ریزرویشن کی تحریک اور مسلم سیاسی لیڈر

12:42 PM nehal sagheer 0 Comments

نہال صغیر

بین الاقوامی سطح سے لے کر ملکی سطح پر ہر جگہ ماحول میں گرمی پائی جاتی ہے ۔حالانکہ ابھی موسم میں گرمی کی شدت میں کافی کمی آ گئی ہے ۔ لیکن ملک میں بیرونی اور داخلی پیمانے پر سرگرمیاں تیز ہیں ۔ہند پاک سرحد پر جنگ جیسے حالات ہیں تو داخلی طور پر مہاراشٹر میں ریزرویشن کی تحریک نے سیاست دانوں خاص طور سے حزب اقتدار سے تعلق رکھنے والوں کی نیندیں اڑادی ہیں ۔معاملہ اتنا زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے کہ دیویندر فڑ نویس کی کرسی بھی ہلنے لگی ہے ۔حالیہ ریزرویشن کی تحریک جسے مراٹھوں نے شروع کی ہے اور ان کی خاموش تحریک نے وہ اثر دکھایا کہ سیاسی ہلچل میں اضافہ ہو گیا ہے ۔مراٹھوں کے اتحاد اور تحریکوں کی مثالیں دی جانے لگی کہ جب یہ متحد ہو سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ۔مطلب مسلمان کیوں متحد نہیں ہو سکتے؟ اس سوال نے کئی سیاسی لیڈروں کو اچانک نیندسے بیدار کردیا ،یا ایسا کہئے کہ انہیں اس موقعہ سے فائدہ اٹھانے کی راہ سجھا دی ۔ وہ سیاست داں ہی کیا جس نے بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئے یا کسی موقعہ سے فائدہ نہ اٹھائے ۔وہ لوگ جن کی حکومت ابھی ختم ہوئی ہے جنہوں نے اس ریاست پر پندرہ سال تک مسلمانوں سے جھوٹے وعدے کرکے بار بار ووٹ حاصل کئے اور مسلمانوں کو سوائے وعدوں کے لالی پاپ کے اور کچھ نہیں دیا ۔حکومت کے آخری دنوں میں انہوں نے مسلمانوں کو پانچ فیصدی ریزرویشن دینے کے لئے ایک آرڈینینس جاری کیا ۔جسے عدلیہ نے مسترد کردیا ۔اگر اسی جگہ پر ریزرویشن بل لے کر آتے اور اسمبلی میں اسے پاس کروا کر قانون بناتے تو شاید عدلیہ سے مسترد نہیں ہوتا۔لیکن پورے پندرہ برسوں میں انہیں توفکر نہیں ہوئی ۔صرف ووٹ کی سیاست کے تحت آخری دنوں میں لالی پاپ تھما دیا ۔اب وہی حضرات جو سابقہ حکومت میں مسلم ووٹوں کے ٹھیکیدار تھے اور اسمبلی میں بغیر ایک لفظ بولے بھی اخبارات میں گرما گرم خبریں شائع کرواتے تھے کہ آج مذکورہ ہمدرد ملت نے یہ کہا آج اس کے بیان سے اسمبلی میں مسلمانوں کے لئے یہ قانون پاس ہونے والا ہے اور وہ ہونے والا ،وغیرہ وغیرہ ۔
دھوکہ دہی اور مسلمانوں کی نمائندگی کے بجائے اپنی حکومت کی چاپلوسی کرنے کا انجام یہ ہوا کہ ان کی حکومت کا سورج غروب ہو گیا ۔اب ان مہاشے رہنمایان و قائدین قوم کا حال یہ ہے کہ ’’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں ،اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی‘‘۔اگر انہوں نے قوم کی نمائندگی کا دم بھرکر اس کا حق ادا کیا ہوتا اور پارٹی کی چاپلوسی کرنے کے بجائے مسلمانوں کو ان کا جائز حق دلانے میں اپنی کوششوں کو آخری حد تک لے گئے ہوتے تو نہ قوم کا یہ حال ہوتا کہ اسے بار بار کمیٹی بنا کر ذلیل کیا جاتا کہ اس کی حالت دلتوں سے بد تر ہو گئی ہے اور نہ ہی یہ ہمدردان ملت آج اس قدر خوار پھرتے اور مہاراشٹر بھر میں مسلمانوں کو یہ کہتے کہ مہاراشٹر میں مسلمانوں کو ان کا جائز حق نہیں دیا گیا یا ان کی معاشی حالت انتہائی خستہ ہے ۔اب ان سے کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ جناب موجودہ حکومت کے چند مہینوں میں ہی مسلمانوں کی حالت اتنی خراب کیسے ہو گئی ؟یہ حکومت تو جمعہ جمعہ آٹھ دن کی ہے لیکن آپ کی حکومت تو عرصہ سے رہی ہے ۔ابھی کے بن باس سے پہلے بھی پندرہ سال آپ کی ہی پارٹی کی حکومت رہی ہے ۔اس عرصہ میں آپ کیا کرتے رہے ۔اب یہ اچھل کود کیوں ؟کیوں نہیں مانتے کہ آپ کی رہنمائی اور آپ کی پارٹی کے اقتدار نے مسلمانوں کو دانستہ نقصان پہنچایا یا آپ اس تلخ حقیقت سے انکار کریں گے ؟اگر آپ انکار کرتے ہیں تو پھر آپ کو وضاحت کرنا ہو گی کہ مسلمانوں کی معاشی ،سیاسی اور سماجی پسماندگی کا ذمہ دار کون ہے ؟بات تلخ ضرور ہے لیکن اسے بغیر قبول کئے اور معافی تلافی کئے چارہ کار نہیں ہے ۔اب عام لوگوں کی طرح مسلم عوام اور خصوصاً نوجوان حالات سے جتنا زیادہ واقف ہے وہ آپ لوگوں کے لئے سیاسی مرگ سے کم نہیں ہے ۔وہ حالات سے واقف ہے ۔وہ جانتا ہے کہ یہ جعلی اچھل کود اور نقلی ہمدردی محض ملمع کاری ہے ۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ سیدھے طور پر اپنا جرم قبول کریں اور مسلمانوں کی عدالت میں انصاف کے لئے انتظار کریں ۔ممکن ہے کہ مسلمان معاف کردے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب صدق دل اور خلوص کے ساتھ اپنی خامیوں کو قبول کریں ۔ورنہ مسلم نوجوان اب قوم کے مجرموں کو معاف کرنے کے موڈ میں نہیں ہے وہ آنے والے انتخاب میں آپ کوسبق سکھانے کو تیار ہے۔آپ نے اور آپ کی پارٹی نے مسلمانوں کو بہت بیوقوف بنایا ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس کی سادہ لوحی کا آپ اور آپ کی پارٹی نے بہت ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔آپ نے بہت ڈرا ڈرا کر اس کا استحصال کیا ۔اب یہ ممکن نہیں ۔آپ اس کا مقابلہ نہیں کرپائیں گے ۔وہ اکیسویں صدی کے اطلاعاتی ہتھیار سے لیس ہو کر آپ سے اپنا بقایہ چکتا کرنے کو تیار ہے۔

0 comments: