Politics

آخر ان پر بھروسہ نہ کرنے کا کوئی سبب بھی ہے ؟

10:36 PM nehal sagheer 0 Comments


نہال صغیر

حالانکہ موجودہ بلدیہ ممبئی عظمیٰ کا حالیہ انتخاب پوری طرح ایک مقامی انتخابی عمل ہے جس میں ملکی یا ریاستی مسائل کو بحث میں نہیں لایا جاتا ہے ۔یہاں صرف مقامی مسائل کے تدارک کیلئے وعدے کئے جاتے ہیں اور انتخابی عمل ختم ہونے کے بعد ان وعدوں پر عمل کا وقت آتا ہے ۔امیدواروں کو  مقامی مسائل کے حل کا وعدہ کرنا چاہئے اوراسی کے تدارک کیلئے وعدوں اور عزم کا اظہار کرنا چاہئے کہ اس پر بھرپور عمل کرتے ہوئے آپ کو راحت پہنچانے کا کام کریں گے۔سوال یہ ہے کہ ووٹ کس کو اور کیوں دیا جائے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ اب تک جن لوگوں نے ہمارا ووٹ لیا انہوں نے ہم سے کئے گئے وعدوں پر کس حد تک عمل کیا ۔ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے صرف ہمارا ووٹ لیا لیکن اس پر عمل نہیں کیا ۔یعنی ہمارے حقوق ہمیں نہیں دلوائے ۔پانی ،سیوریج اور دیگر مسائل اپنی جگہ پر ہیں ۔اس لئے اگر مسلم پہچان والی سیاسی جماعت اگر ان مسائل کے تدارک کا دعویٰ لیکر سامنے آئی ہے۔وہ سوال کررہی ہے کہ اب تک آپ لوگوں نے کیا کیا ہے؟تو دوسری سیاسی جماعتوں کو اس کا مثبت جواب دینا چاہئے۔اس کے پاس شہری مسائل  کے حل کا ایک منصوبہ ہے ۔ان منصوبوں میں مقامی مسائل سے لے کر ریاستی اور قومی بھی ہے ۔اس سیاسی پارٹی کل ہند صدر پارلیمنٹ اور اس کے باہر بھی کتنی بیباکی سے مسلمانوں کی آواز اٹھاتے ہیں ۔ہماری یہ خواہش ہے کہ یہ آواز اور مضبوط ہو ۔یقینا آپ کی بھی یہی خواہش ہو گی ۔اس لئے اس کا ساتھ اور نچلی سطح سے لے کر پارلیمانی حد تک ان کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ ہماری قیادت مضبوط ہو۔ ایک بات اور یہ کہ وہ یہ بات بار بار ممبئی اور مہاراشٹر کے اجلاس میں کہہ چکے ہیں کہ ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ لوگ مقامی طور پر اتنے مضبوط بنیں کہ آ پ کو ہماری مدد کی ضرورت نہ پڑے ، آپ خو د ہی اپنے یہاں قیادت کو ابھرنے کا موقعہ دیں ‘‘۔اس لئے ان کی اس آواز سے آواز ملاتے ہوئے ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ ان کی اس خواہش کا احترام کیاجائے اور ہر سطح پر قیادت کو ابھرنے اور اسے سامنے آنے کا موقعہ دیا جائے ۔فی الحال ہندوستان میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے ۔اس لئے ہر تعصب اوپر اٹھ کر صرف اتحاد کی باتیں کریں اور ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کر لائیں جو آپکی آواز کو ایوان اقتدار تک پہنچا سکتے ہوں ۔
بیس پچیس سال سے مسلمانوں نے ایک سیاسی قائد کی ہر طرح سے حمایت کرکے ان کی آواز میں آواز ملائی لیکن انہوں نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا ۔حالانکہ ان سے کچھ لوگ مخلصانہ طور پر ملے ان کو مفید مشوروں سے بھی نوازا ۔لیکن انہوں نے اپنے گرد کچھ ایسے لوگوں کو جمع کرلیا جو ان کی خوشامد کرنے کو ہی اپنی کامیابی سمجھنے لگے ۔کسی دور میں جب ان کے عروج کا دور تھا انہیں انہی مخلصین میں سے کئی نے میڈیا ہائوس کیلئے بھی بات کی لیکن انہوں نے اسے نظر انداز کیا ۔ایک صاحب جو ان کے گائوں کے قریب کے ہیں ایک وقت میں مرکزی اور اتر پردیش ریاستی وزارت میں ان کے اثر و رسوخ بھی تھے انہوں نے ایک تعلیمی ادارے کیلئے ان سے کہا میں منظوری دلوادوں گا آپ آگے آئیں ۔لیکن اس پر بھی آنجناب نے دھیان نہیں دیا ۔اب یہ صاحب کہتے ہیں کہ ’یہ الیکشن نہیں مظلوم عوام کیلئے حق و انصاف کی جنگ ہے ‘۔جبکہ ان کے اسی اشتہار کے نیچے جس میں ان کا یہ دعویٰ لکھا ہے یوپی سے تعلق رکھنے والی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے مطابق ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اپنی رپورٹ میں یہ خلاصہ کیا ہے کہ مظفر نگر فسادات کی ایک مظلوم خاتون کا ایف آئی آر درج نہیں کیا جارہا ہے ۔مجرمین آزادانہ گھوم رہے ہیں ۔اور مظلومین انصاف کیلئے بھٹک رہے ہیں ۔اشرہار کے نیچے کی خبر ان کی بے چارگی کی نشاندہی کرتی ہے یا بے حسی کی یہ فیصلہ عوام کریں گے ۔ہم سیدھے الزامات دھرنے کے بجائے بے حسی اور بے چارگی جیسے الفاظ کا استعمال کیا ہے ۔وہ اس لئے کہ وہ ایک ایسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جس کی کمان کسی مسلمان کے ہاتھوں میں نہیں ہے ۔اگر اس پارٹی کی کمان ان کے ہاتھوں میں ہوتی تو وہ خود سے کوئی فیصلہ لینے کے مجاز ہوتے ۔یہی سبب ہے کہ نئی سیاسی جماعت کوعام مسلمانوں میں خصوصاًمسلم نوجوانوں میں کافی مقبولیت مل رہی ہے ۔ان کی جو باتیں ہیں وہ نوجوانوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ستر برسوں کی محرومی نے مسلمانوں کو مایوس کردیا تھا ۔نہ کوئی سیاسی تنظیم تھی جو مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھتی اور نہ ہی مسلمانوں میں کوئی ایسی با اثر سیاسی قیادت تھی جو انہیں اس مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے انہیں نکالتی ۔ایسے دور میں اس نئی سیاسی جماعت جو مہاراشٹر اور دیگر علاقوں کیلئے نئی ہو لیکن بہر حال ملک کے ایک حصہ میں پچھے ستر برسوں سے اپنا وجود منوایا ہے ۔ملک کے مخدوش حالات کے تحت یہ ضروری ہے مسلمان ان پر بھروسہ کریں اور ان کی سیاسی قوت کو وبھرنے کا موقعہ دیں ۔آخر ستر برسوں کی محرومی کے بعد ایک مسلم سیاسی قیادت کو ابھرنے کے موقعہ دینے کا اب وقت نہیں آیا تو کب آئے گا۔اس لئے تذبذب کا شکار ہونے کے بجائے ذہن بنائیں کہ اب بیس پچیس سال اپنی سیاسی جماعت کو ان کے دعووں کے مطابق آمائیں گے۔یاد رکھئے اتحاد زندگی ہے اور انتشار موت!

0 comments: