عورت ، طلاق اور تہذیب نو کے مسائل

عمر فراہی 
umarfarrahi@gmail.com

دور قدیم میں جس طرح مشترکہ خاندان کا چلن تھا اور لوگوں کے مزاج میں سادگی پائی جاتی تھی نہ تو شادی اور نکاح کو اتنا بڑا مسئلہ سمجھا جاتا تھا اور نہ ہی طلاق کے مسئلے کو لیکر ہی کبھی بحث و مباحثہ ہوا - ہاں اتنا ضرور تھا کہ طلاق کو ہر دور میں ایک غیر اخلاقی عمل سمجھ کر معیوب فعل سمجھا گیا ہے - اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ طلاق کے بعد لڑکی کے بن نکاح رہنے اور سڑک پر آجانےکا اندیشہ تھا جیسا کہ جدید سرمایہ دارانہ صنعتی دور میں یہ عنوان زیر بحث ہے کہ پانچ یا دس سال تک ایک عورت کے ساتھ زندگی گذارنے کے بعد اگر ایک شخص اپنی بیوی یا شریک حیات کو طلاق دے دیتا ہے تو اس عورت کی کفالت کا ذمہ دار کون ہوگا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ماضی کے اس دور میں عورت اور مرد کے نکاح کی شکل میں نہ صرف دو زندگیوں کے درمیان تاحیات گذر بسر کرنے کا معاہدہ طئے پاتا تھا بلکہ اس مقدس عمل کے توسل سے کئی خاندان اور قبیلے جو پیار محبت اور مساوات کے رشتے  میں قید ہوجایا کرتےتھے طلاق کی صورت میں ان کے درمیان تعلقات میں دراڑ پڑ جانے کا اندیشہ تھا - شاید اسی لئے عورت اور مرد کی ازدواجی زندگی میں اگر کبھی تلخیاں پیدا بھی ہوجاتی تھیں تو لوگ عدالت اور قانون کی مداخلت کے بغیر آپس کے مشورے سے حل کر لیا کرتے تھے- آج کے جدید سرمایہ دارانہ سیاسی نظام اور شہری زندگی میں جہاں مشترکہ خاندان اور قبیلے کا تصور ہی ختم ہوچکا ہے اور نئی نسل اپنے کسی بھی ذاتی  معاملات اور  فیصلے میں خاندانی اور سماجی بندھن کی پابند بھی نہیں ہے ۔ قصوروار صرف طلاق دینے والا مرد ہی نہیں ہے بلکہ عورتوں کی آزاد خیالی بھی ایک اہم وجہ ہے جو گھر میں نہ صرف ساس سسر  کی بالا دستی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے بلکہ چاہتی ہے کہ مرد بھی اس کا غلام بن کر رہے اور معاشرے میں تقریباً نوے فیصد مردوں نے عورتوں کی غلامی کو قبول بھی کر لیا ہے ۔ جس کا اندازہ شادی بیاہ کے موقع پر رسم ورواج اور لین دین کےوقت کیا جاسکتا ہے جب عورتیں ہی مردوں کی رہنمائی کرتی ہیں کہ کسے کیا دینا ہے اور کہاں کتنا خرچ کرنا ہے - یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اسی فیصد طلاق کے مطالبات عورت کی طرف سے ہی  ہوتے ہیں نہ کہ مرد کی جانب سے - ہاں کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص شراب کے نشے یا غصے کی حالت میں ایک مجلس میں ہی تین طلاق دے دیتا ہے لیکن ایسے معاملات شاذونادر ہی کسی بہت ہی پسماندہ اور ناخواندہ معاشرے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں - اس کے برعکس  ہمارے دور کا جو اہم مسئلہ ہے یعنی جو حکومتی بدعنوانی اور سیاسی نقص ہے جس کی وجہ سے پورے سماج اور معاشرے میں بے چینی اور الجھن پائی جاتی ہے اس پر کوئی بحث نہیں ہوتی - مثال کے طورپر اسی سماج میں ضعیف اور معذور افراد بھی ہیں جن کی اولادیں اپنے والدین کو آخری وقت میں بوڑھوں کے آشرم میں شرافت کے ساتھ خودکشی کرنے کیلئے چھوڑ جاتے ہیں اور یہ سو فیصد لوگ غیر مسلم ہوتے ہیں - متھرا اور بنارس کے مندروں میں ہزاروں بوڑھی اور جوان بیوہ عورتیں صرف ہندوؤں کی ہوتی ہیں نہ کہ مسلمانوں کی - اگر اسلامی تعلیمات میں کوئی نقص ہے یا مسلمانوں کے معاشرے میں خرابی ہے تو پھر کوئی بتائے کہ ایسے کتنے مسلمان ہیں جنھوں نے اپنے بوڑھے والدین کو آشرم میں لاوارث چھوڑا ہے اور ایسی کتنی طلاق شدہ عورتیں سڑکوں پر بھیک مانگتی ہوئی نظر آرہی ہیں - ہاں اگر کچھ نقاب پوش عورتیں بھیک مانگتی ہوئی نظر بھی آتی ہیں یا بیر باروں کی طرف راغب ہیں تو یقیناً یہ کچھ ایسی پیشہ ور عورتیں ہیں جو اپنے گھروں سے غلط قدم اٹھا کر اس انجام کو پہنچی ہیں تو اس کا ذمہ دار نہ تو مسلمان ہے اور نہ ہی اسلام بلکہ عورتوں کی آزاد خیالی اور موجودہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو ناگہانی اور حادثاتی حالات کی شکار بے سہارا عورتوں کی فلاح بہبود کا کوئی نظم نہ کرکے انہیں طوائف بننے پر مجبور کر دیتا ہے - ایک ایسے دور میں جہاں اب مشترکہ خاندان کا چلن ختم ہوچکا ہے ، جہاں ہر شخص اپنے اخراجات کے بوجھ کے نیچے دبا چلا جارہا ہے جہاں نکاح ثانی کو تقریباً حرام کے برابر سمجھا جانے لگا ہو یا گلیمر اور ریاکاری کے دور میں بیوہ عورتوں سے نکاح کرنے کی روایت بھی منسوخ ہو چکی ہو جہاں عورت نے خود ساس ، بہو ، نند ، دیورانی ، جیٹھانی اور سوتن کو برداشت نہ کرکے خود کو تنہا کر لیا ہو یہ بحث بظاہر درست بھی ہے کہ ایک طلاق شدہ عورت کا سہارا کون بنے - لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ جدید سرمایہ دارانہ صنعتی انقلاب اور لادینی معاشرے کی کوکھ سے پیدا ہونے والے اس جدید مسئلے اور فتنے کا ذمہ دار کیا اسلام ہے ؟ یقیناً اس کے ذمہ دار ہم اور ہمارا جدید معاشرہ اور جدید نظام ہے جو اگر انسانوں کو ایک پرامن اور پرسکون زندگی کی ضمانت نہیں دیتا تو  یہ اس دور کے اچھے انسانوں کی ذمہ دارای ہے کہ ایک بار پھر ایک صالح انقلاب کیلئے جدوجہد کریں نہ کہ زمانے کے بدلاؤ کے مطابق اسلامی قوانین کو بدلنے کی کوشس ہو - جیسا کہ طلاق کے مسئلے کو لیکر مسلمانوں میں کچھ بھولے بھالے لبرل اور مادہ پرست مسلمان بھی اس بحث میں الجھے ہیں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ایک مجلس میں تین طلاق کے فقہی اصول کو منسوخ کرکے عورت کو جو کبھی کبھی ایک ظالم مرد کے ساتھ ایک منٹ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتی جبراً تین مہینے تک ذہنی اذیت سے گذرنے کیلئے مجبور کر دیا جائے - اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں طلاق دینے کا احسن طریقہ یہی ہے کہ ایک مرد ایک ایسی عورت کو جو کہ ایک وقت تک اس کی شریک حیات بھی رہ چکی ہے ایک وقت مقررہ کی مہلت دینے کے بعد ہی اپنے طلاق کے حق کا استعمال کرے - لیکن ایسا اسی وقت ممکن ہے جب طلاق کا معاملہ عورت اور مرد دونوں کی رضا مندی سے قرار پائے اور دونوں کے آپسی خاندان میں بھی سوجھ بوجھ اور سمجھداری ہو- لیکن اکثر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ دونوں کے آپس میں رنجش اور خلش کی خلیج اس حد تک وسیع ہوجاتی ہے کہ دونوں میں سے کوئی کسی کی شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا یا کبھی کبھی لڑکی شوہر کا گھر چھوڑ کر مائیکے آجاتی ہے اور دونوں خاندانوں کے بیچ نوبت  مارپیٹ اور پولیس میں شکایت تک پہنچ جاتی ہے - ایسے میں جبکہ شدید  کشیدگی اور تناؤکا  ماحول ہو کیا یہ ممکن ہے کہ طلاق کے احسن طریقے کا استعمال کیا جائے - نیز اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ  عورت کو شوہر کے ساتھ تین مہینے کی عدت  کے دوران کسی ذہنی اور جسمانی اذیت سے نہیں گذرنا پڑے گا - جبکہ حدیث میں صحابہ کرام کے عمل سے ایک مجلس میں تین طلاق کا طریقہ بھی موجود ہے اور کبھی کبھی یہ حالات اس مظلوم عورت کے حق میں ہی بہتر ہوتے ہیں کہ وہ ایک ایسے شوہر نما ظالم مرد سے جس سے کہ اسے اپنی جان کا خطرہ لاحق  ہو ایک ہی نشست میں چھٹکارہ حاصل کرلے - سچ تو یہ ہے کہ مسئلہ طلاق اور شریعت کا نہیں انسانوں کی جدید جہالت کا ہے اور اس معاملے میں اسلام دشمن میڈیا جس طرح  واویلا مچانا شروع کردیتا ہے جیسے کہ انہیں مسلمانوں سے زیادہ مسلمانوں کی اپنی بہو بیٹیوں اور بہنوں سے ہمدردی ہو - جبکہ ان کی طرف سے  مسلمانوں کی دیگر پسماندگیوں اور حکومتی جبر و تشدد کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی - آج بھی گجرات فساد سے متاثر کوثر بی ، ذکیہ جعفری  اور ظہیرہ شیخ جیسی مظلوم عورتیں انصاف کیلئے منھ تک رہی ہیں ۔
ہمارے دور کی مادی تہذیب کا ایک فتنہ یہ بھی ہے کہ اب ہر شخص اپنی زندگی کے مختصر وقت میں ہی دنیا کی زیادہ سے زیادہ عیش وعشرت کے سامان کو حاصل کر لینا چاہتا ہے - عورت اور مرد کا رشتہ بھی اسی زندگی کی فطری ضرورت سے منسلک ہے - مگر جب کچھ شادی شدہ جوڑوں  کی یہ خواہش پوری نہیں ہو پاتی تو ان کی ازدواجی زندگی میں کشیدگی کا پیدا ہونا لازمی ہے اور پھر نوبت طلاق اور جدائی تک پہنچ جاتی ہے - اب اگر کوئی یہ کہے کہ جدید  مادی تہذیب اور گلیمر کا شکار صرف مرد ذات ہی ہے اور طلاق دینے کا قصوروار بھی صرف وہی ہے تو غلط ہے - بلکہ ہمارا ذاتی تجربہ تو یہ ہے کہ سماج کے غریب ناخواندہ اور پسماندہ طبقات میں اگر کبھی کئی ہزار میں ایک واقعہ یہ پیش آتا ہے کہ ایک شخص شراب کے نشے یا غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دینے کی جرات کر لیتا ہے تو اس لئے کہ بیوی کی طرف سے قانونی چارہ جوئی کی شکل میں اس کے پاس کھونے کیلئے  کچھ نہیں ہوتا  لیکن کیاکوئی بتا سکتا ہے کہ عورتوں کے حق میں جہاں ملک کا قانون پوری طرح اندھا ہے سماج کا امیر و کبیر اور شریف خاندان کا شخص بھی یہ جرات کرسکتا ہے - ایک اندازے کے مطابق اسی فیصد طلاق کے مطالبات عورتوں کی طرف سے ہوتے ہیں اور مرد قانون اور عدالت کی ذلت سے چھٹکارہ پانے کیلئے کچھ دے لیکر معاملات کو آپس میں طے کر لیتا ہے جس پر ہم تفصیل کے ساتھ اپنے اگلے مضمون میں تبصرہ کریں گے ۔ 


جو لوگ ایک نشست میں طلاق کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر مرد واقعی ظالم رہا یا کسی وجہ سے لڑکی انجانے میں کسی بدمعاش قسم کے لڑکے کے چنگل میں پھنس جاتی ہے یا لڑکا ہی کسی بدکار عورت کے دھوکے میں آکر نکاح کرلیتا ہے جیسا کہ انٹرنیٹ کی شادیوں میں کثرت کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے اور ہمارے سامنے ایسے بھی واقعات آئے ہیں کہ کچھ لڑکیاں لڑکوں کی ظاہری چکاچوند میں آکر ایسے نوجوانوں کے جھانسے میں آجاتی ہیں جن کا کردار مشکوک ہوتا ہے اور پھر شادی کے بعد بھید کھلنے پر معلوم پڑنے پر ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ فوری طورپر طلاق لیکر اس عذاب سے چھٹکارہ حاصل کریں - مثال کے طورپر ہمارے ایک ہندو ساتھی کی لڑکی کے ساتھ ایسا ہوا - انٹرنیٹ کے ذریعے لڑکے نے اپنی ڈگری اور دبئ میں اپنی ڈیڑھ لاکھ کی ملازت کا فرضی ثبوت بتا کر لڑکی سے شادی کرکے دبئ میں ہی اپنے ساتھ رکھنے کا وعدہ کیا تو لڑکی والوں نے مناسب رشتہ جان کر یہ شادی طے کردی اور پھر شادی کے فوراً بعد لڑکا لڑکی کو دبئ لیکر چلا بھی گیا لیکن لڑکا لڑکی کو دبئ لے جانے کے بعد اس کے ماں باپ اور رشتہ داروں سے رشتہ منقطعہ کروا دیتا ہے یا کبھی فون وغیرہ سے بات بھی کرواتا تو ساتھ میں بیٹھ کر دھمکیاں دیتا کہ وہ اتنا ہی بات کرے جتنا کہ اس نے سکھایا ہے - اس طرح وہ اپنی بیوی کو مجبور کرنے لگا کہ وہ اس کے لائے ہوئے گراہکوں کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرے تاکہ وہ اس کے عوض رقم حاصل کرے - لڑکی کے انکار کرنے پر وہ اسے ٹارچر کرتا رہا - لڑکی نے کچھ مہینوں تک اس کی اس اذیت کو سہتے ہوئے کسی طرح پڑوسیوں کی مدد سے اپنے گھر والوں سے رابطہ قائم کیا اور پھر لڑکی کے باپ نے اپنی طبیعت خراب ہونے کا بہانہ بناکر نہ صرف اپنے کسی رشتہ دار کی مدد سے اپنی بیٹی کو واپس بلوایا لڑکے پر بھی ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ ساری حقیقت کو جانتا ہے یا لڑکی نے کچھ بتایا ہے لڑکی کو واپس لے جانے کے بہانے لڑکے کو ہندوستان بلوایا اور پھر جبراً طلاق نامہ لکھوا لیا -لڑکی کا باپ اگر قانون اور عدالت کا سہارا لیتا تو شاید اسے لڑکی کی بے گناہی ثابت کرنے میں ایک وقت گذر جاتا اور اگر اسے انصاف مل بھی جاتا تو بھی ایک ایسا شخص جس کا کوئی پتہ اور ٹھکانہ ہی نہ ہو بالآخر طلاق کے سوا اور کیا دیتا - ایسا حادثہ کسی مسلمان لڑکی اور کسی کی بہن اور بیٹی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے - ایسے میں اگر کوئی لڑکی پولس میں شکایت بھی کرتی ہے اور معاملہ عدالت تک پہنچ جاتا ہے تو پھر ایک مظلوم لڑکی کو طلاق لینے کیلئے صرف تین نشست نہیں بلکہ تیس نشست کے بعد بھی طلاق مل جائے گا اس کی کیا ضمانت ہے - میں سمجھتا ہوں کہ ایسے مواقع پر علماء دین کے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ ایک نشست میں ہی نکاح کو فسخ کرکے لڑکی کو اس عذاب سے نجات دلائیں یا پھر جب ساری عدالتیں ناکام ہو جائیں تو ایک مسلمان باپ کے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ بھی وہی کرے جو ہمارے ہندو دوست نے کیا - ایک سوال یہ بھی ہے کہ جب اضطراری اور ہنگامی حالات میں قرآن کے کچھ اصول میں تبدیلی ہو سکتی ہے اور نماز جیسی اہم عبادت کو بھی جمع کر کے ادا کیا جاسکتا ہے تو پھر ہنگامی اور اضطراری کیفیت میں اگر کبھی کبھار کوئی شخص تین طلاق کے وقفے کو جمع کرکے ایک مجلس میں ادا کردے تو اس پر اتنا واویلا کیوں ۔۔۔؟

0 comments:

روز روز کے مبارکباد کا فتنہ اور مسلمان

عمر فراہی

umarfarrahi@gmail.com

پچھلے سال عید کے بعد جب ہم اپنے ایک دوست سے ملے تو انہوں نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کی کیا اب آپ اتنے مصروف رہنے لگے ہیں کہ اس بار عید کی کوئی مبارکباد بھی نہیں دی - یہی بات میں اپنے دوست سے بھی کہہ سکتا تھا کہ اگر ہم مصروف تھے یا ہمیں دھیان میں نہیں آیا تو آپ ہی فون کر لیتے لیکن آج کے دور کا ایک  مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر شخص کو دوسرے شخص سے شکایت ہے اور ہر شخص اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کی وفاداری کو آزمانے میں لگا ہوا ہے مگر اسے خود احساس نہیں ہوتا کہ دوسرا بھی تو یہی سوچ رہا ہو گا ۔ اس لئے کیوں نہ وہ خود اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے سلام و کلام میں پہل کرے - بات کو آگے نہ بڑھا کر ہم نے  صرف اتنا کہہ کر بات کو ختم کرنے کی کوشس کی کہ کیا کریں بھائی انٹرنیٹ کے دور میں دنیا وہاٹس ایپ کے گرد گھوم رہی ہے اور اب تو دوست یار بھی جب اچانک راستے پر ملتے ہیں اور بات مکمل نہیں ہو پاتی تو یہ کہہ کر جدا ہو جاتے ہیں کہ چل یار وہاٹس ایپ پر ملتے ہیں - اور یہ بات سچ بھی ہے کہ جدید ٹکنالوجی نے دوستوں کی تعداد میں اضافہ تو کیا ہے لیکن دوستوں میں پہلے جیسے خلوص اور ہمدردی کے جذبات کہاں رہے - انہیں مصنوعی دوستوں کے درمیان لوگ جس طرح مصروف ہو چکے ہیں نہ صرف سلام دعا اور عید وغیرہ کی مبارکباد وہاٹس ایپ پر ہونے لگی وہاٹس ایپ اور فیس بک پر ہی درود و سلام اور آمین بھی بھیجا جارہا ہے اور ماضی میں مسلمانوں کے گھروں سے جو تلاوت کی آواز آتی تھی اب یہ برکت بھی رسمی مباکباد کے فتنے میں سمٹ کر رہ گئی - یعنی محبت اور عبادت کا زبان اور روح سے جو رشتہ تھا اور کبھی جو لوگ رمضان اور عید کے دن لوگوں کے گھر جاکر ملاقات کرتے تھے یہ لوگ فیس بک، وہاٹس ایپ اور ٹوئٹر پر ہی ملاقات کر کے ثواب لوٹ لیتے ہیں - بدقسمتی سے جو لوگ اس جدید ٹکنالوجی سے منسلک نہیں رہے انہیں اس رسمی طورپر بھیجے گئے ثواب سے بھی محروم ہونا پڑ رہا ہے ! کبھی کبھی جب ہم اس بارے میں غور کرتے ہیں تو یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کیا واقعی یہی اسلام ہے یا اسلام میں کیا ایسے بابرکت مواقع پر اس مبارکباد کی رسم کا کوئی تصور بھی ہے ؟ پھر ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اگر اس کلام کی اتنی ہی اہمیت ہے تو اسلام میں سلام کی اہمیت کیا ہے -پھر ذہن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ کہیں اسلام میں سلام کی جو اہمیت اور فضیلت ہے اسے ختم کرنے کیلئے تو یہ روز کی مبارکباد کی بدعت ایجاد نہیں کی جارہی ہے - آپ کہیں گے کہ بھائی روز تو عید آتی نہیں اور مباکباد دینا بری بات بھی تو نہیں !
بات تو سچ ہے لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ حلال رزق کے استعمال کی بھی ایک حد ہے اور اس حد سے گذر جانے کو ہی انتہا پسندی کہتے ہیں اور اسلام میں اسراف اور انتہا پسندی بھی مکروہ ہے - اب آپ کے ذہن میں کہیں یہ سوال نہ آجائے کہ ابھی تک تو ہم نے اسلامی انتہا پسندی کا نام سنا تھا یہ مباکباد کے تعلق سے انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کی بیماری کہاں سے آ گئ - اصل میں مغرب کا یہی تو کمال ہے کہ اس نے اسلامی انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کا اتنا زور شور سے پروپگنڈہ کیا کہ کینسر اور ڈینگو کی طرح پھیلتی ہوئی مغربی انتہا پسندی یعنی بے جا خرافات اور لغویات کی طرف لوگوں کی توجہ ہی نہیں جاپاتی یا مغرب نواز میڈیا روز روز کے ڈے کلچر اور اس کی مباکباد اور جشن میں اتنا مشغول کر دینا چاہتا ہے کہ نہ تو آپ کے اندر سے کوئی صالح انقلاب برپا ہو سکے اور نہ ہی عوام کو اتنی فرصت ہی ملے کہ وہ مغرب کی شیطانی انتہا پسندی کی نکیر کرسکیں - مثال کے طورپر انگریزی کے پہلے سال جنوری کے شروع ہوتے ہی 31 دسمبر کی آدھی رات سے شراب اور شباب کے نشے میں مبارکباد کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے تو پھر کوئی ماہ ایسا نہیں گذرتا جس میں کوئی ایسا موقع نہ آتا ہو جب آزادی اور بے حیائی کے متوالے فلاں ڈے کے طورپر شراب کی بوتلیں توڑ کر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا نہ بھولتے ہوں اور یہ سلسلہ مسلسل 31 دسمبر تک شروع رہتا ہے یعنی نیو ایر ،انڈیپنڈنٹ ڈے ، ویلنٹائن ڈے ، کرسمس ڈے ، مدر ڈے ، ٹیچرس ڈے ،ویمنس ڈے ، لیبرس ڈے ، فرینڈ شپ ڈے جیسے بے شمارایسے مواقع ہیں جب کوئی نہ کوئی ڈے ہوتا ہے اور لوگوں کو اس کی رسمی مبارکباد دی جاتی ہے - مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ سارے مواقع دوستوں یاروں کی برتھ ڈے ، سال گرہ  اور مختلف مذاہب کے تہواروں کے علاوہ ہیں - ہندوستان میں ہندوؤں کے کم سے کم ایسے دس تہوار تو ہوتے ہی ہیں جب لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دینا نہیں بھولتے- ان تہواروں میں خاص طور سے دیوالی ، دسہرہ ، گنپتی ، شیوجینتی ، کرشن جینتی ، ہولی وغیرہ میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی کاروباری نوعیت کے لحاظ سے مبارکباد پیش کرتے ہیں - اسی طرح مسلمانوں کی عید اور بقر عید ہے - لیکن دیکھنے میں آرہا ہے کہ جس طرح کارپوریٹ یہودی سرمایہ داروں نے اپنے کاروبار کو فروغ دینے کیلئے دیگر قوموں کو ہر ماہ کسی نہ کسی خرافات میں مبتلا کرکے اپنے فیشن ، گلیمر، فحاشی اور ہوٹل کی صنعت کو فروغ دے رہے ہیں مسلمانوں میں بھی عید بقرعید کے علاوہ عید میلادالنبی ، محرم ، گیارہویں شریف ، شب برات کے علاوہ  کئی عرس شریف دھوم دھام سے منایا جانے لگا ہے ان تقریبات اور جلسے جلوس کی سجاوٹ  میں مسلمانوں کے لاکھوں کروڑوں پیسے خرچ ہورہے ہیں جس کا فائدہ بھی غیر مسلم صنعت کاروں کو لازماً پہنچتا ہے مگر کیا ان تقریبات سے مسلمانوں کو بھی کوئی فلاحی اور دینی فائدہ پہنچتا ہے یا مسلم معاشرے میں کوئی اسلامی بیداری پیدا ہو رہی ہے اس کا نتیجہ ہمارے اور آپ کے سامنے ہے - خیر کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے اپنے عقائد کا معاملہ ہے - ہم بھی یہ بات سمجھ رہے ہیں اس لئے ہم کسی ایک فرقے کو مورد الزام بھی نہیں ٹھہراتے سب کو حق ہے اپنے طورپر اپنی خوشی کا اظہار کرے لیکن اگر ہنسنے اور خوش ہونے کی قیمت ایک ملک اور قوم کی تباہی اور وقت کے ضیاع سے شروع ہو تو یہ اس قوم کے عروج نہیں زوال کی علامت ہے - یقین نہ آئے تو ہندوستان اسپین اور بغداد کے حکمرانوں کی تاریخ پڑھ لی جائے انہوں نے صرف محلات میں کبھی کبھی رقص و سرور کی محفلیں سجا کر یا اس وقت کے علماء نے قومی بیداری میں مسلکی مناظرہ بازی کر کے اپنے قیمتی اوقات کو اس طرح ضائع کرنا شروع  کیا کہ انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ دشمن ان کی دہلیز پر قدم رکھ چکا ہے اور ظل الہی کو جوتے پہنے کی فرصت نہ ملی اور دبوچ لیے گئے - ذرا سوچیں کہ ہمارے پاس تو کھونے کیلئے زمین اور حکومت بھی نہیں ہے مگر جس طرح یہودی سرمایہ داروں کے پھیلائے ہوئے جال میں یوروپ یا مغربی ممالک عیش و عیاشی کے لوازمات میں مبتلا ہو کر معاشی بدحالی سے کراہ رہے ہیں اور اگر ان کی بیویاں اور جوان بیٹیاں بھی آفسوں اور کارپوریٹ انڈسٹریز کی زینت نہ بنیں تو یہ لوگ رہی سہی زندگی کے رومانس سے بھی محروم ہو جائیں مسلم معاشرہ بھی شادی بیاہ اور روز کی برتھ ڈے کی لعنت اور  تقریبات میں بے پناہ اخراجات کے بوجھ اور وزن سے اپنی بچی کھچی عزت و آبرو اور وسائل کو بھی نیلام کرنے پر تلا ہوا ہے - اس میں کوئی شک نہیں کہ اس لعنت میں دیگر اقوام بھی غرق ہیں لیکن کیا دیگر قوموں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے ؟ کیا مسلمانوں کو سچر کمیٹی کی رپوٹ نہیں پتہ یا جس طرح سے دیگر قومیں تعلیم وتجارت اور سیاست میں مسلمانوں کی بنسبت بہت آگے نکل چکی ہیں کیا ان کے ہم پلہ آنے اور ترقی کرنے کیلئے مسلمانوں کو تفریحی مواقع پر بیجا اخراجات کرنا چاہیے - سچ تو یہ ہے کہ مسلمان ہندوستان میں جس پر آشوب ماحول اور مشکل دور سے گذر رہا ہے اگر مسلمانوں کی کوئی قیادت ہوتی تو اس کیلئے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنا مکروہ قرار دے دیتی - سچ تو یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کا سادگی اختیار کرنا اور اپنے زیادہ سے زیادہ وسائل کو قومی و ملی فلاح بہبود میں خرچ کرنا ہی اصل جہاد ہے - یہ مضمون لکھنے کا ہمارا مقصد اصل میں یہ تھا کہ مسلمان اپنے اصل مسائل سے لاعلم روز روز کی خرافات اور رسومات کو ہی ملی بیداری یا ترقی سمجھ رہا ہے اور مسلمانوں میں شامل کچھ مسلمان نما دشمن تنظیمیں مختلف رسم ورواج کو ایجاد کر کے  مسلمانوں کو مزید خرافات میں مبتلا کر رہی ہیں اور چونکہ مسلمانوں کی بھی اکثریت بہت ہی جذباتی اور دینی علوم سے ناواقف ہے اور کچھ باتوں کو دین اور ثواب سمجھ کر عمل کرنا شروع کر دیتی ہے خاص طور سے آج کل سوشل میڈیا اور بھی فتنے کا سبب بن رہا ہے یعنی کبھی پرنٹ میڈیا اور اس میڈیا سے منسلک تعلیم یافتہ قلمکار جن باتوں کو بغیر تحقیق کے شائع نہیں کرتے تھے وہاٹس اپ اور فیس بک میڈیا پر شامل اناڑی لوگ بھی شریک ہیں اور بغیر کسی تحقیق کے فتنہ پرور تحریکوں کے مواد اور پروپگنڈے کو صرف ایک بٹن دبا کر پھیلانا شروع کر دیتے ہیں - جیسا کہ محرم کے مہینے کی شروعات میں ہمارے سامنے سے کئی ایسی پوسٹ گذری جس پر لکھا ہوا تھا محرم کے  نئے سال کی دعا - اس دعا کے حوالے سے ہر پوسٹ پر جن مختلف احادیث کی کتابوں کا حوالہ پیش کیا گیا تھا وہ یہ ہیں - المعجم الاوسط ,الطبرانی فی الاوسط , المعجم الصحابہ-
سوال یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں باقاعدہ ہجری سال کا  آغاز ہی نہیں ہوا تھا تو یہ اسلامی سال کے آغاز میں دعا کی حدیث کہاں سے آئی اور صرف دعا ہی نہیں یہ روز کی مبارکباد جو عید ،رمضان ، جمعہ کی دی جارہی ہے کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے - اگر فضیلت کی بنیاد پرایسا کیا جارہا ہے تو پھر ہماری روز مرہ کی زندگی میں رمضان کے روزوں سے افضل نماز اور جہاد ہے - کیا ہم نے کبھی  مسجد میں نمازیوں کو نماز کی اور مجاہدین کو جہاد کی مبارکباد پیش کی - کیا ہم اس حدیث سے واقف نہیں کہ اگر مومنوں کو فجر کی نماز کی فضیلت کا اندازہ ہو جائے تو وہ گھسٹتا ہوا مسجد میں جائے - اگر حدیث سے مبارکباد کی سند مل جائے تو ہم سمجھتے ہیں ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کو سب سے پہلے نماز کی مباکباد دینے کا حکم ہوتا اور ہم لوگوں کو فجر مبارک ، ظہر مبارک ، عصر مبارک ، مغرب مبارک اور عشاء مبارک بولتے - مگر حدیث میں مبارکباد کی نہیں سلام کی فضیلت ہے اور اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ صحابہ کرام اگر کچھ وقت کیلئے بھی ایک دوسرے سے پردہ فرما لیتے اور پھر سامنا ہوتا تو سلام میں پہل کرتے - افسوس مبارکباد کی اس بدعت کو مسلمانوں نے بھی اس طرح چلیپا بنا دیا ہے کہ کچھ لوگوں نے  محرم کی مباکباد دینے کیلئے بھی وہی طریقہ اختیار کیا جو ویلنٹائن ڈے وغیرہ کے موقع پر دل کا نشان بنا کر دیا جاتا ہے - حالانکہ کسی کو کسی طرح کی مباکباد دینے کیلئے بدن کے کسی حصے کا استعمال کرنا مناسب تو نہیں لیکن اگر اسے درست مان بھی لیا جائے تو بھی یہ کہاں تک جائز ہے کہ اس عضو کو قرآنی آیات سے  لکھے ہوئے اوراق سے بنا کر مبارکباد دی جائے - اس بار محرم کی مباکباد کیلئے ایسا کیا گیا - مگر یہ بات شاید کم لوگ ہی غور کرتے ہیں کہ پان کی شکل میں جو دل کے نشان کی علامت ظاہر کی جاتی ہے یہ دل کی تصویر نہیں ہے بلکہ ایک عورت کے سینے کے ابھار کا نشان ہوتا ہے- میں سائنس کا طالب علم رہا ہوں میں نے اپنے تعلیمی سال کے دوران دل کی ایسی تصویر نہ تو دیکھی اور نہ بنائی - اب اندازہ لگائیں کہ فحاشی کی تحریک کو فروغ دینے والے کس طرح نہ صرف انسان کے جذبات سے کھلواڑ کرتے ہیں بلکہ اسی راستے سے انسان کے دین اور عقیدے پر بھی ضرب لگاتے ہیں اور ہم ماشاء اللہ اپنے موبائل سے جو ہمارے ایک اشارے کا محتاج  ہےاس دلی مباکباد کو لوگوں تک پہنچا کر اسلام دشمن تحریکوں کا تعاون کرتے ہیں -


0 comments:

مجھے ہے حکم اذاں




قاسم سید 
جس وقت دستور سازی کا عمل چل رہا تھا مسلم زعماء کو اطمینان دلایا گیا تھا کہ دستور ہند کے بنیادی حقوق کی متعدد دفعات کے ذریعہ مسلم پرسنل لاء کو محفوظ کردیا گیا ہے اور یہ آئین کے رہنما اصول سے زیادہ اہم اور مستحکم ہیں، لیکن دوررس نگاہیں محسوس کررہی تھیں کہ جہاں تک مسلمانوں کے عائلی قوانین اور نظام معاشرت کا تعلق ہے جو ان کے مذہب کا جزولاینفک ہے، دستور ہند کے اس تاروپود میں ایک آتش گیر مادہ رکھ دیا گیا ہے، جو کسی وقت بھی آگ پکڑسکتا ہے، بس اس کو ہوا دینے کی ضرورت ہے۔ وہ ان مذہبی و قانونی تحفظات کو جلاکر خاک کرسکتا ہے، جن کی آئین نے ضمانت دی ہے، چنانچہ بارہا دیکھا گیا اکہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے ساتھ مختلف وقتوں میں قانون ساز ادارے کے اندر اور باہر سے ایسی آوازیں بلند ہوتی رہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ملک کے قانون سازوں اور ارباب اقتدار کے ذہن اس معاملہ پر صاف نہیں ہیں اور خاکستر کے نیچے کی یہ چنگاریاں شعلہ بن کر بھڑک سکتی ہیں۔ اس کی عموماً دو وجوہات نظر آتی ہیں: ایک مسلمانوں کے عائلی قوانین کی صحیح نوعیت اور اس کے ان کے مذہب سے تعلق، اس سلسلہ میں ان کے عقائد و جذبات اور نفسیات سے عدم واقفیت فکر و نظر کی سطحیت سے ہے، دوسرے ہندوتو کے ابھار، ہندو احیاپسندی کے جذبہ، سیاسی و انتخابی مصالح اور اکثریت کو خوش کرنے کا جذبہ، جو رہ رہ کر حکمرانوں کے ذہن و دل میں عود کرآتا ہے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، اس صورت کو پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کا کریڈٹ بہرحال کانگریس کو جاتا ہے جس نے اپنی صفوں میں موجود طاقتور ہندو احیاپسند ذہنوں کے تالیف قلب اور روحانی تسکین کے لئے رہ رہ کر یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑنے کی حکمت عملی پر لگاتار عمل کرکے ملک کی اقلیتوں کے لئے مستقل عذاب کا سامان بنادیا اور ان کی غیرت ایمانی کو للکارتی رہی۔ مسلمانوں نے اپنی جدوجہد کے دوران ہر آن اس بات کا خیال رکھا کہ ہمارے کس اقدام کو غلط معنی پہناکر اکثریت کے ہندو انتہاپسند عناصر کو فرقہ وارانہ صورت حال کو مزید بگاڑنے کا موقع نہ مل سکے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سرکار جن موضوعات کو اختیاری یکساں سول کوڈ کے دائرے میں لانا چاہتی ہے ان سے متعلق اختیاری قوانین پہلے سے موجود ہیں، جن پر ہم نے اعتراض بھی نہیں کیا۔ اس ضمن میں شادی طلاق اور نفقہ کے اختیاری قوانین کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ترکہ تقسیم کا قانون ہے۔ اسپیشل میریج ایکٹ 1954 بھی ہے، جس کے تحت شادی کرنے کے لئے نہ مذہب کی قید ہے نہ ذات برادری کی۔ ملک کا کوئی بھی باشندہ حتیٰ کہ غیرممالک میں آباد ہندوستانی بھی شادی کرسکتے ہیں۔ یہ شادی مجسٹریٹ یا رجسٹرار کے یہاں کی جاتی ہے۔ اس میں قاضی یا پنڈت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیو اِن ریلیشن شپ کو قانونی تحفظ فراہم کردیا گیا اور ہم جنسی کو قانون کا جامہ دینے کا عمل جاری ہے۔ یہ سارے اقدامات یکساں سول کوڈ کو اختیاری بنانے کے لئے ہی بڑی عیاری کے ساتھ کئے گئے جو راست شریعت سے متصادم ہیں، یہاں تک کہ شاہ بانو کیس کے بعد چلائی گئی مہم کے نتیجہ میں مطلقہ نقطہ ترمیمی ایکٹ میں بھی اس بات کی گنجائش رکھ دی گئی کہ فریقین چاہیں تو وہ سول قوانین کے تحت مقدمہ کا تصفیہ کراسکتے ہیں۔ بہرحال اس امر کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ معزز قانون ساز باڈی یعنی پارلیمنٹ نے آئین کے نفاذ کے چند سال بعد ہی آئین کے رہنما اصول یعنی دفعہ 44 میں مطلوب و مقصود یکساں سول کوڈ کی طرف قدم بڑھادیا تھا۔ اور اس کا پہلا مرحلہ اختیاری تھا۔ یقیناً ہماری مذہبی قیادت کی اس پہلو پر ضرور نظر ہوگی۔
اب پھر یہی سوال منھ پھاڑے کھڑا ہے۔ سائرہ بانو مسلم پرسنل لاء کے لئے شاہ بانو سے زیادہ بڑا چیلنج بن گئی ہے اور یہ ایٹم بم لگاتار ٹک ٹک کررہا ہے۔ پہلی بات یہ کہ سرکار نے ازخود قدم نہیں بڑھایا بلکہ سائرہ بانو اور کئی دوسری مطلقہ خواتین نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دوسرے لاء کمیشن نے شرارت پر مبنی سوالنامہ شہریوں کے سامنے رکھ دیا۔ دونوں معاملے الگ ہیں، سائرہ بانو نے طلاق ثلاثہ کے ساتھ تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ پر بھی سوالیہ نشان لگایا ہے، جس کا جواب بورڈ نے عدالت عظمیٰ میں داخل کیا ہے۔ اس پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ شریعت میں مداخلت کا حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا، جو قانون اللہ کا عطاکردہ ہے اس میں ترمیم یا تنسیخ کا تصور بھی گناہ ہے۔ فلسفہ مذاہب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مذہب کو اس کے مخصوص نظام معاشرت و تہذیب سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں میں فطری تعلق ہے کہ معاشرت مذہب کے بغیر اور مذہب معاشرت کے بغیر موثر و محفوظ نہیں رہ سکتے، اس لئے اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ ہمارے اوپر کوئی دوسرا نظام معاشرت، نظام تمدن اور عائلی قوانین کو مسلط کردیا جائے۔ جمہوریت کی بقا اپنے حقوق کے تحفظ، اظہار خیال کی آزادی اور ہر فرقہ و اقلیت کے سکون سے مشروط ہے۔
جہاں تک طلاق ثلاثہ، تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ کا تعلق ہے، سپریم کورٹ میں معاملہ زیر بحث ہے۔ یہ ایک طویل عمل ہے، موجودہ حالات سے لگتا ہے کہ سرکار نے اسے ٹھنڈے بستہ میں ڈال دیا ہے اور سپریم کورٹ نے 19 سال پرانے ہندوتو معاملہ پر ازسرنو سماعت شروع کردی ہے۔ عدالتی مراحل صبرآزما ہوتے ہیں۔ فریقین کو سنا جاتا ہے، شواہد و دلائل پر بحث ہوتی ہے۔ عدالت معاملہ کے ہر پہلو کا جائزہ لیتی ہے اور پھر اپنا فیصلہ سناتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ موقف کو آئینی و قانونی دلائل کے ساتھ رکھا جائے۔ اگر ہمارا موقف فریق مخالف کے مقابلہ کمزور ہوگا یا وکلا مطلوبہ انداز میں بحث کرنے میں ناکام رہیں گے تو حق پر ہونے کے باوجود ناکامی ہاتھ لگے گی۔ اسے پرشور نعروں، دھمکیوں اور مطالبوں سے اپنے حق میں نہیں موڑا جاسکتا۔ جیسا کہ شاہ بانو کیس میں مقدمہ ہار گئے، بابری مسجد ملکیت کیس میں نتیجہ ہمارے موافق نہیں آسکا۔ یہ سب خواہشات اور آرزوئوں کی بنیاد پر نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک طلاق ثلاثہ کا معاملہ ہے اس پر علما و فقہا کو ہی اختیار ہے، ہمہ و شمہ کو رائے دینے کی حماقتوں سے گریز کرنا چاہئے۔ بورڈ کا موقف ہے کہ طلاق ثلاثہ ایک نشست میں نافذ ہوجاتی ہے، گرچہ بعض مسالک جیسے اہل حدیث، اہل تشیع و بوہرہ وغیرہ کو اس سے اختلاف ہے، مگر بورڈ بھی یہ مانتا ہے کہ یہ اسلام کی روح کے خلاف ہے جو اس طرح طلاق دیتا ہے وہ گنہگار ہے، لیکن طلاق ہر حال میں نافذ ہوجاتی ہے۔ ہم بیداری مہم چلارہے ہیں، ماڈل نکاح نامہ اس کی ایک شکل ہے۔ یہ درست ہے کہ قرآن نے مرحلہ وار طلاق کا ضابطہ بنایا ہے اور مسلمان اس پر عمل کرنے میں ناکام ہیں، اس لئے حالات کا تقاضہ ہے کہ عدالت یا حکومت کو دخل اندازی کا موقع دیے بغیر اس معاملہ کو خود حل کیا جائے۔ جس کام کو خود اللہ اور اس کے رسول نے ناپسندیدہ ترین کی فہرست میں رکھا ہو، اسے کھیل سمجھنے والوں کے لئے سزا کا کوئی ضابطہ ہو جو دارالقضا کے ذریعہ نافذ کی جائے۔ جیسا کہ حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی المعروف علی میاںؒ نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبئی اجلاس میں احتسابی انداز میں کہا کہ عہد کیجئے کہ آپ اسلامی طریقہ پر شریفانہ انسانی طریقہ پر شادی کا پیام دیں گے، آپ لڑکی مانگیں گے، اپنے لئے رفیقہ حیات تلاش کریں گے، جہیز کے لئے بڑھے چڑھے مطالبات نہیں کریں گے۔ ایسا ہی ترکہ شرعی طریقہ پر تقسیم ہونا چاہئے۔ نکاح شرعی طریقہ پر ہونا چاہئے، طلاق کا مسنون طریقہ معلوم کرنا چاہئے۔ مسنون اور افضل طریقہ کیا ہے، پھر اس کے بعد فقہی طلاق جس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، اس کو سمجھنا چاہئے کہ طلاق رجعی کیا ہوتی ہے۔ طلاق بائن و مغلظہ کیا ہوتی ہے؟ پھر اس میں طلاق کو آپ یہ سمجھیں کہ طلاق ابغض المباحات ہے۔ خود رسول اللہ نے فرمایا کہ جائز ہے، آخری درجہ کی چیز ہے، بڑی مجبوری کی چیز ہے جو حرام چیزوں سے اور زندگی کو تلخ بننے سے بچانے کے لئے بہت مجبوری سے دل پر پتھر رکھ کر اختیار کی جاتی ہے۔ یہ نہیں کہ طلاق ایک فیشن ہوگیا، جو لوگ ہم کو یہ طعنہ دیتے ہیں اس میں تھوڑی سی ہماری کوتاہی کو بھی دخل ہے۔
جب ہم اہل حکومت اور برادران وطن سے شکایت کرتے ہیں تو ہمیں آپ سے شکایت کرنے کا حق کیوں نہ ہو۔ آپ کا گریبان پکڑیں گے اور وہ ہاتھ ہمارا نہیں شریعت کا ہوگا، جو آپ کا گریبان پکڑکر رہے گا کہ پہلے تم اپنے گریبان میں منھ ڈال کر دیکھو کہ تم اس قانون پر کتنا چلتے ہو، تمہاری نگاہوں میں اس قانون کی کتنی حرمت ہے، تم جہاں اس قانون کو چلاسکتے ہو چلا رہے ہو کہ نہیں، تم اپنے گھروں میں نہ چلائو اور حکومت سے مطالبہ کرے کہ وہ تمہارے قانون کو چلائے اس کا احترام کرے۔‘‘ یہ آب زر سے لکھی جانے والی رہنما ہدایات ہیں۔ اگر ان پر صدق دلی سے عمل کیا جائے تو کوئی شاہ بانو یا سائرہ بانو پیدا نہ ہو، ہمیں دوسروں پر انگلی اٹھانے کے ساتھ اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے اور ذاتی احتساب کرنا چاہئے، جیسا کہ حضرت مولانا علی میاں ندوی نے فرمایا تھا۔

qasimsyed2008@gmail.com

0 comments:

عروس البلاد ممبئی سے صدائے اتحاد

                 
 ڈاکٹر سلیم خان

ملت اسلامیہ ہند کو اتحاد کی جیسی ضرورت آج ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھی ۔ ایسے میں عروس البلاد ممبئی کے آل انڈیا مسلم مجلس کی قومی مجلس عاملہ کا اجلاس اور اس کے اندر ’’صدائے اتحاد‘‘ کے عنوان کے تحت خطاب عام کا اہتمام ملت کے دل کی آواز ہے۔ اتحاد امت کی ضرورت و اہمیت سے ہر کوئی واقف ہے ا ب وقت آگیا ہے کہ اس کی عملی تدابیر پر غور کیا جائے اور اس راہ کے روڑے ہٹائے جائیں تاکہ پائیدار اتحاد قائم ہوسکے ۔اتحاد کے قیام کی خاطردنیا دار لوگ بیرونی خطرات کو بنیاد بناتے ہیں ۔ اسلام دشمن طاقتوں کا خوف دلا کر اتحاد قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ نسخہ اس وقت تک تو کارگر ثابت ہوتا ہے جبتک کہ خطرہ شدید ہو مثلاً کسی جنگ یا فساد کے دوران یا اس کے فوراً بعد لیکن جیسے ہی حالات معمول پر آنے لگتےہیں یہ بنیاد کمزور پڑنے لگتی ہے اور جب خوف و ہراس کا ماحول ختم ہوجاتا ہےتو اتحاد اتفاق کی ضرورت و اہمیت کابھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔
    دیندار حضرات قرآن مجید کی ایک آیات بلکہ آیت کے ایک ٹکڑے کو سیاق و سباق سے الگ کرکے اس کے سہارے اتحاد قائم کرنےکی سعی کرتے ہیں جو نامکمل ہوتی ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے اتحاد بین المسلمین کی خاطر صرف ایک آیت نہیں بلکہ پورا رکوع نازل فرمایا ہے جس کے قلب میں واعتصموبحبل اللہ والی آیت ہے۔ انسان جس طرح دل کی دھڑکن کے بند ہوجانے پر زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح اگر دل کو باقی جسم سے الگ کردیا جائے تب بھی وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔ مذکورہ آیت سے قبل ارشاد ربانی ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہاسکا حق ہے تم کو موت نہ آئےمگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘۔ اس آیت میں خطاب اہل ایمان سے ہے اور اتحاد  بین المسلمین کی تلقین سے پہلے اس کا سیاق غماز ہے کہ تقویٰ کی حیثیت  اتحاد کے ناگزیر (pre requisite) جیسی ہے۔
تقویٰ ایک انفرادی صفت ہے ۔جولوگ اتحاد کے خواہش مندہیں ان کے لئےاپنے آپ کو اس سے متصف نہ کرنا لازمی ہے وگرنہ لاکھ خواہش یا کوشش کے باوجود وہ متحد نہیں ہوسکتے۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا’’مومن ﴿دوسرے ﴾مومن کے لیے دیوار کے مثل ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط بناتی ہے۔‘‘ اللہ کی محبت اور اللہ کا ڈر ہی ان اینٹوں کو خوشنما اور مضبوط بناتا ہے۔ اگر اینٹیں کمزور اور بدنما ہوں تو ان کی مدد سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی تعمیر غیر ممکن ہے؟اس آیت مبارکہ میں موت تک تقویٰ مستقل مزاجی کی علامت ہے اور یہی استقلال دیوارکو پائیداری بخشتا ہے اور اس کی عدم موجودگی اتحاد کو عارضی اور ناپائیداربنادیتی ہے۔
اس  مرحلے سےگزرنے کے بعد متقیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ سب اللہ کی رسی کو مل کر تھام لیں۔ ان سب کا ایک کتاب سے وابستہ ہو جانا ازخود باہم منسلک کردیتاہے ۔ اتحاد کی بنیادیہی اعتصام باللہ ہے ۔ اگر کسی دیوار کی بنیاد ناہموار ہوتو اس میں لگنے والی اینٹوں کا معیار جوبھی ہو۔ اس کا نقشہ چاہے جتنا اعلیٰ درجہ کا ہو۔ اس کو تعمیر کرنے والوں کی مہارت جیسی بھی ہو۔ اس سے قطع نظردیوار جیسے جیسے بلند ہوگی اس کا ٹیڑھا پن واضح تر ہوتا چلا جائیگا اور دشمن کی زحمت کے بغیر وہ اپنے ہی بوجھ سے ڈھے جائیگی۔ کتاب الہٰی ہی اہل ایمان کے درمیان قدر مشترک ہے اور اسی کے توسط سے باہمی اختلافات کوبخیر و خوبی نمٹایا جاسکتا ہے۔ اگر اس کتاب کے بجائے طاقت وقوت یا سازش وفریب کےمدد سے تفرقہ تو پھیلایا جاسکتا ہے مگراتحادقائم نہیں ہوسکتا اس لئےدرمیان میں تفرقہ سے اجتناب کی تاکیدا ٓجاتی ہے۔
آگے چل کراس آیت کریمہ میں اتحاد کو اللہ کا احسان قرار دیا گیا گویا اتحادقائم کرنے والوں کا رجوع اللہ سے بے نیاز ہوکر صرف اور صرف اپنی ذہانت وذکاوت پر انحصار کرلینا امت کو خلفشار کی آگ سے نہیں بچا سکتا ۔ انتشار کے سبب نہ صرف یہ دنیا جہنم زار بن جاتی ہے بلکہ دوزخ کی آگ کا ایندھن بھی فراہم ہوجاتا ہے۔اللہ کا فضل و کرم مومنین کےدلوں کو جوڑ کرانہیں بھائی بھائی بنا سکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ یہ نشانیاں ہمارے سامنے اس لئے بیان فرماتا ہے کہ ہم ان کی مدد سے سیدھے راستے کی معرفت حاصل کریں فرمایا’’اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ اِن علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آ جائے‘‘۔ یہاں پر سیدھے راستے پر پیش قدمی کی تلقین کی گئی ہے۔یہ کام عملاً کیسے ہو تو فرمایا’’ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کروجواپنے لیے پسند کرتے ہو‘‘۔ اس کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ اپنی پسند دوسروں پر تھوپو بلکہ جس طرح کوئی نہیں چاہتاکہ اس پر زور زبردستی کی جائے اسی طرح کوئی دوسروں پر جبرنہ کرے۔ جیسےہر شخص اپنی عزت نفس کا خیال کرتاہے اسی طرح وہ دوسروں کا بھی احترام کرے بلکہ فرمایا ’’ اپنی ذات پر دوسروںکو ترجیح دو‘‘۔ صحابہ کی مانند ’’ کفار پر سخت اور آپس میں رحم و کرم کا پیکر بن جاو۔‘‘ بقول اقبال ؎
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم ۔رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
ان تقاضوں کو پورا کرنا خاصا مشکل ہے ۔ دیوار اور اینٹوں کی مثال کو یاد کیجئے۔دیوار میں اینٹوں کے درمیان اگر سیمنٹ موجود نہ ہو تو ہوا کا ایک معمولی سا جھونکا اسے زمین بوس کرنے کیلئے کافی ہے ۔ امت کی بنیان المرصوص کے سیمنٹ کا بیان حدیث ِ رسول ؐمیں دیکھیں’’مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے، ایک دوسرے پر رحم کھانے اور شفقت کرنے میں ایک جسم کے مانند ہے کہ جب اس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔‘‘ اس نسخۂ کیمیاکو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔باہم محبت ، شفقت ، ہمدردی و غم گساری کے بغیر اتحاد کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔
اتحاد بجائے خود بھی مقصود ہے نیز ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ بھی ہے اسی لئے اس کے بعد والی آیت میں فرمایا’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے ۔ ‘‘ اس آیت کا اتحاد امت سے گہرا تعلق ہے ۔ اگر اتحاد میں شامل تمام گروہ اس فرض منصبی کو ادا کرنے میں منہمک ہوں تو ان کے درمیان تعاون واشتراک کے مواقع پیدا ہوتے رہیں گے اور اتحاد و اتفاق کی فضا عمل کی دنیا میں چلتی پھرتی نظر آئیگی ۔ ایسے میں قرآن کےحکم ’’نیکی اور خدا ترسی کے کام میں تعاون کرو اور جوگناہ اور زیادتی کے کام ہیں میں تعاون کرنے سے اجتناب کرو۔‘‘ پر عملدرآمد کے مواقع ہاتھ آتے رہیں گے۔
ممبئی کےکرلا علاقہ میں جماعت اسلامی نے گزشتہ دنوں منشیات کی روک تھام کیلئے مختلف مکاتب فکر کی جماعتوں کے تعاون سے ایک مہم چلائی ۔ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک معاشرتی برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد میں امت نے اتحاد کا عملی مظاہرہ کیا۔ اس مہم کے دوران امت کی مختلف تنظیموں سے تعارف کے مواقع پیدا ہوئے، فاصلوں میں کمی آئی ۔ غلط فہمیوں کا ازالہ ہواور باہمی اعتماد بحال ہوا ۔ اس طرح کے عملی اقدامات ہی آگے چل کر اتحاد کی راہ استوار کرتے ہیں۔ رکوع کا اختتام پر اللہ تعالیٰ نے انتشار کے عبرتناک انجام سے خبردار کیا ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے ’’کہیں تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھرفرقہ بندی کا شکار ہوکر اختلافات میں مبتلا ہوگئے۔ جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اُس روزسخت سزا پائیں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی سخت سزا کا خوف ہی انسان کو انتشار و خلفشارپھیلانے سے روک سکتا ہے۔ امت کے اندراتحاد و اتفاق کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس میںرسول اللہﷺنےفرمایا’’کیا(میں تمہیں ایک ایسی چیزنہ بتلادوںجسکامقام روزہ،صدقہ اورنمازسےبڑھاہواہے ۔ لوگوںنےعرض کیاضروربتائیے ۔آپنےفرمایاکہ وہ چیزآپس کی لڑائی میںصلح کراناہےاورباہمی تعلقات کی خرابی نیکیوںکومٹانےوالی ہے۔‘‘ اخلاص نیت اور حکمت و دانائی کے ساتھ اگر باہمی صلح صفائی کا کام ہوتا رہے توانتشار کی خرابی اپنے آپ مٹ جائیگی اور ملت اسلامیہ امت واحدہ بن جائیگی ۔ اہلیان ممبئی کو یقین ہے کہ آل انڈیا مسلم مجلس کا حالیہ اجلاس اتحاد بین المسلمین کے قیام میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا ۔

0 comments:

کیا انڈیا اور پاکستان میں صحافت آزاد ہے؟


پاکستان اور انڈیا میں 'قومی سلامتی کو خطرے' یا 'نفرت آمیز مواد' پھیلانے جیسے الزامات پر پریس اور میڈیا کے خلاف کیے گئے اقدامات پر آزادی اظہار کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے تشویش کا اظہار تو کیا لیکن دونوں ممالک کے بیشتر صحافی اس نکتے پر متفق نظر آتے ہیں کہ آزادی صحافت پر دونوں ممالک میں مختلف ناموں سے سہی لیکن قدغنیں موجود ہیں ۔
پاکستانی اخبار ڈان کے صحافی سرل المائڈا کا نام 'قومی سلامتی' کے بارے میں لکھی گئی ایک رپورٹ کی وجہ سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال گیا، جو ابھی حکومت نے نکالنے کا اعلان تو کیا ہے لیکن اس اقدام کی پاکستان کے صحافیوں کی اکثریت نے مذمت کی۔
دوسری طرف انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیر ریڈر نامی اخبار پر 'تشدد پر اکسانے' کے الزامات کے تحت پابندی لگانے کے اقدام کو بھی وہاں کے صحافیوں نے اظہار رائے پر پابندی قرار دیا۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ہوئے انڈیا کے سینئیر صحافی سدھارتھ واراداراجن نے سنسر شپ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سرجیکل سٹرائیکس کرنے کے انڈین دعوے پر سوالات اٹھائے اور اس کے بعد اس چینل نے ان کا انٹرویو نشر ہی نہیں کیا۔
پاکستان اور انڈیا میں میڈیا کتنا آزاد ہے اور کیا صحافی 'حساس' قرار دیے گئے موضاعات پر کسی بڑے مسئلے سے بچنے کے لیے ازخود یا سیلف سنسرشپ کرتے ہیں؟
اسی موضوع پر بی بی سی اردو کے خصوصی فیس بک لائیو میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ سرل امائڈا نے جس سٹوری پر کام کرنے کا مشکل اور بولڈ فیصلہ کیا اس سٹوری سے کئی صحافی آگاہ تھے لیکن کسی اور صحافی نے اس سٹوری پر کام کرنے کی ہمت نہیں کی، تو یقینا سیلف سنسر شپ تو موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا میں سرجیکل سٹرائیکس کے موضوع پر اگر حکومتی مؤقف کو چیلنج کرنا معیوب سمجھا گیا تو اسی طرح پاکستان میں کئی ایسے موضوعات ہیں جن پر صحافی بات نہیں کر سکتے۔
برطانیہ میں مقیم مصنفہ اور وکیل عائشہ اعجاز خان کا کہنا تھا کہ آزادی صحافت پر انڈیا اور پاکستان دونوں میں بہت کام باقی ہے خصوصاً انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی اظہار پر قدغنیں انڈیا کی جمہوری روایات پر ایک بڑا دھبہ ہیں اور اسی طرح کچھ رپورٹس کے مطابق پاکستان میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کردار آزادی صحافت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں آزادی صحافت کے خلاف اقدامات ہوئے ہیں بس طریقہ کار مختلف ہے۔
بی بی سی اردو کے نامہ نگار فراز ہاشمی کا کہنا تھا کہ آزادی صحافت کی روایت پاکستان میں صحافیوں کی مسلسل جدوجہد کی مرہون منت ہے اور اس میں فعال کردار چینل یا اخبار کے مالکان نے نہیں بلکہ خود صحافیوں نے یہ جنگ جمہوری دور ہو یا آمرانہ لڑی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا کا موازنہ انڈیا کی بجائے ترقی یافتہ ممالک سے کرنا زیادہ بہتر ہو گا کیونکہ پاکستان میں حکومتوں کو میڈیا چیلنج کرتا آیا ہے کیونکہ انڈیا کے میڈیا کی اکثریت میں 'حب الوطنی' کے جذبات شاید زیادہ ہیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو

0 comments:

ہفتہ روزہ سیرت کا تعاون کریں



اردو اخبارات کی تاریخ میں منفرد مقام رکھنے والا ہفتہ روزہ سیرت اپنی بیباکی اور بے لوث ملی خدمات کی وجہ سے تعصب کا شکار ہے اس کی مدد کو قدم آگے بڑھائیں اور اپنی آواز کو قوت بخشیں

0 comments:

شاہد انصاری معاملہ میں پریس کونسل آف انڈیا حرکت میں


کونسل کی ٹیم جلد ہی ممبئی آکر صحافیوں کے ساتھ ہو رہی زیادتی کی تفتیش کریگی

ایک سال کے اندر مہاراشٹر میں صحافیوں پر 65 سے زیادہ معاملات درج ہوئے

ممبئی: اس دور میں صحافت کا پیشہ بہت زیادہ پر خطر ہو گیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ ہر طرح کے صحافیوں کے لئے خطروں سے بھری راہوں کا سفر یا کانٹوں بھرا تاج ہے ۔ یہ خطرات صرف ان چنندہ صحافیوں کے لئے ہے جو سماج کے لئے کینسر بنے ہوئے افراد یا سسٹم پر قلم اٹھاتے ہیں اپنی آواز بلند کرتے ہیں ۔ تین طرح کے صحافی خاص نشانہ ہوتے ہیں اول بدعنوان سیاست دانوں اور پولس محکمہ کو بے نقاب کرنے والے دوئم مذہب کے نام پر عوام کا استحصال کرنے والے بدعنوان مذہبی مافیا کو بے نقاب کرنے والے اور سوم وہ صحافی جو عوام اور ملک کو انڈر ورلڈ کے خطرات سے آگاہ کرنے کے لئے بے خوف ان کے سیاہ کارنامے عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بدعنوانی کی خبر لکھنے کے بعد شاہد انصاری کے خلاف درج ہوئے جھوٹے معاملات کو لے کر پریس کونسل آف انڈیا نے پورے معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے تحقیقات شروع کر دي ہے ۔ جلد ہی پریس کونسل آف انڈیا کی ٹیم معاملے کی تفتیش کے لئے ممبئی آنے والی هے ۔ چونكہ شاہد  انصاری کے معاملے میں صحافی یونین نے شروع ہی سے ناراضگی ظاہر کی ہے جس کے بعد ممبئی پریس کلب نے اس معاملے کو لے کر پریس کونسل آف انڈیا کو مکمل معلومات دی تھي ممبئی پریس کلب کے سابق چیئرمین گربیر سنگھ نے معلومات دیتے ہوئے بتایا کہ پریس کونسل آف انڈیا نے پورے معاملے کی معلومات مانگی ہے جس کے بعد پریس کلب کے چیئرمین راجیش مسكر کی طرف سے ان کے پورے معاملے کی معلومات اور دستاویز بھیجے جا چکے ہیں ۔ اس معاملے میں پریس کونسل آف انڈیا کی جانب سے پورے معاملے کی چھان بین کی جا رہی ہے جلد ہی پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین سي كے پرساد (ریٹائرڈ چیف جسٹس سپریم کورٹ) کی ٹیم اس معاملے کی تحقیقات کے لئے ممبئی آنے والی هے ۔ دوسرا معاملہ مڈڈے کے صحافی وجے یادو کا ہے جس پر تھانے ضلع کے ممبرا پولیس تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا ہے ۔ ایک سال کے اندر مہاراشٹر بھر میں صحافیوں پر 65 سے زیادہ معاملے درج ہوئے حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ جن دفعات کے تحت صحافیوں پر دباؤ بنانے کے لئے کیس درج کئے جاتے ہیں وہ کورٹ میں جا کر یا تو مسترد ہو جاتے ہیں یا تو صحافی بے گناہ ثابت ہوتے ہیں لیکن مقدمہ درج کرنے کے بعد جس طرح سے صحافیوں کی حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کی وجہ سے سماج دشمن عناصر کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ اس معاملہ کے مد نظر  مراٹھی پتر کار پریشد کی قیادت میں ریاست بھر میں صحافیوں پر ہو رہے مظالم کو روکنے کے لئے صحافیوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے قانون کی مانگ کو لے کر صحافیوں نے 2 اکتوبر کو ریاست گیراحتجاج کیا تھا ۔ اب جلد ہی اسی معاملے کو لے کر ریاست بھر کے صحافی ایک ساتھ اكٹھا ہو کر  تحریک شروع کرنے پر غور کر رہے ہیں ۔

0 comments:

یہ چھپے چھپے ارادے




قاسم سید 
سیاست کے نام پر مفادات کی گھیرابندی اعتماد کا بحران پیدا کرتی ہے اور جب مزاجوں میں سفاکیت کی حد کو پہنچی شدت ہو تو یہ بحران اپنا دائرہ وسیع کرلیتا ہے۔ حب الوطنی کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہ فسطائیت کا پہلا جامہ ہے، کیونکہ حب الوطنی ایسا ہاتھی ہے جو اندھوں کی بستی میں اپنی ہیئت کے بارے میں نئے نئے انکشافات سے دوچار ہے، اس کا دائرہ لامحدود ہوتا جارہا ہے اور کوئی بھی شخص پل بھر میں غدار وطن یا باغی قرار دے دیا جاتا ہے۔ بی جے پی سرکار کے برسراقتدار آنے کے بعد اس حکمت عملی پر جنگی پیمانے پر کام کیا جارہا ہے۔ بالکل جارج ڈبلیو بش کی طرز پر کہ جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا دشمن ہے۔ نائن الیون کے بعد اپنائی جانے والی سیاست نے نئے دشمن اور دوست تخلیق کئے، اس میں ہاں یا نا کے علاوہ جواب دینے کا تیسرا آپشن نہیں ہوتا۔ جس طرح آج ہمارے ٹی وی اینکر اپنے مہمانوں سے سوال پوچھتے وقت صرف ہاں سننے کے عادی ہیں، مثلاً سرجیکل اسٹرائیک کو آپ ٹھیک مانتے ہیں؟ اگر ہاں کہا تو آپ کو حب الوطن ہونے کا سرٹیفکیٹ فوراً مل جائے گا اور تردد کرنے یا وضاحت کی خواہش رکھنے پر آپ کی حب الوطنی کا ڈی این اے مشکوک ، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر راہل گاندھی کی ہندوستانیت اور اروند کیجریوال کی ولدیت پر سوالیہ نشان لگانے سے پہلے اس پر سوچا جاتا۔ یہ طرز عمل سیاست دانوں اور ان کے حامیوں کو بہت سوٹ کرتا ہے۔ آج کل سرجیکل اسٹرائیک کی حمایت حب الوطنی کا پیمانہ بن گئی ہے۔ معروف صحافی پریہ درشن کے بقول فوج کے پیشہ ورانہ رویہ اور حب الوطنی کی تعریف کے نام پر ملٹری ازم کی حوصلہ افزائی ہمارے سیاسی فیصلوں کے اندر دخل اندازی کرتی نظر آئے تو یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔ اس سے سیاسی پارٹیوں کی ناقدری اور فوج سپریم ہوگئی ہے۔ ایک فوجی افسر کو سیاسی اعلان کی کمان سونپ کر اس کا آغاز کردیا گیا ہے۔ جمہوریت کو ملٹری ازم کی طرف لے جانے والی سیاست ان پارٹیوں کو زیادہ راس آئی ہے جو اپنے ساتھ ایک فاشسٹ ایجنڈہ لے کر چلتے ہیں، یعنی اب مقدس گایوں کی فہرست میں فوج بھی شامل ہوگئی ہے، جس کی کارکردگی پر انگلی اٹھانا اس پر تنقید ، اس کے رویہ پر سوال اور غیرقانونی سرگرمیوں پر نکتہ چینی کے ڈانڈے حب الوطنی سے جاکر مل جاتے ہیں۔
اسے ہم بی جے پی قیادت کی ذہانت کہہ سکتے ہیں کہ جب بھی وہ مسائل سے گھری نظر آتی ہے تو کسی مقدس چادر میں لپیٹ لیتی ہے تاکہ داغ ڈھونڈتے رہ جائیں۔ پہلے اس نے رام کا سہارا لیا، ظاہر ہے مریادا پرشوتم رام پر کچھ کہنے کی جسارت کون کرسکتا ہے اور اب اپنی ناکامیاں فوج کی آڑ لے کر چھپالی گئی ہیں۔ ایسے یودھا کے خلاف مورچہ لگانا جس نے دیرینہ دشمن سے لوہا لیا اسے سرحد میں گھس کر مارا، دہشت گردی کے ٹھکانے تباہ کردیے اور وہ کام کردکھایا جو 60 برسوں میں کسی نے نہیں کیا، اس پر سوالیہ نشان لگانے کا مطلب آپ کی حب الوطنی معیار مطلوب تک نہیں پہنچی اور ڈی این اے میں کوئی کھوٹ ہے۔ یعنی اب بی جے پی کی مخالفت کا مطلب فوج کی مخالفت اور فوج کی مخالفت کا مطلب آپ غدار وطن ہیں اور آپ کے اندر ملک سے بغاوت کے وائرس پائے جاتے ہیں۔ کھلے عام کہا جارہا ہے کہ سرجیکل اسٹرائیک پر سوال اٹھانا غداری کے مترادف ہے۔ اب کوئی افسپا کی معقولیت پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔ کوئی ایلاشیروم افسپا کے خلاف دھرنے پر دسیوں سال نہیں بیٹھ سکتی۔ اس کے انکائونٹروں کی طویل فہرست جواب طلب نہیں۔ ابھی سپریم کورٹ کو بخش دیا گیا ہے جس نے گزشتہ جون میں ہی فوج کی طرف سے کئے گئے ایک ہزار سے زائد انکائونٹروں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے، حالانکہ اس کو زنجیر بھی پہنانے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ ججوں کے انتخاب میں کالجیم کی جگہ دوسرا طریقۂ کار نافذ کیا گیا جسے سپریم کورٹ نے مسترد کردیا۔ محاذ آرائی جاری ہے، سرد جنگ شباب پر ہے، آئینی اداروں کو کمزور کرنے کی حکمت عملی پر کہیں جارحانہ تو کہیں حکیمانہ طریقہ استعمال کرنے کے اشارے ہلکان کرنے کے لئے کافی ہیں۔ جمہوریت کا دائرہ سکڑتا جارہا ہے، جارحانہ قوم پرستی کا آخری پڑائو فاشزم ہوتا ہے۔ 1925 سے جن مقاصد اور عزائم کے تحت مختلف محاذوں پر سرگرمیاں خاموشی کے ساتھ اثر و نفوذ میں اضافہ کررہی تھیں اب وہ زمین کے اوپر دکھائی دینے لگی ہیں۔ انھیں قانونی حیثیت دی جارہی ہے۔
2025میں سنگھ کا جشن صد سالہ منایا جائے گا۔ بی جے پی بھی عوام سے 2025 تک کا وقت مانگ رہی ہے، اس کا روڈمیپ تیار ہے۔ ہم کتنی بھی خوش فہمی میں رہیں، بھارت کے آئین کی بنیاد بہت مضبوط ہے، اسے بدلا نہیں جاسکتا، وہ ناقابل دست اندازی سیاست ہے، سیکولرازم کی جڑیں بہت گہری ہیں، ہندوستانی عوام کی اکثریت انصاف پسند جمہوریت نواز ہے، اس کے مزاج میں فسطائیت نہیں بلکہ رواداری ہے، وہ مل جل کر رہنا پسند کرتی ہے، ہزاروں سال پرانی گنگا جمنی تہذیب کا دھارا موڑا نہیں جاسکتا، اس کے خمیر میں سیکولر روح شامل ہے۔ یہ جملے ذہنی تلذذ میں اضافہ کرتے ہیں، افیم کا سا نشہ پیدا کردیتے ہیں اور سرشاری کی کیفیت میں ڈھال دیتے ہیں، مگر ہم یہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ملک بدل رہا ہے، اس کی قدروں میں تبدیلی آرہی ہے۔ غیرمحسوس طریقہ سے اکثریت کو بزدلی کا طعنہ دے کر اسے ’بہادر‘ بننے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ یہ ٹی وی چینلوں پر ہندو یودھائوں کے طویل سیریل بچوں کے ذہن کی کن خطوط پر نشوونما کررہے ہیں، یہ رامائن اور مہابھارت کے پاٹھ کس سمت میں لے جارہے ہیں، یہ شیواجی، مہارانا پرتاپ سنگھ، ہنومان جی وغیرہ کے نام پر انتہائی مربوط انداز میں پیش کئے جانے والے ڈیلی سوپ کیا ہیں، یہ تہواروں کے موقع پر نیوز چینلوں پر باضابطہ تقاریب کے لائیو مناظر کس سمت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، شاید کبھی سوچنے کی زحمت ہی نہیںکی۔ یلغار صرف سیاسی نہیں ثقافتی و تہذیبی محاذ پر بھی ہے اور ہم پسپائی کے موڈ میں آگئے ہیں۔ یہ محاورہ اب پرانا ہوگیا ہے کہ ہر سر کے لئے ایک ٹوپی نہیں ہوسکتی۔ بی جے پی کا ساتھ صرف آر ایس ایس نہیں دیتی، ہر سیکولر پارٹی نے اس کے لئے میدان ہموار کیا ہے اور اسے سنگھاسن تک پہنچنے میں مدد کی ہے۔ یہ بڑے بڑے ہندو مہارتھی اپدیشک جو قومی یکجہتی کانفرنسوں میں ہندو انتہاپسندوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور اسلام کے گیت گاکر ہمارے جذبات پر شبنم کی پھوار برساتے ہیں ان کے ایک ایک ہفتہ کے چلنے والے جاگرن میں ہندو تاریخ و ثقافت کے دیوی دیوتائوں کی حقانیت و تعلیمات بیان ہوتی ہیں۔ یہ کس کو بے وقوف بنارہے ہیں بلکہ ہم بے وقوف بن رہے ہیں۔
آنے والے وقت کے لئے فوج کا کردار سیٹ کیا جارہا ہے۔ پوتر گائے کے طور پر پیش کئے جانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، پھر اس پر تنقید حرام قرار دی جائے گی۔ سرجیکل اسٹرائیک کے بعد کی سیاست اس کا ثبوت ہے، پھر اس کی ہر کارروائی کو سند جواز بلکہ دیش بھکتی سمجھا جائے گا، خواہ شمالی مشرقی ریاستوں میں فوج کی زیادتیاں ہوں یا کشمیر میں عوام کے خلاف کارروائیاں، لوگ بولنے اور کہنے سے ڈریں گے بلکہ فوج پر انگلی اٹھانا غداری و بغاوت سے تعبیر کیا جائے گا، جیسا کہ سینئر لیڈروں کی طرف سے کہا بھی جانے لگا ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں سیاست کے اندر فوج کا کوئی کردار متعین کئے جانے پر غور ہو۔ اب ملک جس طرح سے چل رہا ہے، کچھ بھی ممکن ہے۔ اب تک ہندوستانی سیاسی قیادت فوج کو کنٹرول کرتی تھی، اب سیاسی قیادت فوج کی پناہ ڈھونڈتی پھررہی ہے۔ اگر فوج بھی سیاست زدہ کردی گئی یا اس کا سیاسی استعمال کیا جانے لگے تو اس کے سنگین اثرات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

qasimsyed2008@gmail.com

0 comments:

پتہ کرو، کبوتر مسلمان ہے یا ہندو؟


انڈیا میں پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے گذشتہ ہفتے ایک کبوتر گرفتار کیا ہے جو پاکستان سے دشنام بھرے پیغام لے جا رہا تھا۔
ہندوستانی مصنف شوون چودھری واقعات کی اس بوالعجبی کو ایک طنز نگار کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
میں کہوں گا کہ کبوتر کے معاملے میں ساری غلطی موبائل سروس فراہم کرنے والے کی ہے۔ وہ زیادہ خدمات فراہم نہیں کر رہے ہیں۔ دہلی میں ہمارے گھر تو صورت حال یہ ہے کہ ہم صرف اسی وقت بات کر سکتے ہیں جب ہم کسی خاص کمرے کی کھڑکی سے ہاتھ باہر نکال کر فون پکڑے کھڑے رہیں۔
اک ہم ہی نہیں تنہا، اتوار کی صبح کئی پڑوسیوں کو گلیوں میں فون کرنے کی کوشش کرتے دیکھنا عام بات ہے۔ بہت اچھا لگتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور مسکراتے ہیں۔ ایک ایسے زمانے میں جو روز بروز بے رحم ہوتا جا رہا ہے، ہم ایک دوسرے کے قریب لائے جا رہے ہیں۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ آخر کیوں چند پاکستانی محبانِ وطن نے انڈیا کے وزیر اعظم مودی کے نام پیغام کبوتر کے گلے میں ڈال کر سرحد پار روانہ کر دیا۔ اس کی وجہ ضرور یہ رہی ہوگی کہ ان کا فون نہیں کام کر رہا۔
پیغام میں لکھا ہے: 'مودی، ہم لوگ وہی 1971 والے لوگ نہیں ہیں۔ آج بچہ بچہ انڈیا سے لڑنے کو تیار ہے۔'
ایسا لگتا ہے کہ وہ چیزوں پر غور نہیں کرتے۔ فی الوقت انڈیا اور پاکستان کے درمیان شدید کشیدگی ہے اور اس طرح کے بہت سے پیغامات کی ترسیل ہو رہی ہے۔ جذبہ انتقام بیدار کیا جا رہا ہے۔ منھ توڑ جواب دیا جا رہا ہے۔ سفارت کار اپنے الفاظ کے نشتر کو آب دے رہے ہیں۔ اور وقتا فوقتا جوہری اسلحے کا بھی ذکر آ جاتا ہے۔
یہ آخری چیز قدرے پریشان کن ہے کیونکہ دہلی اور لاہور اتنے قریب ہیں کہ اگر ان میں سے کسی پر آپ جوہری اسلحہ استعمال کرتے ہیں دوسری جگہ لاکھوں لوگ مر جائیں گے۔ یہ ایسا ہی کہ آپ ساتھ کھڑے شخص پر قے کرنے کا ارادہ ظاہر کریں۔
لیکن پیغام رسانی کے اور بھی بہتر وسیلے تھے۔
سب سے اچھا طریقہ ہمارے کسی انگریزی چینل پر آنا تھا جہاں تقریبا دو ہفتے قبل جنگ چھیڑ دی گئی ہے۔
ایک میزبان تو جنگی پوشاک میں بھی دیکھا گيا ہے۔ دوسرے کو ہر ہفتے کئی دورے پڑتے ہیں کیونکہ اس سے مکرو فریب برداشت نہیں ہوتا۔ اس کا غصہ تو یادگار ہے۔ اس کا سوٹ پھول جاتا ہے۔ اس کے بال اپنے آپ لہرانے لگتے ہیں۔ آنکھوں میں انگارے دہکنے لگتے ہیں۔
اور قوم سانس روک کر دیکھ رہی ہے کیونکہ یہ دو ہی طرح سے ختم ہو سکتا ہے۔ یا تو وہ لائیو ٹی وی پر پھٹنے والا تاریخ کا پہلا شخص ہوگا یا پھر اگر اس سے مزید برداشت نہیں ہوتا تو وہ اپنی میز پر کود کر رائفل اٹھائے گا اور اپنے کار ڈرائیور کو کہے کہ سیدھے اسلام آباد لے چلو۔
پاکستان کے کبوتربازوں نے یہ محسوس کر لیا ہو گا کہ یہ ان کے نفرت انگیز پیغامات بھیجنے کا منطقی وسیلہ ہے۔ پاکستان کو ان کی خدمات کی ضرورت ہے اور اس محاذ پر ان کی شکست ہو رہی ہے۔
اس طرح کے ہر ایک شو پر بس برائے نام کسی پاکستانی کو رکھ لیا جاتا ہے جن میں زیادہ تر ریٹائرڈ فوجی افسران ہوتے ہیں جن کے جوڑ جوڑ ہل چکے ہوں۔ انھیں جنگ جیتنے کی امید ہو سکتی ہے لیکن دریں اثنا وہ ٹی وی شوز پر شکست سے دوچار ہیں۔
اگر کبوتربازوں کو پاکستان کی جانب سے پیغام بھیجنے کی ضرورت تھی تو یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کی سخت ضرورت تھی۔
اس کے برعکس انھوں نے 'دہشت گرد کبوتروں' کو تعینات کر دیا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ وہ ایک نہیں بلکہ دو کبوتر تھے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ہم پر پے در پے حملہ کر رہے ہیں اور وہ دور تک اندر چلے آئے۔
دونوں حملے پنجاب کے دارالحکومت امرتسر سے بہت قریب تھے جہاں مرد مرد ہے اور گھی مکھن بہتے ہیں۔ دہشت گردوں نے واضح طور پر طویل مدتی راہ اپنائی ہے۔
ان کا طریقہ کار ترقی کر رہا ہے۔ پہلے مغلظات بھرے پیغام غباروں سے بھیجے گئے۔ پھر ایک کبوتر کو پکڑا گیا جس کے پروں پر اردو زبان میں پیغام لکھے تھے۔
جب ان پیغامات کا ترجمہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس پر تو ہفتے کے دنوں کے نام لکھے ہیں۔ اس طرح اس سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا مشکل تھا سوائے اس کے کہ جہادیوں کے پاس کاغذ کی کمی ہو گئی ہے۔ دوسرے حملے کے وقت تک 'دہشت گردوں' کو کاغذ ہاتھ لگ گئے تھے جس کا انھوں نے پیغام لکھنے کے لیے استعمال کیا۔
اس درانداز کبوتر کو پنجاب پولیس نے روکا اور پولیس ڈائری میں اس کا اندراج 'مشتبہ جاسوس' کے طور پر کیا گيا۔ اور اسے فی الحال ایک ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں پولیس کی سخت نگرانی میں رکھا گیا ہے۔
پٹھان کوٹ کے پولیس افسر راکیش کمار نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ 'پولیس اس معاملے کی سنجیدگی سے جانچ کر رہی ہے۔ ہم نے یہاں چند جاسوس پکڑ رکھے ہیں۔ یہ حساس علاقہ ہے کیونکہ یہ جموں سے قریب ہے اور جہاں دراندازی بہت عام ہے۔'
قسمت کی خوبی دیکھیے کہ انڈیا میں پولیس کو جنگلی جانوروں کا بھی بہت تجربہ ہے۔
کیونکہ اترپردیش میں ایک معروف سیاست داں کی بھینس جب اغوا ہو گئی تو 100 سے زیادہ پولیس اہلکاروں اور دو اعلیٰ افسران کو تفتیش پر تعینات کیا گیا۔
حالانکہ ان کی شناخت کے بارے میں بعض سوالات اٹھے تھے تاہم انھوں نے ایک ہفتے میں بھینس بازیاب کروا لی۔ اس امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھینس بدل گئی ہو گی لیکن کیس کو بند کر دیا گیا۔
اس طرح ہم امید کر سکتے ہیں کہ وہ کامیابی کے ساتھ 'جہادی کبوتروں' کے خطرے سے نمٹ لیں گے۔ فی الحال انھوں نے کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ہے۔
اطلاعات کے مطابق وہ مختلف قسم کے سوالات پر غور کر رہے ہیں۔ جیسے:
  • کبوتر مسلمان ہے یا پھر ہندو؟
  • کیا اس میں کسی طور گائے کے گوشت کا تو معاملہ شامل نہیں؟
  • اگر کبوتر کو ضمانت پر رہائی مل جاتی ہے تو کیا وہ گواہوں کو متاثر کرنے کی کوشش تو نہیں کرے گا؟
  • کیا اسے انڈیا کے کبوتر سے کسی قسم کی مدد ملی ہے؟
  • کیا ہمیں فضائیہ کا استعمال کرنا چاہیے؟
  • یہ جتنا کھانا کھا رہا ہے اس کا بل کون ادا کرے گا؟
ہم اپنی سکیورٹی فورسز کی عزت کرتے رہیں گے نہیں تو وہ ہمیں گولی مار سکتے ہیں۔ لیکن کبوتر کے بارے میں بھی تو ذرا سوچیں۔ یہ معصوم کبوتر جو کبھی 'امن کے علمبردار' ہوتے تھے اب جہادی ان کی بھی برین واشنگ کر رہے ہیں۔
کل جب ہم پڑوس کے پارک میں ٹہلنے کے لیے نکلیں گے تو ہوا خوری کے ساتھ فون کرنے کی بھی کوشش کررہے ہوں گے، ایسے میں ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ کون سے کبوتر پر بھروسہ کرنا ہے؟
ہم اچھے اور پاکستان کی حمایت کرنے والے کبوتروں میں تمیز کیسے کریں گے؟ سب تو ایک جیسے ہی نظر آتے ہیں۔ اور لندن اور نیویارک میں رہنے والو ہم پر ہنسنے سے پہلے ذرا سوچ لو کہ تمہارے پاس بھی کبوتر ہیں۔

بی بی سی اردو کے شکریہ کے ساتھ 

0 comments: