featured

میڈیااور ہم مسلمان


نہال صغیر
مالی خسارے کے ناقابل برداشت بوجھ کے سبب بالآخر ملی گزٹ بند ہوگیا ۔اسے بند کرتے ہوئے ایک انٹر ویو میں اس کے مالک و مدیر نے کہا بڑے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا قوم کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔میڈیا میں اپنی پیٹھ بنانے کیلئے سب سے پہلے تو اس کی اہمیت کو جاننا ضروری ہے ۔چار سال قبل فلسطینی قائد اسمٰعیل ہانیہ نے کہا تھا کہ آج جنگیں صرف میڈیا کے ذریعہ لڑی اور جیتی جارہی ہیں ۔یہ آج کے دور کی ناقابل تردید حقیقت ہے ۔اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔غالبا دس یا پندرہ سال قبل مہاتر محمد نے او آئی سی کے اجلاس میں مسلمانوں کے یا مسلم دنیا کا میڈیا کی بات کی تھی ۔غالبا اسی کے بعد الجزیرہ کا قیام عمل میں آیا تھا ۔یہ دو مثالیں ان لوگوں کی دی گئی ہیں جو دو الگ الگ مسلم ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔میڈیا کی کیا اہمیت ہے اسے آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ سب سے زیادہ پرامن مذہب اسلام کو دہشت گردی پھیلانے والا مذہب مشہور کروادیا گیا اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا ۔میڈیا کایہ اثر ہے کہ اپنے وطن سے ہزاروں میل کی دور پر واقع عراق و شام میں اپنی آزادی کیلئے لڑنے والے مجاہدین آج دہشت گرد قرار دیئے جاچکے نیز اسی میڈیا کے دجالی ذرائع پر یقین کرتے ہوئے ہمارے سیکڑوں علماء روزانہ مجاہدین کو کافر اور دہشت گرد ہونے کا فتویٰ دیتے رہتے ہیں ۔حالانکہ یہی علمائے دین اکثر معاملات میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ میڈیا جھوٹ بولتا ہے ۔یعنی اپنے مطلب کی بات ہو تو آمنا صدقنا اور اپنے خلاف ہو تو مسترد کردینا اب یہ ہمارے ان بزرگوں کا وطیرہ بن گیا ہے ۔ان مختصر واقعات و حالات کو بیان کرنے سے یہ سمجھانا مقصود تھا کہ میڈیا کیا ہے اور وہ کیا کرسکتا ہے ؟ایسے میں ہمارا ذرائع ابلاغ نہ ہونا کتنی بڑی بد نصیبی کی بات ہے ۔جس حد تک ممکن ہے اور جتنے بھی ابلاغ کے ذرائع ہمارے پاس ہیں اس سے تو یقینا کچھ نہ کچھ ہماری باتیں لوگوں تک پہنچ رہی ہیں ۔لیکن ہم نے چونکہ اس کے مقصد اور اہمیت کو دیر میں جانا یا اب بھی ہم اس موڈ میں نہیں ہیں کہ اسے زیادہ اہمیت دیں اس کا انجام یہ ہے کہ ہمارے خلاف جس قدر شدت سے پروپگنڈہ ہے اس کے جواب میں ہمارا ردعمل صفر کے برابر ہے ۔
میڈیا نے عوام کی ذہن سازی کی ہے ان کے ذہن میں وہ بٹھایا ہے جو ان کا مقصد تھا ۔جیسا کہ اوپر کہاگیا کہ انہوں نے عوام کو یہ باور کرادیا کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دینے والا مذہب ہے اور مسلمان دہشت گردہیں ۔حالانکہ سینکڑوں بار یہ اعداد شمار بتایا جاچکا کہ دہشت گرد کے طور پر جتنی بھی تنظیموں کا نام فہرست میں شامل کیا گیا ہے اس میں اکثریت غیر مسلموں کی ہے ۔لیکن بات وہی ہے کہ ہمارا میڈیا ہوتا تو اس بات کو دن رات اپنی نشریات میں بتاتا جس سے یقینا عوام کے ذہنوں کی صفائی ہوتی ۔پہلے مسلمانوں کی زبان اردو ہوا کرتی تھی تب اردو کے اخبارات و رسائل کی بہت بڑی تعداد کتابوں کی دکانوں پر نظر آتے تھے ۔تب بہت حد کم از کم مسلمان تو یہ جانتے تھے کہ حقیقت کیا ہے لیکن اب مسلمانوں کی اکثریت بھی اردو سے ناواقف ہو چکی ہے ۔اب عام مسلمان بھی ہندی انگریزی اور دیگر مقامی زبان کو ہی ترجیح دینے لگے ہیں یا پھر یہ سمجھ لیں کہ حکومت اور اس کی مشنری نے ایسا کیا کہ مسلمان اردو سے دور ہوتے گئے ۔انگریزی ،ہندی اور مقامی زبان کے اخبارات و رسائل پڑھتے ہیں ۔ان میں بھی وہی زہر پھیلایا جاتاہے ۔اس کی وجہ سے ان کے ذہن بھی مسموم ہو رہے ہیں ۔دوسرے تو دوسرے اب خود مسلمانوں کا ذہن بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے مسلمانوں میں کچھ نہ کچھ ایسی کمی ہے تب ہی تو اس طرح کی باتیں کی جارہی ہیں ۔ایسے حالات میں اب جہاں خود کو اردو سے وابستہ رکھنے کی زیادہ ضرورت ہے وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم اپنے ذرائع ابلاغ کو دیگر زبانوں میں بھی ڈھالیں ۔لیکن یہ سب صرف زبان ہلادینے سے ہی ہو جائے گا ۔ہمارے پاس علاء الدین کا کوئی چراغ تو ہے نہیں کہ جن آکر ہمارے مسائل حل کردے گا ۔ہم جب اردو کے اخبارات و رسائل کی ہی سرپرستی ہی نہیں کرسکتے تو دیگر زبانوں میں اپنے ذرائع ابلاغ کو کیسے توسیع دے سکتے ہیں ۔ہفتہ روزہ سیرت کن حالات سے گذر کر آپ کے ہاتھوں میں پہنچتا ہے وہ بس ہم ہی جانتے ہیں ۔آج تک ایسا کوئی نہیں ملا جو بغیر کسی جد و جہد کے ہمیں اس نوعیت مدد کرے کہ کوئی پریشانی نہ ہو ۔لیکن ہم میں ایساکوئی فکر مند شاید ہے ہی نہیں یا اگر ہے تو اس کے پاس جذبہ تو ہوگا لیکن وہ مدد کرنے سے معذور ہوگا ۔جو قوم ایک ہفتہ روزہ کی سرپرستی نہیں کرسکتی اس سے کیا توقع کہ وہ کسی اور زبان میں اخبار یا کوئی میڈیا ہائوس قائم کرسکے ۔حال کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ پچھلے سولہ برسوں سے جاری ملی گزٹ 2016 کی آخری شمارہ کے بعد اشاعت بند ہو چکی ہے ۔اس سے قبل سید شہاب الدین (اللہ ان کی زندگی میں برکت دے اور انہیں ان کے قوم کے تئیں خلوص زندگی بھر کی جد و جہد کو قبول کرے )کا مسلم انڈیا بھی بند ہو چکا ہے ۔مسلم انڈیا نے مسلمانوں کے تعلق سے اعداد شمار کا جو خزانہ مسلم انڈیا نے جمعہ کیا وہ کسی نے آج تک نہیں کیا ۔اگر ہم اسی طرح بے حسی کا شکار ہے تو پھر صرف باتیں کرنے اور ماتم کناں رہنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔مسائل تو صرف عمل سے حل ہو ں گے ۔اس لئے حرکت میں آئیں اور عمل کی طرف قدم بڑھائیں ۔ 

0 comments:

featured

نجیب کہاں ہے ؟


نہال صغیر
نجیب کہاں ہے ؟یہ سوال مرکزی حکومت کے حلق کی ہڈی بن چکا ہے ۔ہر چند کہ حکومت کی موجودہ حکمت عملی ایک چپ ہزار پریشانیوں سے بچائو والی ہے ۔لیکن یہ عام انسانوں کیلئے ہے کسی سربراہ مملکت یا حکومت کیلئے نہیں ۔اسے تو جواب دینا ہی ہوگا خواہ وہ پارلیمنٹ میں دے یا باہر عوام کے سامنے ۔تعجب کی بات یہ ہے کہ ہماری پولس اور خفیہ ایجنسیوں کو بے گناہ نوجوان دہشت گرد کی صورت میں مل جاتے ہیں۔کوئی کسی ریاستی سربراہ کو مارنے کا خیال دل میں لاتا ہے اور انہیں خبر ہو جاتی ہے اور وہ اس کا قتل کرکے بہادری کے تمغے سینوں پر سجالیتے ہیں ۔لیکن دو ماہ سے زیادہ ہو گیا یہ نجیب کو نہیں ڈھونڈ پائے ہیں ۔ اب اپنی خجالت اور شرمندگی مٹانے کیلئے دہلی پولس نجیب کے اہل خانہ پر الزام دھر رہی ہے کہ ان لوگوں نے ہی نجیب کو کہیں چھپا رکھا ہے ۔ہمیں جگہ بجگہ نجیب کے والدہ کی تڑپتی اور سسکتی اپنی آنکھوں میں مایوسی اور بے بسی کی تصویر لئے نظر آجاتی ہیں ۔ان کو دیکھ کر میں نے اکثر احتجاجی جلوسوں میں لوگوں کو اپنی آہوں اور سسکیوں پر قابو پاتے دیکھا ہے ۔بھلا کوئی ماں کیوں کہ اپنی ہی جوان اولاد کو چھپا کر ملک بھر میں اس کی گمشدگی کی تشہیر کرتی پھرے گی ؟لیکن جن کو انسانیت چھو کر بھی نہیں گئی وہ اس طرح کے الزامات عائد کریں تو اس پر تعجب کا اظہار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔دہلی پولس اور اس کا اسپیشل سیل بھی انہی میں سے ہے جنہیں انسانیت سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔یہی وہ پولس فورس ہے جس نے درجن بھر سے زائد مقدموں میں مسلم نوجوانوں کو بے گناہ پھنسایا جو بعد میں عدالت سے با عزت بری ہوئے ۔جامعہ سالیڈریٹی فورم نے ان سارے مقدموں اور اس میں پولس کے متعصبانہ رویہ کو ایک دستاویز کی صورت میں شائع کیا جس کے اہم حصے اردو ٹائمز میں بھی قسط وار شائع ہو چکے ہیں ۔میڈیا کی خبروں کے مطابق ہفتہ کی صبح چار بجے نجیب کے آبائی گائوں میں اس کے گھر پر دہلی پولس نے اچانک گھس کر اسی غنڈہ گردی کا ارتکاب کیا جس کے لئے یہ فورس جانی جاتی ہے اور اس کی انہی بری عادتوں پر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے ’ٹُھلے ‘ کہا تھا جس پر بھکت قسم کے میڈیا اور صحافیوں نے کافی ہنگامہ آرائی کی تھی ۔خیر پورے ہندوستان کی نظر نجیب کی گمشدگی میں دہلی پولس کی مجرمانہ غفلت پر ٹکی ہوئی ہے ۔لیکن انہیں ذرہ برابر اس بات کا خیال نہیں کہ پولس کو عوام دوست ہونا چاہئے نا کہ عوام دشمن جس کے نام سے بھی شریف لوگوں کی نیندیں حرام ہو جائیں اور بدمعاش اور مجرمانہ ذہنیت کے لوگ ان کے سایہ میں پروان چڑھیں جیسا کہ جے این یو میں آر ایس ایس اور بی جے پی کی ساختہ پرداختہ اکھل بھارتیہ ودیارتی پریشد کے غنڈے پل بڑھ رہے ہیں جن پر نجیب کے اغوا کا الزام ہے ۔

0 comments:

News

جامعہ ازہر مصر کی اردو طالبات کا جے،این،یومیں استقبال






نئی دہلی۔جامعہ ازہر قاہرہ مصر”فیکلٹی ادبیات شعبۂاردوبرائے خواتین“کی طالبات کا ہندوستانی زبانوں کا مرکز،جواہرلعل نہرویونیورسٹی،نئی دہلی میںآج پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین اور ریسرچ اسکالرس نے استقبال کیا۔جامعہ ازہر مصر کے فیکلٹی ادبیات میں زیر تعلیم تین طالبات کا وفد اردوزبان سیکھنے کی غرض سے ہندوستان کے دورے پر ہیں۔ان طالبات میں فاطمہ محمد ماہر عبد المعطی،فاطمہ عمر عبداللہ محمود اور میار ناصرعبد الرحمن محمودشامل ہیں۔یہ تینوں طالبات ہندوستان میں ایک مہینے تک قیام پذیر ہوں گی۔اردوزبان سے محبت اور اردو ادب سے دل چسپی ہندوستان آنے کا محرک ہے۔ہندوستان میںیہ طالبات ایک مختصر مدتی پروجیکٹ اور اردو تعلیم کے لیے آئی ہیں ،پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کے تعاون  سے یہ اپنے پرو جیکٹ کی تکمیل کریں گی۔یہ تینوں اردومیںبی۔اے سال اخیر کی طالبات ہیں۔ ان لوگوں کے لیے پروفیسرخواجہ محمداکرام نے ایک مہینے کے لیے اردو تعلیم و تدریس کاخاکہ تیا ر کیاہے تاکہ یہ طالبات کم وقت میں زیادہ سے زیادہ سیکھ سیکھیں ۔
 واضح رہے کہ مصر میں جامعہ ازہر میں طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد ہے ۔یہاں خواتین کے لیے الگ تعلیم کا نظم ہے اسی لیے یہاں کا شعبہ اردو دو حصوں میں منقسم ہے ۔ اس کے عین شمس یونیورسٹی میں بھی ابتدائی مراحل سے اعلیٰ تعلیم کی سطح تک اردو کی تدریس کا نظم ہے ۔

0 comments:

featured

مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472

کہتے ہیں کہ جنگل میں جب مور ناچتا ہے تو اپنے رنگارنگ پَروں کو دیکھ کر جھوم اٹھتا ہے اور خود کو دنیا کا سب سے حسین اور خوبصورت پرندہ سمجھنے لگتا ہے، لیکن جب اس کی نظر اپنے پیروں پر پڑتی ہے تو وہ افسردہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بیشہ اُردو کے مور مورنیاں بھی جب کسی ہال میں اردو کے نام پر کوئی پروگرام یا فنکشن کرتے ہیں تو اردو کے پروفیسر، ڈاکٹر، دانشور، صحافی، ادیب و شاعر سبھی جمع ہوتے ہیں اور اردو کا گن گان اس طرح کرتے ہیں کہ یہ ایک مہذب، لطیف، میٹھی اور شگفتہ زبان ہے جو لوگوں کے دلوں کو موہ لیتی ہے اور اس کا چرچا اتنے زور و شور سے ہونے لگتا ہے کہ ہال کے در و دیوار گونج اٹھتے ہیں اور ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے ’سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہی ہے‘۔ لیکن جب یہی دانشور طبقہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹتا ہے تو اپنے گھرو ںکو اُردو سے خالی دیکھ کر مور کی طرح افسردہ نہیں ہوتا بلکہ بے شرمی سے بستر استراحت پر پُرسکون سانس لیتا ہے اور شرمندگی انہیں اٹھانی پڑتی ہے جو سچ مچ اُردو کے بہی خواہ اور محب اُردو ہیں۔ وہ جو اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنے دن و رات ایک کیے ہوئے ہوتے ہیں۔
اردو کی قسمت کا حال عجیب و غریب ہے۔ پرانی پرانی اردو بستیاں اگر اُجڑ رہی ہیں تو نئی نئی بستیوں کے بسنے کی خبریں بھی ملتی رہتی ہیں لیکن یہ بستیاں ہیں کہاں؟ کم از کم ہمیں تو نہیں معلوم۔ ہمارے ارد گرد تو ویرانیوں نے ہی ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ چاروں طرف کھنڈر ہی کھنڈر نظر آرہا ہے۔ ہوسکتا ہے اردو کے بڑبولے دانشوروں نے کسی خاص علاقے میں اردو کی نئی نئی بستیاں بسائی ہوں جہاں عام لوگوں کی پہنچ ممکن نہ ہو اور شاید اس لیے بھی کہ بڑے لوگوں کی بستیاں زبان و تہذیب عام لوگوں کی زبان و تہذیب سے دور ہی ہوا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عوامی زبان اب خواص کی ہی ہوکر رہ گئی ہے۔ اتنی خواص کہ اس کے دانشور جب کچھ کہتے ہیں، لکھتے ہیں تو اردو کے کم پڑھے لکھے لوگ ہونقوں کی طرح ایک دوسروں کو دیکھنے لگتے ہیں اور دلوں کو موہ لینے والی زبان لوگوں کے دلوں کو چھوئے بغیر ہی سروں سے گزر جاتی ہے۔
میرے ایک پڑوسی نے بھی مجھ سے ایک روز شکایت کی کہ آپ آسان زبان استعمال نہیں کرتے جس کی وجہ سے آپ کی بہت سی باتیں ہمارے سروں سے گزر جاتی ہیں، تو میں نے انہیں مجروح سلطان پوری کا ایک واقعہ سنایا کہ مجروح صاحب ایک مشاعرے میں بڑے لہک لہک کر شعر سنا رہے تھے کہ اچانک ان کے کانوں میں کچھ نوجوانوں کی بات چیت سنائی دی۔ نوجوان آپس میں محو گفتگو تھے کہ بڈھا شعر تو بہت اچھا پڑھتا ہے مگر اتنی اونچائی سے پڑھتا ہے کہ ہمارے سروں سے گزر جاتا ہے۔ مجروح صاحب نے برجستہ جواب دیا کہ ’’بیٹے ہمیں اس اونچائی تک پہنچنے میں ساٹھ سال لگ گئے اور تم ساٹھ منٹ میں ہی اس اونچائی تک پہنچنا چاہتے ہو تو یہ کیسے ممکن ہے۔ ہاں کچھ تم ہم تک پہنچنے کے لیے کوشش کرو اور کچھ ہم تم تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
یہ واقعہ سن کر ہمارے پڑوسی صاحب خاموش ہوگئے اور میں سوچ میں پڑگیا کہ زبان کے تعلق سے اہل زبان کب تک اور کہاں تک نیچے اترتے رہیں گے یا کہاں تک اتارے جاتے رہیں گے۔ اگر ہم اس تعلق سے عمیق نگاہی سے کام لیں تو ہمیں معلوم ہو کہ زبان کے بارے میں صرف ہم ہی نہیں ہمارے بڑے بھی شاکی رہے ہیں۔ جناب مولانا الطاف حسین حالیؔ کو بھی یہ شکوہ رہا ہے کہ:
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
مولانا کی زبان تو کچھ زیادہ ہی معرّب و مفرّس تھی کون سمجھتا؟ مگر آج تو معرب و مفرس جیسے الفاظ سمجھنے والا بھی بہ استثنائے استاد محترم مولانا رحمت اللہ فاروقی کے، اگر کوئی ملے گا تو چراغ لے کر ڈھونڈنے پر ہی ملے گا۔ لیکن مولانا تو بغیر ڈھونڈے ہی اپنے مقام پر مل جاتے ہیں بشرطیکہ آپ کو ان کے معمولات کا علم ہو کہ کس وقت وہ گھر میں ملیں گے اور کس وقت راقم کی نشست گاہ پر ملیں گے۔ سیدھے سادے وضع دار آدمی ہیں، گھر سے سیدھے مسجد یا راقم السطور کی رہائش گاہ پر موجود ہوتے ہیں۔ آپ ان کے گھر پر فون کریں گے تو یہی جواب ملے گا کہ فاروقی صاحب اسلم صاحب کے یہاں ہوں گے۔
ہاں تو ہم یہ عرض کرنا چاہ رہے تھے کہ رحمت اللہ فاروقی صاحب بھی ’’ایک منظر ہیں۔۔۔ مگر بے ربط پس منظر میں ہیں۔‘‘ یہ انہیں کا جگر ہے کہ وہ آج بھی اخبارات کے لیے مضامین و اداریے وغیرہ جب املا کراتے ہیں تو ’’بوندا باندی‘‘ کو بھی ’’تقاطرِ امطار‘‘ تحریر فرما دیتے ہیں۔ مولانا موصوف کے ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو اہل زبان کے لیے باعث سند ہیں تو کم علموں کے لیے باعث زحمت بنے رہتے ہیں۔
مولانا الطاف حسین حالیؔ کی عربی، فارسی تو کیا، آج ہماری زبان اردو سمجھنے والے بھی مولانا فاروقی جیسے خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔ جب تک آپ اپنی زخمی زبان کی انگریزی الفاظ سے ’’ڈریسنگ‘‘ نہ کرلیں، لوگ ہونقوں کی طرح اپنا منہ کھولے حیرت سے آپ کا منہ تکتے رہتے ہیں کہ یہ شخص:
’’بک رہا ہے جنوں میں کیا کیا‘‘
شاید ایسی ہی صورت حال دیکھ کر مرزا غالبؔ خالق لفظ و بیان سے فقط یہ طعن آمیز دعا مانگ کر ایک کنارے ہوگئے تھے کہ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘۔
مگر ہمارے ایک شاعر کے لیے یہ صورت حال درد شکم بن گئی، انہیں کہیں سے افاقہ جب نہیں ہوا تو قبرستان جاکر اپنا شعر سنا آئے کہ:
اب تو زندوں میں نہیں کوئی سمجھنے والا
میں نے اے اہل قبور! ایک غزل لکھی ہے
ایک روز ہمارے ایک دوست نے ہمیں فون پر ہدایت فرمائی ’’آسان لکھا کیجیے‘‘ اور جواباً پھر چچا غالبؔ کا ایک شعر پڑھنے کو جی چاہا مگر باز رہے کہ اب اس شعر کو بھی اہل قبور ہی سمجھیں گے کہ:
آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل، وگرنہ گویم مشکل
 بہرحال ہم اپنے علم کے مطابق لکھتے تو آسان ہی ہیں لیکن ہمارے دوستوں، قارئین و کمپوزیٹر صاحب وغیرہ کو اگر مشکل ہوتی ہے تو اور آسان لکھنے کی سعی کریں گے۔ مگر ہم جب اپنے نوجوانوں کو اپنی زبان سیکھنے کو تو کیا پڑھنے سے بھی گریزاں پاتے ہیں تو علامہ اقبال کی زبان میں ’’لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی‘‘ کہنا پڑتا ہے۔ دیکھا تو یہی جارہا ہے کہ ہمارا نوجوان اپنی زبان، اپنی تہذیب و تمدن سے دور بہت دور ہوتا جارہا ہے۔ آخر یہ نوبت آئی کیسے؟ ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
کالم کا اختتام ہوا جاتا ہے اور ہم ابھی تک زبان کی مشکل اور سہل بیانی کے ہیر پھیر میں ہی پھنسے پڑے ہیں اور مولانا حالیؔ کے اس مصرعے کی تاویل ہی کرتے رہے کہ ’’کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں ‘‘۔
ہمیں جو کچھ کہنا ہے اس میں سے کچھ کہنے کی تو ابھی تک نوبت ہی نہیں آئی مگر خیر، ہم کہہ کر ہی رہیں گے۔ آج نہیں تو کل کہیں گے۔ اس کالم کو آپ اسی طرح صدائے توجہ طلبی سمجھ لیجیے جس طرح کہ ہوائی اڈوں، اسٹیشنوں وغیرہ پر اردو زبان میں اعلان شروع کرنے سے پہلے ایک نسوانی آواز آپ کو پکارتی ہے کہ ’’تاواجو فرمائیے۔‘‘
سو، آپ سے کہنا تو ہے، مگر
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
معاف کیجیے، اس وقت الیکشن کی ہماہمی اور غلغلہ ہے، اس وقت رونما ہونے والے حالات پر کچھ روشنی ڈالنی چاہیے تھی لیکن ہم زبان و ادب کا گلہ لے بیٹھے۔ یہ بھی ضروری تھا کیونکہ الیکشن کی ترش و تلخ سرگرمیوں میں ادب ہی ایک ذریعہ ہے جو ناکامی و کامیابی کی صورت میں پیدا ہونے والی دوریوں کو قریب تر کردیتا ہے۔ کاش اس موقع پر کوئی اپنی زبان کو بھی یاد رکھتا تو شاید نہ مولانا الطاف حسین حالیؔ کو کسی نا محرم سے شکایت ہوتی اور نہ ہی مرزا غالبؔ کو ہی کوئی گلہ ہوتا کہ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘۔
بہرکیف، مولانا حالیؔ اور مرزا غالبؔ دونوں ہی زبان و ادب کے شہسوار تھے۔ انہوں نے اپنے اپنے دور میں جس طرح کی ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں اسے کوئی سمجھے یا نہ سمجھے وہ اب تو زبان و ادب کی تاریخ میں امر ہوچکی ہیں۔

0 comments:

Muslim Issues

مسلمانوں کا میڈیا ..... باتیں ہیں باتوں کا کیا!


نہال صغیر

ہمارے برادران، دوست احباب میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کی تحقیر و تذلیل کو لے کر کافی بحث و مباحثہ جاری رہتا ہے ۔ کچھ مسلم تنظیمیں خاص طور سے جماعت اسلامی اور اس کی دوسری نظریاتی تنظیموں میں میڈیا کے تئیں کافی گرمجوشی دیکھنے کو ملتا ہے ۔میں پچھلے پینتیس سالوں سے جب سے ہوش سنبھالا ہے مسلم میڈیا کی بحث میں اس کی ضرورت اور اہمیت سنتا آرہا ہوں ۔اس سے آگے کہیں کچھ سننے کو ملا تو اتنا کہ کسی دور میں جمعیتہ العلماء نے بھی انگریزی پریس کے لئے اہل خیر حضرات سے تعاون لیا تھا ۔ایک بار نوے کی دہائی میں دہلی کے اخبارات میں اس تعلق سے کچھ خبر شائع ہوئی تھی تو جمعیتہ کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ اس فنڈکا آئی سی آئی سی آئی بینک میں اکاؤنٹ ہے جس میں غالبا نو لاکھ روپئے جمع ہیں ۔اس مراسلہ میں اکاؤنٹ نمبر بھی درج کیا گیا تھا ۔لیکن اخبار نہیں نکل سکا اس کی کیا وجہ تھی پتہ نہیں ۔حیدر آباد سے بھی کئی کوششیں ہوئیں کہ مسلمانوں کا کوئی انگریزی روزنامہ شائع ہو لیکن اس میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی ۔صرف جماعت اسلامی ہند کا ایک ترجمان ہفتہ روزہ ’ریڈینس ویوز ‘پابندی سے شائع ہو رہا ہے ۔لیکن وہ بھی صرف سبسکربشن پر مہیا ہے ۔عام طور پر وہ بھی اسٹالوں پر دستیاب نہیں ہے ۔
اوپر یہ تمہید باندھنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی ادارت میں شائع ہونے والا پندرہ روزہ ملی گزٹ بند ہوگیا ۔یہ اخبار جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے ملت کا ترجمان تھا ۔لیکن مالی خسارہ کے سبب اس کی اشاعت آئندہ کیلئے ممکن نہ ہو سکی۔ڈاکٹر ظفر الاسلام نے بڑے درد کے ساتھ کہا کہ اس کا مالی خسارہ ڈیڑھ لاکھ ماہانہ تک پہنچ گیا تھا جو ان کے لئے برداشت کرپانا ممکن نہیں تھا اس لئے انہیں اس کی اشاعت کو موخر کرنا پڑی۔بیس کروڑ ملی آبادی میں اب کیا اتنا دم خم بھی نہیں بچا کہ وہ ایک ایسا اخبار جاری رکھ سکے جس کاخرچ صرف ڈیڑھ لاکھ روپئے ماہانہ ہے؟ایسی پوزیشن میں لمبی چوڑی باتیں کرنا یا کوئی بیجا دعویٰ کرنا محض احمقوں کی جنت میں رہنے جیسا ہے ۔جبکہ اسی قوم کی شادی و دیگر تقریبات وغیرہ میں چلے جائیں آپ کو احساس ہی نہیں ہو گا کہ یہ اسی قوم سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کی تقریب ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کی سب سے زیاہ پسماندہ قوم ہے ۔دوسری طرف یہی قوم تعلیم رہائش اور میڈیا کے شعبہ میں آتی ہے تو سب سے زیادہ کمزور ،نحیف و لاغر نظر آتی ہے ۔ایسا کیوں ہے ؟ایسا صرف اس لئے ہے کہ قوم کے سامنے ترجیحات کا معاملہ ہے ۔بقول ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے قوم کی ترجیحات میں میڈیا شامل ہی نہیں ہے۔قوم کی بات تو بعد میں آئے گی قوم کی جو تنظیمیں ہیں ان کی ترجیحات میں بھی میڈیا شامل نہیں ہے ۔ایک قومی ملی تنظیم کے مہاراشٹر کے صدر نے ایک بار استفسار پر کہا کہ میڈیا کے تعلق سے جب ہم نے پیش قدمی کی تو ایک دینی ادارہ سے فتویٰ جاری ہو گیا اور ہم نے وہیں اپنے قدم کو پیچھے کی جانب موڑ لیا ۔اس گفتگو کے وقت ایک اردو روز نامہ کے باریش رپورٹر نے ان سے کہا کہ اگر میڈیا کے تعلق سے کسی عالم سے مشورہ لینا ہو تو مولانا ولی رحمانی اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے رجوع ہوں انشاء اللہ رکاوٹ نہیں آئے گی ۔بہر حال برسبیل تذکرہ یہ بات آگئی کہ میڈیا کے تعلق سے اگر کوئی آگے آتا بھی ہے تو اس کے ساتھ کیسی کیسی پریشانیاں آتی ہیں۔لیکن مسئلہ اب بھی وہی ہے کہ قوم کی ترجیحات میں میڈیا ہے ہی نہیں ۔ہم صرف شکایتیں کرنے اور میڈیا کی بے راہ روی اور تعصب کا رونا رونے کے قابل ہی رہ گئے ہیں ۔ان شکوہ شکایت سے آگے بھی ہماری کوئی ذمہ داری بنتی ہے یا نہیں اس تعلق سے ہم کب بیدار ہوں گے؟ میڈیا ہاؤس بنانا اسے کامیابی سے چلانا اسقدر آسان نہیں جتنا ہم نے اسے سمجھ رکھا ہے ۔بھلا وہ قوم کس طرح میڈیا ہاؤس کھڑا کرسکتی ہے اور اسے کامیابی سے چلاسکتی ہے جس سے ایک پندرہ روزہ انگریزی اخبار کا بوجھ نہیں اٹھایا جارہا ہے ۔ ایک اردو ہفتہ روزہ کو صرف دس ہزار ماہانہ کے اشتہار کی ضرورت تھی میں نے کم از کم چار تاجر دوستوں سے کہا کہ آپ لوگ مل کر اس کو اشتہار دیں لیکن وہ اخبار آج بھی اسی طرح مالی خسارہ میں ادھر ادھر سے اپنے اخراجات پورا کررہا ہے لیکن کوئی اسے پر وقار طریقے سے اشتہار دے کر اس کو سنبھالنے کی کوشش نہیں کررہا ہے۔اس طرح کے حالات ہماری بے حسی اور زوال کی انتہا کی جانب جانے کی پیش گوئی کررہے ہیں ۔کیا ہم اب بھی باتیں اور خوش گپیوں سے باہر آکر حقائق کی دنیا کا ادراک کرکے کچھ عملی قدم اٹھاکر چھوٹے اخبارات کو ہی بچانے اور اسے مستحکم کرنے کی شروعات کرسکتے ہیں۔یاد رکھئے جس طرح ٹرین کے انجن کو بجلی یا ڈیزل ،موٹر کاریا بس کو پیٹرول اور ڈیزل کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اخبارات یا میڈیا ہاؤس کے لئے سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔اب یہ سرمایہ آپ پورا کریں یا پھر وہ لوگ پورا کریں گے جو آپ کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں ۔اگر وہ سرمایہ کاری کریں گے تو وہ آپ کی ترجمانی کیوں کریں ؟کیا آپ سرمایہ کاری کرکے باطل کی ترجمانی کرسکتے ہیں !نہیں نا تو پھرباطل سے حق کی ترجمانی کا کیا جواز ہے؟یہ چند باتیں میرے دل کی آواز ہے ممکن ہے کہ قوم کی غیرت جاگ جائے اور یہ قوم کا ترجمان ملی گزٹ دو بارہ پھر سے جاری ہو جائے ۔ 

0 comments:

Muslim Issues

ہندوستانی سیاست اور مسلمان


عمر فراہی ۔ ای میل : umarfarrahi@gmail.com

یہ کوئی فلسفہ نہیں بلکہ زندگی کی حقیقت ہے کہ جب کسی ریوڑ کا کوئی چرواہا نہیں ہوتا یا چرواہا اپنی بھیڑوں کو بھیڑیوں سے محفوظ رکھنے کی معقول تدبیر چھوڑ دے تو بھیڑین بھیڑیوں کے رحم و کرم پر ہوجاتی ہیں مثال کے طورپر جب بھیڑیں کثیر تعداد میں ہوں تو چرواہا نہ صرف مزید سنتریوں کی مدد لیتا ہے بلکہ چرواہے کتّےبھی پال رکھتے ہیں اور پھر یہ کُتّے خطرات کو محسوس کرتے ہوئے بھونکنا شروع کر دیتے ہیں یا اکثر اپنے مالک کی مدد سے بھیڑیوں پر حملہ آور ہونے کی کوشس بھی کرتے ہیں - اب یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں کہ بھیڑیے کی اپنی فطرت یہ ہوتی ہے کہ وہ بلا امتیاز جانداروں کے خون سے اپنے پیٹ کی بھوک کو مٹائے - مثال کے طور پر دلی کے چڑیا گھر میں جب ایک سترہ سال کا نوجوان تیندوے کے احاطے میں گر پڑا تو تیندوے نے یہ سوچے اور سمجھے بغیر کہ ایک غیر مسلح نوجوان اس کیلئے کسی بھی طرح خطرے کی علامت نہیں ہے اور اسے چڑیا گھر کے منتظمین کی طرف سے وقت پر غذا بھی فراہم کی جاتی ہے اس کے باوجود کہ نوجوان ہاتھ جوڑ رہا تھا اور وہاں موجود عوام نے بھی احتجاج کرنا شروع کر دیا تھا کہ وہ نوجوان پر حملہ نہ کرے رفتہ رفتہ اپنی خواہشات کو پوری کرنے کیلئے آگے بڑھتا چلا گیا اور اچانک نوجوان کی گردن دبوچ کر لے کر بھاگ گیا - بھوپال کی جیل میں قید آٹھ مسلمان قیدیوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا یہ سانحہ بھی دلی کے چڑیا گھر کے جیسا ہی ہے فرق اتنا ہے کہ تیندوا حیوان تھا اور مدھیہ پردیش کی پولیس جس نے قیدیوں کا قتل عام کیا وہ انسان تھے - کچھ لوگ اسے بی جے پی اور فرقہ پرست طاقتوں کی سازش قرار دے کر مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان آزادی کے بعد سے ہی ملک کے سیاسی نظام اور بھیڑیے نما سیاستدانوں کا شکار ہے - شاید ہم ہاشم پورہ قتل عام کو بھول گئے ہیں کہ کس طرح پی اے سی نے گھروں سے بوڑھے اور جوان مسلمانوں کو اٹھا لیا اور ایک سنسان علاقے میں لے جاکر قتل کردیا - خواجہ یونس کا قتل بھی پولس کی حراست میں اسی طرح ہوا جیسا کہ دو سال قبل تلنگانہ کی پولیس نے جیل سے لے جاتے ہوئے چار مسلم نوجوانوں کا انکاونٹر کے نام پر قتل کیا - اتفاق سے ان دونوں ریاستوں میں غیر بی جے پی حکومتیں تھیں بلکہ آزادی کے بعد سے بھاگل پور میرٹھ ملیانہ اور بھیونڈی وغیرہ میں فسادات کی شکل میں مسلمانوں کا جو مسلسل انکاونٹر ہوتا رہا اس دوران ان ریاستوں میں بی جے پی کی نہیں کانگریس کی حکومت تھی - اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بی جے پی اور فرقہ پرست طاقتوں کی شر انگیزی اور شرارت کو کمتر سمجھ رہے ہیں یا 2002 کےگجرات فساد اور اس فساد میں مسلمانوں کے انکاونٹر کو بھول جانا چاہتے ہیں - ہمارا موقف یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمان کسی سیاسی پارٹی کا نہیں بلکہ سیاسی بدعنوانی اور جمہوری فاشزم کا شکار ہے - دو سال پہلے ہم نے حسن سرور کی  ایک کتاب پڑھی تھی جس کا عنوان تھاIndia's spring بھارت کا بہار - غالباً یہ کتاب مشرق وسطیٰ کی اسلامی بیداری کے بعد لکھی گئی ہے جسے عام طور پر عرب بہار کے نام سے جانا جاتا ہے - مصنف نے لکھا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں پر  آزادی کے بعد سے ہی فسادات مسلط کئے گئے تاکہ انگریزوں کے دور میں مسلمانوں کا جو شیرازہ بکھر چکا تھا خوف اور دہشت کے اس ماحول میں اسے  دوبارہ تشکیل نو کا موقع نہ ملے مگر چونکہ مسلسل فسادات کی صورت میں اس خوف اور دہشت سے ملک کی عام آبادی بھی متاثر ہو رہی تھی اور قومی املاک اور معیشت کو بھی خسارے سے گذرنا پڑتا تھا 9/11 کے بعد ملک کے جمہوری فاشزم نے ایک نئی کروٹ لی اور پھر 2002 میں بی جے پی حکومت نے اگر سیمی پر پابندی لگائی تو 2004سے 2014 تک جو بم دھماکے ہوئے اور جس طرح بے قصور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا گیا یہ پورا دور بھی  مسلم نوجوانوں کیلئے کسی انکاونٹر سے کم نہیں تھا اور اس پورے دور میں ملک کے اقتدار پر کانگریس کی سیکولر حکمرانی تھی - ہوسکتا ہے عام مسلمان منموہن سنگھ حکومت کے اس سیاہ دور کو بھول چکے ہوں لیکن جس طرح ممبئی اور مالیگاؤں بم دھماکوں کے بعد ملک کے دیگر علاقوں  میں بھی دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا ، مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہوئی اور ایک ایماندار افسر ہیمنت کرکرے کے قتل کی واردات بھی کانگریس کی حکمرانی میں انجام دی گئی ۔ میں نے اپنی پوری عمر میں اتنا خوف اور دہشت کا ماحول کبھی نہیں دیکھا - حال میں مدھیہ پردیش بھوپال کی  جیل کے اندر قید سیمی کے نوجوانوں کو قتل کرنے کی سازش بھی جمہوری فاشزم کی حکمت عملی کا ہی ایک حصہ ہے - اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے اور ملک میں سرگرم مسلمانوں کی تنظیموں نے اس مشکل صورتحال سے اپنے بچاؤ اور حفاظت کیلئے کیا تدبیریں اختیار کیں اور مسلمان کب تک اس ظلم اور درندگی کا شکار ہوتے رہیں گے - اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ مسلمان سیاسی طورپر مضبوط ہوں جو ہندوستان کا مسلمان پچھلے پینسٹھ سالوں سے کر بھی رہا ہے - یعنی ملک کے سیکولر قومی دھارے میں شامل ہوکر مسلمانوں نےساٹھ سال تک کانگریس کو اقتدار سونپا لیکن اس کے بدلے میں کیا کانگریس نے مسلمانوں کے ساتھ  وفا کیا - اس کے علاوہ کیرالا مہاراشٹر اور یوپی  میں مسلم لیگ اور مسلم مجلس مشاورت جیسی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کی  نمائندگی کیلئے آگے تو آئیں لیکن کانگریس نے مسلمانوں پر آرایس ایس اور بی جے پی کی دہشت بٹھا کر ان کو کسی مسلم متحدہ سیاسی محاذ کے ساتھ متحد ہونے سے بھی دور رکھا اور یہ کھیل آج بھی جاری ہے - اب مسلمانوں کو سیاسی طورپر متحد کرنے کیلئے اویسی برادران بھی آگے آئے ہیں لیکن ایسا ممکن نظر نہیں آتا کہ یہ لوگ بھی کامیاب ہو پائیں گے - ناکام ہونے کی وجہ بھی یہ ہو سکتی ہے کہ اویسی برادران کو جس طرح ایک معتدل سیاسی نظریے کے تحت ملک کے عام شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے فلاح وبہبود کے منصوبوں کے بارے میں بھی دلائل کے ساتھ بات کرنی چاہیے ان کا لہجہ اور طور طریقہ بھی عام سیاسی پارٹیوں اور بی جے پی  لیڈران سے مختلف نہیں ہے - سچ کہا جائے تو ہندوستان میں جس طرح مسلمان سیکڑوں خانوں میں تقسیم ہیں اور ان کے اس اتحاد کا خواب بھی خواب ہی جیسا ہے یہ بات ممکن بھی نہیں ہے کہ مسلمان جو ایک زمانے سے باشعور قیادت کے بحران سے بھی گذر رہا ہے کبھی متحد ہو پائے اور اگر کبھی وقتی اور حادثاتی طورپر ایسا ہو بھی گیا تو اس اتحاد کی عمر کیا ہوگی اس کی بھی کوئی ضمانت نہی ہے - دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے  کہ ہندوستان میں مسلمان اب خالص مسلم طرز سیاست کی جنگ ہار چکا ہے الا یہ کہ خالق کی مرضی کچھ اور ہو اور وہ مسلمانوں کے علاوہ سوا سو کروڑ برادران وطن میں سے ہی ان کی رہنمائی کیلئے کوئی باشعور اور ایماندار قیادت عطا کر دے - اس کے باوجود مسلمانوں کے مخلص اور ایماندار افراد کومایوس نہ ہو کر اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے ہو سکتا ہے فرعون کے محل میں کسی موسیٰ نے پناہ لے رکھی ہو -

0 comments:

Politics

وطن کا کیا ہوگا انجام!


 ممتاز میر ۔ برہانپور

ہمارے حفاظتی دستوں کے حالات کی جو جھلکیاں آج ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہیں اس میں نیا کچھ نہیں ہے ،کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔اکا دکا خبر اس سے پہلے بھی آتی رہی ہے مگر اب چونکہ’’ دیش بھکتوں ‘‘کی حکومت ہے اسلئے غالباًہر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ یہی وہ وقت ہے جب اپنی شکایات کا ازالہ کر وایا جا سکتا ہے۔یہ نتیجہ ہے اپنی دیش بھکتی کولارجر تھین لائف بنا کر پیش کرنے کا ۔ورنہ ان کی حقیقت تاریخ آزادی کو جاننے والے جانتے ہیں۔
۱۹۹۹ میں کارگل جنگ کے دوران بھی جب انہی دیش بھکتوں کی حکومت تھی ،اور جنگ کے بعد میں بھی بڑی خوفناک قسم کی شکایات منظر عام پر آئیں تھیں۔فی الوقت جو شکایات ہیں وہ تو زمانہء امن کی ہیں اور فوجی و نیم فوجی دستوں کی ذاتی شکایات ہیں مگر کارگل جنگ کی شکایات کا تعلق تو براہ راست دفاع وطن سے تھا ۔جنگ کیوں پیش آئی اور دوران جنگ کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا اس کی تحقیق وتفتیش کے لئے سبرامینم کمیٹی وجود میں لائی گئی تھی ۔اس کی تحقیق کا اہم نکتہ فوجیوں کے پاس دشمن سے لڑنے کے لئے ناکافی سازوسامان کا ہونا بتایا گیا تھا ۔اس طرح اس زمانے میں ایک خاتون صحافی نے جو کہ خود موقعے پر گئی تھی اپنے مضامین میں لکھا تھا کہ ہمارے سپاہیوں کے پاس برف پر لڑنے کے لئے خصوصی جوتے بھی نہیں تھے اور اس مخصوص جنگ کو لڑنے کے لئے جن آلات کی ضرورت ہوتی ہے اس کی بھی ہمارے پاس کمی تھی ۔چلئے کوئی بات نہیں ۔یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت بھی مودی جی کے دوست نواز شریف ہی بر سر اقتدار تھے اور جنگ اچانک شروع کرکے انھوں نے واجپئی جی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا اسلئے اس خصوصی جنگ کی ہماری تیاری نہیں تھی( معلوم نہیں یہ عذر کس حد تک قابل قبول ہو سکتا ہے)مگر جنگ کے بعد کیا ہوا ؟اس کے بعد تو بہت مشہور تابوت گھوٹالہ ہوا تھا ۔کہتے ہیں کہ اسی گھوٹالے سے توجہ ہٹانے کے لئے اکشر دھام حملہ وجودمیں آیا تھا۔
یہ بات کے نچلے درجوں کے فوجیوں کو اعلیٰ فوجی حکام اپنے ذاتی ملازم یا گھریلو خادم بناکر رکھتے ہیں اس سے پہلے بھی تشت از بام ہو چکی ہے ۔انھیں ننگی ننگی بلکہ ماں بہن کی گالیاں دی جاتی ہیںیہ بھی علم میں آچکا ہے مگر انھیں کھانا بھی ردی دیا جاتا ہے یہ ہمارے لئے نئی بات ہے ۔ہمارا گمان تو یہ تھا کہ ہمارے دیش کی حفاظت کرنے والوں کو یقیناً ایسا کھانا ملتا ہوگا کہ وہ کم سے کم دو دشمنوں سے ایک ساتھ نپٹ سکیں ۔کھانے کی کوالٹی اور غذائیت اعلیٰ درجے کی ہوتی ہوگی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ملٹری کینٹن میں دنیا کی ہر چیز نصف قیمت پر ملتی ہے ۔مگر اب شوشل میڈیا ،پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کے ذریعے جو کچھ وہ اپنے دگرگوں حالات کے تعلق سے اہل وطن کے سامنے بیان کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ،وہ تو بہت تشویشناک ہے ۔سب سے بڑا سوال جو اب کئی دنوں سے ذہنوں میں گونج رہا ہے وہ وطن کے دفاع کے تعلق سے ہے ۔کیا ان حالات میں کوئی خوشی خوشی اپنی جان داؤ پر لگا سکتا ہے ؟کیا ان حالات میں لڑتے وقت جوان اپنے اعلیٰ حکام سے مخلص ہو سکتا ہے ؟اور اپنے اعلیٰ حکام سے ناراضگی کا نتیجہ بھگتے کا کون؟آج جو کچھ ہم دیکھ اور سن رہے ہیں وہی ہمارے دشمن بھی تو دیکھ اور سن رہے ہونگے۔کیا یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر پاکستان اور چین سرحدی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتے ہیں؟ کیا وہ ہندوستانی فوجیوں کو کمزور سمجھتے ہیں؟اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دال روٹی وہ بھی جلی ہوئی کھانے والے ان کا کیا مقابلہ کر سکیں گے ۔تو کیا غلط سمجھتے ہیں؟شاید میڈیا میں پھیلنے والی ہمارے سپاہیوں کی حالت زار کا ہی نتیجہ ہے کہ ۱۹ جنوری کے اخبارات میں چینی میڈیا کا یہ دعویٰ شائع ہوا ہے کہ جنگ کی صورت میں وہ یعنی ان کی فوج۴۸ گھنٹوں میں دہلی پردھاوا بول سکتے ہیں اور اگر پیرا شوٹ کا سہارا لیا گیا تو یہ کام دس گھنٹوں میں بھی انجام پا سکتا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل نے اگست ۲۰۱۶ میں ہی مودی سرکار پر یہ واضح کر دیا تھا کہ فوجیوں کو گھٹیا کھانا دیا جا رہا ہے اس کے باوجود خودساختہ دیش بھکت سرکار کے کانوں پرجوں نہیں رینگی۔اب خبریں شائع ہورہی ہیں کہ بی ایس ایف جوان تیج بہادر یادو کا کھانے کی کوالٹی کے تعلق سے ویڈیو وائرل ہونے کی بنا پر وزارت دفاع سے لے کر وزیر اعظم کے دفتر تک کھلبلی مچ چکی ہے ۔کیا واقعی کھلبلی مچی ہوگی؟ہمیں یقین نہیں ۔یہ دنیا کو دکھانے کے کے ڈرامے ہیں۔اگر کھلبلی مچنا ہوتی تو اگست ۲۰۱۶ میں مچنا چاہئے تھی اور چند دنوں میں حفاظتی دستوں کی شکایات دور ہو جانا چاہئے تھی۔مگر ۵ ماہ میں بھی کچھ نہ ہو سکا۔اور مجبور ہو کر ایک سپاہی کو اپنے اعلیٰ حکام کو دنیا کے سامنے ننگا کر دینا پڑا ۔اتنا بڑا قدم آدمی پاگل ہو کر ہی اٹھا سکتا ہے ۔حسب توقع آج بھی وہی کیا جا رہا ہے جو ہندتو والوں کا شیوہ ہے ،حالات سے انکار۔دوسری طرف تیج بہادر یادو کی بیوی ذرائع سے بات کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ اس کے شوہر پر شکایت واپس لینے کے لئے اور معافی مانگنے کے لئے دباؤ بنایا جا رہا ہے ۔
دوسرا کیس دہرہ دون کی ۴۲ ویں انفنٹری کے لانس نائک یگیہ پرتاپ سنگھ کا ہے۔جنھوں نے فوج میں سیوا داری سسٹم کی شکایت کی تھی اور اب انھیں کورٹ مارشل کا سامنا ہے ۔اس کی بیوی نے کہا کہ اس کا شوہر بھوک ہڑتال پر بیٹھا ہے اور آخری مرتبہ جب ان سے گفتگو ہوئی تھی تو وہ رو رہے تھے ۔یگیہ پرتاپ سنگھ نے کچھ چھ ماہ پہلے براہ راست صدر اور وزیر اعظم کو خط لکھ کر انھیں با خبر کرایا تھا کہ ان کے اعلیٰ حکام ان سے اپنے گھریلو کام کراتے ہیں۔ تیسرے کیس میں سی آر پی ایف  کے میتو سنگھ راٹھور نے بھوپال میں ڈی آئی جی۔ایم ایس شیخاوت کے گھر کام کرنے والے جوانوں کے ویڈیوز بنائے ہیں۔کوئی بوٹ پالش کر رہا ہے کوئی کتوں کو نہلا رہا ہے تو کوئی باغبانی کر رہا ہے ۔راٹھور کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایسے بہت سارے ویڈیوز بنائے ہیں ۔ابھی دو تین دن پہلے ہی ہمیں واٹس ایپ پر ایک ویڈیو ملا ہے جس میں سپاہیوں کی تشریف پر اعلیٰ حکام بید زنی کرتے دکھائے گئے ہیں۔
یہ دیگ کے بس چند چاول ہیں۔کرپشن نے اس پورے ملک کو ہی نہیں پورے بر صغیر کو ہی گلا سڑا کر کھوکھلا کر دیا ہے ۔اور جہاں لکشمی کی پوجا ہوتی ہو وہاں یہ نہ ہو تو کیا ہو۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے سیریس معاملات کے منظر عام پر آجانے کے بعد ہوگا کیا؟کیا ذمہ داران کو سزا ملے گی؟کیا سسٹم کی اوور ہالنگ ہوگی؟کیونکہ معاملہ دفاع وطن کا ہے ۔منہ دھو رکھئے ۔کچھ نہیں ہوگا۔نوٹ بندی وطن عزیزکانہیں دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا بلنڈر ہے ۔حکومت اور اس کے کسی بھی مہارتھی کو اپوزیشن یا معاشی ماہرین کے ایک سوال کا جواب دیتے نہیں بن پڑ رہا ہے ۔مگر کیا کسی نے آج تک اپنی غلطی کو مانا۔اور حکومت اور اس کے متعلقین کو جانے دیجئے کیا ان کے میڈیائی چمچے آج۷۴ دن کے بعد بھی اپنی غلطی ماننے کو تیار ہیں۔جناب یہی ڈھٹائی اوربے شرمی جو ان کا سرمایہ ہے وہ ہر معاملے میں استعمال کریں گے ۔وطن کے دفاع کی فکر ہے تو جائیے خود دفاع وطن کا کام کیجئے ۔دیش سے غداری کا کام وہ کرتے رہے ہیں مگر اسی ڈھٹائی اور بے شرمی کے بل بوتے پر آج سب سے بڑے دیش بھکت بنے بیٹھے ہیں۔جاسوس ان کے دور میں جاسوسی کر کے بھاگ جاتے ہیں۔وطن کا مال و متاع لے کر بھاگ جانے والوں پر ان کا دست شفقت رہتا ہے ۔نواز شریف کے مہمان بن بن کر وہ جاتے ہیں مگر نہ کہیں زمین پھٹتی ہے نہ آسمان ٹوٹتا ہے۔۔ان کی مدافعت سول سوسائٹی ہی کر سکتی ہے ۔سیاسی پارٹیاں تو یکساں کرپٹ ہوتی ہیں۔جتنی خامیاں ایک میں ہوتی ہیں کم وبیش اتنی ہی خامیاں دوسری میں بھی ہوتی ہیں۔اور انھیں عوام کے مفاد سے زیادہ ایک دوسرے کے مفاد کی فکر ہوتی ہے۔یہ معاملہ اتنا سنجیدہ اور بنیادی ہے کہ سول سوسائٹی ہی کو آوا زاٹھانا چاہئے ورنہ کسی دن معلوم ہوگا کہ مصر کی طرح ہم بھی جنگ شروع ہونے سے پہلے جنگ ہار گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137 

0 comments:

featured

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا طریق


قاسم سید
جمہوریت میں سر گنے جاتے ہیں، تعداد اہمیت رکھتی ہے لیاقت نہیں۔ جھوٹ جیت جاتا ہے سچائی چھپ جاتی ہے۔ جس کے پاس ووٹ کی طاقت ہوتی ہے اس کو ارباب اقتدار ہوں یا حزب اختلاف جھک کر سلام کرتے ہیں، آگے پیچھے گھومتے ہیں، کورنش بجا لاتے ہیں اور اس کے تمام نخرے برداشت کرتے ہیں۔ مٹھی خالی ہو تو آواز میں بھی تمکنت نظر نہیں آتی۔ جمہوریت بنیادی طور پر ووٹوں کا کھیل ہے جو یہ کھیلنا جانتے ہیں وہ انتخابات سے پہلے اور اس کے بعد بھی سیاست و اقتدار کے فواکہات و ثمرات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ ان کی خوشی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جاتا کہ وہ ناراض ہوں۔ ہندوستان میں سیاست کا مطلب ذات پات کا اعداد و شمار اور مذہبی شناخت ہے۔ بھلے ہی الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق کچھ بھی کہے، سپریم کورٹ کی ہدایت کچھ بھی ہوں پر نالہ وہیں گرتا ہے حتیٰ کہ ٹکٹ دیتے وقت بھی اس کا خاص پاس و لحاظ رکھا جاتا ہے اور باضابطہ تشہیر بھی کی جاتی ہے۔ مختلف ذاتوں کی بڑی مضبوط سیاسی پارٹیاں موجود ہیں، مثلاً یادو کے مفادات کی محافظ سماجوادی پارٹی اور آر جے ڈی جب بھی اقتدار میں آتی ہیں یادو کا دبدبہ اور غلبہ صاف نظر آتا ہے۔ آر ایل ڈی کا لبادہ کوئی ہو مگر وہ جاٹوں کے نمائندے کی شناخت رکھتی ہے۔ کانگریس اور بی جے پی قومی سطح کی پارٹیاں ہیں، مگر اعلیٰ ذاتوں کا تحفظ اور ہندوتو کا فروغ ان کا بنیادی مقصد ہے۔ کانگریس روڈمیپ تیار کرتی ہے اور بی جے پی اس پر عمل کرتی ہے۔ مختلف صوبوں میں موجود علاقائی پارٹیاں وہاں کی زبان و تہذیب کا تحفظ کرتی ہیں، مثلاً تامل ناڈو کی اناڈی ایم کے اور ڈی ایم کے یہ موقع بموقع اقتدار میں حصہ دار رہی ہیں یا کلی اختیارات کی مالک۔
اس پورے کھیل میں سب سے زیادہ خسارہ میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمان رہتی ہے، اس کی دو وجوہات ہیں۔ اس نے آزادی کے بعد کانگریس کو اپنا ملجا و ماویٰ اور قسمت کا مالک بنادیا۔ اپنی ڈور ہاتھ میں تھمادی۔ انھوں نے جو بہتر سمجھا کیا۔ اسی دوران ایک ایسی لیڈرشپ تخلیق کی جس نے ملت سے زیادہ پارٹی کی وفاداری، غلامی کو ترجیح دی، وہیں مسلم جماعتوں نے بھی اس میں عافیت سمجھی کہ اپنے لئے اس سائبان میں ایک گوشہ تلاش کرکے ان کی سلامتی کی دعائیں کریں۔ سیکولر پارٹیوں کی تعداد بڑھتی گئی مگر وہ اس ’سیاسی گنگوتری‘ سے نکلی ہیں، اس لئے کانگریس کی تمام خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔ مسلمانوں کا ہنکاکر اس باڑے سے اس باڑے میں پہنچایا جاتا رہا، چنانچہ پورے ملک میں مشکل سے سو ایسے لیڈر ہوں گے جو مسلمانوں کے مفادات اور ان کے حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کرتے دکھائی دیے مگر ان کی ڈور کانگریس یا کسی اور سیکولر کہی جانے والی پارٹی سے بندھی رہی، بعض جاں نثاران ملت بھی دکھائی دیتے رہے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی کھپادی۔ کیرالہ کی سیاست میں مسلم عنصر کو نہ کانگریس نظر انداز کرسکی اور نہ ہی لیفٹ، دونوں ’فرقہ پرستوں‘ سے ہاتھ ملاتے رہے، کیونکہ سیاسی مجبوری تھی۔ اترپردیش میں ڈاکٹر فریدی مرحوم نے مخلوط سیاست کا تجربہ دہرایا اور کامیابی و ناکامی دونوں حصہ میں آئیں۔ حیدرآباد میں مجلس اتحاد المسلمین نے اقتدار میں شراکت کی، کیونکہ اس کی مٹھی میں چند فیصد ووٹ تھے۔ اترپردیش میں کسی زمانہ میں نیشنل لوک تانترک پارٹی سے بی ایس پی انتخابی اتحاد پر مجبور ہوئی اور پیس پارٹی کا سماجوادی پارٹی سے ہوا۔ قومی ایکتادل کا حال ہی میں بی ایس پی سے ہوا، یعنی جب بھی مسلمانوں کے ووٹوں کا چند فیصلہ بھی لیڈرشپ کے ہاتھ میں نظر آیا، نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے ٹھوڑی میں ہاتھ ڈال کر سمجھوتہ کیا۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ جنتا پارٹی کی پیدائش نے سیاست کے آداب بدل دیے۔ پہلی بار سیکولر اور کمیونل کی باریک لکیر بھی مٹادی گئی اور بھارتیہ جن سنگھ اس کا ناگزیر حصہ بن گئی۔ یہی غلطی وی پی سنگھ کے عہد میں دہرائی گئی جب جنتادل نے راجیو گاندھی کو ہٹانے کے لئے بی جے پی سے ہاتھ ملایا۔ ملک نے یہ بھی نظارہ دیکھا کہ وی پی سنگھ سرکار کا ایک پایہ لیفٹ اور دوسرا رائٹ سنبھالے ہوئے تھا اور پھر سب سیکولر رہے۔ رفتہ رفتہ بی جے پی کی رفتار بڑھتی گئی اور وہ دو سے 280 پر پہنچ گئی۔ یہ سب ایسے دور میں ہوا جب مسلم قیادت کے ہاتھ میں ٹیکٹیکل ووٹنگ کے نام کا طوطا آگیا۔ اس کی معروف تشریح یہ ہے کہ جو بی جے پی کو ہرائے اس کو ووٹ دو۔ گزشتہ تین دہائیوں سے مسلم قیادت اور مسلم جماعتوں نے خواہ وہ سیاسی ہوں یا مذہبی، یہ تعویذ گلے میں ڈال لیا اور اسے حرز جان بنالیا۔ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اسی کا ورد ہونے لگا۔ جب بھی الیکشن آتا ٹیکٹیکل ووٹنگ کی چیخ و پکار سنائی دینے لگتی ہے۔ پانچ سال تک سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے والے انتخابات سے عین قبل یہ راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں۔ گستاخی کی معافی کے ساتھ کیا ہمیں یہ معلوم نہیں کرنا چاہئے کہ حضور عالی مقام آپ کا سیاسی تدبر اور گراں قدر حکمت عملی سر آنکھوں پر، مسلمانوں نے کبھی سوال نہیں کیا، کیونکہ انھیں لگا کہ یہ دافع شر ہے اور بی جے پی اڑن چھو ہوجائے گی، لیکن ہوا اس کے برعکس، یعنی بی جے پی کو ہرانے کا نعرہ مستانہ کچھ اثر نہیں دکھا سکا۔ بی جے پی کا دائرہ بڑھتا گیا، وہ ریاستوں پر قابض ہوتی گئی اور لوک سبھا میں ممبران کا ہر الیکشن کے بعد اضافہ ہوتا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جب پانچ سال تک سیکولر پارٹیاں برسراقتدار رہتی ہیں تو وہ ان پانچ سالوں میں آخر کرتی کیا ہیں کہ پھر پانچ سال بعد فرقہ پرستی کی بڑھتی طاقت کا خوف دلایا جاتا ہے۔ کیا ان کی پالیسیاں غیرمؤثر رہتی ہیں یا پھر وہ اندرون ہاتھ ملائے رہتے ہیں۔ آخر بار بار یہ خوف سر پر کیوں سوار کردیا جاتا ہے۔ جب ملک کے اندر کم وبیش 60 سال تک زیادہ تر ریاستوں اور مرکز میں سیکولر پارٹیاں اقتدار میں رہی ہیں تو آرایس ایس اور اس کے قبیلہ کو کس طرح اور کیوںکر طاقت ملتی گئی۔ ٹیکٹیکل ووٹنگ کے مطلوبہ نتائج کیوں برآمد نہیں ہوئے؟ تو کیا اس پر نظرثانی نہیں کرنی چاہئے۔ آخر منفی ووٹنگ کیوں کرائی جاتی ہے؟ کسی کو ہرانے کی بجائے جتانے کا نعرہ کیوں نہیں لگایا جاسکتا۔ اگر واقعی سیکولر پارٹیاں بی جے پی کو خطرہ سمجھتی ہیں تو ایک پلیٹ فارم پر کیوں نہیں آجاتیں، کیوں ایک نشان سے الیکشن نہیں لڑتیں۔ کیا سب سے بڑے بے وقوف مسلمان ہی لگتے ہیں۔ کیا ان کے سینگ نکلے ہوئے ہیں اور پھر مسلم قیادت کیوں دھڑوں میں تقسیم ہے، وہ متحدہ طور پر ایک آواز میں کسی پارٹی کے پلڑے میں ووٹ کا فیصلہ نہیں کرتی۔
اس کی وجہ صاف ہے مسلم قیادت بھی خانوں میں تقسیم ہے۔ اگر کوئی بھتیجا اپنے چچا کا وجود برداشت نہیں کرسکتا اور اپنے باپ سے بھی لڑجاتا ہے تو یہی حال ادھر بھی ہے۔ کسی کی وفاداریاں سماجوادی پارٹی کے ساتھ ہیں تو کسی نے رشتہ وفاداری کانگریس سے باندھ رکھی ہے۔ کسی کے دل میں بی ایس پی کے لئے پیار امڈا جاتا ہے تو کوئی بائیں بازو کے لئے مرنے مٹنے کو تیار ہے۔ سب کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں، حالانکہ لوک سبھا الیکشن میں مسلم ووٹوں کو بے حیثیت کردیا گیا، اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اترپردیش جیسے بڑے صوبہ سے جہاں مسلمانوں کا ووٹ فیصد کم و بیش 20 فیصد ہے، ایک بھی مسلم ممبر پارلیمنٹ نہیں ہے۔ کیا یہ ہماری حکمت عملی کی بدترین ناکامی نہیں ہے۔ کبھی اس پر بھی غور کیا کہ آخر یوپی میں اس وقت صرف سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کانگریس سے اور سماجوادی پارٹی کے پانچ ممبران ملائم پریوار کے ہی کیوں جیت سکے، یہ کیسا اتفاق ہے؟ اور اب ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے والے باہم شیر و شکر ہونے کا مظاہرہ کررہے ہیں تو کیا اب ان کی ساری مخالفتیں واقعی ختم ہوگئی ہیں یا اپنی چمڑی بچانے کے لئے ایک جگہ آنے پر مجبور ہیں، جیسے لالو اور نتیش بدترین دشمنی کو بھلاکر اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے ایک دوسرے کے دوست بن گئے اور جیسے ہی مفادات کا ٹکرائو ہوگا نتیش پھر بی جے پی کے پالے میں چلے جائیں گے۔ ملائم سنگھ اپنے بیٹے کو مسلم مخالف کہہ کر ہندو ووٹروں میں ان کی امیج بہتر بنانا چاہتے ہیں، وہیں اپنے بھائی رام گوپال کو بی جے پی کا ایجنٹ بتاتے نہیں تھکتے اور امت شاہ سے خفیہ ملاقاتوں کا انکشاف کرتے ہیں، پھر بھی ہمارے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ سیکولرازم اور فرقہ پرستی کے نعرے صرف ڈھونگ ہیں، سیاسی ضرورتوں کے تحت دوست اور دشمن بدلتے رہتے ہیں۔ جس کو جب جس کی ضرورت ہوئی اس کے ساتھ ہولیا۔ اب کوئی یہ زبان کھولنے کو تیار نہیں کہ پانچ سال کا حساب تو لے لیجئے۔ مظفرنگر، بجنور، دادری پر سوال کرلیجئے۔ گزشتہ انتخابی منشور میں مسلمانوں کو ریزرویشن دینے اور اردو میڈیم اسکول کھولنےکے وعدے کے بارے میں دریافت کرلیجئے۔ کیا یہ سوالات پوچھنا بھی بی جے پی کی مدد کرنا ہوگا۔ کیا وضاحتیں طلب کرنے سے بھی بی جے پی مضبوط ہوجائے گی؟ کیا ملائم سنگھ کے رام گوپال پر دیے بیانات کا بھی حقیقت معلوم کرنا بی جے پی کا ساتھ دینا ہوگا۔ یہ کون سی سیاست ہے، یہ کیسی ذہنیت ہے، یہ کون سا نظریہ ہے؟ یہ غلامانہ سوچ کا کون سا پہلو ہے؟ اگر غیرمشروط طور پر کسی کے پلو سے باندھنا ہے تو پھر مظفرنگر اور ہاشم پورہ کی شکایت کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا، کیونکہ ہم واقعی ایسی جامد سوچ کی سزا کے مستحق ہیں، پھر شور مچانے کا حق نہیں، آنکھوں پر پٹی باندھیں، اپنی انگلی تھمائیں اور جہاں کہا جائے ٹھپہ لگا آئیں۔ رہے نام اللہ کا۔

0 comments:

News

ممبئی میں اکبرالدین اویسی کی آمد، امیدواروں کی دوسری لسٹ کا 28؍جنوری کو اجراء:شاکر پٹنی



حبیب ملت کی آمد سے نوجوانوں اور مجلس کے ارکان و کارکنان میں جوش خروش،28 ؍جنوری کی شام کو گوونڈی اور 29 ؍جنوری کو کھڑک مینارہ مسجد بھنڈی بازار میں عوامی اجلاس سے خطاب 


ممبئی :آج حبیب ملت اکبرالدین اویسی ممبئی تشریف لارہے ہیں ۔ان کے پروگرام میں جہاں صدر دفتر میں پارٹی ذمہ داروں سے ملاقات اور مختلف سیاسی امور پر تبادلہ خیال طے ہے وہیں اکبرالدین اویسی 28 ؍جنوری کی شام کو گوونڈی میں عوامی اجلاس میں خطاب فرمائیں گے ۔دوسرے دن 29 ؍جنوری کی شام کو مینارہ مسجد بھنڈی بازار میں کھڑک میں عوامی اجتماع میں تقریر فرمائیں گے۔شاکر پٹنی نے بتایا کہ حبیب ملت کی ممبئی آمد سے نوجوانوں اور مجلس کے ارکان و کارکنان میں جوش و خروش واضح ہے ۔اس موقعہ پر 28 ؍جنوری کو پارٹی صدر دفتر میں ممبئی میونسپل الیکشن کے امیدواروں کی دوسری فہرست جاری کی جائے گی۔پارٹی ذرائع نے صرف دوسری فہرست جاری کرنے کی بات کی ہے تعداد نہیں بتائی ہے کہ دوسری فہرست میں کتنے امیدوار ہوں گے ۔واضح ہو کہ اس سے قبل مجلس اتحاد المسلمین نے ممبئی میونسپل انتخابات کیلئے اٹھارہ امیدواروں پر مشتمل پہلی فہرست جاری کی تھی۔ پہلی فہرست کے جاری ہونے کے بعد باضابطہ طور پر مجلس اتحاد المسلمین کی انتخابی حکمت عملی کی ترتیب کا آغاز ہو گیا ہے ۔ 

مجلس ممبئی کے صدر شاکر پٹنی کے مطابق اکبرالدین اویسی دوروزہ ممبئی دورہ کے بعد حید ر آباد لوٹ جائیں گے اس کے بعد وہ پھر سے 2 ؍فروری سے 19 ؍فروری تک ممبئی کے دورے پر آئیں گے ۔اس کے پروگرام ترتیب دیئے جارہے ہیں ۔پچھلے دنوں یوم جمہوریہ کے موقعہ پر مجلس کے ممبئی صدر دفتر پر جھنڈ ا سلامی کا پروگرا ہوا ۔اس موقعہ پر اپنی تقریر میں ممبئی مجلس اتحاد المسلمین کے صدر عبد الرحمن شاکر پٹنی نے ایک بار پھر ممبئی میونسپل انتخابات میں مجلس کی فیصلہ کن جیت کے عزم کا اظہار کیا ۔انہوں نے کہا کہ مجلس ممبئی میونسپل میں اہم کردار ادا کرے گی ۔ اس کا اول روز سے ہی عوام کی خدمت ترجیحی مقاصد میں سے ہیں۔انہوں ایک بار پھر اس بات اعادہ کیا کہ اگر نام نہاد ہمارے لیڈروں نے عوامی مفاد میں خصوصا مسلمانوں اور پسمادہ طبقات کیلئے کام کیا ہوتا تو ہمیں انتخابی سیاست میں آنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی لیکن ستر برسوں کی ناکامی اور محرومی سے قوم کو باہر نکالنے اور قوم کو عزت وقار کی زندگی کی طرف لوٹانے کیلئے ہم نے عملی سیاست میں حصہ لیا ہے اور ہم یہ دکھانے کی مقدور بھر کوشش کریں گے کہ عوام کی خدمت کیسے کی جاتی ہے۔ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہمارے نمائندے کارپوریشن میں پہنچیں گے تو وہ پسماندہ محلوں کی ترقی پر خصوصی دھیان دیں گے اور ہم آج بھی اپنے اس موقف پر قائم ہیں ۔ 

0 comments:

News

مجلس نے ممبئی میونسپل انتخابات کی پہلی فہرست جاری کی

مجلس اتحاد المسلمین ممبئی کے صدر دفتر میں پریس کانفرنس  میں ممبئی میونسپل انتخاب کیلئے اپنے امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کرتے ہوئے ۔تصویر:شہزاد منصوری



دو غیر مسلم بھی شامل ،بیشتر سیٹوں پر جیت حاصل کرنے اور پسماندہ علاقوں کی ترقی یقینی بنانے کا عزم 

ممبئی:مجلس اتحاد المسلمین نے آج یہاں ممبئی میونسپل انتخابات کے امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کی ہے ۔ جس میں 18 امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہیجس میں دو غیر مسلم امیدواربھی شامل ہیں ۔
پارٹی ممبئی صدر دفتر میں ممبئی شہر صدر شاکر پٹنی نے امیدواروں کے ناموں کا اعلان تلنگانہ سے خصوصی طور پر ممبئی آئے مجلس کے رکن اسمبلی احمد بلالہ اور ریاستی اسمبلی میں مجلس کے رکن وارث پٹھان کی موجودگی میں کیا ۔اس موقعہ پر اخبار نویسوں سے خطاب کرتے ہوئے مجلس کے قائدین نے کہا کہ ان کی پارٹی پورے شہر میں تقریباًپچاس سیٹوں پرقسمت آزمائی کرے گی اور انہیں توقع ہے کہ مجلس کے امیدواروں کو زیادہ تر حلقوں میں کامیابی حاصل ہو گی ۔رکن اسمبلی احمد بلالہ نے کہا کہ مجلس کے لیڈران اسد الدین و اکبر الدین اویسی نے ممبئی کے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر مجلس کے امیدواروں کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تو ممبئی میونسپل کارپوریشن کے 37ہزار کروڑ کے بجٹ کی ایک خطیر رقم کو مسلم علاقوں میں خرچ کرنے پر مجبور کریں گے نیز یہی بات ان کے انتخابی منشور میں بھی شامل ہو گی جس کا جلد ہی اجرا کیا جائے گا ۔احمد بلالہ نے اخبار نویسوں کو مزید بتایا کہ کانگریس سمیت دیگر پارٹیوں کے لیڈران بھی ایم آئی ایم میں شامل ہورہے ہیں اور انہیں غیر مشروط طور پر پارٹی میں شامل کیا جائے گا ۔انہوں نے مزید کہا کہ دیگر سیاسی پارٹیوں سے مجلس میں شامل ہونے والے لیڈران کو میونسپل انتخابات میں ٹکٹ دینے کا حتمی فیصلہ پارٹی ہائی کمان ہی کرے گی۔جب ان سے یہ دریافت کیا گیا کہ گذشتہ بیس برسوں سے کانگریس کی خاتون میونسپل کاؤنسلر وقار النساء انصاری ایم آئی ایم میں شامل ہوئی ہیں تو انہوں نے اس بات سے انکار کیا اور کہا کہ دیگر سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے بیشتر لیڈران کی ایم آئی ایم میں آمد متوقع ہے اور جلد ہی یہ بات بھی ظاہر ہو جائے گی ۔اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مجلس کے قائدین اس بات سے بھی انکار کیا کہ پارٹی میں کسی قسم کی کوئی بے چینی ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہاں جو بھی آیا ہے یا آئندہ آئے گا اس کا صرف ایک ہی مقصد ہے عوام کی خدمت ۔مجلس کی پہچان ہی کا ہے ۔ہمارا کام ہی ہماری پہچان بنے گا ۔ایک اخباری نمائندے کے اس سوال پر کہ مجلس کا کسی پارٹی سے کوئی الائنس نہیں ہے پھر کیوں امیدواروں کی فہرست جاری کرنے میں تاخیر ہو رہی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس امیدواروں کی درخواست زیادہ ہے جس میں سے ہمیں زیادہ بہتر امیدواروں کا انتخاب کرنا مقصود ہے ۔
اس موقعہ پر رکن اسمبلی وارث پٹھان نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ پارٹی کی یہ پہلی فہرست ہے اور جلد ہی دوسری فہرست جاری کردی جائے گی جس میں دیگر ناموں کا اعلان کیا جائے گا ۔جن امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے اس میں ممبئی شہر سے چار امیدوارجبکہ مضافات سے تعلق رکھنے والے 14امیدوار بھی شامل ہیں ۔جن ناموں کا اعلان کیا گیا ہے وہ اس طرح ہیں ۔محمد شمیم اعظمی چارکوپ20 ،شاکر نصیرالدین شیخ ڈندوشی43 ،نسرین فہیم خان ڈندوشی44 ،شیخ فردوس عارف اندھیری66 ،شگفتہ حسین چودھری باندرہ87 ،ایڈووکیٹ عادل کھتری باندرہ96 ،گلناز قریشی باندرہ 92 ،شریف ابراہیم گوونڈی139 ، محمد عمران اکرم قریشی چاندیولی162 ،سجاتا رمیش بھالے راؤ سائین دھاراوی189 ،عمر اسد بائیکلہ 208 ،محمد عادل قریشی بائیکلہ211 ،حاجی نثار احمد چاند شیخ ممبا دیوی221 ،پشپا بلراج دھاراوی 188 ،جمال خان چاندیولی 164 ،نازمین سکندر خان ملاڈ مالونی 49 ،گل میناز بیگم دھاراوی سائین 187 ،اور متین نائیک بائیکلہ 209 ۔
اخبار ی کانفرنس میں ممبئی مجلس جنرل سیکریٹریز حاجی عبد الحمید شیخ،سید عابد اور آصف خان بھی موجود تھے۔

0 comments:

Books

گجرات فائلس :پس پردہ حقائق کا انکشاف




نہال صغیر
مصنفہ :رعنا ایوب ۔ترجمہ محمد ضیاء اللہ ندوی
ہندوستانی صحافت میں تہلکہ نے جو سنگ میل طے کیا ہے وہ اب تک کسی کے حصہ میں نہیں آیا ،رعنا ایوب بھی اسی سے وابستہ ایڈیٹر رہ چکی ہیں ۔زیر نظر کتاب’ گجرات فائلس ،پس پردہ حقائق کا انکشاف ‘میں انہی واقعات کو پیش کیا گیا ہے جو ہر حالات سے با خبرانسان واقف ہے ۔یہ کتاب اس سے مستثنیٰ صرف ان معنوں میں ہے کہ ان حالات اور واقعات میں سے بھی جو حقائق عام میڈیا میں نہیں آپائے تھے وہ یہاں پیش کئے گئے ہیں ۔کتاب پہلے انگریزی میں آئی تھی اور اب اسے اردو میں پیش کرنے کا قابل فخر کارنامہ ’مضامین ڈاٹ کام ‘ اور ان کی ٹیم نے انجام دیا ہے ۔کتاب کی تقریظ جسٹس بی این سری کرشنا نے لکھی ہے۔وہ شروع میں ہی سنسکرت کے ایک اشلوک سے اس کی شروعات کرتے ہیں جس کا اردو ترجمہ بھی پیش کیا گیا ہے ۔اردو ترجمہ ہے ’’حقیقت کا چہرہ طلائی مکھوٹے میں چھپادیا گیا ہے ،اے پوشان ،اٹھو اور سچے دھرم کی خاطر اس کی نقاب کشائی کرو‘‘ ۔یہاں اس کتاب میں پوشان کا کردار رعنا ایوب نے ادا کرتے ہوئے گجرات کے بعض پس پردہ حقائق جن پر سیاسی قوت نے اپنے ظلم و جبر کی دبیر چادر ڈال رکھی تھی ، اسے بے نقاب کرنے کا جوکھم بھرا کارنامہ انجام دیا ۔کتاب پڑھ کر جہاں آپکے پسینے چھوٹ جائیں گے کہ اب آگے کیا ہوگا ؟وہیں ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب آپ مسکرائے بنا نہیں رہ سکتے مثال کے طور پر رعنا اس کتاب کے صفحہ 78 پر خاتون پولس اہلکار کے ساتھ فلم دیکھنے جاتی ہیں فلم کی نمائش کے شروع میں ہی خاتوں پولس اہلکار نے جو کچھ کہا وہ کافی دلچسپ ہے وہ لکھتی ہیں ’’ فلم نے تہلکہ کے ذریعہ کئے گئے کام کا اعتراف کیا تو اوشا نے چپکے سے مجھ سے کہا ،تم نے تہلکہ کے بارے میں سنا ہے ۔یہ بد معاشوں کی ایک ٹولی ہے ۔اپنے فون میں کیمرہ لگا کر یہ لوگ ادھر ادھر گھومتے پھرتے ہیں اور خفیہ طریقے سے لوگوں کی تفتیش کرتے ہیں ۔ انہوں نے گجرات میں ہمارے لوگوں کی بھی خفیہ تفتیش کی تھی ۔اپنے بھولپن کو مزید بڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے میں نے پوچھا :’تہلکہ ‘ کیا ہے ؟کوئی ٹی وی چینل ہے ؟نہیں ،نہیں ۔یہ ایک ویب سائٹ ہے ۔کبھی مت دیکھنا اس کو ۔انڈیا کے بارے میں ساری غلط باتیں ہوتی ہیں ۔فلم دیکھتے ہوئے اوشا نے جواب دیا ‘‘۔رعنا نے اتنے خشک عنوان کو اتنے خوبصورت پیرائے میں لکھا ہے اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا ۔کتاب کافی دلچسپ ہے جسے پڑھ کر جہاں پس پردہ حقائق کا ادراک ہوگا وہیں آپ کو محسوس ہوگا کہ یہ کتاب کسی بہترین ناول نگار کی تصنیف ہے ۔جبکہ یہ موجودہ حالات میں ملک کی حقیقت کی عکاس ہے ۔مترجم محمد ضیاء اللہ ندوی کا کمال ہے کہ انہوں نے ترجمہ کرتے ہوئے اس کی روح کا خیال رکھا جس نے کتاب کو اردو کے قالب میں مزید بہتر انداز عطا کردیا ۔یقینا یہ اردو قاری کیلئے ایک قیمتی تحفہ ثابت ہوگی۔اس کتاب کو جتنا ممکن ہو سکے اردو داں حلقہ تک پہنچائیں تاکہ رعنا ایوب جیسی صحافیہ کی مزید حوصلہ افزائی ہو سکے ۔ممبئی میں کتاب حاصل کرنے کیلئے مکتبہ جامعہ ،محمد علی روڈ نزد بھنڈی بازار میں موبائل نمبر 8108307322 پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

0 comments:

Books

اللہ اور ملا


نہال صغیر
رشدی کی شیطانی آیات کا ادبی زبان میں جواب دینے والے محمد سعید علی میاں ٹولکر نے اپنی تازہ تصنیف ’’اللہ اور ملا ‘‘ سے کچھ لوگوں کو چونکایا ہے ۔انہوں نے شیطانی آیات کا جواب ’’رحمانی آیات ‘‘ لکھ کر دیا تھا۔ میرے خیال میں یہ ایک بہترین کوشش تھی جس کی پذیرائی کی جانی چاہئے ۔زیر نظر کتاب ’’اللہ اور ملا ‘‘ میں انہوں نے سلسلہ وار قرآن سنت سے اللہ کی قدرت کاملہ اور اس کی عظمت و بزرگی کی وضاحت کی ہے۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ اللہ کے بارے میں ہمارے دور میں کیسے کیسے نظریات قائم ہو گئے ہیں ۔انہوں نے اس کی بنیاد پر اپنے قلم کی نوک کو نشتر کی طرح استعمال کرکے غلط نظریات کا آپریشن کرکے اس کے تدارک کی کوشش کی ہے ۔معلوم ہوا کہ ان کی کتاب پر جلد بازی میں کچھ افراد کے ذریعہ اعتراض کرتے ہوئے اسے واپس لینے کا دبائو ڈالا گیا ۔جبکہ اس کی توضیح نہیں کی گئی کہ کیوں ؟ میں نے ہفتہ وار اخبار کے اعتراض کے چند نکات کے مطابق مطالعہ کیا اور تسلسل کے ساتھ آدھی سے زیادہ کتاب پڑھ چکا ہوں لیکن کہیں کوئی ایسی بات نہیں ملی جس سے اس کتاب کو کلی طور سے مسترد کردیا جائے ۔ہاں کچھ باتیں انہوں نے ایسی لکھی ہیں جس سے ہر شخص کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی اس کیلئے کسی کو مجبور کیا جاسکتا ہے ۔مجھے بھی ان کی بعض باتوں یا دعووں سے اتفاق نہیں ہے جیسے انہوں نے کتاب کے سرورق پر نام کے نیچے لکھا ہے ’پوری اسلامی دنیا کیلئے پہلی مدلل کتاب‘لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے اس ایک دعوے کی بنیاد پر ہم ان کی علمی کاوش کو یکسررد کردیں ۔ایسے ہی شدت پسندانہ رویہ کی وجہ سے مسلمانوں میں اہل علم و تفتیش اور محققین کمیاب ہوتے جارہے ہیں ۔جن کا ذہن اس جانب کام کرتا ہے تو وہ ایسے اذہان کے خوف سے کونے میں سمانے کو ہی بہتر تصور کرتے ہیں کہ کون جائے خواہ مخواہ ان سے الجھنے !اس کا نجام یہ ہے پوری ملت پر جمود کی سی کیفیت طاری ہے ۔مذکورہ کتاب ہمیں سوچنے اور غور فکر کی دعوت دیتی ہے۔مصنف نے لہجہ ذرا سخت اپنایا ہے ۔اس لئے کچھ لوگوں کو گراں بار ہے ۔ہر شخص کی سوچ و فکر یکساں نہیں ہوتی ہے ۔ ہمیں یہ قبول ہے کہ مصنف نے سخت لہجہ کے بجائے حکیمانہ طرز اپنایا ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا ۔لیکن جس طرح ڈاکٹروں کی دو قسمیں ہوتی ہیں ۔ایک صرف مرض کی تشخیص کرکے دوا دے دیتا ہے جبکہ دوسرا ناقابل علاج مرض کیلئے عمل جراحی سے کام لیتا ہے ۔مصنفین اور محققین و ناصح بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ایک صرف نصیحت کرکے خامیوں کی نشاندہی کرکے خاموش ہوجاتا ہے جبکہ دوسرا ذرا سختی کے ساتھ ان خامیوں اور اس کے برے اثرات کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ 160 صفحات پر مشتمل 150/= روپئے میں دستیاب یہ ایک بہترین کتاب ہے ۔اردو زبان کے ساتھ خود اردو والے جو سلوک کرتے ہیں وہ اس کتاب کے ساتھ بھی ہے، املا اور ٹائپنگ کی غلطیاں بہت ہیں ۔جگہ بجگہ اردو کے بجائے مصنف کا کوکنی لہجہ غالب آجاتا ہے ۔مزید جانکاری یا کتاب کی دستیابی کے لئے مصنف سے ان کے موبائل نمبر 7507480947 پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔مصنفین ،محققین اور اہل علم کی قدر کیجئے یہ کسی بھی قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہوتے ہیں ۔ان کی غلطیوں کی جانب متوجہ ضرور کیجئے لیکن ان کی عزت و تکریم میں محض معمولی اختلاف کی بنیاد پر کمی مت کیجئے ۔

0 comments:

فتنہ مادیت اور مسلمان



عمر فراہی ۔ ای میل : umarfarrahi@gmail.com

انسان کا جب خالق سے رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے تو انسانی رشتے نہ صرف ذاتی مفاد تک ہی محدود ہو جاتے ہیں بلکہ ان رشتوں سے اخلاص اور رحم کے جذبات کے ساتھ زندگی کا اصل رومانس بھی ختم  ہو جاتا ہے اور پھر ایسے معاشرے کو فتنے اور فساد سے کوئی نہیں روک سکتا - اٹھارہویں صدی کے کارپوریٹ کلچر اور مادی انقلاب کے بعد خدا بیزار دجالی تہذیب کے نتائج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح  ہمارا پورا معاشرہ اس فتنے اور لعنت سے تباہ ہو رہا ہے اور کس طرح پچھلےسو سالوں کے درمیان ہونے والی جنگوں اور فسادات میں کروڑوں انسان آپسی خلش ، نفرت اور نسلی عصبیت کا شکار ہوکر ہلاک ہوگئے - یہ صورتحال بدستور آج 2017 میں بھی قائم ہے - شام کے شہر حلب میں ایران شام اور ان کی دجالی ملیشیاؤں نے دنیا کے ایک بڑے دجال  روس کے ساتھ مل کر  پانچ لاکھ کے قریب شامی مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا - بظاہر امن اور جمہوریت کے نام پر کھیلے گئے اس کھیل کا مقصد بھی صرف ایک کھیل اور چند شیطانی طاقتوں کی ذہنی تفریح اور تسکین کی سوا اور کچھ نہی ہے اور یہ اپنے اسی شیطانی نظریے کی بالادستی چاہتے ہیں - دنیا کے اس پورے منظرنامے میں نبوی تحریک  کی نمائندگی کرنے والے چہروں کی حالت یا تو تماشائی کی رہی یا کچھ لوگوں نے اس نظریے کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے اصحاب کہف کی طرح پہاڑوں اور صحراؤں کا رخ کر لیا ہے اور جو طاغوتی حکومتوں کے درمیان رہ کر حق بات کہنے کی جرات کرسکے مسلسل شعب ابی طالب اور سنت یوسفی کے حالات سے گذر رہے ہیں - وہ لوگ جو کفر اور شرک کے ان کشمکش حالات میں بھی اپنی پرامن جدوجہد سے مایوس نہیں ہیں پوچھتے ہیں کہ ان مشکل اور پر آشوب حالات میں امتہ مسلمہ کا کردار کیا ہونا چاہیے تاکہ دنیا سے فساد کا خاتمہ ہو سکے - اگر اس موضوع پر بحث کی جائے یا اس کا کوئی حل پیش بھی ہو سکتا ہے تو اس کا جواب ایک اور مکمل انقلاب کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے - مگر مشکل یہ بھی  ہے کہ عیسوی اور ہجری صدی کے بعد دنیا کے ہر انقلاب کی تاریخ آگ اور خون سے لکھی گئی ہے اور شاید مستقبل کی پرامن دنیا کے انقلاب کا رنگ بھی ایسا ہی ہو - مستقبل میں اس انقلاب کیلئے حالات  کیا رخ اختیار کرتے ہیں اس کی پیشن گوئی کرنا تو مشکل ہے لیکن کسی شاعر کے بقول یہ بات یقینی طورپر کہی جاسکتی ہے کہ
پھر وہی قافلہ شوق وہی نہر فرات
کربلا پھر سے وہی تشنہ لبی مانگے ہے
لیکن چونکہ دنیا کے ہر خطے کے  مسلمانوں کے اپنے مسائل اور وسائل دونوں مختلف ہیں اس لئے آج کے پرفتن حالات میں  نبوی تحریک کے علمبرداروں کیلئے قرآن کی سورہ کہف کی آیات میں  بہترین رہنمائی ہے -  مثال کے طور پر اہل ایمان اگر کسی خطے میں یاجوج ماجوج جیسے فتنے یا کسی ظالم قوم کے نرغے میں ہیں تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہی کہ کسی ذولقرنین کیلئے دعا کریں اور اس کی مدد کریں - اسی طرح اللہ چاہتا تو کسی ذوالقرنین سے اصحاب کہف کی بھی مدد کروا سکتاتھا مگر اللہ نے  انہیں وقت کے ایک ظالم حکمراں سے پناہ حاصل کرنے کی تدبیر  اختیار کرنے کی حکمت میں قیامت تک کے مسلمانوں کیلئے رہنمائی کی مثال قائم کردی - سورہ کہف کی  انہیں آیات میں  حضرت موسیٰ اور  حضرت خضر کی ملاقات کا واقعہ بیان کرکے اللہ تعالی دنیا کے تمام مومنین کو پیغام دیتا ہے کہ بغیر کسی تحقیق اور  علم کے مومن کسی مومن سے سر زد ہونے والی قابل اعتراض حرکتوں پر بھی اعتراض نہ اٹھائے - جیسا کہ دنیا کے موجودہ حالات میں کچھ  نادان دانشور اورعلماء دین بھی دجالی میڈیا کے پروپگنڈے کا شکار ہو کر مومنوں پر لعنت ملامت کے مرتکب ہو رہے ہیں - بہرحال نبوی تحریک کی تاریخ میں اکثر انبیاء کرام کو مختلف ادوار میں مختلف قسم کے مشکل مراحل سے گذرنا پڑا اور اکثر کو اپنی بستیوں سے ہجرت بھی کرنی پڑی  لیکن اس کے باوجود اللہ کے ان نیک بندوں نے دولت جائداد اور اپنےکاروبار کی ترقی کیلئے اپنے اخلاق اپنے کردار اور صلہ رحمی کے اوصاف کو ترک نہیں کیا -شاید یہی وہ کرداراور اخلاق کی دولت تھی جس کی وجہ سے انہیں مشرکین کی جماعت سے بھی  حمایت ملتی رہی ہے اور تمام مخالفتوں کے باوجود جب وہ کامیاب ہوئے تو ان کی اس تحریک کی بدولت زمین پر برسہا برس تک امن اور خوشحالی کا ماحول رہا - لیکن اس عمل کیلئے اہل ایمان کو خود  اپنے رسول محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی شروعات کا جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے  کہ آخر وہ کیا عمل تھا کہ جس نے وقت کے رسول کو جس پر کہ ابھی وحی کے نزول کا سلسلہ بھی نہیں شروع ہوا تھا  مقبول و معروف  بنا دیا تھا - کیا کسی بھی تحریک اور اس کے نمائندوں کی اخلاقی شناخت محض اسٹیج شو یا زبان وبیان کی بلاغت سے کی جاسکتی ہے یا کسی بھی تحریک اور قوم کے قائد پر محض اس کی تعلیمی لیاقت اورسیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے ؟ رسول عربی ﷺ کے دور میں ابو جہل ، ابو لہب ، ابو سفیان ، ولید بن مغیرہ اور خود ابو طالب اور عمر بن خطاب جیسے بے شمار سرداران عرب تھے  جو اپنی قابلیت اور لیاقت کی بنیاد پرعربوں کی قیادت کے اہل تو تھے لیکن کیا وہ عربوں کو ایک عالم گیر تحریک کیلئے متحد کرسکے - ایک عالم گیر تحریک کیلئے عربوں کو آمادہ کرنا تو دور کی بات ان میں سے کسی ایک سردار میں یہ صلاحیت تک نہیں تھی کہ وہ مکہ کے تمام قبیلوں کو کسی سیاسی نظام کے ماتحت ایک پرچم کے نیچے متحد کرسکے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم  میں ایسی کیا بات تھی کہ جب انہوں نے مشرکین مکہ کو صفا مروہ کی پہاڑی کے نیچے جمع ہونے کی دعوت دی تو بیک وقت مکہ کے تمام سرداران نے ان کی آواز پر لبیک کہا - کیا آپ پر پورا قرآن نازل ہوچکا تھا ، کیا آپ کو اللہ کے مستقبل کے منصوبے کا علم تھا ، کیا آپ کو معراج کی سیر کرادی گئی تھی ؟ شاید یہ وحی اور خواب کے نزول کا ابتدائی دور تھا جس کی اطلاع آپ نے ابھی اپنی شریک حیات حضرت خدیجہ کو دی اور آپ خود اتنے گھبرائے ہوئے تھے کہ حضرت خدیجہ کو اپنے چچا ورقہ بن نوفل سے مشورہ لینا پڑا - خود حضرت خدیجہ جنھوں نے آپ کے اخلاق اور کردار کی بنا پر آپ سے نکاح کیا تھا آپ کو تسلی دیتی ہیں کہ آپ گھبرائیں نہیں آپ کے آپ کی قوم پر اتنے احسانات ہیں کہ وہ  آپ پر کبھی کوئی تکلیف نہیں آنے دیگی - سوال یہ ہے کہ آپ کے آپ کی قوم پر وہ  کیا احسانات تھے کہ آپ مکہ کے لوگوں کیلئے محسن اور ہردلعزیز بن چکے تھے اور کہیں نہ کہیں انہیں آپ سے یہ امید تھی کہ  یہ نوجوان مستقبل میں عربوں کی کامیاب رہنمائی کریگا - یہ بات اکثر آپ کے دادا عبد المطلب بھی کہا کرتے تھےکہ میں اپنے اس بیٹے میں عربوں کی سرداری کی جھلک دیکھ رہا ہوں - بعد میں لوگوں نے دیکھا بھی کہ  آپ نے بچپن سے جوانی کی عمر تک جبکہ ابھی آپ نبوت سے سرفرازبھی نہی ہوئے تھےاپنی زندگی کو لوگوں کیلئے وقف کردیا اور پورے عرب میں  لوگ آپ کو امین کہہ کر پکارتے تھے - ایسا اس لئے تھا  کہ جہاں مشرکین مکہ اپنی ضرورتوں کی تکمیل اورتحصیل کیلئے آمادہ  جنگ تھے  آپ لوگوں کی ضرورت اور مسائل کا حل پیش کرکے ان  کی ضرورت اور پہچان بن چکے تھے - ہندوستان کی  موجودہ صورتحال مسلمانوں سے اسی کردار کی متقاضی ہے کہ کیا اس ملک میں مسلمانوں کی یا مسلمانوں کی کسی تنظیم اور اس کے قائد کی اپنی پہچان بھی یہی ہے - اگر نہیں تو پھر مسلم تنظیموں اور ان کے قائدین کو اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ کیا انہوں نے اپنے معاشرے کی اصلاح کیلئے  نبوی تحریک سے کوئی سبق حاصل کیا - کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ وحی کے نزول سے پہلے ہی وقت کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بے چینی کیا تھی اور اس نے لوگوں کی عام مادہ پرستانہ سوچ اور ماحول سے باہر نکل کر غار حرا کا رخ کیوں کیا - یہ بات غور طلب ہے کہ زمانے کے ہر دور میں قوموں اور قبیلوں کی گمراہی کی وجہ ان کے لوگوں کی مادہ پرستی اور مفاد پرستانہ سوچ ہی تھی جس نے انہیں جارح ، بے رحم اور متکبر بنا دیا تھا -سورہ کہف کی آیات میں ایک شخص کی تباہی کی ایک وجہ اس کی یہی متکبرانہ اور مادہ پرستانہ سوچ بتائی گئی ہے - شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں یہود ونصاریٰ کے علماء نے احکام الٰہی کو مال و زر سے  بیچنا شروع کر دیا تھا مشرکین مکہ میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرناعام بات تھی - کل اور آج کے مشرکین میں اگر کچھ فرق آیا ہے تو بس اتنا کہ بچیوں کو قتل تو نہیں کیا جاتا لیکن انہیں  کارپوریٹ سیکٹر یا فحاشی کی صنعت کی طرف موڑ کر دولت اور شہرت کمانے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے - مسلمانوں کی اکثریت ممکن ہے ابھی پوری طرح اس دلدل میں نہ گری ہو لیکن جدید ترقی اور معاشی بدحالی کے خوف نے اسے اپنے نصب العین سے ضرور منحرف کر دیا ہے - نئی نسل تو اپنی ملی اور قومی بیداری سے بھی نابلد ہے - اس طرح مسلمانوں کی تحریکوں اور تنظیموں کی بھی  اپنی کوئی  شناخت نہیں رہی کہ جس کی وجہ سے انہیں امین یا امانت دار کے لقب سے پکارا جائے - آج کے حالات میں مسلمان کتنا بھی تعلیم یافتہ ہو جائے یا ترقی کرلے احیائے اسلام کی سیاسی تاریخ کو دوبارہ عروج اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جبکہ وہ اپنی مادہ پرستانہ سوچ سےاوپراٹھ کر لوگوں میں اپنے اخلاق ، فلاح وبہبود اور معاشرے کی اصلاح کے کاموں سے اپنی ایک اسلامی شناخت قائم کرے تاکہ ہماری یہی شناخت مستقبل کے مسلمانوں کیلئے سیاسی عروج کا سبب بن سکے - یہی اللہ سے ہمارا عہد بھی ہے اور اللہ نے بھی اس جماعت کے بارے میں گواہی دی ہے کہ کنتم خیر امتہ اخرجت الناس -یہی وہ جماعت تھی جو ایک معاشرے کی اصلاح اور مستقبل کےانقلاب کیلئے اپنا سب کچھ ترک کرکے مدینہ منتقل ہو گئی - ان کی سب سے بڑی قربانی یہ نہیں تھی کہ انہوں نے اپنے وطن سے ہجرت کی جبکہ حکومت ، اقتدار اور کاروبار کی ترقی کیلئے قوموں نے بارہا اپنے وطن کی قربانی دی ہے اور آج بھی لوگ روزی روزگار کیلئے امریکہ اور لندن میں منتقل ہو رہے ہیں مگر تاریخ میں  لکھی جانے والی بات یہ ہے کہ انہوں نے مکہ میں اپنی زمین جائداد گھر رشتے دار اور کاروبار کوترک کرکے اپنے نفس کی جو قربانی دی وہ دراصل اس وقت کی مادہ پرستانہ ذہنیت کے خلاف جنگ کا پہلااعلان تھا اور مدینے کی جدوجہد خالق کی ربوبیت اور اس کی حاکمیت کے اقرار اور اعلان کی عملی بنیاد تھی - بدقسمتی سےآج اسلام کی جو شبیہ بنا دی گئی ہے ہمارے بچے  اسلام ، دعوت و اصلاح اور انقلاب کا مفہوم بھی بھولتے جارہے ہیں - اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ مادی فتنے میں قید اہل ایمان کو بھی اتنی فرصت کہاں ہے کہ وہ ماہانہ اور ہفتہ واری چھٹی کے دنوں میں رسمی اجتماعات منعقد کرنے کے بعد کچھ غوروفکر کر سکیں یا وہ بے چینی نظر آئے جو کسی معاشرے اور سماج کی اصلاح کے لئے درکار ہوتی ہے - 

0 comments:

یہ ساحرانِ عہد، یہ الیکشن کے مداری!


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472

چاروں طرف بھانت بھانت کی بولیاں ہیں، کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ ہر ایک اپنا راگ الاپ رہا ہے۔ کنفیوژن ہے، جھوٹ ہے، دھوکہ ہے اور دنیا بھر کے کھوٹے سکے ہیں جو سچے سکوں کے دھوکے میں اپنے دام کھرے کرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے میں میرے پیارے دیس واسیو! اپنے قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ بہت احتیاط تم پر لازم ہے۔
میرے پیارے لوگو! شعبدے باز اپنی اپنی ڈفلیاں لیے اپنے اپنے راگ سناکر تمہیں اپنے ڈھب پر لانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی مسلمانوں کا نعرہ لگاکر پوری امت مسلمہ کی جمع پونجی لوٹ لینا چا ہتا ہے اور کوئی اپنا پورا زور لگاکر اپنے حلق کا پھنسا کانٹا  نکالنے میں لگا ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بعض تو مسلمانوں کا اجتماعی شیرازہ بکھیرنے میں اپنی پوری قوت صرف کیے ہوئے ہیں اور کو ئی ملک کے جمہوری آئین سیکولر کردار چھین لینے کے درپے ہے۔ ملک کی سب سے قیمتی شے گنگا جمنی تہذیب پر شب خون مارنے میں بھی بہت سے آگے آگے ہیں، کوئی کہانی سنانے کا ماہر ٹھگ ہے اور ایسا سماں باندھتا ہے کہ اچھے بھلے سمجھ دار انسان کو اس کے جھوٹ پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ کوئی اپنے چہرے کی ’نورانیت‘ فروخت کر رہا ہے اور کوئی اپنے جبہ و دستار کی قیمت لگاکر تمہیں اپنا بنالینے کی کوشش میں ہے۔ مگر اصل میں سب اپنی اپنی ڈگڈگی بجا بجاکر مریدوں کی تلاش میں ہیں کہ بھولے بھالے انسانوں کے نفس کو اپنے اندھے مقلد پیرو کاروں سے زیادہ کوئی چیز لذت دہن نہیں ہوتی۔ میرے پیارے بھائی بہنو! اپنے کان دل و دماغ کھلے رکھنا۔ بدلائو کے نام پر کہیں دھوکا نہ کھا جانا۔ یہ بدلائو کیا ہے جس کا بار بار ذکر ہو رہا ہے اسے اپنے کانوں، ذہنوں اور آنکھوں سے خوب دیکھ سمجھ اور پرکھ لینا۔
میرے پیارو! نفس تو شیطان کا بھی استاد تھا۔ یہ نفس ہی تھا جس نے عزازیل کو اس کے علم و عباد ت کے باوجود ایسا دھوکہ دیا کہ اسے محبوب سے مبغوض ترین بنا ڈالا۔ الیکشن کا دور دورہ ہے۔ آج پھر چاروں جانب نفس کے ڈسے ہوئے انسان نما بھیڑیوں کے غول کے غول پھر رہے ہیں۔ کسی نے اپنے قلم کو کمان بناکر تمہیں ڈسنے یا شکار کرنے کی ٹھانی ہے تو کوئی ٹی وی پر اپنے زور بیان کے ساتھ براجمان ہوکر تمہیں چکنی چوپڑی باتوں سے گمراہ کرنے کے لیے درپے ہے۔ کوئی ہمدرد کے لبادے میں، کوئی رہنما کے ’گیٹ اپ‘ میں، کوئی ’علم‘ کے نام پر محض ’معلومات‘ بیچ کر تمہارے اخلاص کا خریدار ہے تو کوئی تمہیں بہتر مستقبل فراہم کرنے کے نام پر دھوکہ دے رہا ہے۔ میرے پیارے لوگو! یہ موقع ہے ہر پل جاگتے رہنے کا۔ ذرا سی پلک جھپکی، تمہارا سب کچھ لٹ جائے گا۔ ہمیشہ اپنی نظر اپنے شعبدہ باز ہمدردوں کے اصل اور پس پردہ ان کے مقاصد کی تلاش پر جمائے رکھنا۔
 میری پیاری مائوں بہنو! آج ہم جس دور سے گزر رہے اور جن حالات سے دوچار ہیں یہ سب قرب قیامت کی نشانیوں میں ہے۔ میری دینی بہنو! قرب قیامت کا دور دجال کا دور ہے جسے آپ کے اور میرے نبی محترمؐ نے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ قرار دیا تھا۔ دجال اور دجل دراصل دھوکے اور فریب ہی کے عربی نام ہیں۔ ساحران فرعون کی طرح عہد حاضر کے ’ساحران دجال‘ بھی ا تنی مختلف، منفرد اور لاجواب چالوں کے ساتھ آپ کے سامنے آرہے ہیں کہ اس عہد کے موسیٰؑ کو بھی کنفیوژ ہی کرڈالیں۔ ذرا ا پنے ارد گرد نظر دوڑائیں، ہزاروں رسیاں اور لاٹھیاں سانپ اور ازدہے بن کر موسیٰؑ کے معجزے کو محض جادو ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش میں ہیں۔ ایسے میں میری بہت محترم بہنو! ذرا دیکھ بھال کر اپنی رائے یا حق رائے دہی کا استعمال کرنے سے پہلے ٹھنڈے دماغ کے ساتھ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہے۔
میرے دینی بھائیو اور نوجوانو! تمہیں مداریوں کی ڈگڈگی کی مسحور کن آواز میں خود کو کھو نہیں دینا ہے، تمہیں تو ملت کا بیش قیمت اثاثہ ہو، ا گر تم کھوگئے تو گویا پوری ملت کھوگئی۔ یاد رکھو! تم قافلہ اصحاب بدر کا تسلسل ہو جسے اس خطرناک عہد میں دین کی اس عظیم امانت کو بحفاظت اگلی نسلوں تک پہنچانا ہے۔ تم عمر فاروقؓ اور عمر بن عبدالعزیزؒ کے وارث ہو۔ تم نے شاہ ولی اللہؒ، امام غزالیؒ، ابن تیمیہؒ اور مجدد الف ثانی ؒ سے رہنمائی حاصل کی ہے۔ تم نے ملت کی نابغۂ عصر شخصیات کی بصیرت سے اپنے دل و دماغ کو منور کیا ہے۔ تم اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں پہاڑوں کے چراغ ہو۔ تم تاریکیوں کی شکار انسانیت کے لیے روشنی کے پیامبر ہو، یہ سب مارگزیدہ ہیں او رتمہارے پاس تریاق ہے، دیکھنا بہک نہ جانا۔
انسانیت اندھوں کی قیادت میں خطرناک پہاڑی راستوں پر چل رہی ہے اور صرف تمہارے پاس ہی بینائی ہے۔ یہ اندھیروں کے شکار ہیں اور تمہارے ہاتھوں میں چراغ ہے۔ ایسے میں اگر تم راستہ کھوبیٹھے۔۔۔ تم کسی شعبدہ باز، کسی بہروپئے، کسی ٹھگ کا شکار ہو گئے تو یاد رکھنا، ملت کے مستقبل کی نسلیں تمہیں معاف نہیں کریں گی۔ ان دھوکے بازوں سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔۔۔ صرف ایک ہی راستہ۔۔۔ خدا کی قسم بس ایک ہی طریقہ۔۔۔ قرآن و حدیث و دینی لٹریچروں سے اپنا بھرپور اور قریبی تعلق استوار کرلو۔ اپنی اجتماعیت کی تمام تر تلخیوں کے باوجود جہاں جتنا اور جیسے بھی ممکن ہو اپنی بات آگے پہنچاتے رہو۔ یعنی قرآن، اخوت اور دعو ت کا وہ راستہ اختیار کرلو جو سورہ کہف میں کہفی زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے درج فرمایا ہے اور کسی نئی آواز، نئی بات، نئے رہنما، نئی دعوت، نئی فکر، نئی شخصیت، نئی روشنی، نئے لٹریچر کو اس وقت تک قبول نہ کرو جب تک اسے اچھی طرح پرکھ نہ لو، اس کے ماضی اور مستقبل کے عزائم کو، اس کے دعوئوں کو اور اس کے کردار کی روشنی میں جانچ نہ لو، چھان پھٹک نہ لو، اللہ او راس کے دین رسولؐ اور ان کی اُمت کے ساتھ اس کی وفاداری کو پرکھ نہ لو، تب تک اس کی محض باتوں، دعوئوں اور ساحری سے اس کے بارے میں نہ خود کوئی رائے قائم کرو اور نہ ہی کسی رائے کو آگے بڑھائو، خود سمجھ نہ پائو تو اپنے صاحب الرائے اور صائب الرائے لوگوں سے پوچھ لو اور ان پر بھروسہ کرو، دامِ ہم رنگ زمیں سے بچنے کا یہی نسخہ ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے:

دے رہے ہیں جو لوگ تمہیں رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھوگے تو دہل جائو گے
تم ہو اک زندہ جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جائو گے

بیشک اگر مسلمان سچ مچ مسلمان ہوجائے تو وہ ڈھال تو ہوسکتا ہے مگر ڈھل نہیں سکتا۔ آج پورا عالم اسلام، اسلام دشمنوں کے نرغے میں ہے۔ طرح طرح کے بہتان اور تہمتوں کا طوفان برپا ہے اور پوری قوم تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہ صورتِ حال گزشتہ دہائیوں سے بنی ہوئی ہے اس میں کسی خاص ملک کی تخصیص بھی نہیں رہی، ہمارا ملک بھی اس سے بری نہیں۔ جب سے اس ملک میں فرقہ واریت نے جگہ بنائی ہے مسلمانوں کا عزت کے ساتھ جینا بھی دوبھر ہوگیا ہے۔ وہ ملک جو دنیا کا دوسرا بڑا جمہوری ملک کہلاتا ہے، آئین و قانون جمہوری قدروں پر محیط ہے لیکن یہ سب کچھ کاغذوں اور قانونی مسئلوں میں ہی پایا جاسکتا ہے۔ ملک کے ہر شہری کو عملاً برابر کے حقوق حاصل نہیں۔ ہمارے ملک کے انتخابات بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ ہر انتخاب ذات پات، علاقائیت، زبان و مذہب کی بنیادوں پر ہی لڑا جاتا رہا۔ ملک کی سب سے بڑی سیکولر پارٹی کانگریس کی پوری انتخابی تاریخ گواہ ہے کہ اس کا کوئی بھی الیکشن فرقہ واریت سے پاک رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں مذہب کے نام پر برادری اور علاقائیت کے نام پر درجنوں سیاسی تنظیمیں سرگرم عمل بھی ہیں اور انتخابات میں انہیں بنیادوں پر حصہ بھی لیتی ہیں۔ سپریم کورٹ کو تو چاہیے تھا کہ مذہب کی بنیاد پر الیکشن لڑنے پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ ان تمام سیاسی جماعتوں کے نام و نشان تک ختم کردینے کا حکم دیتی جن کے نام اور کام فرقہ واریت پر مبنی ہیں۔ اسی طرح الیکشن پر خرچ ہونے والی مد کی حد مقرر کردینی چاہیے۔ ایسی صورت میں ہی صاف ستھرے انتخابات بھی ہوسکتے ہیں اور جمہوریت ا ور جمہوری قوانین کی روح بھی بحال رہ سکتی ہے۔ اور ساتھ ہی مسلمانوں پر لگنے والے الزامات کی حقیقت بھی سب کے سامنے آجائے گی۔
بہرحال میرے بھائیو بہنو! الیکشن الیکشن کا کھیل جاری ہے۔ ہر مداری، ہر جادوگر اور ہر شعبدے باز اپنے اپنے کرتب دکھا رہے ہیں اور ہر ایک کا دل جیت لینے میں ایک دوسرے کو مات دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ہار جیت میں ہمارا سیکولر آئین جیتتا ہے یا فرقہ پرستوں کا وہ طائفہ جسے عام زبان میں فاشسٹ کہتے ہیں۔
٭٭٭

0 comments:

مسلمانوں کا سیاسی شعور --- بالغ کب ہوگا؟


محی الدین غازی

ہندوستانی شہری کی حیثیت سے ہندوستانی مسلمانوں نے انتخابی عمل میں شرکت کا سب سے پہلا تجربہ 1920 میں کیا، اور اس کے بعد سے مسلمان انتخابی سیاست کے تجربات سے مسلسل گذررہے ہیں۔ایک صدی مکمل ہونے کو ہے لیکن اب تک یہی محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان سیاسی شعور کے معاملہ میں اپنے ہم وطنوں سے کافی پیچھے ہیں، اور اب تک ان کا سیاسی شعور بالغ نہیں ہوسکا ہے۔ اسباب کئی ہوسکتے ہیں، ان اسباب پر ذرا کھل کر گفتگو ہو بس یہی اس مضمون کا مقصد ہے۔میرے خیال میں سیاسی بلوغ اور پختگی کی دو اہم علامتیں ہیں، پہلی یہ کہ سیاسی میدان میں کچھ خاص لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہوسکے ، بلکہ نئے ہمت ور کھلاڑیوں کو اپنے جوہر دکھانے کا پورا موقعہ حاصل ہو۔ دوسری یہ کہ اگر معاشرہ کے کچھ لوگ اقدار پر مبنی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، تو ان کو ان اقدار کی پاس داری کا پورا پورا موقعہ حاصل ہو، اور کوئی مصلحت ان کے پاؤں کی زنجیر اور راستے کی رکاوٹ نہ بن جائے۔مسلمانوں کی سیاسی پسماندگی اور ناپختگی کا ایک مظہر یہ ہے کہ ان کے درمیان نئی سیاسی قوتوں کو ابھرنے کا موقعہ نہیں ملتا ہے، دوسرا مظہر یہ  ہے کہ اقدار پر مبنی سیاست کے لئے ساز گار ماحول حاصل نہیں ہے۔ بظاہر ہر فرد اقدار واخلاق کا حامی نظر آتا ہے، لیکن جب انتخابات کا نقارہ بجتا ہے تو ساری اقدار پسندی دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور دو بیمار رجحان ذہن ودماغ پر سوار ہوجاتے ہیں۔ ایک یہ بیمار رجحان کہ ووٹوں کو بٹوارے سے بچانے کے لئے کسی ایک بظاہر مضبوط امیدوار کی طرف سب جھک جائیں، دوسرا یہ بیمار رجحان کہ فسطائیت کے مقابلے میں مضبوط تر امیدوار کی غیر مشروط حمایت اور تائید کردی جائے۔ووٹوں کے تقسیم ہوجانے کا خوف مسلمانوں کے دل ودماغ میں اس طرح بیٹھا ہوا ہے کہ انہیں اپنی صواب دید کے مطابق کوئی فیصلہ نہیں کرنے دیتا۔ سیاسی بازیگر اس خوف کا خوب کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ سیاسی رہنمائی کرنے والے دانش ور بھی اس خوف سے باہر نکل کر نہیں سوچ پاتے۔بے سروپا حوالے دے کر کچھ امیدواروں کو بیٹھ جانے کی صلاح دی جاتی ہے، تو کچھ کو بے وزن کردیا جاتا ہے، کہ اس بار سروں پر منڈلاتے خطرے کو روکو اگلی بار آپ کو بھی موقعہ دیں گے، وہ اگلی بار کبھی نہیں آتا، اور خطرہ ہر بار حاضر ہوجاتا ہے۔مثال کے طور پر حیدرآباد میں مجلس کے کارکن دوسرے مقابل امیدواروں یا پارٹیوں کے خلاف ماحول بنانے کے لئے پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ان نئے امیدواروں کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہوسکتے ہیں ، اور اگر ووٹ آپس میں تقسیم ہوگئے تو کوئی دوسرا نکل جائے گا، اور جب یہی پارٹی مہاراشٹر پہونچتی ہے تو وہاں کی سیکولر پارٹیاں اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرتی ہیں کہ مجلس یہاں مسلمانوں کے ووٹ بانٹنے کی نیت سے آئی ہے۔
دراصل ہر ہندوستانی شہری کو الیکشن میں کھڑے ہونے کا حق حاصل ہے، اور ہر شہری کو اپنے من پسند امیدوار کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے، البتہ کسی کو اخلاقا بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی امیدوار کو یا ووٹر کو یہ الزام دے کہ اس کی وجہ سے اس کے من پسند امیدوار کے ووٹ تقسیم ہوئے اور وہ جیت نہیں سکا۔ اس طرح کی غیر جمہوری الزام بازی سیاسی بچکانہ پن کا پتہ دیتی ہے۔ووٹوں کے بٹوارے کو زیادہ اہمیت دینے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان نئی سیاسی قوت اور قیادت کو نشوونما کے لئے سازگار ماحول نہیں مل پاتا ہے، ایمان داری اور فلاح وبہبود کا جذبہ اور نعرہ لے کر کچھ ہمت ور اٹھتے ہیں، لوگ ان کے قدر دان بھی ہوجاتے ہیں، لیکن پھر خوف اور اندیشے کی ایک لہر چلتی ہے اور یوں سارے ووٹ گھاگ بازیگروں کی جھولی میں اس طرح جاگرتے ہیں کہ گویا لاکھوں عوام میں چند سو بھی اصول پسند اور قدروں کے پاس دار نہیں تھے۔فسطائیت کے غلبے اور ووٹوں کے بٹوارے کا حوالہ دے کر ہر انتخاب کے موقعہ پر نئے کھلاڑیوں کی بری طرح ہمت شکنی کردی جاتی ہے، اور پرانے کھلاڑیوں کو ان کی خراب پرفارمینس کے باوجود اپنے اوپر مسلط رہنے دیا جاتا ہے۔ بہت ساری دینی جماعتیں اور دانش ورانہ تنظیمیں بھی سیاسی رہنمائی کے نام پر اس بچکانہ کھیل میں شریک ہوجاتی ہیں، ہوسکتا ہے اس سے چھوٹی مدت کے فائدے کچھ حاصل ہوجاتے ہوں لیکن طویل مدت کے فائدوں سے عوام کلی طور سے محروم رہتے ہیں۔اور اس طرح سیاسی بلوغ اور پختگی کی عمر ایک صدی گزرنے پر بھی نہیں آتی ہے۔
دراصل سیاسی پختگی کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس کو ووٹ دے جو اس کی نظر میں سب سے بہتر ہو، نہ کہ اسے جو ہو تو اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ مگر جیتنے کی پوزیشن میں بتایا جاتا ہو۔ حالانکہ وہ جیتنے کی پوزیشن میں صرف  اس لئے دکھائی پڑتا ہے کہ ہر شخص فیصلہ اس کی شخصیت کے بجائے اس کی پوزیشن کو دیکھ کر کررہا ہوتا ہے، وہ بھی لوگوں کی کمزوری جانتا ہے اس لئے اپنی شخصیت سے بے پرواہ ہوکر اپنی پوزیشن کو بڑا دکھا نے کے لئے الٹے سیدھے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔پھر اس میں کیا حرج ہے کہ جیت تو ایک بد کردار آدمی کی ہو، لیکن ایک دیانت دار آدمی کو ہارنے کے باوجود ان سب لوگوں کے ووٹ ملیں جو دیانت داری کے قدر دان ہیں، کہ یہ بات ریکارڈ میں تو رہے کہ عوام کے درمیان دیانت داری کے قدردان بہر حال پائے جاتے ہیں، سارے کے سارے چڑھتے سورج کے پجاری نہیں ہیں۔
اگر بٹوارے کے اس بیمار تصور سے بالاتر ہوکر نئے افراد کو اپنے سیاسی جوہر دکھانے کا پورا موقعہ دیا جائے، تو ممکن ہے دو چار انتخابات کے نتائج عوام کی چاہ کے بالکل خلاف آجائیں، ہوسکتا ہے دوچار مرتبہ  ایسے لوگ جیت جائیں جن سے دشمنی اور خطرہ ہو، لیکن عوام کی مخلصانہ اور بے لوث ہمت افزائی سیاسی کھلاڑیوں کی ایک زبردست کھیپ ضرور تیار کردے گی، جس کے بہت سارے افراد آگے چل کر عوام کے سچے قائد اور ان کے مفادات کے مضبوط محافظ بن سکیں گے، یہ فائدہ بہت بڑا ہوگا ان وقتی نقصانات کے مقابلے میں جو اس راستے میں اٹھانا پڑ سکتے ہیں۔ظاہر ہے جب انتخابات کا ہنگامہ برپا ہو، یہ سبق عام کرنا بہت مشکل ہے، لیکن دو انتخابوں کے درمیانی وقفے میں جو کافی طویل ہوتا ہے، پوری قوت کے ساتھ اس پیغام کو عام کرنا اچھی ماحول سازی اور مثبت مزاج سازی کے لئے ضرور مفید ہوگا۔نئی پارٹیوں اور تازہ ہمت وروں کو اس کی اہمیت ضرور سمجھنا چاہئے، مبادا ان کے جذبے اور سپنے مسلمانوں کے ناپختہ ونابالغ شعور کی نذر ہوجائیں۔

0 comments: