کیا انڈیا اور پاکستان میں صحافت آزاد ہے؟

10:05 PM nehal sagheer 0 Comments


پاکستان اور انڈیا میں 'قومی سلامتی کو خطرے' یا 'نفرت آمیز مواد' پھیلانے جیسے الزامات پر پریس اور میڈیا کے خلاف کیے گئے اقدامات پر آزادی اظہار کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے تشویش کا اظہار تو کیا لیکن دونوں ممالک کے بیشتر صحافی اس نکتے پر متفق نظر آتے ہیں کہ آزادی صحافت پر دونوں ممالک میں مختلف ناموں سے سہی لیکن قدغنیں موجود ہیں ۔
پاکستانی اخبار ڈان کے صحافی سرل المائڈا کا نام 'قومی سلامتی' کے بارے میں لکھی گئی ایک رپورٹ کی وجہ سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال گیا، جو ابھی حکومت نے نکالنے کا اعلان تو کیا ہے لیکن اس اقدام کی پاکستان کے صحافیوں کی اکثریت نے مذمت کی۔
دوسری طرف انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیر ریڈر نامی اخبار پر 'تشدد پر اکسانے' کے الزامات کے تحت پابندی لگانے کے اقدام کو بھی وہاں کے صحافیوں نے اظہار رائے پر پابندی قرار دیا۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ہوئے انڈیا کے سینئیر صحافی سدھارتھ واراداراجن نے سنسر شپ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سرجیکل سٹرائیکس کرنے کے انڈین دعوے پر سوالات اٹھائے اور اس کے بعد اس چینل نے ان کا انٹرویو نشر ہی نہیں کیا۔
پاکستان اور انڈیا میں میڈیا کتنا آزاد ہے اور کیا صحافی 'حساس' قرار دیے گئے موضاعات پر کسی بڑے مسئلے سے بچنے کے لیے ازخود یا سیلف سنسرشپ کرتے ہیں؟
اسی موضوع پر بی بی سی اردو کے خصوصی فیس بک لائیو میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ سرل امائڈا نے جس سٹوری پر کام کرنے کا مشکل اور بولڈ فیصلہ کیا اس سٹوری سے کئی صحافی آگاہ تھے لیکن کسی اور صحافی نے اس سٹوری پر کام کرنے کی ہمت نہیں کی، تو یقینا سیلف سنسر شپ تو موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا میں سرجیکل سٹرائیکس کے موضوع پر اگر حکومتی مؤقف کو چیلنج کرنا معیوب سمجھا گیا تو اسی طرح پاکستان میں کئی ایسے موضوعات ہیں جن پر صحافی بات نہیں کر سکتے۔
برطانیہ میں مقیم مصنفہ اور وکیل عائشہ اعجاز خان کا کہنا تھا کہ آزادی صحافت پر انڈیا اور پاکستان دونوں میں بہت کام باقی ہے خصوصاً انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی اظہار پر قدغنیں انڈیا کی جمہوری روایات پر ایک بڑا دھبہ ہیں اور اسی طرح کچھ رپورٹس کے مطابق پاکستان میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کردار آزادی صحافت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں آزادی صحافت کے خلاف اقدامات ہوئے ہیں بس طریقہ کار مختلف ہے۔
بی بی سی اردو کے نامہ نگار فراز ہاشمی کا کہنا تھا کہ آزادی صحافت کی روایت پاکستان میں صحافیوں کی مسلسل جدوجہد کی مرہون منت ہے اور اس میں فعال کردار چینل یا اخبار کے مالکان نے نہیں بلکہ خود صحافیوں نے یہ جنگ جمہوری دور ہو یا آمرانہ لڑی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا کا موازنہ انڈیا کی بجائے ترقی یافتہ ممالک سے کرنا زیادہ بہتر ہو گا کیونکہ پاکستان میں حکومتوں کو میڈیا چیلنج کرتا آیا ہے کیونکہ انڈیا کے میڈیا کی اکثریت میں 'حب الوطنی' کے جذبات شاید زیادہ ہیں۔

بشکریہ بی بی سی اردو

0 comments: