featured

یہ لمحے پھر نہیں لوٹیں گے

7:29 PM nehal sagheer 0 Comments




قاسم سید 
کبھی کبھی سیاست کی آندھی میں چھوٹے بڑے پیڑ اکھڑ جاتے ہیں حالیہ انتخابات کی مہم میں کئی اہم خبریں آئیں اور لا پتہ ہو گئیں ۔کئی بڑے ایشو جان پر بن آئے تھے دفن ہو گئے اب ان کا تذکرہ بھی بے وقوفی سمجھا جاتا ہے مثال کے طو ر پر نجیب کی گمشدگی نے صرف ایک ماں کو بے چین نہیں کیا تھا بلکہ ہروہ شخص اندر سے مضطرب تھا ۔جو کسی کےپراسرار پر طور پر غائب ہونے کی تکلیف کو سمجھنے والادل رکھتا ہے۔صرف جے این یو پریشان نہیں ہوا ۔یونیورسٹی میں پڑھنے والے ماؤں کے لال ہی سڑکوں پرنہیں اترے بلکہ ہر ذمہ دار شہری نے نجیب کی ماں کے پولیس کے ہاتھوں زمین پر گھسیٹنے اور اس کی کرب میں ڈوبی چیخوں کی دستک نہاں خانہ دل پر سنی مگر الیکشن کے شور میں نجیب بھی لا پتہ ہو گےا اور ہم بھی نئے ایشو کی تلاش میں نکل پڑے ۔کیونکہ ہماری سیماب مزاجی کسی ایک جگہ زیادہ دیر تک ٹھہرنے نہیں دیتی ذائقہ بدلنے کے لئے زیادہ حساس زیادہ گرم ایشو کی بھوک جاگ اٹھتی ہے ۔اسی دوران وزیر قانون کا دھمکی بھرا بیان آیا کہ یوپی الیکشن کے بعد طلاق ثلاثہ کے تعلق سے حکومت بڑا فیصلہ لے گی کیونکہ ان کی پارٹی کے نزدیک طلاق ثلاثہ خواتین پر ظلم ہے ان کے ساتھ نا انصافی ہے اور آئین و قانون میں دی گئی ضمانتوں کے خلاف بھی ہے اور سرکار معصوم خواتین پر یہ ظلم نہیں ہونے دیں گی۔بہت اچھا ہوا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نےاس بیان کا نوٹس نہیں لیا کیونکہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس لئے جو کچھ کہنا ہے اسی فورم پر کہنا مناسب ہوگا سرکار چاہتی تھی کہ اس پر شدید رد عمل سامنے آئے تاکہ ووٹوں کی صف بندی آسان ہو جائے اس کا داؤ خالی چلا گیا الیکشن کی ہماہمی میں کوئی اس پر زور بھی دینا نہیں چاہتا تھا ۔اس کے بعد ایک اور خبر نے توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی وہ انتخابی ہو ا کے دوش پر سوار ہو کر نظروں سے اوجھل ہو گئی وہ تھی دیوبند سے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار بے گناہ نوجوان محمد شاکر کی عدلیہ سے باعزت رہائی اس پر لگائے تمام الزامات بے بنیاد ثابت ہوئے ۔شاکر بہت خوش قسمت نکلا کہ اس کی رہائی ایک سال کے اندر ہو گئی اور دیگر بے گناہ دہشت گردوں کی طرح جیل میں سالوں ایڑیاں رگڑنی نہیں پڑیں اور اس کی کالی داڑھی میں سفیدی نہیں اتری ۔اس کو گزشتہ سال 6فروری کو ممنوعہ دہشت گرد تنظیم جیش محمد کے لئے کام کرنے کے الزامات میں گرفتار کیا گیا تھا ۔دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے دہلی اور دیوبند سے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر کے ان پر جیش محمد کے لئے بم سازی کا الزام عائد کیا تھا ۔بے گناہوں کے مقدمات لڑنےوالی جمعیۃ علماء کی کوشش قابل تعریف ہیں جب ایسے لڑکوں سے رابطہ رکھنے کے بارے میں سوچ کر ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے اس کے کارکنان جان ہتھیلی پر رکھ کر پوری ملت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں ،کچھ نوجوانوں کو تو جلد رہائی مل گئی تھی مگر تین لڑکوں کے خلاف مقدمہ قائم کر دیا ۔ شاکر کو عدم ثبوت کی بنا پر باعزت رہائی ملی اس پر بم سازی کے علاوہ دیگر ملزمین کے ساتھ پاکستان جاکر دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے کی ٹریننگ لینے کا منصوبہ بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا ۔اس پر تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے ساتھ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے قانون کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا ۔
انتہائی غریب گھر کا یتیم و یسیر شاکر انصاری دووقت کی روٹی کے لئے جدو جہد میں زندگی بسر کرنے والے کے پاس اتنا وقت کہاں تھا کہ وہ ایسی خطرناک منصوبہ بندی کرتا مگر جب یہ خبر عام ہوئی تو میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا ۔دیوبند پر انگلیاں اٹھائی گئیں جہاں دارالعلوم دیو بند بھی ہے۔ایسی کہانیاں ایجاد ہوئیں افسانے تراشے گئے کہ لگتا تھاشاکر انصاری ملک کا خطرناک ترین دہشت گرد ہے مگر رہائی ہوئی تو میڈیا کے بڑے حصے نے ایک سطری خبر دینا گوارہ نہیں کیا ۔اس طرح کی رہائی ہمارے لئے ٹرننگ پوائنٹ ہوسکتی ہے اگر ہم منظم انداز میں سلیقہ سے بغیر نام و نمود کی تمنا کئے ، اخباری سرخیوں میں آنے کی بے قراری کوتھپک کر سلانے کے ساتھ ایسے خاطی افسران پرکارروائی کے لئے دباؤ بنانے میں کامیاب ہو سکیں ۔یہ خبر ہماری توجہ کا مرکز نہیں بن سکی یہی و جہ ہے کہ بڑی بڑی قیامتیں سر سے گزر جاتی ہیں ہم کروٹ بدل کر ٹھوری دیر کے لئے آنکھیں ملتے ہیں ،جگانے پر ہلکا سا بغیر شور والا احتجاج کرتے ہیں اور پھر سو جاتے ہیں پھر کچھ کبوتر شکار ی پکڑ کر دربے میں ڈال دیتے ہیں ،ہم تھوڑا سا پھڑ پھڑاتے ہیں اور اگلے واقعے کا انتظار کرنے لگتےہیں شاید اس لئے ہر حکمراں پارٹی ہمارے ساتھ غلاموں سا سلوک کرتی ہے غلاموں کے پاس بنیادی حقوق نہیں ہوتے کیونکہ انہیں صرف حکم بجا لانے ،پیر دبانے اور سرجھکاکر رہنے کی ہدایت ہوتی ہے ،اس لئے ان پر جو بھی گذرتی ہے کہیں سے حمایت نہیں ملتی البتہ زیادتی کچھ زیادہ ہو جائے تو پڑوسی ناگواری کا اظہار کرکےآگے بڑھ جاتے ہیں ، اترپردیش میں 2012میں جب ایک پارٹی نے بے گناہ مسلم دہشت گردوں کو تیز رفتار قانونی کارروائی کے ذریعہ ان کی رہائی کا تحریری وعدہکیا تو زخم خوردہ لوگوں کو یقین آگیا اور آنکھیں بند کر کے اپنا ساراوزن ڈال کر اقتدار کے گنبد پر پہنچا دیا ۔ اقتدار میں شراکت اور حصہ داری کی بات تو اب کوئی کرنا ہی نہیں چاہتا یہ وعدہ پانچ سال تک تکمیل کے انتظار میں منشور کی اوٹ سے جھانکتا رہا ۔سرکار نے دعوی کیا کہ ہم نے سارےوعدے پورے کر دیے بلکہ جو وعدے نہیں کئے گئے تھے وہ بھیپورےکر دیئے گئے تو کسی کی دم مارنے کی مجال نہیں تھی ۔یوپی اسمبلی میں 60سے زائد مسلم ممبران اسمبلی اور سرکار میں کئی وزیر تھے جن کے نام سے پتہ چلتا تھا کہ وہ مسلمان ہیں انہوں نے پورا حق نمک ادا کیا اور ایک بار بھی ان کی مقدس زبان پر بے گناہ دہشت گردوں کی رہائی کا تذکرہ تک نہیں آیا ۔ان لوگوں کی جرأ ت ایمانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ایسے نوجوانوں کے گھر انوں سے رابطہ کرنے کی ضرورت تک نہیں سمجھی اور نہ ہی پناہ گزیں کیمپوں کا جائزہ لیا کہ وہ کس طرح کی زندگی بسر کر رہے ہیں اگر ہم نے بے قصوروں کی گرفتاری کے معاملے پر یکسوئی و یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہوتا تو عوامی طاقت کے آگے کوئی طاقت نہیں ٹھہرتی ۔نربھیا سانحہ کی تحریک چلی تو سرکار کو نیا قانون لانا پڑا ،اناہزارے نےرام لیلا میدان میں طاقت دکھائی تو سرکار ہنگامی اجلاس طلب کرکے لوک پال بل لانے پر مجبور ہوئی اور ماضی میں شاہ بانو  تحریک نے ترمیمی قانون لانے کے لئے گھٹنے کے بل جھکا دیا ۔
ہماری سب سے بد قسمتی یہ ہے کہ کوئی تحریک طویل مدت تک چلانے کی اہلیت سے محروم ہو گئے ہیں شور و ہنگامہ آرئی پسند مزاج سنجیدہ تحریکیں چلانے کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا ہے ۔مسلم ریزرویشن کا خواب بھی اسی وقت شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جب ہم یہ ارادہ کر لیں کہ کامیابی تک ہر قربانی دینے کو تیار رہیں گے جو لوگ سسٹم سےٹکرانے کامشورہ دیتے ہیں وہ ہمارے مخلص نہیں ہو سکتے۔جمہوری ملک میں آئینی و قانونی حدوں میں رہ کر کامیاب تحریکیں چلائی جاتی ہیں ۔
ایک اور خبر جس پر ہماری نظر نہیں گئی اتر پردیش کے انتخابات میں جو اہمیت دینی چاہئے وہ نہیں مل سکی عجیب و غریب نظارہ ہے کہ مسلمان ووٹوںکی سب کو فکر ہے سردھڑ کی بازی لگا دی گئی ہے لیکن خود مسلمان اپنی اہمیت سے بے خبر ہے۔کوئی ان کا ووٹ بانٹنا چاہتا ہے کوئی اپنے حق میں کرنے کے لئے ہر حربہ آزما رہا ہےاب سوال یہ ہے کہ کیا مسلم ووٹر گھر سے نکلے گا سسٹم سے جو بھی شکایتیں ہیں ان کو دور کرنے کے لئے جمہوریت کے توسط سے ملی سب سے بڑی طاقت کا استعمال کرے گا یا بیزاری کے ساتھ گھربیٹھ کر اس موقع کو بھی ضائع کردے گا کسی کو برا بھلا کہنے ،کوسنے ،شکایات کرنے امتیاز برتنے کا الزام لگانے اور تعصب کا شکار ہونے کی بات کرنا بہت آسان ہےاس میں کچھ خرچ  نہیں ہوتا لیکن بوتھ تک جا کر اس کی حدت اگر ختم نہیں  توکم ضرور کی جا سکتی ہے ۔یہ احتساب و انتقام کااپنی ترجیحات طے کرنے کا وقت ہے پھر یہ لمحہ پانچ سال بعد میسر آئے گا سب سے پہلے ملک پھر ملت اور اس کے بعد اپنی ترجیحات کے مطابق فیصلہ لینے میں کوتاہی سنگین جرم ثابت ہو سکتی ہے اپنے بارے میں نہیں تو کم از کم آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچ کر ہی ٹھوس قدم اٹھا لیں تاکہ پریشانی کم ہو سکے ۔یہ بندھوا گیری کسی حالت میں قابل معافی نہیں ہے ۔

qasimsyed2008@gmail.com

0 comments: