دفتر میں میڈیا کے روبرو پیش کئے ۔مندرجہ بالا الفاظ ہی اس معصوم نوجوان کے درد کو بیان کرنے کیلئے کافی ہے ۔ہم نے آج تک جو کچھ کیا ہے وہ بس اتنا ہے کہ پریس کانفرنس ،جلسے اور چند مطالبات اس سے آگے ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں اور ممکن ہے کہ کسی نے سوچا ہو تو اس پر عمل کی نوبت نہیں آئی ۔جبکہ حالا ت یہ ہیں کہ ایک کے بعد دوسرا پھر تیسرا نہ بم دھماکے (آتش بازی کہنا زیادہ درست ہوگا)رک رہے ہیں اور نہ ہی ان میں فرضی گرفتاریوں کا سلسلہ رک رہا ہے۔اب تو آئی بی نے انڈین مجاہدین کو ثابت کرنے کیلئے کہ وہ گمراہ یا مایوس مسلم نوجوانوں کی تنظیم ہے اور اس کا وجود ہے کچھ نئے انداز میں گرفتاریاں اور تفتیش شروع کی ہے ۔کچھ غیر مسلم نوجوانوں کو بھی گرفتار کیا ہے ۔لیکن اس الزام میں کہ وہ حوالہ کا کام کرتے تھے ۔ہم میں سے کچھ لوگ جس میں ہماری صحافتی برادری بھی شامل ہے نے اس پر خوب شور مچایا کہ دیکھو یہ ہے اصلی مجرم ۔لیکن ہمارے یہ دوست نہیں سمجھتے کہ یہ ہاتھی دانت ہیں کھانے کے اور دکھانے کے اور، وہ آئی بی اور این آئی اے کی ذہنیت اور ان کے کام کرنے کے انداز کو سمجھ نہیں پارہے ہیں ۔ہر کوئی ہیمنت کرکرے نہیں ہے اور نہ ہی ہندوستان میں ہیمنت کرکرے کی تعداد زیادہ ہے ۔یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ ’’جو مخلص ہے جو سچا ہے ۔زہر پیالہ پیتا ہے‘‘۔اصل میں اگر ہم آزادی کے بعد سے ان کی اسٹریٹیجی کا مطالعہ کریں تو ہمیں اندازہ ہو پائے گا کہ آنے والی خبروں کا بین السطور کیا ہے اور کس جانب اس کا سفر جاری ہے ۔آئی بی ہو یا این آئی اے یا مجوزہ این سی ٹی سی سب کوایک ہی رخ میں کام کرنا ہے ۔سب میں اکثریت برہمنوں کی ہے اور ہوگی ۔ سب کے سامنے ایک ہی مسئلہ ہے ذات پات ،زبان اور علاقائیت میں منقسم ہندوستان کو منتشر ہونے سے بچانے کیلئے ایک مشترکہ دشمن کا وجود قائم رکھنا اور ان کے سامنے مشترکہ دشمن مسلمانوں سے بہتر کون ہو سکتا ہے ۔آزادی سے بہت پہلے ہی انہوں نے یہ طئے کرلیا تھا اسی مقصد کیلئے اسی گروپ اور اسی گروہ نے پاکستان کو آسانی سے بن جانے دیا تاکہ لمبے عرصے تک مشترکہ دشمن کے وجود کا نقشہ قائم رہے ۔ فسادات سے لیکر بم دھماکوں اور اس کے بعد فرضی گرفتاریاں سب میں وہی عوامل کار فرما ہیں ۔لیکن ہم ہیں کہ اگر ایک دو جانچ این آئی اے نے درست کردیا تو ہم نے اسی کی ڈفلی بجانا شروع کردیا اب جبکہ اس کا رخ بھی مڑتا ہوا نظر آتا ہے تب آپ کیا کریں گے ۔کیا آپ اب این آئی اے کے خلاف بولیں گے ۔چلئے یہ بھی آپ نے کرلیا تو تیسرا متبادل این سی ٹی سی تیار ہے آپ جائیں گے کہاں ۔چیختے رہیں آپ ۔آپ کی چیخ قصائی کی چھری کے نیچے آنے والی بکری کی ممیاہٹ سے زیادہ نہیں ۔کیوں کہ یہ وقت آپ نے اپنے اوپر خود ہی لادا ہے ۔اس حالت میں بھی آپ ہیں کہ متحد ہو کر کوئی لائحہ عمل تیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کو راضی نہیں ہیں ۔آپ کے علماء پانچ دس ہزار میں اپنی حمایت بیچتے ہیں آپ کے سیاسی لیڈر اپنی پارٹی کے پالتو کتے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔یہ میرے جذبات نہیں وہ حقائق ہیں جنہیں میں دیکھ رہا ہوں اور آنے والے وقت کی ہلکی سی قیاس آرائی کررہا ہوں ۔اگر کسی مولوی کو یہ خوش فہمی ہے کہ ہندوستان میں اسپین جیسے حالات نہیں آسکتے تو ہوں لیکن اسپین میں بھی اچانک حالات نہیں بدلے تھے سب کچھ اسی رفتار سے ہوا تھا جس رفتار سے ہندوستان میں حالات بدل رہے ہیں۔وہی کیفیت مسلمانوں کی اسپین اور بغداد میں تاتاریوں کی خون آشامیوں کے دور میں بھی تھا کہ مسلمان بنیاد دین کو چھوڑ کر فروعی اختلافات میں پڑا ہوا تھا ۔ہر فرقہ اور ہر گراہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا رہا تھا ۔یہی سب کچھ یہاں بھی ہو رہا ہے میر جعفر اور میر صادق کل بھی تھے آج بھی ہیں اور آئندہ بھی ہونگے ۔صرف نام جدا جدا ہونگے کردار سب کے ایک ہی جیسے ہیں بلکہ پہلے میر جعفر اور میر صادق ایک دو ہی ہوا کرتے تھے لیکن اب ہر گلی اور ہر محلے میں آپ کو میر جعفر اور میر صادق مل جائیں گے ۔اسی لئے شاعر صبر نہ کرسکا اور اس نے کہا
؂ ویرانی گلشن کیلئے ایک ہی الو کافی تھا ۔ ہر شاخ پر الو بیٹھا انجام گلستان کیا ہوگا
اوپر بیان کئے گئے حالات بہت تلخ ہیں لیکن صرف قیاس نہیں ۔حالات اسی اسی رخ کی جانب اشارہ کررہے ہیں ۔کسی ملک میں آپ انتظامیہ اور حکومت سے مایوس ہو جائیں تو عدالتیں واحد سہارا ہوتی ہیں جہاں سے آپ یہ امید کر سکتے ہیں کہ انصاف ہوگا لیکن جب عدالتیں ہی انصاف سے خالی ہو جائیں۔میں اس سلسلے میں زیادہ کچھ کہنے سے بہتر سمجھتا ہوں کہ آپ کو اس ملک کی دو عظیم عدالتوں کی مثال دے دوں جس میں ایک جگہ عقیدے کی بنیاد پر اور دوسری جگہ عوام کی اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے فیصلہ ہوا ۔اس کے علاوہ نچلی عدالتوں کے احوال جاننے کیلئے آپ مسلسل رہا ہونے والے بے گناہ نوجوانوں کی آپ بیتی سن لیجئے آپ کو پتہ چل جائے گا ۔ اسیش کھیتان کا اسٹنگ آپریشن دیکھ لیجئے اس میں ایک نوجوان کہتا ہے کہ جج کے سامنے ہی اے ٹی ایس کا افسر اسے لکھے ہوئے بیان دیا کرتا تھا جسے اسے اپنے بیان کے طور پر پڑھنا ہوتا تھا۔شبھردیپ چکرورتی کی ڈاکیومنٹری ’’آفٹر دی اسٹارم ‘‘ دیکھ لیجئے جس میں کولکاتا کا ایک نوجوان بتاتا ہے کہ اسے پھانسی کی سزا سنانے کے بعد جج نے اس کے وکیل کو اپنے چمبر میں بلایا اور اس سے کہا کہ میری طرف سے اپنے موکل سے معافی مانگ لینا میں ایسا فیصلہ دینے کیلئے مجبور تھا ۔ابھی حال ہی میں اورنگ آباد اسلحہ ضبطی کیس میں ضمانت پر رہا ہونے والے نوجوان جاوید انصاری نے میڈیا کے سامنے کہا کہ عدلیہ بھی متعصب ہو گئی ہے ۔بس اس میں کچھ جج ایسے ہیں جو انصاف کے تقاضون کو پورا کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ہماری عدلیہ کا حال یہ ہے کہ سیمی پر پچھلے بارہ سالوں سے پابندی ہے بیچ میں ایک جج نے اس پابندی کو رد کردیا جج نے جمعہ کو پابندی رد کیا تھا ۔یو پی اے کی سیکولر حکومت نے سنیچر کو ہی صبح صبح سپریم کورٹ پہنچ گئی اور سپریم کورٹ نے بھی پوری چابکدستی سے اس جج کے فیصلہ پر اسٹے دیدیا ۔لیکن اسی عدالت میں پچھلے بارہ سالوں سے سیمی کی اپیل پڑی ہوئی ہے لیکن وہ انصاف جمہوریت ،سیکولرزم اور مساوات کے مجاہدوں کی منافقت کو ظاہر کررہا ہے ۔ ابھی حال ہی میں جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر نے مہاراشٹر پولس کے سرکولر جس میں مسلم بچیوں کی تنظیم جی آئی او کو دہشت گردی میں ملوث بتانے کی شرمناک کوشش کی گئی تھی ،پر بامبے ہائی کورٹ میں دس کروڑ کے ہتک عزت کا دعویٰ کیا ہے ۔لیکن 24؍ ستمبر کو داخل کئے گئے اس کیس پر اب تک کسی طرح کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی کیا پتہ جماعت اسلامی کا یہ ہتک عزت کا دعویٰ بھی سیمی کی اپیل کی طرح عدالت کی آثار قدیمہ کی زینت بن کر رہ جائے ۔پھر بھی عدالت میں ضرور جانا چاہئے بلکہ سیاسی لیڈروں کے پاس ڈیلیگیشن لے کر جانے سے بہتر ہے کہ عدالتوں میں قانونی جنگ ہی لڑی جائے ۔کیوں کہ عدالتوں میں یقیناًمنصف کی تقسیم ہو گئی ہے اور ججوں کا ایک بڑا طبقہ بدعنوان اور متعصب ہو گیا ہے لیکن اس میں خال خال ہی سہی کوئی نہ کوئی انسانیت اور انصاف کو بچانے والا منصف ضرور نظر آجاتا ہے اور وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے حالانکہ اسے درپردہ انصاف کرنے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔لیکن ہمیں یہ گردان تو بہر حال ترک ہی کردینا چاہئے کہ ’’ہمیں عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے ‘‘۔اگر عدلیہ اتنی شفاف ہوتی تو اس کا ضمیر کیمپا کولا پر بیدار ہوجاتا ہے تو کسی جھونپڑ پٹی والوں کی پریشان حالی پر اس کا ضمیر کیوں سو جاتا ہے ۔وہ ذرا ذرا سی باتوں پر سو موٹو لے لیتی ہے لیکن پچھلے کئی سالوں سے مسلم نوجوانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے آشکارا ہونے کے باوجود کسی جج کا ضمیر کیوں نہیں بیدار ہوتا کیوں نہیں وہ کوئی سو موٹو ایکشن لیتا ہے ؟یہ ایسا سوال ہے جو ملک کی سالمیت اور اتحاد کے تانے بانے بکھیر دیگا ۔
مندرجہ بالا مثالیں اور عدلیہ کے دو فیصلے یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے تعلق سے کیاکچھ ہو رہا ہے یا آئندہی کی منصوبہ بندی کیا ہے ۔ اس کے باوجود ہماری قیادت کے دعویدار کھل کر کچھ بولنے کی جرات ہی نہیں کرتے جبکہ اسی ملک کا ایک شہری شانتی بھوشن سپریم کورٹ میں یہ کہنے میں باک محسوس نہیں کرتا کہ ’’اکثر جج بد عنوان ہیں ‘‘ ۔چیف جسٹس کے اعتراض کے باوجود انہوں نے اپنے بیان سے رجوع نہیں کیا ۔ایک صحافی وشو دیپک محمد احمد کاظمی کی گرفتاری پر لکھنے پر مجبور ہوا کہ ’’جمہوری غنڈوں کے اشاروں پر ناچنے والی پولس کہہ رہی ہے کہ جرم قبول کرو ورنہ ہم تمہیں موساد کے حوالے کردیں گے اور موساد جرم قبول کروانا جانتی ہے ‘‘لیکن کیا کوئی اردو داں مسلم صحافی اتنی سخت بات کہنے کی جرات کر سکتا ہے ۔ہر گز نہیں ۔لیکن یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا ۔اس کا اختتام کیا ہے ۔ریاستی دہشت گردی کا شکار نوجوان ہوتا رہے اور ہماری قیادت کے دعویدار صبر کی تلقین کرتے رہیں کوئی لائحہ عمل طے نہ کریں یہ کب تک چلے گا ۔ نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے اس مایوسی کا انجام کیا ہوگا ۔کل رونے اور سر پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔خدارا جو مخلص ہیں وہ باہر آئیں گوشہ نشینی سے مصیبتیں نہیں ٹلنے والی ۔
۔ موبائل۔9987309013 ۔
sagheernehal@gmail.com  نہال صغیر۔ 

0 comments:

الیکشن 2014 :سیاسی بساط بچھائی جارہی ہے ،مہرے تبدیل کئے جارہے ہیں


الیکشن 2014 کی ساری تیاری ہو چکی ہیں سیاسی مہاشے کچھ اپنے خول سے نکلنے لگے ہیں تو کوئی اپنے خول میں واپس جارہے ہیں ۔جس نے کھلے عام مسلم دشمنی کا وطیرہ اپنا رکھا تھا وہ مسلمانوں کا مسیحا بننے کی تگ و دو میں ہے ۔جو آزادی کی صبح سے ہی مسلم نوازی اور مسلم مسیحائی کا دعویدار تھا اس نے مسلم نوجوانوں کا تعلق آئی ایس آئی سے جوڑ دیا ۔کل ملا کر سیاست کے اکھاڑے میں سارے سیاسی پہلوان اتر چکے ہیں ۔نام نہاد مسلم قائدین کی قیمت لگائی جارہی ہے کہ کون کتنے میں مسلم ووٹ کا سودا کرئے گا ۔ہزاروں سال کی سنسکرتی کا راگ الاپنے والے ۔اجنتا اور کھجوراہو کے وارث سیاست میں بھی اتنے ہی ننگے ہیں جتنی کہ یہ مورتیاں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ان مورتیوں کو تراشنے والے کوئی اور تھے ۔اور یہ سیاست داں سیاست کے اس دلدل کے خود کھلاڑی ہیں ۔ان کو کسی نے نہیں تراشا ہے ۔مسلمانوں کے خون کی ارزانی پھر سے شروع ہو گئی ہے ۔مسلم نوجوانوں کی تیرہ شبی کا نیا دور شروع ہو چکا ہے ۔نئے علاقے نئے امکانات تلاش کرلئے گئے ہیں ۔مسلم قائدین (اندھے بہرے گونگے جیسے بھی )ان سب سے بے خبر اپنی دنیا میں مست ہیں ۔کوئی کانگریس میں اپنی جگہ بنانے کیلئے پہلے کانگریس کو ہدف تنقید بناتا ہے پھر کانگریس کی شکایت محبت آمیزطریقوں سے کرتا ہے تاکہ کوئی سیٹ کنفرم ہو جائے ۔قصور ان کا بھی کیا ہے وہ پلے ہی ہیں کانگریس نوازی اور کانگریس نوازوں کے سائے میں تو وہ کانگریس کے خلاف جا بھی کیسے سکتے ہیں ۔مسلمانوں میں تذبذب ہے ۔اضطراب ہے بے چینی ہے ۔حقیقت عوام پر پوری طرح منکشف ہے۔ایک عام اور ان پڑھ مسلم نوجوان بھی حالات کو سمجھ رہا ہے ۔آپ اس سے ملیں پوچھیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے ۔اس کے سوچنے کا یہ انداز خدا کرے قائم رہے ۔اگر ایسا ہی رہا اور الیکشن تک قائدین نے کوئی کنفیوژن پیدا نہیں کیا تو چناؤ نتائج بالکل ایسے ہی ہونگے جو مسلمانوں کیلئے مفید ہوں ۔
عام طور پر الیکشن کے قریبی سال میں ہی کانگریس کو مسلمانوں کی یاد آتی ہے اور وعدوں کی رنگ برنگی برسات شروع کی جاتی ہے ۔ریاست ہو کہ مرکز سب اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کو وعدوں کے لالی پاپ سے بہلانے کے علاوہ ان کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔جب تک بی جے پی اور آر ایس ایس کا بھوت اور مودی جیسے خطرناک عفریت ہندوستان میں ہیں کانگریس کیلئے راوی چین ہی چین لکھتا ہے ۔قائدین سے بات کرلیجئے مسلم تنظیموں سے بات کر لیجئے سب ایک پوائنٹ پر متفق کہ مسلمانوں کی بدحالی ان کے قتل عام ان کی بے آبروئی کیلئے کانگریس کے علاوہ اور آپشن ہی کیا ہے ۔65 سالوں سے یہی ہو رہا ہے ۔آگے جہاں تک مسلمانوں کی خواب غفلت کی انتہا رہے تب تک یہی کہانی رقم ہو تی رہے گی ۔نہ مسلمانوں میں اتحاد ہوگا اور نہ ہی ان کی بے وزنی ختم ہوگی ۔کچھ امیدیں کی جاسکتی ہیں تو صرف اس نوجوان نسل سے جو اعلیٰ اور جدید تعلیم کے ساتھ دین سے بھی کہیں نہ کہیں جڑا ہوا ہے ۔روشنی تو اسے ساڑھے چودہ سو سال پہلے سے حاصل ہو گی ۔ لہٰذا اب ساری توجہ نوجوان نسل کی طرف ہی مبذول کرنا لازمی ہے ۔دشمن بھی اس سے واقف ہے اسی لئے وہ نوجوان نسل کو فرضی بم دھماکوں اور فرضی معاملات میں پھنسا کر اس کی زندگی کو تاریکی میں دھکیلنا چاہتا ہے ۔تاکہ قوم کبھی سنبھل ہی نہ سکے ۔لیکن ان کی چال ہے اور اللہ بھی تدبیر کرتا ہے اور یقیناً اللہ کی ہی تدبیر کامیاب ہونے والی ہے ۔
پٹنہ بم دھماکہ ہو کہ نریندر مودی کا سردار پٹیل کے بارے میں دیاگیا گمراہ کن بیان سب اسی 2014 کے الیکشن کے سوچے سمجھے ہتھکنڈے ہیں ۔اب انہیں سازش بھی نہیں کہیں سازش چھپے ہوئے کو کہتے ہیں لیکن یہاں تو سارے معاملات دوپہر کی دھوپ میں انجام دئے جارہے ہیں کہیں کوئی پردہ نہیں ہے ۔آخر ایک تباہ حال بے وزن اور لٹی پٹی قوم کے خلاف کچھ کرنے کیلئے کوئی سازش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔کون ہے جو اس کی سدھ بدھ لیگا ۔کون ہے جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس قوم کی بے بسی کا حساب مانگے گا ۔اس لئے اب اس کے خلاف کھلے عام منصوبے بنے جاتے ہیں اور بھری دوپہر میں اس پر عمل کیا جاتا ہے ۔سردار پٹیل کون تھے ان کے منصوبے کیا تھے یہ کوئی چھپی ہوئی کہانی نہیں ہے ۔لیکن قصداً ان کا نام اچھال کر کانگریس کے ذریعے ان کو سیکولر اور غیر فرقہ پرست یا روادار ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔آخر مسلمان پٹیل کے ان بیانات کو کیسے بھول جائے گا جو انہوں نے مسلمانوں کے تعلق سے جنگ آزادی کے دوران دئے اور مسلم معاملات میں ٹانگ اڑائے جس کا نتیجہ پاکستان کی صورت میں نکلا۔مسلمان حید ر آباد کا پولس ایکشن بنام مسلمانوں کا قتل عام کیسے بھول جائے گا ۔ پٹیل کو کانگریسی تو کہا جاسکتا ہے لیکن بہرحال انہیں روادار اور سیکولر نہیں کہا جاسکتا ۔انہیں کے تو جانشین ہیں مودی پھر مودی کو بھی گجرات 2002 کے قتل عام کیلئے کیوں نہیں معافی دیدیتے ۔کیا صرف اس وجہ سے پٹیل روادار ہیں کہ وہ کانگریسی تھے یا پہلے وزیر داخلہ اور مودی کو صرف اس لئے مجرم گردانا جائے کہ اس کا تعلق بی جے پی سے ہے ۔یہ کیسا دوغلہ پن ہے ۔غیر کرے تو کرے اپنے بھی کیا اسی سر میں سر ملائیں گے ۔
قائدین اپنی قیادت ثابت کرنے کی کوشش کریں عمل سے ،صرف بیانات سے نہیں ۔وہ ثابت کریں کہ حالات پر ان کی گہری نظر ہے اور وہ ملت کے ساتھ ساتھ عالم انسانیت کے بھی بہی خواہ ہیں ۔پانچ اور دس ہزار میں اپنی حمایت بانٹنا بند کریں جس کی قیمت آج سے بیس پچیس سال پہلے تک تیس ہزار تھی (واضح ہو کہ میں نے یہ باتیں ممبئی کے تناظر میں لکھی ہیں ممکن ہو دوسری جگہوں کا ریٹ اس سے کم یا زیادہ بھی ہو سکتا ہے)۔ہر چیز کی قیمت بڑھتی ہے لیکن ہمارے قائدین کے حمایت کی قیمت گھٹ چکی ہے ۔پچھلے دنوں اعظم گڑھ سے کوئی ایم ایل اے صاحب کا فون آیا انہوں نے کہا کہ آپ کسی ایم ایل اے یا ایم پی کو مسلمانوں کا قائد نہ سمجھیں ۔سچ ہے ہم کسی ایم ایل اے یا ایم پی کو مسلمانوں کا قائد کیوں سمجھنے لگے ۔کسی صحافی دوست نے کہا کہ ممبئی کے ایک نامی گرامی ایم ایل اے جو کہ منسٹر بھی ہیں کانگریس کے شہزادے کیلئے اسٹیج بنانے میں نوکروں کی طرح اپنی خدمات انجام دے رہے تھے ۔اس کے برعکس دوسرے ایم ایل اے آئے اور شاہوں کی طرح اسٹیج پر رونق افروز ہوئے ۔میری زبان سے بے ساختہ نکلا جب اپنی ملت میں اپنا اعتماد بحال نہیں کریں گے تو یہ کیا ہے انہیں جوتے اور ٹوائلیٹ بھی صاف کرنے ہونگے ۔جھوٹ بول کر قوم کو شاید بے وقوف بنایا جاسکے لیکن اپنا وقار بلند نہیں کیا جا سکتا ۔قوم کیلئے کام کریں گے جس کیلئے قوم نے اپنے ووٹ سے انہیں چن کر اسمبلی یا پارلیمنٹ میں بھیجا ہے تو قوم ایسے قائد کو سر پر بٹھاتی ہے اور قوم کے ووٹوں سے جیت کر قوم کو نظر انداز کرنے والے اس سے بھی بھیانک انجام سے دو چار ہو چکے ہیں ۔لیکن انسان کو وقتی لذت اور وقتی فائدہ بہت محبوب ہے اسی وقتی لذت اور وقتی نفائدوں نے میر جعفر،میر صادق اور السیسی جیسے لوگ پیدا کئے ۔ تاریخ ان کے انجام بد کے عبرتناک انجام سے بھری پڑی ہے ۔قوم نے اپنے ہیرو کو سر آنکھوں پر بٹھایا ہے اور تاریخ میں ان کے بھی واقعات رقم ہیں ۔اب یہ انسان پر موقوف ہے کہ وہ گیدڑ کی سو سالہ ذلت آمیززندگی جینا چاہتا ہے یا شیر کی ایک روزہ شاندار زندگی۔ کسی سیاسی لیڈر کی طرف سے اپنا نام پکارے جانے یا اس کے ذریعے عزت دینے سے کسی کو عزت نہیں ملتی عزت ساری کی ساری اللہ کیلئے اس کے رسولﷺ کیلئے اور مومنوں کیلئے ہے ۔حقائق واضح ہے اور کسی بھی طرح کے ابہام سے پاک بھی اس کو جو جتنا جلدی سمجھ لے وہ اتنا ہی بہتر ہے ۔وقت کسی کے ساتھ مروت نہیں کرتا جو اس کے مطابق نہیں چلتا وہ اسے کچلتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے ۔اور نام و نشان بھی مٹ جاتا ہے ۔ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کا نام عزت و وقار سے لیا جاتا ہے لیکن کوئی میر جعفر یا میر صادق کا نام عزت سے لینے والا نہیں۔ ٹیپو سلطان کو ان کے دشمن نے بھی ان کی بہادری اور جوانمردی کی تحسین کرتے ہوئے ان کا جنازہ توپوں کی سلامی کے ساتھ اٹھایا تھا ۔جو اللہ کیلئے دنیا سے لاپرواہ ہوتے ہیں اللہ انہیں اسی طرح عزت و وقار عطا کرتا ہے ۔اب کسے کون سی زندگی عزیز ہے یہ اس کے ظرف کی بات ہے ۔
نہال صغیر۔موبائل۔9987309013 ۔ای میلsagheernehal@gmail.com

0 comments:

تاکہ بشار الاسد کا قتل عام جاری رہے۔۔۔۔!

تبدیلی دنیا کی فطرت میں شامل ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ پیدل اور گھوڑا گاڑیوں کے دور میں اس کی رفتار میں اتنی شدت اور تیزی نہیں واقع ہوا کرتی تھی ،جیسا کہ جدید سائنس اور ٹکنالوجی کے دور میں انٹر نیٹ اور فیس بک نے دنیا اور انسانی ذہن اور مزاج کو پل پل بدلنا شروع کردیا ہے۔اگر یہ بات درست ہے اور درست نہ ہونے کی کوئی وجہ اور دلیل بھی اس لئے نہیں ہو سکتی کیوں کہ مولاناروم ؒ ،اقبال ؒ اور بیشتر مورخین نے اپنے مضامین اور رباعیوں میں جس یونان و مصر اور روما کی شان و شوکت اور سلطنتوں کے تعلق سے اظہار خیال کیا ہے ان کی تہذیبیں ہزار وں سال کی تاریخ پر محیط رہی ہیں۔اس کے بعد خود اسلامی تہذیب و ثقافت اور سیاست کا رعب و دبدبہ بھی تقریباً ایک ہزار سال تک پوری دنیا پر غالب اور قائم رہا ہے جبکہ اس درمیان جس ٹکنالوجی کے سہارے برطانیہ ،روس ،فرانس اور امریکہ نے انیسویں صدی کے بعد بہت ہی تیزی کے ساتھ اپنے عروج کا سفر طے کیا صرف بیسویں صدی کے ایک قلیل وقفے میں اپنے انجام کو بھی پہنچ گئے ۔اسی طرح مستقبل کے سپر پاور چین کا نشہ بھی چڑھتے ہی اتر جائے گا ۔غیر فطری طریقہ کار جبر تشدد اور نا انصافی کے راستے سے جن تہذیبوں اور قوموں نے دنیا پر عروج و بالادستی کا خواب دیکھا ہے اقبال نے ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ ؂
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کریگی ...... جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
تو اب ہمیں اس بات کا اقرار کرلینا چاہئے کہ موجودہ سپر پاور امریکہ بھی وہ امریکہ نہیں رہا جب اسے ویتنام ،صومالیہ،لیبیا،سوڈان اور عراق وغیرہ پر حملہ کرنے کیلئے کسی کی اجازت اور رضامندی کی ضرورت نہیں پڑی تھی مگر شام کے معاملے میں امریکی صدر کے ساتھ خود امریکی عوام میں بھی جوش نہیں دکھائی دے رہا ہے ۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ امریکہ اتنا بھی طاقتور نہیں رہا بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتائج کے بعد نئی نسل کے مزاج اور نظریے میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ امریکی سیاستدانوں کی مداخلت کی وجہ سے وہ ایک بار پھر 9/11 جیسے حادثے کا شکار ہوں یعنی کہیں نہ کہیں وہ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ اس حادثے کے ذمہ دار بھی ہم خود ہی ہیں ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دنیا کے حالات سے باخبر نہیں ہیں اور دلچسپی نہیں رکھتے ۔
مصر اور شام کے معاملے میں بیشتر امریکی صحافیوں اور دانشوروں کی رائے یہ ہے کہ وہاں کی عوام کو ان کا جمہوری حق ملنا چاہئے اور اگر ان ممالک کے ڈکٹیٹر وں کو عوام کے قتل عام سے نہیں روکا گیا تو دنیا کے حالات اور بھی خطرناک ہو سکتے ہیں ۔مگر امریکہ تنہا یہ کام انجام نہیں دے سکتا۔اسی طرح روس کے ایک شہری Anna Neistat انا نیٹیٹ جو تنظیم انسانی حقوق کے معاون ڈائریکٹر بھی ہیں انہوں نے نیو یارک ٹائمس میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ایک مطبوعہ مضمون کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ روسی صدر نے شام کے تعلق سے جو بات امریکیوں کو نہیں بتائی اور نظر انداز کردیا وہ یہ ہے کہ بشارلاسد نے ہزاروں لوگوں کا قتل عام کیا ہے ۔ہزاروں لوگوں کا اغوا کرکے لاپتہ کردیا بلا اشتعال گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور ہزاروں لوگ شام کی جیلوں میں تشدد اور تعذیب سے گذارے جارہے ہیں جس کا مشاہدہ میں نے خود پچھلے ڈھائی سال سے شام کے اندر رہ کر کیا ہے ۔اس کے باوجود روس کی حکومت ایک ظالم حکمراں کی ہتھیاروں کے ذریعے مدد کررہی ہے ،جس کا کوئی بھی تذکرہ پوتن کے مضمون میں نہیں ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شورش کے دوران باغیوں کے ذریعے بھی کچھ ناانصافیاں ہوئی ہیں مگر ان حالات سے پہلے پر امن احتجاجیوں اور مظاہرین پر گولیاں کس نے چلائیں ۔ان کے لیڈروں کو گرفتار کرکے ٹارچر کس نے کیا ۔مگر اس جبر تشدد اور نا انصافی کے خلاف عالمی طاقتوں کی مسلسل خاموشی نے مخالف طاقتوں کو بھی تشدد پر آمادہ کیا جس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جاتا ۔روس کی یہ تجویز کہ شام کے کیمیاوی ہتھیاروں کو اپنے قبضے میں لے لیا جائے درست ہے ۔مگر کیا اس طرح قتل کئے گئے ، گرفتار کئے گئے ،اور جو گھر سے بے گھر ہوگئے ہیں اور ہو رہے ہیں ،انہیں انصاف مل جائے گا ؟بغیر کسی ثبوت کے باغیوں کو کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا مجرم ماننا بھی روسی صدر کو زیب نہیں دیتا ۔انہیں ایک مہذب اور نمائندہ ملک کے صدر ہونے کی حیثیت سے اپنی شخصیت کو اس طرح پیش کرنا چاہئے کہ ان کے عمل کو عالمی برادری اور روسی عوام میں اچھی نظر سے دیکھا جائے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب روس خود آگے بڑھ کر شام کی شورش کے خاتمے کیلئے مثبت قدم بڑھائے ۔بیشک دنیا اسی تبدیلی کا خیر مقدم کرتی ہے جو تعمیری ہو۔(ہندوستان ٹائمس14 ؍ستمبر 2013 )
ہمارے کچھ تحریکی دوست جو امریکہ کو اسلام کا دشمن نمبر 1 مانتے ہیں ان کا ماننا یہ ہے کہ امریکہ شام پر حملہ کرنے کا بہانہ ڈھونڈھ رہا ہے تاکہ اسرائیل محفوظ رہے جبکہ امریکی صدر باراک اوبامہ خود بھی تنہا پڑجانے اور صہیونی مقتدرہ اور اس کی زرخرید تنظیموں اور سیاستدانوں کے دباؤ میں اپنے فیصلے کو موخر کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ شام پر حملہ ہونے سے نیزعالمی طاقتوں کی مداخلت سے کیا واقعی اسرائیل محفوظ ہو جائے گا ؟فری سیرین آرمی کے سربراہ کرنل عبد الجبار العقیدی نے 11 ؍ستمبر کو العربیہ کو انٹر ویو دیتے ہوئے اس نظریہ کا جواب دیا ہے کہ عالمی طاقتیں کیمیاوی ہتھیاروں پر گندی ڈیل کررہی ہیں تاکہ اوبامہ کو اس درخت سے بچایا جائے جس پر وہ چڑھنے کی کوشش کررہے ہیں اور روس اس سیڑھی کو کھینچ رہا ہے تاکہ اسرائیل محفوظ رہے ۔واضح ہو کہ 1948 میں اسرائیل کی تخلیق کے بعد اس کو سب سے پہلے ایک ملک کی صورت میں منظوری دینے والا ملک روس ہی ہے ۔لیکن شاید ہمارے دوست تاریخ کے اس بدترین مسلم اور عرب دشمن ملک کو بھلابیٹھے ہیں ۔12 ؍ستمبر کو ہندوستان ٹائمس نے اپنے اداریے میں اسی موقف کا اظہار کیا ہے کہ جس طرح عالمی طاقتوں کی توجہ کیمیاوی ہتھیاروں کی حوالگی کی طرف موڑدی گئی ،بد قسمتی سے شام کے اصل مسئلہ کی طرف سے یعنی ہر روز اور ہر ہفتے قتل عام کا جو مسئلہ کیمیاوی ہتھیاروں کے حملے سے بھی زیادہ سنگین ہے عالمی برادری کی توجہ وہاں سے ہٹادی گئی ہے۔
اسی طرح 11 ؍ستمبر کے انڈین ایکسپریس میں واشنگٹن پوسٹ کے حوالے سے ایک تجزیہ خبر کا نظریہ بھی یہی ہے کہ امریکی کانگریس میں بہت سے ممبران شام پر اوبامہ کے حملے کی اس لئے بھی حمایت نہیں کررہے ہیں کہ اس طرح شام کی حکومت پر جو لوگ قابض ہونگے وہ بشار الاسد سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں کیوں کہ باغیوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو افغانستان کی طرح طالبان طرز کی حکومت چاہتے ہیں ۔تقریباً یہی نظریہ اسرائیل کے صدر بنجامن نیتن یاہو کا بھی ہے جو یکم ستمبر کے ہندوستان ٹائمس میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا بشار الاسد سے کوئی تنازعہ نہیں ہے کیوں کہ اس نے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی تصادم سے گریز کیا ہے ۔ اس کے برعکس عرب بہار سے اسرائیل کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا ہے اور ہم شام میں شدت پسند اور اعتدال پسند دونوں طبقات کو ناپسند کرتے ہیں ۔مگر ہم نہیں چاہتے کہ اسد کے پاس کیمیاوی ہتھیار ہوں اور اس کی وجہ سے ایران کو طاقت ملے ۔شام کے معاملے میں ایران کے اپنے موقف کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں یعنی شامی عوام کا قتل عام ہوتا ہے تو ہوتا رہے کیوں کہ بشار الاسد کے جانے سے ایران کو بھی ان لوگوں سے خطرات لاحق ہیں جن سے خود اسرائیل خوفزدہ ہے ۔شام پر حملے کے تعلق سے ہمارے تحریکی دوستوں کے جو مضامین اخبارات میں آئے انہیں دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی رائے بھی وہی ہے جو ایران اور اسرائیل کی ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ابھی بھی امریکہ کو مرحوم آیت اللہ خمینی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ ہم اسی طرف جھکیں گے جس طرف ایران جھکے گا ۔جبکہ امریکہ اور ایران دونوں کے اپنے موقف میں تبدیلی آچکی ہے ۔آیت اللہ خمینی مرحوم نے امریکہ ،روس اور اسرائیل تینوں کو برائی کا محور اور شیطان کی آنت کہا تھا ۔بعد میں ان کے جانشین سابق ایرانی صدر احمدی نژاد نے ایک شیطان روس سے دوستی کرکے وقت کے سب سے بڑے شیطان اسد رجیم کو اپنا بھائی قرار دے دیا ۔اس کے بعد اصلاح پسند وں کی حکومت میں تھوڑی سی اور اصلاح یہ ہوئی کہ ایران کے وزیر خارجہ نے ہولو کاسٹ کی مذمت کرکے اسرائیل دوستی کا اشارہ دے دیا ۔تیسرے دن ایرانی صدر حسن روہانی نے اپنے فیس بک پر یہودیوں کو نئے دن کی مبارکباد بھیجتے ہوئے اسرائیل کی سلامتی کو جائز ٹھہرایا ۔شاید فراخ دلی اس وجہ سے بھی ہے کہ اسرائیل کے سارے اقدامات خود ایران کے حق میں ہیں ۔ہم اپنے ایک مضمون ’’بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے‘‘ میں یہ لکھ چکے ہیں کہ اسرائیل ماضی کی طرح اپنے مفاد کیلئے ایران سے دوستی کر لے گامگر جس طرح ایران نے اسلامی انقلاب کا مکھوٹا اوڑھ کر شام میں اپنے گھناؤنے کردار کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کیلئے ایرانی حکمراں بھی جلد بازی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔اس طرح ایسا بھی لگتا ہے کہ تمام شیطانوں سے اپنے تعلقات کو استوار کرنے کیلئے ایران پانچویں شیطان سلمان رشدی کے خلاف لگائے گئے اپنے فتوے کو بھی واپس لے لے ۔بیشک تبدیلی آنی بھی چاہئے اور ایران کو اپنی ترقی اور کامیابی کیلئے ایسا کرنے کا حق بھی ہے ۔
دنیا ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی نفرت اور دشمنی کے ماحول میں مغرب کی ایک نسل کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔مغرب کی نئی نسل کیا سوچ رہی ہے ،ہم اس کا استقبال کریں یا نہ کریں ،کم سے کم ہماری اسلامی روایت اور تعلیمات اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم کسی بھی قوم کی دوستی اور دشمنی میں حد سے گذر جائیں اور جو ہماری طرف رجوع بھی ہونا چاہے تو ہم اسے پہچان نہ سکیں ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امریکی صدر اوبامہ بھی امریکہ کے سابق حکمرانوں مختلف نہیں ہیں ،وہ بغض معاویہ میں مبتلاء ہیں اور اگر وہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے تعلق سے ہم ان کے چہرے پر داڑھی اور ٹوپی دیکھنا چاہتے ہیں تو جناب دارھی اور ٹوپی والے مسلم حکمراں تو مسلمان ہو کر بھی مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں ۔ہم بہر حال اس فطری نظریے کے قائل ہیں کہ جب دولوگوں کے بیچ میں تنازعہ ہو تو تیسرے کی مداخلت کے بغیر فیصلہ ممکن ہی نہیں ہے ۔جو مسلم دانشور اور تحریکی علماء یہ کہتے ہیں کہ اوبامہ اور امریکہ کو شام میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ۔انہیں شاید اچھی طرح یہ بھی پتہ ہے کہ جو مسلم ممالک مداخلت کرکے روک سکتے ہیں وہ خود شام کے میدان میں ایک دوسرے کے خلاف فریق کا کردار ادا کررہے ہیں ۔چلئے اب یہ مداخلت کچھ وقت کیلئے رکی ہوئی بھی لگ رہی ہے اور خدا نخواستہ رک بھی گئی تو پھر؟۔چلئے ہم بھی آپ کے ساتھ نعرہ لگاتے ہیں کہ بشار الاسد کا قتل عام زندہ آباد اور اوبامہ کی امداد مرد ہ آباد ۔

عمر فراہی ،موبائل۔09699353811 ای میل umarfarrahi@gmail.com

0 comments:

شام و مصر کی داستان بلاخیز، سعودی شاہ کا کرداراور ہندوستان میں ان کے ایجنٹ

جو لوگ شام پرامریکی حملے کی دھمکی کی مخالفت کررہے ہیں وہ بتائیں کہ اس کے علاوہ آپشن کیا ہے ۔پچھلے دو سالوں سے جس قدر بشارالاسد رجیم کی فوج نے نہتے عوام پر زندگی تنگ کی ہے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کا قتل کیا ہے ۔عورتوں اور بچوں تک کو اس کے وحشی فوجیوں نے درندگی کے ساتھ قتل کیا ہے ۔کیا اس کی نظیر بھی ملتی ہے ۔بشار الاسد کے باپ حافظ الاسد رجیم نے بھی ایسا ہی کیا تھا حمات شہر کو کھنڈر میں بدل دیا تھا اور اسی ہزار سے زیادہ لوگوں کا قتل عام کیا تھا ۔ان کا گناہ صرف یہ تھا کہ وہ صرف نام کے نہیں عملی مسلمان تھے اور وہ مسلم ملک میں لادینی قانون کے قائل نہیں تھے ۔ان کاعزم تھا کہ وہ اللہ کی سرزمین پر حق و انصاف پر مبنی قانون الہٰی نافذ کریں گے ۔لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد صہیونی سرمایہ داروں نے پوری دنیا کو یرغمال بناکر مسلم دنیا کو لسانی علاقائی مسلکی اختلافات کو ہوا دیکر ٹکڑوں میں بانٹنا شروع کیا اور وہاں اپنے پالتو حکمراں متعین کئے ۔ان پالتو حکمرانوں نے مسلم عوام پر وہ ظلم وستم کئے کہ ہلاکو اور چنگیز بھی نادم ہو جائیں ۔اگر اس پوزیشن میں دیکھیں تو لگتا ہے کہ غیر مسلم حکومتیں ظلم و ستم میں اتنی طاق نہیں جتنی مسلم نام والی حکومتیں ہیں۔اسرائیل بھی اس ظلم و ستم اور خون خرابے میں شاید سب سے پچھلی قطار میں نظر آئے ۔جب ہی تو مہاراشٹر کی فاشسٹ تنظیم شیو سینا کا ترجمان سامنا مصر میں فوجیوں کی درندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اتنی اموات اگر ہندوستان میں ہو گئی ہوتی تو دنیا میں بھونچال آجاتا پوری دنیا میں چیخ و پکار مچ جاتا ۔گجرات میں 2002 میں مودی کی حکومت میں مودی کے اشارے پر مسلمانوں کے قتل عام سے مودی ابھی تک پیچھا نہیں چھڑا پارہا ہے ۔غور کیجئے تو سامنا کا تبصرہ درست ہے دیکھئے فوجیوں کی درندگی پر دنیا کس طرح خاموش رہی۔نہ صرف خاموش رہی بلکہ دنیا کے سربراہان مملکت مصر جاتے رہے اور مصری فوج کے فرعون وقت السیسی سے ہاتھ ملاتے رہے ۔اس کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔ کسی کی ضمیر نے بھی دھتکارا نہیں ایسا لگتا ہے کہ دنیا کا ضمیرصرف سو ہی نہیں گیا ہے ،مربھی چکا ہے ۔
مصر اور اخوان کے تعلق سے کچھ سیکولرسٹ صحافی اور سلفی علماء سعودی حکومت کی نمک خواری میں جو کچھ بیان کررہے ہیں اس میں دس فیصد بھی سچائی نظر نہیں آتی ۔سعودی حکومت کا حق نمک ادا کرنے کے لئے انصاف کی کوئی بات زبان سے نکالنے کو راضی ہی نہیں بلکہ دنیا نے جس جرم کو دن کے اجالے میں سرے عام دیکھا ہے اور جس کو یہودی اور سعودی دونوں کی حمایت حاصل تھی اس کی بھی تاویل کرتے نظر آرہے ہیں ،وہ بھی مصر کے المیہ کے پورے دو ماہ بعد اتنے دن کہاں تھے ۔کیا اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ انہوں نے اپنی اسٹریٹیجی طئے کی کہ یہودی نواز سعودی حکومت کا دفاع کس طرح کیا جائے،تب یہ بلوں سے باہر نکلے اور دشنام طرازی پر اتر آئے کہ اخوان کی ہی ساری غلطیاں ہیں ۔ان کی معلومات کا ذریعہ محض صہیونی میڈیا کے توسط سے آنے والی خبروں پر آمنا صدقنا والی بات ہے ۔خیر سے اگر کوئی سیکولرسٹ صحافی اگر یہ بات کرتا ہے تو اس کی بے دینی کی وجہ سے ایسی باتیں سمجھ میں آتی ہیں لیکن جب کوئی عالم دین ایسی کوئی بات کرے تو پھر دل یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ عالم دین کے بھیس میں کون ہے؟میں نے دو سلفی مولویوں کے مضامین دیکھے جس میں انہوں نے مصری فوج کو ایسا پیش کیا ہے مانو وہ بالکل معصوم ہیں جبکہ وہ درحقیقت مصر کو اس کھائی میں دھکیلنے والے گروہوں میں سے ہیں جس کھائی میں پچھلے دو سو سالوں سے مسلم دنیا کو پورا مغرب اور یہودی سرمایہ داردھکیلنے میں لگا ہوا ہے ۔ میں نے زیادہ تو نہیں لیکن جو کچھ مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر مصر و شام کے معاملات پر غور کیا ہے وہاں کے حالات کو دیکھا ہے اس سے بس یہ اندازہ لگایا ہے اورجو بعض ذرائع سے تصدیق شدہ ہے کہ مصر میں فوج کو وہاں کے دین بیزار اور نام نہاد سیکولر طبقہ اور ایک ایسی تنظیم جس کا تعلق سلفی مسلک سے ہے ،نے سعودی ،یہودی اور ایرانی فنڈ کے ذریعہ مرسی اور اخوان کے خلاف استعمال کیا ۔جس البرادعی نے سب سے زیادہ ہنگامی خیزی کی اور جو مرسی کیخلاف پہلے دن سے تھا ۔ جب فوج نے جس کو خون لگا ہوا تھا اس کی حقیقت کا پتہ چلا تو وہ بھی بول اٹھا کہ مرسی حق پر تھے ۔جس کی خبر عام اردو اخبارات میں آئی ہے ۔جہاں تک اخوان کی حکومت کے اہم عہدوں پر اخوانیوں کو بھرنے کی بات ہے اس میں بھی سچائی نہیں ہے ۔میرے پاس کئی ایسے اعداد شمار ہیں جو کہتے ہیں مرسی کی اخوانی حکومت نے اپنی تعداد سے بھی کم اپنے لوگوں کو ان عہددوں پر لگائے اور فراخ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے کئی اہم عہدوں پر ان لوگوں کو متعین کیا جو ان کے مخالفین میں سے تھے ۔

مصر میں مرسی حکومت کے خلاف جس احتجاج کی بات کی جاتی ہے اس کی سچائی اتنی ہی ہے کہ چند ہزار لوگوں کو ایک مصری تاجر جو امریکہ میں رہتا ہے کرایہ پر تحریر اسکوائر پر لے آیا اور اس کے آقا اسرائیل نے اس کی بھرپور مدد کی ۔جہاں تک احتجاج کی بات ہے تو حکومت مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کو اس عوامی احتجاج کا جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا ۔کیوں کہ اس سے بیس گنا زیادہ یا اس سے بھی زیادہ عوام نے مرسی کو ہٹائے جانے کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا لیکن اس پر کسی نے توجہ نہ دی ۔دراصل مصر میں پہلے دن سے ہی اخوان کے خلاف لبرل دہشت گرد وں نے مورچہ کھول رکھا تھا لیکن اس وقت وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے کیوں کہ معاملہ تازہ تھا اور عوامی رد عمل کے ساتھ عالمی ضمیر کے بھی بیدار ہونے کا خوف تھا اس لئے مرسی کی اخوانی حکومت کو مشکلات کے باوجود بن جانے دیا گیا ان کو کام نہیں کرنے دیا گیا ۔مصر میں گیس بجلی اور غذائی اجناس کی تنگی پیدا کی گئی اس میں پورا حکومتی کارندہ جس کی تربیت پچھلی حکومتوں نے کی تھی شامل تھا ۔بات یہاں تک ہے کہ گیس کے ٹینکر آتے تھے لیکن وہ ڈپو میں جانے کی بجائے صحرا میں جاکر گیس کو برباد کردیتے ۔جب اس پر مرسی کی حکومت نے گرفت کی اور اس میں مائیکروچپس لگا کر اس کے ڈائریکشن معلوم کرنے اور اس کی نگرانی کرنے کی کوشش کی تو ان کا تعاون نہیں کیا گیا ۔ان عرب ملکوں نے جنہوں نے مرسی کے رہتے ہوئے ایک پائی کی مدد نہیں کی ،مرسی کے ہٹتے ہی خزانے کا منھ کھول دیا ۔اس کے بعد عرب کے عیاش اور بد کردار حکمرانوں کے بیانات اور اسرائیل کی خوشی کا اظہار اور ایران کی منافقانہ روش سب یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ مصر میں حقیقتاً کیا ہوا ہے؟مصر کی النور پارٹی کے کردار پر شاہنواز فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں جو کچھ لکھا وہ کتنا صحیح ہے ۔وہ لکھتے ہیں’’سب سے زیادہ دلچسپ صورتحال سلفیوں کی جماعت نور پارٹی کے حوالے سے آئی ۔نور پارٹی نے مصر کے انتخابات میں 25 فیصد ووٹ حاصل کئے ۔اور یہ پارٹی خود کو اخوان سے زیادہ بنیاد پرست باور کراتی ہے ۔لیکن فوج نے صدر مرسی کے خلاف سازش کی تو نور پارٹی سیکولر عناصر کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور اس نے جنرل السیسی کو قوت فراہم کی ۔لیکن فوج کے قتل عام نے ایک ہفتے میں نور پارٹی کو بھی فوج سے فاصلہ بڑھانے پر مجبور کردیا،اور اب نور پارٹی کہہ رہی ہے کہ اگر فوج نے ملک کے آئین میں موجود اسلامی شقوں کو ختم کیا تو وہ مظاہرے شروع کردے گی۔لیکن نور پارٹی مظاہرہ کرے یا نہ کرے اس کے بارے میں سب کو معلوم ہو گیا کہ اس کا مسئلہ اسلام نہیں ،عرب حکمرانوں بالخصوص سعودی عرب کے حکمرانوں سے اس کی قربت اور ان حکمرانوں سے ملنے والی مالی امداد ہے‘‘۔یہی مسئلہ یہاں بھی ان علماء سوء کا ہے جن کو اخوان میں ہی کمیاں نظر آرہی ہیں۔عالم اسلام اور انصاف پسندوں کی نظر میں جو کاربد ایران نے شام میں مداخلت کرکے کیا ہے وہی بد کرداری سعودی شاہ نے مصر میں کی ہے ۔ اس لئے ایران اور سعودی شاہ دونوں ہی ملامت زدہ ہیں۔
دنیا میں پھر ایک نئی گروہ بندی ہو رہی ہے ۔چین عالمی افق پر نیاسپر پاور بن کر ابھر رہا ہے ۔ا س لئے روس ایک طرح سے چین کی نمائندگی کرتا ہوا نظر آرہا ۔چین کچھ مصلحتوں کی بناء پر کھل کر دنیا کی اس نئی گروہ بندی میں متحرک رول نہیں ادا کررہا ہے بلکہ وہ فی الوقت پردے کے پیچھے سے اپنا کام روس کی مدد سے کررہا ہے جس کی طرف بہت کم بلکہ نہیں کے برابر لوگوں کا ذہن جارہا ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ امریکہ کمزور ہو چکا ہے ۔وہ کیسے؟اس کو بلندی پر پہنچانے میں بھی اسرائیلی صہیونی سرمایہ داروں کا رول تھا تاکہ اسرائیل کی امریکہ کے ذریعہ غیر مشروط حمایت جاری رہے اور اب اس کو کمزور کرنے میں بھی انہی صہیونی سرمایہ داروں کا ہاتھ ہے کیوں کہ انہوں نے امریکہ اور یوروپ کے بجائے اب چین کو اس کے لئے چنا ہے ۔ہمیں غور کرنا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکہ کے سینکڑوں مالی ادارے تاش کے پتے کی طرح بیٹھتے جارہے ہیں اور جتنی تیزی کے ساتھ امریکہ بیٹھ رہا ہے اتنی ہی تیزی کے ساتھ چین عالمی افق پر بلند ہو رہا ہے ۔ہاں امریکی قوت بالکل تو ختم نہیں ہوگی لیکن اس کی پوزیشن وہ نہیں رہ پائے گی جو ابھی تک ہے ۔مسلمانوں میں اب تک چین سے متعلق کوئی سوچ نہیں ہے جو ایک خطرناک طرز عمل ہے ۔ پورے مشرق وسطی کی اسٹڈی اسلامی تناظر میں کرنے کی ضرورت ہے ۔نہ کسی سے دشمنی نہ کسی کی طرف داری بلکہ حقائق کی روشنی میں تجزیہ کرنا چاہئے ۔اسی تجزیہ کو مولانا سلمان حسنی نے پیش کیا ہے جس کے جواب میں عبد المعید مدنی اور فرقان مہربان علی صاحبان اپنی علمی قابلیت بھول کر جاہلوں کی طرح ان پر ذاتی حملہ کرنے لگے ۔ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا دستور قرآن و سنت پر مبنی ہے لیکن اس کا جواب ان کے پاس کیا ہے کہ مصرمیں اسلام پسندوں کی حکومت جس نے اپنا دستور قرآن وسنت ہی کو بنایا تھا اس کے خاتمہ میں کیوں رول ادا کیا ؟اور کیوں سعودی ،یہودی ،کویت اور ایران ایک ساتھ متحد ہو گئے ؟ان دونوں مولویوں کی نظر میں اخوان شدت پسند اور دہشت گرد ہیں جیسا کہ ان کے آقا سعودی نے بھی کہا ۔ظلم و نا انصافی کے خلاف غیر متشدد طریقے سے احتجاج کرنے والوں کو جنہوں نے اپنے متبعین کو سختی کے ساتھ ہتھیار اٹھانے سے روکا ہے ۔فوج نہتے لوگوں جن میں ضعیف ،عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں پر گولیاں برساتی ہے اصمان سے ہیلی کاپٹر کے ذریعہ ان پر فائرنگ کی جاتی ہے ٹینکوں سے ان کو روند دیا جاتا ہے ۔اتنے سارے ظلم سہنے کے بعد بھی اگر کوئی یہودی زبان میں ان کو دہشت گرد شدت پسند کہے تو کیا لوگ یہودی سعودی گٹھ جوڑ کو سمجھنے میں حق بجانب نہیں ہونگے؟تعجب ہے کہ قرآن وسنت کے دستور کا اور ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کا دعویٰ کرنے والوں کا عمل ایسا ہے کہ یہودی اور سعودی سب ایک ہی زبان میں بول رہے ہیں ۔ایسا نہیں ہے کہ سارے سلفی علماء ان دونوں کی طرح سطحی نظریات و افکار کے لوگ ہیں ۔نہیں ،بلکہ ان کے اندر بھی حق پسندوں کی کمی نہیں ہے ۔ ہندوستان میں بھی کئی جگہ پر کئی سلفی علماء نے افسوس اور دکھ کا اظہار کیا گو ان کے افسوس اور دکھ کے اظہار میں دو ماہ کا عرصہ لگا ۔ان کی بھی کوچھ مجبوریاں ہیں ۔اس میں سب سے بلند نام مولانا سید اطہر حسین دہلوی کا ہے ۔جنہوں نے سعودی عرب کے گناہوں کی کھل کر تو نہیں لیکن کچھ عرب ممالک کا نام لیکر ضرور ان کے کردار کو افسوسناک کہا ۔اسی طرح میں جس مسجد میں نماز پڑھتا ہوں اس امام صاحب نے بھی نام لیکر نہیں لیکن عرب ممالک کہہ کر ان کے کردار کو افسوسناک کہا ۔پتہ نہیں کیا مجبوری ہے یا ان کا بھی کوئی مفاد وابستہ ہے ۔مولانا سلمان پر انتہائی رکیک حملہ کیا ہے ان سے میرا سوال ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے کسی ادارے کو امداد دینے کا مطلب کیا یہی لیا جائے کہ اگر وہ کوئی بدکرداری دکھائے کسی اسلام دشمن اور مسلم دشمنی پالیسی پر عمل کرے تو اس کی گرفت نہ کی جائے ؟اگر اسی مقصد کیلئے سعودی حکومت امداد دیتی ہے تو یہ رشوت ہے۔اور آپ لوگ ہی رشوت کا حق ادا کریں ۔مولانا سلمان حسنی جیسے عالم اگر اپنے وارث انبیاء ہونے کا حق ادا کررہے ہیں تو اس میں آپ جیسے مطلب پرست دین فروش اور اسرائیل نواز لوگوں کو برا ہی لگے گا اس کا کیا جائے ۔تاریخ ہم نے بھی پڑھی ہے اور اس میں آپ جیسے ابن الوقت عالم کے بہت سارے کردار ہیں اور ایسے ہی میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگوں کی وجہ سے ایسے بہت سارے علماء حق کو حکومت وقت کا عتاب جھیلنا پڑا تھا ۔وہی عتاب اب بھی سعودی اور مصرمیں علماء حق کو جھیلنا پڑرہا ہے ۔اگر ثبوت دیکھنا ہو تو اردو کے اخبارات میں یہ خبریں آہی گئی ہیں کہ مصر میں پندرہ ہزار علماء کے خطبہ جمعہ پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔سعودی سے بھی ایک خبر کی مثال دی جاسکتی ہے جو کہ ان ہزاروں خبروں میں سے ایک ہے خبر خلیج نیوز کے حوالے سے لندن سے شائع ہونے والے عربی رسالہ الحیات نے شائع کی ہے جس میں اٹھارہ امام جمعہ کو برخواست کیا گیا ہے ۔یہ خبر 11 ستمبر کے خلیج نیوز ڈاٹ کام کے اس لنک پر http://gulfnews.com/news/gulf/saudi-arabia/saudi-arabia-suspends-18-friday-preachers-1.1229834 دیکھی جاسکتی ہے ۔ان پر الزام ہے کہ انہوں نے شام و مصر کے حالات پر خطبہ جمعہ میں تبصرہ کیا تھا۔آل سعود کے کم ظرف اولادوں نے صاف ستھرے مسلمانوں کے گروہ کو عوام کی نظر میں مشکوک بنادیا ہے ؟دراصل ان ابن الوقت عالموں اور سعودی کے موجودہ کردار نے حق کے راستے میں کانٹے بچھائے ہیں ۔اسے پرخار اور دشوار گزار بنادیا ہے ۔
فرقان مہربان علی جیسے لوگوں کو یا تو معلومات نہیں ہے یاپھر انہیں عوام کو گمراہ کرنے کا ہی کام سونپا گیا ہے انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ مصری صدر مرسی صدر مملکت بننے کے بعد سب سے پہلے سعودی عرب ہی گئے تھے اس کے بعد ہی کہیں گئے ۔ایک بات اور کہ آپ جس کی وجہ سے محمد مرسی کو الزام دے رہے ہیں ہمیں یہ بتائیں کہ کیا ایران کے ساتھ سعودی عرب کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں ۔دوسری بات یہ کہ کسی اہم موقع پر ایرانی صدر احمدی نژاد بھی سعودی عرب گئے تھے اور سعودی بادشاہ عبد اللہ نے ان کو اپنے بازو میں بٹھایا تھا ہم اسے ڈاکٹر صاحب کے نظریہ سے کیا سمجھیں ؟۔ڈاکٹر فرقان اور عبدالمعید صاحب کو شام میں شامی فوج اور بشار الاسد کا ظلم وستم تو نظر آتا ہے لیکن مصری فوجوں کا ظلم ستم اور ان کے ساتھ کھڑے ہوئے لوگ جن میں ان کے آقا بھی ہیں نظر نہیں آتے ان کا گناہ ان کو گناہ ہی نظر نہیں آتا جس پر دنیا کے انصاف پسند لوگ حیران و پریشان ہیں اوردنیا میں دوہرے معیار کا معائنہ کررہے ہیں ۔افسوسناک اور شرمناک بات ہے کہ اس دوہرے معیار کے لوگوں میں ڈاکٹر فرقان اور عبد المعید جیسے اہل ایمان ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں ۔آخر میں ہم صرف اتنا کہیں گے کہ مسلمانوں کی وفاداری صرف اللہ اور اس کے رسول سے ہے اور اس کے دل میں عقیدت و محبت کا مرکز مکہ اور مدینہ ہے ریاض تل ابیب اور واشنگٹن اس کی امیدوں کااور عقیدتمندیوں کا مرکز نہیں ہے اوروہ اس امام کا مطیع ہوگا جو مصالح امت کے خلاف یہود و نصاریٰ سے دوستی نہ کرے
۔ نہال صغیر۔ ممبئی ۔09987309013

0 comments: